منگل، 14 مئی، 2013

کماؤں کے آدم خور
جم کوربٹ
مترجم: محمد منصور قیصرانی

پیش لفظ

ہفتہ، 13 اپریل، 2013

آنائی کے آدم خور وحشی
مقبول جہانگیر


مصباح الایمان کے نام
اِک دوست مل گیا ہے وفا آشنا مجھے

ہفتہ، 6 اپریل، 2013

تنزانیہ کے جنگلوں میں ۵ دن
صبا شفیق
ڈیانا کیا تم اس جنگلی بھینسے کو دیکھ رہی ہو۔۔۔؟ پیٹر نے آنکھوں سے دوربین ہٹائے بغیر مجھ سے پوچھا: ’’بالکل۔۔۔ وہ سب سے منفرد بڑا نظر آتا ہے۔‘‘
میں گھاس کے آخری سرے پر کھڑے اس بھینسے کو دیکھتے ہوئے بولی: ’’میں نے اتنا شاندار جنگلی بھینسا آج تک نہیں دیکھا تھا۔‘‘ اس کے

بدھ، 3 اپریل، 2013

شکار کے دیوانے
کنور مہندر سنگھ بیدی سحر
یوں تو ہمارا سارا خاندان ہی شکار کا شیدائی تھا لیکن والد صاحب تو حقیقت میں شکار کے دیوانے تھے۔ وہ ہر سال جاڑے کے موسم میں ہفتے عشرے کے لیے شکار کی مہم پر جایا کرتے تھے۔ اس مہم میں ہمارے خاندان کے سبھی لوگ شرکت کرتے۔ کُل نفری ڈیڑھ دو سو آدمیوں پر مشتمل ہوتی۔ ہاتھی، گھوڑے، اونٹ اور بہلیاں ساتھ ہوتیں، ہم لوگ صبح ناشہ کرتے ہی شکار پر نکل جاتے۔ دوپہر کا کھانا پک کر باہر جنگل میں

ایک درندہ ایک انسان
کینتھ اینڈرسن
یہ داستان جو مجھے نیل گری کے ایک گاؤں میں مقیم اپنے دوست سنجیو نے سنائی اس قدر حیرت انگیز ہے کہ آپ اس پر یقین نہیں کریں گے، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ بعض حقائق اپنے اندر افسانے کی سی رعنائی رکھتے ہیں۔ میں اُن دنوں ہندوستان میں تھا اور جس گاؤں کا ذکر کرنے لگا ہوں، اس کے قریب ہی مقیم تھا۔ نیل گری کی پہاڑیوں کے دامن میں یہ گاؤں آباد ہے۔ اس کے

چینا گڑھ کا آدم خور شیر
نواب قطب یار جنگ
چینا گڑھ کا مشہور آدم خور شیر کسی مرے ہوئے سنار کی بدروح سمجھا جاتا تھا۔ اس موذی نے ایک سال میں ۷۸آدمی ہڑپ کیے۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس کے پیر میں چاندی کا کڑا ہے۔ ایک شکاری صاحب نے بتایا کہ اس کا رنگ سفید ہے۔ آدم خور کی تلاش اور ہلاکت میں کئی ماہ نکل گئے اور میں اس مسلسل دوڑ دھوپ سے سخت ہلکان ہوا۔ ناظم صاحب ڈاک خانہ، معتمد

ہندوستانی ریاستوں میں سیر و شکار
نواب حافظ سرمحمد احمد خاں
متحدہ ہندوستان کے وائسرائے لارڈریڈنگ ۱۹۲۶ء میں اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار کے اختتام پر انگلستان واپس جانے لگے تو انہوں نے اپنی الوداعی پارٹی میں تقریر کرتے ہوئے کہا، " میں ہندوستان میں دو چیزیں ایسی چھوڑے جارہا ہوں جو مجھے انگلستان میں تازندگی نصیب نہ ہوں گی، ان میں سے پہلی چیز وائسرائے کی سفید رنگ کی خوبصورت اسپیشل ریلوے ٹرین ہے جس میں

شیرنی کے بچے
عبدالمجید قریشی
میں جب اُس گاؤں کے قریب سے گزرنے لگا تو اُس کے باشندوں نے یہ معلوم کرکے کہ میں شکاری ہوں، رو رو کر مجھ سے فریاد کی کہ میں سب سے پہلے اُن کو شیروں کے ایک جوڑے سے نجات دلاؤں۔ انہوں نے بتایا کہ شیروں کا یہ جوڑا کوئی پانچ چھ مہینے پہلے نزدیکی جنگل میں دیکھنے میں آیا تھا۔ شیر اور شیرنی بڑے پُرامن طریقے سے رہ رہے تھے اور اُنہیں اُن سے

خونخوار درندوں سے دو دو ہاتھ
الحاج خان بہادر حکیم الدین
حصولِ رزق کے سلسلے میں انسان جہاں کسی سرکاری یا غیرسرکاری ملازمت کا راستہ اختیار کرتا ہے وہاں یہ لازم نہیں کہ وہ ملازمت اس کے طبعی رجحانات سے بھی کوئی مناسبت یا مطابقت رکھتی ہو، ورنہ گلے میں پڑا ہوا یہ ڈھول بہرحال تمام عمر بجانا پڑتا ہے۔ تاہم انڈین فارسٹ سروس کے گُلِ سرسبد، برصغیر پاک و ہند کے ممتاز مسلمان شکاری اور میرے

اتوار، 31 مارچ، 2013

صبح کی سیر
کینتھ اینڈرسن
"صاحب، صاحب اُٹھ جائیے۔ چار بج چکے ہیں" ہماری آنکھ پجاری کی مدھم سرگوشیوں سے کھُلی جو وہ باری باری میرے اور آپکے کانوں میں کر رہا ہے ۔ سرگوشیاں اس لئے کہ ہم میں سے کسی کو بھی اس کا چھونا انتہائی گستاخی سمجھی جائے گی۔ اس میں ایسا اچنبھا بھی کیا؟ کیا پجاری قرن ہا قرن سے اچھوت نہیں سمجھے جاتے؟ اور ان کا کسی عام آدمی کے قریب ہونا ہی انتہائی کراہیت کا سبب گردانا جاتا ہے چہ جائیکہ ان کا

ابتدائیہ
کینتھ اینڈرسن
درخت کے تنے سے ٹیک لگائے ایک آدمی بیٹھا ہے۔ سامنے جلتی ہوئی لکڑیوں کی آگ کبھی بھڑک کر اردگرد کے ماحول کو روشن کرتے ہوئے اسے فرحت بخشتی ہے تو اگلے ہی لمحے ماند پڑ کے اس کے اردگرد کو تاریکی اور پراسراریت میں دھکیل دیتی ہے۔ اسی درخت کے تنے کے ساتھ اعشاریہ چارسو پانچ کی ایک پُرانی ونچسٹر رائفل ٹیک لگا ئے کھڑی کی ہوئی ہے۔

تلہ دیس کا آدم خور
جم کاربٹ
(۱)
بندو کھیڑا میں جوبن پر آئے ہوئے گل مور کے درختوں کے نیچے لگائے گئے کیمپ سے زیادہ بہتر کیمپ پورے کوہ ہمالیہ میں کہیں نہیں ہو سکتا۔ اب آپ خود ذرا تصور کریں کہ سفید خیمے اور ان پر مالٹائی رنگ

پانار کا آدم خور
جم کاربٹ
(۱)
جب میں ۱۹۰۷ء میں چمپاوت کی آدم خور شیرنی کے شکار میں سر گرداں تھا تو مجھے اس آدم خور تیندوے کا پتہ چلا جس نے الموڑا ضلع کے مشرقی سرے میں دہشت پھیلائی ہوئی تھی۔ یہ تیندوا جس کے بارے ہاؤس آف کامنز میں بھی سوال پوچھے گئے، کئی ناموں

جمعہ، 29 مارچ، 2013

جنگل کا قانون
جم کاربٹ
ہرکور اور کنٹھی کی شادی جب ہوئی تو ان کی کل عمروں کا مجموعہ دس سال سے کم تھا۔ ان دنوں اس عمر میں شادی ہندوستان کا عام رواج تھا۔ اگر مہاتما گاندھی اور مس مایو یہاں نہ پیدا ہوتے تو یہ رواج اب تک چل رہا ہوتا۔
ہرکور اور کنٹھی کے گاؤں دناگری پہاڑ کے دامن میں ایک دوسرے سے چند میل کے فاصلے پر تھے۔ دونوں نے پہلی بار

بدھ، 27 مارچ، 2013

ڈھلوانہ کی ڈائن
ایس۔ کے۔ جیفری
کئی لوگ مجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ اپنی چالیس سالہ شکاری زندگی میں جو ہندوستان کے مختلف جنگلوں میں گزری،کیا میں نے کہیں کوئی بھوت بھی دیکھا؟ میں یہی جواب دیتا کہ بھوت پریت محض انسان کے تخیل کی پیداوار ہیں اور ان کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ تاہم میری شکاری زندگی میں کچھ ایسے واقعات ہیں جن میں میرا بھوتوں سے آمنا سامنا ہوتے ہوتے رہ گیا۔ آج ایک ایسا

منگل، 26 مارچ، 2013

سنگم کا آدم خور چیتا
ایس۔ کے۔ جیفری
اُن دنوں میں بنگلور میں تعینات تھا جب مجھے اطلاع ملی کہ ستر میل دور جنوب میں سنگم کے مقام پر ایک چیتا آدم خور بن گیا ہے اور اب تک بیسیوں انسانوں اور مویشیوں کو نوالہ بنا چکا ہے۔ جن دنوں اس چیتے نے اپنی وارداتوں کاآغاز کیا‘ میں اپنے فرائضِ منصبی میں اس قدر الجھا ہوا تھا کہ فی الفور اُس طرف دھیان نہ دے سکا۔ اس دوران چند معروف شکاریوں نے اس چیتے کی بیخ کنی کی

بابو رام اور شیر
انصاری آفاق احمد
آزادی سے قبل گرمیوں کی تعطیلات اپریل سے شروع ہوتی تھیں۔ ان چھٹیوں میں بزرگ انڈے بچّے جمع کرکے شکار کے لیے نکل جاتے تھے۔ جتنی دور جائیں، شکار اتنا ہی اچھا ہوتا تھا۔ اور شکار جتنا اچھّا ہو پروگرام اتنا ہی طویل ہوجاتا تھا۔ٹیم میں ہر قسم کے لوگ ہوتے تھے۔ جن میں شکاریوں اور مصاحبین کے علاوہ ڈاکڑ اور خانساماں بھی شامل ہوتے تھے۔ ڈاکڑوں کی ماہرانہ دیکھ بھال اور مشوروں کا

اتوار، 24 مارچ، 2013

نردولی کا آدم خور
بہزاد لکھنوی
میرا نام متو خاں شکاری ہے۔ یہ میرے بچپن کے شکار کا واقعہ ہے۔ عجیب و غریب داستان ہے۔ مجھے یہ بیان کرنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ میری ابتداء بے حد غربت کے دور سے ہوئی۔ میں بٹول کا رہنے والا ہوں، جہاں کے سنترے ہندوستان میں مشہور ہیں۔ بٹول سے چھے میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، جہاں سنترے کے باغات ختم ہو کر جنگلی علاقہ شروع ہوتا ہے۔ اس گاؤں کا نام

چوکا کا آدم خور شیر
جم کاربٹ
چوکا۔۔۔۔۔ جس نے لدھیا وادی کے آدم خور شیر کو چوکا کے آدم خور کا نام دیا۔ لدھیا وادی کے قریب دریائے ساروا کے دائیں کنارے پر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ اس گاؤں کے شمال مغربی کنارے سے ایک راستہ ایک چوتھائی میل چل کر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ جس کا ایک تہائی حصہ تو ٹھک جاتا ہے اور دوسرا حصہ پہاڑیوں میں سے بل کھا کر کوٹی کندری میں ختم

مکتیسر کی آدم خور شیرنی
جم کاربٹ
نینی تال سے اٹھارہ میل شمال مشرق کی طرف آٹھ ہزار فٹ اونچی اور پندرہ میل لمبی ایک پہاڑی ہے جو مغرب سے مشرق کو پھیلی ہوئی ہے۔ اس پہاڑی کا مغربی کنارا ایک دم اوپر کو اٹھا ہوا ہے اور اس کنارے کے نزدیک مکتیسر کا تحقیقیاتی ادارہ برائے جنگلی حیات ہے۔ جہاں ہندوستان میں حیوانات کی بیماریوں کی روک تھام کے لیئے مختلف ادویات کی تحقیق کی جاتی ہے۔ اس ادارہ کی تجربہ گاہ

ہفتہ، 23 مارچ، 2013

پیگی پلہام کا آدم خور
کینتھ اینڈرسن
یہ ایک آدم خور شیر کی تباہ کاریوں اور اس کے زوال کی مکمل کہانی نہیں ہے کیونکہ وہ شیر یہ کہانی لکھنے کے وقت تک زندہ ہے۔ سرکاری اطلاع کے مطابق اس نے چودہ آدمی ہلاک کیئے ہیں اگرچہ غیرسرکاری اطلاعات کے مطابق اس کی ہلاکت خیزیوں کی لپیٹ میں کوئی سینتیس کے قریب مرد، عورتیں اور بچے آئے ہیں۔ ان میں سے ایک درجن کے قریب اس نے سارے کے سارے

مندر کا شیر
جم کاربٹ
جو شخص کبھی دیبی دھورا نہیں گیا وہ اس کے گردوپیش کے مناظر کے حُسن کا کبھی اندازہ نہیں کرسکتا۔ یہاں "پرماتما کے پہاڑ" کی چوٹی کے قریب ایک ریسٹ ہاؤس ہے۔ اس ریسٹ ہاؤس کے برآمدے میں کھڑے ہوکر آپ جِدھر نظر اٹھائینگے آپ کو ازلی و ابدی حُسن کےطلسمی نظارے دکھائی دینگے۔ ریسٹ ہاؤس سے دریائے پانار کی ڈھلان شروع ہوجاتی ہے۔ اس وادی سے پرے پہاڑیوں کا

ردراپریاگ کا آدم خور تیندوا
جم کاربٹ
تلخیص و ترجمہ: انیس الرحمن
ہندوستان کے تپتے ہوئے میدانوں کے باسی کیدرناتھ اور بدری ناتھ کی یاتراؤں پر جاتے ہیں۔ ان یاتراؤں کا آغاز ضلع گھڑوال میں ہردوار سے ہوتا ہے۔ ہردوار سے رکی کیش ،لچھمن جھولا، شری نگر، چٹخال اور گلاب رائے سے ہوتے ہوئے ردراپریاگ پہنچا جاتا ہے اور وہاں سے کیدرناتھ اور بدری ناتھ۔ پریاگ ہندی

Popular Posts