بدھ، 3 اپریل، 2013

شیرنی کے بچے
عبدالمجید قریشی
میں جب اُس گاؤں کے قریب سے گزرنے لگا تو اُس کے باشندوں نے یہ معلوم کرکے کہ میں شکاری ہوں، رو رو کر مجھ سے فریاد کی کہ میں سب سے پہلے اُن کو شیروں کے ایک جوڑے سے نجات دلاؤں۔ انہوں نے بتایا کہ شیروں کا یہ جوڑا کوئی پانچ چھ مہینے پہلے نزدیکی جنگل میں دیکھنے میں آیا تھا۔ شیر اور شیرنی بڑے پُرامن طریقے سے رہ رہے تھے اور اُنہیں اُن سے کوئی شکایت نہ تھی۔ وہ دونوں نہ تو آدم خور تھے اور نہ وہ ہمارے مویشیوں کو چھیڑتے تھے۔ وہ عام راستے پر بھی کبھی کبھار نظر آتے تھے اور مسافروں یا گاڑیوں کو آتا دیکھتے تو اِدھر اُدھر ٹل جاتے تھے۔ لیکن پچھلے پندرہ بیس دنوں سے نہ جانے کیا ہوا کہ نرشیر نہ صرف ہماری گایوں، بیلوں اور بھینسوں پر حملے کرنے لگا بلکہ بھیڑ اور بکریاں بھی اُس کے حملوں سے محفوظ نہ رہیں، حالانکہ اس جنگل میں سانبھروں، چیتلوں اور ہرنوں کی کوئی کمی نہیں۔ وہ پہلے بھی اُن کا شکار کرکے اپنا پیٹ پالتے آئے ہیں اور اب بھی اُن کا شکار کرنے میں آزاد ہیں۔ اس وقت صورت ِ حال یہ ہے کہ نرشیر نہ صرف راتوں کو اُن کے گھروں سے مویشی نکال کر لے جاتا ہے بلکہ کھیتوں میں بھی اُس کے حملے بڑی دلیری سے جاری رہتے ہیں۔ اس وجہ سے انہوں نے اپنے مویشیوں کو کھیتوں میں لے جانا چھوڑ دیا ہے، بلکہ وہ خود بھی اُس کے خوف سے کھیتوں کا رُخ نہیں کرتے۔ اُن کی فصلیں تیار کھڑی ہیں اور وہ اُنہیں کاٹتے ہوئے ڈرتے ہیں۔
میں دراصل شیر ہی کے شکار کی مہم پر نکلا تھا اور میرے ایک عزیز دوست جو خود بھی شکاری تھے، اس مہم میں میرے ہمراہ تھے۔ میں نے جب اِن مظلوم لوگوں کے حالات سنے، تو یہیں سے اپنے شکار کی مہم کو شروع کردیا۔ میں نے سب سے پہلے اِن لوگوں کو اپنی فصلیں کاٹنے کا مشورہ دیا۔ میں نے اُنہیں ہدایت کی کہ وہ روزانہ ایسے چار چار کھیتوں کا انتخاب کریں جن میں سے دو ایک دوسرے کے برابر ہوں اور دو اُن کے آمنے سامنے ہوں۔ ان کھیتوں کے عین بیچ میں مَیں نے بانسوں اور لکڑیوں کی مدد سے ایک مضبوط پلیٹ فارم تیار کرایا جس پر میں، میرے دوست اور دو نوجوان کسان بیٹھ گئے تاکہ ہم لوگ چاروں طرف سے شیر کو آتا دیکھ سکیں۔ میں نے پلیٹ فارم کے نیچے دو خالی کنستر بھی لٹکادئیے تھے اور اُن کو خطرے کے وقت بجانے کے لیے چار پانچ لمبی لمبی رسیاں اُن سے باندھ کر کھیتوں میں ڈال دی تھیں۔ ہم نے فصلیں کاٹنے والے کسانوں کو ہوشیار اور چوکنا رہنے کی تاکید کی اور ہدایت کی کہ وہ شیر کی جھلک دیکھتے ہی رسی کھینچ کر کنستر بجادیں۔
ہم لوگ مسلسل تین دن تک کھیتوں میں پہرا دیتے رہے لیکن افسوس کہ ان تین دنوں میں وہ مویشی خور شیر اس طرف نہ آیا۔ کسانوں نے اس عرصے میں بغیر کسی حادثے کے اپنی فصلیں کاٹ لیں۔ حیران کن بات یہ تھی کہ یہ مویشی خور شیر ان تین راتوں میں گاؤں کی طرف بھی نہ آیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ یہ علاقہ ہی چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ لیکن چوتھے روز جب ہم اُس سے مایوس ہوکر کیمپ میں آرام کررہے تھے وہ یکایک پھر نمودار ہوگیا اور اُس نے دوپہر کو ایک کسان کے کھیتوں میں چرتے ہوئے مویشیوں میں سے ایک موٹی تازی گائے کو پکڑا اور اُسے اندر جنگل میں لے گیا۔ میں نے یہ واقعہ سُنا تو محسوس ہوا جیسے وہ کم بخت شیر پچھلے تین دنوں میں خود میری سرگرمیوں کا جائزہ لیتا رہا ہے، جیسے اُس کی چھٹی حِس نے اُسے خطرے سے خبردار کردیا ہے۔
ہم نے گائے کی لاش کی تلاش شروع کردی اور تھوڑی دور جنگل میں اُسے پالیا۔ شیر نے ابھی اس کا تھوڑا سا حصہ کھایا تھا لیکن زیادہ حصہ ابھی تک ایک درخت کے نیچے پڑا ہوا تھا۔ میں نے اس درخت کے قریب ایک دوسرے درخت پر ایک عمدہ سی مچان بندھوائی اور ایک دلیر نوجوان کو اُس پر بٹھادیا تاکہ وہ گائے کی لاش کی حفاظت کرسکے اور شیر یا کسی دوسرے درندے کو اسے کھانے نہ دے۔ میرا منصوبہ شام کو اس مچان پر بیٹھ کر رات گئے تک شیر کا انتظار کرنے کا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ شیر جیسا کہ اُس کی عادت ہوتی ہے، گائے کی لاش کھانے کے لیے ضرور آئے گا۔ اس لیے میں نے دن کو آرام کیا اور خاصی دیر سویا بھی۔ جب میری آنکھ کھلی تو سورج غروب ہونے میں ابھی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا۔ میں نے اور میرے دوست نے غسل کیا اور چائے کی ایک ایک پیالی پی کر تروتازہ اور چاق و چوبند ہوگئے۔ تھوڑی دیر میں کھانا بھی تیار ہوگیا لیکن ہم نے کھانا کھایا نہیں بلکہ اپنے ہمراہ لے لیا۔ سورج اب غروب ہونے کو تھا اور ہماری خواہش تھی کہ سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے اپنی مچان پر پہنچ جائیں۔
ہم دونوں دوست مچان پر بیٹھ گئے۔ ہمارے پاس عمدہ رائفلیں تھیں اور دو اچھی قسم کے کیمرے بھی تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ شیر کے شکار سے پہلے اگر ہم اُس کی کچھ بے تکلفانہ تصویریں بھی کھینچ ڈالیں تو کتنا اچھا ہو۔ ہماری مچان کے بالکل سامنے ایک خاصا بڑا کھلا میدان تھا اور اس سے ذرا سا آگے ایک ندی بہہ رہی تھی جس کے کنارے پر دُور دُور تک لمبی لمبی گھاس اُگی ہوئی تھی۔
سورج غروب ہوچکا تھا اور جنگل کو شام کے اندھیرے نے ڈھانپ لیا تھا۔ لیکن ذرا دیر بعد ہی اُفق پر چودھویں رات کا چاند ابھرنے لگا اور اس کی چاندنی نے اندھیرے کو سمیٹ لیا۔ جنگل کا منظر خاصا خوب صورت ہوگیا تھا۔ ہمارے سامنے والے میدان میں چاندنی پوری طرح پھیلی ہوئی تھی اور اردگرد کے درختوں میں سے چھن چھن کر زمین پر بکھر رہی تھی جس میں گائے کی لاش بخوبی نظر آرہی تھی۔ ادھر مچان کی بلندی سے بہتی ہوئی ندی میں پورے چاند کے عکس کا نظارہ بھی کچھ کم دلکش نہ تھا۔
ہم قدرت کے بخشے ہوئے اِن عناصر کا لطف اٹھا رہے تھے کہ ہمارے سامنے سے ذرا دائیں طرف ہٹ کر ندی کے کنارے اُگی ہوئی لمبی لمبی گھاس میں کچھ سرسراہٹ سی محسوس ہوئی۔ پھر یہ سرسراہٹ کچھ تیز ہوگئی اور گھاس ہلنے لگی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے گھاس میںکوئی جانور چل پھررہا ہے۔ ہمارا خیال فوراً شیر کی طرف گیا کہ شاید وہ آگیا ہے۔ جانور کی حرکت جاری تھی اور اب ہمارے بالکل سامنے کی گھاس بھی ہلنے لگی تھی۔ اچانک گھاس میں سے ایک شیر نکل کر ہمارے سامنے کھلے میدان میں آگیا۔ لیکن نہیں، یہ شیر نہیں تھا، یہ تو ایک شیرنی تھی جس کے ہمراہ اس کے تین بچے بھی تھے۔ یہ شیرنی آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ہمارے سامنے میدان میں آکر بیٹھ گئی۔ گائے کی لاش اگرچہ اس سے کچھ زیادہ فاصلے پر نہ تھی لیکن اس نے اس لاش پر کوئی دھیان نہ دیا۔ ممکن ہے شیرنی کا پیٹ بھرا ہوا ہو یا پھر ہوا شیرنی کی طرف سے لاش کی طرف جارہی تھی اس لیے اُس نے اس کی بو محسوس نہ کی۔ بہرحال وہ ہمارے سامنے ایسے جم کر بیٹھ گئی گویا اس کا تصویر کھنچوانے کا پورا پورا ارادہ ہو۔
یہ شیرنی پوری جوان اور تندرست تھی اور اس کی خوب صورتی دیکھنے کے قابل تھی۔ ہمیں وہ بہت ہی بھلی لگی۔ اس کے تینوں بچے بھی جو قد و قامت میں بڑی بلی کے برابر تھے، بہت ہی پیارے تھے۔ ہمارے لیے اس شیرنی کو مارنا بالکل آسان تھا لیکن اس کو مارنا ہماری نظر میں ایک ماں کی مامتا کو قتل کرنا اور اس کے ننھے منے بچوں کو بے آسرا کرڈالنا تھا، پھر اس نے کسی کا کوئی نقصان بھی نہیں کیا تھا بلکہ اس نے ہم لوگوں کو ایک ایسا شاندار موقع فراہم کیا تھا کہ ہم اس کی اور اس کے ننھے منے بچوں کی نادر و نایاب تصاویر اتارکر اپنے البم کی قدر و قیمت میں ایک عمدہ اضافہ کرسکیں۔
ہم نے اس شاندار موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور شیرنی کی اس قدر افزائی کا شکریہ ادا کیا۔ ہم نے اپنی رائفلیں رکھ دیں اور کیمرے سنبھال لیے۔ ہماری مچان کو چاروں طرف سے موٹے اور گہرے پتوں کی شاخوں سے اس طرح تیار کیا گیا تھا کہ ہم اس میں بالکل چھپ کر بیٹھ گئے تھے۔ اس مچان میں تین جگہ سوراخ رکھے گئے تھے تاکہ ہم ان میں رائفل کی نال رکھ سکیں یا ان کے ذریعے اپنے کیمرے استعمال کرسکیں۔
اب شیرنی ہمارے سامنے بیٹھی تھی۔ اس کا منہ ہماری طرف تھا اور اس کے تینوں بچے اس کے پاس کھڑے ہوئے تھے۔ ہم دونوں نے فوراً ہی ان کی تصویریں لے ڈالیں۔ اب شیرنی کے بچے ایک دوسرے سے شوخیاں کرنے لگے۔ وہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے اور پھر چکر لگاکر اپنی ماں کے پاس آجاتے۔ کبھی وہ اپنی ماں کے جسم پر سوار ہوجاتے اور پھر ایک دوسرے سے الجھنے لگتے، کبھی اپنی ماں کے منہ کو پیار سے چومنے لگتے اور کبھی شیرنی محبت اور شفقت سے اُن کو چاٹنے لگتی۔ ادھر ہمارے کیمرے چل رہے تھے اور ہم جلدی جلدی ان کی تصویریں بنارہے تھے۔ شیرنی کبھی کبھی کیمروں کی کِلک کِلک کی آواز اور فلیش گن کی چکاچوند سے حیران سی ہوجاتی اور ہلکے ہلکے غرّانے لگتی، لیکن ہمیں نہ دیکھ پاتی۔
اب شیرنی آرام سے لیٹ گئی اور تینوں بچے اس کا دودھ پینے لگے۔ ہم نے اس منظر کو بھی اپنے کیمروں میں محفوظ کرلیا اور اس طرح شیرنی اور اس کے بچوں کی تصویروں کا ایک خوبصورت ذخیرہ ہمارے پاس جمع ہورہا تھا۔ تھوڑی دیر میں شیرنی اٹھی اور اپنے بچوں کے ساتھ ندی کی طرف چلی گئی۔ ہم نے یہ موقع بھی غنیمت جانا اور جاتے جاتے اس خاندان کی ایک ایک تصویر اور لے ڈالی۔
ہمارا خیال تھا کہ شیرنی ندی سے پانی پی کر کسی اور طرف چلی جائے گی۔ مگر نہیں، وہ پھر ہماری ہی طرف چلی آئی۔ اس مرتبہ وہ ہمارے سامنے نہ ٹھیری بلکہ سیدھی گائے کی لاش کی طرف جانے لگی۔ شیرنی کا گائے کی لاش کی طرف جانا ہمیں مناسب نظر نہ آیا۔ ہم نے اپنی رائفلوں سے دو فائر کیے لیکن شیرنی پر نہیں بلکہ ہوا میں۔ فائروں کی دھائیں دھائیں سے جنگل گونج اٹھا۔ پرندے پھڑپھڑانے لگے اور شیرنی فرار ہوگئی۔ شیرنی کو تو ہم نے بھگا دیا لیکن شکار کے نقطۂ نگاہ سے یہ اچھا نہ ہوا۔ شیر نے خطرہ محسوس کرلیا اور اگر وہ اس طرف آتا تب بھی نہ آیا اور ہماری پوری رات اس کے انتظار میں گزر گئی۔ ہم اگلی رات پھر مچان پر بیٹھے رہے مگر مایوسی ہوئی۔ آخر ہم نے اس کو اس کی قسمت پر چھوڑنے کا ارادہ کرلیا اور اگلے دن وہاں سے آگے چل پڑے۔
ہم نے چڑیا گھروں سے ملحق بعض حیوانی عجائب گھروں میں شیرنی کے ایک دو دن کے پیدا ہوئے مُردہ بچوں کو شیشے کے مرتبانوں میں اسپرٹ میں محفوظ دیکھا ہے۔ یہ بچے پورے چوہے سے قدرے بڑے ہوتے ہیں۔ لیکن زندہ رہنے کی صورت میں آہستہ آہستہ بڑھتے رہتے ہیں۔ شیرنی ان کو پانچ چھ ماہ کی عمر تک دددھ پلاتی ہے، اس کے بعد گوشت کی باری آتی ہے اور شیرنی مختلف جانوروں کے گوشت کو اپنے دانتوں سے کچل کر انہیںکھلاتی رہتی ہے۔ پھر بڑی بوٹیوں کی باری آتی ہے اور بعد ازاں عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ بچے خود ہی شکار کی جانب مائل ہوجاتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے جانوروں مثلاً خرگوش، لومٹری، گیدڑ اور موروں وغیرہ کو اپنا نشانہ بناتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ وہ اپنی ماں شیرنی سے سیکھتے ہیں۔ شیرنی کا اپنے بچوں کو شکار کھلانے کا طریقہ بھی خاصا دلچسپ ہوتا ہے۔ وہ بچوں کے سامنے کسی چھوٹے جانور کا شکار کرتی ہے اور اُسے منہ میں ڈال کر چل پڑتی ہے۔ بچے اُس کے ساتھ دوڑتے ہیں لیکن وہ انہیں پرے ہٹاتی رہتی ہے۔ یوں بچوں میں شکار چھین لینے کا شوق بڑھتا جاتا ہے اور وہ بے تاب ہوکر لپکنے جھپٹنے لگتے ہیں۔ اس کشمکش کے بعد شیرنی جانور کی لاش کو ہوا میں اُچھال دیتی ہے اور بچے اُس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور وہیں اُس کی تکا بوٹی کردیتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کا جسم اور اُن کی طاقت بھی بڑھتی جاتی ہے اور وہ ہرن، چیتل، سانبھر اور نیل گائے جیسے بڑے بڑے جانوروں کو آسانی سے مار ڈالتے ہیں۔ بیل، گائے اور بھینسوں جیسے قدآور مویشی اُن کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے، مارتے ہیں اور میلوں کھینچ کر لے جاتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ کسی انسان کا خون اُن کے منہ لگ جائے تو پھر اُنہیں کوئی جانور بھی پسند نہیں آتا۔ بس انسان کے متلاشی رہتے ہیں۔ بعض دفعہ سینکڑوں انسانوں کو موت کی نیند سلادیتے ہیں اور بڑی مشکل سے قابو میں آتے ہیں۔
ہم لوگ چلنے کو تو آگے چل پڑے تھے لیکن ہمیں بار بار اُس گاؤں کے لوگوں کی حالت ِ زار کا خیال ستا رہا تھا جو اس مویشی خور شیر کے ہاتھوں پریشان تھے اور جن کے لیے میں کچھ نہ کرسکا تھا۔ بہرحال یہ مسئلہ جلدی حل ہوگیا۔ ہم لوگ چار پانچ روز کے بعد وہاں سے کوئی بیس پچیس میل دور اپنا کیمپ لگائے بیٹھے تھے کہ ایک دوسری شکار پارٹی ہم سے آن ملی۔ ان لوگوں نے ہمیں بتایا کہ وہ اسی جنگل میں سے ہوکر آرہے ہیں اور اُنہوں نے اس مویشی خور کو ختم کرکے گاؤں والوں کو اس عذاب سے نجات دلادی ہے۔
٭٭٭

Popular Posts