ہفتہ، 13 اپریل، 2013

آنائی کے آدم خور وحشی
مقبول جہانگیر


مصباح الایمان کے نام
اِک دوست مل گیا ہے وفا آشنا مجھے

ہفتہ، 6 اپریل، 2013

تنزانیہ کے جنگلوں میں ۵ دن
صبا شفیق
ڈیانا کیا تم اس جنگلی بھینسے کو دیکھ رہی ہو۔۔۔؟ پیٹر نے آنکھوں سے دوربین ہٹائے بغیر مجھ سے پوچھا: ’’بالکل۔۔۔ وہ سب سے منفرد بڑا نظر آتا ہے۔‘‘
میں گھاس کے آخری سرے پر کھڑے اس بھینسے کو دیکھتے ہوئے بولی: ’’میں نے اتنا شاندار جنگلی بھینسا آج تک نہیں دیکھا تھا۔‘‘ اس کے

بدھ، 3 اپریل، 2013

شکار کے دیوانے
کنور مہندر سنگھ بیدی سحر
یوں تو ہمارا سارا خاندان ہی شکار کا شیدائی تھا لیکن والد صاحب تو حقیقت میں شکار کے دیوانے تھے۔ وہ ہر سال جاڑے کے موسم میں ہفتے عشرے کے لیے شکار کی مہم پر جایا کرتے تھے۔ اس مہم میں ہمارے خاندان کے سبھی لوگ شرکت کرتے۔ کُل نفری ڈیڑھ دو سو آدمیوں پر مشتمل ہوتی۔ ہاتھی، گھوڑے، اونٹ اور بہلیاں ساتھ ہوتیں، ہم لوگ صبح ناشہ کرتے ہی شکار پر نکل جاتے۔ دوپہر کا کھانا پک کر باہر جنگل میں

ایک درندہ ایک انسان
کینتھ اینڈرسن
یہ داستان جو مجھے نیل گری کے ایک گاؤں میں مقیم اپنے دوست سنجیو نے سنائی اس قدر حیرت انگیز ہے کہ آپ اس پر یقین نہیں کریں گے، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ بعض حقائق اپنے اندر افسانے کی سی رعنائی رکھتے ہیں۔ میں اُن دنوں ہندوستان میں تھا اور جس گاؤں کا ذکر کرنے لگا ہوں، اس کے قریب ہی مقیم تھا۔ نیل گری کی پہاڑیوں کے دامن میں یہ گاؤں آباد ہے۔ اس کے

چینا گڑھ کا آدم خور شیر
نواب قطب یار جنگ
چینا گڑھ کا مشہور آدم خور شیر کسی مرے ہوئے سنار کی بدروح سمجھا جاتا تھا۔ اس موذی نے ایک سال میں ۷۸آدمی ہڑپ کیے۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس کے پیر میں چاندی کا کڑا ہے۔ ایک شکاری صاحب نے بتایا کہ اس کا رنگ سفید ہے۔ آدم خور کی تلاش اور ہلاکت میں کئی ماہ نکل گئے اور میں اس مسلسل دوڑ دھوپ سے سخت ہلکان ہوا۔ ناظم صاحب ڈاک خانہ، معتمد

ہندوستانی ریاستوں میں سیر و شکار
نواب حافظ سرمحمد احمد خاں
متحدہ ہندوستان کے وائسرائے لارڈریڈنگ ۱۹۲۶ء میں اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار کے اختتام پر انگلستان واپس جانے لگے تو انہوں نے اپنی الوداعی پارٹی میں تقریر کرتے ہوئے کہا، " میں ہندوستان میں دو چیزیں ایسی چھوڑے جارہا ہوں جو مجھے انگلستان میں تازندگی نصیب نہ ہوں گی، ان میں سے پہلی چیز وائسرائے کی سفید رنگ کی خوبصورت اسپیشل ریلوے ٹرین ہے جس میں

شیرنی کے بچے
عبدالمجید قریشی
میں جب اُس گاؤں کے قریب سے گزرنے لگا تو اُس کے باشندوں نے یہ معلوم کرکے کہ میں شکاری ہوں، رو رو کر مجھ سے فریاد کی کہ میں سب سے پہلے اُن کو شیروں کے ایک جوڑے سے نجات دلاؤں۔ انہوں نے بتایا کہ شیروں کا یہ جوڑا کوئی پانچ چھ مہینے پہلے نزدیکی جنگل میں دیکھنے میں آیا تھا۔ شیر اور شیرنی بڑے پُرامن طریقے سے رہ رہے تھے اور اُنہیں اُن سے

خونخوار درندوں سے دو دو ہاتھ
الحاج خان بہادر حکیم الدین
حصولِ رزق کے سلسلے میں انسان جہاں کسی سرکاری یا غیرسرکاری ملازمت کا راستہ اختیار کرتا ہے وہاں یہ لازم نہیں کہ وہ ملازمت اس کے طبعی رجحانات سے بھی کوئی مناسبت یا مطابقت رکھتی ہو، ورنہ گلے میں پڑا ہوا یہ ڈھول بہرحال تمام عمر بجانا پڑتا ہے۔ تاہم انڈین فارسٹ سروس کے گُلِ سرسبد، برصغیر پاک و ہند کے ممتاز مسلمان شکاری اور میرے

Popular Posts