بدھ، 3 اپریل، 2013

شکار کے دیوانے
کنور مہندر سنگھ بیدی سحر
یوں تو ہمارا سارا خاندان ہی شکار کا شیدائی تھا لیکن والد صاحب تو حقیقت میں شکار کے دیوانے تھے۔ وہ ہر سال جاڑے کے موسم میں ہفتے عشرے کے لیے شکار کی مہم پر جایا کرتے تھے۔ اس مہم میں ہمارے خاندان کے سبھی لوگ شرکت کرتے۔ کُل نفری ڈیڑھ دو سو آدمیوں پر مشتمل ہوتی۔ ہاتھی، گھوڑے، اونٹ اور بہلیاں ساتھ ہوتیں، ہم لوگ صبح ناشہ کرتے ہی شکار پر نکل جاتے۔ دوپہر کا کھانا پک کر باہر جنگل میں آجاتا اور شام کو پُر تکلف چائے کا دور چلتا۔ رات کے کھانے کے بعد تفریح کے لیے بھانڈ، بھاٹ وغیرہ اپنا کمال دکھاتے اور گیارہ بجے تک یہ سلسلہ جاری رہتا۔
بڑے شکار کے ساتھ ساتھ والدصاحب کو بازوں کے ذریعے چھوٹے شکار سے بڑی دلچسپی تھی۔ اُنہوں نے اس مقصد کے لیے درجنوں بازپال رکھے تھے اور اُن کی دیکھ بھال کے لیے اتنے ہی ملازم بھی رکھے ہوئے تھے جو شکار کی مہم میں اپنے اپنے بازوں کے ساتھ ہمارے پاس موجود ہوتے۔ بازو کے ذریعے شکار میںوالدصاحب کا کوئی ثانی نہیں تھا۔بڑے بڑے راجائوںمہاراجوں سے بھی مقابلہ ہوتا جن میں مہاراجہ جنید کا نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ وہ اپنے جنم دن پر ہمیں بلاتے جہاں دوسری تفریحات کے علاوہ باز کے شکار کا بھی مقابلہ ہوتا۔ اس میں والد صاحب کا پلّہ ہمیشہ بھاری رہتا۔
باز نہایت خوب صورت اور بڑا بہادر شکاری پرندہ ہے۔ اس نسل کے دوپرندے شکرا اور باشہ بھی ہوتے ہیں لیکن باز اُن میںسب سے بڑا ہوتاہے۔ مغلیہ دور میں شاہانِ مغلیہ بھی باز کے شکار سے محظوظ ہُوا کرتے تھے۔ باشہ باز سے چھوٹا لیکن تھوڑے فاصلے تک نسبتاً تیزرفتار ہوتا ہے۔ شکرا سب سے چھوٹا ہوتا ہے لیکن دلیری میں سب سے بڑھ کر ہے۔ میں جب دھرم شالہ ضلع کا نگڑہ میں تعینات ہوا تو والدصاحب نے حکم دیا کہ کچھ باز پکڑے جائیں۔چنانچہ میں نے وہاں کے شکاریوں کی مدد سے بہت سے باز پکڑوائے جو والدصاحب نے کچھ دوستوں میں بھی تقسیم کیے۔اُن میںایک باز ایسا تھا جو ہمارے ملازم رنگا بازدار کے حوالے تھا۔ رنگا کا باز تیز رفتار ہونے کے علاوہ نہایت اصیل تھا اور بہادر بھی۔
باز کے لیے سب سے مشکل شکار چکور کا ہوتا ہے جو بہت تیز رفتار ہوتا ہے اور پہاڑی دروں میں رہتا ہے۔ ذرا آنکھ سے اوجھل ہوا تو کہیں کا کہیں نکل جاتا ہے۔ عام طور پر دوسری تیسری اُڑان میں باز اُسے پکڑنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ لیکن رنگا کے باز نے کئی بار پہلی ہی اُڑان میں چکور کو پکڑلیا۔ اس بنا پر دور دُور سے بازدار اُسے دیکھنے کے لیے آتے اور اُسے پہلی ہی اُڑان میں چکور کو پکڑتے دیکھ کر حیران ہوتے۔ یہ باز کُتے سے ڈرتا تھا نہ آگ سے۔ ان دونوں چیزوں سے جو باز ڈرے وہ شکار کے لیے زیادہ مفید نہیںہوتا۔ باشہ سردار بازدار کے پاس تھا۔ اس قدر تیزرفتار تھا کہ کوئی پرندہ اس سے بچ کر نہیں جاسکتا تھا۔ والد صاحب اس سے بٹیر اور تیتر کا شکار کرتے۔ وہ باز سے بھی زیادہ تیتر پکڑلیتا۔ ہم ایک بار شیخوپورہ کے علاقے میں شکار کے لیے گئے جہاں والدصاحب نے اسے ایک تیتر کے پیچھے چھوڑا ۔باشہ تیتر پر جھپٹا اور اسے پکڑلیا لیکن تیتر بہت بڑا تھا اس نے جھٹکادیا جس سے باشے کا کولہا ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد وہ شکار کرنے کے قابل نہ رہا لیکن کئی برس تک زندہ رہا۔
شکرا سب سے چھوٹا ہوتا ہے مگر بے حد دلیر، اُس کی جسامت فاختہ کے برابر ہوتی ہے مگر وہ اپنے سے دُگنے چوگنے پرندے پکڑلیتا ہے۔ کبوتر، فاختہ، تیتر حتیٰ کہ کوا تک پکڑ لیتا ہے ۔میں نے ایک شکرابازی گر سے خریدا اور سُدھایا۔ وہ دو تین برس میرے پاس رہا اور میں نے اُس کے ذریعے تیتر، بٹیر، فاختہ، کبوتر اور ہریل وغیرہ کا شکار کیا۔ پتاک ایک ایسا پرندہ ہے جو باشے سے بھی بڑی مشکل سے پکڑا جاتا ہے لیکن شکرا اُسے آسانی سے پکڑلیتا ہے۔ والدصاحب فرماتے تھے کہ اُنہوں نے اتنا اچھا شکرا پہلے کبھی نہیں دیکھا۔
والدصاحب شیر کے شکار پر بھی ہر سال جایا کرتے تھے۔ اس شکار کے لیے مارچ سے لے کر مئی کے آخر تک بہترین موسم ہوتا ہے۔ اس میں بھی والدصاحب کا ریکارڈ آج تک قائم ہے۔ انہوں نے ایک ہی مچان سے چھ شیر مارے تھے۔ پانچ تو وہیں ڈھیر ہوگئے اور چھٹا اگلے روز تھوڑی ہی دورمرا ہوا پایا گیا۔ واقعہ یوں ہے کہ میرے بڑے بھائی جگجیت سنگھ بیدی ولایت سے دو ماہ کی تعطیل پر ہندوستان آئے۔ اُن کی خواہش تھی کہ اس عرصے میں شیر کا شکار کیا جائے۔ چنانچہ یو۔پی کے ایک جاگیردار کے ذاتی جنگلات میں شکار کا انتظام ہوا۔ ہم لوگ حسبِ دستور اپنے عملے کے ساتھ پہنچ گئے۔ اگلی صبح والدصاحب جنگل میں چھان بین کے لیے گئے اور واپس آکر بتایا کہ اس جنگل میں شیر بہت ہیں اور اگرخدا نے چاہا تو پہلے ہی دن کامیابی ہوگی۔
جنگل میں ایک برساتی ندی تھی جس میںکہیں کہیں تھوڑی تھوڑی مقدار میں پانی تھا۔ ندی کنارے آٹھ دس مچانیں بندھوادی گئیں اور ہم لوگ شام کے پانچ بجے ہی وہاں پہنچ گئے۔ یہ جگہ جانوروں کی گزر گاہ تھی جو تمام رات پانی پینے کے لیے یہاں سے گزرتے تھے۔ یہاں سب سے اچھی مچان میرے بھائی کودی گئی۔ دوسری مچانوں پر ہمارے مہمان بٹھائے گئے۔ دومچانیں بچ گئیں۔ ایک پر والدصاحب مجھے بٹھانا چاہتے تھے اور دوسری پر چھوٹے بھائی سُریندر سنگھ کو لیکن مجھے وہ مچان پسند نہ تھی۔
میری ضد پر میری مچان پر چھوٹے بھائی بیٹھ گئے۔ والدصاحب بھی اُن کے ساتھ بیٹھ گئے۔ اور میں اُن کی مچان پر جا بیٹھا۔ ابھی چھ بجے ہوں گے کہ شیروں کا ایک جوڑا چھوٹے بھائی اور والدصاحب کی مچان کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ ایک پروالد صاحب نے فائر کیا اور دوسرے پر چھوٹے بھائی نے۔ بھائی صاحب نے جس شیر پر فائر کیا وہ زخمی ہوکر سیدھا مچان کی طرف لپکا اور اتنے زور سے گرجا جیسے زلزلہ آگیا ہو۔ مچان تک پہنچنے سے پہلے بھائی صاحب نے اس پر دو فائر کیے اور گرادیا۔ دوسرا شیر جنگل کی طرف بھاگ گیا لیکن اگلی صبح تھوڑے ہی فاصلے پر مُردہ پایا گیا۔ ہم سب بہت خوش ہوئے کہ دن چھپنے سے پہلے شیرمار لیا۔
والدصاحب نے ہم سب کو اپنی اپنی مچانوں پر ڈٹے رہنے کی تاکید کی۔ اُن کا خیال تھا کہ ابھی اور شیر آئیں گے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ اُس کے بعد چار شیر اور آئے۔ سبھی والدصاحب کی مچان کے سامنے۔ وہ سب کے سب ایک ایک فائر میں گرا لیے گئے۔ میرے چچا جو تھوڑی دور ایک مچان پر بیٹھے تھے ہر بار پوچھتے ’’مارا؟‘‘ والدصاحب کہتے: ’’ہاں مارا۔‘‘ آخری فائر پر پھر چچانے پُکار کر پوچھا تو والدصاحب نے جواب دیا کہ ’’ہاں مارا۔‘‘ پوچھا کتنے ہوگئے؟ کہا کہ چار تو یہیں ڈھیر ہیں۔ پانچواں بھی مارا گیا ہوگا۔ اس پرچچا صاحب نے کہا کہ اب ختم کرو۔ جنگل میں جھاڑو دینے تو نہیں آئے۔ اُس وقت صبح کے پانچ بجے تھے۔ ابھی ہم مچانوں سے اُترے نہیں تھے کہ دوشیر اور آئے اور وہ بھی والدصاحب کی مچان کے سامنے۔ لیکن والدصاحب نے فائر روک لیا۔ کوئی دو بجے رات ایک شیر میری مچان کے نزدیک بھی آیا تھا۔ میںآدھی رات تک جاگتا رہا تھا۔ اس عرصے میں والدصاحب تین شیرمار چکے تھے۔ میں اس خیال سے کہ اب اور شیر کہاں سے آئیںگے، سو گیا اور اپنے شکاری سے کہہ دیا کہ اب وہ جاگے اور دھیان رکھے۔ چنانچہ جب شیر آیا ا ور اُس نے آہٹ سُنی تو مجھے جگانے سے پہلے تسلی کرنا چاہی کہ کونسا جانور ہے۔ جب اُس نے ٹارچ کی روشنی پھینکی تو شیر ایک دم غرایا، شکاری گھبرا گیا اور ٹارچ اُس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گئی، اسی وقت میری آنکھ کھل گئی۔ لیکن شیر والدصاحب کی مچان کی طرف جاچکا تھا۔ میںنے سیٹی بجاکر اُنہیں محتاط کردیا اور تھوڑی دیر میں یہ شیر بھی اُن کی بندوق کا نشانہ بن گیا۔ اس طرح والدصاحب نے ایک رات میں ایک ہی مچان سے چھ شیرمارے جو ایک ریکارڈ ہے۔
صبح جب ہم لوگ مچانوں سے اُترے تو والدصاحب نے طنزاً پوچھا ’’کہو مہندر سنگھ! رات کتنے شیر مارے‘‘ یہ میری اُس ضد کی طرف اشارہ تھا جو میں نے شام کو مچان بدلنے کے سلسلے میں کی تھی۔ میں کیا جواب دیتا شرمندہ ہوکر رہ گیا۔ اتفاق سے بڑے بھائی صاحب بھی اُس رات کوئی شکار نہ کرسکے۔
ایک مرتبہ ہم لوگ شیرکا شکار کرنے گئے۔ ہمیں جس جنگل میں شکار کھیلنا تھا، معلوم ہوا کہ وہاں ایک بہت بڑا شیر ہے جو بہت ہوشیار ہے عام طور پر وہ جنگلی جانور ہی مارتا ہے اور پالتو جانوروں کو نظرانداز کردیتا ہے۔ ہم نے ایک درخت کے ساتھ بھینس کا کٹّا باندھ دیا اور شیر کی آمد کا انتظار کرتے رہے لیکن ہمارا یہ تجربہ ناکام رہا۔شیر آنے کو آگیا تاہم کٹّے سے دور دور رہا اور فاصلہ اس قدر زیادہ تھا کہ اُس پر فائر کرنا بے سود تھا۔ ہم نے اگلے روز پھر اس تجربے کا اعادہ کیا لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے اس شیر کے متعلق جو کچھ سُنا تھا درست تھا۔ پھر بھی اُس کی موت ہمارے ہی ہاتھوں مقدر تھی اور وہ یوں کہ اگلے دن اس علاقے کے گوجروں کی ایک بھینس اور اُس کی جوان کٹیا جنگل میں گم ہوگئیں۔ اُن کے گلوں میںکوئی زنجیر یا رسی وغیرہ بھی نہ تھی۔ شیر نے یہ سمجھ کر کہ یہ پالتو جانور نہیں ہیں یا شاید وہ بھوکا تھا، ان دونوں کو مارڈالا۔ کٹیا کا تو اُس نے خون پیا لیکن بھینس کا کچھ حصّہ کھایا اور اُنہیں چھوڑکر چلا گیا۔ دونوں جانوروں کی لاشوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ تھا اس لیے میں بھینس کے قریب مچان پر اور میرے چھوٹے بھائی سُریندر سنگھ کٹیا کے نزدیک والی مچان پر سرشام ہی بیٹھ گئے۔ میرے ہمراہ ایک شکاری دوست گُپتا صاحب بھی تھے۔ مچان پر بیٹھ کر میں نے دیکھا کہ بھینس کی لاش ذرا اوٹ میں تھی۔ میں نے اپنے شکاریوں سے کہا کہ اسے تھوڑا سا سرکاکر میرے سامنے کردیں لیکن چھ سات شکاریوں کے زور لگانے سے بھی وہ بڑی مشکل سے سرکائی جاسکی۔ اب اندھیرا بڑھتا جارہا تھا۔ میں نے اپنے شکاریوں کو واپس ڈیرے بھیج دیا اور گپتا صاحب کے ساتھ رات بھر کی پہرے داری کے لیے مچان سنبھال لی۔ وہ میرے ساتھ ہرن، تیتر وغیرہ کا شکار تو کھیل چکے تھے مگر شیر کا شکار اُن کے لیے بالکل نیا تجربہ تھا۔ میں نے اُنہیں سمجھایا کہ مچان پر بیٹھنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری پابندی یہ ہے کہ شکاری ہلے جُلے نہیں، بات نہ کرے او ر اگر کوئی بہت ہی ضروری بات ہو تو کان میں بالکل آہستگی سے کہہ دے یامحتاط کرنے کے لیے بازو یاپائوں میں چٹکی بھرلے۔
اب سورج غروب ہوئے خاصی دیر ہوچکی تھی اور رات کے جانور بیدار ہوکر اپنی اپنی بولیاں بول رہے تھے۔ لیکن اُن میں سے کوئی آواز بھی ایسی نہ تھی جس سے ظاہر ہوتا کہ شیر آس پاس کہیں نمودار ہوچکا ہے۔ وقت گزرتا گیا۔ رات کے تقریباً دس بجے آہٹ سی ہوئی تو دیکھا کہ ایک بہت بڑا سیاہ رنگ کا جانور بھینس کی لاش کو کھارہا ہے۔ پہلے تو خیال آیا کہ یہ ریچھ ہوگا مگر اُس کی پھرتی اور ڈیل ڈول ریچھ سے قطعی مختلف تھا۔ اتنے میں کچھ اور جانور نزدیک آئے تو وہ چونکا جس سے پتہ چل گیا کہ وہ سور ہے۔ سور کے بارے میںعام خیال یہ ہے کہ وہ گوشت خور نہیں۔ یہ دُرست ہے مگر وہ مُردار خور ضرور ہے۔ میں نے اس سے پہلے بھی ایک سور کو سانبھر کا گوشت کھاتے دیکھا تھا۔ پانچ سات منٹ گزرے ہوں گے کہ وہ سُور ایک دم گولی کی طرح بھاگا۔ ہم اُسے یوں اچانک بھاگتا دیکھ کر حیران ہورہے تھے کہ شیر آگیا اور بھینس کے پہلو میں بیٹھ کر اُسے کھانے لگا۔ میں اپنی بندوق کا رُخ آہستہ آہستہ اُس کی جانب پھیر ہی رہا تھا کہ اُس نے بھینس کو قریب قریب اُٹھالیا اور اسے کھینچ کر چلنے لگا۔ شیر کی غیرمعمولی قوت کا یہ منظر ہمیں متحیر کرنے کے لیے کافی تھا کیونکہ جس بھینس کی لاش ہمارے پانچ سات آدمی بمشکل کھسکاسکے تھے اُسے شیر نے اکیلے ہی آرام سے اُٹھالیا تھا۔ میں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور فوراً ہی فائر کردیا۔
شیر ایک دم گرجا اور چھلانگ لگاکر بھاگ نکلا۔ کچھ دور تو اُس کے بھاگنے کی آواز آئی پھر بند ہوگئی۔ میں نے گپتا صاحب کو بتایا کہ اب ہمیںرات بھر مچان ہی پر رہنا پڑے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ شیر ہلکا سا زخمی ہوا ہو اور اترتے ہی ہم پر حملہ کردے۔ ہم دونوں پھر سوگئے۔ صبح چھ بجے کے قریب والدصاحب ہاتھی لے کر ہمارے پاس پہنچ گئے۔ اُنہوں نے رات کو میرے فائر کی آواز سُن لی تھی۔ ہم سب ہاتھی پر بیٹھ کر اُس طرف گئے جس طرف شیررات کو بھاگتا ہوا گیا تھا۔ ابھی ہم ایک فرلانگ بھی جانے نہ پائے تھے کہ والدصاحب نے شیر کو دیکھ لیا اور بندوق تان لی۔ تاہم فوراً ہی بھانپ لیا کہ شیر مُردہ پڑا ہے۔ یہ شیر واقعی بہت بڑا تھا۔ مجھے اس کے مارنے کی بڑی خوشی ہوئی اور جب اُسے ناپاگیا تو وہ دس فٹ دوانچ نکلا۔
شیر کا رُعب اور دہشت کتنی ہوتی ہے اُس کا ایک واقعہ سُناتا ہوں۔ ایک بار ہم لوگ گنگاپارگوری بلاک میں شیر کے شکار کو گئے، ہم نے دیکھا کہ جنگل میں ایک نہایت موزوں جگہ پر مچان بندھی ہوئی ہے۔ دریافت کرنے پر وہاں کے ایک شکاری نے بڑی دلچسپ داستان سنائی۔ واقعہ یوں تھا کہ ہم سے تھوڑے دن پہلے میرٹھ سے ایک انگریز فوجی افسر اس جگہ شکار کھیلنے آیا تھا۔ رات کو وہاں بھینس کا ایک کٹا باندھ دیا گیا۔ جسے شیر نے مار ڈالا اور اُس کا کچھ حصہ کھاکر چلا گیا۔ اگلی شام اس سے کچھ فاصلے پر مچان باندھ دی گئی اور وہ انگریز افسر اُس پر بیٹھ گیا۔ ابھی سورج غروب ہوا ہی تھا کہ شیر آگیا لیکن اتفاق سے ایک اور نر شیر بھی گشت کرتا ہوا وہاںآ گیا۔دوسرا شیر پہلے شیر سے بڑا تھا لیکن پہلے نے اپنے شکار کی حفاظت کرنا چاہی۔ جس پر دونوں میں لڑائی شروع ہوگئی۔ دونوں شیر لڑتے ہوئے اس قدر زور سے گرج رہے تھے کہ پورے کا پورا جنگل کانپ رہا تھا۔ شکاری نے اُس فوجی افسر سے کئی بار کہا کہ فائر کریں لیکن وہ بہت زیادہ خوف زدہ ہوگیا تھا۔ بالآخر بڑے شیر نے چھوٹے شیر کو مار ڈالا مگر وہ خود بھی اس قدر زخمی ہوچکا تھا کہ کٹے کی طرف نہیں گیا بلکہ رینگ رینگ کر جنگل میں داخل ہوگیا۔ فوجی افسر اور شکاری نے تمام رات مچان پر گزار دی۔ صبح ہوئی تو فوجی افسر نے شکاری کو ایک سو روپے کا نوٹ دیا اور کہا کہ تم سب کو یہی بتانا کہ صاحب بہادر نے شیرمارا ہے۔ ساتھ ہی اُس نے مرے ہوئے شیر پرفائر کرکے گولی کا نشان قائم کردیا۔ شیر کی کھال اُتروائی گئی اور وہ فوجی افسر کھال لے کر میرٹھ چلا آیا اور وہاں اُس نے شیرمارنے کا باقاعدہ جشن بھی منایا۔
چند روز بعد اُس شکاری نے کہیں بک دیا کہ شیر کو فوجی افسر نے نہیں بلکہ ایک دوسرے شیر نے مارا ہے۔ یہ بات جنگل کے ٹھیکیدار تک بھی جاپہنچی۔ قانون کے مطابق جو جانور شکاری کے ہاتھوں نہ مرے، اُس کی کھال اور ہڈیاں جنگل کے ٹھیکیدار کی ملکیت ہوتی ہیں، چنانچہ اُس نے فوجی افسر کو وکیل کی معرفت نوٹس دیا کہ وہ کھال اُسے واپس کردے ورنہ نالش کی جائے گی۔ فوجی افسر بے چارہ بدنامی سے ڈرگیا اور ٹھیکیدار کو
پانچ سوروپے دے کر اُس نے معاملہ ختم کردیا۔
ایک بار جنرل شیودیو سنگھ اور اُن کے بھائی گوربچن سنگھ شیر مارنے گئے۔ شکار کی اس مہم میں وہ ہم سے ہمارا ہاتھی بے مثال بھی مانگ کر لے گئے تھے۔ جنرل صاحب نے ایک بہت بڑا شیر زخمی کیا لیکن وہ گر کر سنبھل گیا اور قریب ہی گھنے جنگل میں گھس گیا۔ اس جنگل میں زخمی شیر کا پیدل تعاقب کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ چنانچہ انہوں نے ہاتھیوں پر سوار ہوکر زخمی شیر کو تلاش کرنا شروع کیا۔ ہاتھی کچھ دور تک تو جنگل میں گئے لیکن پھر انہوں نے آگے بڑھنے سے انکار کردیا۔ اس پر بے مثال کو آگے بڑھایا گیا۔ اور وہ بے دھڑک آگے بڑھتا چلا گیا مگر ایک خاص مقام پر پہنچا تو وہ بھی رُک گیا۔ اس کا مہاوت عمردراز خاں بہت سمجھ دار اور تجربے کار تھا۔ اس نے کہا کہ شیر غالباً یہیں کہیں ہاتھی کے قریب ہی ہے اس لیے ہاتھی یہاں رُک گیا ہے۔ اس پر شکاریوں نے وہاں پتھر پھینکنے شروع کیے۔
زخمی شیر کی عادت ہے کہ اگر اس کے نزدیک کوئی پتھر پھینکا جائے تو وہ فوراً گرجتا ہے لیکن یہاں پتھر پھینکنے کے باوجود کچھ نہ ہوا۔ تاہم عمردراز خاں کا اصرار تھا کہ شیر یقینا یہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ مرگیا ہو ورنہ ضرور بولتا اور حملہ کرتا۔ چنانچہ کچھ لوگ تلاش میں مصروف ہوگئے تو دیکھا کہ شیر بے مثال کے پائوں کے بالکل نزدیک ایک خندق میں مرا پڑا ہے۔ خندق تو کچھ زیادہ گہری نہ تھی لیکن شیر بہت وزنی تھا۔ اس لیے اب اُسے خندق سے نکالنے کا مسئلہ پیدا ہوا۔ چنانچہ مہاوت نے بے مثال کو اشارہ کیا اور اپنی بولی میں اُسے اُٹھانے کے لیے کہا۔ بے مثال اگلے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور سونڈ کو شیر کی کمر میںڈال کر اُسے باہر کھینچ لیا۔ یہ واقعہ بے حد عجیب و غریب اور ناقابلِ یقین تھا لیکن چونکہ جنرل صاحب نے بیان کیا تھا اس لیے اس پر یقین کرنا پڑا۔ بعدازاں مہاوت نے بھی اس کی تصدیق کی۔
بے مثال نہایت دلیر ہاتھی تھا۔ ہم جب بھی شیر کے شکار کو جاتے، وہ ہمیشہ ہمراہ ہوتا۔ قدرت نے ہاتھی کو بڑی ذہانت اور قوت سے نوازا ہے لیکن یہ دل گُردے کا ذرا کمزور ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کہیں شیر کا سامنا ہوجائے تو ہاتھی راستہ چھوڑ کر آگے بڑھنے سے انکارکردیتا ہے۔ زخمی شیر سے تو ہاتھی خاص طور پر ڈرتا ہے۔ لیکن بے مثال اس کے بالکل برعکس واقع ہوا تھا۔ اسے جب کبھی ہانکے کے لیے استعمال کیا جاتا، وہ بڑی دلیری سے یہ کام انجام دیتا بلکہ ہانکے میں شریک دوسرے ہاتھیوں کی بھی ایک خاص آواز کے ذریعے حوصلہ افزائی کرتا۔ شیر اگر زخمی ہوجاتا تو بے مثال تیر کی طرح اس کی جانب بڑھتا۔ اگر شیر حملہ کرتا تو قدم جما کر رک جاتا تاکہ اس پر بیٹھا ہوا شکاری شیر کا مقابلہ کرسکے۔
مہاراجہ جنید اور دیگر لوگ شیر کے شکار کی خاطر اُسے ہم سے مانگ لیا کرتے تھے۔ تقسیم کے بعد بے مثال کو ہم نے گھر پر چھوڑ دیا تھا۔ لیکن بعد میں حکومتِ پاکستان نے اُسے چڑیا گھر لاہور کے لیے منگوالیا۔ میں 1956ء میں لاہور گیا تو چڑیا گھر میں اُسے بھی دیکھنے گیا۔ وہ لوگوں سے دُور ایک احاطے میں کھڑا ہوا تھا۔ میں اس کے لیے خربوزے اور گُڑلے گیا تھا۔ میں نے دور سے اُسے مخصوص انداز میںپکارا۔ میری آواز سنتے ہی وہ معاً میری طرف مڑا اور بھاگتا ہوا میرے قریب آگیا۔ میں نے اُسے خربوزے اور گڑ پیش کیا تو وہاں سینکڑوں آدمی جمع ہوگئے۔ اب خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ ہاتھی کو دیکھنے آئے تھے یا ایک سردار جی کو۔ بہر کیف بے مثال خاصی دیر میرے پاس کھڑا رہا۔ وہ بار بار سونڈ سے مجھے سونگھتا کہ میں واقعی وہی ہوں یا کوئی اور۔ دو تین برس بعد میں پھر لاہور گیا لیکن میرے جانے سے کچھ عرصہ پہلے وہ مرچکا تھا بے مثال واقعی بے مثال تھا۔
بے مثال کو والدصاحب نے بلرام پور کے میلے سے پانچ ہزار روپے میں خریدا تھا۔ اُس وقت اس کی عمر دس برس کے قریب تھی۔ وہ ہمارے پاس تیس برس کے لگ بھگ رہا۔ مجھ سے وہ خاص طور پر مانوس تھا۔ مہاوت جب اُسے ٹیوب ویل پر پانی پلانے لاتا تو میں اپنے مکان سے اُس کا نام لے کر اسے پکارتا۔ وہ فوراً مہاوت کو چھوڑ کر میری جانب لپکتا۔ میں خربوزوں اور گڑ سے اُس کی تواضع کرتا۔ اس کے بعد مہاوت اسے لے جاتا، پانی پلاتا اور نہلاتا۔ ایک روز میں اپنے مکان کی چھت پر کھڑا تھا، جب وہ پانی پلانے کے لیے لایا گیا تو میں نے حسب معمول اس کا نام لے کر پکارا۔ وہ فوراً میری طرف لپکا لیکن میں چھت پر تھا۔ قریب ہی بہت وسیع زینہ تھا۔ مجھے یہ گمان بھی نہ تھا کہ ہاتھی اوپر چڑھ آئے گا لیکن وہ تو اوپر چڑھنے لگا۔ میں بھاگ کر زینے کی طرف آیا تاکہ اُسے روکوں لیکن وہ آخری سیڑھی تک آچکا تھا۔ اُس وقت ہر آن یہی خدشہ تھا کہ اگر ہاتھی نے چھت پر پائوں رکھ دیا تو کہیںچھت بیٹھ ہی نہ جائے۔ میں نے بڑی مشکل سے اُسے زینے میں روکا مگر سوال یہ تھا کہ اُسے کیسے گھمایا جائے تاکہ وہ نیچے اُتر سکے۔ اب میں نے بے مثال کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اسے آہستگی سے پیچھے دھکیلنا شروع کیا ۔ شکر ہے وہ پچھلے قدموں آہستہ آہستہ نیچے اُتر گیا۔ اتنے میں مہاوت بھی آگیا۔ خدا نے بڑا فضل کیا ورنہ ایک بہت بڑا حادثہ رونما ہونے میں کوئی کسر نہ تھی۔
ایک بار ضلع فیروز پور کے گائوں سبھرائوں کے لوگوں نے گورنمنٹ کو درخواستیں بھیجیں کہ جنگلی سوراُن کی تمام فصلیں تباہ کررہے ہیں۔ اُس کا تدارک کیا جائے۔ گورنمنٹ نے والدصاحب سے درخواست کی کہ وہ اُن کی مدد کریں۔ چنانچہ والدصاحب ایک اسپیشل ٹرین سے سینکڑوں شکاریوں کو لے کر وہاں پہنچے اور جنگل میںخیموں کا ایک شہر بس گیا۔ وہ چار روز وہاں رہے اور ان چار دنوں میں اُنہوں نے دوسو پچیس سور، درجنوں پاڑے اور نیل گایوں کا شکار کیا۔ انہوں نے یہاں ایک دن میں ستاسی سور ہلاک کیے جو ایک ریکارڈ ہے۔
سبھرائوں کا یہ جنگل وہاں واقع ہے جہاں دریائے ستلج اور بیاس ملتے ہیں۔ جنگل میلوں تک پھیلا ہوا ہے اور اُس میں ہر وقت کوئی نہ کوئی گروہ ڈاکوئوں کا موجود رہتا ہے۔ اس وقت بھی وہاں ایک زبردست گروہ موجود تھا۔ پولیس نے ہمیں آگاہ کردیا تھا اور محتاط رہنے کی ہدایت بھی کی تھی۔ والدصاحب نے اُن کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جب تک ہم وہاں شکار کھیلیں، پولیس والے نہ آئیں۔ ایک شام ہم لوگ شکار کے بعد اپنے کیمپ میں بیٹھے تھے کہ نوکروں نے اطلاع دی کہ کچھ لوگ والدصاحب سے ملنے آئے ہیں۔ یہ پندرہ سولہ آدمیوں کا ڈاکوئوں کا گروہ تھا۔ سب کے پاس ناجائز اسلحہ تھا۔ انہوں نے آتے ہی اپنی بندوقیں والدصاحب کے قدموں میں رکھ دیں۔ پھر فرش پر سرجھکا کر بیٹھ گئے۔ والدصاحب کے دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ ہم لوگ اس زندگی سے بیزار آچکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اب شریفانہ زندگی بسر کریں۔ اس معاملے میںآپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ آپ ہمیں سرکار سے معافی دلوادیں۔ والدصاحب نے وعدہ فرمایا اور انہیں اپنے ساتھ لے آئے۔انہوں نے آتے ہی ڈپٹی کمشنر اور ایس پی سے سارا ماجرا بیان کیا اور سفارش کی کہ ان ڈاکوئوں کو اپنی اصلاح کرنے کا موقع دیا جائے۔ معاملہ گورنر تک گیا اور ان سب کو معافی دے دی گئی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اُن میں سے ایک نے بھی معافی کے بعد کوئی جرم نہ کیا اورصحیح معنوں میں نیک شہری بن گئے۔
والد صاحب چونکہ ہندوستان کے مشہور شکاریوں میں سے تھے اس لیے جب بھی کسی جنگلی جانور سے لوگوں کو اذیت پہنچتی تھی، سرکار اُن کی خدمات حاصل کرتی تھی۔ اسی طرح ایک بار چکارا ہرنوں نے سَر سے کے علاقے میں اس قدر تباہی مچائی کہ کھیتوں کے کھیت برباد کردئیے۔ جوں ہی فصل اُگتی، ہرنوں کی فوج اُسے چٹ کر جاتی تھی۔ علاقہ تمام بارانی تھا، فصلیں بڑی مشکل سے اُگتی تھیں، اس لیے لوگ پریشان تھے۔ ان لوگوں کا ایک وفدوالدصاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور گزارش کی کہ اُنہیںہرنوں کے اس سیلاب سے نجات دلائی جائے۔ والدصاحب نے اُن سے معذرت کی کہ چونکہ سر سے کے ساتھ ریاست بیکانیر کی سرحد ملتی ہے اور ہرن دوڑ بھاگ کر ریاست میں داخل ہوجاتے ہیں اس لیے جب تک مہاراجہ بیکانیر کی اجازت حاصل نہ ہوگی ہم لوگ وہاں نہیں جاسکتے۔ چنانچہ مہاراجہ بیکانیر سے اجازت لی گئی اور والدصاحب اپنے شکاری لے کر وہاں پہنچ گئے۔ انہوں نے وہاں دس روز قیام کیا اور سینکڑوں ہرن جال لگوا کر پکڑوائے اور انہیں ایسے علاقوں میں منتقل کردیا جو ابھی آباد نہیںہوئے تھے۔ بہت سے ہرن شکار بھی کیے اور ایک روز میں سڑسٹھ ہرن مار کر ایک ریکارڈ اور قائم کردیا۔
والدصاحب کے شکاری الگ الگ علاقوں اور قوموں سے تعلق رکھتے تھے۔ بازدار راولپنڈی سے آتے تھے۔ چار مہینے بازوں سے شکار ہوتا اور باقی آٹھ مہینے بازدار انہیں کریز پر بٹھانے کے لیے اپنے گھر لے جاتے تاکہ وہ پُرانے پر گرا کر نئے نکال سکیں۔ لیکن بازداروں کو تنخواہ پورے سال کی ملتی۔ کتّوں کے شکاری سانسی اور بازی گر قوم کے لوگ تھے۔ رائے سنگھ سُور، مچھلی اور خرگوش کے ماہر شکاری تھے۔ یہ لوگ جال لگا کر سور کا شکار کرتے۔ جوں ہی سُورجال کے قریب آتا، اُس پر حملہ کردیتے تاکہ وہ بھاگ کر جال میں پھنس جائے۔ جیسے ہی وہ جال میں پھنستا، یہ اُس پر سوار ہوکر اُسے دبوچ لیتے۔ مچھلی کے شکار میں اُن کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ندی یا تالاب میںکود کر غوطہ لگاتے اور بغیر کسی جال کے خالی ہاتھوں سے بڑی بڑی مچھلیاں پکڑلیتے۔
ایک دفعہ میں کچھ امریکیوں کو اُن کا تماشا دکھانے لے گیا۔ یہ لوگ دریائے جمنا کے کنارے موجود تھے۔ ہمارے پہنچنے پر وہ دریا میں اُتر گئے اور جس طرح دھوبی تالاب میں کپڑے دھودھو کر باہر پھینکتا ہے اُسی طرح یہ غوطہ مارتے، مچھلیاںپکڑتے اور کنارے پر پھینک دیتے۔ امریکیوں نے اُن کی فلم بنائی اور اپنے ساتھ امریکہ لے گئے۔ شروع میں تو اُنہیں یقین نہ آتا تھا کہ خالی ہاتھوں بھی مچھلیاں پکڑی جاسکتی ہیں لیکن جب عملی مشاہدہ کیا تو یقین کرنا پڑا۔
٭٭٭

Popular Posts