بدھ، 3 اپریل، 2013

چینا گڑھ کا آدم خور شیر
نواب قطب یار جنگ
چینا گڑھ کا مشہور آدم خور شیر کسی مرے ہوئے سنار کی بدروح سمجھا جاتا تھا۔ اس موذی نے ایک سال میں ۷۸آدمی ہڑپ کیے۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس کے پیر میں چاندی کا کڑا ہے۔ ایک شکاری صاحب نے بتایا کہ اس کا رنگ سفید ہے۔ آدم خور کی تلاش اور ہلاکت میں کئی ماہ نکل گئے اور میں اس مسلسل دوڑ دھوپ سے سخت ہلکان ہوا۔ ناظم صاحب ڈاک خانہ، معتمد صاحب سیاسیات اور ناظم صاحب مال نے متعدد مراسلے لکھے اور ایک افسر دوست نے مجھ پر طنز بھی کیا:
"صاحب آپ اچھے شکاری بنے پھرتے ہیں۔ چھ ماہ ہوگئے اور ذرا سا شیر نہیں مارا جاتا!"
تاؤ تو بہت آیا، مگر میں کر بھی کیا سکتا تھا؟ کئی بار تو شبہ بھی ہوا کہ یہ موذی واقعی کوئی بد روح تو نہیں! ابھی سنا مغرب میں ہے، ادھر پہنچا تو مشرق میں دیکھا گیا۔ گویا یہ آدم خور دن بھر میں پچاس پچاس میل کی مسافت آسانی سے طے کرلیتا تھا۔
یہ بھی سنا گیا کہ وہ کمبل پوش لکڑی کاٹنے والوں پر متعدد بار حملہ آور ہوا۔ کئی آدمی اس شرط کے ساتھ کمبل اوڑھ کر لکڑی کاٹنے پر تیار ہوئے کہ میں اس درخت پر بیٹھوں۔ مگر میں نے ایسا خطرہ مول لینا مناسب نہ جانا، البتہ یہ ضرور کیا کہ لکڑی پر کمبل اوڑھا کر میں درخت پر بیٹھا اور کئی کلہاڑی والوں کو مختلف درختوں پر چڑھا کر ہدایت کی کہ لکڑی کاٹنے کی آواز پیدا کریں، مگر کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی اور کہیں آدم خور کا سراغ نہ لگا۔ اس عرصے میں حکومت کی جانب سے اس کی ہلاکت کا انعام بھی بہت معقول ہوگیا تھا۔
اس لالچ سے متعدد گاؤں اوردیہاتوں کے شکاری آدم خور کو ہلاک کرنے کے متمنی تھے مگر کم بخت کوئی تدبیر نہ کرتے۔ اگست ۱۹۲۲ء کا مہینہ تھا۔ بارش نہ ہونے کے باعث میں دورے پر روانہ ہوا۔ ایک مقام پر گھوڑے پر گزر رہا تھا کہ پٹیل پٹواری اور چند ادنیٰ طبقے کے لوگوں نے راستے میں بتایا کہ اس مقام سے تین میل پر صبح کے وقت آدم خور ایک آدمی کو اٹھا کر لے گیا اور اب اس قبیلے کے لوگ جنگل میں اسے تلاش کرنے گئے ہیں، لیکن ابھی تک ان میں سے کوئی واپس نہیں آیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ شیر لاش لے کر سامنے کے پہاڑ پر چڑھ گیا ہے۔ یہ پہاڑ اس مقام سے جہاں میں کھڑا تھا اندازاً تین میل ہوگا۔ میں نے فوراً پہاڑ کا رخ کیا۔ میرے پاس صرف ۱۵۰۰ ایکسپریس اور ریوالور تھے۔ راستے میں جو گاؤں والے ملے وہ بھی ساتھ ہولیے۔ ان میں بمٹونام کا ایک آدمی بھی تھا۔ اس کے پاس توڑے دار لمبی نال کی بندوق تھی۔ وہ نہایت جوش کے ساتھ میرے گھوڑے کے آگے آگے ہولیا۔ پہاڑ کے قریب پہنچے تو ہمیں ۲۷ آدمیوں کی ایک جماعت ملی۔ ان کے ساتھ تین جنگلی کتے بھی تھے۔ وہ ہمارے پاس آئے اور بیان کیا کہ پہاڑ کے بائیں طرف تک خون آلود کپڑے کی دھجیوں سے کچھ پتا لگا، آگے سراغ نہیں ملتا۔ نالہ پہاڑ کے نیچے بہت گہرا ہے۔ ممکن ہے شیر اسی نالے میں اترا ہو، مگر ہماری ہمت نہیں پڑتی۔ مجھے خیال گزرا غالباً اس قلیل عرصے میں شیر نے پوری لاش نہ کھائی ہو۔ اگر لاش کا بچا ہوا حصہ مل جائے تو شاید شیر پھر آئے اور مار کھا جائے۔
محض اس قیاس کے سہارے میں اس حصے تک پہنچا جہاں مقتول کے کپڑے کا ٹکڑا ملا تھا۔ یہاں پر دو آدمی اور منتخب کیے۔ ایک اپنا بندوق بردار اور دوسرا وہ توڑے دار بندوق والا۔ بقیہ سب لوگوں کو وہیں ٹھہر جانے کی ہدایت کی۔ یہاں سے میں اور میرے دونوں ہمراہی نہایت آہستہ آہستہ نالے کے دائیں کنارے کی طرف بڑھے۔
دوپہر کا ڈیڑھ بج گیا۔ ہم زیادہ سے زیادہ ڈھائی فرلانگ چلے ہوں گے کہ مجھے نالے کے اندر سے ہڈیاں چٹخنے کی آواز آئی۔ جوش اور ہوش و حواس کو پوری طرح کام میں لانے کی کوشش میں جو کیفیت طاری ہوتی ہے اس سے شکاری خوب واقف ہیں اور یہ معاملہ تو نہایت خبیث آدم خور کا تھا۔ دو تین منٹ تک میں نہایت توجہ سے کان کے پیچھے ہاتھ رکھ کر سنتا رہا۔
اس دوران تین مرتبہ اور صاف آواز آئی۔ معلوم ہوا شیر ہڈیاں چبارہا ہے۔ بس یہ اشارہ بہت تھا۔ شیر کے شکار میں سب سے ضروری جزو ان معلومات کا بہم ہونا ہے کہ شیر ہے کہاں؟ جب یہ مرحلہ طے ہوجائے تو ہلاکت کی تدبیریں سوچنا دوسرا کام ہے۔ چنانچہ شیر کا سراغ لگنے کے بعد میں فوراً اس جگہ سے چل کر آہستہ آہستہ گاؤں والوں کے پاس پہنچا۔ خوش قسمتی دیکھئے کیمپ والوں میں سے میرے شکاری میری بندوق سمیت پتا معلوم کرکے وہاں آگئے تھے۔ یہاں "کونسل آف وار" منعقد ہوئی اور طے پایا کہ ہانکا کیا جائے۔ شیر بہت چالاک ہے، کسی شخص کو پیدل اپنے تک پہنچنے نہ دے گا اور ذرا سے شبہ پر ہوا ہوجائے گا۔ ہانکا پہاڑ کی طرف کیا جانا چاہیے اور پہاڑ کے پائیں میں مجھ کو درخت پر بیٹھنا ہوگا، مگر مصیبت یہ کہ جھولا اور سیڑھی وغیرہ لانے میں بہت دیر ہوگی اور یہاں ایک ایک لمحہ قیمتی تھا، لہٰذا طے پایا کہ دو ایک گاؤں والے مدد دے کر مجھے درخت پر چڑھادیں گے اور وہ میرے ساتھ رہیں گے۔
ساتھیوں کے آجانے سے بڑی مدد ملی، ورنہ گاؤں والوں کو سمجھانے میں خاصی دقت ہوتی اور وقت باقی نہ رہتا۔ اس اسکیم پر فوراً عمل ہوا۔ میں دور کا چکر کھاکر شیر سے تقریباً دو سو گز آگے پہنچ گیا۔ اسٹاپ لگادئیے گئے اور جس قدر ہانکے والے فراہم ہوسکے ان کے ساتھ ہانکے کی لائن بن گئی۔ بدنصیبی ملاحظہ ہو کہ ایک درخت بھی ایسا نہ ملا جس پر میں سیڑھی کے بغیر چڑھ سکوں۔ مجبور ہوکر درخت کے نیچے اپنی جگہ تجویز کی اور سامنے چند شاخیں توڑ کر عارضی ٹٹی سی بنالی۔ میں اس ٹٹی کی شاخیں اور پتے درست کرنے میں مشغول تھا۔ بندوق اردلی کے ہاتھ میں تھی کہ یکایک میری دائیں جانب کوئی سوگز کے فاصلے پر پہلے دھت۔۔۔۔۔۔دھت، یعنی شیر کو ہانکنے کی اور اس کے ساتھ ہی شیر کی بھپکی کی نہایت دہشت انگیز آواز آئی۔اب ٹٹی درست کرنے کا وقت نہ تھا۔ اپنے ہوش وحواس درست کرنے تھے۔ فوراً اردلی کے ہاتھ سے بندوق لے لی، سیفٹی کیچ ہٹایا اور پوری طرح تیار ہوکر اس طرف دیکھنے لگا جدھر سے آواز آئی تھی۔ اس آواز کے یساتھ ہی ہانکے والوں نے جو اب تک اشارے کے انتظار میں خاموش کھڑے تھے، بغیر اشارے کے پوری قوت سے چلاّنا شروع کردیا۔ میں مسلسل اس طرف دیکھتا رہا جس طرف سے آواز آئی تھی اور ہر لحظہ موذی کے سامنے آنے کا خطرہ تھا۔ دل کی دھڑکن اس قدر تیز کہ میں سمجھا نشانہ خالی جائے گا۔ بہرصورت اس وقت کی حالت زبان سے بیان نہیں کی جاسکتی۔ بندوق لیے تیار کھڑا ہوں، ہانکے والے بہت آہستہ آہستہ بڑھ رہے ہیں یکایک اسی طرف سے فائر کی آواز آئی۔ مگر شیر نے آواز نہ نکالی۔ اول تو توڑے دار بندوق کی آواز صاف پہچانی جاتی ہے، دوسرے خالی جانے کی آواز جو بڑے بور کی بندوقوں میں بین طور پر پہچانی جاتی ہے اور سب سے بڑا غضب یہ کہ شیر کی خاموشی۔۔۔ان تینوں اسباب نے مل کر مجھے تقریباً مایوس کردیا۔
میں اقرار کرتا ہوں کہ مایوسی کے خیال نے میرے ہاتھ پیر یا یوں سمجھئے، اعصاب ڈھیلے کردئیے۔ اس فائر کی آواز کے بعد ہانکے والوں نے زیادہ زور لگایا۔ ان کی آوازیں دہشت اور جوش سے بھری ہوئی تھیں، مگر میں ذہنی طور پر پتھر کے بت کی مانند کھڑا تھا۔ شاید دو تین منٹ اس حالت میں گزرے ہوں گے کہ سردار خان نے میرے شانے پر ہاتھ رکھ کر ٹھیک میری جگہ سے ۹۰ڈگری پر اشارہ کیا۔ میں فوراً اس طرف پورا مڑگیا اور غور سے ادھر دیکھا، مگر کچھ نظر نہ آیا۔ سردار خان دبے لہجے میں بولا: "صاحب! سامنے کی زرد گھاس ہلتی ہوئی نظر آئی تھی۔ اس میں شیر ہے یا کوئی اور جانور، مگر ہے ضرور۔ اسی پر نگاہ رکھئے۔" میں دل میں خیال کررہا تھا کہ فائر کی آواز دوسری طرف سے آئی۔ شیر یہاں کیوں کر پہنچ گیا۔ دس بارہ سیکنڈ گزرے ہوں گے کہ صاف طور پر مجھ کو گھاس ہٹتی اور ہلتی محسوس ہوئی۔ اس امید افزا منظر نے پھر مجھ میں چستی پیدا کردی۔ میں نے سردارخان سے کہا،"فاصلہ کم ہے، مجھے بڑی بندوق دے دو۔"
اس متحرک گھاس کا فاصلہ ۹۰گز کے لگ بھگ ہوگا اور میں جانتا ہوں کوئی شیر اتنی دور سے حملہ نہیںکرتا۔ پھر بھی اس آدم خور کی شہرت اور اس کے قصے سن سن کر اس کا ایسا رعب دل پر غالب تھا کہ ہر حرکت اور ہر غیر معمولی مکاری کی اس سے توقع کی جاسکتی تھی۔ اعشاریہ ۵۷۷ہاتھ میں لیے مجھے مشکل سے پانچ سات سیکنڈ گزرے ہوں گے کہ پھر چار پانچ گز تک گھاس ہلتی نظر آئی اور جب ہلنا موقوف ہوا تو کچھ اس قسم کا احساس ہوا کہ میں نے پلک جھپکنے سے بھی کہیں قلیل وقفے میںکوئی چیز سفید اور مٹیالے سے رنگ کی دیکھی جو نگاہ پڑتے ہی پیچھے کی طرف ہٹ گئی۔ میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ درحقیقت میں نے کچھ دیکھا یا محض میرا تصور تھا، مگر اس کا فائدہ یہ ہوا کہ دل و دماغ اور تمام جسم کی کمانیاں پوری طرح کھنچ گئیں اور کامل ایک منٹ کے بعد میں نے پھر اس میلے، کچھ زرد اور کچھ سفید سیاہی مائل جسم کو گھاس کے بیچ میں اچھی طرح پیچھے کی جانب ہٹتے دیکھا اور اب کی مرتبہ یقینا دیکھا۔ دل و دماغ نے گواہی دی اور شکاری کی تمام حسوں نے خبردار کردیا کہ اب صحیح طور پر ہم سے کام لو۔ ہانکا ہورہا ہے مگر مجھے معلوم نہیں زور سے یا آہستہ۔۔۔ اور ہانکے والے کیا کہہ رہے ہیں؟ مجھے یہ بھی پتا نہیں کہ میں کتنی دیر گھاس پر نظریں جمائے رہا۔ آخرکار گھاس میں کوئی ۸۰ گز کے فاصلے پر حرکت ہوئی۔ میں مسلسل اسی طرف دیکھ رہا تھا۔ گھاس میں کہیں کہیں درخت تھے اور کہیں کہیں جھاڑیاں، مگر درخت بڑے اور تناور نہ تھے اور نہ جھاڑیاں گنجان تھیں۔ اگر کوئی جانور میری طرف بڑھنا چاہے تو اس گھاس میں سے گزرنا اس کے لیے لازمی تھا کہ تھوڑا فاصلہ میری نگاہ کے سامنے طے کرے۔ اس جانور کا اس وقت مقصد گھاس میں گزر کر جھاڑیوں کی آڑ میں جانا تھا۔ تجربہ کار اور پرانے شکاری جب ہرن کا پیچھا کرتے ہیں تو یہی طریقہ کام میں لاتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ جانور بھی اس طریقے سے واقف تھا اور پوری طرح اس عمل سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔
میں اور سردار خان اب پوری طرح سمجھ گئے تھے کہ اس گھاس میں شیر ہے۔ مگر نہ معلوم کیوں مجھے یہ خیال بھی نہ تھا کہ اس شیر کی نگاہ ہم پر ہے۔ تاہم میرے ساتھی کو یقین تھا کہ شیر ہم پر حملہ کرے گا۔ اپنے اس خیال کے ثبوت میں اس نے بتایا کہ میں نے بندوقیں درخت کے تنے پر رکھ دی تھیں کہ حملے کی صورت میں جلد ہاتھ میں لے سکوں، جھکنا نہ پڑے۔ غالباً اس کا یہ انداز اس امر سے لاعلمی پر مبنی تھا کہ اگر تیس گز سے زیادہ فاصلہ ہو، تو شیر حملہ نہیں کرتا۔
میری بہت بڑی غلطی یہ تھی کہ میں یہ احساس نہ کرسکا کہ شیر ہمیں شکار سمجھ کر چپکے چپکے حملہ کرنے کی تیاریاں کرے گا اور خاص طور پر ایسی حالت میں جب کہ ہانکا ہورہا ہو۔ میں سمجھ رہا تھا کہ اس نے اب تک ہمیںدیکھا ہی نہیں۔ ایک دو منٹ بعد پھر حرکت ہوئی۔ اگلی مرتبہ شیر سر نکالے بغیر جھاڑی کی آڑ میں آگیا، مگر جھاڑی گنجان نہ تھی، کہیں کہیں سے اس کا جسم نظر آتا تھا۔ ہانکے والے چونکہ روکے نہیںگئے، اس لیے وہ برابر آگے بڑھتے آئے اور پانچ منٹ میں ان کا بایاں حصہ شیر والی جھاڑی سے سو گز کے فاصلے پر پہنچ گیا۔
اس پانچ منٹ میں ہم نے کوئی حرکت نہ کی اور مسلسل جھاڑی کی طرف دیکھتے رہے۔ چند آدمیوں کے اس مقام پر پہنچتے ہی جسے میں سوگز کا خیال کرتا ہوں، شیر نے جھاڑی کی آڑ سے جست کی۔ یہ جست زیادہ بڑی نہ تھی مگر آواز کو بادل کی گرج سے تشبیہ دینا غلط نہ ہوگا۔ بجلی چمکنے کی صورت میں جس طرح تھوڑی سی دیر کے لیے گرج ہوتی ہے اور دو زبردست جسموں کے آپس میں رگڑنے کی آواز کا احساس ہوتا ہے، اس کے بعد کڑک ہوتی ہے، اسی طرح شیر نے اپنے حملے کا آغاز کیا۔ جست اور آواز دونوں ساتھ ساتھ واقع ہوئیں۔ غالباً جست کرنے میں یہ گرجدار آواز اس کے حلق سے نکلی۔ مجھ کو دونوں کا احساس وقت ِواحد میں ہوا۔
شیر کی اس دھاڑ سے بڑے بڑوں کا لہو خشک ہونے لگتا ہے اور اعصاب گویا سُن ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد شیر نے بلی کی طرح بلکہ زیادہ دبک کر اور جھک کر پنجوں سے مٹی اڑانی شروع کی اور مسلسل حلق سے غرغر کی آوازیں نکالتا رہا، پھر وہاں سے چل کھڑا ہوا۔ میں برابر اس کے اگلے حصے کو بندوق کی مکھی پر لیے رہا۔ اب کہہ نہیں سکتا کہ فائر کیوں نہ کیا۔ شاید فاصلہ زیادہ سمجھتا تھا۔ بہرحال تیس چالیس گز تک گیا اور آدھ سیکنڈ کے لیے رکا، پھر پوری طرح سنبھل کر چار گز کے قریب لمبی جست کی اور جست ہی کی حالت میں زور سے دھاڑا۔ اس جست سے جب زمین پر آیا تو پھر ذرا سا ٹھہرا اور دوسری جست کے لیے چار پانچ قدم تیز دوڑا، پھر چھلانگ لگائی اور ہوا میں معلق نظر آیا۔ میں نے ٹھیک آگے بڑھے ہوئے سر کے رخ پر تقریباً تین فٹ آگے فائر کردیا۔ خدا کا شکر کہ گولی دونوں آنکھوں کے بیچ میں ناک کی خط سے کوئی دو انچ اوپر لگی۔ ابھی شیر معلق تھا، اعشاریہ ۵۷۷ کے زور نے اسے پیچھے کی طرف پھینک دیا۔ دُم میری طرف ہوگئی اور سر زمین سے ٹکرایا۔ اس نے بہت خفیف جنبش کی جس طرح کسی کے ہاتھ پیروں میں لرزہ ہوتا ہے۔ اس لرزے کی صورت میں درندے کے منہ سے کچھ ایسی مہیب چیزیں باہر آئیں جن کا تصور سخت تکلیف دہ ہے۔ پندرہ منٹ انتظار کے بعد ہانکے والوں کا ایک جم غفیر لاش پر آیا۔ مقتول کے بھائی نے درندے کے پیٹ کی آلائش دیکھ کر جو باہر آگئی تھی چیخ ماری اور پھر میرے پیروں پر آن گرا۔ اسے سمجھا کر اٹھایا۔ تھوڑی دیر میں یہ اپنے رشتہ داروں سمیت ناچنے لگا۔ ناپنے سے معلوم ہوا کہ جس جگہ میں کھڑا تھا وہاں سے شیر کی لاش ۲۲گز کے فاصلے پر تھی۔ کھوپڑی پاش پاش ہوگئی تھی۔ یہ ایک بڈھا نر شیر تھا۔ اس کے سیاہ پٹے بال گر جانے کی وجہ سے ہلکے سیاہ، بلکہ بھورے ہوگئے تھے۔ بالوں میں چمک نہ تھی۔ جلد کی زرد زمین بھی خاصی میلی ہوگئی تھی اور بال اس قدر کم کہ اندر کی سطح خاکی اور سیاہی ملی ہوئی نظر آتی تھی۔ دُم کا گچھا باقی نہ رہا تھا۔صرف چند بال تھے جن کی وجہ سے دُم کا کنارا نوک دار نظر آتا تھا۔ کلائی میں چاندی کا کڑا جو مشہور تھا وہ کسی بیل یا جھاڑی سے رگڑ کا نشان تھا۔ اس جگہ کے بال کم ہوگئے تھے۔ دور سے دیکھنے والے کو اس پر سفیدکڑے کا گمان گزرا ہوگا۔ مہتمم صاحب نے بیان کیا تھا کہ یہ شیر سفید ہے۔ اس کی دُم کے قریب پٹھے پر دوانچ لمبے اور ایک انچ چوڑے گہرے زخم کا نشان تھا اور اس زخم کے نیچے دو سخت گلٹیاں ریٹھے کے بیج کے برابر تھیں۔ چلنے میں یہ گلٹیاں درندے کو کوئی تکلیف دیتی تھیں یا نہیں، معلوم نہیں ہوسکا، مگر بعض لوگوں نے بتایا کہ شیر پیچھے کا جسم جھکا کر چلتا تھا۔ میرا خیال ہے ابتدائے عمر میں کسی اناڑی شکاری نے درخت پر بیٹھ کر اس کے پٹھے پر گولی رسید کی ہوگی۔ ان دو گلٹیوں کو نکلواکر دیکھا۔ ان میں اوپر کی طرف تو چربی اور اندر کی جانب کچھ ایسا مادہ تھا کہ اسے مٹی بھی کہہ سکتے ہیں اور گلی ہوئی لکڑی کا برادہ بھی۔ بہرحال یہ محض قیاس ہے۔ اس کے تین دانت سالم تھے جو تیز اورنوک دار نہ تھے۔ شیر کے کانوں پر سیاہ بالوں کی منجاب ہوتی ہے، وہ نہ تھی اور سینکڑوں کیڑوں نے کان کی جگہ زخمی کردی تھی۔ یہ عبرت کی جاء ہے کہ شیر کے ہلاک ہوتے ہی ان میں خون چوسنے والے کیڑوں نے شیر کا جسم فوراً چھوڑ دیا۔ اس کا پورا قد ناک سے دُم کے آخری سرے تک ۹ فٹ چار انچ تھا۔
کسی نے اپنی توڑے دار بندوق سے اس پر فائر کیا تھا۔ وہاں سے جب یہ پلٹا تو اس نے غالباً ہمیں دیکھ لیا اور راہِ فرار کو مسدود پاکر وہیں چھپ گیا۔ یوں بھی صبح جس آدمی کو اس نے شکار کیا تھا اس کے گوشت سے اسے پیٹ بھرنے کا شاید موقع نہ ملا اور ابھی یہ بھوکا تھا، چنانچہ ہمیں نعم البدل سمجھ کر تاک میں لگ گیا۔ بہرحال تمام واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی میں یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ کوئی درندہ ستّر یا اسّی گز دور سے حملہ کرنے کی کوشش کرے۔ میرا خیال ہے یہ صرف اپنی جان بچانا چاہتا تھا۔ راہ میں ہم مل گئے۔ آدم خوری کی بد عادت نے اسے یہ سُجھایا کہ آؤ انہی کو مار لو۔ اس کے پچھلے پیر کا ناخن ٹوٹا ہوا اور خون سے تر تھا۔
٭٭٭

Popular Posts