جمعرات، 18 جولائی، 2019

پانار کا آدم خور چیتا
مقبول جہانگیر
پانار کا آدم خور چیتا یقیناً ایسی بَلا تھی جس سے معصوم اور سیدھے سادھے انسانوں کو نجات دلانے کے لیے مجھے بڑی تگ و دَو کرنی پڑی۔ چار سو افراد کو ہڑپ کر لینے کے باوجود اس درندے کی صفتِ خوں آشامی جوان تھی اور اسکی ہلاکت خیز سرگرمیوں کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا تھا۔ یہ ذکر ہے 1907ء کا اور اُن دنوں مَیں کچھ زیادہ تجربے کار شکاری بھی نہ تھا۔ جنگل کا چلن اور طور طریقے سمجھنے کے لیے ایک مُدّت درکار تھی۔ سب سے پہلے جس آدم خور سے مجھے دو دو ہاتھ کرنے پڑے، وہ چمپاوت کی شیرنی تھی۔ اس کا ذکر مَیں پہلے کر چکا ہوں اور یہ بھی بتا چکا ہوں کہ انہی دنوں ضلع الموڑہ کے مشرقی علاقے پانار میں ایک چیتے کے اودھم مچانے کی خبریں میرے کانوں میں پہنچی تھیں۔ مَیں نے ارادہ کیا تھا کہ چمپاوت کے آدم خور کا قِصّہ پاک کرنے کے بعد پانار کے چیتے کی طرف توجّہ دوں گا۔ اس درندے نے واقعی بستی کی بستیاں ویران کر ڈالی تھیں۔
چیتے کے بارے میں مجھے کچھ زیادہ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں، اس جانور کے بارے میں بہت کچھ کتابوں میں لکھ چکا ہوں۔ میرے علاوہ اور بہت سے شکاریوں نے بھی اس درندے کے متعلق اپنے چشم دید واقعات بیان کیے ہیں، لیکن پانار کا آدم خور چیتا جو چار سَو انسانوں کا خون پی چکا تھا، کسی اور ہی مٹی کا بنا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ اُس نے جس انداز میں اپنا بچاؤ کیا اور انسانوں کو ہلاک کرنے کے ساتھ ساتھ میرے تعاقب میں بھی لگا رہا، اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس کی صلاحیتیں عام چیتوں کی نسبت کچھ زیادہ مختلف ہیں۔ کئی مرتبہ ایسا ہُوا کہ اس نے مجھے نہایت مکاری سے گھیرے میں لے کر مار ڈالنا چاہا، لیکن قسمت کی خوبی کہ مَیں ہر بار مَوت کے مُنہ سے بچ نکلا۔ عام چیتے کی فطرت یہ ہے کہ وہ کسی منصوبے کے تحت انسانوں یا جانوروں پر حملہ نہیں کرتا، بلکہ اچانک آن پڑتا ہے، لیکن پانار کا آدم خور چیتا اپنے شکار پر حملہ کرنے کے لیے پہلے سے منصوبے باندھتا تھا۔ اس کی یہ خاصیّت حیرت انگیز تھی۔ دوسری خصوصیت یہ تھی کہ پیش آنے والے واقعات کا پہلے سے اندازہ کر کے اپنی حفاظت کا بندوبست کر لیتا۔ خُدا ہی جانتا ہے کہ اُس میں یہ نادر حِس کیسے پیدا ہوئی۔ سچ پوچھیے تو اپنی اسی خوبی کی وجہ سے وہ اتنے عرصے تک ہلاک ہونے سے محفوظ رہا۔ اُس میں صبر و استقلال کا مادّہ بھی حد سے زیادہ تھا۔ اس مہم کے دوران میں ایک مرتبہ جب میں نے اُس کی ناکہ بندی کی، تو وہ چار دن تک اپنی کمین گاہ میں بُھوکا پیاسا چھپا رہا اور ایک لمحے کے لیے بھی باہر نہ نکلا۔ انسانوں کا گوشت کھا کھا کر اور لہو پی پی کر اُس کے قد و قامت، قوت و خونخواری میں بے پناہ اضافہ ہو چکا تھا۔ حتیٰ کہ ایک مرتبہ کسی شیر نے اس کے منہ سے شکار چھیننے کی کوشش کی، تو چیتا مقابلے پر ڈٹ گیا اور چند منٹ کے اندر اندر شیر کو لہولہان کر کے میدانِ جنگ سے بھاگ جانے پر مجبور کر دیا۔
دن کے وقت وہ شاذ و نادر ہی باہر نکلتا، لیکن رات ہوتے ہی اس کی آواز سے جنگل لرزنے لگتا۔ بندروں کا جانی دشمن تھا اور آدم خور بننے سے پہلے اس نے جنگل سے بندروں کا بڑی حد تک صفایا بھی کر دیا تھا۔ بندر بھی اس کی تاک میں رہتے اور جونہی وہ اپنے ٹھکانے سے برآمد ہوتا، چیخ چیخ کر آسمان سر پر اُٹھا لیتے۔
یہ تھے وہ حالات جن کی موجودگی میں مَیں نے پانار کے اس آدم خور چیتے سے دو دو ہاتھ کرنے فیصلہ کیا۔ چمپاوت کی آدم خور شیرنی کو ٹھکانے لگانے کے بعد جب میں اپنے گھر واقع نینی تال واپس آیا، تو پانار کے آدم خور کا تصور میرے دل و دماغ پر بیٹھا ہوا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ ایکھ دو روز آرام کر لینے کے بعد نئی مہم پر نکلوں گا۔ کیونکہ یہ درندہ الموڑہ کے مشرقی دیہاتوں اور قصبوں میں انسانی خون کی ہولی کھیلنے چمپاوت کی شیرنی سے بھی بازی لے گیا تھا۔ اسی دوران میں نینی تال کے کمشنر نے مجھے بُلوا بھیجا اور بتایا: "مکتیسر کے علاقے میں ایک آدم خور شیر نے تباہی مچا رکھی ہے، فوراً وہاں پہنچو اور اُس موذی کو کیفر کردار تک پہنچاؤ، ورنہ میری نوکری جاتی رہے گی۔" کمشنر صاحب کو انسانوں کی جان جانے کی اتنی پروا نہ تھی جتنی اپنی نوکری کی۔ حُکمِ حاکم مرگِ مفآ جات، میں تعمیل کے لیے مکتسر روانہ ہوا اور پندرہ روز کی تھکا دینے والی تگ و دو کے بعد اس آدم خور کو ہلاک کیا۔ مکتسر سے واپس آ کر کمر کھولنے بھی نہ پایا تھا کہ الموڑہ کے ڈپٹی کمشنر میری گردن پر سوار ہو گئے۔ میں سمجھ گیا کہ وہ کس مقصد کے لیے آئے ہیں۔ انہیں اطمینان دلایا کہ جلد از جلد اس چیتے کو ختم کرنے کی کوشش کروں گا۔ کرنے کو تو میں نے اُن سے وعدہ کر لیا تھا، مگر پریشان تھا کہ یہ مہم کامیاب کیوں کر ہو گی۔ کیونکہ مجھے اس سے پیشتر الموڑہ کے علاقہ میں جانے کا اتفاق نہیں ہوا تھا اور نہ مَیں مختلف راستوں سے آگاہ تھا۔ میں نے اس مشکل کا ذکر ڈپٹی کمشنر الموڑہ سے کِیا تو انہوں نے ازراہِ کرم ضلع الموڑہ کے چند نقشے تیار کرا کے مجھے دیے جس میں دیہاتوں، گاؤں، ندّیوں، نالوں، کچی سڑکوں اور پگ ڈنڈیوں کو خوب واضح کر دیا گیا تھا۔ نقشہ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ جس مقام پر چیتے نے ہلاکت خیز سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں اس مقام تک پہنچنے کے لیے دو راستے زیادہ محفوظ ہیں: ایک پتھوراگڑھ روڈ سے براستہ پانوالہ اور دوسرا دیبی دھورا روڈ سے براستہ لام گرا۔ غور و فکر کے بعد میں نے دوسرا راستہ تجویز کیا۔ ساز و سامان درست کیا اور دوپہر کو کھانا کھانے کے بعد منزل کی طرف چل پڑا۔ میرے ساتھ سامان اٹھانے کے لیے چار قُلی اور ایک میرا ذاتی ملازم تھا۔ پہلے ہی روز ہم نے چودہ میل کا فاصلہ پیدل طے کیا۔ آدھی رات کو، جبکہ آسمان پر چودھویں کا چاند روشن تھا، ہم ایک گاؤں کے نزدیک پہنچے اور ایک اسکول کی عمارت کے سامنے جا کر رُکے، یہ عمارت نہ جانے کب سے ویران اور بے آباد پڑی تھی۔ ہر طرف خود رو جھنکاڑ نظر آتا تھا۔ صحن میں چوہُوں اور حشرات الارض کے بے شمار بل دکھائی دیے۔ ہم نے وہیں ڈیرے ڈال دیے۔ چونکہ خیمے وغیرہ ساتھ لے کر نہ چلے تھے اس لیے کُھلے آسمان کے نیچے رات کاٹنی پڑی۔ صحن اندازاً بیس فٹ چوڑا تھا اور اس کے تینوں طرف دو فٹ اونچی دیوار کھچی ہوئی تھی۔ چُونکہ آدم خور کا علاقہ ابھی کئی میل دُور تھا، اس لیے میں نے بے پروا ہو کر قلیوں اور ملازم کو اس صحن میں سو جانے کی ہدایت کی، مگر انہوں نے تھوڑی دیر بعد شکایت کی کہ گرمی زیادہ ہے اور مچّھر چین نہیں لینے دیتے۔۔۔ کھانا بھی ابھی تک نہ کھایا تھا! چنانچہ قلی گئے اور اسکول کے پچھواڑے سے خشک لکڑیاں اور گھاس پھونس جمع کر کے لے آئے، الاؤ روشن کر دیا گیا۔ میرے ملازم نے تھیلے میں سے گوشت کا کچا ٹکڑا نکالا اور آگ پر بُھوننے لگا۔ میں اسکول کے اندرونی دروازے سے کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور پائپ پینے لگا۔
فضا پر ہیبت ناک سکوت طاری تھا اور جنگل خاموش خاموش۔ درختوں پر بسیرا کرنے والے پرندے بھی چُپ چُپ تھے، البتہ جلتی ہوئی لکڑیوں کے چٹخنے کی آواز تھی جو اس سکوت کو توڑ رہی تھی۔ بھنے ہوئے گوشت کی خوشبو نے میرے معدے میں آگ لگا دی۔ چند منٹ بعد گوشت بھن کر تیار ہو گیا اور میرا ملازم کاغذ پر وہ لوتھڑا رکھ کر تھیلے سے روٹیاں نکالنے کے لیے اٹھ کر سامان کی طرف گیا۔ اس کے ہٹتے ہی دیوار پر سے ایک چیتے نے سر اٹھایا۔ ایک لحظے کے لیے میری اور اس کی آنکھیں چار ہوئیں اور دہشت سے میرا بدن پتھر ہو گیا۔ مَیں نے اپنے آدمیوں کو آواز دینے کی کوشش کی، مگر حلق سے آواز نہ نکلی۔ چشم زدن میں چیتا صحن میں آن کودا اور گوشت کا لوتھڑا منہ میں دبا کر جدھر سے آیا تھا، دبے پاؤں اسی طرف کو غائب ہو گیا۔ میں اسی طرح بے حس و حرکت اپنی جگہ پر بیٹھا رہا۔ اتنے میں ملازم روٹیاں لے کر پلٹا، تو گوشت کا بھنا ہوا ٹکڑا غائب تھا۔ اس نے حیرت سے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ اب مجھے ہوش آ چکا تھا، مَیں نے ہنس کر کہا:
"وہ تو چیتا لے گیا’
"چیتا؟" اُس کے چہرے پر خوف کے آثار نمودار ہوئے۔ گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ پھر بولا:
"آپ مذاق کرتے ہیں صاحب، چیتا یہاں کہا۔۔۔ ابھی تو وہ علاقہ بہت دُور ہے۔’
مَیں اپنی جگہ سے اٹھا، حیران پریشان ملازم کا ہاتھ پکڑا اور دیوار کے اس حصّے کی طرف لے گیا جہاں سے چیتا کود کر اندر آیا تھا۔ خشک مٹی پر اس کے پنجوں کے نشان فوراً نظر آ گئے۔ ان نشانوں کو دیکھ کر ملازم کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ بولا:
"آہٹ تو میں نے بھی سنی تھی صاحب، لیکن میں سمجھا کوئی اور جانور ہو گا۔’
"چلو خیر کھانے کے لیے مجھے کچھ اور دے دو، گوشت کا وہ بُھنا ہوا لذیذ ٹکڑا چیتے کے مقدر کا تھا وہ لے گیا۔ صبر کے سوا چارہ ہی کیا ہے۔’
اگلی صبح ہم اس بستی میں داخل ہوئے جس کا نام دیبی دھورا تھا۔ یہاں رک کر چیتے کے بارے میں تازہ خبریں لوگوں سے سنیں، کھانا کھایا اور رخصت ہوئے۔ چیتے کی سلطنت کی سرحدیں ابھی کچھ دور تھیں۔ شام کے وقت ڈول ڈھک کے بنگلے پر پہنچے۔ اب ہم خطرناک علاقے میں داخل ہو چکے تھے۔ ہماری آمد کی خبر بستی اور گاؤں گاؤں پھیل رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ لوگ اپنی قدیم جہالت اور سادگی کے باعث چیتے کو بدروح سمجھے ہوئے ہیں۔ اسے ختم کرنے کی تدبیریں اختیار کرنے کی بجائے چپ چاپ اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ چیتے کی سرگرمیاں اس حد تک وسیع ہو چکی تھیں کہ اِکّا دُکّا آدمی کی تو ہستی ہی کیا، بیس بیس، تیس تیس افراد کی ٹولی پر اچانک آن پڑتا اور کسی نہ کسی کو پکڑ کر لے جاتا تھا۔ ڈول ڈھک کے لوگوں نے بتایا کہ چیتا آج کل اسی علاقے میں پھر رہا ہے اور پندرہ روز سے سب لوگ اپنے اپنے جھونپڑوں اور کچے مکانوں میں بند پڑے ہیں، پینے کا پانی ختم ہو چکا ہے۔ گاؤں سے باہر دو کنوئیں ہیں، لیکن وہاں تک جانے کی کوئی شخص جرأت نہیں کرتا، اِن کنوؤں پر چیتا اب تک بآ رہ افراد کو ہلاک کر کے ہڑپ کر چکا ہے جن میں چار لڑکیاں بھی شامل ہیں۔
مَیں نے ان تمام مقامات کا بغور جائزہ لیا جہاں چیتا گھومتا پھرتا دیکھا گیا تھا۔ ہر جگہ مجھے اُس کے پنجوں کے نشان دکھائی دیے۔ خیال تھا کہ بہت جلد میرا آمنا سامنا ہو گا، لیکن ایسا نہ ہوا۔ پتہ چلا کہ چیتا دن کے وقت مغرب کی جانب کوئی پندرہ میل دور ایک ویران بستی میں آرام کرنے چلا جاتا ہے اس بستی میں دس پندرہ گھر تھے۔ آبادی بمشکل پچاس ساٹھ افراد پر مشتمل ہو گی، لیکن ظالم درندے نے ان میں سے نصف افراد کو کھا لیا تھا، بقیہ اپنی جانیں بچانے کے لیے بڑی بستیوں کی طرف گھربار چھوڑ کر بھاگ گئے۔
تیسرے روز مَیں اس ویران بستی میں پہنچا، کچّے مکان اور جھونپڑے ویسے کے ویسے اپنی جگہ قائم تھے۔ ان میں ضرورت کی چیزیں جُوں کی توں پڑی تھیں۔ چارپائیاں، بستر، برتن، کھانے پینے کی چیزیں اور نہ جانے کیا اَلا بَلا۔ چند مریل سی گائیں بھینسیں اور کُتے بھی اِدھر اُدھر چل پھر رہے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بستی والے نہایت افراتفری کے عالم میں یہاں سے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
اس بستی کو آنے والی ایک بڑی پگڈنڈی پر مَیں نے چیتے کے پنجوں کے تازہ نشان دیکھے، ان کی پیمائش اور درمیانی فاصلے سے اندازہ ہوا کہ ہمارے حریف کا قد دُم سے لے کر ناک تک تقریباً 9 فٹ لمبا اور ساڑھے تین فٹ اونچا ہے۔ ایک مقام پر انسانی لاش کے چند بچے کھچے اجزا بھی پڑے ہوئے تھے۔ یہ اجزا چار پانچ روز قبل کے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چیتا کسی اور جگہ سے اپنا شکار لایا اور یہاں بیٹھ کر ہڑپ کیا۔
جنگل کے بالکل سرے پر ایک منزلہ پختہ مکان دکھائی دیا۔ ہم قریب پہنچے، تو چھوٹے سے برآمدے میں ایک بائیس تیئس سال کا نوجوان نمودار ہوا اور لکڑی کی چار پانچ سیڑھیاں اُتر کر صحن میں آن کھڑا ہوا۔ میں حیران تھا کہ اس خطرناک مقام پر یہ نوجوان تنِ تنہا کیا کر رہا ہے۔ پاگل ہے یا اسے چیتے کا ڈر نہیں۔ جب وہ قریب آیا، تو میں نے دیکھا اس کی آنکھیں سوجی ہوئی ہیں اور چہرے پر ایسے اثرات ہیں جو اس کے اندرونی رنج و غم کو ظاہر کر رہے ہیں۔ آتے ہی وہ میرے قدموں پر گر پڑا اور زاروزار رونے لگا۔ میں نے اُسے اٹھایا، دلاسا دیا اور پوچھا کہ اس پر کیا افتاد پڑی اور وہ اس ویران بستی میں کیا کر رہا ہے۔ اس نے جواب میں جو دل دوز داستان سنائی، اسی کے الفاظ میں کچھ یوں تھی:
"صاحب، کیا بتاؤں یہ میری بے وقوفی کا نتیجہ ہے۔ دوسرے لوگ تو یہاں سے چلے گئے۔ انہوں نے مجھ سے بھی کہا تھا کہ یہ علاقہ چھوڑ دوں اور کسی دوسری جگہ چلا جاؤں، ورنہ چیتا تمہیں زندہ نہ چھوڑے گا۔ میں نے ان کی ایک نہ سنی۔ میں سمجھتا تھا کہ میرا مکان مضبوط ہے اور چیتا اس میں داخل نہ ہو سکے گا۔ پرسوں رات کا ذکر ہے، میں اور میری بیوی کمرے میں سو رہے تھے۔ نہ جانے کیسے دروازہ کُھلا رہ گیا۔ گذشتہ کئی راتوں سے وہ اس مکان کے آس پاس پھر رہا تھا، لیکن دروازہ بند ہونے کے باعث اندر نہ آ سکتا تھا، مگر کل رات ہماری غفلت کے باعث اسے موقع مل گیا۔ آدھی رات کا وقت تھا کہ چیتا دبے پاؤں کمرے میں آیا، اس نے میری بیوی گلا منہ میں دبایا اور گھسیٹ کر لے جانے لگا۔ اس کی چیخیں سن کر میری آنکھ کُھل گئی اور مَیں نے لپک کر اپنی بیوی کو پکڑ لیا۔ یہ سب کچھ آناً فاناً ہوا۔ چیتا کچھ گھبرا سا گیا، وہ پیچھے ہٹا اور دروازے سے باہر نکل کر غرّانے لگا۔ میں نے لپک کر دروازہ بند کر دیا۔ رات کا بقیہ حصّہ وہ برآمدے میں پہرہ دیتا رہا اور دروازہ توڑنے کی کوشش کرتا رہا۔ میری بیوی کی حالت خراب ہو گئی۔ اس کی گردن کے زخم سے خون مسلسل بہہ رہا تھا اور مجھے یقین تھا کہ وہ زیادہ دیر زندہ نہ رہے گی۔ سورج نکلنے سے کچھ دیر پہلے چیتا چلا گیا۔ میں تمام دن اپنے کمرے سے باہر نہ نکلا۔ ڈر تھا کہ چیتا آس پاس چُھپا ہوا ہو گا اور مجھ پر حملہ کر دے گا۔ میری بیوی پر غشی کی حالت طاری ہے، وہ اب آخری دَموں پر ہے، اس کے جسم سے بہت خون نکل گیا ہے۔’
مَیں اس شخص سے صرف اتنا کہہ سکا کہ اُسے ان حالات میں یہاں نہیں رہنا چاہیے۔ بہتر یہی تھا کہ دوسرے آدمیوں کے ساتھ وہ بھی کہیں اور چلا جاتا۔ بہرحال جو ہونا تھا، ہو گیا، اب تو عورت کو بچانے کی تدبیر کرنی چاہیے۔ میں نے مکان میں جا کر اُس کی بیوی کو دیکھا۔ اس کی عُمر زیادہ سے زیادہ اٹھارہ انیس سال ہو گی۔ نہایت حسین اور صحت مند لڑکی تھی۔ زخموں کے نشان اس کی گردن پر تھے اور خون جم کر سیاہ ہو چکا تھا۔ وہ لاش کی مانند بے حِس و حرکت پڑی تھی۔ اس کی چھاتی پر ایک گہرا زخم آیا تھا۔ کمرے میں کوئی کھڑکی نہ ہونے کی وجہ سے انتہائی حبس تھا اور بے شمار مکّھیاں بے ہوش لڑکی کے زخموں پر بھنبھنا رہی تھیں۔ اس کی حالت سے ظاہر ہوتا تھا کہ بچنے کا امکان واقعی بہت کم ہے، تاہم میں نے لڑکی کے زخم دھوئے۔ اپنے بکس میں سے ایک مرہم نکال کر لگایا اور پٹیاں باندھ دیں۔ اسی اثنا میں لڑکی کسی قدر ہوش میں آ گئی اور سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھنے لگی۔ اس کے شوہر نے مختصر الفاظ میں میرے بارے میں بتایا۔
اب سوال یہ تھا کہ اُن دونوں کو محفوظ جگہ پر کیسے پہنچایا جائے۔ نوجوان نے کہا وہ یہاں سے جانے کے لیے تیار ہے بشرطیکہ میں اسے اپنی حفاظت میں لے جاؤں۔ اس کی سُسرال یہاں سے تقریباً سات میل دُور تھی۔ میں نے کہا وہ اپنا ضروری سامان باندھ لے۔ آدھ گھنٹے کے اندر اندر ہم چلنے کے لیے تیّار کھڑے تھے۔ اس کی بیوی کو چارپائی پر لٹایا گیا اور میرے ساتھ آئے ہوئی قلی باری باری اُسے کندھوں پر اُٹھا کر چلتے رہے۔ راستے میں تین مقامات پر مَیں نے چیتے کے پنجوں کے نشان دیکھے۔ ایک جگہ انسانی کھوپڑی اور سُوکھی ہوئی انتڑیاں بھی پڑی نظر آئیں۔
تیسرے پہر ہم اُس بستی میں پہنچ گئے جو ابھی تک چیتے کی خوں آشام سرگرمیوں سے محفوظ تھی۔ اس بستی کے محفوظ ہونے کی بڑی وجہ وہ ندیاں تھیں جو اُسے دونوں طرف سے گھیرے ہوئے تھیں۔ گرمی کے باعث ندیوں میں پانی کم تھا۔ چیتے کو بستی تک پہنچنے کے لیے بہرحال اِن ندیوں میں سے گزرنا پڑتا اور غالباً یہ مشقت اسے پسند نہ تھی۔ لوگوں نے لکڑی کے بنے ہوئے پُل توڑ کر ان کی جگہ رسّیوں کے پُل باندھ دیے تھے، لیکن ہمیں تین فٹ گہرے پانی میں سے گزرنا پڑا، کیونکہ زخمی عورت کی چارپائی اٹھا کر رسّی کے پل پر سے گزرنا مشکل تھا۔
اس بستی میں گردونواح کی کٹی آبادیوں کے ڈرے اور سہمے ہوئے لوگ جمع تھے۔ ہر خاندان کا ایک نہ ایک شخص آدم خور چیتے کا نوالہ بن چکا تھا اور سبھی لوگ اپنی اپنی کہانیاں سنانے کے لیے بے چین تھے۔۔۔ میں نے دیر تک ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا اور انہیں بتایا کہ میں واپس ڈول ڈھک جا رہا ہوں، مجھے یقین ہے چیتا وہاں رات کو ضرور آئے گا اور میں اسے ہلاک کر سکوں گا۔ لوگ یہ سن کر حیرت زدہ گئے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اکیلا شخص کس طرح اس درندے کو مار سکے گا۔ انہوں نے تو راجوں مہاراجوں اور نوابوں کو دیکھا تھا کہ وہ کس طرح اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ جنگل میں آتے ہیں اور شیروں کا شکار کرتے ہیں۔ دراصل ان کا خیال تھا کہ حکومت نے گوروں کی فوج بھیجنے کا ارادہ کیا ہے اور میں صرف حالات کا جائزہ لینے آیا ہوں۔
مَیں نے اپنے آدمیوں کو وہیں ٹھہرنے کی ہدایت کی اور خود ڈول ڈھک کی طرف واپس روانہ ہوا۔ مَیں سورج چھپنے سے پہلے پہلے اس مکان میں پہنچ جانا چاہتا تھا، لیکن ہر ممکن کوشش کے باوجود ایسا نہ ہوا۔ میں راستہ بُھول کر کہیں اور جا نکلا۔ تین گھنٹے تک جنگل میں بھٹکنے کے بعد آخر ڈول ڈھک پہنچا۔ تھکن اور خستگی کے باعث اتنا نڈھال ہو چکا تھا کہ اگر چیتا اس وقت نمودار ہوتا، تو مَیں مدافعت کرنے کے قابل نہ تھا۔ ہر طرف بھیانک سنّاٹے اور تاریکی کا راج تھا۔ اردگرد کھڑے ہوئے درخت اس اندھیرے میں دیووں اور بھوتوں کی مانند نظر آ رہے تھے۔ آسمان پر چمگادڑیں پرواز کر رہی تھیں اور کبھی کبھار بندروں کے چیخنے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ میں نے مکان کے اندر جا کر دیا جلایا، مٹی کے تین چار گھڑے پانی سے بھرے رکھے تھے، اطمینان سے نہایا، پھر اپنا سامان کھول کر بسکٹ کا ڈبّا نکالا، چند بسکٹ کھائے، پانی پیا اور بندوق سنبھال کر باہر برآمدے میں آ گیا۔ مشرق کی طرف سے آہستہ آہستہ روشنی پُھوٹ رہی تھی۔ میں نے اندازہ لگایا کہ ڈیڑھ گھنٹے بعد چاند اس مکان کے عین اُوپر آ جائے گا۔
نوجوان نے مجھے بتایا تھا کہ چیتا کمرے کا دروازہ توڑنے کی کوشش کرتا رہا تھا، ممکن ہے آج پھر وہ ایسا ہی کرے۔ اس وقت تک اُس کا کچھ پتہ نہ تھا کہ کہاں ہے۔ میں نے دَروازہ باہر سے بند کر دیا اور برآمدے کے ایک اندھیرے کونے میں ایسی جگہ جا بیٹھا جہاں سے میں تو چیتے کو دیکھ سکتا تھا، لیکن اسے میری موجودگی کا فوراً احساس نہ ہوتا۔ میری نظروں کے عین سامنے جھاڑیاں جھاڑیاں پھیلی ہوئی تھیں اور ان میں جنگلی چُوہے اور گیدڑ حرکت کر رہے تھے۔ آدھ گھنٹے بعد چاند کی روشنی اس حد تک پھیل گئی کہ تقریباً پچاس فٹ دُور کا منظر بخوبی نظر آنے لگا۔
یکایک مشرق کی جانب سے ایک گیدڑ چِلّایا۔ رات کے اس بیکراں سناٹے میں چلّانے والے گیدڑ کی آواز بہت دُور سے آئی تھی، لیکن معلوم یُوں ہُوا جیسے گیدڑ مکان کے پچھواڑے میں ہے۔ معمولی معمولی وقفوں سے گیدڑ چلّاتا رہا، یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ کوئی درندہ جنگل میں گشت کرنے نکل آیا ہے۔ میں اپنے گوشے میں اور اچھی طرح دبک گیا۔
چیتا جب رات کو شکار کے لیے نکلتا ہے تو ایک میل کا فاصلہ طے کرنے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے، وہ آہستہ آہستہ نہایت صبر و استقلال کے ساتھ قدم بڑھاتا اور ذرا سی آہٹ پر چوکنّا ہو کر وہیں رُک جاتا ہے۔ پھر اُس وقت تک آگے نہیں بڑھتا، جب تک "خطرہ، ٹل جانے کا احساس نہ ہو جائے۔ وقت چیونٹی کی طرح رینگ رہا ہے۔ مَیں اپنی جگہ بے حِس و حرکت بیٹھے بیٹھے اُکتا گیا۔ گیدڑ مسلسل چِلّا رہا تھا، خبردار کر رہا تھا کہ ہوشیار دُشمن آن پہنچا۔۔۔ دُشمن آن پہنچا۔۔۔ گیدڑ کی آواز میرے دماغ پر جیسے ہتھوڑا بن کر پڑ رہی تھی، میں دل ہی دل میں اس منحوس جانور کو گالیاں دینے لگا جو خواہ مخواہ چِیخ کر میرے اعصاب کو شکستہ کر رہا تھا۔
تین بجے تھے کہ چاند اس مکان کے بالکل اُوپر آ گیا اور پھر تیزی سے مغرب کی طرف جھکنے لگا۔ گیدڑ نہ جانے کب خاموش ہوا، مجھے کچھ پتہ نہ چلا۔ شاید تھوڑی دیر کے لیے مَیں سو گیا تھا۔ آنکھ کُھلی تو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور آسمان پر چمکنے والے تارے اور روشنی پھیلانے والا چاند غائب تھا۔ اُن کی جگہ گہری سیاہ گھٹا نے لے لی تھی۔ میری آنکھیں دوبارہ بند ہونے لگیں اور کوشش کے باوجود میں نیند پر قابو نہ پا سکا۔ بے اختیار اٹھ کھڑا ہوا اور برآمدے میں ٹہلنے لگا۔ ہوا لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی جا رہی تھی اور تھوڑی دیر بعد بوندا باندی شروع ہو گئی۔ بجلی زور سے چمکی اور میں نے دیکھا کہ ایک قد آور چیتا برآمدے کے جنوبی رُخ پر کٹہرے کے ساتھ لگا کھڑا تھا۔ غالباً اُس نے مجھے نہیں دیکھا تھا۔ مَیں اپنی جگہ پتھر کے بُت کی مانند کھڑا تھا۔ بندوق سیدھی کرنی چاہی، لیکن ہاتھ کانپنے لگے، دوسرے لمحے بجلی چمکی تو چیتا وہاں نہ تھا۔ اب میں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا شروع کیا۔ نیند یکدم کافور ہو گئی۔ ہلکی بوندا باندی اب موسلا دھار بارش میں تبدیل ہو چکی تھی۔ تیز ہوا کے ساتھ پانی کے چھینٹے جب میرے چہرے پر آن کر لگتے، تو یوں محسوس ہوتا جیسے برچھیاں سی چل رہی ہیں۔ بجلی کڑکتی اور بادل گرجتا رہا۔ لیکن مجھے چند قدم آگے بڑھ کر کمرے کے اندر جانے کی جرأت نہ ہوتی تھی مجھے شک تھا کہ چیتا قریب ہی چُھپا ہوا ہے اور ایسا نہ ہو کہ وہ اچانک میرے اُوپر آن پڑے۔ میں بارش تھمنے کا بے چینی سے انتظار کرنے لگا، لیکن بارش تھمنے کی بجائے اور تیز ہونے لگی، اس کے ساتھ ہَوا کے جھکّڑوں میں لمحہ بہ لمحہ تیزی و تندی آتی جا رہی تھی۔ اُونچے اونچے درختوں کی ٹہنیاں بے پناہ شور کرتی ہوئی ہل رہی تھیں۔ دفعتہً قریب ہی ایک درخت ہولناک آواز سے زمین پر گرا، پھر بے شمار پرندوں کے پھڑپھڑانے اور اڑنے کی آوازیں سنائی دیں۔ شاخوں میں چُھپے ہوئے بندر چیخ اٹھے اور پھر دفعتہً مَیں نے چیتے کے غرانے کی ہلکی ہلکی آواز سنی جو طوفانِ بادوباراں کے مہیب شور میں دب گئی تھی۔
ذرا اس شخص کی حالت و کیفیّت کا تصور کیجئے جو ساری رات نہ صرف جاگتا رہا ہو، بلکہ بارش میں بھیگا بھی ہو۔ صبح صادق کا اجالا نمودار ہونے سے کچھ دیر پہلے بادل چھٹ گئے، آسمان پر اِکّا دُکا تارے دکھائی دیے پھر غائب ہو گئے۔ میں نے گردو پیش پر نگاہ ڈالی، پتّا پتّا بوٹا بوٹا نہایا دھویا اور نکھرا ہوا تھا۔ سرد ہَوا میں ایسا نشہ تھا کہ مَیں وہیں برآمدے میں ایک خشک جگہ پر لیٹ گیا، بندوق سینے پر رکھ لی اور آنکھیں بند کر لیں، نہ معلوم کتنی دیر سویا رہا، آنکھ اس وقت کُھلی جب کسی نے میرا شانہ جھنجھوڑا۔ بدحواسی دیکھیے کہ اٹھتے ہی میرا ہاتھ خودبخود بندوق کی طرف گیا اور چیتا سمجھ کر لبلبی دبانے ہی والا تھا کہ کسی نے شستہ انگریزی میں کہا:
"پاگل مت بنو۔۔۔ ہوش میں آؤ۔’
کیا دیکھتا ہوں کہ میرے سامنے روڈ اوورسیر کھڑا ہے۔ معلوم ہوا وہ مجھے ڈھونڈتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے۔ اُسے الموڑہ کے ڈپٹی کمشنر مسٹر سٹفی نے میرا پتہ بتایا تھا اور کہا تھا کہ وہ میری ضروریات معلوم کر کے حکومت کو آگاہ کریں گے۔ میں نے کہا مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں حکومت سے صرف اتنی درخواست ہے کہ اس علاقے میں لوگوں کو طبی سہولتیں بہم پہنچانے کا بندوبست کیا جائے۔ بہت سے افراد ہیں جنہیں جنگلی درندوں اور آدم خور چیتے نے زخمی کیا ہے۔ اگر ان کا صحیح علاج کیا جائے تو یہ سب افراد تندرست ہو سکتے ہیں۔ اوورسیر کہنے لگا اگر میں اسی مضمون کا خط لکھ دوں، تو وہ ڈپٹی کمشنر تک پہنچا دے گا۔
وہ بیچارا ایک خچر پر سوار تھا اور بالکل تنِ تنہا۔ ایک بندوق اس کے پاس تھی۔ مجھے تعجب ہُوا کہ آدم خور چیتے کے بارے میں اُس شخص نے غالباً کچھ نہیں سُنا، ورنہ اپنی جان ہتھیلی پر دھرے کیوں پھرتا۔ میرے دریافت کرنے پر کہنے لگا:
"میں سب جانتا ہوں کہ ایک چیتا عرصۂ دراز سے اس علاقے میں گھوم پھر کر انسانوں کو ہڑپ کر رہا ہے اور اس نے کئی بستیاں ویران کر ڈالی ہیں۔ لیکن میرے فرائض کچھ اس نوعیت کے ہیں کہ اس طرف اُسے بغیر چارہ نہیں، حفاظت کے لیے میرے پاس بندوق ہے۔ مَیں نے اپنے اردلی اور قُلیوں کو چھٹی دے دی ہے، وہ بیچارے ادھر آتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ اگر اُن میں سے کوئی جان سے مارا جاتا، تو مَیں اپنے آپ کو کبھی معاف نہ کرتا۔ خیرچھوڑو اس قصّے کو، یہ بتاؤ کہ تمہاری "پروگریس، کیا ہے؟’
"رات بھر بارش میں چُوہے کی طرح بھیگتا رہا ہوں۔" میں نے بتایا۔ "چیتا اِدھر آیا تھا، لیکن اُس کی چھٹی حِس مجھ سے بھی زیادہ تیز ہے، بس ایک جھلک دکھا کر نکل گیا۔ یقیناً اس نے مجھے دیکھ لیا تھا۔’
"چیتے نے تم پر حملہ نہیں کیا؟" اوورسیر نے حیرت سے کہا۔ " میں نے سنا وہ اتنا نڈر اور جری ہو چکا ہے کہ دن دہاڑ سے بستیوں میں آن کودتا ہے اور کسی نہ کسی آدمی کو سینکڑوں افراد کی موجودگی میں پکڑ کر لے جاتا ہے۔’
"تم نے ٹھیک سنا ہے، لیکن ایسا درندہ شکاری کی بُو پانے کا خصوصی ملکہ رکھتا ہے۔ قدرت نے اگر ہم انسانوں کو درندوں کا شکار کرنے کی صلاحیت اور ہمت بخشی ہے، تو دوسری طرف درندوں کو بھی بعض نادر خصوصیتوں سے نوازا ہے جن کے ذریعے وہ اپنا بچاؤ کر لیتے ہیں۔ اچھا یہ بتاؤ راستے میں تمہارے ساتھ کوئی حادثہ تو پیش نہیں آیا؟ کیا تم نے اس چیتے کو دیکھا ہے؟’
"میں نے چیتے کو تو ابھی تک نہیں دیکھا، البتّہ اُس کے کارنامے سُن سُن کر کان پک گئے ہیں۔ دیبی دھورا سے گذرتے ہوئے مجھے صرف اتنا پتہ چلا کہ چند روز قبل چیتے نے وہاں نے وہاں کسی شخص کو پکڑ لیا تھا۔ میرا خیال ہے تمہیں اب لام گرا جانا چاہیے۔ اگر چیتے نے تمہیں یہاں دیکھ لیا ہے، تو وہ ادھر کبھی نہیں آئے گا۔ تم چاہو تو میں تمہارے ساتھ لام گرا جا سکتا ہوں۔’
مَیں نے کچھ دیر غور کرنے کے بعد جانے کا ارادہ کر لیا۔۔۔ اوورسیر کے پاس ناشتے کا کچھ سامان تھا۔ مَیں نے جلد جلد ناشتا کِیا اور ایک گھنٹہ سونے کی اجازت لے کر کمرے میں چلا گیا۔ اوور سیر بھی تھکا ہوا تھا۔ وہ بھی میری طرح گذشتہ رات جنگل میں راستہ بُھول کر دیر تک بھٹکتا رہا، آخر ایک درخت پر چڑھ گیا سورج نکلنے کے بعد اُترا اور ڈول ڈھک میں آیا۔ اس دوران میں اُس خچر، جسے اُس درخت سے باندھ دیا تھا، نہ جانے کس طرح کھل کر ایک طرف بھاگ گیا۔ آخر صبح بڑی مشکل سے خچر کو تلاش کیا۔ وہ ایک کھائی کے اندر چھپا ہوا تھا۔ وہیں اوورسیر نے کیچڑ اور نرم زمین میں چیتے کے پنجوں کے نشان بھی دیکھے۔ اسے حیرت تھی کہ چیتے نے خچّر کو کچھ نہیں کہا۔
ہم دونوں ایک ڈیڑھ گھنٹہ سونے کی نیت سے لیٹے تھے، لیکن جب آنکھ کھلی تو آسمان پر سُورج نصف سفر طے کر چکا تھا۔ ہم نے مکان کا دروازہ اچھی طرح باہر سے بند کیا اور لام گرا کی طرف پیدل ہی چل پڑے۔ ہاتھوں میں بندوقیں تھیں۔ ہم آگے آگے چل رہے تھے اور خچّر ہمارے پیچھے پیچھے گردن جھکائے آ رہا تھا۔ اِدھر اُدھر کی باتوں میں وقت اور فاصلے کا کچھ احساس نہ ہوا۔ لام گرام پہنچے تو وہاں بھی ہولناک سنّاٹے کا رواج تھا۔ اوورسیر نے بتایا یہاں ہندوؤں کا ایک بڑا مندر ہے جس میں پُوجا پاٹ کے لیے گردونواح کے بہت سے گاؤں اور بستیوں کے افراد آیا کرتے تھے اور خاصی چہل پہل رہتی تھی، لیکن جب سے آدم خور چیتے نے اپنی سرگرمیاں شروع کی ہیں، لام گرا کی رونق مر گئی ہے۔ اب یہاں چند گھروں اور مندر کی پجاری کے سوا کوئی نہیں رہتا۔ چیتے نے اس گاؤں کے تقریباً پچیس افراد کو کھایا ہے۔
ہم سیدھے مندر کی طرف گئے۔ یہ عمارت پختہ اینٹوں کی بنی ہوئی تھی اور اس کا دروازہ بھی خاصا مضبوط اور بلند تھا۔ ہم نے دروازے پر دستک دی۔ تھوڑی دیر کے بعد قدموں کی چاپ سنائی دی۔ پھر کسی نے اندر ہی سے پوچھا:
"اس وقت کون آیا ہے؟’
میں نے اپنا نام اور آنے کا مقصد بتایا۔ چند لمحے بعد دروازہ کُھلا اور ایک اُدھیڑ عمر، لیکن صحتمند ہندو پُجاری نظر آیا۔ مجھے دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھیل گئیں، لیکن جونہی اُس نے اوورسیر کو دیکھا، اُس کے چہرے پر اطمینان جھلکنے لگا۔ وہ ہاتھ جوڑتا ہوا دروازے سے باہر نکلا اور ہمارے سامنے آن کھڑا ہوا۔ اوورسیر نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے پُجاری سے کہا:
"یہ ہمارے دوست بہت اچھے شکاری ہیں۔ پانار کے چیتے کو مارنے کے لیے آئے ہیں۔ چند روز آپ کے پاس قیام کریں گے۔’
پُجاری بڑے بڑے دانت نکال کر ہنسا اور بولا:
"آئیے آئیے صاحب، اندر آ جائیے۔۔۔ کوئی ہرج نہیں۔۔۔ کوئی ہرج نہیں۔۔۔ اگر آپ اس موذی کو مار ڈالیں، تو بڑی نیکی کا کام کریں گے۔ اُس نے تو گاؤں کے گاؤں خالی کرا دیے ہیں۔’
وہ ہمیں مندر کی ایک کوٹھڑی میں لے گیا۔ کھانے کے لیے پُوریاں اور آلو کی باسی ترکاری لایا جو مجبوراً زہر مار کرنی پڑی، کیونکہ سخت بھوک لگ رہی تھی۔ پُجاری کو انسانوں سے زیادہ اس بھینٹ کے کم ہو جانے کا صدمہ تھا جو لوگ دیوتاؤں پر چڑھانے کے لیے لایا کرتے تھے۔ اس نے چیتے کی خونخواری کے بہت سے چشم دِید قِصّے سنائے جن میں جھوٹ زیادہ تھا اور سچ کم۔ مثلاً یہ کہ چیتا رات کو انسانی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ وہ صرف خون پیتا اور گوشت دوسرے جانوروں کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ اسے اس وقت تک ہلاک نہیں کیا جا سکتا جب تک مندر میں ایک خاص پُوجا کا اہتمام نہ کیا جائے گا اور لوگ اتنا اتنا دان نہ چڑھا دیں گے۔ وہ بند دروازوں میں سے گزر سکتا ہے اور پُجاری کے علاوہ ہر اُس شخص کو ہڑپ کرنے پر قادر ہے جو اس کے راستے میں رکاوٹ بنے گا۔ اوورسیر یہ خرافات سنتا رہا، پھر جھلّا کر بولا:
"پنڈت جی، یہ فضول باتیں ہم سے نہ کیجیے۔ ہم ان پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ چیتا بھی جنگل کے عام چیتوں کی طرح ہے۔ وہ نہ انسانی روپ دھار سکتا ہے نہ بند دروازوں میں سے گذر سکتا ہے۔ آپ نے لوگوں کو ڈرا ڈرا کر نہ معلوم کتنا ظلم کیا ہے۔ سب مل کر اگر چاہتے، تو گھیر کر تکّا بوٹی کر ڈالتے، مگر ان باتوں نے سادہ لوح دیہاتیوں کو ہراساں کررکھا ہے۔ مجھے دیکھ لیجیے، اتنے دن سے انہی جنگلوں میں پھر رہا ہوں، مجھے تو اس چیتے نے آج تک نہیں کھایا، حالانکہ یہ بندوق میرے پاس ہے اور میں نے کئی دفعہ اسے ہلاک کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔’
یہ تقریر سن کر پجاری کے چہرے پر ندامت کے آثار نمودار ہوئے۔ اُس نے بات ٹالتے ہوئے کہا:
"اگر کچھ اور کھانا چاہیں، تو لے آؤں۔۔۔ تازہ دودھ بھی رکّھا ہوا ہے۔’
"جی نہیں، بس شکریہ۔" میں نے کہا۔ "ذرا ہمیں سستانے دیجئے۔ اندھیرا ہونے کے بعد مَیں ذرا باہر ٹہلوں گا۔ ممکن ہے چیتا ادھر آ نکلے، گاؤں میں اس وقت کتنے آدمی ہیں؟’
"پچاس ساٹھ کے لگ بھگ تو ضرور ہوں گے۔" پُجاری نے کہا۔ "کیا ان کو بُلواؤں؟’
"جی ہاں، ابھی بلوا لیجیے۔ ان لوگوں سے کچھ کہنا ہے۔’
اوورسیر نے استفہامیہ انداز میں میری جانب دیکھا۔ مَیں نے اُسے آنکھ کے اشارے سے خاموش رہنے کی ہدایت کی۔ پجاری نے مندر کا گھنٹا بجایا اور تھوڑی دیر بعد گاؤں کے سب لوگ مندر میں جمع ہو گئے۔ مَیں نے دیکھا ہر شخص لاٹھی، کلہاڑی اور بلّم لے کر آیا ہے، لیکن خوف ان کے چہروں سے ٹپک رہا تھا۔ ان میں ہٹّے کٹے جوانوں کی تعداد زیادہ تھی۔ اوورسیر نے مختصر الفاظ میں میرا تعارف کرایا۔ پھر مَیں نے کہا:
"بھائیو، مَیں نے تمہیں صرف یہ کہنے کے لیے بُلایا ہے کہ وہ درندہ جو تماری بستیوں کو ویران کر رہا ہے، کوئی بھوت پریت نہیں، ایک معمولی جانور ہے جسے انسانی لہو کی چاٹ پڑگئی ہے اگر تم لوگ مِل جُل کر ہمت سے کام لو، تو ایک ہی دن میں اُسے تلاش کر کے ہلاک کر سکتے ہو، ورنہ وہ ایک ایک کر کے سب کو کھا جائے گا۔ مَیں بھی اسی لیے آیا ہوں کہ تمہیں اس مصیبت سے نجات دلاؤں لیکن میں اس علاقے سے ناواقف ہوں، اس لیے مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے بولو، کیا تم مدد کرنے کے لیے تیّار ہو؟’
"ہم تیار ہیں۔" سب نے ایک زبان ہو کر جواب دیا۔
"کیا تم میں سے کوئی شخص بتا سکتا ہے کہ چیتا کہاں ہے؟’
"جناب، اُس کا کوئی ٹھکانا نہیں’۔ ایک نوجوان نے کہا۔ "تین دن پہلے وہ اِدھر آیا تھا اور اس مندر کے باہر بیٹھے ہوئے ایک بوڑھے کو پکڑ کر لے گیا تھا۔ بعد میں ہم نے اس کی لاش ایک نالے میں پڑی ہوئی پائی۔ چیتے نے اسے وہاں ڈال دیا تھا، مگر اسے کھایا نہیں۔ وہ ساری رات بستی کے اردگرد گھومتا اور گرجتا رہتا ہے۔ ہم اپنے چھپّروں اور مکانوں کے گرد آگ کے بڑے بڑے الاؤ روشن کر دیتے ہیں، اس کی وجہ سے وہ نزدیک نہیں آتا۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ آگ بجھ گئی۔ وہ فوراً آیا اور کسی نہ کسی آدمی کو اٹھا کر لے گیا۔ کل بھی بارش کی وجہ سے آگ بُجھ گئی تھی اور ہم سب ڈر رہے تھے کہ چیتا ضرور آئے گا، لیکن وہ نہیں آیا۔’
"اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس وقت بُھوک سے بیتاب ہو گا اور آج ضرور آئے گا۔" میں نے کہا۔ "اچھا، آپ لوگ اپنے اپنے مکانوں کو لوٹ جائیں، آگ کے الاؤ روشن کر دیں، لیکن آپ میں سے کوئی شخص سوئے گا نہیں، بلکہ ممکن ہو تو سب ایک ہی جگہ جمع ہو جائیں۔ مَیں اس دوران میں بستی کا چکّر لگاتا رہوں گا۔ میرا خیال ہے کہ چیتا سُورج نکلنے سے کچھ دیر پہلے آئے گا، میں اسے گھیر کر اُس طرف لانے کی کوشش کروں گا جہاں آپ لوگ جمع ہوں گے، پھر دیر کیے بغیر آپ سب لوگ اپنے اپنے ہتھیاروں سمیت ٹوٹ پڑیں۔’
لوگوں نے آپس میں کانا پُھوسی کی، پھر ایک شخص نے سب کا نمائندہ بن کر کہا:
"جناب، وہ نہایت چالاک اور ہوشیار ہے۔۔۔ اِس طرح کبھی قابو میں نہ آئے گا، بلکہ ہمیں ڈر ہے کہ وہ آپ ہی کو ہڑپ نہ کر جائے، بہرحال ہم الاؤ روشن کیے دیتے ہیں اور یہیں مندر کے پاس جمع ہو کر رت جگا کریں گے۔’
گھاس پھوس اور خشک لکڑیوں کے ڈھیر پہلے ہی سے موجود تھے۔ فوراً اُن کو آگ دکھائی گئی، پھر سب لوگ جن میں مرد، عورتیں اور بچے شامل تھے، مندر کے قریب سمٹ آئے۔ میں نے اوورسیر کو بھی ہوشیار رہنے کی تاکید کی، ایک جانب پہرے کے لیے اُس کی ڈیوٹی لگائی، دوسرا مورچہ میں نے سنبھالا۔ جنگل سے گاؤں کی طرف آنے والی وہ تمام پگڈنڈیاں جو روزانہ آگ کا الاؤ روشن کر کے بند کر دی جاتی تھیں، آج کُھلی تھیں اور لوگوں کی نظریں انہیں راستوں پر جمی ہوئی تھیں۔ پتّا کھڑکتا، تو سب چونک اُٹھتے۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ سادہ اور معصوم لوگ جو دنیا کی بہت سی آسائشوں سے پاک صاف ہیں، نہ جانے کیوں یہ کڑا عذاب برداشت کر رہے ہیں۔ اسے قدرت کی ستم ظریفی کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔
رات کے ابتدائی حِصّے میں تو لوگ چپکے چپکے باتیں کرتے رہے، پھر آہستہ آہستہ خاموشی طاری ہونے لگی۔ سچ کہا ہے کسی نے نیند سُولی پر بھی آ جاتی ہے۔ رات کے گیارہ بجے تھے اور اکثر لوگ ہاتھ پاؤں پھیلا کر بے فکری سے سوئے ہوئے تھے۔ اوورسیر بندوق ہاتھ میں لیے مجھ سے اندازاً پچاس فٹ کے فاصلے پر ٹہل رہا تھا اور مَیں ایک پتھر پر بیٹھا جنگل میں گُم ہوتی ہوئی اس پگڈنڈی کو گھور رہا تھا جو انسانوں اور جانوروں کی عام گذرگاہ تھی۔
ڈیڑھ بجے جبکہ ٹھنڈی ہوا کہ جھونکوں میں کچھ تیزی آ گئی تھی اور آگ کے الاؤ دھیمے پڑتے جا رہے تھے، میرے بائیں ہاتھ کچھ کھٹکا سا ہوا۔ مَیں چونک کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا، پھر جھاڑیوں میں دو چمکتی ہوئی زرد آنکھیں نظر آئیں جو فوراً ہی غائب ہو گئیں۔ مجھے خیال ہوا شاید یہ میرا وہم تھا، لیکن چند لمحے بعد جھاڑیوں میں دوبارہ حرکت ہوئی اور ایک مہیب اور دراز قد چیتا بجلی کی مانند جھاڑیوں سے نِکلا، بے خبر اوورسیر پر حملہ کیا اور آناً فاناً اُسے منہ میں دبا کر جھاڑیوں میں گھس گیا۔ مجھے یوں محسُوس ہُوا جیسے میرے بدن کا سارا خون سمٹ کر سر میں آ گیا ہے۔ آنکھوں کے سامنے شرارے سے اُڑنے لگے۔ مَیں نے سوچے سمجھے بغیر جھاڑیوں میں فائر جھونک دیا۔ سوئے ہوئے جنگل میں فائر کا دھماکا۔۔۔ لوگوں کا غل غپاڑہ۔۔۔ چیتے کی لرزہ خیز گرج اور اوورسیر کی بے پناہ چیخیں۔۔۔ جیسے زلزلہ آ گیا۔ آدم خور اتنا نڈر تھا کہ اپنا شکار حاصل کر لینے کے باوجود وہیں جھاڑیوں میں چُھپا ہوا تھا۔ اُس نے فائروں اور آدمیوں کے چیخنے چِلّانے کی کوئی پروا نہ کی، بلکہ اطمینان سے اوورسیر کو اُدھیڑ ادھیڑ کا ہڑپ کرتا رہا۔ یہ حادثہ اتنا غیر متوقع اور ناقابلِ یقین تھا کہ میرا ذہن ماؤف ہو گیا۔ لوگ اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے، پھر یک لخت دھکّا سا لگا اور میں اُوندھے مُنہ زمین پر گر گیا۔ چیتے کی آواز اب میرے کانوں میں گونج رہی تھی۔۔۔ پھر یہ آواز آہستہ آہستہ مدّھم ہوتے ہوتے غائب ہو گئی۔ مجھے یوں محسُوس ہوا جیسے ایک گہرے اور تاریک غار میں نیچے ہی نیچے گرتا چلا جا رہا ہُوں۔
لام گرا میں اوورسیر کی دردناک موت نے ذہنی اور جسمانی طور پر مجھے معطل کر کے رکھ دیا تھا اور اس شخص کی موت کا باعث میں اپنے آپ کو سمجھتا ہوں۔ یہ جانتے ہوئے کہ وہ بدنصیب شخص کبھی شکاری نہیں رہا، مَیں نے اُسے ایک خطرناک مقام پر پہرہ دینے کے لیے کھڑا کر دیا تھا۔ بہرحال یہ حادثہ میرے لیے ناقابل برداشت تھا اور میں تقریباً پانچ ماہ تک اپنے گھر پر آرام کرتا رہا۔ اس مُدت میں پانار کے آدم خور چیتے نے کہاں کہاں اور کتنے افراد کو ہڑپ کیا، اس کا کوئی ریکارڈ سرکاری یا غیر سرکاری طور پر میرے پاس نہیں ہے۔ حکومت نے اس چیتے کے بارے میں نہ کبھی کوئی بلیٹن شائع کیا اور نہ ہندوستان کے اخبارات میں اس کے متعلق کوئی لفظ چھپا۔ اتنا معلوم ہے کہ ہاؤس آف کامنز میں اس کے بارے میں سوالات ضرور کیے گئے تھے جن کا جواب قطعی غیر تسلی بخش تھا۔
مَیں نے پانار کے آدم خور کو ہلاک کرنے کی مہم کا آغاز اپریل 1910ء میں کیا اور پانچ ماہ بعد یعنی ستمبر میں جب میری طبیعت کسی قدر ٹھیک ہو گئی، دوبارہ اس دشمنِ انسانیت درندے کے تعاقب میں نِکلا۔ دس تاریخ کو صُبح چار بجے کے وقت مَیں نے اُس تاریخی اور جان لیوا مہم کا آغاز کیا۔ میرا ایک ذاتی ملازم اور سامان وغیرہ اٹھانے کے لیے چار قلی میرے ساتھ تھے۔ جب ہم نینی تال سے چلے اُس وقت آسمان ابرآلود تھا۔ کبھی کبھی بجلی کوند اٹھی یا بادل گرجنے لگتا تھا۔ میرے ساتھیوں نے دبی زبان سے کہا کہ بارش ہونے والی ہے۔ سفر ملتوی کر دیا جائے، لیکن میں نے انہیں ڈانٹا اور کہا کہ خواہ اولے ہی کیوں نہ برسیں، سفر جاری رکھا جائے گا۔ ابھی ہم نے بمشکل پانچ چھ میل کا فاصلہ طے کیا ہو گا کہ بارش شروع ہو گئی۔ پہلے ہلکی ہلکی پھر موسلا دھار۔۔۔ اور سارا دن ہوئی، لیکن مَیں نے ایک لمحے کے لیے بھی نہ خود قدم روکے، نہ قلیوں کو ٹھہرنے کی اجازت دی اور غالباً شکاریوں کی دُنیا میں یہ بھی ایک ریکارڈ ہے کہ کوئی شخص سارا دن بارش میں بھیگنے کے باوجود پورے اٹھائیس میل کا فاصلہ طے کیا ہو گا۔ قِصّہ کوتاہ رات کے ابتدائی حصّے میں ہم لوگ الموڑہ پہنچ گئے۔ میرا ارادہ ڈپٹی کمشنر مسٹر سٹفی کے ہاں ٹھہرنے کا تھا، مگر اپنی مضحکہ خیز حالت پر نظر کی، تو ارادہ بدل دیا۔ ہم سب اس وقت بارش میں بُری طرح بھیگے ہوئے چوہوں کی طرح کانپ رہے تھے۔ ڈپٹی کمشنر اس حالت میں دیکھ کر کسی طرح اپنی ہنسی نہ روک سکتا، میں نے ڈاک بنگلے کا رخ کیا اور چوکیدار نے ازراہِ کرم فوراً ہی دو کمرے ہمارے لیے کھول دیے۔ خوش قسمتی سے ان دنوں وہاں کوئی اور سرکاری افسر نہ ٹھہرا ہوا تھا، ورنہ بڑی دشواری پیش آتی۔
آگ جلا کر ہم نے اپنے اپنے کپڑے سکھائے، پھر ملازم نے کھانا تیار کیا۔ کھا پی کر میں نے وہیں فرش پر اپنی اپنی چادریں بچھائیں اور چونکہ بے حد تھکے ہوئے تھے، اس لیے چند ہی لمحوں میں خراٹے لینے لگے۔ صبح آنکھ کھلی تو سُورج خاصی بلندی پر آ چکا تھا، لیکن نیند سے آنکھیں اب بھی بوجھل ہوئی جا رہی تھیں۔ میرا ملازم پہلے ہی بیدار ہو کر ناشتا تیار کر چکا تھا۔ غالباً اس نے میری آنکھوں میں نیند کا خمار دیکھ لیا تھا، اس لیے ناشتا لاتے ہوئے مسکرایا اور کہنے لگا:
"صاحب، جلدی اُٹھیے، ایک شخص بہت دیر سے آپ کے انتظار میں بیٹھا ہے۔’
مجھے بڑی حیرت ہوئی، آخر وہ کون شخص ہے جو میرا انتظار کر رہا ہے اور سوال یہ ہے کہ اسے میری آمد کی خبر کس طرح ملی۔
"کون ہے وہ؟" میں نے بے صبری سے پوچھا۔
"صاحب وہ اپنا نام پنوا بتاتا ہے، حُلیے سے کوئی راج مزدور دکھائی دیتا ہے اور کہتا ہے کہ وادئ پانار کا رہنے والا ہوں۔’
پانار کا نام ہی میرے لیے کافی تھا۔ میں نے فوراً پنوا راج (معمار) کو اپنے حضور میں حاضر ہونے کی اجازت دی۔ چند لمحے بعد نہایت مضبوط قد کاٹھ کا ایک ادھیڑ عُمر شخص اندر آیا اور جیسا کہ ہندوؤں میں رواج ہے، دونوں ہتھیلیاں جوڑ کر مجھے سلام کیا اور پھسکڑ مار کر بیٹھ گیا۔
"صاحب کے مزاج تو اچھے ہیں؟" اس نے دانت نکال کر انتہائی انکسار آمیز لہجے میں پوچھا۔
"میرے مزاج بالکل ٹھیک ہیں اور کبھی خراب نہیں ہوئے۔" میں نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ کیونکہ سچ پوچھیے تو اِن ہندوؤں کی ہیرا پھیری اور مکّاری سے مَیں خوب واقف ہو چکا تھا۔ چاپلوسی تو اس قوم کی گُھٹّی میں پڑی ہے اور جب یہ لوگ کسی کی چاپلوسی کریں، تو سمجھ لیجیے اس کی شامت بلانے کی کوشش ہو رہی ہے (ہندوستان میں اپنی عمر کا سب سے بڑا حصّہ کاٹنے کے باوجود ابھی تک اس قوم کے بارے میں میری رائے وہی ہے جو ابتداء میں تھی) بہرحال پنوا صاحب نے اپنے میلے کرتے کی بغلی جیب سے بیڑیوں کا بنڈل اور ماچس کی ڈبیا نکالی اور بیڑی سلگانے کا ارادہ فرما ہی رہے تھے کہ مَیں نے سختی سے ڈانٹا:
"یہ تمباکو پینے کی جگہ نہیں ہے۔ جس کام کے لیے آئے ہو، اس کام سے آگاہ کرو اور چلتے بنو۔’
میرا خیال تھا اس ڈپٹ سے وہ کچھ ناراض ہو گا یا کم از کم سراسیمہ تو ہو جائے گا، لیکن اُس بندۂ خدا نے ذرّہ برابر اثر نہ لیا، بلکہ احمقوں کی طرح پھر دانت نکال دیے۔ نہایت بدتمیزی سے ہنسا اور کہنے لگا:
"میں تو سرکار کے درشنوں کے لیے آیا تھا۔ اپنے گھر کو جاتا تھا۔۔۔ میرا گھر وہیں ہے صاحب پانار کی وادی میں۔۔۔ ادھر سے گزرا، تو آپ کا سامان ڈاک بنگلے میں دیکھا۔ چوکیدار سے پوچھ کر اندر چلا آیا۔ جناب وہاں ایک آدم خور چیتے نے بڑی آفت مچا رکھی ہے۔ ہزاروں کو پھاڑ کر کھا گیا ہے اور ابھی اس کا پیٹ نہیں بھرا۔ نہ جانے دیو ہے یا کون بلا۔۔۔ میں نے سوچا شاید آپ اُسی طرف جا رہے ہوں، بڑی نیکی کا کام ہے سرکار اگر آپ اُس موذی کو ہلاک کر دیں۔ مَیں ابھی آپ کے ساتھ چلوں گا ورنہ مجھ اکیلے شخص کو تو چیتا کہیں نہ کہیں پھاڑ کھائے گا۔’
"تُم نے اس چیتے کو پہلے کبھی دیکھا ہے؟’
"ارے نہیں سرکار۔" اس نے دہشت زدہ ہو کر کانوں کو ہاتھ لگایا۔ "ہماری کیا مجال کہ اُس جناور کے سامنے جائیں۔ وہ تو بجلی ہے بجلی۔ آج یہاں کل وہاں، پرسوں کہیں اور، بھوت ہے بھوت۔۔۔ اس کے ٹھور ٹھکانے کا بھی پتہ نہیں چلتا۔ مَیں نے سُنا کئی شکاری اُسے مارنے کے لیے آئے، مگر سبھی کو اُس نے ہڑپ کر لیا۔ کوئی بہت ہی ظالم بلا ہے سرکار۔’
مَیں نے محسوس کیا کہ پنوا راج خاصا دلچسپ آدمی ہے اور اس کی مزیدار باتوں سے سفر کی کوفت کسی نہ کسی قدر زائل ہوتی رہے گی۔ اسے ساتھ لے ہی لیا جائے۔
"بندوق چلانا جانتے ہو؟" یہ کہہ کر میں نے قریب رکھی ہوئی رائفل اٹھائی اور نال پنوا راج کی طرف پھیر دی۔
"اجی صاحب، اس کا منہ پرے کر لیجیے، چل جائے گی۔" وہ چِیخا اور اُچھل کر دُور کونے میں کھڑا ہوا۔ بے اختیار میرے منہ سے قہقہہ نکل گیا۔
"تم بہت بزدل ہوا پنوا۔" مَیں نے کہا۔ "مَیں ایسے آدمیوں کو ساتھ لے جانا پسند نہیں کرتا۔ فرض کرو کوئی موقع ایسا آ جائے کہ تمہیں بندوق چلانی پڑے، پھر کیا کرو گے؟ انسان کو اپنی حفاظت کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی چاہیے۔’
"بات تو ٹھیک ہے صاحب۔" اس نے کہا۔ "لیکن ہم لوگ بندوق چلانا کیا جانیں۔ کببھی ہمارے باپ دادا نے چلائی ہو، تو ہم بھی چلائیں۔ ہم تو ذات کے شودر ہیں۔۔۔ نیچ لوگ ہیں۔۔۔ اگر ہمارے پاس بندوق ہوتی، تو آپ کی پناہ میں کیوں آتے؟ خود ہی اپنے گاؤں کو نہ چلے جاتے۔’
اُس کی یہ دلیل وزنی تھی، اس لیے میں نے پنوا کو ساتھ جانے کی اجازت دیتے ہوئے بات ختم کر دی۔ وہ ایک طرف صحن میں لیٹ گیا اور میرے ملازم سے کہنے لگا:
"میں تھوڑی دیر کے لیے پلک جھپکوں گا، کہیں مجھے چھوڑ کر چلے نہ جانا، مَیں نے صاحب سے اجازت لے لی ہے۔’
وادئ پانار تک پہنچنے کے لیے میں وہی راستہ اختیار کرنا چاہتا تھا جو راستہ مَیں نے اپریل میں منتخب کیا تھا، چنانچہ دوپہر کے بعد جب ہم نے اپنا بوریا بستر باندھا اور روانہ ہوئے، تو پنوا سب سے پہلے مستعدی سے تیار کھڑا تھا۔ کہنے لگا:
"صاحب، آپ پہلے بھی اس علاقے میں آئے ہیں؟’
"ہاں۔" مَیں نے مختصر سا جواب دیا، پھر خیال آیا یہ شخص اسی جگہ کا رہنے والا ہے، ضرور چپّے چپّے سے آگاہ ہو گا، کیوں نہ اس سے راستے کی تفصیلات پوچھی جائیں، جب مَیں نے اس کُریدا، تو واقعی وہ اس سرزمین کا کیڑا نِکلا۔ بولا:
"میں پہلے ہی سمجھ گیا تھا کہ آپ وہاں تک پہنچنے کے لیے لمبا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ مَیں آپ کو ایک چھوٹے راستے پر لیے چلتا ہوں، بھگوان نے چاہا، تو وقت سے بہت پہلے چیتے کی سلطنت کی سرحد میں داخل ہو جائیں گے۔’
"ایسا نہ ہو کہ ہم کہیں اور جا نکلیں’۔ میں ذرا سخت لہجے میں کہا۔ "زیادہ شیخی میں آ کر ہمیں مروا نہ دینا۔’
 اس نے پھر کانوں کو ہاتھ لگایا۔ "سرکار، آپ کو مرواؤں گا، تو کیا میں بچ جاؤں گا؟ ایسی بات آپ دل میں بھی نہ لائیں۔ جس راستے سے میں آپ کو لے چلوں گا، وہ راستہ ہے تو چھوٹا، لیکن بہت خطرناک اور مشکل ہے۔ راہ میں کئی ندیاں نالے اور دریا پار کرنے ہوں گے اور آج کل ہے بھی برسات کا موسم ندی نالے چڑھے ہوئے ہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ دیبی دھورا کے راستے سے جانے کی بجائے اگر آپ پتھورا گڑھ جانے والی سڑک پر چلیں تو بہت جلد منزل پر پہنچ جائیں گے۔’
اُس کی یہ بات سن کر میں نے اپنا پرانا نقشہ نکالا جو الموڑہ کے ڈپٹی کمشنر نے پانچ ماہ قبل مجھے بنوا کر دیا تھا۔ اس میں دیکھا، تو واقعی پنوا راج کی بات درست نکلی۔ پتھورا گڑھ کا راستہ آسان بھی تھا اور قریب بھی۔ اب مجھے پنوا کی معلومات میں کوئی شک و شبہہ نہ رہا۔ سارا دن خوب سفر کیا اور شام کے قریب پتھورا گڑھ کے کچھ کچے کچھ پکّے ڈاگ بنگلے میں پہنچے جس کے در و دیوار پر حسرت و الم کا ایک عالم طاری تھا۔ ہر طرف جھاڑ جھنکاڑ اور لکڑیوں کے جالے نظر آتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس نام نہاد بنگلے نے عرصۂ دراز سے کسی انسان کی شکل نہیں دیکھی۔ کہیں کہیں سانپوں کے بل بھی نظر آئے۔ چُوہے تو بے شمار تھے اور اندھیرے میں اُن کی ننّھی ننّھی سُرخ آنکھیں خوب چمک رہی تھیں۔
اِس ڈاک بنگلے میں رات کاٹنا ایک عذاب سے کم نہ تھا۔ تھکے ماندے ہونے کے باوجود میرے ساتھیوں میں سے کوئی بھی آدھ پَون گھنٹے سے زیادہ نہ سویا۔ جونہی آنکھ لگتی، کوئی نہ کوئی چُوہا چھاتی پر سے کُودتا ہوا گزر جاتا، یا پَیروں کی انگلیاں کُترنے کی کوشش کرتا۔ سانپوں کو خطرہ بھی تھا۔ پنوا راج ایک گوشے میں کمبل اوڑھے اکڑوں بیٹھا تھا۔ قریب جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ گہری نیند کے مزے لے رہا ہے۔ مجھے اُس کی اِس بے خبری کی نیند پر بڑا رشک آیا۔
تڑکے ہی سب اُٹھ بیٹھے۔ میرے ملازم نے جلد جلد ناشتا تیّار کیا۔ زہر مار کیا اور چل نکلے۔ چونکہ سب رات بھر کے جاگے ہوئے تھے، اس لیے صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہَوا کے جھونکے نے شراب کا اثر دکھایا۔ قدم لڑکھڑانے لگے۔ خود میری کیفیت بھی یہی تھی کہ چلتا مشرق کی طرف، تو قدم اٹھتا شمال کی جانب۔ پنوا۔۔۔ ہماری رہنمائی کی اہم ذمّہ داری اپنے سر لیے مستانہ وار جُھومتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ پتھورا گڑھ روڈ پر چند میل جانے کے بعد یک لخت وہ دائیں جانب مڑا اور ایک تنگ سی پگڈنڈی پر ہو لیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ یہاں سے آدم خور کے علاقے کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ کچھ دُور آگے چلے، تو یہی پگڈنڈی دو حصّوں میں اور پھر کئی میل آگے مزید دو حصّوں میں تقسیم ہو گئی۔ پنوا راج مزے مزے چلا جا رہا تھا۔ مَیں نے اپنا نقشہ نکال کر ان پگڈنڈیوں کا اتا پتا معلوم کرنا چاہا، مگر ناکام رہا، نقشے پر ان کا وجود نہ تھا۔ پنوا سے پوچھا۔ کہنے لگا:
"سرکار، پگڈنڈی کسی نہ کسی گاؤں یا بستی کو جاتی ہے۔ مَیں اِس علاقے کے چپّے چپّے سے واقف ہوں۔ آپ فکر نہ کریں۔ میرے پیچھے پیچھے چلے آئیں۔ یہ راستے آپ کو کاغذ کے بنے ہوئے اس نقشے میں نہ ملیں گے۔’
"کیا تم کبھی راستہ بھی بُھولے ہو؟" میرے ملازم نے اُس سے دریافت کیا۔
"کبھی نہیں۔" پنوا نے ہنس کر جواب دیا۔ "یوں سمجھو جس دن پنوا راستہ بُھولے گا، وہ اُس کی زندگی کا آخری دن ہو گا۔" پھر رُک رُک کر کہنے لگا۔ "یہ دھرتی ہمیں خود راستہ بتاتی ہے۔۔۔ ہم اُس کی آواز سُنتے ہیں۔۔۔ تم لوگوں کو اس کی آواز سنائی نہیں دیتی۔’
مجھے اُس کی یہ فلسفیانہ بات بڑی اچھی لگی۔ مَیں نے بات چلانے کے لیے کہا:
"پنوا، اگر تم پڑھ لکھ جاتے، تو اچھے رہتے۔ تم نے دماغ خوب پایا ہے۔’
میرے منہ سے خلافِ توقّع اپنی تعریف سُن کو وہ ٹھٹھکا، پھر رک کر میری طرف دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں حیرت کے آثار تھے۔ ایک سادہ لوح شودر ہندو دیہاتی بھلا کیسے یقین کرتا کہ ایک بڑا افسر بھی اس کی تعریف کر سکتا ہے۔ دراصل اُسے مجھ سے اِس حسنِ سلوک کی توقع نہ تھی۔ غالباً افسروں کا زخم خوردہ تھا بیچارا۔۔۔ چند لمحے گُم سُم رہنے کے بعد وہ یک لخت میری طرف آیا اور جُھک کر میرے دونوں پاؤں پکڑ لیے، اظہارِ تشکّر کے لیے اس کے پاس کوئی اور طریقہ بھی تو نہ تھا۔
اب ہماری رفتار قدرے نرم اور سُست ہو گئی۔ راستہ ہر آن دُشوار گزار اور خطرناک ہوتا جاتا تھا۔ بے پناہ نشیب و فراز تھے، پھر جابجا بارش کا رُکا ہوا پانی جوہڑوں اور چھوٹے تالابوں کی صورت میں ایک عظیم رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ اس پر مستنزاد دلدیں، گھنی خاردار جھاڑیاں لمبی لمبی گھاس کے قطعے تھے۔ جن میں سے گزرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا اور چونکہ یہ تمام علاقہ آدم خور کے زیر نگیں تھا، اس لیے کوئی شبہہ نہ تھا کہ وہ اس گھاس میں کہیں چُھپا بیٹھا ہو اور اچانک ہم آن پر پڑے، اس لیے ہر شخص پُھونک پُھونک کر قدم رکھ رہا تھا۔ بڑی مصیبت یہ تھی کہ اردگرد میلوں تک پگڈنڈیاں ہی پگڈنڈیاں تھیں، لیکن کسی گاؤں یا بستی کے آثار اب تک دکھائی نہ دیے۔
سالان اور رنگ کوٹ پٹی میں سے گزرتے ہوئے سفر کے چوتھے روز ہماری مختصر سی پارٹی چاکیتی نام کی ایک بڑی بستی کے قریب پہنچی۔ یہاں کے لوگوں نے نہایت عزّت اور محبّت کے جذبات سے ہمارا استقبال کیا اور گاؤں کے تمام بچے، بُوڑھے، جوان جن میں مرد و زن سبھی شامل تھے، ہمیں ایک عجوبۂ روزگار شَے سمجھ کر گھروں سے نکل آئے اور گھیرا ڈال کر کر کھڑے ہو گئے۔ گاؤں کے نمبردار نے ہم پر کرم کیا اور ایک پختہ دو منزلہ مکان میں لے گیا۔ باتوں باتوں میں اُس نے بتایا کہ چند روز قبل دریائے پانار کے کے پرلی طرف واقع ایک گاؤں میں چیتا ایک بوڑھے کو اٹھا کر لے گیا تھا۔ یہ خبر بڑی حوصلہ افزاء تھی۔ جب مَیں نے اگلے روز دریا کو عبور کر کے سینولی جانے کا ارادہ ظاہر کیا، تو نمبردار کہنے لگا:
"جناب، آجکل دریا خوب چڑھا ہوا ہے اور اسے پار کرنا بہت مشکل ہو گا۔ دریا پر پل بھی نہیں ہے۔ آپ ایک آدھ دن یہیں ٹھہر جائیے۔ اگر اس اثناء میں بارش نہ ہوئی، تو پانی جلد ہی اُتر جائے گا، ورنہ پھر مَیں اپنا ایک آدمی آپ کے ساتھ کروں گا، وہ ایسی جگہ سے آپ کو دریا پار کرا دے گا جہاں پانی چھاتی چھاتی ہو گا۔ ویسے ہماری خواہش تو یہی ہے کہ دریا کبھی نہ اُترے، ہمیشہ چڑھا ہی رہے۔’
"وہ کیوں؟" میں نے حیران ہو کر پُوچھا۔
"اس لیے کہ جب تک دریا چڑھا رہے گا، چیتا اسے پار کر کے ہماری بستی میں داخل نہیں ہو سکے گا۔" نمبردار نے ہمیں جس مکان میں ٹھہرایا تھا، اُس کی دو منزلیں تھیں اور اوپر نیچے دو دو کمرے بنے ہوئے تھے، وہ ہمیں اُوپر کی منزل کے دو کمرے دینے کے لیے تیار تھا، لیکن میں نے کہا کہ اوپر کی منزل کا صرف ایک کمرہ میرے آدمیوں کو دے دیا جائے، میں خود نچلی منزل کے ایک کمرے میں سونا زیادہ پسند کروں گا۔ میری اِس فرمائش پر نمبردار نے کچھ کہنے کی کوشش کی، مگر میں نے گفتگو کا رُخ بدل دیا اور آدم خور کے بارے میں مختلف داستانیں سُنتا رہا۔ سورج غروب ہونے کے کچھ دیر بعد سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور گاؤں کی زندگی تاریکی اور خاموشی میں ڈوب گئی۔ میں نے اپنے سونے کے لیے جو کمرہ پسند کیا تھا، اس کا حال یہ تھا کہ اس میں نہ کوئی دروازہ تھا، نہ کوئی کھڑکی۔ ممکن ہے میں باہر صحن میں سوجاتا، لیکن کچے فرش پر پلنگ کے بغیر سونا خطرے سے خالی نہ تھا۔ سانپوں، بچھوؤں اور دوسرے بہت سے زہریلے حشرات الارض کی یہاں کثرت تھی۔ میرے ملازم نے کمرہ صاف کیا۔ صفائی کرتے ہوئے وہ دبی زبان سے گاؤں والوں اور خصوصاً اُس شخص کو گالیاں دے رہا تھا جو اس کمرے میں کبھی آن کر رہا ہو گا۔ گندے چیتھڑوں اور پھٹے پُرانے بدبودار کپڑوں کا انبار ایک کونے میں لگا ہوا تھا، دوسرے گوشے میں مٹی کا ڈھیر نظر آیا۔ کونوں کھدروں میں لکڑیوں نے جالے تن رکھے تھے۔ میرے ملازم نے ڈیڑھ دو گھنٹے کی مشقت کے بعد کمرہ صاف کر کے میرا بستر فرش پر بچھا دیا۔ کھانا کھاتے ہی مَیں بستر پر آن گرا اور چونکہ بارہ گھنٹے کے مسلسل سفر نے ٹانگیں شل کر دی تھیں، بستر پر گرتے ہی ایسا بے خبر سویا کہ دن چڑھے آنکھ کھلی۔ کیا دیکھتا ہوں، ایک شخص پائنتی بیٹھا میری طرف گھور رہا ہے۔ اس شخص کی حالت دیکھتے ہی میرا کلیجہ اُچھل کر حلق میں آ گیا اور بدن کا ہر رونگٹا فرطِ خوف سے کھڑا ہو گیا۔
وہ بدنصیب شخص کوڑھ کے بھیانک مرض کی آخری منزلیں طے کر رہا تھا۔
اُسے دیکھ کر میرے مُںہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا، بلکہ مَیں بستر پر یوں سمٹ کر بیٹھ گیا جیسے میرے سامنے کوئی اژدھا آن بیٹھا ہے اور کسی بھی لمحے مجھے ڈس لے گا۔
"آپ اس کمرے میں خوب آرام سے سوئے ہوں گے۔" کوڑھی نے میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ "اس کمرے میں مَیں رہتا ہُوں۔ دو روز ہوئے اپنے رشتہ داروں سے ملنے ایک قریبی گاؤں گیا تھا۔ رات کو واپس آیا، تو آپ یہاں سو رہے تھے۔ مَیں نے جگانا مناسب نہ سمجھا۔’
میں نے کچھ کہے بغیر جلدی جلدی بستر سمیٹا۔ خود ہی بغل میں دابا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ وہ حیرت سے میری یہ حرکتیں دیکھتا رہا، لیکن کچھ نہ بولا۔ شاید وہ میرے چہرے پر نمودار ہونے والے ناگوار اثرات دیکھ کر*** کر خدا معاف کرے، ابتدا ہی سے مجھے کوڑھیوں اور جذامیوں سے کراہت رہی ہے اور یہ مرض تو گاؤں اور خصوصاً الموڑہ میں اس کثرت سے پھیلا ہوا ہے کہ بیان سے باہر۔ ہر بستی اور ہر گاؤں میں پانچ دس کوڑھی آپ کو آسانی سے مل جائیں گے اور چونکہ جہالت کے باعث یہ لوگ مریض کا معالجہ نہیں کرتے اس لیے مرض بڑھتا اور پھیلتا رہتا ہے۔ اور یُوں بھی چُھوت کا مرض ہے، ہَوا کی طرح چلتا اور ایک دوسرے کو لگتا ہے۔ کوڑھی دوسرے صحت مند لوگوں میں مِلے جُلے رہتے ہیں اور لوگ پتہ چل جانے کے باوجود کہ فلاں شخص اس مکروہ مرض میں مبتلا ہے، اس کے ساتھ کھاتے پیتے اور اٹھنے بیٹھنے کا سلسلہ ختم نہیں کرتے۔ نمبردار نے مجھے بتانے کی کوشش کی تھی، مگر اپنی حماقت کے باعث مَیں نے اُسے بات کرنے کا موقع ہی نہ دیا۔ بہرحال اب میرے لیے اس مکان میں تو کیا، گاؤں میں پل بھر کو ٹھہرنا دشوار ہو گیا۔ ہر طرف کوڑھی ہی کوڑھی نظر آنے لگے اور طبیعت اس قدر مضطرب ہوئی کہ دوپہر سے پہلے پہلے سامان باندھ کر نمبردار سے کہا کہ وعدے کے مطابق اپنا آدمی ہمارے ساتھ کر دے تاکہ وہ دریا پار کرا آئے۔ وہ سمجھ گیا کہ میں کس وجہ سے چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ اس کی پیشانی پر ندامت کی اُبھرتی ڈوبتی لکیریں مجھے صاف نظر آ رہی تھیں۔
یہاں سے جو راہبر ہمارے ساتھ چلا، وہ بھی عجیب آدمی تھا۔ قد چار فٹ چھ انچ، چھوٹا سَر جس پر سادھوؤں کی طرح لمبی لمبی جٹائیں، توند بے طرح نکلی ہوئی، ٹانگیں کمان کی طرح ٹیڑھی اور چھوٹی چھوٹی، پاؤں جوتوں سے خالی۔ نہ جانے کم بخت کون سی زبان بولتا تھا کہ دو چار الفاظ کے سوا اس بات کی کوئی بات میرے پَلّے نہ پڑتی تھی۔ بہت جلد وہ اور پنوا راج آپس میں بے تکلف ہو گئے اور پرانے یاروں کی طرح ایک دوسرے سے باتیں اور ہنسی مذاق کرنے لگے۔ گاؤں سے باہر نکلتے ہی ایک چھوٹا سا برساتی نالہ راہ میں آیا۔ یہاں رک کر مَیں نے اپنے کپڑے اُتارے اور کمر سے ایک چادر باندھ کر کاربالک صابن لگا کر کپڑے اچّھی طرح دھوئے، پھر خود نہایا۔ آسمان پر سورج چمک رہا تھا، لیکن دھوپ میں تمازت نہ تھی، اس لیے کپڑے سوکھنے میں دو گھنٹے لگے، تاہم مَیں نے یہ تاخیر گوارا کر لی۔
چلتے چلتے ایک بلند اور سرسبز پہاڑی کے دامن میں پہنچے۔ گائڈ صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ ہمیں اس پہاڑی کو عبور کرنا ہو گا۔ جُوں تُوں کر کے پہاڑی پر چڑھے اور اس کی پرلی طرف اُترے، تو اپنے آپ کو ایک حسین وادی میں پایا۔ سُورج چُھپنے میں ابھی پون گھنٹہ باقی تھا۔ اور ہمارا حال یہ تھا کہ ٹانگیں قدم بڑھانے سے عاری ہو چکی تھیں، مگر گائڈ اِدھر اُدھر آگے پیچھے دیکھے بغیر مسلسل چل رہا تھا۔ وادی کو قطع کر کے ایک بار پھر ہم نے ایک بلند اور عظیم پہاڑ کو اپنے سامنے پایا۔ اس کی چڑہائی زیادہ خطرناک اور دشوار تھی، سب لوگ ہانپتے اور تھرتھرانے لگے، مگر برہنہ پا گائیڈ پر کوئی اثر نہ ہُوا۔ وہ اسی طرح لطف لیتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ بڑے بڑے پتّھروں اور چٹانوں پر اترتے چڑہتے ہوئے اس پر ایک بیحد پُھولے ہوئے موٹے سے بندر کا شبہہ ہوتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ دریائے پانار نزدیک ہی ہو گا، لیکن بہت جلد یہ خوش فہمی رفع ہو گئی جب گائڈ نے بتایا کہ دریا، ابھی بہت دُور ہے اور درمیان میں کئی پہاڑیاں اور بے شمار نشیب و فراز طے کرنے ہیں۔
دوسری پہاڑی جس پر ہم بکروں کی طرح اچھل اُچھل کر چڑھ رہے تھے، نہایت پھسلواں اور ڈھلوان تھی۔ اگر اس پر خود رَو مضبوط جھاڑیاں نہ ہوتیں جنہیں پکڑ پکڑ کر ہم اوپر چڑھ رہے تھے، تو یقین کیجیے کہ ہم قیامت تک اس کی چوٹی پر ہرگز نہ پہنچ سکتے اور کسی نہ کسی کھڈ میں گر کر ہماری ہڈیاں چُور چُور ہو جاتیں۔ جب ہم چوٹی پر پہنچے، تو سورج غروب ہو چکا تھا اور فضا میں اتنی ٹھنڈ تھی کہ ہمارے دانت بج رہے تھے، لیکن چونکہ شدید مشقت کے بعد یہ چوٹی سر کی تھی، اس لیے ٹھنڈ کے باوجود ہمارے جسم پسینے سے شرابور تھا اور سانس۔۔۔ اس کی آمد و رفت کا حال نہ پُوچھیے، بس یوں محسوس ہوتا تھا جیسے پھیپھڑے پھٹ کر مُنہ کے راستے باہر آ جائیں گے۔ ہماری تو یہ حالت اور اُدھر گائڈ صاحب پہلے کی طرح مستعد اور تر و تازہ آگے چلنے کو تیار۔ مَیں نے انہیں ڈانٹ کر روکا، تب رُکے اور منہ بسور کر ایک طرف بیٹھ گئے۔ جب ہمارا سانس درست ہو گیا، تو گائڈ نے پنوا سے مخاطب ہو کر کہا:
"دریا یہاں سے نزدیک ہی ہے۔۔۔ اگر۔۔۔’
مَیں نے اسے پھر ڈانٹا۔ "دریا نزدیک ہو یا دور، اب ہم ایک قدم بھی آگے نہ اٹھائیں گے۔ تم نے چلا چلا کر ہمارا کچومر نکال دیا ہے۔ پہلے ہی بتا دیتے، تو مَیں کوئی اور راہ اختیار کرتا، صبح تک ہمیں آرام کرنے دو، اس کے بعد ہمیں دریا پر لے جانا۔’
رات نہایت خوشگوار اور سرد تھی۔ پہاڑی کی چوٹی پر کمبلوں میں دبکے پڑے رہے۔ سورج کی پہلی کرن نمودار ہوتے ہی مَیں اٹھ بیٹھا۔ قُلی، مُلازم، پنوا اور گائڈ سبھی خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ پہاڑ کی چوٹی طلوع ہوتے ہوئے سورج کا نظارہ ایسا دل فریب اور مسحور کُن تھا کہ مَیں اسی میں کھو گیا۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے مَیں سورج کی سنہری کرنوں کے ساتھ ساتھ فضا میں تیر رہا ہوں۔ اس وقت روح کو ایسی فرحت و شامانی نصیب ہوئی جس کا تصوّر گنجان آباد شہروں میں رہنے والے کبھی نہیں کر سکتے۔ مَیں نے اپنے ساتھیوں کو بیدار کیا۔ سب آنکھیں ملتے ہوئے اٹھے۔ میرا ارادہ تھا کہ دریا پر جا کر ناشتا کریں گے اور ممکن ہے ایک آدھ بڑی مچھلی ہی مل جائے، چنانچہ ہم پہاڑ کی دوسری طرف اُترنے لگے اور ایک وسیع و عریض میدان میں اترے جس میں قدِ آدم گھاس حدِ نظر تک پھیلی ہوئی تھی۔ مشرقی جانب ایک اور پہاڑی نظر آئی۔
"دریا کہاں ہے؟" میں نے گائڈ کی طرف دیکھ کر غصے سے کہا۔ "اس علاقے میں تو کوسوں دریا کا پتہ نہیں۔ تم ہمیں غلط راستے پر تو نہیں لے آئے؟’
"نہیں صاحب، راستہ صحیح ہے۔" پنوا نے گائڈ کی طرف سے ترجمانی کا حق ادا کیا۔" میں خود اِسی راہ پر کئی مرتبہ آیا گیا ہوں۔ بس اُس پہاڑی کو پار کرتے ہی دریا ہمارے قدموں میں ہو گا۔’
یہ سُن کر قلیوں کے چہرے لٹک گئے۔ غصہ تو مجھے بیحد آیا، لیکن پی گیا۔
پنوا نے اپنی کمر پر ایک وزنی گٹھڑی سی لاد رکھی تھی اور دائیں بغل میں ایک پرانا اوورکوٹ تھا جو نہ جانے کس طرح اُس کے پاس پہنچا۔ میرے پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ اس گٹھڑی میں کپڑے ہیں، چند برتن اور کھانے پینے کا سامان، یہ سب چیزیں وہ اپنے رشتہ داروں کے لیے لے جا رہا ہے۔
"پنوا بھائی، اتنا بوجھ اٹھائے اٹھائے پھر رہے ہو، تمہاری کمر تھک گئی ہو گی، لاؤ کچھ چیزیں مجھے دے دو۔ میں توخالی ہاتھ ہوں۔" گائڈ نے پیش کش کی۔ پنوا نے اپنا وزنی اوورکوٹ اسے دے دیا جسے گائڈ نے لپیٹ کر اپنی کمر سے باندھ لیا۔ اس نے راستے میں ہنس کر پنوا سے کہا:
"یہ کوٹ تو بہت ہی ہلکا ہے، میں تو ایک من وزن اٹھا کر کماؤں کی ساری پہاڑیاں پار کر چکا ہوں۔’
اگر یہ شخص یہی بات کسی اور موقعے پر کہتا، تو مَیں کبھی یقین نہ کرتا، لیکن اس کی طاقت اور ہمّت کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کے بعد جھٹلانا ممکن نہ تھا، بلاشبہ وہ صحیح کہہ رہا تھا۔ دراصل وہ تھا ہی پہاڑی علاقے کا باشندہ اور ان لوگوں کی عُمریں پہاڑوں پر چڑھتے اُترتے کٹ جاتی ہیں۔
خُدا خدا کر کے ہم نے تیسری پہاڑی بھی عبور کی اور اب معاً ہم دریا کے کنارے کھڑے تھے۔ دریا کیا تھا، ایک چھوٹی سی ندی تھی، لیکن برسات کے اس موسم میں یہ چھوٹی سی ندّی سمندر بن گئی تھی۔ پانی خُوب چڑھا ہوا تھا اور کناروں سے نکل دُور دُور تک پھیل رہا تھا۔ اسے پار کرنا خاصا مشکل نظر آتا تھا۔ گائڈ ایک طویل چکّر کاٹ کر ہمیں ایک ایسے مقام پر لے گیا جہاں سے دریا کا دوسرا کنارہ تقریباً پندرہ فٹ دور تھا اور اس مقام پر پانی کی گہرائی بھی کچھ زیادہ نہ تھی۔ سب سے پہلے مَیں دریا میں اُترا۔ پانی میری رانوں تک اونچا تھا۔ پیچھے چاروں قُلی، پھر میرا ملازم، آخر میں پنوا اور گائڈ دریا میں اترے۔ چند لمحے بعد مَیں نے عقب میں کسی کی چیخ سںُنی، مڑ کر دیکھا، تو بے چارا گائڈ اپنے چھوٹے قد کی وجہ سے گردن تک پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ یکایک پانی کا ایک زبردست ریلا آیا اور اُسے بہا کر اپنے ساتھ لے چلا۔ وہ مدد کے لیے چِلّایا۔ میرا خیال تھا کہ اُسے غرق ہونے سے اب کوئی نہیں بچا سکتا، لیکن فوراً ہی پنوا حقِ دوستی ادا کرتے ہوئے اس کی طرف لپکا اور گردن پکڑ لی۔ اس دوران میں وہ پانی سے لڑنے کی شدید کوشش کرتا رہا۔ آخر اُس نے گائڈ کو دوسرے کنارے پر پہنچا ہی دیا، لیکن اِس حالت میں کہ پانی کی خاصی مقدار اس کے پیٹ میں پہنچ چکی تھی، تاہم جان بچی سو لاکھوں پائے۔
میں پنوا کی اس بہادری اور جاں نثاری سے بیحد متاثر تھا اور اس شخص کے بارے میں مجھے اپنی رائے بدلنی پڑ رہی تھی۔ مَیں نے اُسے شاباش دیتے ہوئے کہا:
"بھئی تم تو بڑے جی دار نکلے۔ مَیں تو سَوچ رہا تھا کہ اس کے ساتھ تم بھی ڈوبے۔’
"اجی صاحب، اس بدمعاش سے مجھے کیا دلچسپی۔۔۔ یہ کم بخت اپنے ساتھ میرا اوورکوٹ بھی لے مرتا۔" پنوا نے جواب دیا۔
میرے منہ سے بے اختیار قہقہہ نکل گیا۔ پنوا کا جملہ ہندو ذہنیت کی پوری عکاسی کرتا ہے۔ وہ رات ہم نے دریا کے کنارے ہی کاٹی۔ پنوا نے بتایا کہ اس گاؤں یہاں سے پانچ میل ہے اور وہ علی الصبّح چلا جائے گا۔
صبح جب ہماری آنکھ کھلی، تو پنوا نظر نہ آیا۔ کم بخت سُورج نکلنے سے پہلے ہی کھسک گیا تھا۔ میں حیران تھا کہ اب اسے چیتے کا ڈر نہ لگا، حالانکہ وہ موذی اس علاقے میں گھوم رہا تھا، بہرحال دوپہر تک ہم سینولی گاؤں کے قریب پہنچ گئے۔ یہ تین پہاڑیوں کے درمیان گِھرا ہوا ایک حسین گاؤں تھا۔ مکان کچے، لیکن صاف ستھرے، گلیاں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر سے پاک، آدمی ملنسار، مہمان نواز اور سیدھے سادے۔ بستی کے اردگرد انہوں نے جابجا قدِ آدم خاردار جھاڑیاں کثرت سے پھیلا رکھی تھیں تاکہ چیتا اندر نہ گھس آئے۔ ہمیں دیکھ کر ان لوگوں کے چہروں پر حیرت کے آثار تھے۔ تھوڑی دیر میں سبھی اپنے اپنے گھروں سے نکل آئے اور ہمارے گرد گھیرا ڈال کر کھڑے ہو گئے۔ ان میں سے اکثر ایسے تھے جنہوں نے زندگی میں پہلی بار کسی افسر یا اس کی بندوق کو دیکھا تھا۔ میں نے انہیں اپنے ملازم اور قلیوں کی مدد سے سمجھایا کہ چیتے کا قلع قمع کرنے آیا ہوں اور کیا کوئی ایسا شخص ہے جو چیتے کے بارے میں بتا سکے۔ اتنا سننا تھا کہ لوگ اپنی اپنی کہنے لگے۔ ان میں سے ہر شخص نے کسی نہ کسی موقع پر چیتے کو دیکھا تھا اور اپنی الگ داستان سُنانے کو تیّار تھا۔ معلوم ہوا کہ چھ روز قبل چیتے نے چاول کے کھیتوں میں کام کرتے ہوئے ایک آدمی کو مار ڈالا اور ہڑپ کر گیا۔ اس سے پہلے وہ اس گاؤں کے تین افراد کو کھا چکا تھا۔ یہ بھی پتہ چلا کہ چیتے نے اپنا ٹھکانہ مشرقی پہاڑوں کے اندر کہیں بنا رکّھا ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا اس بستی کو تین طرف سے پہاڑوں نے گھیر رکھا تھا اور ایک طرف قد آدم گھاس کا وسیع و عریض قطعہ تھا۔
چند منٹ کے سرسری جائزے ہی سے اندازہ ہو گیا کہ چیتے کو سینولی کے گرد و نواح سے بہتر کوئی اور ٹھکانہ پورے کماؤں میں نہیں مل سکتا تھا۔ یہ علاقہ اس کے لیے نہ صرف بالکل محفوظ تھا، بلکہ اس کا کھاجا بھی یہاں وافر مقدار میں موجود تھا۔ ایک ہوشیار اور تنومند چیتے کے لیے رات بھر میں پچاس ساتھ میل کا فاصلہ طے کر لینا کچھ مشکل نہیں ہوتا اور یہی وجہ تھی کہ وہ چاروں طرف پچاس پچاس میل کے علاقے میں پھیلی ہوئی بے شمار بستیوں اور گاؤں کے لوگوں پر نہایت آسانی سے حملہ آور ہوتا اور کہیں نہ کہیں سے اپنا شکار حاصل کر کے سینولی لوٹ جاتا۔ ایسا بھی ہوتا کہ وہ دن دہاڑے بستی میں آ جاتا اور اگرچہ اس کا پیٹ بھرا ہوتا، تاہم کسی نہ کسی کو اپنی عادت کے مطابق ہلاک کر کے رفوچکّر ہو جاتا۔
بہرحال میں نے تمام حالات کا بنظرِ غائر اندازہ کر کے اپنا پروگرام مرتّب کر لیا۔ دو صحت مند بکریاں گاؤں والوں سے خریدیں اور چونکہ معلوم ہو چکا تھا کہ چیتا کئی دن سے غیر حاضر ہے اور عنقریب نمودار ہو گا، ان میں سے ایک بکری کو گھاس کے قطعے کے کنارے پر درخت سے باندھ دیا اور دوسری کو گاؤں کے ایک بلند چبوترے کے ساتھ جکڑ دیا۔ میرا خیال تھا کہ چیتا اسی شب گاؤں میں ضرور آئے گا۔ یہ چبوترہ ایک وسیع مکان کا تھا جو نمبردار کی ملکیّت تھا اور گاؤں کے شمالی سرے کا آخری مکان ہونے کے باعث غیر محفوظ تھا، اس لیے عرصے سے خالی پڑا تھا۔ نمبردار نے میری خواہش پر اس میں سے اپنا کاٹھ کباڑ اور بچا کُھچا سامان اٹھایا اور اسے میرے لیے خالی کر دیا۔
سُورج غروب ہوتے ہی گاؤں پر ہیبت ناک سنّاٹا اور تاریکی مُسلّط ہو گئی۔ کبھی کبھی کُتوں کے بھونکنے کی آواز سنائی دے جاتی اور پھر وہی اعصاب شکن خاموشی۔ بکریاں خلافِ معمول خاموش تھیں اور مَیں ان کے چیخنے کا بیتابی سے منتظر تھا۔ میرا دھیان اُس بکری پر لگا ہوا تھا جو گھاس کے میدان کے نزدیک بندھی تھی۔
مَیں اُس مکان میں تنِ تنہا تھا۔ اپنے آدمیوں کو گاؤں کے اندر بھیج دیا تھا۔ رات کے ٹھیک بارہ بجے، جب کہ ستاروں کی روشنی میں دُھندلا دُھندلا سا منظر آنکھوں کے سامنے تھا، مَیں نے مکان کے عقب میں ایسی آواز سُنی جیسے کوئی جانور اپنے پنجوں سے دیوار کُھرچ رہا ہے۔ جنگل میں پھیلے ہوئے وحشت انگیز سناٹے میں یہ آواز اتنی عجیب تھی کہ ایک لمحے کے لیے مجھ پر ہیبت طاری ہو گئی۔
اب مَیں نے اس عظیم خطرے کو پہلی بار محسوس کیا جو میرے سر پر منڈلا رہا تھا۔ نادان شکاریوں کی طرح مَیں نے اپنی حفاظت کا سامان کیے بغیر خود کو چیتے کے حوالے کر دیا تھا۔ پوزیشن ایسی تھی کہ وہ کسی بھی لمحے اچانک بجلی کی طرح مجھ پر آن پڑتا اور مجھے بلاشبہ مدافعت میں فائر کرنے کا موقع بھی نہ ملتا۔
چند ثانیوں کے لیے مَیں کان لگا کر یہ آوازیں سنتا رہا۔ کچھ یوں لگا جیسے چیتے کے بجائے کوئی اور جانور ہے۔ یک لخت چبوترے پر بندھی ہوئی بکری کی پتلی اور کانپتی ہوئی چیخ گونج اٹھی۔ مَیں لپک کر باہر نکلا۔ بکری کا اور میرا درمیانی فاصلہ بمشکل پچیس فٹ ہو گا۔ مَیں نے فوراً ٹارچ روشن کی، کیا دیکھتا ہوں کہ قوی ہیکل چیتا بکری کو مُنہ میں دبائے کے لیے جا رہا ہے۔ ٹارچ روشن ہوتے ہی وہ رُکا اور مڑ کر میری طرف گھورنے لگا۔ ٹارچ کی روشنی میں اس کی آنکھیں ہیروں کی مانند چمک رہی تھیں اور یوں نظر آتا تھا جیسے آنکھوں میں بجلیاں سی کوند رہی ہیں۔
مجھ پر نظر پڑتے ہی چیتے نے بکری کو مُنہ سے نکال کر زمین پر ڈال دیا اور غُرّانے لگا۔ پھر اس نے اپنے اگلے دو پنجے آگے بڑھائے، اس کا پیٹ زمین کو چُھونے لگا۔ اب وہ مجھ پر جست کرنے کے لیے بالکل تیّار تھا۔ اسی لمحے مَیں نے اُس کی کھوپڑی کا نشانہ لے کر لبلبی دبا دی۔ چیتا آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے گرا، گولی اُسے یقیناً لگی تھی۔ ایک منٹ تک زمین پر بُری طرح لوٹنے اور گرجنے غرانے کے بعد وہ اُٹھا اور چشم زدن میں نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ میں نے اس دوران میں ایک اور فائر کیا، مگر یہ فائر بے کار گیا، کیونکہ چیتا غائب ہو چکا تھا۔
تھوڑی دیر بعد اپنے حواس درست کر کے مَیں اس جگہ گیا۔ جہاں چیتے نے بکری کو مُنہ سے نکال کر ڈال دیا۔ خُون ہی خون بکھرا ہوا دکھائی دیا، لیکن فوری طور پر یہ اندازہ نہ ہوسکا کہ خُون چیتے کا ہے یا بکری کا؟ تاہم چند قدم آگے بڑھ کر جب گھاس کا معائنہ کیا، تو یہ دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ جابجا خون کے دھبّے پھیلتے چلے گئے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ میری پہلی گولی چیتے کو زخمی کرگئی ہے آدھی رات کے وقت زخمی اور جھلّائے ہوئے آدم خور چیتے کا تعاقب کرنا محال تھا۔ مَیں نے بکری کی لاش وہیں پڑی رہنے دی اور خود گھاس کے اس قطعے کی طرف چلا جہاں دوسری بکری بندھی ہوئی بُری طرح چلّا رہی تھی۔ مَیں نے بکری کو وہاں سے کھولا اور اُسے اپنے ساتھ گاؤں کے اندر لے گیا۔ فائروں کی آوازیں سُن کر گاؤں والے بیدار ہو چکے تھے، لیکن کسی کو اپنے گھر سے باہر نکلنے کی جرأت نہ ہوئی۔ مَیں نے انہیں آوازیں دے دے کر بُلایا۔ بڑی مشکل سے دس بارہ نوجوان جمع ہوئے۔ مَیں نے بتایا کہ چیتا زخمی ہوکر فرار ہو گیا ہے اور سخت غضب ناک ہے۔ آج کی رات وہ زخم چاٹنے میں لگا رہے گا، لیکن بہتر یہی ہے کہ اُسے زیادہ مہلت نہ دی جائے اور سُورج نکلنے سے کچھ دیر پہلے گاؤں کے سب لوگ ہانکا کرنے کے لیے نکلیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ زیادہ دُور جانے کے بجائے گھاس کے اس لمبے چوڑے قطعے میں چُھپا رہے گا۔ بولو، کیا تم لوگ ہانکا کرنے کے لیے تیّار ہو؟ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر سب لوگ ہمّت کریں، تو چیتے کو ایک دن کے اندر اندر تلاش کرکے موت کے گھاٹ اتارا جا سکتا ہے۔
رات کا بقیہ حِصّہ ہانکے کی تیّاریوں میں کٹا اور سورج نکلنے سے ایک گھنٹہ پہلے پچّیس افراد پر مشتمل ایک گروہ ہاتھوں میں لاٹھیاں، برچھے، کلہاڑیاں اور ڈھول کنستر پیٹتا ہوا چیتے کی تلاش میں روانہ ہوا۔
آدم خور چیتے کی ہیبت کا کیا ٹھکانا، میں نے محسوس کیا کہ ہانکا کرنے والے نوجوانوں کے چہروں پر خوف و ہراس طاری ہے۔ ایک دوسرے کے قدموں کی آہٹ اور لمبی لمبی گھاس کی سرسراہٹ سن کر بار بار چونک پڑتے ہیں اور ایک آدھ بار ایسا بھی ہُوا کہ جھاڑیوں کے اندر چُھپا ہوا جنگلی خرگوش نِکل کر بھاگا تو پیچھے سے آنے والے تین نوجوان چیخیں مارتے ہوئے درختوں کی طرف دوڑے۔ اُن کا خیال تھا کہ چیتا برآمد ہوا ہے۔ اس صورتِ حال نے مجھے خاصا پریشان کردیا اور اپنی اس حماقت پر افسوس ہونے لگا کہ میں ان بے چاروں دیہاتیوں کو جو سب کے سب ہندو تھے، ہانکے پر کیوں لے آیا، لیکن بہرحال زخمی چیتے کو تلاش کر کے ہلاک کرنا ضروری تھا، کیونکہ ٹھیک ٹھاک ہونے کے بعد وہ ان باشندوں پر پہلے سے بھی زیادہ تباہی و بربادی لاتا۔
جن شکاریوں کو جنگل میں کبھی آدم خور چیتے یا شیر کے تعاقب میں نکلنے کا اتفاق ہوا ہے وہ بخوبی جانتے ہوں گے کہ یہ مرحلہ جتنا دلچسپ اور امید و بیم کی کیفیّت سے بھرپُور ہوتا ہے، اس سے کہیں زیادہ خطرناک اور جان لیوا بھی ہے۔ زخمی ہونے کے بعد درندے کے غیظ و غضب اور عیّاری کی انتہا نہیں رہتی۔ وہ اپنے بچاؤ کے لیے جان پر کھیل جاتا ہے اور اکثر شکاری یا ہانکا کرنے والے ذرا بھی بُزدلی دکھائیں، تو درندہ اُن پر بجلی کی طرح آن پڑتا ہے اور پھر چشم زدن میں کسی کی تِکّا بوٹی کر ڈالنا اس کے لیے کچھ مشکل نہیں ہوتا۔ مَیں اس زمانے میں اتنا جہاں دیدہ اور تجربہ کار شکاری نہ تھا۔ اِس میدان میں داخل ہوئے ابھی دِن ہی کتنے ہُوئے تھے اور ایک دو بار کے سوا کبھی زخمی درندے کے تعاقب میں علی الصبح ہانکے پر جانے کا اتفاق نہ ہوا تھا اور چونکہ ان گذشتہ مہمّوں میں مجھے کامیابی حاصِل ہوئی تھی، اس بنا پر میں کچھ زیادہ ہی بیباک اور نڈر بن گیا تھا۔ بہرحال اتنا ضرور تھا کہ پانار کا آدم خور چیتا آسانی سے میرے ہتّھے چڑھنے والا نہیں اور نہ معلوم ابھی کتنی جانیں اُس کے خونیں پنجوں اور ہلاکت خیز جبڑوں کا شکار ہونا باقی ہیں۔
ہم لوگ جُوں جُوں آگے بڑھتے، جنگل اُتنا ہی دشوار گزار اور گھنا ہوتا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ ایسے مقام پر جا نِکلے جہاں سات فٹ اونچی جھاڑیاں راہ میں حائل ہو گئیں اور جب ہم نے ان جھاڑیوں کے اندر گھسنے کی کوشش کی، تو ڈیڑھ ڈیڑھ انچ لمبےسوئی کی مانند باریک اور تیز کانٹوں نے کپڑے تار تار کر کر دیے، بلکہ کئی آدمی لہولہان بھی ہو گئے۔ ان جھاڑیوں میں سے گزرنا انسانی طاقت سے باہر تھا اس لیے ہم مایوس ہوکر واپس چلے۔ مجھے شبہہ تھا کہ مفرور چیتا انہی جھاڑیوں میں دبکا ہوا ہے۔ چند نوجوانوں نے ایک اور خشک کھائی کے اندر اتر کر مٹی کے بڑے بڑے جمے ہوئے ٹکڑے نکالے اور جھاڑیوں میں پھینکنے شروع کیے تو میرا شبہہ یقین میں بدل گیا۔ موذی درندہ ہلکی آواز میں غُرّایا اور اپنی ناراضی کا اظہار کرنے لگا۔ مجھے کچھ اور نہ سوجھی، تو جھاڑیوں میں دو تین فائر جھونک دیے اور اگلے ہی لمحے جنگل کی فضا اَن گنت پرندوں اور بندروں کی چیخوں سے لرز اٹھی ان آوازوں میں چیتے کی غراہٹیں اور پھر گرج بھی شامل ہو گئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ غضب ناک ہو کر باہر نکلنے کا ارادہ کر رہا ہے اور اس سے پیشتر کہ میں ہانکا کرنے والوں کو پناہ لینے یا بھاگ جانے کا اشارہ کروں، قدآور چیتا جس کا جبڑا خون میں لت پت تھا، جھاڑیاں چیرتا ہوا میرے دائیں ہاتھ کوئی پچیس فٹ کے فاصلے پر نمودار ہوا اور چھلانگیں لگاتا ہوا گھاس کے وسیع و عریض قطعے کی طرف بھاگا اور چند ثانیے میں نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ میرا خیال تھا کہ وہ اپنے ساتھ ایک آدھ آدمی کو پکڑ لے جائے گا، لیکن خدا کا شکر کہ اس نے ایسا نہ کیا۔ غالباً وہ اتنے آدمیوں کو اپنے قریب دیکھ کر اور فائروں کی آواز سے بدحواس ہو گیا تھا۔
میں اپنے آدمیوں کو لے کر گاؤں میں واپس آیا اور اطمینان سے ناشتا کیا۔ اب مجھے پُورا یقین تھا کہ چیتا ایک ہفتے تک اپنے زخم چاٹے گا اور اس علاقے سے نکل کر کہیں اور نہ جائے گا۔ میں نے دیکھ لیا تھا کہ اس کا جبڑا زخمی ہو چکا ہے اور غالباً وہ اپنے شکار کا گوشت آسانی سے چبا بھی نہیں سکے گا۔ بھوک اسے پناہ گاہ سے باہر نکلنے پر مجبور کرے گی۔ اپنا کھاجا حاصل کرنے کے لیے لازماً گاؤں کا رُخ کرے گا۔ اس لیے ابھی سے گاؤں کی اس انداز میں ناکہ بندی کی جائے کہ چیتے کے لیے صرف ایک راستہ گاؤں میں آنے کا کُھلا رہے اور باقی سب راستے بند ہوں۔
گھاس کا وہ قطعہ جو میرے خیال کے مطابق آدم خور چیتے کی پناہ گاہ بن چکا تھا، وسیع و عریض تھا اور گھاس کے لمبے لمبے ریشے گھنے اور ان کے کنارے اتنے تیز تھے کہ آدمی تو ایک طرف چھوٹے موٹے جانور بھی اس میں جاتے ہوئے گھبراتے تھے۔ میں نے گاؤں والوں سے کہا کہ وہ کسی تدبیر سے چیتے کو نکالنے کی کوشش کریں، مگر سب نے کانوں پر ہاتھ دھرے اور کہنے لگے کہ ہم اس بلا کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ مجھے معلوم ہوا کہ انہوں نے آپس میں بات چیت کر کے طے کیا تھا کہ آئندہ کسی کام میں میری مدد نہ کی جائے۔
یہ صورت حال میرے لیے نہایت پریشان کُن تھی۔ اتنے دن کی مشقت اور صعُوبتیں اٹھانے کے بعد جب کامیابی کی منزل نزدیک آ رہی تھی تو گاؤں والوں نےسب کیے کرائے پر پانی پھیرنے کا پروگرام بنا لیا۔ سچ پوچھیے تو مجھے اُن کی جہالت اور بُزدلی پر غصّہ آنے کی بجائے ترس آتا تھا۔ ڈرانے یہ دھمکانے کا موقع ہی نہ تھا اور نہ میں ان پر اس قسم کا دباؤ ڈالنے کے حق میں تھا۔ کیونکہ میں نے ایسے بہت سے انگریز افسروں اور شکاریوں کے قصّے سُن رکھے تھے جو مقامی باشندوں کو خواہ مخواہ ڈراتے دھمکاتے، مارتے پیٹتے اور اُن سے بیگار لیتے تھے اور بعد ازاں جنگل میں کسی نہ کسی درندے کا تر نوالہ بن جاتے تھے۔ اس حادثے کی وجہ یہ ہوتی تھی کہ لوگ درندرے کی خون آشام حرکتوں کے باعث پہلے ہی نالاں ہوتے، اوپر سے ان انگریز افسروں اور ان کے دیسی ماتحتوں کی ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ سے واسطہ پڑتا، چنانچہ ان لوگوں کے سینے میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی اور وہ جان بُوجھ کر شکاری کو ایسی جگہ لے جاتے جہاں وہ آسانی سے آدم خور کے ہتّھے چڑھ جاتا تھا۔
میرا خیال تھا زخمی چیتا زیادہ دیر تک بھوک برداشت نہیں کرے گا۔ اور ضرور کسی نہ کسی آدمی یا جانور کی تلاش میں گاؤں کے اندر آئے گا، لیکن تین دن گزرگئے، اس کا کہیں نام و نشان بھی نہ تھا۔ میں دوسری بکری کو روزانہ باہر گھاس کے میدان کے کنارے بندھواتا اور خود ساری ساری رات ایک درخت پر بیٹھا چیتے کا انتظار کرتا رہتا، مگر اُسے تو جیسے زمین نِگل گئی تھی، کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ ماجرا کیا ہے۔ کبھی خیال آتا کہ وہ اس علاقے سے نکل کر کہیں اور چلا گیا ہے اور کبھی سوچتا ممکن وہ زیادہ خُون بہہ جانے کے باعث مر چکا ہو، بہرحال اُمّید و بیم کی یہ کیفیت حد درجہ اعصاب شکن اور حوصلہ پست کر دینے والی تھی اور میں جلد از جلد اپنے آپ کو اس کوفت سے آزاد کرلینا چاہتا تھا۔
تین راتین مُسلسل درخت پر ٹنگے رہنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مچّھروں نے کاٹ کاٹ کر میرا چہرہ سُجا دیا اور پھر چوتھے روز صبح جب میرے آدمیوں نے مجھے درخت سے اُتارا، تو میری حالت اتنی ابتر ہو چکی تھی جیسے برسوں کا بیمار۔ ایک ہفتے تک ملیریا بخار نے دبائے رکّھا۔ اس دوران میں چیتے کی کوئی خبر نہ ملی اور کسی نہ کسی واردات کے وقوع پذیر ہونے کی اطلاع آئی، چنانچہ میرا شبہہ یقین میں بدل گیا کہ آدم خور چیتا زخموں کی تاب نہ لا کر مر گیا ہے۔
ایک روز میں نے گاؤں والوں کو بُلایا اور اُن سےکہا کہ چیتے کو تلاش کریں ضرور کہیں نہ کہیں اس کی لاش مل جائے گی، لیکن چیتے کی ہیبت ان کے دلوں پر اس قدر بیٹھی ہوئی تھی کہ سب نے صاف انکار کر دیا۔ اگرچہ گزشتہ دس روز سے کوئی واردات نہیں ہوئی تھی اور ہر طرف امن چین تھا مگر سینولی کے باشندے حسبِ معمول سُورج چھپتے ہی اپنی اپنی جھونپڑیوں اور کچے مکانوں میں گُھس کر دروازے بند کر لیتے تھے اور صبح ہونے تک کوئی شخص اپنے گھر سے باہر نکلنے کی جرأت نہ کرتا تھا، رات بھر بستی پر بھیانک سناٹا طاری رہتا۔ لوگ اِس ڈر سے دِیے بھی نہ جلاتے تھے کہ ان کی روشنی دیکھ کر درندہ اسی طرف آئے گا۔
تیرھویں دن میری حالت کچھ ٹھیک ہوئی۔ بخار تو اُتر چکا تھا، لیکن نقاہت ابھی باقی تھی۔ اس موقع پر مجھے گاؤں والوں کے لیے تعریفی کلمات کہنے پڑیں گے۔ ہر شخص نے حتی الامکان میری دیکھ بھال اور تیمارداری کا فریضہ ادا کرنے کی کوشش کی اور گاؤں کے ایک بوڑھے وید نے نہایت محبّت اور شفقت سے میرا علاج کیا، لیکن سچ پوچھیے، تو مجھے اپنی صحت سے زیادہ اس مُوذی آدم خور کی فکر کھائے جاتی تھی اور میں اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ جاننے کے لیے بے چین تھا اور کہ وہ مرگیا یا زندہ ہے اور اگر زندہ ہے، تو کہاں ہے اور اس نے اب تک کوئی واردات کیوں نہیں کی۔ بہرحال اُس روز مَیں دوپہر تک اپنے آدمیوں کی معیّت میں ادھر ادھر پھرتا رہا۔ گھاس کے قطعے کی طرف بھی گیا اور جہاں تک جا سکتا تھا، وہاں تک پہنچا، مگر آدم خور کا کہیں سُراغ نہ مِلا۔ پندرھویں روز جبکہ میں واپس جانے کا ارادہ کررہا تھا، ایک شخص گاؤں میں آیا اُور نے یہ خبر دہشت اثر سنائی کہ مشرق کی جانب پندرہ میل دُور ایک قصبے میں گزشتہ رات اٹھارّہ سالہ نوجوان کو آدھی رات کے وقت کوئی درندہ پکڑ کر لے گیا ہے۔ یہ خبر سن کر میرے کان کھڑے ہوئے اور میں نے اس شخص کو اپنے پاس بلوایا، یہ ادھیڑ عمر سیاہ رنگ کا ایک ہندو پٹواری تھا۔ جو اپنے کسی کام سے اِدھر آیا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس کی گھگی بندھ گئی۔ شاید وہ مجھے کوئی اور جابر و وقاہر انگریز افسر سمجھ رہا تھا، لیکن جلد ہی میں نے اس کی یہ غلط فہمی دور کردی اور اس حادثے کی تفصیلات دریافت کیں وہ اپنی گنجی چندیا اور پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہنے لگا:
"جناب، ہم پر تو مصیبت ہی آ گئی۔ بھگوان کے لیے آپ کچھ کریں، ورنہ یہ بلا سب کو کھا جائے گی۔ اس نے تو گاؤں کے گاؤں خالی کردیے ہیں۔ فصلیں اجاڑ دی ہیں۔ جنگل میں لکڑی کی کٹائی کا کام مہینوں سے بند پڑا ہے، مزدور کسی طرح کام پر نہیں جاتے۔ بچّے بُھوکے مر رہے ہیں۔ عورتیں گھاس نہیں کاٹتیں، رات کو پیاسے ہی سو رہتے ہیں۔ ندّی پر جا کر پانی لانے کی ہمت بھی کسی میں نہیں آدم خور ہمارے گاؤں میں بہت دن بعد آیا ہے۔ آج کوئی ایک سال پہلے اُس نے وہاں دس بارہ آدمیوں کو پھاڑ کھایا تھا، اس کے بعد وہ دوسرے علاقوں میں چلا گیا۔ اب پھر کل رات وہ ایک بڑھیا کے نوجوان لڑکے کو پکڑ کر لے گیا۔ بے چارے کی اگلے مہینے ہی شادی ہونے والی تھی۔ بڑھیا تو صدمے سے پاگل ہو گئی ہے۔ ہر وقت روتی اور چیختی رہتی ہے۔ لڑکا آدھی رات کو پیشاب کرنے کے لیے اپنے جھونپڑے سے باہر نکلا اور لوٹ کر نہیں آیا۔ صبح اُس کی ماں نے لوگوں کو بتایا۔ ہم اُسے ڈھونڈنے کے لیے نکلے، تو جنگل میں اس کی لاش کے ٹکڑے اور خون میں بھیگے ہوئے کپڑے دکھائی دیے۔’
"یہ بھی ممکن ہے کہ اس نوجوان کو کسی اور شیر یا چیتے نے ہڑپ کیا ہو۔’ مَیں نے کہا۔
"نہیں جناب، یہ سب شرارت اُس چیتے کی ہے۔ کیا ہم اس کے پیروں کے نشان نہیں پہچانتے؟’
پٹواری نے جواب دیا۔ "وہ ابھی تک وہیں موجود ہے۔۔۔ جنگل میں گھوم رہا ہے۔۔۔ ہم نے اس کی آوازیں سنی ہیں۔’
"اس کے باوجود تم اکیلے یہاں آ گئے؟’
"مَیں اکیلا نہیں آیا صاحب، میرے ساتھ پانچ آدمی اور آئے ہیں اور ہمارے آنے کا یہ مقصد ہے کہ گاؤں والوں کو اپنی مصیبت سے آگاہ کریں۔’
"میں تمہارے گاؤں چلوں گا۔’ مَیں نے فیصلہ کُن انداز میں کہا اور اپنے آدمیوں کو سامان باندھنے کی ہدایت کی۔ اگلے روز ہم سینولی سے روانہ ہوئے۔ ہمارا قافلہ نو افراد پر مشتمل تھا۔ راستہ اتنا دشوار اور خطرناک تھا کہ کئی جگہ مرتے مرتے بچے۔ ایک پہاڑی پر چڑھتے ہوئے جب خچّر تھک کر چُور ہو گئے اور ان میں سے ایک گِر پڑا، تو ہم اُتر پڑے اور پیدل چلنے لگے۔ یہ پہاڑی درّہ جس میں سے ہم گزر رہے تھے، نہایت تنگ اور اُس کے دونوں طرف خطرناک گہری ڈھلانیں مُنہ پھاڑے ہمارے منتظر تھیں۔ پٹواری آگے آگے چل رہا تھا۔ یکایک ایک موڑ پر وہ رکا اور مڑ کر خوف زدہ نظروں سے میری طرف دیکھنے لگا۔
"کیا بات ہے؟ رُک کیوں گئے؟’ میں نے پُوچھا۔
"جناب، آگے کچھ ہے۔’ اس نے لفظ "کچھ’ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ مَیں نے کندھے سے بندوق اُتار کر ہاتھ میں لے لی، اپنے ساتھیوں کو رُک جانے کا اشارہ کیا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھا، یہاں سے چٹان کا ایک بڑا حصّہ باہر کو نکلا ہوا تھا اور قدرتی طور پر سائبان سا بنا نظر آتا تھا۔ جب میں اس پہاڑی سائبان سے آگے چند قدم بڑھا، تو دوسری طرف سے پُھوں پُھوں کی سی آواز کانوں میں آئی۔ بندوق میرے ہاتھ میں تھی اور انگلی گھوڑے پر۔ نہایت احتیاط سے قدم بڑھاتے ہوئے میں نے جُھک کر دیکھا، تین ساڑھے تین فٹ چوڑی اس پہاڑی پگڈنڈی پر ایک قوّی الجثّہ اور ہیبت ناک شکل کا بکرا کھڑا جُگالی کر رہا تھا۔
کماؤں کے علاقے میں پائے جانے والے پہاڑی بکروں سے جن شکاریوں کو کبھی واسطہ پڑا ہے، وہ خوب جانتے ہوں گے کہ یہ مخلوق کیسی بلا ہے۔ کہنے کو تو بکرا ہے، لیکن تُندی، تیزی جھلّاہٹ اور مکاری میں جنگلی درندوں سے کہیں زیادہ خطرناک اور بے رحم ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے جسم اور نوک دار سینگوں میں قوت کا بے پناہ خزانہ پوشیدہ ہے۔ سر جھکا کر بجلی کی طرح جب حملہ کرتا ہے، تو نڈر سے نڈر شکاری کا پتّہ بھی پانی ہوجاتا ہے۔ اس کا گوشت بے ذائقہ اور روکھا ہے۔ اور چونکہ اس علاقہ میں سانبھر کی ایک اچھی قِسم مل جاتی ہے، اس لیے شکاری ان بکروں کو ہلاک کرنے سے گریز ہی کرتے ہیں اور اگر یہ راستے میں مل جائے تو، تو کترا کر دوسری طرف نکل جاتے ہیں۔ پہاڑی بکرا بھی حملہ کرنے میں پہل نہیں کرتا، لیکن کوئی اس کے آرام میں مخل ہو، یا جب وہ اپنی مادہ کے ساتھ چہل قدمی کر رہا ہو، اس وقت کوئی اسے چھیڑے، تو فوراً مشتعل ہو جاتا ہے۔ اس کی کھال انتہائی سخت اور موٹی ہوتی ہے اور عام بندوق کی ایک آدھی گولی سے اس کا کچھ نہیں بگڑتا۔ بہرحال پہاڑی بکرے کو دیکھ کر مَیں پیچھے ہٹ گیا اور اپنے ساتھیوں کو اشارے سے کہا کہ نیچے اتر آئیں، آگے راستہ بند ہے۔
میرا ارادہ بکرے سے دو دو ہاتھ کرنے کا نہیں تھا، لیکن وہ نہ جانے کس موڈ میں تھا کہ دفعتہً اُچھلا اور پورے زور میں میری طرف آیا۔ میری پُشت اُس کی طرف تھی اور اگر پٹواری چِلّا کر مجھے خبردار نہ کر دیتا، تو مَیں آج یہ کہانی سنانے کے لیے زندہ نہ ہوتا، بلکہ سینکڑوں فٹ گہری کھائی میرا مدفن بن جاتی۔ پٹواری کی چیخ سُنتے ہی مَیں مُڑا اور عین اسی لمحے قوی ہیکل بکرا میرے بائیں پہلو کو مَس کرتا ہُوا آگے نکل گیا۔ میں اس وقت اتنا بدحواس اور خوفزدہ ہوا کہ فائر کرنے کی بھی جرأت ن ہویت اور فائر کرتا، تو یقیناً میرے ہی ساتھیوں میں سے ایک آدھ گولی کا نشانہ بن جاتا۔ اپنا وار خالی جاتا دیکھ کر بکرا پھر پلٹا اب وہ اپنے دونوں پچھلے پَیروں پر کھڑا زور زور سے پتّھروں پر کُھر مار رہا تھا۔ پھر اُس نے اپنے سینگ جھکائے اور میری طرف بڑھا۔ میں نے بندوق کے بجائے اپنا شکاری چاقو پیٹی سے نکال کر ہاتھ میں لیا اورجونہی بکرا میرے نزدیک آیا، مَیں گھٹنوں کے بل جھکا اور پُوری قوّت سے چاقو اُس کی گردن میں گھونپ دیا۔ گرم گرم سُرخ خُون کا ایک فوارّہ میرے منہ پر اُبل پڑا۔ ایک لرزہ خیز چیخ کے ساتھ کئی من وزنی بکرا لڑکھڑا کر اگلے ہی لمحے گہری کھائی میں گِر کر نظروں سے غائب ہو چکا تھا۔
آدھ گھنٹے تک میرے ہوش و حواس غائب رہے۔ خدا نے اِس موذی سے بال بال بچایا۔ جیسا کہ توقع تھی، کوئی آدھ فرلانگ نیچے اترے، تو اس کی مادہ کھڑی دکھائی دی۔ غصّے کے مارے میری حالت بری تھی، میں نے اُوپر تلے دو فائر کیے اور اسے وہیں ڈھیر کر دیا۔
اب ہم پہاڑی علاقے سے نکل کر جنگل کے ایسے حصے میں داخل ہوئے جہاں سیب سے ملتے جلتے پھلوں کے بے شمار درخت تھے۔ پٹواری نے بتایا کہ یہ پھل ریچھ کی مرغوب غذا ہے۔ اور کچھ عجب نہیں کہ یہاں ریچھ مل جائے۔ یہ سن کر میں نے بندوق سنبھال لی اور میرا ہمراہیوں نے اپنی اپنی لاٹھیاں اور کلہاڑیاں اس انداز میں تان لیں جیسے ریچھ کی تکّا بوتی کر ڈالیں گے، مگر مَیں خوب جانتا تھا کہ ان بے چاروں کی بساط کتنی ہے۔ ریچھ تو درکنار، گیدڑ اور خرگوش کی آہٹ سن کر ہی ان کی گھگی بندھ جاتی ہے۔
ایک طویل چکّر کاٹ کر ہمارا قافلہ جنگل کے شمال مشرقی حصّے میں پہنچا۔ ہر طرف ایک ہیبت ناک سنّاٹا طاری تھا اور چونکہ سُورج آہستہ آہستہ مغرب کی طرف جُھکنے لگا تھا، اس لیے فضا میں نمی بڑھ رہی تھی اور درختوں کے سائے لمبے ہوتے جا رہے تھے۔ یکایک کچھ فاصلے پر ایسی آواز گونجی جیسے کوئی شخص سسکیاں لے لے کر رو رہا ہو۔ آواز کبھی دائیں طرف سے آتی تھی اور کبھی بائیں طرف سے، سمجھ میں نہ آیا کیا معاملہ ہے۔ اندھیرا تیزی سے ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا اور گاؤں نہ جانے ابھی کتنی دُور تھا۔
آواز کبھی مدّھم ہوجاتی، کبھی تیز۔ کبھی قریب سے سنائی دیتی، کبھی دور سے آتی ہوئی محسوس ہوتی۔ عجیب معاملہ تھا۔ میں نے دیکھا کہ پٹواری خوف زدہ ہے۔ یکایک اس نے میرے نزدیک آن کر کہا:
"جناب، یہ کوئی بُھوت پریت معلوم ہوتا ہے۔۔۔ جلدی سے بھاگ چلیے۔’
"مَیں اِس بُھوت کو دیکھے بغیر نہ جاؤں گا۔’ مَیں نے سختی سے کہا۔ "تم لوگوں کو ڈر لگتا ہے، تو درختوں پر چڑھ جاؤ۔’ یہ جواب دیتے ہی میں آگے بڑھا اور اندازے سے آواز کا رُخ معلوم کرنے کی کوشش کی، اس مرتبہ صاف پتہ چلا کہ آواز دائیں جانب سے آتی ہے۔ اب مَیں نے بلند آواز سے کہا:
"کون ہے یہاں؟ ڈرو نہیں، ہم تمہاری مدد کریں گے۔’
چند لمحے بعد ایک درخت کی شاخیں اور پتے ہلے اور بارہ تیرہ سال کے ایک گورے چِٹے لڑکے کا چہرہ نمودار ہُوا۔ رو رو کر اُس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور رنگ ہلدی کی طرح زرد۔ معلوم ہوا کہ وہ بارہ گھنٹے سے اس درخت پر پناہ لیے ہوئے ہے۔ جنگل میں اپنے باپ کے ساتھ جا رہا تھا کہ ایک چیتے نے حملہ کر دیا جو باپ کو پکڑ کر لے گیا اور لڑکے نے درخت پر چڑھ کر جان بچائی۔ وہ اس کے سوا اور کچھ نہ بتا سکا کہ چیتے نے اس کے بات کی گردن مُںہ میں دبا لی تھی اور ایک جانب بھاگ گیا تھا۔
چونکہ اندھیرا تیزی سے پھیل رہا تھا، اس لیے چیتے کی اس تازہ حرکت کا سراغ لگانے کا موقع نہ تھا، ہم نے لڑکے کو ساتھ لیا اور گاؤں میں داخل ہوئے، جگہ جگہ آگ کے الاؤ روشن تھے اور جھونپڑیوں کے اندر سے لوگوں کے باتیں کرنے کی آواز سُنائی دے رہی تھیں۔
یہ گاؤں جس میں بمشکل چالیس پچاس جھونپڑیاں تھیں، جنگل میں لکڑی کاٹنے والے مزدوروں کی ایک بستی تھی اور چونکہ قریب ہی ایک برساتی نالہ بہتا تھا، اس لیے لوگوں نے اسے آباد کرلیا تھا۔ ہمارے آنے کی خبر پا کر عورتیں، مرد اور بچّے باہر نکل آئے۔ لڑکے کو ہمارے ساتھ دیکھ کر چند عورتیں روتی ہوئی آگے بڑھیں اور اسے اپنے ساتھ لے گئیں۔
میرے ہاتھ میں بندوق دیکھ کر ہر شخص مطمئن اور خوش نظر آنے لگا اور فوراً ہی انہوں نے میرے لیے ایک جھونپڑی خالی کر دی۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ چیتا چند گھنٹوں کے وقفے سے دو انسانی جانوں کا ہلاک کر چکا ہے اور اُن کا گوشت اُس کا پیٹ بھرنے کے لیے کافی ہے، اس لیے آپ اطمینان سے اپنے گھروں میں آرام کریں، آدم خور آج اِدھر نہ آئے گا۔
اگلے روز علی الصباح میں چند آدمیوں کی معیّت میں اس مقام پر گیا۔ جہاں چیتے نے ایک نوجوان کو مارا تھا۔ نوجوان کی بُوڑھی ماں صدمے سے پاگل ہو چکی تھی۔ اُسے دیکھ کر میری آنکھوں میں بے اختیار آنسو نکل پڑے۔ اُس کی کل کائنات یہی نوجوان تھا، مقام حادثہ پر چند ہڈیوں، خون کے خشک دھبّوں اور کپڑوں کی دھجیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ یہاں سے بیس پچیس فٹ کے فاصلے پر ایک اُونچا اور گھنا درخت تھا۔ مَیں نے مچان کے لیے اسے مناسب سمجھا اور اپنے آدمیوں سے کہہ کر اس پر مچان بندھوایا، لیکن چیتا آسانی سے درخت پر چڑھ جاتا ہے، اس لیے مچان مجھے اس کے پنجے سے بچا نہ سکتا تھا، چنانچہ مَیں نے سیاہ خار دار جھاڑیاں اکھڑوا کر درخت کے تنے کے ساتھ دس فٹ کی بلندی تک بندھوا دیں۔ پھر گاؤں والوں سے ایک بکری خریدی اور اسے درخت سے چالیس فٹ کے فاصلے پر ایک کھلی جگہ باندھ دیا۔ بکری خاص طور پر سفید رنگ کی لی گئی تھی اور یہ اس لیے کہ اندھیرے میں اُس کی کھال چمک کر مجھے بتاتی رہے کہ وہ کہاں ہے۔
سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے مَیں نے اپنے آدمیوں کو ساتھ لیا، انہیں سمجھایا کہ وہ جنوبی جانب اُس بڑے بڑے ٹیلے پر چڑھ جائیں اور زور زور سے باتیں کریں، گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ جب میں اشارہ کروں یا وہ کوئی آہٹ پائیں، تو گاؤں میں واپس چلے جائیں۔ سیڑھی کے ذریعے انہوں نے مجھے مچان پر چڑھا دیا اور حسب ہدایت ٹیلے پر چڑھ گئے۔ سورج چھپ گیا اور جنگل کی زندگی آہستہ آہستہ بیدار ہونے لگی۔ ہزار ہا قسم کے پرندے اور جانور اپنی اپنی بولیوں میں رات کا خیر مقدم کر رہے تھے۔ مَیں جب اطمینان سے مچان پر بیٹھا، تو ہلکا سا جھٹکا لگا اور یہ دیکھ کر میرا کلیجہ لرز گیا کہ میرے آدمیوں نے درخت کی جن شاخوں پر مچان باندھا ہے، وہ سب کی سب یا تو اندر سے کھوکھلی ہیں یا حد درجہ کمزور۔۔۔ اور اگر مَیں نے ذرا زور دیا تو مچان یقیناً ٹوٹے گا اور پھر میرا جو حشر ہو گا، اس کا تصوّر ہی نہایت اذیّت ناک تھا۔ مَیں اب بڑی احتیاط سے بے حِس و حرکت بیٹھا تھا۔ بکری پہلے تو چپ چاپ کھڑی غالباً گھاس کھاتی رہی، پھر یک لخت اس کی باریک اور کانپتی ہوئی آواز جنگل کی فضا میں گونج اٹھی۔
"مَیں۔۔۔ مَیں۔۔۔ مَیں۔۔۔ مَیں۔۔۔’ مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ میرے سر پر آہنی ہتھوڑوں کی بارش ہو رہی ہے۔ بکری کی دماغ پاش آواز نے میرے اعصاب شل کر کے رکھ دیے۔ پندرہ بیس منٹ چیخ کر وہ چپ ہوئی اور میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ میرے آدمی ٹیلے پر چڑھے ابھی تک بلند آواز سے باتیں کر رہے تھے اور اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ جنگل میں کہیں چُھپا ہوا آدم خور چیتا اُن کی آوازیں سن کر ادھر آئے۔ اُسے بلانے کا واحد ذریعہ یہی انسانی آوازیں تھیں، ورنہ بکری کا چیخنا چِلّانا بالکل بے کار تھا۔ درندہ آدم خور ہونے کے بعد انسانی لہو اور گوشت کے سوا کوئی اور چیز کھانا پسند نہیں کرتا۔
گاؤں کی طرف سنّاٹا تھا یا آگ کے اونچے نارنجی اور سُرخ شعلے جلتے ہوئے الاؤ میں سے اٹھ رہے تھے۔ پھر ایک جانب سے کُتّے کے بھونکنے کی آواز آئی۔ دوسری طرف سے کسی اور کتے نے اس کا جواب دیا۔ جس مقام پر بکری بندھی ہوئی تھی، اُس سے کچھ فاصلے پر جھاڑیوں میں سے دو پرندے چیختے ہوئے نِکلے اور فضا میں چکر کاٹنے لگے۔ اب مَیں ہوشیار ہو گیا۔ پرندوں نے خبردار کر دیا کہ دُشمن آن پہنچا اور تاک میں ہے۔ میں نے سیٹی بجائی اور اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا کہ ان کا کام ختم ہو چکا، اب وہ گاؤں میں جا سکتے ہیں۔ چند لمحوں بعد اُن کی آوازیں آنی بند ہو گئیں جس سے اندازہ ہوا کہ وہ لوگ جا چکے ہیں۔
مچان پر اُکڑوں بیٹھے بیٹھے دو گھنٹے گزر گئے۔ ایک ہی جگہ بے حِس و حرکت بیٹھے رہنے سے ہاتھ پاؤں اکڑ گئے تھے اور بازو شل۔۔۔ گردن بھی دُکھنے لگی تھی۔ مَیں نے تنے کے ساتھ آہستہ سے ٹیک لگا کر اپنے دائیں بائیں دیکھا، کچھ نہ تھا۔ مَیں نے سوچا ممکن ہے یہ میرا وہم ہو۔ لیکن میرا دل کہتا تھا کہ یہ وہم نہیں حقیقت ہے۔ آدم خور درخت کے آس پاس ہی ہے۔ بکری کی سفید کھال اندھیرے میں چمک رہی تھی۔ کبھی کبھار وہ حرکت کرتی، تو پتہ چلتا کہ ابھی صحیح سلامت ہے۔ اب میں چاہتا تھا کہ وہ خود کسی طرح بولے تاکہ چیتا اس کی طرف متوجہ ہوجائے، لیکن بکری خاموش تھی۔۔۔ بالکل خاموش۔۔۔ جیسے اس میں بولنے کی سکت ہی باقی نہ تھی۔
مجھے معلوم تھا کہ ڈیڑھ گھنٹے بعد چاند نکل آئے گا اور پھر میں آسانی سے گردوپیش کا منظر بخوبی دیکھ سکوں گا، مگر سوال یہ تھا کہ کیا چیتا مجھے اتنی مہلت دے دے گا؟ اُس زمانے میں برقی ٹارچوں کا رواج نہ تھا اور شکاریوں کو اپنی تیز بصارت اور چھٹی حِس کے علاوہ چاند کی روشنی سے بھی مدد لینی پڑتی تھی یا پھر نشانہ ایسا بے خطا ہو کہ آواز کے رُخ پر فائر کرے اور درندے کو ڈھیر کر دے۔ چونکہ گُھپ اندھیرے میں شکاری کو بندوق کی نال بھی صحیح طور پر نظر نہ آتی تھی اس لیے اُس کے سرے پر سفید کپڑے کی ایک چھوٹی سی پٹی باندھنے کا طریقہ ایجاد کیا گیا۔ شکاری اِس پٹی کی رہنمائی میں نشانہ لے کر فائر کرتا تھا۔
جُوں جُوں وقت گزر رہا تھا، میرے دل کی دھڑکن تیز ہوتی جا رہی تھی۔ جنگل پر ہیبت ناک سناٹا طاری تھا۔ ذرا سی آواز بھی کسی طرف سے نہ آتی تھی۔ ہاں، دُور الاؤ میں جلتی ہوئی بڑی بڑی لکڑیوں کے چٹخنے کی مدھم آوازیں ضرور میرے کانوں تک پہنچ رہی تھیں یا پھر ہَوا پتّوں اور شاخوں سے گزرتی ہوئی طرح طرح کی پُراسرار آوازیں پیدا کر رہی تھی۔
یکایک بکری چِلائی اور میری جان میں جان آئی، مگر بمشکل دو منٹ بولی ہو گی کہ پھر چپ ہو گئی۔ اب میں غور سے پَلک جھپکائے بغیر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ میری چھٹی حِس نے بتایا کہ درندہ مجھے دیکھ چکا ہے اور مجھ پر حملہ کرنے کی تیّاریوں میں مصروف ہے۔
مشرقی اُفق پر رفتہ رفتہ روشنی پھیلنے لگی۔ چند لمحے بعد چاند نے اپنا روشن چہرہ اُوپر اُٹھا کر جنگل میں جھانکا۔ عین اسی لمحے درخت کے عقب میں کھڑکھڑ سی ہوئی۔ میں نے دائیں ہاتھ سے تنے کا سہارا لیا اور غور سے دیکھا۔ آدم خور چیتا درخت کے نیچے کھڑا اپنے پنجوں کی مدد سے خاردار جھاڑیاں ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایک ثانیے کے لیے میری اُس کی نظریں چار ہوئیں اور ایسا محسُوس ہُوا جیسے دو برجھیاں میرے سینے میں اُتر گئی ہوں۔ اُس نے بکری کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور مُسلسل کانٹے ہٹانے میں لگا رہا۔ میرے اوسان خطا ہونے لگے۔ اگر چیتا ان کانٹوں کو ہٹا کر درخت پر چڑھ آیا، تو دُنیا کی کوئی طاقت مجھے اس کا لقمہ بننے سے نہ بچا سکے گی۔ اُسے معلوم تھا کہ مجھے اس کی موجودگی کا پتہ چل گیا ہے، مگر چار سو سے زائد افراد کو ہڑپ کر جانے والا یہ آدم خور اتنا نڈر اور بے خوف ہو چکا تھا کہ اس نے میری مطلق پروا نہ کی۔ مَیں نے جان پر کھیل کر کروٹ لی اور بارہ بور کی ڈبل بیرل کی بندوق گُھما کر چیتے کی کھوپڑی کا نشانہ لیا۔ میری اس حرکت پر چیتا سخت مشتعل ہوا اور بُری طرح غرّانے اور گرجنے لگا اور پھر سامنے کی جھاڑیوں میں چھپ گیا۔
بکری دہشت زدہ ہو کر چلّانے لگی۔ پھر مَیں نے چاند کی روشنی میں دیکھا کہ قد آور چیتا بجلی کی مانند جھاڑیوں سے نکل کر بکری کی طرف لپکا۔ میں نے اس کی ہلکی سی جھلک دیکھی اور دوسرے ہی لمحے بکری نظروں سے غائب ہو گئی۔ کئی منٹ گزر گئے۔ میرا چہرہ پسینے سے تر تھا اور ہاتھوں کی انگلیاں کپکپا رہی تھیں۔ میں نے بندوق ایک طرف رکھ کر جیب سے رومال نکالا اور پسینہ پونچھنے لگا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ چیتا بکری کو لے گیا ہے اور دوبارہ ادھر نہ آئے گا، لیکن فوراً ہی میرے عقب میں پھر کھڑبڑ شروع ہوئی اب مَیں نے پورے اطمینان اور سکون سے چیتے کے دل کا نشانہ لیا اور دو فائر کیے۔ آدم خور کی وہ آخری چیخ میں زندگی بھر نہیں بُھول سکوں گا۔ اُس نے مجھے پکڑنے کے لیے جست کی، لیکن کانٹوں میں اُلجھ کر زمین پر گر پڑا اور تڑپنے لگا۔ اُس کی ہولناک چیخوں اور غرّاہٹ سے جنگل کی زمین ہل رہی تھی اور درختوں پر بسیرا کرنے والے ہزار ہا پرندے بے آرام ہو کر فضا میں پرواز کر رہے تھے۔
مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ آدم خور کی ان چیخوں نے گاؤں والوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا تھا اور وہ سمجھ رہے تھے کہ چیتا مجھے پکڑ کر لے گیا ہو گا۔ پھر مَیں نے گاؤں کی طرف سے چالیس پچاس آدمیوں کا گروہ اپنی طرف آتے دیکھا۔ سب نے اپنے اپنے ہاتھوں میں لاٹھیاں ڈنڈے اور کلہاڑیاں پکڑ رکھی تھیں۔ درخت کے نزدیک آ کر انہوں نے مجھے زندہ سلامت دیکھا، تو خوشی سے ناچنے لگے۔ مَیں نے انہیں بتایا کہ چیتے کو دو گولیاں لگی ہیں اور اب وہ قریب ہی کسی جھاڑی میں مرا پڑا ہو گا۔ جاؤ اُسے تلاش کرو۔ آدھ گھنٹے بعد میں نے لوگوں کے نعرے سُنے۔ معلوم ہُوا کہ انہوں نے پانار کے اُس آدم خور کی لاش ڈھونڈ لی ہے جس نے ایک سال کے عرصے میں چار سَو سے زائد بے گناہ افراد کو ہڑپ کر لیا تھا۔

Popular Posts