جمعرات، 18 جولائی، 2019

ویت نام کے آدم خور
مقبول جہانگیر
دنیا میں شیروں کی نسلیں آہستہ آہستہ غائب ہوتی جا رہی ہیں اور آجکل یہ جانور افریقہ، بھارت مشرقی پاکستان، ملایا اور ہندچینی کے علاقوں میں محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ افریقہ اور بھارت میں شیروں کے شکار کرنے والے بہت سے شکاریوں نے اپنے اپنے تحیّر خیز تجربات بیان کیے ہیں اور ان ملکوں میں پائے جانے والے شیروں پر کتابیں لکّھی ہیں، لیکن ہندچینی کے وسیع و عریض گھنے جنگلوں میں بہت کم شکاریوں کو شکار کے لیے جانے کا موقع ملا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں خطرناک دلدلی میدان کثرت سے ہیں جنہیں عبور کرنا آسان نہیں۔ اسی لیے ہندچینی کے شیروں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملتیں! حالانکہ یہاں کا شیر طاقت، ہوشیاری، پُھرتی اور درندگی کے اعتبار سے دوسرے خِطّوں میں پائے جانے والے شیروں سے پیچھے نہیں۔ شیر ہندچینی کے ہر علاقے میں موجود ہے اور اس کی دو قسمیں مشہور ہیں: ایک رائل ROYAL دوسری مارش MARSH۔ مارش انگریزی میں دلدل کو کہتے ہیں اور چونکہ یہ شیر زیادہ تر دلدلی خِطّوں میں رہتا ہے، اس لیے اسے مارش کہتے ہیں۔ مرکزی ویت نام کے جنگلوں میں بھی یہ شیر پایا جاتا ہے اور ندّیوں سے مچھلیاں پکڑ پکڑ کر کھانا اس کا محبوب مشغلہ ہے۔ شیر کی اونچی چھلانگ اتنی زیادہ نہیں، جتنی لمبی چھلانگ۔ وہ سولہ سے بیس فٹ تک چوڑی نّدی ایک ہی جست میں عبور کر جاتا ہے، بلکہ بعض اوقات تیس فٹ تک چھلانگ لگا سکتا ہے۔ مَیں نے خود دیکھا ہے کہ شیر ایک پہاڑی ٹیلے پر کھڑا تھا، نیچے سے ایک بکرا گزرا۔ شیر نے چھلانگ لگائی اور بکرے کو دبوچ لیا۔ میں نے بعد میں یہ فاصلہ ناپا، تو تیس فٹ نکلا۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ شیر آرام کر رہا ہو، تو زیادہ بھاری اور سُست نظر آتا ہے، لیکن خطرے اور شکار کے وقت اس کا جسم چُست اور ہلکا ہو جاتا ہے۔ اس کی قوت چھاتی اور اگلے دو پیروں میں چھپی ہوئی ہے۔ وہ دائیں پنجے کی ایک ہی ضرب سے کئی من وزنی بیل کو آسانی سے پرے پھینک دیتا ہے۔ شیر کے پنجے اور دانت اس کا دوسرا بڑا ہتھیار ہیں جن سے وہ شکار کو اُدھیڑ ڈالتا ہے۔
ہندچینی کا شیر ناک سے لے کر دُم تک ساڑھے چھ فٹ لمبا اور ساڑھے تین فٹ اونچا ہوتا ہے بعض علاقوں میں سات سات فٹ لمبے شیر بھی دیکھے گئے ہیں۔ اس کا وزن ساڑھے تین سَو پونڈ سے لے کر پانچ سو پونڈ تک ہے، لیکن مَیں نے انہی جنگلوں میں ایک ایسا شیر مارا جس کی لمبائی سات فٹ دو انچ اور وزن 570 پونڈ سے زائد تھا۔ اس شیر نے انسان پر کبھی حملہ نہیں کیا، البتّہ وہ پالتو بھینسوں، بیلوں اور بکریوں کا جانی دشمن تھا۔ رات کو چپکے سے بستی میں آتا، آگ کا چلتا ہوا الاؤ پھلانگ کر کسی باڑے سے بکری یا گائے کو منہ میں دبا کر لے جاتا۔ اس کی قوت کا اندازہ یوں کیجیے کہ وہ موٹی تازی کئی من وزنی بھینس کو نہایت آسانی سے پانچ چھ میل دور گھنے جنگل میں گھسیٹ کر لے جاتا تھا۔ ایک روز اس نے حسبِ عادت بَیل کو ہلاک کیا اور جنگل میں لے گیا۔ مجھے اس حادثہ کی اطلاع ملی، تو میں اُسی وقت جنگل کی طرف روانہ ہو گیا اور تھوڑی سی کوشش کے بعد بیل کی لاش ڈھونڈ لینے میں کامیاب رہا۔ شیر لاش میں سے ابھی کچھ کھانے بھی نہ پایا تھا۔ غالباً اُسے موقع ہی نہ ملا ہوگا۔ بہرحال مَیں نے اس کی فطرت کا اندازہ کرتے ہوئے بَیل کی لاش گاڑی پر لدوائی اور اسی جگہ پر لا کر رکھی دی جہاں شیر نے بَیل کو ہلاک کیا تھا۔ شیر کی جرأت اور نڈرپن ملاحظہ ہو کہ وہ جھاڑیوں میں چُھپا ہوا یہ تماشا دیکھتا رہا اور اس نے بستی تک ہمارا تعاقب کیا۔ وہ یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ ہم لاش کہاں لے جا رہے ہیں۔
یہ ذکر سوئی لُک گاؤں کا ہے جو سائیگون سے 75 میل دُور جنگل کے بیچوں بیچ واقع ہے۔ اس شیر کی ہلاکت خیز سرگرمیاں ان دنوں عروج پر تھیں اور وہ آئے دن کسی نہ کسی جانور کو پکڑ کر لے جاتا تھا۔ کئی مرتبہ وہ دن کے وقت سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں آ جاتا اور آدمیوں کے چیخنے چلّانے کے باوجود اپنا شکار مُنہ میں دبا کر بھاگ جاتا۔ اس بیل کو بھی شیر نے صبح صبح بہت سے کسانوں کے سامنے ہلاک کیا تھا۔
میں خود ایک درخت پر رائفل لے کر بیٹھ گیا اور اپنے آدمیوں کو ہدایت کی کہ وہ دُور دُور ہٹ جائیں۔ شیر بَیل کی لاش سے تیس چالیس فٹ دُور جھاڑیوں میں چُھپا ہوا تھا۔ کئی مرتبہ اس نے سر باہر نکال کر اردگرد دیکھا، لیکن جونہی میں فائر کرنے کے لیے نشانہ لیتا، وہ دوبارہ جھاڑیوں کے اندر چلا جاتا۔ اس نے اسی طرح دو گھنٹے گزار دیے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ بیل کو دوبارہ لے جانے کے لیے بے چین ہے۔ بہت دیر تک جب اس کا چہرہ نظر نہ آیا، تو مَیں نے خیال کیا کہ وہ مایوس ہو چکا ہے، لیکن اس نے مکّاری سے کام لیا اور اور چُپکے چپکے لمبا چکّر کاٹ کر اس درخت کی عین پشت پر آن پہنچا جس پر میں بیٹھا تھا۔ میرا خیال تھا کہ شیر دس فٹ اونچی چھلانگ نہیں لگا سکے گا، لیکن اپنی غیر معمولی قوت کے باعث وہ کامیاب ہو گیا اور اس سے پیشتر کہ میں خبردار ہوتا، شیر کا دایاں پنجہ میری رائفل پر پڑا اور رائفل میرے ہاتھ سے چُھوٹ کر فضا میں اڑتی ہوئی دُور جا گری۔ شیر اب غصے سے بُری طرح دھاڑ رہا تھا۔ مَیں جان بچانے کے لیے درخت کی اونچی شاخوں پر چڑھ گیا۔ چند لمحے گرجنے کے بعد شیر نے بَیل کو کھانا شروع کر دیا جب تک وہ پیٹ بھرتا رہا، مَیں بے بس ہو کر اُسے دیکھتا رہا۔ جب اس کا پیٹ بھر گیا، تو وہیں بیٹھ کر سستانے لگا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اُسے میری موجودگی کی ذرّہ برابر پروا نہیں۔ میں لرز رہا تھا کہ اگر سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے گھر واپس نہ پہنچا، تو اپنا خاتمہ یقینی ہے۔ جنگل میں حشرات الارض کثرت سے تھے اور کسی بھی لمحے کوئی زہریلا سانپ مجھے ڈس کر موت کے منہ میں بھیج سکتا تھا۔
ابھی مَیں اسی کشمکش میں مبتلا تھا کہ ایک کسان اپنے مویشیوں کو لے کر ادھر نکلا۔ اس نے شیر کو نہیں دیکھا، لیکن شیر نے اسے دیکھ لیا، مگر کچھ نہ کہا اور نہ اپنی جگہ سے ہلنے کی ضرورت محسوس کی۔ مَیں نے کسان کو آواز دی، تو وہ رُک گیا۔ جلدی جلدی اسے سارا قِصّہ سُنایا اور رائفل تلاش کرنے کی ہدایت کی، لیکن شیر کی ہیبت سے وہ تھر تھر کانپ رہا تھا۔ مَیں کنکھیوں سے دیکھا، شیر اپنی آنکھیں بند کیے آرام کر رہا تھا۔ جان پر کھیل کر مَیں خود درخت سے اُترا اور رائفل کی تلاش کی۔ شیر کا دھڑ کا ہر آن لگا ہوا تھا۔ خدا خدا کر کے رائفل میں ایک جھاڑی اٹکی ہوئی نظر آئی۔ رائفل ہاتھ میں آتے ہی شیر اپنی جگہ سے اٹھا اور جھاڑیوں میں گھس گیا اور میں ہاتھ ملتا رہ گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شیر کی چھٹی حس کچھ زیادہ ہی طاقتور ہے جو اسے خطرے سے فوراً خبردار کر دیتی ہے۔
تین روز بعد پتا چلا کہ موذی اس مرتبہ سوئی لگ کے میئر کا گھوڑا اٹھا کر لے گیا ہے۔ میئر نے مجھے بلایا اور اس کا قصّہ پاک کرنے کو کہا۔ ہم دونوں ہتھیار لے کر شیر کے سراغ میں روانہ ہوئے۔ دن کے بارہ بجے تھے کہ ہم نے گھوڑے کی کھائی ہوئی لاش کے بچے کھچے حصے ایک جگہ پڑے پائے۔ شیر کے پنجوں کے نشان بھی جابجا دکھائی دیے، لیکن شیر کا کہیں پتا نہ تھا۔ یکایک میئر کا کُتّا بھونکنے لگا۔ اب تو ہمیں یقین ہو گیا کہ شیر آس پاس موجود ہے۔ واقعہ یہ تھا لیکن اس کی کھال کا رنگ گھاس سے کچھ اس طرح مل گیا تھا کہ نظر نہ آتا تھا۔ میں نے فوراً نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔ گولی شیر کی گردن میں لگی۔ ہولناک گرج کے ساتھ وہ اُچھلا اور ایک طرف بھاگا۔ میں نے دو فائر اور کیے اور شیر وہیں ڈھیر ہو گیا۔
یہ شیر ابھی آدم خور بننے نہ پایا تھا، اس لیے آسانی سے ہلاک ہو گیا، ورنہ آدم خور ہونے کے بعد جب تک ساٹھ ستّر آدمی ہڑپ نہ کر لیتا، ہر گز نہ مارا جاتا۔ میں جس زمانے کا ذکر کر رہا ہوں، ان دنوں سائیگون کے گردونواح میں پانچ آدم خوروں نے اپنی خون آشام سرگرمیوں سے بڑی دہشت پھیلا رکّھی تھی۔
ہندچینی کے جنگلوں میں رہنے والا شیر شاذ و نادر ہی آدم خور بنتے ہیں اور برسوں بعد ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شیر یا شیرنی کسی خاص حادثے کے باعث مردم خوری پر اتر آئے۔ ورنہ یہ درندے انسانوں کو تنگ نہیں کرتے۔ عورتیں اور بچے کُھلے بندوں بے خوف و خطر ندّی نالوں پر نہانے اور پانی بھرنے جاتے ہیں۔ اگر راہ میں شیر سے آمنا سامنا ہو جائے، تو شیر فوراً راستہ چھوڑ دیتا ہے۔
لوگوں کے پاس آدم خوروں سے نجات حاصل کرنے کا جادو ٹونے کے سوا اور کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔ جونہی کسی آدم خور کی سرگرمیوں کا آغاز ہوتا ہے اور وہ چند دن کے اندر اندر دس پندرہ آدمی ہڑپ کر جاتا ہے۔ بستی والے بھاگے بھاگے "جادوگر’ کے پاس جاتے ہیں۔ جو کچھ وہ طلب کرتا ہے، اسے دیتے ہیں اور وہ "جنگل کی بدروح’ سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ رائفل یا بندوق تو جادوگر کے پاس ہوتی نہیں، کچھ انوکھی تدبیریں اور عجیب سے ہتھکنڈے ضرور جانتا ہے جن کی مدد سے وہ آدم خور کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، لیکن اس کارنامے کے عوض وہ لوگوں سے اس قدر غلّہ، کپڑا اور دوسری چیزیں لے لیتا ہے کہ وہ کئی برسوں کے لیے کافی ہوتی ہیں۔
یہ عجیب بات ہے کہ ہندچینی کے کسی بھی جنگل میں اگر کوئی شیر آدم خور بن جائے، تو وہ اپنے قریب رہنے والے دوسرے شیروں کو بھی آدم خور بنا دیتا ہے۔ آہستہ آہستہ ان کا ایک گروہ تیار ہو جاتا ہے اور پھر یہ آدم خور سارے علاقے میں تباہی اور بربادی پھیلانا شروع کر دیتے ہیں اور ایک ایسے سٹیج پر پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کے لیے کوئی خوف اور کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ وہ دن دہاڑے بستیوں پر آن پڑتے ہیں اور باری باری اپنا انسانی شکار منہ میں دبا کر جنگل میں بھاگ جاتے ہیں۔ ایک دو مہینوں میں بستیاں اجاڑ اور ویران ہو جاتی ہیں۔ لوگ دُور دراز علاقوں میں پناہ حاصل کرتے ہیں۔ اس قسم کے نازک حالات میں جادوگروں کا جادو بھی کام نہیں آتا اور بعض اوقات جادوگر ہی شیر کا نوالہ بن جاتا ہے۔
چند سال ہوئے مجھے ضلع ہونگ ڈو کے ایک گاؤں مُوئی میں جانا پڑا۔ مَیں دراصل مُوئی قبیلے کی تاریخ مرتب کر رہا تھا اور اس سلسلے میں بہت سی معلومات جمع کر چکا تھا۔ موئی قبیلہ ہندچینی کے ان قدیم قبیلوں میں سے ایک ہے جس کے بارے میں بے شمار پُراسرار کہانیاں متمدّن ہیں اور مہذّب دنیا میں مشہور ہیں۔ مُوئی لوگ قطعی وحشی ہیں اور ہزار ہا سال سے جنگلوں کے باسی ہیں۔ موجودہ دَور کی کوئی چیز ان کے پاس ہے نہ وہ اس کا استعمال جانتے ہیں۔ بہادر اور جنگجو لوگ ہیں۔ تیر کمان اور نیزوں کے ذریعے شیر ہلاک کر سکتے ہیں، لیکن آدم خوروں سے بہت خوف کھاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ بدروحیں ہیں جنہیں صرف جادوگر ہی مار سکتا ہے۔ اس جہالت کے باعث وہ مسلسل آدم خوروں کا ترنوالہ بنتے چلے جاتے ہیں۔
اسی سال پانچ آدم خوروں نے ضلع ہونگ ڈو کے مرد اور عورتوں کو ہڑپ کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ان میں دو شیر اور دو شیرنیاں عمر رسیدہ تھیں اور ایک شیر ذرا کم عُمر کا، لیکن انتہائی طاقتور اور مکّار تھا۔ یہ درندے آدم خوری پر کیسے اتر آئے، اس کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ اس سال خلافِ معمول بارش نہیں ہوئی۔ گھاس سُوکھ گئی، پُھول، پتّے اور پودے مُرجھا گئے اور ندّی نالے سوکھ گئے۔ جنگلی جانور اور درندے پیاس سے بیتاب ہو کر انسانی آبادیوں اور بستیوں میں آنے لگے۔
ایک روز دوپہر کے وقت یہ پانچوں شیر اور شیرنیاں گاؤں کے نزدیک آ گئے۔ ایک شیر نے بھینس پر حملہ کر دیا۔ بھینس نے بچنے کی بڑی کوشش کی، مگر شیر نے اسے گرا لیا۔ اتنے میں چند آدمی ہاتھوں میں نیزے کلہاڑیاں لیے موقع پر پہنچ گئے۔ ان کا خیال تھا کہ درندے انہیں دیکھ کر بھاگ جائیں گے، مگر ایسا نہ ہوا، شیرنیاں اور شیر مزید طیش میں آ گئے اور آدمیوں کو دبوچ کر انہوں نے چشم زدن میں تکّا بوٹی کر ڈالی۔ بُھوکے درندوں نے پہلی مرتبہ انسانی لہو اور گوشت کا ذائقہ چکّھا اور تھوڑی دیر بعد وہاں کھوپڑیوں، انتڑیوں، بچے کھچے گوشت اور ہڈیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ پانچوں درندے کھا پی کر بانسوں کے جُھنڈ میں آرام کرنے چلے گئے۔ یہ جُھنڈ موئی سے دو میل دُور تھا۔
اِس بھیانک حادثے کی خبر شام تک دُور دُور پھیل گئی۔ باشندوں میں ہیجان پیدا ہونے لگا، لیکن اس وقت تک انہیں معلوم نہ تھا کہ درندوں نے آدمیوں کر ہڑپ کر لیا ہے۔ وہ تو یہی سمجھے ہوئے تھے کہ غیظ آلود درندوں نے چند آدمی مار ڈالے ہیں اور جنگل میں بھاگ گئے ہیں۔
گردونواح کی بستیوں سے جتنے آدمی جمع ہوئے، ان میں سے ہر ایک کے پاس کوئی نہ کوئی ہتھیار ضرور تھا، لیکن بانسوں کے جھنڈ میں جانے کی جرأت کسی میں نہ تھی۔ درندے بھی خلافِ معمول جھنڈ میں اتنی دیر تک رُکے رہے۔ ورنہ اپنی فطرت کے مطابق وہ شکار ہلاک کر کے کہیں اور چلے جاتے ہیں ان کے غرّانے اور ہانپنے کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ ان لوگوں نے اسی سوچ بچار میں بہت وقت گزار دیا کہ کیا کِیا جائے۔ آخر کچھ لوگ ہمّت کر کے آگے بڑھے اور چیختے چلّاتے جھنڈ کی طرف چلے۔ ان کی دیکھا دیکھی دوسروں کو بھی جوش آیا اور پھر سب کے سب گلا پھاڑ کر چیخنے لگے۔ درندے اس ہنگامے سے گھبرا گئے۔ جُھنڈ سے غرّاتے ہوئے برآمد ہوئے اور مختلف اطراف میں بھاگ نکلے۔ اس اثنا میں کچھ لوگوں کی نظر انسانی ہڈیوں اور گوشت پر جا پڑی۔ اسے دیکھتے ہی سب کے حواس گم ہو گئے۔ تاہم انہوں نے یہ اجزا کپڑے میں لپیٹے اور گاؤں میں لے گئے اور جادوگر کو سارا قِصّہ کہہ سنایا۔ معاملہ پانچ آدم خوروں کا تھا، اس لیے جادوگر بھی سوچ میں پڑ گیا۔ آخر اس نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ کچھ روز کے لیے بستی چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔ اس وقفے میں وہ آدم خوروں کو فنا کر دے گا۔
جادوگر کے اس مشورے پر کچھ لوگوں نے فوراً عمل کیا، اپنی جھونپڑیاں خالی کر دیں اور سامان اور مویشی لے کر بہت دور چلے گئے۔ کچھ لوگوں نے جو بعض مجبوریوں کے تحت بستی چھوڑ کر نہیں جا سکتے تھے۔ آدم خوروں سے دو دو ہاتھ کرنے کی تدبیریں سوچیں اور سُوئی لُک کے میئر کو سارا قِصّہ سنایا، میئر نے اگلے ہی روز میرے پاس اپنا آدمی بھیجا۔ میں اُسی وقت وہاں پہنچ گیا۔ میں نے پہلے وہ جگہ دیکھی جہاں درندوں نے آدمیوں کو ہلاک کر کے ان کے لہو اور گوشت سے پیٹ بھرا تھا۔ پھر وہ جھنڈ دیکھا جہاں انہوں نے آرام کیا۔ بستی کا ہر فرد میری آمد پر خوش تھا اور بار بار رائفل پر لوگوں کی نظریں جاتیں۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ وہ ہتھیار ہے جس سے دور کھڑے ہوئے درندے کو مارا جا سکتا ہے، تو تعجّب سے ان کی آنکھیں پھیل گئیں۔ میں نے انہیں یقین دلانے کے لیے بانس منگوایا اور ایک آدمی سے کہا کہ وہ یہ بانس فلاں جگہ جا کر گاڑ دے۔ مَیں نے بانس کے درمیانی حِصّے کا نشانہ لیا اور لبلبی دبا دی۔ گولی لگتے ہی بانس دو حِصّوں میں تقسیم ہو گیا اور اس کا ایک حِصّہ علیحدہ ہو کر دُور جا گرا۔ یہ تماشا دیکھ کر ان جنگلیوں پر اتنی دہشت طاری ہوئی کہ بیان سے باہر۔۔۔ وہ پرے ہٹ کر مجھے خوف زدہ نظروں سے دیکھ رہے تھے اور کئی آدمیوں نے مجھے بڑا زبردست جادوگر سمجھ کر میرے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور ہاتھ جوڑ جوڑ کر سلام کیا۔ ان جنگلیوں سے چونکہ مجھے کام لینا تھا اور ان کی ہمّت بندھانی ضروری تھی، اس لیے میں نے کچھ اور "کارنامے’ بھی پیش کیے۔ آسمان پر بگلوں کی ایک قطار اڑتی ہوئی جا رہی تھی۔ مَیں نے اپنی رائفل اُونچی کی اور دو فائر کیے۔ چشم زدن میں دو بگلے پھڑپھڑاتے ہوئے زمین پر آن گرے۔ اب تو ان لوگوں کے خوف کی انتہا نہ رہی۔ معاً سب کے سب زمین پر گر پڑے اور میرے پَیروں میں لوٹنے لگے۔
بستی کے کئی آدمیوں کا بیک وقت درندوں کا شکار ہونا معمولی بات نہ تھی۔ ہر شخص غم و اندوہ میں غُصّے کی تصویر بنا ہوا تھا۔ رات کے وقت ہر گھر سے عورتوں اور مردوں کے رونے کی مِلی جُلی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ یہ آوازیں ایسی لرزہ خیز اور ڈراؤنی تھیں کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ چند لمحوں کے لیے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے دُور کسی ویرانے میں بہت سی بدروحیں بین کر رہی ہیں۔ جادوگر تمام رات آگ کے الاؤ پر طرح طرح کے منتر پڑھتا اور اُچھل پھاند کرتا رہا۔ اس شخص کا حُلیہ بڑا عجیب اور پُراسرار تھا۔ سر تا پا سیاہ چمکدار جسم، غالباً کوئی روغن مل رکّھا تھا۔ زرد آنکھیں، گلے میں ہڈیوں کی لمبی مالا، سر کے بال عورتوں کی طرح گندھے ہوئے اور چہرے پر خون سے طرح طرح کے نقش و نگار بنے ہوئے۔ بڑی بھیانک شکل تھی۔ جب وہ جوش میں آکر اپنے سفید دانت کٹکٹاتا، تو میری ریڑھ کی ہڈّی سرد ہو جاتی۔
الاؤ کے گرد بہت سے آدمی خاموشی سے بیٹھے جادوگر کی طرف پلک جھپکائے بغیر دیکھ رہے تھے۔ جادوگر نے واقعی ان پر سحر کر دیا تھا۔ مَیں سوچ رہا تھا کہ جادوگر اِن لوگوں کو بیوقوف بناتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد جنگل کی طرف سے شیر کی گرج سنائی دی۔ مَیں چوکنّا ہو گیا اور رائفل مضبوطی سے تھام لی۔ سب لوگ اپنی اپنی جگہ بے حِس و حرکت بیٹھے تھے۔ شیر کی آواز سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ آہستہ آہستہ اِس کی طرف آ رہا ہے۔ جادوگر اور تیزی سے اُچھلنے کُودنے لگا۔ اب وہ اونچی آواز سے منتر پڑھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایک جوان شیر جھاڑیوں میں سے برآمد ہوا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا جادوگر سے دس فٹ کے فاصلے پر آن کر رُک گیا۔ شیر کی چال دیکھ کر مجھے کچھ ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی نادیدہ قوّت اُسے اپنے ساتھ لا رہی ہے۔ اس کی چمکدار زرد آنکھوں سے حیرت اور خوف کا اظہار ہوتا تھا۔ اس میں شیروں کی خونخواری اور چُستی بھی نہ تھی۔ اس وقت وہ ایک معصوم بھیڑ یا بکری کی مانند نظر آتا تھا۔
مَیں دم بخود اپنی جگہ دبکا ہوا زندگی کا سب سے حیرت انگیز تماشا دیکھ رہا تھا۔ یہ بات میرے وہم و گمان میں نہ تھی کہ سائنس کے اس دَور میں، جبکہ انسان خلا کی تسخیر کر رہا ہے، ہندچینی کے گھنے جنگلوں میں ایسے جادوگر موجود ہیں جو جادو کے زور سے وحشی درندوں کو قابو میں لا سکتے ہیں۔
میرے خیال میں یہ بھی ہپناٹزم کی کرامت تھی۔ جادوگر نے دفعتہً آگ کے الاؤ میں سے لوہے کی ایک لمبی سلاخ نکالی۔ سلاخ آگ میں تپ کر سُرخ ہو رہی تھی۔ پھر وہ شیر کی طرف بڑھا۔ میرا بدن دہشت سے پسینے میں تر تھا اور دل کی دھڑکن گویا بند ہونے والی تھی۔ شیر بے بسی اور بے چارگی کی تصویر بنا اپنی جگہ کھڑا تھا۔ جادوگر کو قریب آتے دیکھ کر وہ غرّایا اور کچھ ایسا انداز اختیار کیا جیسے اس پر حملہ کرنے والا ہے، لیکن دوسرے ہی لمحے جادوگر اس کے سر پر پہنچ چکا تھا۔ اب مَیں نے دیکھا کہ جادوگر کی آنکھیں انگاروں کی طرح چمک رہی تھیں۔ سلاخ اس کے دائیں ہاتھ میں تھی۔ بائیں ہاتھ سے اس نے شیر کی گردن پکڑ لی اور پھر گرم گرم سلاخ چند ثانیوں کے اندر اندر شیر کی آنکھوں میں گھونپ دی۔ خدا کی پناہ!۔۔۔ شیر کی ہولناک گرج، اس کا تڑپنا، چیخنا اور لوگوں کا دہشت سے چِلّانا، ایک عجیب منظر تھا۔ شیر درد سے چیختا، غرّاتا ہوا جنگل میں بھاگ گیا۔ اب وہ بالکل اندھا ہو چکا تھا۔ سب لوگ گھٹنوں کے بَل جُھکے ہوئے زور زور سے چِلّا رہے تھے غالباً وہ بھی منتر پڑھ رہے ہوں گے۔ جادوگر کا اتنا رعب مجھ پر غالب آیا کہ مَیں بھی گھٹنوں کے بَل جُھک کر اناپ شناپ بکنے لگا۔ شیر کے جانے کے بعد جادوگر منتر پڑھتا رہا اور جب صبح کے آثار نمودار ہوئے، تو سب لوگ اپنی اپنی جھونپڑیوں کی طرف چلے گئے۔
اس تماشے کا مجھ پر بڑا اثر ہوا۔ اب مَیں بھی جادوگر کا قائل ہو چکا تھا۔ اس قسم کے شعبدوں کے سامنے بھلا رائفل کی کیا حیثیت تھی اور حیران کُن بات یہ کہ کئی دن تک درندوں کے بارے میں کوئی خبر سننے میں نہ آئی اور نہ کسی نے اس اندھے شیر کو جنگل میں پھرتے دیکھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک شیر کو سزا ملنے سے بقیہ درندوں نے عبرت پکڑ لی ہے اور اپنا ٹھکانا چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے ہیں۔ جادوگر نے لوگوں سے کہا تھا کہ اگر اب کوئی واردات ہوئی، تو وہ دوسرے شیر کو بُلا کر اندھا کر دے گا۔
لوگ نڈر ہو کر جنگلوں میں آنے جانے لگے اور رفتہ رفتہ بستیوں میں وہی گہما گہمی شروع ہو گئی۔ اس دوران میں جادوگر کو لوگوں نے خوش کر دیا۔ اس کے گھر کے آگے غلّے، کپڑے اور برتنوں کا انبار لگ گیا۔ جادوگر نے بعد میں یہی چیزیں گاؤں کے اُن لوگوں میں تقسیم کر دیں جو بہت نادار اور مفلس تھے۔ اس سخاوت سے مَیں بھی متاثر ہوا۔ مجھے افسوس تھا تو صرف اِس بات کا کہ رائفل کے جوہر دکھانے کا موقع نہ ملا، بہرحال میں روز جنگل جاتا اور اندھے شیر کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتا، لیکن وہ کہیں دکھائی نہ دیا۔
ایک رات کا ذکر ہے، آسمان پر چاند نکلا ہوا تھا۔ ایک جھونپڑی میں سے کوئی عورت نکلی اور کسی کام سے دوسری بستی کی طرف چلی جو زیادہ سے زیادہ آدھ میل دور ہوگی۔ راستہ جنگل میں سے گزرتا تھا۔ ابھی اس نے بمشکل ایک فرلانگ کا فاصلہ طے کیا تھا کہ ایک درخت کے پیچھے سے کوئی جانور جھپٹا اور عورت کو مُنہ میں دبا کر دوبارہ اسی جگہ غائب ہو گیا۔ عورت نے جان بچانے کی کوشش کی اور بستی والوں کی مدد کے لیے پکارا، لیکن بروقت کوئی آدمی وہاں نہ گیا۔ البتّہ بہت سے لوگوں نے عورت کی چِیخیں ضرور سُنیں جو رات کے گہرے سناٹے کو چیرتی ہوئی ان کے کانوں تک پہنچ گئی تھیں۔ پندرہ بیس منٹ بعد چند آدمی ہاتھوں میں جلتی ہوئی مشعلیں لیے وہاں پہنچے، تو انہوں نے عورت کے کپڑوں کی دھجّیاں اِدھر اُدھر جھاڑیوں میں اٹکی ہوئیں پائیں۔ کچھ فاصلے پر تازہ خون بھی بکھرا ہوا تھا، لیکن لاش کا کہیں پتا نہ تھا۔
اگلے روز صبح سویرے بستی کے بہت سے آدمی جنگل میں لاش ڈھونڈنے نکلے، لیکن انہیں جلد معلوم ہو گیا کہ لاش کا ملنا دشوار ہے۔ یہ ظاہر تھا کہ عورت کو درندے نے ہلاک کیا ہے اور اب وہ اُسے ایسی جگہ گھسیٹ کر لے گیا تھا جہاں قدِ آدم اور نہایت گھنی خار دار جھاڑیاں کثرت سے تھیں۔ ان جھاڑیوں کے اندر گُھسنا انسانوں کے بس کی بات نہ تھی۔ تاہم ان لوگوں نے سخت مشقّت کے بعد کلہاڑیوں اور لمبے لمبے چاقوؤں کی مدد سے انہیں کاٹا، راستہ بنایا اور آخرکار لاش پا لینے میں کامیاب ہو گئے۔ سر ایک طرف پڑا تھا اور دھڑ کا آدھا حِصّہ درندہ ہڑپ کر چکا تھا۔ ابھی یہ لوگ بقیہ حِصّہ کپڑے میں باندھ ہی رہے تھے کہ سَو گز کے فاصلے سے شیر کے غرّانے کی آواز آئی۔ آدم خور کی آواز سنتے ہی یہ سب لوگ ڈر کر واپس گاؤں میں آ گئے اور جادوگر کو سارا قِصّہ سنایا۔ اس نے کیا جواب دیا، یہ مجھے معلوم نہ ہو سکا۔ غالباً اس کا جادو روز روز نہیں چلتا تھا۔
آہستہ آہستہ آدم خوروں نے اپنی سرگرمیاں شروع کر دیں اور دو ہفتوں کے اندر اندر بارہ افراد ان کے پیٹ میں پہنچ گئے۔ ایک رات پھر جادوگر نے الاؤ روشن کیا اور منتر پڑھے، لیکن ساری رات گزر گئی، کوئی درندہ نہ آیا۔ صبح کے وقت جبکہ تماشائی اونگھ رہے تھے اور جادوگر بھی تھک گیا تھا، قریب کی جھاڑیوں سے ایک شیر اور شیرنی دبے پاؤں نکلے اور جادوگر پر آن پڑے۔ اس سے پہلے کہ لوگوں کو کچھ پتا چلے، دونوں درندوں نے جادوگر کو وہیں چیر پھاڑ کر برابر کر دیا اور اپنا اپنا حصّہ مُنہ میں دبا کر جدھر سے آئے تھے اُدھر چلے گئے۔ جادوگر کے مارے جانے سے لوگوں کے حوصلے بالکل پست ہو گئے اور انہوں نے وہاں سے چلے جانا ہی بہتر سمجھا۔ دس میل دور مشرق کی طرف ایک دریا بہتا تھا۔ ان لوگوں نے، جن کی تعداد دو ہزار سے زائد تھی، دریا عبور کیا اور ایک وادی کے اندر نئے سرے سے جھونپڑیاں بنا لیں۔ پرانی آبادی میں ابھی ایک ڈیڑھ ہزار لوگ باقی تھے جن میں زیادہ تر عمر رسیدہ، بیمار اور ایسے افراد شامل تھے جو چل پھر نہیں سکتے تھے۔
روزانہ رات کو پانچوں درندے، اندھے شیر سمیت، بستی پر دھاوا بولتے، کسی نہ کسی جھونپڑی کو گرا کر اس میں گُھس جاتے اور اپنا شکار پکڑ کر وہیں کھانا شروع کر دیتے۔ ایک مرتبہ مَیں نے اُونچے سے درخت پر رات کاٹنے کا فیصلہ کیا۔ مچان باندھنے کے لیے کوئی آدمی نہ ملتا تھا۔ مَیں نے ایک مضبوط اور محفوظ شاخ پر سرِ شام ہی ڈیرا جما لیا۔ مجھے یقین تھا کہ درندے معمول کے مطابق اِدھر ضرور آئیں گے، لیکن ایسا نہ ہوا۔ انھوں نے مغرب کی طرف پانچ میل دور ایک دوسری بستی پر دھاوا بول دیا۔ پہلے مویشیوں پر حملہ کر کے تین چار کو مارا، پھر آدمیوں کی باری آئی۔ مجھے اگلے روز وہاں کے ایک باشندے نے بتایا۔
"ان کی تعداد پانچ تھی۔ وہ سُورج چُھپنے کے تھوڑی ہی دیر بعد گاؤں کی طرف آئے۔ راہ میں مویشیوں کا باڑا تھا۔ انہوں نے پہلے چاروں طرف چکّر لگایا۔ درندوں کو دیکھ کر جانوروں میں خوف و ہراس پھیل گیا، وہ باڑا توڑ کر باہر بھاگے اور درندوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ اتنے میں بستی کے دس بارہ آدمی وہاں پہنچ گئے۔ مَیں نے دیکھا کہ ان میں دو شیروں اور دو شیرنیوں کے علاوہ پانچواں شیر اندھا ہے وہ سب کے پیچھے تھا۔ درندوں نے ہمیں آتے دیکھا، تو چھلانگیں لگاتے ہوئے ہماری طرف آئے، لیکن ہم درختوں پر چڑھ گئے۔ البتہ دو آدمی ان کے قابو میں آ گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے درندوں نے انہیں ہلاک کر دیا۔ سب نے اطمینان سے پیٹ بھرا اور چلے گئے۔’
ان نازک حالات میں پانچ آدم خوروں کا مقابلہ مجھ اکیلے کے بس کی بات نہ تھی۔ مَیں نے اپنی بھائی جارج کو بُلوایا جو اُن دنوں سائیگون میں رہتا تھا۔ جارج کے آنے سے پہلے مَیں نے چام نامی ایک مقامی شکاری کی خدمات بھی حاصل کیں۔ چام، لمبا تڑنگا، نہایت تجربے کار، نڈر اور بہادر شکاری تھا۔ شیر کے ساتھ دست بدست جنگ میں وہ اپنا بایاں بازو گنوا چکا تھا، لیکن قدرت نے اس کی تلافی یوں کی کہ دائیں ہاتھ میں بے پناہ قوّت بھر دی۔ ایک لمبا، چمکدار پھل کا خنجر اس کی کمر میں ہر وقت بندھا رہتا اور اس خنجر سے اس نے نہ جانے کتنے درندے ہلاک کیے تھے۔ اس کے جِسم کا کوئی حِصّہ ایسا نہ تھا جس پر زخم کا نشان نہ ہو۔ چام میں ایک حیرت انگیز بات مَیں نے دیکھی کہ اُس کے اور شیر کے چہرے میں بڑی مشابہت تھی۔ اس کا بچپن اور جوانی افریقی وحشیوں اور جنگلیوں کی زبان سیکھی اور شکار کھیلنے کا قدیم فن حاصل کیا۔ وہ انگریزی بھی بول سکتا تھا۔ اس نے مجھے بہت سے انگریزی اور آسٹریلین شکاریوں کی داستانیں سنائیں جن کی وہ افریقہ میں رہنمائی کر چکا تھا۔
تیسرے روز جارج آن پہنچا۔ اس کے ساتھ دو ملازم بھی تھے۔ اس دوران میں آدم خور مزید دو عورتوں کو ہلاک کر چکے تھے۔ آدم خور شکار کی تلاش میں رات کے پچھلے پہر آئے۔ گاؤں کی ایک ایک جھونپڑی کا معائنہ کیا۔ بانس کی بنی ہوئی جھونپڑیوں کو وہ گھاس کے تِنکے سمجھتے اور روندتے ہوئے نکل جاتے۔ ایک بڑی سی جھونپڑی میں، جس کے چاروں طرف موٹے بانسوں کی دیوار تھی، دونوں عورتیں سو رہی تھیں۔ آدم خوروں نے اس کا ایک چکّر لگایا اور ایک جگہ زور لگا کر دیوار توڑ ڈالی۔ اب عورتیں بچ کر کہاں جا سکتی تھیں؟ شیروں نے انہیں دبوچ لیا اور معمول کے مطابق وہیں پیٹ بھر کر اپنے ٹھکانے کی طرف لوٹ گئے۔
ہم نے اس جھونپڑی کے باہر پانچوں آدم خوروں کے پنجوں کے نشان دیکھے۔ عورتوں کی اوجھڑیاں، بچا کھچا گوشت اور ہڈیاں بھی پڑی تھیں۔ یہ منظر اتنا دہشت انگیز تھا کہ جارج تھرتھر کانپنے لگا، لیکن چام چُپ چاپ کھڑا تھا، اس کے چہرے پر کوئی تاثّر نہ تھا، البتّہ آنکھوں کی چمک بڑھی گئی تھی اور دایاں فولادی ہاتھ خنجر کے دستے پر مضبوطی سے جما ہوا تھا۔ ہمیں بہت جلد پتا چل گیا کہ بستی ابھی پوری طرح خالی نہ تھی، بلکہ بہت سے مرد اور عورتیں یہاں موجود تھے۔ غالباً یہ بے چارے دریا تک جانے کی ہمّت نہ کر سکتے تھے اور یہ جاننے کے باوجود کہ ایک روز آدم خوروں کا لقمہ بن جائیں گے، یہیں رہنے پر مجبور تھے۔ مَیں نے ان سب کو ایک بڑی سی جھونپڑی میں جمع کر دیا اور سمجھا دیا کہ کوئی شخص شام کے بعد باہر نکلنے کی کوشش نہ کرے۔ جھونپڑی کے چاروں طرف خشگ گھاس اور لکڑیوں کے بڑے بڑے ڈھیر جمع کیے گئے اور سُورج غروب ہی انہیں آگ لگا دی گئی۔ اب آدم خور یہ آگ پھلانگ کر جھونپڑی کے اندر نہیں جا سکتے تھے۔ ہم نے اپنے لیے یہ انتظام کیا تھا کہ جھونپڑی سے دائیں بائیں پچاس پچاس فٹ کے فاصلے پر دو گڑھے کھدوائے۔ ان گڑھوں کی گہرائی پانچ فٹ اور لمبائی چھ فٹ تھی۔ ان کے چاروں طرف خار دار جھاڑیاں اِس انداز میں پھیلا دی گئی تھیں کہ نزدیک سے دیکھنے پر بھی پتا نہ چل سکتا تھا کہ یہاں گڑھا ہوگا۔ دائیں گڑھے میں جارج اور اس کے دونوں ملازم اور بائیں گڑھے میں چام اور مَیں اپنے اپنے ہتھیار سنبھال کر بیٹھ گئے۔ مجھے پورا یقین تھا کہ آدم خور آج رات دوبارہ اِدھر آئیں گے۔
آگ کا الاؤ دھڑ دھڑ جل رہا تھا اور اس کے شعلوں کی سُرخ روشنی میں دُور کا منظر صاف نظر آتا تھا۔ اردگرد کے درختوں پر بسیرا کرنے والے پرندے خاموش تھے۔ البتہ بہت دُور سے کسی ریچھ کے چِلّانے کی مدّھم آواز کانوں میں آرہی تھی۔ مُوئی گاؤں کے مغرب کی جانب ایک اور جنگل پر ریچھوں اور ہاتھیوں نے قبضہ کر رکّھا تھا۔ ایک ہی جنگل میں ریچھوں اور ہاتھیوں کا گُھل مِل کر رہنا بڑی عجیب بات تھی، کیونکہ مَیں نے کبھی نہیں سُنا کہ کسی ہاتھی نے ریچھ کو مارا ہو یا کسی ریچھ نے یہ علاقہ چھوڑ کر کہیں اور جانے کی کوشش کی ہو۔ چام نے میرے کان میں کہا:
"آدم خوروں کے آنے سے پہلے آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں جو ریچھ کی آواز سُن کر مجھے یاد آیا۔ آپ شاید یقین نہ کریں، لیکن میں جو بیان کروں گا، اس کا ایک ایک لفظ سچ ہے۔ مَیں اپنے ایک دوست کی فرمائش پر شہد جمع کرنے کے لیے اس جنگل میں گیا۔ میرے پاس اس خنجر کے سوا کچھ نہ تھا۔ میں نے اپنا جسم ایک موٹے کمبل میں چُھپا رکّھا تھا اور بارہ فٹ اونچی بانس کی بنی ہوئی سیڑھی میرے کندھوں پر رکھی تھی اس جنگل میں شہد کی مکّھیوں کے چھتّے کثرت سے ہیں۔ اس کے علاوہ جنگلی پھلوں کے بے شمار درخت بھی ہیں اور یہ ساری چیزیں ریچھ کی پسندیدہ غذا ہیں، اس لیے ریچھوں نے وہاں رہنا شروع کر دیا تھا۔ شیروں کو اُدھر جانے کی جرأت نہیں ہوتی تھی، کبھی کوئی بھولا بھٹکا شیر اُدھر جا نکلتا، تو یہ ریچھ مِل جُل کر اس پر ہلّہ بول دیتے اور پھر ان کی مدد کے لیے ہاتھی بھی آ جاتے۔
صبح کا وقت تھا۔۔۔ مزے مزے میں چلا جا رہا تھا کہ مَیں نے ایک درخت پر بہت بڑا چھتّہ دیکھا جو ابھی تک ریچھوں کی یلغار سے محفوظ تھا۔ چھتّے کی اونچائی زمین سے تیس فٹ ہوگی۔ بہرحال مَیں نے درخت کے تنے کے ساتھ سیڑھی لگائی۔۔۔ کمبل اپنے گرد اچّھی طرح لپیٹا اور مُنہ چُھپا کر اُوپر چڑھنے لگا۔ ابھی مَیں نے سیڑھی کے آخری ڈنڈے پر قدم رکّھا ہی تھا کہ ایک طرف سے دو ریچھ آئے۔ اُن کے پیچھے پیچھے ایک ہتھنی جھومتی جھامتی چلی آ رہی تھی اور ہتھنی کے ساتھ اس کا چھوٹا سا بچّہ بھی تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ جانور "تفریح " کے لیے اِدھر آئے ہیں۔
مَیں نے جلدی سے درخت کی شاخوں اور پتّوں میں چُھپنے کی کوشش کی، مگر ریچھ اور اس کی مادہ نے مجھے دیکھ لیا اور وہ دوڑتے دوڑتے فوراً اپنے پچھلے پَیروں کے بل کھڑے ہوگئے اور چیخنے لگا ہتھنی بھی رُکی اور سونڈ اُٹھا کر اُوپر دیکھنے لگی۔ مَیں نے دل میں سوچا کہ آج تو بے موت مرے۔۔۔ فرار کی کوئی راہ میرے سامنے نہ تھی۔۔۔ اُوپر شہد کی ہزار ہا مکّھیاں بھنبھنا رہی تھیں اور نیچے ہتھنی اور ریچھ راستہ روکے کھڑے تھے۔ چند لمحوں بعد دونوں ریچھ درخت کے نزدیک آ گئے اور اُنہوں نے اس کے گرد چکّر لگایا اور سیڑھی پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگے، مگر مَیں انکی پہنچ سے باہر تھا۔ دفعتہً چھتّے سے ایک زنّاٹے دار آواز میں مکّھیاں اڑیں اور ریچھوں سے چمٹ گئیں۔ کچھ مکّھیوں نےہتھنی اور اس کے بچے پر بھی حملہ کر کے انہیں درخت سے پرے ہٹنے پر مجبور کر دیا اور ابھی مکھیوں نے میری طرف توجہ نہ کی تھی شاید اس لیے کہ مَیں بے شاخوں کے سہارے بے حس و حرکت و بکا بیٹھا تھا۔ موقع پا کر مَیں نے چھتّہ توڑ دیا اور اچھی مقدار میں شہد اس ڈبّے میں جمع کر لیا اور جسے میں اپنے ساتھ لایا تھا۔
مکّھیوں کے بروقت "حملے’ کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہتھنی اور ریچھ گھبرا کر ایک طرف بھاگ اُٹھے۔ مَیں نے تھوڑی دیر انتظار کیا اور پھسلتا ہوا درخت کے تنے سے زمین پر اُترا، سیڑھی اٹھائی اور جدھر سے آیا تھا، ادھر چل پڑا۔ ابھی مَیں بمشکل دس پندرہ قدم ہی چلا تھا کہ ایک درخت کے وقب سے ریچھ اور اس کی مادہ برآمد ہوئے اور انہوں نے راستہ روک لیا۔ مَیں نے جان بچانے کے لیے شہد کا ڈبّا ان کی طرف پھینک دیا۔ یہ تدیبر کارگر ہوئی۔ وہ ڈبّے کی طرح جھپٹے اور شہد چاٹنے لگے۔ مَیں الٹے پاؤں ایک چکّر کاٹ کر اُن کی نظروں سے اوجھل ہو گیا اور ایک جھاڑی میں پناہ لی، لیکن شیر کے غرّانے کی آواز سُنی، تو ہوش اڑ گئے۔ ایک قوی ہیکل اور جوان شیر جھاڑیوں میں پڑا سو رہا تھا میری آہٹ سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ میرے اور اس کے درمیان پندرہ فٹ کا فاصلہ تھا۔ اس نے میری طرف نگاہِ غلط انداز ڈالی اور انگڑائی لیتا ہوا جھاڑی سے نکلا اور اُسی طرف چلا جدھر سے مَیں آیا تھا۔ مَیں سمجھ گیا کہ اب اس کا ریچھوں سے آمنا سامنا ہوگا۔ آپ مجھے بیوقوف کہہ سکتے ہیں، کیونکہ فوراً ہی مَیں بھی شیر کے تعاقب میں چلا اور موقع پاتے ہی ایک درخت پر چڑھ گیا۔ شیر کی بُو پا کر ریچھوں کے جوڑے نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ پھر جنگل کے بادشاہ پر اُن کی نظر پڑی جس کی دُم آہستہ آہستہ گردش کر رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ شیر کا ارادہ جنگ کرنے کا نہ تھا، لیکن ریچھوں نے غالباً اسے شیر کی کمزوری سمجھا اور غرّاتے، دانت دکھاتے آگے بڑھے۔ شیر نے دائیں بائیں دیکھا، اُونچی اونچی جھاڑیاں دونوں طرف کھڑی تھیں۔ اتنے میں ریچھ شیر کے نزدیک پہنچ گئے۔ شیر ایک لمحے کے لیے اس صورتِ حال سے خوف زدہ ہوا، لیکن فوراً ہی اس نے جھلّا کر دایاں پنجہ نَر ریچھ کی کھوپڑی پر رسید کیا۔ ریچھ قلابازیاں کھاتا ہوا دور جا گِرا اور اس کا چہرہ خون سے تر ہو گیا۔ اتنے میں اس کی مادہ شیر پر جھپٹی اور دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔ شیر کی گرج سے جنگل کی زمین کانپ رہی تھی اور اُدھر ریچھ بپھرے ہوئے چیخ رہے تھے۔ نر ریچھ اگرچہ شیر کے پہلے ہی وار سے شدید زخمی ہو چکا تھا، لیکن چند سیکنڈ بعد ہی وہ دوبارہ شیر پر حملہ آور ہوا۔ تین چار منٹ تک ان کی ایسی خونریز جنگ ہوئی کہ تینوں خون میں نہا گئے۔ مجھے اس روز ریچھوں کی قوّت اور طیش کا صحیح اندازہ ہوا۔ تاہم شیر کا مقابلہ اُن کے بس کی بات نہ تھی۔ شیر لہولہان ہونے کے باوجود اس وقت تک اپنی جگہ سے نہ ہٹا جب تک اس نے اپنے نوکیلے پنجوں اور دانتوں سے نر ریچھ کی بوٹیاں نہ اڑا دیں، پھر وہ ہانپتا ہوا ایک طرف چلا، لیکن مادہ ریچھ نے اُس کا پیچھا نہ چھوڑا۔
مَیں درخت پر بیٹھا تماشا دیکھ رہا تھا کہ مادہ ریچھ نے ایک عجیب سی حرکت کی، وہ مُنہ اوپر اٹھا کر چند لمحوں تک چیختی رہی جیسے کسی کو مدد کے لیے پُکار رہی ہو، پھر دوڑتی ہوئی ایک طرف غائب ہو گئی۔ شیر جھاڑیوں میں بیٹھا اپنے زخم چاٹ رہا تھا۔ اس نے ریچھ کو بُری طرح مارا تھا۔ ریچھ کی لاش مجھے صاف نظر آ رہی تھی۔ میرا خیال تھا کہ مادہ ریچھ برادری والوں کو بُلانے گئی ہے۔ ان کا قاعدہ ہے کہ کوئی ریچھ حادثے کا شکار ہو کر مر جائے، تو دوسرے ریچھ فوراً وہاں پہنچ کر انسانوں کی طرح روتے اور بَین کرتے ہیں، پھر لاش اٹھا کر ایک خاص جگہ لے جاتے اور دفن کر دیتے ہیں۔
دفعتہً ہاتھی کو چنگھاڑ سے جنگل تھرّا اُٹھا۔ آواز میرے دائیں جانب سے آئی تھی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک دیو پیکر ہاتھی جھومتا ہوا نمودار ہوا۔ اس کے پیچھے پیچھے مادہ ریچھ چلی آ رہی تھی۔ شیر جھاڑیوں میں بیٹھا خاموشی سے ہاتھی کو دیکھتا رہا۔ مادہ نے مُردہ ریچھ کو اچّھی طرح سونگھا اور قریب ہی بیٹھ گئی۔ ہاتھ مسلسل چنگھاڑتا ہوا درختوں کے گرد چکّر لگا رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ شیر کو جنگ کے لیے للکار رہا ہے۔ عین اس وقت شیر جھاڑیوں میں سے غرّاتا ہوا نکلا اور ہاتھی کی پیشانی پر اپنے پنجے گاڑ دیے۔ ہاتھی درد سے بیتاب ہو کر گُھوما اور اس نے زبردست جھٹکے سے شیر کو فضا میں اُچھال دیا۔ شیر کمر کے بل زمین پر گرا اور دوبارہ نہ اُٹھ سکا۔ ہاتھی اپنے حریف کی طرف دوڑا اور اس کی ٹانگ سونڈ میں پکڑ لی،پھر اپنا کئی من وزنی پَیر اس پر رکھ کر آناً فاناً شیر کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ حریف کے اس طرح مارے جانے پر مادہ ریچھ خوشی سے چھاتی پیٹنے لگی، پھر میرے دیکھتے دیکھتے ہاتھی نے نہایت آرام سے ریچھ کی لاش سونڈ میں پکڑی اور گھنے جنگل میں چلا گیا۔۔۔’
چام کی زبانی یہ واقعہ سُن کر مجھے واقعی بڑی حیرت ہوئی۔ جنگل کی دُنیا بڑی نرالی ہے اور یہاں اس قسم کے واقعات پیش آنا کوئی عجوبہ نہیں۔ البتّہ بہت کم شکاری ایسے ہیں جو اپنی آنکھوں سے یہ تماشے دیکھتے ہیں۔ چام نے میری دلچسپی کو بھانپ لیا اور کئی واقعات سنائے۔ رات آہستہ آہستہ بھیگتی گئی آگ کا الاؤ مدّھم ہوتا گیا، لیکن آدم خوروں کا کہیں پتا نہ تھا۔ جارج نے تین مرتبہ سیٹی کے مخصوص اشارے سے مجھے بتایا کہ وہ انتظار کرتے کرتے تنگ آ گیا ہے۔ مَیں نے جواب میں اُسے سمجھایا کہ صبح ہونے سے پہلے گڑھے سے نکلنا خطرناک ہے۔
"ممکن ہے آگ کی وجہ سے درندے اِدھر نہ آتے ہوں۔’ چام نے کہا۔ "بہرحال، الاؤ اب سرد ہونے والا ہے ہمیں ہوشیار رہنا چاہیے۔’
میں نے گردن کو جنبش دی اور آنکھیں بند کر لیں، کیونکہ جنگل کی خنک ہَوا نے مجھ پر نیند کی کیفیت طاری کر دی تھی۔ بمشکل آدھ پَون گھنٹے سویا تھا کہ پے در پے فائروں آواز کی آواز نے مجھے بدحواس کر دیا۔
"کیا تم نے گولی چلائی؟’ مَیں نے چام سے پوچھا۔
"نہیں جناب، میرے پاس رائفل کہاں ہے؟’ اس نے جواب دیا۔ "گولیاں دوسری جانب سے چل رہی ہیں۔’
چاروں طرف گُھپ اندھیرا تھا۔ یکایک جھونپڑی کی جانب سے عورتوں کے چیخنے اور پھر شیر کے غرّانے کی آواز سنائی دی۔ مَیں نے ٹارچ روشن کی، تیز روشنی کی لکیر اندھیرے کو چیرتی ہوئی چاروں طرف گھومنے لگی۔ مَیں نے دیکھا کہ ایک شیرنی اور دو شیر جھونپڑی کے قریب کھڑے ہیں اور چوتھی شیرنی ان سے کچھ فاصلے پر ایک عورت کی ٹانگ مُنہ میں پکڑے گھسیٹ رہی ہے۔ یہ بدنصیب عورت غالباً بہیوش ہو چکی تھی یا مر گئی تھی۔ روشنی ہوتے ہی شیرنی نے عورت کی ٹانگ چھوڑ دی اور بھاگ کر اپنے ساتھیوں سے جا ملی۔ ان کی آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔ دوسرے ہی لمحے مَیں نے رائفل سیدھی کی اور فائر کر دیا۔ گولی آگے کھڑی ہوئی شیرنی کی کھوپڑی میں لگی اور وہ وہیں گِر کر تڑپنے لگی۔ مَیں نے تین فائر اور کیے، لیکن اتنی دیر میں تینوں آدم خور جھاڑیوں میں پناہ لے چکے تھے اور ان کی گرج سے سویا ہوا جنگل بیدار ہو گیا تھا۔
دوسری طرف سے جارج نے درندوں پر فائرنگ شروع کر دی تھی۔ آدم خور ہمارے سامنے والی جھاڑیوں میں چُھپے ہوئے تھے، اس لیے گولیاں ہمارے سروں پر سے گزر رہی تھیں۔ اس اندھا دھند فائرنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُس شیرنی کے علاوہ جسے مَیں نے مارا تھا، بقیہ آدم خور گرجتے دھاڑتے رفوچکّر ہو گئے۔ صبح کا اجالا پھیلتے ہی ہم گڑھوں سے برآمد ہوئے۔ سب سے پہلے چام نے شیرنی کا معائنہ کیا۔ گولی اس کی کھوپڑی میں پیوست تھی۔ اس نے جس عورت کو گھسیٹا تھا، وہ مر چکی تھی۔
جارج نے بعد میں بتایا کہ اُس نے اپنے گڑھے کے قریب ایک شیر کو کھڑے دیکھا اور اُس پر گولی چلائی، لیکن شیر بچ کر بھاگ نکلا، جارج کے ملازموں کا خیال تھا کہ یہ وہی اندھا شیر ہوگا جو سب سے پہلے آیا تھا۔ بہرحال رات بھر جاگنے کا صلہ ایک شیرنی کی صورت میں ملا۔ ہم نے اس کی لاش سارے گاؤں میں گھمائی اور دریا پار رہنے والے بھی اسے دیکھنے کے لیے آئے۔ اب انہیں اطمینان تھا کہ جادوگر کے علاوہ بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اِن درندوں کو مار سکتے ہیں۔
اگلے ہفتے میں کوئی حادثہ پیش نہ آیا۔ اِس دوران میں ہم نے آدم خوروں کے رہنے کی جگہ کا سرگرمی سے جائزہ لیا، مگر کامیابی نہ ہوئی۔ چام کا خیال تھا کہ وہ اکٹھے نہیں رہتے، بلکہ ان کے ٹھکانے الگ الگ ہیں اور وہ شکار کے وقت ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ ہندچینی کے جنگلی باشندے اِن درندوں کو ہلاک کرنے کے مختلف طریقے کام میں لاتے ہیں۔ اگر ہم بھی ان طریقوں پر عمل کریں، تو ناکامی کی کوئی وجہ نہیں۔
ان میں سے پہلا طریقہ یہ تھا کہ شیر کے مخصوص راستوں اور گزرگاہوں پر ایک گہرا گڑھا کھودا جاتا اور اس کے اندر لوہے کی نوکیلی سلاخیں گاڑنے کے بعد وہ گڑھے کا مُنہ بانسوں، شاخوں اور نرم مٹّی سے ڈھانپ دیتے۔ شیر ادھر سے گزرتے ہوئے اچانک گڑھے میں گِر جاتا اور لوہے کی سلاخیں اس کے جسم میں پیوست ہو کر شیر کا خاتمہ کر ڈالتیں۔ اِس میں شک نہیں کہ یہ طریقہ بہت اچّھا تھا، لیکن اکثر ایسا ہوتا کہ بعض ایسے افراد گڑھے میں گِر جاتے جنہیں اس کی موجودگی کا علم نہ ہوتا۔۔۔ چنانچہ لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے گڑھے کے گرد و نواح میں درختوں کے تنے پر مخصوص نشان لگا دیے جاتے تھے۔
دوسرا طریقہ "کمر توڑ’ کہلاتا ہے۔ رسّوں کے ذریعے کِسی درخت پر لکڑی کا بڑا شہتیر لٹکا دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی کِسی جانور کی لاش باندھ دی جاتی ہے۔ شیر شکار کی تلاش میں ادھر آ نکلتا ہے اور لاش کو دیکھتے ہی اُسے چُھونے کی کوشش کرتا ہے۔
فوراً ہی اُوپر سے شہتیر گرتا ہے اور شیر کی کمر توڑ دیتا ہے۔
تیسرا طریقہ نہایت حیران کُن اور زود اثر ہے۔ ایک مضبوط کمان درخت سے باندھ دی جاتی ہے اور نہایت نوکیلے سرے کا ہلکا نیزہ اس میں اٹکایا جاتا ہے۔ یہ نیزہ ذرا سے اشارے پر بندوق سے نکلی ہوئی گولی کی طرح کمان سے چُھوٹتا ہے اور درندے کے جسم میں کُھب جاتا ہے۔ ایسی کمانیں شیر کی گزرگاہوں پر نہایت چابکدستی اور فن کارانہ مہارت سے لگائی جاتی ہیں اور جونہی شیر زمین پر پڑی ہوئی ڈور پر پَیر رکھتا ہے ڈور اُلجھ کر تن جاتی ہے اور نیزہ کمان سے آزاد ہو جاتا ہے۔ کمان کی اونچائی اور شیر سے اس کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہی پھندا لگایا جاتا ہے۔ نیزہ شیر کی گردن یا پیٹ میں جا لگے، تو فوراً مر جاتا ہے، لیکن ٹانگ یا کندھے پر لگے، تو فوراً نہیں مرتا، بلکہ کئی روز بعد سسِک سسِک کر جان دیتا ہے۔
یہ تمام ترکیبیں عموماً غیر آدم خور شیروں کے مارنے کے لیے آزمائی جاتی ہیں، لیکن آدم خوروں کے شکار میں انہیں زیادہ کام میں نہیں لایا جاتا، کیونکہ آدم خور اپنی ہوشیاری اور چالاکی کے باعث اِن پھندوں میں نہیں آتا۔ البتّہ آدمی اور عورتیں ان کے ذریعے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ چونکہ گاؤں تقریباً خالی پڑا تھا اور ہزاروں افراد دریا پار رہنے لگے تھے، اس لیے اِن تدبیروں پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہ تھا۔ چام نے چند آدمیوں کو گڑھے کھودنے، کمانیں اور نیزے تیار کرنے اور درختوں پر شہتیر لٹکانے کی ہدایات دیں۔ دو دن کے اندر اندر ہم نے ان تمام مقامات پر، جہاں آدم خوروں کے نمودار ہونے کا امکان تھا، گڑھے تیّار کرا دیے، درختوں پر کمانیں لگوا دیں اور کئی شہتیروں کے مچان بھی بندھوا دیے جو ذرا سے اِشارے پر نیچے آن پڑتے تھے۔ چام نے تیسرے دن چند مَریل مویشی پکڑ کر ہلاک کیے اور ان کی لاشیں درختوں سے لٹکا دیں۔ اب ہم بے صبری سے نتائج کا انتظار کرنے لگے۔
سب سے پہلے اندھا شیر گڑھے میں گرا اور گرتے ہی مر گیا۔ کئی سلاخیں اس کے گردن کے پار ہوگئی تھیں اس راستے پر کچھ دُور ہٹ کر ایک اور گڑھا بھی بنا ہوا تھا، لیکن اس میں کوئی درندہ نہیں گرا، جس گڑھے میں اندھا شیر گرا تھا، اس کے چاروں طرف نرم نرم مٹّی پر پنجوں کے تازہ نشانات بھی دکھائی دیے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ چاروں اِدھر سے گزر رہے تھے کہ یہ حادثہ پیش آیا، اپنے ساتھی کا یہ حشر دیکھ کر وہ یقیناً خبردار ہو گئے تھے، کیونکہ تین دن اور گزر گئے، دوسرا حادثہ نہ ہوا، دو مقامات پر کمانوں سے نیزے بھی نکل گئے تھے، لیکن آدم خوروں کو زخمی کرنے کے بجائے یہ نیزے سامنے کے درختوں میں پیوست تھے۔ غالباً چام نے فاصلے کا اندازہ غلط کیا تھا۔ جارج اِس صورتِ حال سے سخت نالاں تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ طریقے شکار کی رُوح کے خلاف ہیں۔ ہمیں کم از کم شیروں سے چوہوں اور گیدڑوں کا سُلوک نہیں کرنا چاہیے۔ یہ سُن کر مجھے بھی ندامت ہوئی اور مَیں نے چام سے کہہ دیا کہ درختوں سے شہتیر اتروائے اور گڑھوں کا مُنہ بند کر دے۔ ہم اپنی رائفلوں سے آدم خوروں کا مقابلہ کریں گے۔
اس روز دوپہر کے وقت ہم جنگل میں گھوم پھر کر ان جگہوں کا معائنہ کر رہے تھے جہاں ہم نے پھندے لگائے تھے کہ چام نے ہمیں ایک درخت کے پیچھے چُھپ جانے کا اشارہ کیا۔ ہم درخت کی آڑ میں کھڑے ہو گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ دو شیر اور ایک شیرنی آگے پیچھے چلتے ہوئے جھاڑیوں میں سے گزر رہے ہیں۔ وہ ہم سے تقریباً ڈیڑھ سو فٹ دُور تھے۔ مَیں جارج کی طرف مُڑا، وہ بے حس و حرکت کھڑا آدم خوروں کو دیکھ رہا تھا۔ مَیں نے اس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہوتے دیکھے۔ چام زمین پر اُکڑوں بیٹھا تھا۔ اس نے خنجر کمر سے نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیا۔ ہمارے دائیں ہاتھ "V’ کی شکل کا بارہ فٹ لمبا اور دس فٹ گہرا خونیں گڑھا تھا جس کی تہہ میں تیز اور نوکیلی سلاخیں گڑی ہوئی تھیں۔
آدم خور ہماری موجودگی سے بے خبر ہو کر اس گڑے کی طرف آ رہے تھے جوں جوں وہ نزدیک آتے گئے، میرے دل کی دھڑکن تیز ہوتی گئی۔ اَب وہ ہم سے صرف تیس فٹ کے فاصلے پر تھے۔ دونوں شیر بڑی جسامت کے اور نہایت طاقت ور تھے۔ شیرنی اگرچہ قد میں چھوٹی تھی، لیکن جسمانی قوّت میں بھی وہ بھی شیروں کا مقابلہ کر رہی تھی۔ جارج نے یک لخت رائفل اٹھائی اور نشانہ لینے کے لیے تھوڑا سا پیچھے ہٹا اور کسی شاخ میں الجھ کر اس طرح گِرا کہ رائفل چل گئی۔ دھماکا ہوتے ہی آدم خور گرجے اور انہوں نے ہماری طرف دیکھا۔ مجھ پر اتنی دہشت طاری ہوئی کہ کوشش کے باوجود میں فائر نہ کر سکا۔ چشم زدن میں وہ تینوں چھلانگیں لگاتے ہوئے ہمارے سروں پر آ گئے۔ چام نے چیتے کی مانند جست کی اور اگلے شیر سے گتّھم گتّھا ہو گیا۔ مَیں نے دیکھا کہ اس نے شیر کی گردن پر خنجر سے وار کیا ۔ شیر زخمی ہو کر گرجتا ہوا ایک طرف بھاگا اور گڑھے میں گِر گیا۔ اس نے چام کو بھی زخمی کر دیا تھا، لیکن ہزاروں داؤ پیچ جاننے والا ایک بازو کا یہ نڈر آدمی ذرا نہ گھبرایا۔ اس نے آگے بڑھ کر اپنا خون آلود خنجر دوسرے شیر کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ جارج اَب سنبھل چُکا تھا۔ اس نے میرے ہاتھ سے رائفل چھینی اور دُور کھڑی ہوئی شیرنی کو نشانہ بنایا۔ دو گولیوں میں شیرنی ڈھیر ہوگئی۔ تیسرا شیر ابھی تک چام سے لپٹا ہوا تھا اور دونوں میں خونریز جنگ ہو رہی تھی۔ چام کا جسم لہولہان ہو چکا تھا، لیکن اس نے ہمّت نہ ہاری۔ جارج کو رائفل سے نشانہ لیتے دیکھ کر وہ چیخا: "صاحب! فائر نہ کرنا، مجھے اس لڑائی میں مزا آ رہا ہے۔’
کاش! جارج اس کی بات نہ مانتا اور شیر کو گولی مار کر ختم کر دیتا، کیونکہ اگلے ہی ثانیے وہ دونوں لڑھک کر گڑھے میں جا گرے۔ چند لمحوں تک شیر کی چیخوں سے جنگل لرزتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد ہم دونوں بھائیوں نے گڑھے میں جھانک کر دیکھا، بہادر چام آدم خور کی لاشوں میں دبا ہوا تھا۔ اور ایک سلاخ اس کی کمر کو چھیدتی ہوئی پیٹ سے نِکل آئی تھی۔ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور چہرہ خون میں لت پت تھا لیکن نے اپنا خنجر ابھی تک مضبوطی سے پکڑ رکّھا تھا۔

Popular Posts