جمعرات، 18 جولائی، 2019

سدا رام اور شیر
مقبول جہانگیر
جب پہلے پہل میں نے اُسے دیکھا، تو وہ بہت کم عُمر تھا۔ غالباً ایک سال کا۔ چھوٹے سے ٹیریر کُتّے کی مانند اِدھر سے اُدھر دوڑ رہا تھا،لیکن تھا بہت پیارا اور خوبصورت۔ پہلی نظر ہی میں مجھے اس سے محبت ہوگئی۔ شاید اس لیے کہ اس میں شیروں والی کوئی بات نہ تھی۔ کم سِنی کے باعث وہ بے حد شریر اور چُلبلا تھا اور اُس کی یہی ادائیں مجھے بھا گئیں۔
اُن دنوں مَیں کالا گڑھ فارسٹ ڈویژن میں جو بھابر ترائی کے وسیع و عریض علاقے پر مشتمل ہے، ایک ایسے مُوذی شیر کے تعاقب میں پھر رہا تھا جسے مویشیوں کو اٹھا لے جانے کی بُری عادت پڑی ہوئی تھی۔ اس شیر کی ان غیر شریفانہ حرکتوں کے باعث گرد و نواح کے باشندے سخت نالاں اور ہراساں تھے اور اُن کی ہر ممکن کوشش اور تدبیر اِس بدمعاش شیر کو پھانسنے کے سلسلے میں بے اثر اور بے سُود ثابت ہو رہی تھی۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ یہ شیر نہایت چالاک اور مکّار تھا۔ کامل تین برس وہ مجھے جھکائیاں اور اڑن گھاٹیاں دیتا رہا اور کسی طرح ہاتھ نہ آیا۔ میں بھی اپنا چَین اور آرام حرام کر کے اُس کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔ مگر وہ ہر مرتبہ جُل دے کر نِکل جاتا اور مَیں ہاتھ ملتا رہ جاتا۔ تاہم اِس تگ و دو اور آنکھ مچولی کو یہ فائدہ ضرور پہنچا کہ مَیں جنگل کی زندگی کے بعض ایسے گوشوں اور جانوروں کی فطرت کے ایسے رُخوں سے آگاہ ہو گیا جو پہلے میرے علم میں نہ تھے۔ اِس اعتبار سے مویشی اٹھا لے جانے والا یہ شیر میرے شکریے کا خاص طور پر مستحق ہے۔ سرما اور گرما کی کِتنی راتیں مَیں نے درختوں اور مچانوں پر اِس مُوذی کے انتظار میں کاٹیں، ان کا کوئی شمار نہیں، لیکن قدرت کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ یہ شیر بالکل اتفاقیہ طور پر کسی اور شکاری کی گولی کا نشانہ بن گیا۔ یہ شکاری دراصل سانبھر کی تلاش میں نکلا تھا اور اس نے شیر کو سانبھر سمجھ کر فائر کیا اور یُوں اس کا قِصّہ پاک ہوا۔
بہرحال اس کم سِن شیر کی داستان بیان کرتا ہوں جو میرا محبوب تھا، لیکن میرے ہی ہاتھوں مارا گیا۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا، اُسے پہلے پہل اس وقت دیکھا تھا جب یہ ایک سال کا تھا۔ مَیں پکھرو ندی کے کنارے ایک محفوظ مقام بیٹھا تھا اور انتظار کر رہا تھا اُسی شیر کا جو کسی اور شکاری کے ہاتھوں سانبھر کے دھوکے میں مارا گیا۔ پکھرو ندی کچھ پڑی نہ تھی اور اس طرح کے بے شمار نالے ندّیاں کماؤں ہلز کے جنوبی حِصّے میں پھیلی ہوئی تھیں۔۔۔ ہمالیہ کی ترائی کے یہ جنگل جن کی شہرت اپنے جانوروں کے باعث دنیا بھر میں ہے، بلاشبہہ شکاریوں کی جنت ہیں۔ ڈیرھ ہزار میل لمبے یہ جنگل آسام، برما اور نیپال تک پھیلے ہوئے ہیں جن میں بے شمار وادیاں، پہاڑ، میدان اور دریا نظر آتے ہیں۔ گھنے جنگلوں کے اس لامتناہی سلسلے میں اَن گنت واقعات اور حادثات دفن ہیں۔ دوسری طرف ان کی سرحدیں کشمیر تک پہنچتی ہیں۔ اِس طرح ان کی کُل لمبائی ساڑھے تین ہزار میل سے بھی زائد ہے۔ ان کا مشرقی حِصّہ خصوصاً بے حد گھنا اور دشوار گزار ہے۔
میں اپنی کمیں گاہ میں چھپا ہوا شام کے اس حسین اور دل فریب منظر سے لُطف اندوز ہو رہا تھا، لیکن ساتھ ساتھ اس شیر کا انتظار بھی کر رہا تھا جس کے بارے میں شبہہ تھا کہ ادھر سے ضرور گزرے گا۔ پکھرو ندی جنوب کی طرف بل کھاتی ہوئی اور سینکڑوں پیچ و خم کاٹتی شمال کی طرف پھیلے ہوئے عظیم پہاڑوں کے دامن میں گم ہو جاتی تھی۔ ڈوبتے سورج کی سنہری رقص کرتی ہوئی کرنوں میں تھوڑا سا پانی چاندی کے چمکتے ہوئے تار کی مانند نظر آتا تھا اور سورج۔۔۔ دور مغرب میں ایک پُرشکوہ پہاڑ کی چوٹی کے عین اُوپر چمک رہا تھا، لیکن لمحہ بہ لمحہ اس کا چہرہ سُرخی مائل ہوتا جاتا تھا۔
میرے چاروں طرف گہرا اور پُرہیبت سکوت طاری تھا۔ جنگل کی فضا سُورج غروب ہونے کا منتظر ہوتی ہے اور جونہی سورج آخری سلام کر کے مغرب کے دامن میں منہ چھپا لیتا ہے، یک لخت فضا پرندوں اور چرندوں کی مِلی جُلی بولیوں سے کانپ اٹھتی ہے اور پھر جنگل کی زندگی بیدار ہونے لگتی ہے۔
سورج چُھپنے میں ابھی کچھ دیر تھی، لیکن شمال کی جانب سے آنے والی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے دَم بہ دَم تیز ہوتے جا رہے تھے۔ مَیں نے اپنے بدن پر کمبل اچھی طرح لپیٹ لیا اور رات کا سامنا کرنے کی تیاری کرنے لگا۔ اعشاریہ 470 کی دو نالی رائفل میرے سامنے پڑی تھی جسے میں پلک جھپکتے ہی اٹھا کر نشانہ لے سکتا تھا۔ پانی سے بھری ہوئی بوتل اپنے اور قریب رکھ کر میں نے اپنے اِس "گھونسلے’ کو مزید محفوظ بنانے کے لیے چند شاخیں نئی ترتیب سے چنیں اور ابھی کارتوسوں کی پیٹی کو ہاتھ لگایا ہی تھا کہ ندی کے پار ملگجے اندھیرے میں یک لخت ہاتھیوں کی چنگھاڑ سنائی دی۔
میرا جسم جیسے پتّھر کا ہو گیا اور میں غور سے ندی کے پار تکنے لگا۔ ہاتھیوں کا ایک غول مجھ سے تقریباً ایک سو بیس فٹ دور ندی عبور کر رہا تھا، مگر خدا کا شکر کہ انہوں نے اِدھر کا رُخ نہ کیا، جدھر مَیں بیٹھا تھا اور چونکہ ہوا اُن کی طرف سے میری جانب چل رہی تھی، اس لیے اُن کے جسموں سے اٹھتی ہوئی بو میرے نتھنوں تک آسانی سے پہنچ رہی تھی۔ ہاتھوں کی بصارت اگرچہ زیادہ تیز نہیں ہوتی۔ تاہم سونگھنے کی حس بڑی قوی ہے اور کچھ عجیب نہ تھا کہ اگر ہوا کا رُخ ان کی طرف ہوتا، تو وہ ضرور طیش میں آ کر ادھر ہی آ جاتے۔
ایک ایک کر کے تمام ہاتھی اس پار آ گئے اور لمبی گھاس میں ایک دوسرے کے قریب قریب کھڑے ہو کر سونڈیں ہلانے لگے۔ میں نہایت دلچسپی اور دِل جمعی سے اُن کی یہ حرکتیں دیکھتا رہا۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ ہاتھیوں پر کیا آفت ٹوٹی کہ انہوں نے ندّی پار کی اور اس کنارے پر آ کر رُک گئے۔ پھر مَیں نے دیکھا کہ وہ آپس میں کھیل رہے ہیں۔ اُن کا کھیل کیا تھا، یہی کہ وہ اپنی سونڈ میں ندّی کا پانی اور کیچڑ بھرتے اور ایک دوسرے پر اُچھالتے۔ دیر تک وہ اِسی طرح شرارتیں کرتے رہے اور میں اِس تماشے میں ایسا محو ہوا کہ اپنے تن بدن کا ہوش بھی نہ رہا۔ معاً یوں محسوس ہوا جیسے میری ران میں کسی کیڑے نے کاٹا ہے یا سوئی سی چُبھی ہے۔ اس وقت میں مہاتما بُدھ کی طرح گویا آسن جمائے اس انداز میں بیٹھا تھا کہ ذرا حرکت کرتا تو جسم سے لپٹا ہوا کمبل کُھل جاتا، چنانچہ مَیں نے کوئی حرکت کیے بغیر آنکھیں جھکا کر اپنی ران کی طرف دیکھا اور پھر رُوح کھینچ کر حلق میں آ گئی۔ سیاہ رنگ کا ایک ناگ بالکل میرے آگے پڑے ہوئے کمبل کے ایک حِصّے پر بیٹھا پھن پھیلائے مستی میں جُھوم رہا تھا۔ اس کی زبان بار بار باہر نکلتی اور سُرخ سُرخ آنکھوں سے چنگاریاں برستی نظر آتی تھیں۔ اِس کوبرے کو اپنے اتنے قریب پا کر میری جو حالت ہوئی، وہ بیان سے باہر ہے۔ جسم اور دماغ کی ساری قوت بے کار ہو گئی اور سوائے اس کے کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ قضا آن پہنچی۔
مَیں جنگلی سانپوں کے بارے میں بہت کچھ جانتا تھا اور طرح طرح کے قِصّے کہانیاں بھی سُںی تھیں جب لوگ سانپ کی دہشت کا ذکر کر کے خوف زدہ ہوا کرتے تھے، تو میں اُن کی بزدلی پر ہنسا کرتا تھا، مگر اب احساس ہوا کہ سانپ کی دہشت کیا ہوتی ہے۔ بہرحال اتنا ضرور تھا کہ اگر بے حس و حرکت بیٹھا رہوں، تو شاید جان بچ جائے اور سچ پوچھیے تو خون ہی خشک ہو چکا تھا۔ جسم میں حرکت کرنے کی قوت ہی باقی نہ رہی تھی۔ میں پتّھر کے بے جان بت کی مانند اُسی طرح بیٹھا رہا۔
ایک ایک لمحہ۔۔۔ ایک ایک ثانیہ، صدیاں بن کر مجھ پر گزر رہا تھا۔ میرا جسم بالکل سُن ہو چکا تھا، کوبرا اُسی طرح میرے قریب بیٹھا جُھومتا رہا۔ اس کی لمبائی دس فٹ کے لگ بھگ تھی۔ یکایک وہ اور آگے بڑھا، اب میری ٹانگوں پر اُس کا پورا بوجھ پڑ رہا تھا۔ یہ بوجھ میرے لیے ناقابل برداشت تھا۔ کہہ نہیں سکتا کہ میں نے اپنی چیخ کس طرح روکی۔ غالباً قدرت کو ابھی میری زندگی منظور تھی۔ میں نے درد کی شدّت سے آنکھیں مُوند لیں۔ سانپ جا چکا تھا، لیکن میرا چہرہ پسینے سے تر تھا اور نہ صرف چہرہ بلکہ پورا جسم اور کپڑے بھی پسینے میں بھیگ چکے تھے۔ میں موت کی سرحدوں کو چُھو کر ایک بار پھر زندگی کی طرف لوٹ آیا تھا۔
ندّی کے مغربی کنارے پر کچھ دُور بانس کے درختوں کا ایک گھنا جُھنڈ شمال کی جانب میلوں تک پھیلا ہوا تھا۔ ہاتھی اس جُھنڈ میں چلے گئے تھے اور اب بانس کے نرم نرم پودے چبا کر اپنی بھوک مٹا رہے تھے۔ گاہ گاہ درختوں کے ٹوٹنے اور انہیں روندے جانے کی آوازیں بھی سنائی دیتی تھیں۔ بانس کے جنگلوں اور گنّوں کے کھیتوں کو اجاڑنا ہاتھیوں کا من پسند شغل ہے اور ایک بار وہ اس مشغلے میں لگ جائیں، تو پھر جنگل کی خیر نہیں۔۔۔ میں شیر کی طرف سے اب مایوس ہو چکا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جنگل کے جس حصّے میں ہاتھی داخل ہو جائیں، وہاں اوّل تو شیر موجود ہی نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی تو راستہ چھوڑ کر کسی اور حصے میں چلا جاتا ہے۔ بعض اوقات ہاتھی جنگل کے بادشاہ کا احترام کرتے ہوئے خود ہی اُس طرف نہیں جاتے جدھر وہ آرام کر رہا ہو۔
ہاتھی اور شیر کی جنگ جنگل کی زندگی میں کبھی کبھار ہی دیکھنے میں آتی ہے، ورنہ دونوں جانور ایک دوسرے کا سامنا کرتے ہوئے کتراتے ہیں اور بہت کم ایسے خوش نصیب لوگ ہیں جو اپنی آنکھوں سے ان کو لڑتے دیکھیں۔ دھول کنڈ کے کسی شیر کا قصّہ میں نے سنا تھا کہ اس نے ایک کم سن کو ہاتھی ہلاک کر دیا تھا۔ اس ہاتھی کا مرنا تھا کہ جیسے حشر برپا ہو گیا۔ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ ہاتھیوں میں اتنا اشتعال پھیلا کہ خدا کی پناہ، پہلے تو انہوں نے جنگل کا وہ حصّہ برباد کیا جہاں یہ واردات ہوئی تھی، پھر اُس شیر کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے جس کے تیز پنجوں اور نکیلے دانتوں نے ہتھنی کے بچّے کی کھال اُدھیڑ دی تھی۔ شیر اس صُورتِ حال سے سخت پریشان ہوا اور دھول کنڈ سے نکل کر مورگتی جنگل میں پناہ لی۔ مگر غیظ و غضب میں بھرے ہوئے ہاتھی وہاں بھی پہنچ گئے۔ اب شیر کے لیے مقابلہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا، لیکن بے سُود۔ ہاتھیوں کے سامنے اس کی کوئی پیش نہ گئی اور دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ انہوں نے شیر کے ٹکڑے اڑا دیے تھے۔
اِس قِصّے کے علاوہ ایک ہاتھی اور دو شیروں کی لڑائی کا ایک اور ناقابلِ فراموش واقعہ میرے علم میں ہے۔ یہ واقعہ اُس زمانے میں بہت مشہور ہوا تھا اور ہندوستان کے اکثر اخباروں نے اس کی تفصیلات بھی شائع کی تھیں۔ بعد ازاں شہرہ آفاق شکاری جم کار بٹ نے بھی اپنی کتاب (JUNGLE LORE) میں اس کا ذکر کیا۔ یہ لڑائی ترائی بھابر کے علاقے میں ایک جگہ تانک پُورہ کے مقام پر ہوئی تھی جس میں شیروں نے ہاتھی کو مار ڈالا تھا۔ تانک پُورہ کے دو مچھیروں نے اپنی آنکھوں سے یہ جنگ شروع سے آخر تک دیکھی جب کہ وہ شام کے وقت مچھلیاں پکڑ کر گاؤں واپس آ رہے تھے۔
ایک نالے کے قریب سے گزرے ہوئے ان مچھیروں نے پرلی طرف لمبی لمبی گھاس میں دو شیروں کو کھڑے دیکھا۔ مچھیروں کی سِٹّی گم ہو گئی اور وہ جلدی سے جھاڑیوں میں چُھپ گئے۔ حالانکہ ان کا اور شیروں کا درمیانی فاصلہ ایک سو بیس فٹ سے بھی زائد تھا۔ مچھیروں کا ارادہ تھا کہ جب شیر یہاں سے چلے جائیں گے، تو وہ جھاڑیوں سے باہر نکلیں گے ۔ چند لمحے بعد انہوں نے دیکھا کہ نالے کے اِس کنارے سے جدھر یہ مچھیرے چُھپے ہوئے تھے، ایک قوی ہیکل ہاتھی جُھومتا ہوا برآمد ہوا۔ اس کے بیرونی دانت خاصے بڑے تھے۔ مچھیروں نے اس ہاتھی کو اپنے قریب پایا، تو تھرتھر کانپنے لگے کیونکہ وہ اسے بخوبی پہچانتے تھے اور یہ ہاتھی اپنی بددماغی اور مستی کے باعث اُس وقت تک کئی افراد کو ہلاک کر چکا تھا۔ وہ اپنے علاقے میں کسی دوسری ذی رُوح کو قدم رکھنے کی اجازت نہ دیتا اور اگر کوئی ایسا کرتا تو اس کی سزا موت تھی۔ اس ہاتھی نے ابھی چند روز پہلے طیش میں آ کر ایک فارسٹ بنگلا بھی توڑ پھوڑا ڈالا تھا۔
مست ہاتھی نے جب نالے کے پرے کنارے پر شیروں کو سینہ تانے کھڑے دیکھا تو جوش میں آ کر سونڈ اٹھائی اور بُری طرح چنگھاڑا۔۔۔ گویا توپ کی آواز تھی جس سے جنگل کی زمین اور فضا کانپ اٹھی۔ ہاتھی کا خیال تھا کہ شیر اُس کی ایک ہی للکار سن کر راہ فرار اختیار کریں گے، مگر ایسا نہ ہوا۔ جواب میں دونوں شیر بھی باری باری غرّائے اور گرجے اور ان کی آنکھیں شعلے برسانے لگیں۔ یہ دیکھ کر ہاتھی کے غیظ و غضب کی انتہا نہ رہی وہ اپنی ہولناک چنگھاڑ سے آسمان پر اٹھاتا ہوا، شیروں کی طرف بڑھا اور اُدھر شیر بھی پیچھے ہٹنے کے بجائے ہاتھی کی طرف لپکے۔ پہلے شیر نے جست کی اور ہاتھی کی پشت پر چڑھ گیا اور اپنے پنجے اس کے بدن میں گاڑ دیے۔ ہاتھی نے پشت پر جمے ہوئے شیر کو سونڈ میں پکڑنا چاہا، مگر پہلے شیر نے دوبارہ اس کی سونڈ پر حملہ کیا۔ ہاتھی لٹّو کی مانند چکّر کھانے لگا۔ اس کی لرزہ خیز چنگھاڑ اور شیروں کی ہیبت ناک گرج سے زمین لرز رہی تھی۔ درختوں پر بیسرا کرنے والے پرندے گھبرا گھبرا کر اپنے اپنے آشیانوں سے نکلے اور آسمان پر پرواز کرنے لگے۔ مچھیروں نے دیکھا کہ بھاگنے کا موقع اچھا ہے، تو جھاڑیوں سے چھپتے چھپاتے نکلے اور اندھا دھند تانک پورہ کی طرف دوڑے لیکن تانک پورہ میں شیروں کے گرجنے اور ہاتھی کے چنگھاڑنے کی آوازیں مچھیروں سے پہلے پہنچ چکی تھیں اور چونکہ یہ بستی خاصی بلندی پر تھی اور وہاں سے جنگل کا منظر بخوبی نظر آتا تھا، اس لیے سبھی لوگ ایک جگہ جمع ہو کر اس جنگ کو دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس اثنا میں مچھیرے بھی ہانپتے کانپتے وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ دو شیروں نے مَست ہاتھی پر حملہ کر دیا ہے اور لڑائی زور شور سے ہو رہی ہے۔
تانک پورہ کوئی چھوٹا گاؤں نہ تھا، بلکہ خاصا بڑا قصبہ تھا جس کی آبادی کئی ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ یہاں پولیس کی چوکی بھی قائم تھی اور ایک ریٹائرڈ انگریز افسر مسٹر ماتھسن بھی رہتا تھا جس کا بنگلا اس مقام سے قریب ہی تھا جہاں لڑائی ہو رہی تھی۔
یکایک ان لوگوں کو محسوس ہوا کہ ہاتھی اور شیروں کی مِلی جُلی آوازیں لمحہ بہ لمحہ نزدیک آتی جا رہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ لڑتے لڑتے تانک پورہ تک آن پہنچے ہیں۔ اب کیا تھا، پُوری بستی میں بھگدڑ مچ گئی اور ہر شخص اپنے گھر میں پناہ لینے کے لیے دوڑا۔ سُورج غروب ہو چکا تھا اور رات کی تاریکی سرعت سے پھیلتی جا رہی تھی۔ لوگوں نے مشعلیں روشن کر دیں اور پولیس کو مدد کے لیے بلایا۔ پولیس نے ان درندوں کو تانک پورہ سے بھگانے کے لیے ہوائی فائر کیے، لیکن بے سود کئی گھنٹے گزر گئے۔ چیخیں اٹھتی رہیں اور جنگل اُسی طرح لرزتا رہا۔ مسٹر ماتھسن کا بیان ہے کہ لڑائی ساری رات ہوتی رہی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فریقین میں سے کوئی بھی ہار ماننے کے لیے تیار نہیں۔ سورج کی پہلی کرن نمودار ہوتے ہی گاؤں والے دھڑکتے دلوں کے ساتھ بلند پہاڑی پر جمع ہوئے۔ اب انہیں صرف شیروں کے گرجنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ پھر انہوں نے کئی سو فٹ نیچے دور ایک پہاڑی کے دامن میں عظیم الجثّہ ہاتھی کو پڑے ہوئے دیکھا۔ وہ غالباً مر چکا اور دونوں شیر، جو خود بھی خون میں لت پت تھے اور بری طرح نڈھال، قریب ہی جھاڑیوں میں بیٹھے فاتحانہ انداز میں گرج رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد شیروں نے نگاہیں اٹھا کر پہاڑی پر کھڑے لوگوں کو دیکھا اور پھر اپنے اپنے راستے پر لنگڑاتے ہوئے چلے گئے۔
بعد ازاں ایک ریونیو آفیسر نے ہاتھی کی لاش کا معائنہ کیا۔ اس کا بیان ہے:
"شیروں نے ہاتھی کو اس بُری طرح نوچا اور چیرا پھاڑا کہ دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ وہ خون کے جمے ہوئے تالاب میں پڑا تھا۔ اس کی سونڈ جسم سے الگ ہو چکی تھی دونوں کان چرے ہوئے اور اُدھڑے ہوئے تھے۔ پیٹ سے انتڑیاں اور غلاظت نکل کر چاروں طرف بکھر گئی تھی۔ شیروں نے اُس کی دونوں آنکھیں بھی نکال ڈالی تھیں۔’
شیروں کا بعد میں کوئی سراغ نہ مل سکا۔ نامعلوم مر گئے یا زندہ بچے، تاہم انہوں نے اس مَست ہاتھی سے تانک پورہ کو نجات دلا دی۔ یہ دراصل نر و مادہ کا جوڑا تھا اور چونکہ یہ اُن کے ملاپ کا موسم تھا جس میں ہاتھی نے مداخلت کی تھی، اس لیے وہ اسے سزا دینے پر تُل گئے۔ ویسے بھی اس قوی ہیکل ہاتھی کو ہلاک کرنا اکیلے شیر کے بس کی بات نہ تھی۔ اس کے بیرونی دانتوں کا وزن ہی نوّے پونڈ سے زائد تھا۔ اس سے اس کی جسامت کا اندازہ کر لیجیے۔
اس لمبی تمہید کے بعد میں اپنی داستان کی طرف آتا ہوں۔ میں کہہ رہا تھا کہ بانس کے جنگل میں ہاتھیوں کی ڈار کے گھسنے سے مجھ پر مایوسی کی حالت طاری ہو گئی۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ میں جس شیر کی تلاش میں ہوں، وہ اس جگہ موجود نہیں۔ میں نے کمین گاہ سے نکل کر اپنے کیمپ تک جانے اور آرام سے سونے کا ارادہ کر لیا اور اس مقصد کے لیے اپنا سامان جمع کرنے لگا۔ ابھی تک میرے کانوں میں درختوں کے ٹوٹنے اور پَودوں کو روندنے کی مدّھم آوازیں آ رہی تھیں۔۔۔ مگر۔۔۔ یک لخت یہ آوازیں یوں تھم گئیں جیسے کبھی گونجی ہی نہ تھیں۔ جنگل کی فضا پر ایک عجیب اور پُراسرار سکوت طاری ہو گیا۔ نہ کوئی پرندہ بولتا تھا اور نہ کسی چرندے کے حرکت کرنے کی آواز آتی تھی۔
یہ سکوت جو آنے والے کسی خطرے کی صریحاً نشان دہی کرتا تھا، چند منٹ ہی رہا اور پھر میں نے سنا کہ ہاتھی اپنی سونڈیں چابک کی مانند لپیٹ لپیٹ کر زمین پر مار رہے ہیں۔ اس طرح اُن کے سانس کے ساتھ جو آواز نکلتی تھی وہ اس بات کا ثبوت تھی کہ انہوں نے اپنے آس پاس شیر کی موجودگی محسوس کر لی ہے۔ میں پوری طرح ہوشیار اور چوکنّا ہو گیا۔ میرا اندازہ غلط تھا، فوراً ہی شیر کی طویل غرّاہٹ بلند ہوئی جس سے فضا تھرّا اٹھی۔ آواز نر کی تھی اور پوری قوت سے نکل رہی تھی لیکن مجھے اندازہ نہ ہو سکا کہ آ کدھر سے رہی ہے اور شیر حقیقت میں ہے کس طرف۔۔۔ جنگل میں اس قسم کی آوازیں شکاری کو اکثر دھوکا دیتی ہیں اور بعض اوقات اناڑی یا مبتدی قسم کے شکاری ان کے فریب میں مبتلا ہو کر بے خبری میں درندے کا کھاجا بن جاتے ہیں۔ آواز کی صحیح سمت کا سراغ لگانا خاصا مشکل فن ہے جو اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک شکاری اپنی زندگی کا خاصا بڑا حصّہ جنگلوں میں بسر نہ کرے۔ ایک عام شخص شیر یا چیتے کی قریب سے آتی ہوئی آواز سن کر دہشت کے مارے پیلا پڑ جاتا ہے۔ اُسے بالکل یوں محسوس ہوتا ہے جیسے درندہ چند گز کے فاصلے پر جھاڑیوں میں چُھپا بیٹھا ہے، لیکن حقیقت میں وہ وہاں سے کئی فرلانگ یا میل بھر دُور ہوتا ہے۔ اسی طرح مشرق کی جانب سے سنائی دینے والی آواز حقیقت میں مغرب سے آتی ہے۔ بات یہ ہے کہ قدرت نے جس طرح انسان کو اپنی جان کی حفاظت کے گر سکھائے ہیں، اعلیٰ ذہنی و جسمانی صلاحیتیں ودیعت کی ہیں، اسی طرح اس نے جانوروں کی حفاظت کے لیے بھی کچھ عجیب داؤ پیچ اور نرالے طور طریقے وضع کر دیے ہیں۔ درندوں کا پیٹ چونکہ جنگل کے دوسرے جانوروں کے لہو اور گوشت ہی سے بھرتا ہے اور وہ گھاس پات کھا نہیں سکتے، اس لیے ان کی غذا کا انتظام بھی قدرت نے اپنے ذمّے لے رکھا ہے اور شکار پانے میں سب سے بڑی مدد درندے کو اپنی آواز ہی سے ملتی ہے۔ مثال کے طور ایک سانبھر یا کالا ہرن شیر کی آواز سنتے ہی چوکڑیاں بھرتا ہوا جنگل کے اس حصّے کی طرف جاتا ہے جسے وہ اپنے لیے محفوظ سمجھتا ہے۔ سانبھر نے شیر کی آواز سے یہ اندازہ کیا ہے کہ وہ مشرق کی طرف ہے، لیکن آواز اُسے دھوکا دیتی ہے اور ٹھیک اس جگہ جا نکلتا ہے جہاں شیر اُس کی آمد کا منتظر ہے۔
بہرحال شیر دوبارہ گرجا اور اب اس کی آواز اس علاقے کی سب سے اونچی پہاڑی سے ٹکرا کر واپس آئی اور یوں سنائی دیا جیسے چاروں طرف شیر ہی شیر گرج رہے ہیں۔ چار پانچ منٹ تک وہ مسلسل بولتا رہا اور میں ہر بار آواز صحیح سمت معلوم کرنے کی کوشش کرتا آخر اتنا اندازہ ہوا کہ وہ شمال مشرق میں ہے اور یہ اندازہ کرتے ہی میری انگلیاں رائفل پر سختی سے جم گئیں۔۔۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ شیر ندّی کو عبور کرنے کے ارادے سے اسی طرف چلا آرہا ہے جہاں میں اُس کے انتظار میں چھپا بیٹھا تھا۔
ہاتھیوں کی لگاتار چنگھاڑ سن کر شیر نے اپنا رخ بدل لیا تھا اور اور اب اُس کا میری طرف آنا ممکن نہ تھا۔ میں دل ہی دل میں ہاتھیوں کو کوسنے لگا کہ ان کی وجہ سے یہ رات بھر اکارت گئی اور اتنی محنت خواہ مخواہ ضائع ہوئی۔ اب میں اس انتظار میں تھا کہ ہاتھی جنگل میں ذرا اور دور چلے جائیں تو میں یہاں سے نکلوں اور کیمپ میں جاکر آرام کروں، کیونکہ طبیعت سخت بدمزہ ہو چکی تھی، لیکن یہ آرزو بھی پُوری نہ ہوئی۔ ہاتھیوں نے گویا طے کر لیا تھا کہ وہ اپنی جگہ سے نہ ہلیں گے اور اس کی معقول وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ وہ ابھی تک اپنے آس پاس شیر کی بُو پا رہے تھے۔
رات کے آٹھ بج گئے اور معاملہ جُوں کا تُوں تھا۔ مشرقی پہاڑی کے عقب سے چاند اپنی تمام رعنائیوں کو جلو میں لیے جلوہ گر ہوا اور آہستہ آہستہ اوپر اٹھنے لگا۔ قریب ہی کسی درخت سے کوئی پرندہ خوشی سے چہچہایا۔۔۔ ٹوک۔۔۔ ٹوک۔۔۔ٹوک۔۔۔ٹوک۔۔۔ اس کے ساتھی ہی دفعتہً ایک سانبھر چلّا اٹھا: دھانک۔۔۔دھانک۔۔۔دھانک۔۔۔ سانبھر کی آواز خطرے کا الارم بن کر جنگل میں گونج رہی تھی۔ وہ دیر تک اسی طرح چیختا اور جنگل کے دوسرے باسیوں کو بتاتا رہا کہ خطرہ سر پر آن پہنچا، اپنی اپنی حفاظت کے لیے کمربستہ ہو جاؤ۔ چند لمحوں کے لیے سانبھر چُپ ہوا، تو شمال مشرق سے خوفزدہ چیتل پکار اٹھے: تاؤں۔۔۔ تاؤں۔۔۔ تاؤں۔۔۔ ان کے ساتھ ہی کوئی اور جانور اپنی بھاری، لیکن بھرّائی ہوئی آواز میں تال دے رہا تھا: ہا۔۔۔ ہا۔۔۔ہا۔۔۔ہاہاہا۔ پھر سُؤر بھی بول اٹھے اور مَیں نے ان میں سے ایک کو بے تحاشا ندی کی طرف بھاگتے دیکھا۔ سؤر جس انداز میں بھاگا تھا، وہ انداز مجھے خبردار کر دینے کے لیے کافی تھا۔ یقیناً شیر اسی حِصّے میں آن پہنچا ہے۔ چاند کی تیز روشنی میں مجھے ندّی اور اُس کا نواحی علاقہ بخوبی نظر آرہا تھا اور میں اچھی طرح دیکھ سکتا تھا کہ جنگلی سؤر ندی کے عین بیچ میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ پھر چند اور سؤر چیختے چلّاتے جھاڑیوں میں سے برآمد ہوئے اور اپنے پیش رَو کی تقلید میں ندی کی طرف لپکے اور جلد جلد گدلے پانی میں اُتر گئے، بقیہ اُس طرف بھاگے جدھر چار فٹ اونچی گھاس اُگی ہوئی تھی۔
مجھ سے تیس فٹ کے فاصلے پر ایک بڑے سے سیاہ رنگ کے چٹانی پتّھر کی ایک محفوظ آڑ میں بھینس کا وہ بچھڑا بیٹھا اطمینان سے جُگالی کر رہا تھا جِسے میں نے شیر کو پھانسنے کے لیے باندھا تھا۔ جنگلی سؤر عام حالات میں اُسے دیکھ پاتے، یا اُس کی بو پا لیتے، تو کبھی جِیتا نہ چھوڑتے، مگر اس نازک وقت میں انہوں نے بچھڑے کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور اپنی جان بچانے کی فکر کرتے رہے۔ ندّی کے بیچوں بیچ پناہ لینا اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا تھا کہ سؤروں نے کسی دو ٹانگوں والے درندے کی اپنا تعاقب کرتے دیکھ لیا ہے اور یہ ٹانگوں والا دردندہ شیر کے سوا کون ہو سکتا ہے۔ سُؤروں کی ہوشیاری دیکھیے کہ انہوں نے پناہ لینے کے لیے وہ جگہ منتخب کی جہاں پانی تھا اور پھر چاند کی روشنی اچھی طرح ندّی پر پڑ رہی تھی۔ انہوں نے سوچا ہوگا کہ شیر جنگل کے اندھیرے سے نکل کر روشنی میں آنے کی جرأت نہ کرے گا اور اگر روشنی میں آ جائے، تو ندّی کے اُترنے کو اُس کا جی نہ چاہے گا۔
یکایک شیر پھر بولا اور اس مرتبہ چیتل ہرنوں کا ایک چھوٹا سا گروہ میرے دائیں جانب سے برآمد ہوا اور قلانچیں بھرتا ہوا دوسری جانب گھنی گھاس میں غائب ہو گیا۔ یہ چیتل اِس برق رفتاری سے دوڑے کہ میں حیران رہ گیا۔ اب جنگل کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اُدھم مچ گیا کہ بادشاہ سلامت اپنا پیٹ بھرنے کے لیے آن پہنچے اور رعایا کے کسی نہ کسی کمزور فرد کا خون چوس کر ہی ٹلیں گے۔
مَیں اپنی جگہ پوری ہوشیاری اور ذہنی بیداری کے ساتھ بیٹھا شیر کی ایک جھلک دیکھنے کا منتظر تھا، مگر شاباش ہے اس درندرے کے استقلال اور صبر و استقامات کو کہ بُھوکا ہونے کے باوجود اور اردگرد شکار کی کثرت دیکھنے کے بعد بھی اُس نے احتیاط کا دامن چھوڑنا پسند نہ کیا۔ وہ پُھونک پُھونک کر قدم بڑھا رہا تھا۔ اب میں نے اپنی پشت پر ایک عجیب سی سرسراہٹ سُنی۔ مڑ کر دیکھنے کا موقع نہ تھا ضرورت، کیونکہ میری ذرا سی بے احتیاطی اور غیر ضروری جنبش شیر کو خبردار کر دینے کے لیے کافی تھی۔ غالباً کوئی چھوٹا جانور تھا۔ تاہم میں نے گردن موڑ کر دیکھا، ابتدا میں کچھ نظر نہ آیا، لیکن اس کے حرکت کرنے کی آواز کانوں میں برابر آرہی تھی، پھر وہ اُچھل کر میرے سامنے کسی قدر دائیں جانب آگیا، مگر پلک جھپکتے ہی فوراً گھاس میں جا چھپا۔ مَیں اس کی جسامت کا اندازہ نہ کرسکا۔ ممکن ہے خرگوش ہو یا کوئی سیہہ۔ خیال آیا شاید ریچھ ہو، لیکن ایسے وقت میں کسی اکیلے دُکیلے ریچھ کا وہاں آ نکلنا ممکن نہ تھا۔ بہرحال یہ جانور کوئی بھی ہو، تھا نہایت ہوشیار اور چالاک، کیونکہ وہ میری موجودگی سے باخبر ہو چکا تھا اور اپنے آپ کو ظاہر کیے بغیر آہستہ آہستہ گھاس میں حرکت کرتا ہوا ندّی کی طرف بڑھ رہا تھا۔
جنگل کے تمام جانوروں کی فطرت یہ ہے کہ وہ اپنی حفاظت سے کبھی غافل نہیں رہتے۔ درندے، چرندے ہمیشہ تاریک اور محفوظ مقامات ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چرندے اس لیے کہ اپنی جان بچائیں اور درندے اس لیے کہ دوسروں کو شکار کریں۔ جانوروں کی اِس اُچھل پھاند اور سرگرمیوں سے میں تنگ آ چکا تھا اور بڑی بے چینی سے شیر کا منتظر تھا کہ وہ کب کُھلی جگہ قدم رکھتا ہے، لیکن ایک گھنٹہ اور گزر گیا، اُس کا کہیں پتہ نہ تھا۔ اب میرے اعصاب جواب دینے لگے اور طبیعت بُری طرح جھنجھلانے لگی۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ گھاس میں پُھدکتا ہوا وہ جانور ابھی تک میری نگاہوں سے اوجھل تھا اور میں جاننا چاہتا تھا کہ یہ ہیں کون ذاتِ شریف جو اِس پُراسرار انداز میں ندّی کی جانب تشریف لے جا رہے ہیں۔ ایک دو ثانیے کے لیے گھاس میں سے اُس کی جھلک دکھائی دی، مگر صحیح سے اندازہ نہ ہوا کہ وہ کس جسامت کا ہے اور جانوروں کے کس گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔
میرے لیے مزید انتظار کرنا دشوار ہو گیا۔ ہاتھی اب خاصی دُور جا چکے تھے اور شیر کے اِدھر آنے کا کوئی امکان نہ تھا، چنانچہ میں نے اپنا سامان سمیٹنا شروع کیا اور سب کچھ اپنے تھیلے میں بند کر کے اٹھ کھڑا ہوا، لیکن میری نگاہیں ساٹھ فٹ کے فاصلے پر جمی ہوئی تھیں جہاں لمبی لمبی گھاس زور زور سے ہل رہی تھی اور کچھ اس قسم کی آواز اُٹھنے لگی تھی جیسے کُتیا کے پلّے آپس میں کھیل رہے ہوں، اور پھر گھاس میں سے چار جانور برآمد ہوئے۔ تین چھوٹے چھوٹے اور ایک بڑا۔۔۔ چونکہ وہ ایسی جگہ کھڑے تھے جہاں چاند کی روشنی اچھی طرح نہیں پہنچ رہی تھی، اس لیے پہلی نظر میں یوں معلوم ہوا کہ یہ لکڑبگے ہیں اور غالباً کوئی مادہ اپنے تین بچّوں کو لے کر مٹر گشت کے لیے نکلی ہے۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ لکڑبگے ایسے تو نہیں ہوتے۔۔۔ اُن کی چال ہی کچھ اور ہوتی ہے۔۔۔ ریچھ بھی نہیں۔۔۔ اور یہ نہ سُور ہیں۔۔۔ چند ثانیوں کے لیے میرا ذہن ماؤف ہو گیا۔۔۔ جانور میرے سامنے تھے اور میں انہیں شناخت نہیں کر سکتا تھا۔۔۔ اب مَیں نے خوب غور سے دیکھنا شروع کیا اور جونہی وہ چاروں کسی قدر کُھلی جگہ میں آئے جہاں روشنی تھی تو بے اختیار میرے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ خدا کی پناہ! میں بھی کتنا احمق ہوں کہ انہیں پہچان نہ سکا۔ یہ نہ چرخ تھے، نہ ریچھ، نہ خرگوش۔۔۔ نہ جنگلی سُؤر۔۔۔ بلکہ ایک خوبصورت اور جوان شیرنی تھی۔ جو اپنے تین بچّوں کو لے کر جنگل میں تفریح کر رہی تھی۔
میں کئی منٹ تک بُت بنا کھڑا ان بچّوں اور شیرنی کو دیکھتا رہا اور اپنے آپ کو مطلق بُھول گیا۔ شیرنی نہایت سکون سے بیٹھی تھی اور تینوں بچّے کبھی آپس میں کھیلتے اور کبھی اپنی ماں سے لپٹنے لگتے۔ مَیں نے دیکھا، ان میں سب سے چھوٹا، بچہ بے حد شریر ہے وہ نہ صرف اپنے بڑے بھائیوں سے کشتی لڑتا، بلکہ ماں کو بھی بُری طرح تنگ کر رہا تھا جب وہ اس کی پشت پر چڑھنے کی کوشش کرتا تو شیرنی ہلکا سا ہاتھ مار کر اُسے پرے پھینک دیتی۔ پندرہ بیس منٹ یہی تماشا ہوتا رہا۔ آخر شیرنی وہاں سے اٹھی اور آہستہ آہستہ چلتی ہوئی میری طرف آنے لگی۔ مَیں پھر اپنی کمیں گاہ میں دَبک گیا۔ موقع ایسا تھا کہ میں نہایت آسانی سے اس شیرنی کو نشانہ بنا سکتا تھا، مگر اُس کے بچّوں کا خیال کرتے ہوئے اِس حرکت سے باز رہا اور ویسے بھی میری اِس شیرنی سے کوئی عداوت نہ تھی۔
کچھ فاصلے پر آ کر شیرنی رُک گئی اور منہ اوپر فضا میں اٹھا کر فضا میں کچھ سونگھنے لگی۔ میرے دل کی دھڑکن اور تیز ہو گئی۔ کیا شیرنی نے بچھڑے کی بُو پا لی ہے؟ اگر ایسا ہے تو وہ ضرور اس پر حملہ کرے گی۔۔۔ پھر مجھے کیا کرنا چاہیے۔۔۔ میں شیرنی پر فائر کر دوں۔۔۔؟ اِسی فکر میں گم تھا اور کوئی فیصلہ نہ کر پایا تھا کہ شیرنی یک لخت مڑی اور ندی کے کنارے کنارے چلنے لگی۔ دونوں بچّے اُس کے پیچھے پیچھے دوڑ رہے تھے، لیکن تیسرا اَب بھی اپنی شرارت سے باز نہ آیا۔ وہ ماں کو پریشان کرنے کے لیے خاصا پیچھے رہ گیا تھا۔ ایک لمبا چکّر کاٹ کر شیرنی، اور اُس کے بچّے اب بالکل میرے قریب آ گئے تھے۔ میرا اور ان کا درمیانی فاصلہ ساٹھ فٹ سے زیادہ نہ تھا۔ شیرنی خلافِ معمول بڑی طاقت ور اور جسیم تھی۔ اس کا قد میرے اندازے کے مطابق دُم سے لے کر ناک تک نو فٹ سے بھی کچھ نکلتا ہوا تھا۔ غیر ارادی طور پر مَیں نے اُس کی گردن کا نشانہ لیا، مگر پھر رائفل جُھکا لی۔ دل نہیں چاہتا تھا کہ اِس بے گناہ شیرنی کو ہلاک کر کے اپنے درندہ پن کا ثبوت دوں اور اُس کے کم سِن بچّوں کو لکڑبگوں کے مُنہ کا تر نوالہ بننے کے لیے جنگل میں تنہا چھوڑ دوں اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض ظالم اور سنگ دِل شکاری ایسی حرکتیں کرتے ہیں، لیکن یہ شکار کی روح کے خلاف ہے۔
شیرنی اَب ندی کنارے بیٹھ گئی اور بچّے پھر اس سے پیار کرنے لگے۔ کبھی وہ اُس کی پیٹھ پر چڑھ جاتے اور کبھی اسے محبّت سے چاٹنے لگتے۔ ماں بھی انہیں پیار سے چاٹنے لگتی۔ ماں بھی انہیں پیار کی نظروں سے دیکھتی اور باری باری سب کو چاٹتی۔ تینوں بچّے ایک ایک سال کے تھے، لیکن انہیں شکار مارنے اور اپنا پیٹ بھرنے کے لیے ابھی مزید تربیت کی ضرورت تھی۔ شیرنی کے بچے پانچ سال کی عمر میں پورے بالغ اور جوان ہو جاتے ہیں۔ پھر انہیں اپنی ماں کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس دوران میں شکار پر جھپٹنے اور پکڑ کر لے جانے کا فن اچّھی طرح سیکھ لیتے ہیں۔ ابتدائی تین سال ماں کی نگرانی اور حفاطت میں گزرتے ہیں، وہ ایک لمحے کے لیئے بھی اکیلا نہیں چھوڑتی۔ پیدا ہونے کے بعد پانچ ماہ تک وہ ماں کے دودھ پر پلتے ہیں، پھر ان کے جبڑوں میں اتنی قوت آ جاتی ہے کہ کُچلا ہوا گوشت کھا سکیں۔ یہ گوشت ماں انہیں اپنے دانتوں سے کچل کر کھلاتی ہے۔ آہستہ آہستہ یہ چھوٹے جانوروں اور پرندوں کو خود مار کر ہڑپ کرنے لگتے ہیں۔ پہلے پہل خرگوش، گیدڑوں اور موروں وغیرہ کی باری آتی ہے، پھر چیتل ہرن ان کا نوالہ بنتے ہیں۔۔۔ اور آخر میں بڑے جانور سانبھر، نیل گائے اور دوسرے مویشی اس دوران میں اگر آدمی کا خون اُن کے منہ کو لگ جائے تو پھر نہ کسی جانور کا گوشت انہیں پسند آتا ہے، نہ لہو۔۔۔ ہر وقت اور ہر لمحے آدمی کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔
شیرنی اپنے بچّوں کو شکار کھلینا جس طرح سکھاتی ہے، وہ طریقہ بے حد دلچسپ ہے۔ وہ کوئی چھوٹا سا جانور مارتی ہے اور اسے اپنے منہ میں دبا کر چلتی ہے۔ بچے حسبِ معمول اُس کے ساتھ ساتھ دوڑتے ہیں اور ماں کے منہ سے جانور کی لاش چھیننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن شیرنی انہیں پرے ہٹاتی رہتی ہے۔ بچّے بھوک سے بے تاب ہوتے ہیں اور ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ماں انہیں کھانے کیوں نہیں دیتی۔ جب شیرنی بچّوں کو خوب بے تاب کر دیتی ہے تو یک لخت جانور کی لاش زور سے فضا میں اُچھالتی ہے۔ بچّے تیر کی مانِند لاش کی طرف جھپٹتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ننّھے دانتوں اور پنجوں سے اُدھیڑ ڈالتے ہیں۔ اس مشق کے بعد بچّے اِس بات کے عادی ہو جاتے ہیں کہ جونہی وہ کسی شے کی "حرکت’ دیکھیں تو فوراً اس پر ٹوٹ پڑیں، خواہ وہ کسی درخت کی شاخ ہو یا ہوا سے ہلتے ہوئے پتّے یا کوئی چھوٹا جانور۔
ایک گھنٹہ گزر گیا۔ چاند اب میرے سر پر چمک رہا تھا اور اس کی روشنی بھینس کے بچھڑے پر اس انداز میں پڑ رہی تھی کہ شیرنی ذرا بھی گردن گُھماتی، تو اسے دیکھ لیتی۔ اُدھر بچھڑے کو بھی شیرنی کی موجودگی کا پتہ چل گیا تھا اور اس میں بے چینی اور اضطراب کے آثار نمودار ہونے لگے تھے۔ اس سے پہلے وہ مزے سے کان ہلا ہلا کر جگالی کرتا اور آنکھیں جھپکا رہا تھا، لیکن درندے کی قربت کا احساس ہوتے ہی بے حِس و حرکت ہو گیا۔ شیرنی اپنے دونوں اگلے پنجے ریت پر پھیلائے آرام سے بیٹھی تھی اور اُس کے بچے اسی طرح شوخیاں اور اٹھکیلیاں کرتے پھر رہے تھے۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر انہوں نے بچھڑے کو دیکھ لیا تو ضرور اس پر حملہ کر دیں گے اور ایک بار تو شیرنی کا بڑا بچّہ اُس کے نزدیک پہنچ ہی گیا تھا کہ ماں نے ہلکی سی غرّاہٹ کے ساتھ اسے واپس بلا لیا۔ تیسرا اور چھوٹا بچّہ جو سب سے زیادہ شریر تھا، مسلسل بھاگ دوڑ کر رہا تھا۔ غالباً اُس کے نتھنوں میں بچھڑے کی بو پہنچ رہی تھی۔ یک لخت وہ اُچھلتا ہوا سیدھا میری طرف آیا۔ میں نے گھبرا کر رائفل تان لی۔ وہ مجھے سے صرف چھ فٹ کے فاصلے پر آن کر رُک گیا اور اپنی چمکدار زرد زرد آنکھیں نیم وا کر کے بڑی حیرت سے مجھے گھورنے لگا۔ اگرچہ مَیں نے شاخوں اور خار دار جھاڑیوں سے یہ کمیں گاہ خاصی محفوظ بنا لی تھی اور کوئی جانور آسانی سے میرا سراغ نہ پا سکتا تھا، لیکن شیرنی کا یہ شریر بچّہ مجھے دیکھ چکا تھا، پھر وہ منہ کھول کر ہلکی آواز میں غرّایا۔ میں اپنی جگہ اور دبک گیا۔ جانتا تھا کہ شیرنی کو پتہ چل گیا، تو جان پر کھیل جائے گی، مگر بچّوں پر آنچ نہ آنے دے گی۔
دفعتہً کسی درخت کی ہلتی ہوئی شاخ کا سایہ زمین پر پڑا اور بچے کی توجہ اس طرف ہو گئی۔ وہ بلّی کے انداز میں اُس سائے پر جھپٹنے کے لیے دبے پاؤں آگے بڑھا۔ اُس کے کان کھڑے تھے اور دُم آہستہ آہستہ گردش کر رہی تھی۔ شاخ پھر ہلی اور اور ساتھ ہی سایہ بھی۔۔۔ دوسرے ہی لمحے شیرنی کا شریر بچّہ چھلانگ لگا کر سائے پر جھپٹا۔ وہ دیر تک اسی طرح سائے کو پکڑنے کی کوشش کرتا رہا اور میری موجودگی یکسر فراموش کر بیٹھا۔ اتنے میں اس کی ماں غرّائی اور بچہ تیزی سے اُس کی طرف بھاگا اور جب وہ بچھڑے کے قریب سے گزرا تو بچھڑے نے ڈر کے مارے کوئی حرکت کی۔ غالباً اُن نے کان ہلائے تھے۔ اس کی یہ حرکت شیرنی کے بچّے کو روکنے کے لیے کافی تھی۔ وہ رک گیا اور بچھڑے پر غرّانے لگا۔ بچّے کی آواز سنتے ہی شیرنی نے نہ جانے کیونکر اندازہ کر لیا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ وہ فوراً اٹھی اور بچّے کی طرف آئی۔ میں سمجھ گیا کہ بچھڑا ہاتھ سے گیا۔ اس وقت بھی چاہتا، تو گولی چلا کر شیرنی کو ختم کر سکتا تھا، لیکن طبیعت آمادہ نہ ہوئی اور میں چپ چاپ بیٹھا رہا۔
شیرنی انے اپنے بچّوں کو پیچھے کیا اور خود نہایت وقار سے قدم بڑھاتی ہوئی بچھڑے کی طرف گئی۔ اس کی آنکھیں یاقوت کی مانند سُرخ تھیں اور ان میں بے پناہ چمک تھی۔ شیرنی کو اپنے قریب پا کر بچھڑے کے حلق سے نہایت ڈراؤنی آواز نکلی۔ عین اُسی لمحے نہ معلوم مجھے کیا ہوا۔ میں نے تالی بجائی۔ بچھڑے کی طرف بڑھتی ہوئی شیرنی یکدم یُوں رُک گئی جیسے زمین نے اس کے پاؤں پکڑ لیے ہوں۔ ایک لحظے کے لیے اُس نے گردن گھما کر میری کمین گاہ کی طرف دیکھا اور پوری قوت سے گرجی۔ میرا کلیجہ لرز گیا اور جسم برف کی مانند سرد۔ اس وقت اگر فائر بھی کرنا چاہتا تو نہ کر سکتا تھا۔ اتنا یاد ہے کہ میں نے رائفل کا دستہ سختی سے بھینچ لیا تھا، لیکن کانپتے ہوئے ہاتھوں پر قابو پانے کی کوئی تدبیر میرے پاس نہ تھی۔
شیرنی خوب گرج رہی تھی۔ دھاڑ رہی تھی۔۔۔ اس کا غیظ و غضب قابل دید تھا۔ ہر گرج سے اس کے غم و غصّے کا اظہار ہوتا تھا کہ اس کی آرام اور تفریح میں مداخلت کیوں کی گئی ہے۔ میں نے بڑی مشکل سے رائفل کندھے سے لگائی اور شیرنی کی کھوپڑی کا نشانہ لیا، مگر فوراً ایک ہولناک گرج شیرنی کے حلق سے نکلی اور میرے ہاتھ کانپنے لگے۔ اب مجھے یہاں سے نکل بھاگنے کی سُوجی، مگر ایسا کرنا صریحاً موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا وہ یقیناً میرا پیچھا کرتی۔ مجھے اپنی حماقت پر انتہائی غصّہ آ رہا تھا کہ میں نے شیرنی کی توجہ خواہ مخواہ بچھڑے سے ہٹا کر اپنی طرف مبذول کرائی۔
میں نے تیسری بار اس کے سر کا نشانہ لیا۔۔۔ مگر بزدلی کہیے یا شیرنی کے بچّوں کی محبت کہ میری انگلی لبلبلی نہ دبا سکی۔ وہ میرے سامنے سینہ تانے بہادری کی تصویر بنی کھڑی للکار رہی تھی، لیکن مجھ میں اس کا سامنا کرنے کی ہمّت نہ تھی۔ کاش یہ بچے اس کے ساتھ نہ ہوتے۔۔۔ معاً شیرنی کے تینوں بچّے بچھڑے کی طرف لپکے اور عین اُسی لمحے میری رائفل نے یکے بعد دیگرے دو گولیاں اگل دیں۔ یہ فائر میں نے ہوا میں کیے تھے اور ان کا نتیجہ اچھا نکلا۔ شیرنی سراسیمہ ہو گئی اور چند لمحے بعد وہاں سوائے میرے اور سیاہ بچھڑے کے کوئی نہ تھا۔
مجھے شیرنی اور اس کے تین بچّوں سے واقعی عشق ہو گیا۔ جی ہاں۔۔۔ عشق۔۔۔ وہ بھی ایسا کہ میں انہی کی تلاش میں شب و روز مارا مارا پھرتا۔ بڑی مشکل سے ہزار آفتوں اور مصیبتوں کے بعد ان کی صورتیں دکھائی دیتیں لیکن جونہی وہ مجھے دیکھتے، شرما کر بھاگ جاتے۔ میں اس کی اسی ادا پر مر مٹا تھا۔ میں نے کئی بار ان کی تصویریں اتارنے کی بھی کوشش کی، مگر کامیابی کی کوئی صورت نہ نکلی۔ میں جتنا ان کی طرف کھنچتا تھا وہ اتنا مجھ سے دور ہٹتے تھے۔ گویا وہی معاملہ تھا۔
صد عشق و هزار بدگمانی
مجھے سب سے زیادہ دل چسپی، بلکہ محبّت شیرنی کے تیسرے بچّے سے تھی۔ حالات کی ستم ظریفی نے پورے پانچ برس تک مجھے اس کا دیوانہ بنائے رکّھا، لیکن ایک روز مجھے اس بچّے کو، جو اُس وقت تک بالغ اور پورا شیر بن چکا تھا، موت کے گھاٹ اتارنا پڑا۔ یہ داستان جتنی عجیب ہے، اتنی ہی دلدوز اور دلخراش بھی۔۔۔
بھارا پور رینج میں رامجی والا فارم کے نزدیک دامک نام کے جنگل میں یہ ناقابل فراموش حادثہ پیش آیا۔ دامک جنگل اپنے حیسن مناظر اور خوش نما محلِ وقوع کے باعث خاص اہمیّت رکھتا ہے۔ کہتے ہیں کالی داس کے شہرہ آفاق ڈرامے شکنتلا کی ہیروئن شکنتلا اپنے باپ کے ساتھ یہیں کسی آشرم میں رہتی تھی۔ مغلوں کے دَور حکومت میں بھی دامک جنگل میں بادشاہ اور اُمرا آن کر شکار کھیلتے تھے، حتیٰ کہ انہوں نے اس کا نام "شکار گاہ’ رکھ دیا۔
اپریل کا مہینہ تھا کہ مَیں پھرتا پھرتا رامجی والا کی طرف آ نکلا۔ یہ راجپوتوں کی بستی تھی، انتہائی مہمان نواز، بہادر اور شریف لوگ۔ انہوں نے میری خاطر تواضع میں کوئی کسر اٹھا نہ رکّھی۔ بستی پر ایک عمر رسیدہ راجپوت ٹھاکر امیر سنگھ کا بڑا اثر تھا۔ یہ شخص راجاؤں کی اولاد میں سے تھا اور بے حد غریب، مگر حکومت کا دبدبہ اور شان و شکوہ اُس کی صورت سے ٹپکتا تھا۔ بستی کا ہر شخص اس کا احترام کرتا اور سب لوگ ٹھاکر کو بھائی صاحب کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ بھائی صاحب عُمر کی خاصی منزلیں طے کر چکے تھے اور اُن کی جسمانی حالت بھی قابل رحم تھی۔ زبان میں کسی قدر لکنت، دائیں ہاتھ میں رعشہ اور چال میں لڑکھڑاہٹ تھی، لیکن اپنے جنگل کے چپّے چپّے اور گوشے گوشے سے اچھی طرح آشنا۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر جنگل کے کسی بھی حِصّے میں لے چلو، وہ وہاں مٹّی اور جھاڑیوں کو چُھو کر بتا دیں گے یہ کونسا مقام ہے۔ اس عُمر میں بھی سیر و شکار سے ان کی دلچسپی قابل رشک تھی اور ایک ٹانگ کمزور ہونے کے باوجود وہ مِیلوں پیدل چل سکتے تھے۔ درندوں کے پنجوں کے نشان دیکھتے ہی بتا دیتے کہ نر ہے یا مادہ۔ کتنی عمر کا ہے، کہاں سے آیا ہے اور کدھر گیا ہے، قد کتنا ہے اور وزن کس قدر۔۔۔ دامک جنگل میں رہنے والے سبھی جانوروں سے اُن کی خوب جان پہچان تھی۔ بھائی صاحب کو وحشی جانوروں کے قدموں کے نشان دیکھ کر اُن کے بارے میں صحیح صحیح اندازہ کرنے کی بڑی مہارت حاصل تھی اور اس فن کو انہوں نے باقاعدہ سائنس بنا دیا تھا۔
وہ اپنی سادہ اور چھوٹی سی جھونپڑی میں رہتے تھے اور میں اُن سے وہیں ملا۔ گفتگو کے دوران میں انہوں نے جنگل کے تمام جانوروں کا تذکرہ کیا اور مختلف شیروں کی نشاندہی کی کہ ان میں کون شریف ہے اور کون شریر۔ مَیں نے اُن سے شیرنی اور اس کے بچّوں کے بارے میں پوچھا، محض یہ دیکھنے کے لیے بھائی صاحب کی معلومات کہاں تک صحیح ہوتی ہیں۔ انہوں نے ان کے بارے میں تفصیلاً بتایا اور بلاشبہہ تمام باتیں ٹھیک تھیں۔ قِصّہ یہ تھا کہ شیرنی کی اِن تین اولادوں میں دو شیرنیاں تھیں جن میں سے ایک کو تو کِسی شکاری نے ہلاک کر دیا، دوسری اپنے نر کی تلاش میں نہ جانے کہاں نکل گئی۔ تیسرا اور سب سے چھوٹا بچّہ زندہ ہے اور قوی ہیکل شیر بن چکا ہے۔
"جناب، اُس نے گاؤں والوں کو سخت پریشان کر رکّھا ہے۔’ بھائی صاحب نے منہ بنا کر کہا۔ "ایسی حرکتیں کرتا ہے جو کسی شیر کے شایان شان نہیں ہیں۔ بھیڑ بکریوں یا گایوں کو اٹھا کر لے جانا بھلا کہاں کی شرافت ہے؟ یہ جنگل سانبھروں اور چیتل ہرنوں سے پٹا پڑا ہے۔ وہ چاہے، تو زندگی بھر اُن کے لہو اور گوشت سے اپنا پیٹ بھرے، لیکن نہ جانے اُسے کیا ہو گیا ہے کہ ہمیشہ پالتو جانوروں کو پکڑ کر لے جاتا ہے۔’
بھائی صاحب کی زبانی اپنے محبوب شیر کے یہ کرتوت سُن کر مجھے سخت صدمہ ہوا، مگر کچھ نہ کہا۔ بھائی صاحب کی تقریر جاری تھی:
"بڑا اچّھا ہوا کہ آپ آ گئے، اَب اِس بدبخت کا قِصّہ پاک ہو جائے گا۔ کوئی گڈریا اپنے مویشیوں کو جنگل میں چرانے نہیں لے جاتا اور جانوروں کی صحتیں خراب ہو رہی ہیں۔ اگر آپ کہیں، تو میں کل صبح آپ کے ساتھ چلوں اور دکھاؤں کہ وہ کیسی حرکتیں کرتا ہے۔’
میں نے حامی بھر لی۔
اگلے روز علی الصباح مَیں، بھائی صاحب اور ایک گڈریا جنگل میں نکلے۔ گڈریے نے چند بھینسوں اور گایوں کو ساتھ لے لیا تھا اور میں نے اسے دلاسا دیا تھا کہ "اگر شیر نے کوئی شرارت کی تو میں اُسی وقت اُسے گولی مار دوں گا۔’
بھائی صاحب بار بار اِس بات پر زور دیتے تھے کہ اگر اس شیر کو مارا نہ گیا، تو یہ ایک دن ضرور آدم خور بن جائے گا۔ میرے پاس انہیں جھٹلانے کی کوئی معقول وجہ نہ تھی، کیونکہ بہرحال اُن کا تجربہ کہیں زیادہ پختہ اور معلومات نہایت ثِقہ تھیں۔ اِس کے علاوہ میں زبانی طور پر بھی یہ اقرار کر چکا تھا کہ اِس شیر سے لوگوں کو نجات دلا دوں گا، لیکن دل عجب مخصمے میں گرفتار تھا۔ بھائی صاحب نے گاؤں سے سے کچھ فاصلے پر شیر کے قدموں کے نشان دکھاتے ہوئے کہا:
"دیکھیے یہ نشان اُسی کے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بدمعاش رات کو یہاں پھرتا رہا ہے۔’ میں نے اِن نشانوں کو غور سے دیکھا اور شیر کے بارے میں اندازہ لگانے کی کوشش کی۔ میرے حساب سے اُس کا قد نو فٹ سے زائد نہ تھا اور وزن تین سوا تین سو پونڈ کے لگ بھگ اس موقعے پر مَیں نے بھائی صاحب کو قائل کرنے کی حماقت کی اور کہا:
"ٹھاکر صاحب، یہ شیر تو ابھی بہت کم سن ہے، اس کا وزن بھی کچھ زیادہ معلوم نہیں ہوتا۔ مارنے کے بجائے اگر اُسے کسی اور جنگل کی طرف بھگا دیا جائے، تو کیسا رہے؟’
بھائی صاحب کے لبوں پر یہ بات سُن کر طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی کہنے لگے:
کرنل صاحب آپ بھی تجربہ کار آدمی ہیں۔ جنگلوں کی بُو باس سے واقف ہیں۔ سینکڑوں شیروں اور چیتوں کو ٹھکانے لگا چکے ہیں۔ میں بوڑھا آدمی، کج زبان، اب آپ سے کیا بحث کروں۔۔۔ لیکن یہ دیکھ لیجیے کہ میری عمر بھی انہی جنگلوں کی آب و ہوا میں گزری ہے اور مَیں نے بھی گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے۔ جب بازوؤں کی اِن مچھلیوں میں دَم تھا تو ہتھیار کے بغیر شیروں کے منہ میں ہاتھ ڈال دیتا تھا، اس درندے کی فطرت کو خوب سمجھتا ہوں۔ بے شک یہ شیر قد میں بھی چھوٹا ہے اور وزن کا ہلکا بھی، لیکن ہے بہت مکّار اور ہوشیار۔ اگر مویشیوں پر اسی طرح ہاتھ صاف کرتا رہا تو بہت جلد گڈریوں اور پھر ندی سے پانی لانے والی عورتوں کو ہڑپ کرنا شروع کر دے گا۔ میرے ہاتھ میں رعشہ ہے، بندوق چلا نہیں سکتا۔ ورنہ بھگوان کی سوگند خود اس کو گولی مارتا۔’
صبح سے دوپہر اور دوپہر سے شام ہو گئی، لیکن شیر کہیں دکھائی نہ دیا۔ بھائی صاحب کا کہنا تھا کہ وہ اتنا ہوشیار ہے کہ دن میں بستی کے آس پاس نہیں رہتا بلکہ دس پندرہ میل دُور نکل جاتا ہے، لیکن رات ہونے پر آ جاتا ہے اور پچھلے پہر اکثر اس کی آواز سنائی دیتی ہے۔
شام کو سُورج چھپنے سے کچھے پہلے ہم بستی میں واپس آئے۔ بھائی صاحب نے میرے لیے اپنی پالتو گائے سے دودھ گرم کیا۔ چائے پلائی اور پھر سبزی پکانے کی تیاری کرنے لگے۔ میں کھانا کھا کر بستر پر لیٹ گیا اور لیٹتے ہی بے خبر سو گیا۔ اگلے روز تڑکے ہی آنکھ کُھل گئی۔ بھائی صاحب پوجا پاٹ سے فارغ ہو گئے تھے۔ میں نے بھی فجر کی نماز ادا کی، پھر بھائی صاحب کے ہاتھ کی بنی ہوئی چائے پینے لگا۔ اتنے میں وہ گڈریا بھی آ گیا جو گزشتہ روز ہمارے ساتھ جنگل میں گیا تھا۔ اس کی اُتری ہوئی صورت دیکھتے ہی میں کھٹکا ضرور کوئی حادثہ پیش آیا ہے، بھائی صاحب کے استفسار پر اس نے بتایا کہ شام کے وقت جب کہ وہ مویشیوں کو لے کر بستی کی طرف آ رہا تھا کہ ایک شوخ گائے، بھاگ نکلی، اس کا خیال تھا کہ گائے اِدھر اُدھر گھوم پھر کر واپس آجائے گی، مگر وہ ابھی تک نہیں آئی۔ بھائی صاحب نے فکرمند ہو کر میری طرف دیکھا پھر گڈریے سے کہنے لگے:
"تو نے ہمیں اسی وقت کیوں نہ بتایا۔ رات بھی شیر بول رہا تھا۔ تیری گائے کو بھلا چیرے پھاڑے بغیر چھوڑا ہوگا؟’ میں نے گڈریے کو دلاسا دیا، پھر جلد جلد کپڑے پہنے، رائفل سنبھالی اور گائے کو ڈھونڈنے کے ارادے سے چلا۔
مَیں اس مہم کو جتنا مشکل اور دشوار سمجھے ہوئے تھا، یہ اتنی ہی آسان اور اور سہل ثابت ہوئی۔ بستی کے مشرق میں صرف ڈیڑھ میل کے فاصلے پر سال کے درختوں کا جھنڈ تھا، گائے زخمی حالت میں وہاں پڑی تھی اور شیر سامنے ہی لمبی گھاس میں چھپا ہوا غرّا رہا تھا۔ غالباً ہماری آمد سے چند منٹ پہلے ہی اس نے گائے کو دیکھا اور حملہ کیا۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو درختوں پر چڑھ جانے کا اشارہ کیا، پھر خود بھی ایک درخت پر چڑھا۔ یہاں سے مجھے شیر کی کھوپڑی صاف نظر آرہی تھی اور اس سے پیشتر کہ وہ راہ فرار اختیار کرے، میری رائفل نے شعلہ اُگلا اور گولی کا شیر بھیجا پھاڑتی ہوئی نِکل گئی۔
بستی کے لوگ جب خوش خوشی اس کی لاش اٹھا کر لے جا رہے تھے، تو کسی کو خبر نہ تھی کہ میرے دل پر کیا گزر رہی ہے۔
میری عمر اِس وقت 61 سال کی ہے اور مَیں 1920ء سے شکار کھیل رہا ہوں۔ اس چالیس برس کی مہماتی زندگی میں یُوں تو بے شمار حادثے اور عجیب عجیب واقعات سامنے آئے ہیں، لیکن ایک حادثہ ایسا ہے کہ ابھی تک اس کے زخم میرے کلیجے پر تازہ ہیں، کبھی تنہائی نصیب ہو اور پرانی یادیں دل و دماغ میں ہجوم کریں، تو سب سے پہلے سدا رام کا ہنستا مسکراتا چہرہ مجھے دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ میری اور اس کی عمر میں بڑا فرق تھا۔ تاہم ہماری مثالی دوستی پر لوگ رشک کرتے تھے۔
آئیے آپ کا تعارف بھی سدا رام سے کرا دوں۔
وہ دُبلا پتلا ادھیڑ عمر کا لمبا آدمی تھا۔ ہمیشہ صاف سُتھرے کپڑے پہنتا، افیم گھول کر پیا کرتا اور جب بھی کسی کاغذ پر اسے دستخط کرنا ہوتے تو نام کے نیچے "نمبردار’ لکھنا کبھی نہ بُھولتا۔ بستی کا ہر فرد سدا رام سے محبّت کرتا تھا، کیونکہ سدرام ہر ایک کے دُکھ سُکھ میں شریک ہوتا۔ اُس کی کسی سے دشمنی نہ تھی۔ وہ دشمنی کرنا سرے سے جانتا ہی نہ تھا۔ ہندو گھر میں جنم لینے کے باوجود مسلمانوں سے بھی اسی پیار اور محبّت کے ساتھ ملتا جس کا مظاہرہ اپنے ہم قوموں سے کرتا تھا، بلکہ یوں کہیے کہ اس کے ملنے جلنے والوں میں اکثر مسلمان تھے۔ سدا رام کا تعلق جاٹ برادری سے تھا۔ اس برادری کے اکثر آدمی پہلی جنگِ عظیم کے زمانے میں فوج میں بھرتی ہوئے اور انگریزوں کے دشمنوں سے جنگ لڑنے چلے گئے۔ سدا رام بھی ان میں شامل تھا۔۔۔ لام پر جانے والے بہت سے لوگ واپس نہ آئے۔ انہوں ںے سفید چمڑی والے آقاؤں کے لیے اپنی جانیں دے دیں۔ اُن کی بیویاں اور بچّے اب بھی جانے والوں کی راہ تکتے ہیں، لیکن کبھی جانے والے بھی لوٹ کر آیا کرتے ہیں؟ البتّہ سدا رام جیسا گیا، ویسا ہی آ گیا۔ اُس کے تو کہیں خراش بھی نہ آئی تھی۔ ویسا ہی ہنستا، مسکراتا اور بڑھ بڑھ کر بولتا ہوا۔ پھر وہ زندگی کے آخری لمحوں تک لوگوں کی جنگ کی کہانیاں سناتا رہا۔ چوپال میں سب لوگ اپنے اپنے حقّے لے کر آ جاتے، درمیان میں سدا رام راجہ بن کر بیٹھتا۔ کوئی نئی کہانی یا حیرت انگیز قِصّہ ساننے سے پیشتر اس کی آنکھوں میں ایک فخریہ چمک سی نمودار ہوتی، پھر وہ پیالے میں گھولی ہوئی افیم کی چسکی لگاتا اور کہانی شروع کر دیتا۔ سب لوگ ہمہ تن گوش ہو کر سنتے کہ کس طرح انگریزوں اور جرمنوں کی لڑائی ہوئی، بندوقیں کس طرح چلتی تھیں، ہوائی جہاز کیونکر بم پھینکتے تھے، فلاں جرنیل اور فلاں کرنیل کا لب و لہجہ کیا تھا، کتنے آدمی مارے گئے وغیرہ وغیرہ۔ جب وہ انگریزی فوجی افسروں کی نقل کرتا، تو مارے ہنسی کے سب کے پیٹ میں بل پڑ جاتے۔
سدا رام اپنی فطری طبیعت کے باعث گھر یا اپنے گاؤں میں رہنا زیادہ پسند کرتا تھا۔ اُسے میلے ٹھیلے اور کھیل تماشے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ البتہ کبھی کبھار موج میں آتا، تو مچھلیاں پکڑنے دریا پر چلا جاتا یا اپنی پرانی توڑے دار بندوق سے مرغابیاں مارا کرتا۔ ایک مرتبہ اُس نے مگرمچھ کو بھی ہلاک کیا اور مہینوں تک اُس کے قصے لوگوں کو سناتا رہا۔
میں نے افیمیوں کے بارے میں سُنا کیا، اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ یہ لوگ نہانے دھونے سے بہت بھاگتے ہیں، لیکن سدا رام ایسا افیمی نہ تھا، کبھی ایسا نہ ہوا کہ وہ گندے یا میلے کپڑے پہنے دکھائی دیا ہو۔ اس کے فوجی بوٹ خاصے بھاری تھے، ہمیشہ چمکتے نظر آئے جن پر وہ باقاعدہ پالش کرتا تھا۔ فوجی زندگی کے چند برسوں نے اُسے بعض معمولات پر سختی سے پابند رہنے کا عادی بنا دیا تھا۔ نُور کے تڑکے اٹھنا، پوجا پاٹ کر کے جنگل کی سَیر کو جانا اور نہانا، کپڑے دھونا پھر ناشتا تیار کرنا، وقت پر سونا، وقت پر جاگنا۔ اُس کے بیوی بچّے تھے نہ کوئی قریبی عزیز یا رشتے دار۔ بے چارے کا بھری دُنیا میں اکیلا دَم تھا اور یہ حقیقت ہے کہ اُس نے زندگی بسر کرنے کا گُر اچّھی طرح سیکھ لیا تھا۔ اب میں غَور کرتا ہوں، تو سدا رام کی زندگی اِن دو بیش قیمت اصولوں کا نمونہ نظر آتی ہے اول یہ کہ دوسروں کی خدمت کرو اور دوم سدا خوش رہو۔ لالچ، غم، غصّہ، چُھوت چھات، نفرت، خود غرضی، مکّاری اور چال بازی سے وہ قطعاً ناآشنا تھا۔ مَیں نے کبھی اُس کے منہ سے کوئی بیہودہ بات یا گالی نہ سُنی۔ کبھی کسی عورت کی طرف بُری نظروں سے نہ دیکھا۔ وہ بزرگوں کا ادب کرتا اور بچوں پر دیوانہ وار نثار تھا۔ حتی الامکان کسی کا احسان لینے کی کوشش نہ کرتا۔ کبھی یہ نہ سوچتا کہ فلاں شخص میرے کام آسکتا ہے یا نہیں، اُسے کسی سے کوئی توقع نہ تھی، بلکہ ہر دم یہی تگ و دَو کرتا کہ وہ خود کسی کا کیا کام کر سکتا ہے۔ اُسے نہ ستائش کی تمنّا تھی نہ صلے کی پروا۔ یہ واقعہ ہے کہ جتنی خوبیاں دنیا کے کسی بڑے آدمی میں ہوتی ہیں، وہ تمام اس چھوٹے سے دیہاتی شخص میں قدرت نے جمع کر دی تھیں۔ وہ صحیح معنوں میں انسان کہلانے کا مستحق تھا، اس لیے کہ انسانوں سے تو وہ محبت کرتا ہی تھا، اُسے جانوروں سے بھی بڑا پیار تھا۔ گاؤں کے پالتو اور آوارہ کُتّے، گھوڑے، بھیڑ بکریاں، گائے، بھینسیں سبھی اسے جانتے اور پہچانتے تھے۔ سدا رام کو دیکھ کر کُتّے خوشی سے دُمیں ہلانے لگتے اور دوڑ کر اُس کے پاس آ جاتے۔ گھوڑے ہنہناتے، بکریاں ممیاتیں اور گائیں بھینسیں محبّت بھری نگاہوں سے اُسے دیکھیتں اور سدا رام کو چاٹنے کی کوشش کرتیں۔ نہ جانے کونسا جادو اس کے پاس تھا یہ ہر انسان اور ہر جانور اُس کی طرف یوں کھنچا آتا تھا جیسے لوہا مقناطیس کی طرف۔
سدا رام کی موجودگی میں گاؤں والوں کو کسی "سیانے’ کسی پنڈت، کسی وید اور کسی حکیم کی ضرورت نہ تھی۔ ان لوگوں کے فرائض بھی وہی ادا کرتا تھا۔ ذرا کسی بچّے کا کان دُکھا یا کسی کی نکسیر پُھوٹی، اور اس کی ماں فوراً اُسے لے کر سدا رام کے پاس آئی۔ سدا رام اپنے تھیلے میں سے چند پڑیاں نکالتا اور بچے کے شر پر شفقت سے سے ہاتھ پھیر کر اس کی ماں کو تلقین کرتا کہ دو دو گھنٹے بعد ایک پڑیا اسے کھلا دے۔ پھر وہ بچّے کو اپنے پاس سے مٹھائی بھی دیتا۔ خدا نے سدا رام کے ہاتھ میں ایسی شفا دی تھی کہ اُس کے گھر کے آگے ہمیشہ بیماروں کا جمگھٹا لگا رہتا۔ وہ چاہتا تو اپنے ہر نسخے اور ہر دوا کی قیمت وصول کرتا، مگر اُس نے کبھی ایک دھیلا بھی کسی سے نہ لیا، جنگل میں جا کر نہ جانے کون کون سی جڑی بوٹیاں اور پودے تلاش کر کے گھر لاتا، گھنٹوں انہیں کوٹتا، چھان پھٹک کرتا اور دوائیں بنا بنا کر پوٹلیوں کی صورت میں ڈھیر کرتا جاتا۔
میری اُس کی پہلی ملاقات اتفاقیہ طور پر ہوئی۔ یاد نہیں آتا کہ گاؤں میں کونسا میلہ تھا، لیکن تھا بڑا زور دار اور دھوم دھوم کا میلہ جس میں کئی تھیٹر اور منڈوے شہر والوں نے آ کر لگائے تھے جنہیں دیکھنے کے لیے دور دور کے دیہاتوں اور بستیوں سے ہزارہا مرد و زن اور بچے آ رہے تھے۔ لڑکپن کے باعث گھر میں نچلا نہ بیٹھ سکتا تھا۔ میلے کی خبر سُن کر اپنے وفادار کاٹھیاواڑی کے گھوڑے موتی پر سوار ہوا اور رونق دیکھنے چلا۔ میلے میں آدمیوں سے زیادہ عورتیں تھیں جنہوں نے نہایت رنگ برنگے اور زرق برق لباس پہن رکھے تھے۔
نوجوان لڑکیاں تتلیوں کی طرح اِدھر اُدھر اڑی پھرتی تھیں۔ گاؤں کے گھبرو جوان مختلف ٹولیوں اور گروہوں میں بٹ کر میلہ دیکھ رہے تھے، لیکن کیا مجال کہ کوئی کسی کو چھیڑے یا تنگ کرے۔ یکایک بِھیڑ کو چیرتا ہوا ایک دُبلا پتلا اور ادھیڑ عمر شخص قریب آیا اور میرے گھوڑے سے اُتر کر اُس سے باتیں کرنے لگا۔ اجنبی نے میرے گھوڑے کی بے حد تعریف کی اور اس کی نسل پر خاصا معلومات افزا تبصرہ کیا۔ اس کی باتوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ گھوڑوں سے بڑی دلچسپی رکھتا ہے اور اس طرح موتی گھوڑے کی معرفت سدا رام سے میرے تعارف اور پھر دوستی کی ابتدا ہوئی۔
عرصہ گزر گیا۔ اِس دوران میں سدا رام ہمارے گھر بھی آنے جانے لگا اور پھر تو یہ کیفیّت ہوئی کہ اُس کی پُر کشش شخصیّت نے سبھی کے دل مُٹھی میں لے لیے۔ کئی بار میں اُسے اپنے ساتھ شکار کی مہمّوں پر بھی لے گیا، لیکن شیروں اور چیتوں کا ذکر آتے ہی اس پر ایک عجیب سی گھبراہٹ، بلکہ خوف کی حالت طاری ہو جاتی تھی۔ وہ ایسے موقعوں پر کوئی حیلہ بہانہ کر کے میرے ساتھ جانےسے گریز کرتا، لیکن مَیں زبردستی اُسے لے جاتا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ اِن درندوں کا شکار نہایت مُہلک کام ہے اور ایک نہ ایک روز شکاری اِن کے ہتّھے چڑھ ہی جاتا ہے۔ مَیں اس کا مذاق اڑاتا اور کہتا: "سدا رام، موت تو ایک دن آنی ہی ہے، جو وقت اُس کے لیے مقّرر ہے، وہ کسی حالت میں بھی ٹل نہیں سکتا، اس لیے یہ اندیشے بیکار ہیں۔’ وہ جواب دیتا۔ "یہ بات تو ٹھیک ہے، لیکن اپنے آپ کو جان بوجھ کر موت کے منہ میں لے جانا بھلا کہاں کی عقلمندی ہے۔’
جنگلی جانوروں میں اُسے ہرنوں، بارہ سنگھوں اور سُؤروں سے زیادہ دلچسپی تھی اور وہ مجھ پر زور دیا کرتا کہ شکار کا شوق ان جانوروں کو ہلاک کر کے بھی پورا کیا جا سکتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ جنگلی سُؤر کا شکار تو شیر سے بھی زیادہ خطرناک اور جان جوکھوں کا کام ہے، مزا تو اس میں آتا ہے۔ ہماری بحثیں کبھی ختم نہ ہوتی تھیں اور وقت بہرحال اسی طرح گزرتا تھا۔
ایک روز مَیں نے شوالک کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع بلواکی جنگل کے اندر شکار کھیلنے کا پروگرام بنایا۔ یہ جنگل ایک ہندو ریاست کی ملکیت تھا اور یہاں والئی ریاست، انگریز وائسرائے اور بڑے بڑے سرکاری افسروں کے سوا کوئی اور شکار کھیلنے کی جرأت نہ کر سکتا تھا، لیکن مجھے جوش جوانی اور والد کے اثر و رسُوخ کے باعث یہ سوچنے کی فرصت بھی نہ تھی کہ اس جنگل میں قدم نہیں رکھ سکتا۔ مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ بلوالی میں ریاست کے حکام کی اجازت کیے بغیر ہتھیار لے کر جانے والے کئی شکاری نہ صرف بھاری جرمانہ ادا کر چکے ہیں، بلکہ انہوں نے ان کے ہتھیار بھی چھین لیے تھے۔ سدا رام نے یہ تمام باتیں میرے گوش گزار کیں، مگر میں نے ایک نہ سُنی اور یہ کہہ کر اُسے خاموش کر دیا کہ اگر جنگل کے محافظوں نے ہمیں پکڑ لیا، تو ہم رشوت دے کر جان چھڑا لیں گے۔ اُس زمانے میں جنگلوں کی حفاظت کرنے والے چوکیداروں کو تنخواہ وغیرہ برائے نام ہی ملتی تھی اور وہ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے چوری چُھپے درختوں سے پھل اتارتے، بیچتے یا موقع پا کر شکاریوں سے چند روپے لے کر انہیں ہرن وغیرہ مارنے کی اجازت دے دیتے تھے۔
دو تین دن تیاریوں میں گزر گئے۔ اس دوران میں سدا رام نے اپنی مصروفیات کا بہانہ بنا کر میرے ساتھ نہ جانے کا اظہار کیا، لیکن مجھے بھی ضد ہو چکی تھی کہ خواہ کچھ ہو، سدا رام کتنی ہی رسّیاں تڑائے، میں اسے ساتھ ضرور لے جاؤں گا۔
تیسرے روز دوپہر کے وقت جب مَیں واپس آیا، تو میں نے ملازم لڑکے سے پوچھا:
"سدا رام کہاں ہے؟’
وہ ہنس کر بولا: "آج تو اُس نے کمال ہی کر دیا۔ آپ تھوڑی دیر پہلے آتے تو خود تماشا دیکھ لیتے۔ ایک ہرن اِدھر ٹہلتا ہوا آ نکلا، سدا رام نے اُسے دیکھتے ہی اپنی بندوق سنبھالی اور فائر کر دیا۔ فائر ہوتے ہی ہرن کئی فٹ اونچا اُچھلا اور پھر جنگل کے زیریں حِصّے کی طرف دوڑ گیا۔ سدا رام کہتا تھا کہ گولی اُسے لگی ہے اور وہ کہیں نہ کہیں ضرور گر پڑے گا۔ چنانچہ وہ ہرن کے پیچھے پیچھے جنگل میں گُھس گیا اور ابھی تک نہیں لوٹا۔’
لڑکے نے مجھے وہ جگہ دکھائی جہاں ہرن نمودار ہوا تھا۔ چند منٹ کی تفتیش کے بعد پتہ چل گیا کہ وہ صحیح کہتا ہے۔ سدا رام کی گولی نے ہرن کو زخمی کر دیا تھا، لیکن یہ زخم اتنا مہلک بہرحال نہ تھا، کیونکہ خون کے بہت تھوڑے نشان گھاس پر بکھرے ہوئے تھے۔ پچاس گز کے فاصلے پر مجھے ایک جگہ خون دکھائی دیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ زخمی ہرن چند لمحے یہاں رک سستایا ہے۔ مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ توڑے دار بندوق کی 12.9 گرین وزنی گولی نے جو بارہ سَو فٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے جاتی ہے، ایک معمولی ہرن کو مارے بغیر چھوڑ کیسے دیا۔ اسے تو موقع ہی پر دَم توڑ دینا چاہیے تھا۔
مَیں سدا رام اور ہرن کی تلاش میں مزید ڈیڑھ میل آگے چلا گیا۔ یہاں ایک خشک نالا تھا جس کے دونوں کناروں پر گھنی خاردار جھاڑیاں سر اُٹھائے کھڑی تھیں اور زخمی ہرن یا تو اس نالے میں تھا یا جھاڑیوں میں۔۔۔ یک لخت میری متجسّس نگاہوں نے سدا رام کو ڈھونڈ لیا۔ وہ نالے کے کنارے لمبی گھاس میں بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ ہرن کی تلاش میں ہار تھک کر اس نے افیم کی چسکی لگا لی تھی۔
مَیں اس کے قریب پہنچا، وہ تب بھی اُونگھتا رہا۔ میں نے اپنی 265 کی رائفل سے اسے ٹہوکا دیا، تو اُس نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور قہقہہ مار کر بولا:
"مجھے معلوم تھا کہ تم میری تلاش میں یہاں ضرور آؤ گے۔ اس بدمعاش ہرن نے مجھے بہت پریشان کیا۔ اب وہ انہی جھاڑیوں میں کہیں چُھپ گیا ہے، لیکن میں اُسے ساتھ لے کر ہی جاؤں گا۔ وہ زخمی ہو چکا ہے اور بس تھوڑی دیر تک مرنے والا ہے۔’
"تمہیں اِس جنگل میں ایک زخمی ہرن کے پیچھے نہ آنا چاہیے تھا۔’ مَیں نے اُسے سمجھایا۔ "تمہارے پاس توڑے دار بندوق تو ہے، لیکن تمہارا نشانہ اچھا نہیں۔ یہ جنگل درندوں سے بھرا ہوا ہے، ممکن ہے کوئی شیر اِدھر آ جائے اور تمہیں ہڑپ کر لے۔’
وہ پھر ہنسا۔ "شیر مجھے ہڑپ کر لے، تو اچّھا ہے۔ پاپ کٹے گا۔ میرے پیچھے رونے والا اب ہے بھی کون۔’
"ہم جو ہیں۔’ میں نے جواب دیا اور اُسے اٹھنے کا اشارہ کیا، لیکن وہ لیٹ گیا اور کہنے لگا:
"مَیں اِس وقت نہیں اٹھ سکتا۔ میرے ہاتھ پَیر قابو میں نہیں ہیں۔ تم جاؤ اور اُس ہرن کو تلاش کرو۔’
ابھی ہم باتیں کر ہی رہے تھے کہ جھاڑیوں میں سے ایک بہت خوبصورت اور چھوٹا ہرن نکل کر بھاگا اور اِس سے پیشتر کہ مَیں فائر کر دوں، وہ نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔ ہرن کی رفتار میں تیزی نہ تھی اور اس کی پچھلی بائیں ٹانگ لنگ کر رہی تھی۔
"یہی ہے۔۔۔ یہی ہے۔۔۔’ سدا رام چلّایا۔ "جاؤ، اُسے گھیر لو۔۔۔ وہ زیادہ دُور نہیں جائے گا۔’
"اچّھا، میری واپسی تک تم یہیں رہنا۔’ مَیں نے اُس سے کہا اور ہرن کے تعاقب میں دوڑا۔ جنگل کا یہ حصّہ انگریزی کے حرف s کی صورت میں میرے سامنے پھیلا ہوا تھا اور قدم قدم پر اُونچی نیچی زمین اور جھاڑیاں میرے راستے میں میں حائل ہوتی تھیں، لیکن ہرن پر قابو پانے کی کوشش میں میں نے اِن رکاوٹوں کی کوئی پروا نہ کی اور سانس لیے بغیر بھاگتا رہا۔ ہرن کی زخمی ٹانگ سے اب خون مسلسل رِس رہا تھا اور یہی خون میری رہنمائی کر رہا تھا۔ ایک مرتبہ والدہ صاحب نے مجھے کسی ایرانی شاعر کا شعر سنایا تھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ ہرن کا وہ خون جو اُس کی زندگی اور ساری چُستی چالاکی کا ضامن ہے، بُرا وقت پڑنے خود اس کا دشمن بن جاتا ہے اور شکاری کو راہ دکھاتا ہوا ہرن تک لے جاتا ہے۔
بھاگ دوڑ میں مجھے وقت کا احساس نہ رہا۔ اس دوران میں ہرن کئی بار مجھے نظر آیا لیکن وہ ہمیشہ اِس رُخ پر ہوتا کہ فائر کرنے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ دراصل وہ اتنا حسِین تھا کہ اُسے پکڑنے کی خواہش میرے دل میں کروٹیں لینے لگی۔ پسینے سے میری قمیص تر ہوچکی تھی اور سانس بری طرح پُھول رہا تھا۔ میں نے ہرن کو ایک اور گہرے خُشک نالے میں اُترتے دیکھا اور اُس طرف بڑھا۔ عین اُسی وقت جنگل میں شام کی سرد ہَوا چلی اور پھر مغرب کی طرف جُھکتے ہوئے سورج کی روشنی آہستہ آہستہ ایک بلند پہاڑی کے عقب میں سمٹنے لگی۔ چند لمحے بعد مَیں سردی سے کانپ رہا تھا۔ اب مَیں نے ہرن کا خیال چھوڑ کر واپس جانے کی ٹھانی، کیونکہ سدا رام کو وہاں چھوڑ آیا تھا اور جانتا تھا جب تک مَیں نہ پہنچوں گا۔ وہ جنبش نہ کرے گا اور ساری رات وہیں پڑا رہے گا۔
یہ سوچ کر مَیں واپس چلا، لیہکن بدقِسمتی ملاحظہ ہو کہ راستہ بھول کر کسی اور طرف جا نکلا۔ جنگل میں جُوں جُوں اندھیرا پھیل رہا تھا۔ اسی رفتار سے میرے اضطراب اور بے چینی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اپنے سے زیادہ مجھے سدا رام کا خیال تھا اور جب بار بار دل میں یہ خوف سمانے لگا کہ سدا رام کو کوئی درندہ اٹھا کر نہ لے جائے تو کچھ نہ پوچھیے میری کیا کیفیّت ہوئی۔ اپنی بیوقوفی اور جلد بازی پر غصّہ آتا کہ ایک معمولی ہرن کے پیچھے فضول اتنا وقت برباد کیا اور پریشانی مول لی۔
سُورج چُھپنے میں بس دو یا تین منٹ باقی رہ گئے تھے اور پرندوں کے شور سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ دیر تک بھٹکتے رہنے کے بعد خدا خدا کر کے وہ خشک نالا مجھے دکھائی دیا جِسے عبور کر کے مَیں ہرن کے تعاقب میں دوڑا تھا۔ ابھی مَیں اس میں اترنے کے لیے کوئی مناسب سی جگہ ڈھونڈ ہی رہا تھا کہ مجھ سے صرف چھ فٹ کے فاصلے پر کوئی کھڑی ہوئی جھاڑیاں ہلنے لگیں اور ان میں اسے ایک قوی ہیکل اور شاندار شیر انگڑائیاں لیتا اور ہلکی ہلکی آواز میں غرّاتا ہوا برآمد ہوا۔ اُسے دیکھ کر میں جیسے پتھر ہو گیا۔ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔۔۔ ہاتھ بالکل بے جان ہوگئے اور دل کی حرکت گویا بند۔۔۔ شیر نے مجھے دیکھ لیا، لیکن کوئی پروا کیے بغیر وہیں کھڑے کھڑے اپنا خوفناک جبڑا پوری طرح کھول کر ایک لرزہ خیز ڈکار لی۔ اب مَیں نے بھی دیکھا تو کہ اُس کا مُنہ خون میں لت پت ہے۔ غالباً وہ ابھی ابھی پیٹ بھر کر جھاڑیوں میں سے باہر پانی پینے کے ارادے سے نکلا تھا۔
شیر کا خون آلود جبڑا دیکھ کر میری رہی سہی جان بھی نکل گئی۔ پہلا خیال دل میں یہی آیا کہ شیر نے سدا رام کو ہڑپ کر لیا۔ شیر اِس مداخلت بے جا، بلکہ گستاخی پر کہ میں اب تک وہاں کیوں کھڑا ہوں، ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے غرّایا۔ اس کے کان کھڑے تھے اور دُم آہستہ آہستہ ہل رہی تھی۔ اس کا پیٹ بھرا ہوا تھا، اِس لیے وہ مجھ پر حملہ کرنے کا قطعاً خواہشمند نہ تھا، صرف دھمکی دے رہا تھا۔ جَب مَیں نے اِس دھمکی کو نظر انداز کر دیا اور اپنی جگہ سے حرکت نہ کی، تو شیر یک لخت غصّے سے گرجا اور نہایت شاہانہ انداز سے منہ پھیر کر دوبارہ جھاڑیوں کی طرف بڑھا۔ اس کے منہ پھیرتے ہی مجھ میں نہ جانے کہاں سے قوت آ گئی۔ فوراً ہی مَیں نے رائفل سیدھی کی اور شیر کی کھوپڑی کا نشانہ لے کر فائر جھونک دیا۔ فائر کا دھماکا ہوتے ہی شیر پھر دہاڑا اور جھاڑیوں کو چیرتا پھلانگتا بہت دور چلا گیا، لیکن اس کے دہاڑنے کی آواز دیر تک کانوں میں آتی رہی۔ غالباً نشانہ خطا گیا! تاہم شیر کے دفان ہو جانے سے کچھ تسلّی ہوئی اب مَیں ان جھاڑیوں کی طرف بڑھا جن میں سے شیر برآمد ہوا تھا۔ اس وقت میرا دل بے تحاشا دھڑک رہا تھا۔ میں نے چند لمحے رُک کر پیشانی سے پسینے کے قطرے پونچھے اور سدا رام کی لاش دیکھنے آگے بڑھا، لیکن میرے خدشات بے بنیاد ثابت ہوئے۔ جھاڑیوں میں سدا رام کے بجائے ہرن کی کھال، کھوپڑی ہڈیوں اور کُھروں کے سوا کچھ نہ تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کیہ وہی زخمی ہرن پناہ لینے کے لیے دوبارہ ادھر آیا اور سیدھا شیر کے منہ میں پہنچ گیا۔ شیر یقیناً یہاں پہلے ہی سے آرام کر رہا تھا۔
چند منٹ بعد مَیں نے اسی جگہ اپنے آپ کو پایا جہاں اپنے دوست سدا رام کو لیٹا ہوا چھوڑ گیا تھا۔ اس کا کہیں پتہ نہ تھا۔ میں نے اردگرد کے درختوں پر نظریں دوڑائیں، شاید ان میں سے کسی پر چڑھ کر بیٹھ رہا ہو، مگر یاد آیا کہ وہ تو درخت پر چڑھنا ہی نہیں جانتا، پھر آوازیں دیں خوب خوب زور زور سے۔۔۔ مگر کوئی جواب نہ ملا۔ سدا رام کی ایسی عادت تو نہ تھی کہ وہ چپ رہے۔۔ پریشان کُن خیالات میرے ذہن میں اٹھنے لگے۔ معاً تیزی سے بڑھتے ہوئے اندھیرے میں کچھ فاصلے پر سفید سفید کوئی چیز دکھائی دی۔ میں جلدی سے اُدھر گیا۔ یہ چیز سدا رام کی سفید پگڑی تھی۔ اب تو میرے ہوش و حواس جواب دے گئے میں نے کانپتے ہاتھوں سے سدا رام کی پگڑی اٹھائی اور انتہائی مایوس ہو کر اِدھر اُدھر یوں دیکھنے لگا جیسے وہ ابھی کسی جھاڑی سے قہقہہ لگا کر نکل آئے گا۔
پگڑی ملنے کے بعد تو مجھے یقین ہو گیا کہ سدا رام پر کوئی اُفتاد پڑی ہے، مگر سوال یہ تھا کہ وہ آخر گیا کہاں۔ اُسے زمین نکل گئی یا آسمان کھا گیا۔ عجیب پُراسرار معاملہ تھا۔ مجھے تشویش یہ تھی کہ اب جا کر گاؤں والوں کو منہ دکھاؤں گا۔ سدا رام تو ان کی متاع عزیز تھا، اس کے یوں جنگل میں گم ہونے سے لوگوں کو جو رنج اور صدمہ پہنچے گا، اس کا کچھ کچھ تصور مجھے بھی ہو رہا تھا۔ اندھیرا لحظہ بہ لحظہ بڑھتا جاتا تھا اور سرد ہوا کے جھونکے دم بدم تیز ہوتے جاتے تھے لیکن میں ان باتوں سے بے پروا سدا رام کی فکر میں غرق تھا۔ دماغ کچھ کام نہ کرتا تھا کہ کیا کروں، کہاں جاؤں۔ اب اتنے عرصے بعد اس واقعے پر غور کرتا ہوں، تو اپنے لڑکپن اور لڑکپن کی حماقتوں پر ہنسی کے ساتھ ساتھ رونا بھی آتا ہے۔
غم و اندوہ سے نڈھال ہو کر میں ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ اب کیا کروں۔
دفعتہً میرے سر پر ایک چھوٹی سی شاخ آن کر گری، میں نے کچھ توجہ نہ دی۔ مگر فوراً ہی ایک اور۔۔۔ پھر ایک اور شاخ آئی۔ اس کے ساتھ دبی دبی ہنسی کی آواز۔ دہشت سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔۔۔ مجھے خیال آیا کہ یہاں کسی بدروح کا اثر ہے۔ بدحواس اور پریشان تو پہلے سے تھا، اٹھ کر اندھا دُھند بھاگ اٹھا۔ فوراً ہی سدا رام کا مانوس قہقہہ جنگل کی فضا میں گونجا اور اس نے درخت پر سے آواز دی:
"مجھے معلوم نہ تھا تم اِتنے ڈرپوک نکلو گے۔’
اُس کی یہ بات سُن کر مجھے ہنسی بھی آئی اور غصّہ بھی آیا۔ میں درخت کے پاس پہنچا۔ وہ کہنے لگا:
"زندگی میں پہلی بار کسی درخت پر چڑھا ہوں۔۔۔ ہُوا یہ کہ میں آرام سے لیٹا تھا۔ یکایک میری ناک میں شیر کی بُو آئی۔۔۔ پھر اردگرد درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے اور جھاڑیوں میں چُھپے ہوئے چھوٹے چھوٹے جانور نکل کر چیخنے اور بھاگنے دوڑنے لگے۔ شیر اسی طرف کو آ رہا تھا۔ میں نے اُس کے ہانپنے کی آواز بھی سُنی۔ اب کیا کرتا؟ مجبوراً اس درخت پر چڑھ گیا اور جان بچائی۔’
"تمہیں معلوم تھا کہ میں یہاں بیٹھا ہوں، پھر تم نے مجھے پریشان کیوں کیا؟’ میں نے مصنوعی غصّے سے کہا۔ "رات سر پر آ گئی۔ ہرن کو تو شیر ہڑپ کر گیا اور اسی لیے تمہاری جان بچ گئی۔ تم نے فائر کی آواز نہیں سُنی؟’
"مجھے تو کچھ سنائی نہیں دیا۔’
"اچّھا، اب نیچے تو اترو۔’
"یہی تو مشکل ہے۔’ وہ چلّایا۔ "اترنا میرے بس کی بات نہیں۔’
"میں کہتا ہوں سدا رام، مذاق نہ کرو۔ اندھیرا بڑھتا جا رہا ہے۔ جلدی نیچے اتر آؤ ہمیں ابھی کافی دُور بھی جانا ہے۔’
"سچ کہہ رہا ہوں، مجھ سے اترا نہیں جاتا۔’ اُس نے جواب دیا۔ "مجھے ڈر ہے کہ مَیں ضرور گر جاؤں گا اور میری کوئی ہڈی پسلی چٹخ جائے گی۔’
"خدا تمہیں سمجھے، آج تو تم نے مجھے بہت ہلکان کیا۔ ارے بھائی، تم تو جنگ لڑ چکے ہو۔ اپنی بہادری کی سینکڑوں داستانیں تم نے لوگوں کو سنائی ہیں، لیکن حال یہ ہے کہ درخت پر سے نیچے نہیں اترتے۔ ڈرتے ہو کہ چوٹ لگ جائے گی۔ فکر نہ کرو، گر بھی گئے، تو میں تمہیں سنبھال لوں گا! ورنہ ساری رات یہیں ٹنگے رہو۔ میں اب گاؤں جا رہا ہوں۔ صبح آدمیوں کو لے کر آؤں گا۔ وہی تمہیں اتاریں گے۔’
یہ کہہ کر میں چلنے کے لیے تیار ہوا۔
"ارے نہیں۔۔۔ بھگوان کے لیے مجھے یہاں اکیلے نہ چھوڑو۔ میں مر جاؤں گا۔’
"تم اکیلے نہیں ہو سدا رام۔’ مجھے اب مذاق سُوجھا۔ "تمہارے ساتھ جنگل کے ہزار ہا پرندے ہیں، سینکڑوں دوسرے جانور ہیں اور وہ شیر بھی ہے جو یقیناً ادھر ہی کہیں رہتا ہے۔ میں تو چلا۔’
"کیا واقعی تم مجھے چھوڑ کر جا رہے ہو؟’ وہ چیخا۔ "ارے نہیں بابا۔۔۔ ایسا نہ کرو، دیکھو میں اُترنے کی کوشش کرتا ہوں، تم مجھے طریقہ بتاتے جاؤ۔’
"تم خواہ مخواہ نخرے کر رہے ہو سدا رام، آنکھیں بند کرو اور نیچے اتر آؤ۔’
"سب سے پہلے اُس نے اپنا کوٹ اتار کر نیچے پھینکا، پھر جُوتے اور جرابیں۔ اس کے بعد درخت کے تنے کو گلے سے لپٹا کر نٹوں کی طرح پھسلتا ہوا نیچے آ گیا، لیکن اس بیہودگی سے کہ اس کی قمیص اور پتلون کے ٹکڑے ٹکڑے اڑ گئے۔ زمین پر آتے ہی وہ یوں بے سُدھ ہو کر لیٹ گیا جیسے بہت بڑی مہم سر کر کے آیا ہے۔’
"ذرا میرے کوٹ سے افیم کی ڈبیا تو نکالنا۔’ اُس نے کراہتے ہوئے کہا اور مَیں نے دل ہی دل بل کھا کر اُس کا کوٹ اٹھایا اور اندرونی جیب میں سے ڈبیا نکالی جس کے اندر روئی میں لپٹی ہوئی چند ننّھی ننّھی سیاہ گولیاں رکھی تھیں۔ ایک گولی کھا کر اُس کی جان میں جان آئی اور ہم دونوں ایک دوسرے پر ناراض ہوتے اور لڑتے جھگڑتے گاؤں پہنچے، تو وہاں الاؤ روشن ہو چکے تھے۔
اگلے روز ایک عجیب حادثہ پیش آیا جس نے گاؤں میں خوف کی لہر دوڑا دی کہ باید و شاید۔ مشرق کی جانب ایک ندّی تھی جہاں سے لوگ اپنی ضروریات کے لیے پانی لایا کرتے تھے اور گاؤں کی عورتیں وہاں جا کر کپڑے بھی دھو لیا کرتی تھیں۔ صبح سویرے بے چاری ایک بوڑھی عورت ندی پر گئی اور کپڑے دھونے لگی۔۔۔ اتنے میں ایک شیر آیا اور اسے اٹھا کر لے گیا۔ اس واردات کی خبر گاؤں میں دوپہر کو پہنچی، جبکہ دوسری عورتیں ندّی پر پانی لینے کے لیے گئیں۔ انہوں ںے دیکھا کہ ایک طرف دھلے ہوئے چند کپڑے پڑے ہیں اور قریب ہی تازہ خون بھی پھیلا ہوا ہے۔ ندّی کے کنارے گیلی مٹی میں شیر کے پنجوں کے تازہ نشان دیکھ کر یہ اندازہ کرنا کچھ مشکل نہ تھا کہ کیا واقعہ پیش آیا ہوگا۔ اس قسم کا حادثہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ کچھ لوگ اس عورت کی تلاش میں نکلے اور انہوں نے ندّی سے تقریباً تین میل کے فاصلے پر عین اسی جگہ جہاں گزشتہ روز میں نے شیر پر گولی چلائی تھی، اس عورت کی لاش اِس حالت میں پڑی پائی کہ درندے نے کھوپڑی اور ہاتھوں پیروں کے سوا بڑا حِصّہ ہڑپ کر لیا تھا۔ اس کے کپڑوں کی دھجّیاں بھی جابجا بکھری ہوئی دیکھی گئیں۔ گاؤں کی عورتوں نے رونا پیٹنا شروع کر دیا اور مردوں نے اس نئی آفت کا مقابلہ کرنے کے منصوبے بنانے شروع کیے۔ مَیں چونکہ نوعمر شکاری تھا اور اس سے پہلے کبھی آدم خور سے مقابلہ کرنے کی نوبت نہ آئی تھی، اس لیے لوگوں نے میرے پاس آنے کی ضرورت محسوس نہ کی، بلکہ میرے والد کی آمد کا انتظار کرنے لگے جو اُن دنوں دورے پر کہیں اور گئے ہوئے تھے۔ تاہم مَیں نے انہیں دلاسا دیا کہ جب تک والد نہیں آ جاتے میں اِس شیر کو تلاش کر کے ہلاک کرنے کی کوشش کروں گا، مگر کوئی شخص مجھے جنگل میں جانے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہ تھا۔
واقعہ یہ تھا کہ میں جتنا اس معاملے کی نزاکت پر غور کرتا، اتنا ہی مجھے اپنا قصور دکھائی دکھائی دیتا۔ یقیناً وہی شیر تھا جو میری گولی سے زخمی ہوا اور اب جوش انتقام میں انسانوں کو ایذا پہنچانے کی نیّت کر چکا تھا۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت تھی کہ آدم خوروں کی ہیبت میرے دل میں حد درجے بیٹھی ہوئی تھی اور اس کا باعث بھی آنکھوں دیکھا ایک ایسا واقعہ تھا جسے میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ 1918ء میں میرے والد ایک شیر کے شکار کے سلسلے میں دن کا چین اور رات کی نیند حرام کیے ہوئے تھے، لیکن وہ موذی اتنا چالاک اور ہوشیار تھا کہ ہر بار جُل دے کر نکل جاتا۔ اُن دنوں والد کے پاس اعشاریہ پانچ سو کی رائفل تھی۔ رات کو انہوں نے اِس شیر کو پھانسنے کے لیے جنگل میں ایک بچھڑا بندھوایا اور مچان پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگے۔ میرے علاوہ اُن کے ساتھ دو شکاری اور بھی تھے۔ شیر رات کے پچھلے پہر آیا اور بچھڑے کو زخمی کر دیا۔ والد نے فائر کیا۔ گولی شیر کو لگی مگر وہ بھاگ جانے میں کامیاب ہو گیا۔ لیکن والد کا خیال تھا کہ اعشاریہ پانچ سو رائفل کی 580 گرین وزنی گولی کھا کر شیر زیادہ دُور نہیں جا سکتا اور ضرور مر جائے گا! چنانچہ صبح کا اجالا پھیلتے ہی وہ اس "مردہ شیر’ کی تلاش میں نکلے۔
اس وقت صبح کے سات بجے تھے۔ اُس حِصّے میں جہاں شیر نے بچھڑے کو زخمی کیا تھا، خود شیر کے جسم سے نکلا ہوا خون بھی جما ہوا نظر آیا۔ جنگل میں سخت کُہر پڑ رہی تھی اور دس بارہ فٹ کے فاصلے پر بھی کچھ نظر نہ آتا تھا۔ اس سے آگے ایک پہاڑی تھی اور زخمی درندہ اس پہاڑی کے دامن تک آیا تھا۔ والد کا تجربہ یہ تھا کہ درندے گولی سے زخمی ہونے کے بعد پہاڑیوں پر نہیں چڑھتے، بلکہ جھاڑیوں میں چھپ کر آرام کرتے ہیں۔ چناچنہ انہوں نے جھاڑیاں دیکھنی بھالنی شروع کیں، مگر شیر وہاں بھی نہ تھا۔ اب ہم نالکا وادی میں داخل ہوئے۔ اتنی دیر میں کُہر خاصی چھٹ چکی تھی اور دور کا منظر بخوبی ہمارے سامنے تھا۔ ایک پتلی سی پگڈنڈی پر ہم قطار بنائے جا رہے تھے۔
والد صاحب آگے آگے تھے اور اُن کے پیچھے بچھڑے کا مالک۔ میں اور بقیّہ دونوں شکاری اُن سے تقریباً دس گز پیچھے چل رہے تھے۔ نالکا وادی کے ایک جانب بانس کے درختوں کا گھنا جُھنڈ تھا جس کے کنارے پر سال کا ایک عظیم الشان درخت فخر سے سینہ تانے کھڑا تھا۔ والد اس درخت کے قریب پہنچے اور اس کی شان و شوکت دیکھنے کے لیے رُک گئے۔ ہم لوگ اُس وقت لمبی گھاس میں سے گزر رہے تھے، دفعتہً شیر کی ہولناگ گرج اس جُھنڈ میں سے بلند ہوئی، پھر بجلی کی مانند ایک قد آور شیر لپکا اور پلک جھپکنے میں بدنصیب بچھڑے والے کو منہ میں دبا کر جدھر سے آیا تھا، اسی طرف کو دوڑا گیا۔ اتنا یاد ہے کہ والد نے یکے بعد دیگرے دو فائر کیے۔ بارود کی بُو اور دھواں فضا میں پھیلا اور اس کے ساتھ ہی شیر کی ایک اور گرج سنائی دی، پھر میں نے اُن کی آواز سُنی وہ مجھ سے کہہ رہے تھے: "خبردار، جہاں ہو وہیں رُک جاؤ۔ آگے نہ بڑھنا۔’
دس منٹ گزر گئے۔ اس کے بعد والد کی آواز دوبارہ آئی۔ اب وہ ہمیں آگے آ جانے کا حکم دے رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں گولیاں شیر کو لگی ہیں اور وہ یقیناً مر گیا ہوگا۔ آدھ گھنٹے کی تلاش کے بعد ایک جگہ ہم نے اُس کی اور آدمی کی لاشیں قریب قریب پڑی پائیں۔ بچھڑے والے کی لاش دیکھ کر میرے بدن پر کپکپی سی طاری ہو گئی۔ شیر کو اگرچہ اُس کے گوشت سے پیٹ بھرنے کا موقع نہ ملا تھا! تاہم اُس نے آدمی کو اپنے پنجوں اور دانتوں سے اُدھیڑ کر رکھ دیا تھا۔ والد میری حالت دیکھ کر کچھ پریشان ہوئے اور جلدی سے ایک طرف لے گئے۔ میری عُمر اُن دنوں آٹھ نو سال کی تھی اور یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے یہ رُوح فرسا ڈرامہ دیکھا۔
والد نے مجھے یہ نصیحت کی تھی کہ آدم خور کا شکار سب سے مشکل ہے۔
اور اس کے لیے شکاری کے پاس طویل تجربہ ہونا چاہیے اور جنگل میں تنہا جانے والا شخص کبھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ ہمیشہ ایک دو نڈر تجربے کار شکاریوں کو ساتھ رکھنا چاہیے۔ چونکہ مَیں اپنے آپ کو اِس نئے واقعے کا ذمے دار سمجھتا تھا، اس لیے دل میں یہ خواہش کروٹیں لینے لگی کہ مجھ ہی کو اس آدم خور کا قِصّہ پاک کرنا چاہیے۔ ساتھ دینے کے لیے سدا رام کے علاوہ کوئی دوسرا شخص میرے ذہن میں نہ تھا۔ شام کے وقت جبکہ میں اپنی رائفل صاف کر رہا تھا، سدا رام میرے پاس آیا اور کہنے لگا:
"مجھے تو یہ حرکت اسی شیر کی معلوم ہوتی ہے جس پر تم نے کل شام گولی چلائی تھی۔ کیا خیال ہے؟’
"معلوم تو ایسا ہی ہوتا ہے۔’ میں نے ندامت سے کہا۔ "لیکن اب ہمیں کچھ کرنا چاہیے۔ ورنہ یہ شیر تو گاؤں والوں کے لیے مستقل آفت بن جائے گا۔’
"ہم کچھ نہیں کرسکتے، تمہیں اپنے والد کے آنے کا انتظار کرنا چاہیے۔’ سدا رام نے فیصلہ کیا۔
"مگر قصور تو میرا ہے۔’ میں نے جرح کی۔ "میں اُس شیر پر گولی چلا کر اُسے زخمی نہ کرتا، تو بات یہاں تک کیسے پہنچتی؟ آخر اس میں حرج ہی کیا ہے۔ ممکن ہے وہ آج ہی رات گارے پر پیٹ بھرنے آئے۔ مَیں وہاں مچان بندھواتا ہوں اور تم میرے ساتھ اس مہم پر چلو گے۔’
"نہ بابا، میں تمہیں وہاں جانے نہ دوں گا اور نہ خود جاؤں گا۔’ سدا رام نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔ "بھگوان نہ کرے تمہیں کچھ ہو گیا، تو تمہارے والد مجھے کچا ہی چبا جائیں گے۔’
"میرے والد آدم خور نہیں۔۔۔’ میں نے کہا۔ "وہ ایک بہادر آدمی ہیں اور مجھ سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں کہ مَیں بُزدلی نہ دکھاؤں۔ ذرا سوچو تو جب انہیں پتہ چلے گا کہ مَیں نے آدم خور مارا، تو کس قدر خوش ہوں گے۔’
"خوش ہوں یا نہ ہوں، مَیں ہر گز تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا۔’ اُس نے سنجیدگی سے کہا۔
مَیں سمجھ گیا کہ اگر اس پر مزید زور دیا، تو وہ اور ضد کرے گا۔ اب اُس کے جذبات کو بیدار کرنے کی ضرورت تھی۔ چنانچہ مَیں نے اُسے ایسے آدم خوروں کے قِصّے سنانے شروع کیے جنہوں نے بستیوں کی بستیاں ویران کر ڈالی تھیں اور سینکڑوں افراد کو ہڑپ کر گئے تھے۔ مَیں نے گلوگیر لہجے میں تقریر شروع کی اور آخر میں کہا:
"سدا رام، ذرا غور کرو، آخر ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے کب تک بیٹھے رہیں۔ وہ سب کو پھاڑ کھائے گا۔ آج اُس نے اُس بڑھیا کو کھایا ہے، کل کسی اور کی باری آئے گی اور پرسوں کوئی اور اُس کا نوالہ بنے گا۔ کیا تم چاہتے ہو کہ گاؤں کے سب بچّے یتیم ہو جائیں اور تمام عورتیں رانڈ بیوہ بن جائیں۔ کیا ہم اپنی زندگی داؤ پر لگا کر ان سب کی جانیں نہیں بچا سکتے؟’
سدا رام کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، اُس نے گلوگیر لہجے میں کہا:
"ٹھیک ہے، مَیں تمہارے ساتھ جانے کو تیار ہوں۔’
اگر کوئی شخص مجھ سے پُوچھے کہ دُنیا میں سب سے خطرناک کام کونسا ہے، تو مَیں بلا تامّل کہہ دوں گا کہ کسی زخمی اور آدم خور شیر کا شکار کھیلنا۔ درندہ جب ان دونوں حالتوں سے گزر رہا ہو، تو اُس کے غیظ و غضب، جوشِ انتقام اور مکّاری کی انتہا نہیں رہتی۔ ہمارے ہاں اس قسم کے درندے کو مارنے کے چار طریقے رائج ہیں۔ پہلا طریقہ زیادہ آسان اور خاصا محفوظ ہے اور اکثر شکاری اس پر عمل کرتے ہیں۔ یعنی کسی سدھے ہوئے ہاتھی پر سوار ہو کر درندے کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ بعض اوقات اکیلا ہاتھی درندے کا سامنا کرتے ہوئے کتراتا ہے، اس لیے شکاری ہمیشہ اپنے ساتھ تین یا چار ہاتھی لے کر جنگل میں نکلتا ہے۔ دوسرا طریقہ ہانکے کا ہے۔ اس میں شکاری بہت سے مویشیوں کا ریوڑ لے کر جنگل کے اُس حِصّے میں جاتا ہے جہاں اُسے شک ہوتا ہے کہ درندہ چُھپا ہوا ہے۔ ریوڑ کے ساتھ ساتھ کئی آدمی ڈھول اور ٹین کے کنستر پیٹتے ہوئے چلتے ہیں۔ اس غل غپاڑے اور بے پناہ شور سے درندہ گھبرا کر کمیں گاہ سے باہر نکلتا ہے اور شکاری کی بندوق کا نشانہ بن جاتا ہے۔ دوسرا طریقہ کچھ زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ مویشی تقریباً ایک میل کے فاصلے ہی سے شیر کی بُو پا کر اُدھر بڑھنے سے گریز کرتے ہیں اور اُنہیں مار مار کر وہاں لے جانا خاصی پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ تیسرا طریقہ چند شکاری کُتّوں کو لے کر درندے کو ڈھونڈ نکالنے کا ہے۔ مگر ہے بے حد خطرناک۔ ہر کُتّے پر بہرحال اعتماد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کس وقت ڈر کر بھاگ نکلے اور شکاری کو اپنی جان کے لالے پڑ جائیں۔ بہادر، نڈر اور تجربے کار کُتے ہی ایسی مہم سر کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ چوتھا طریقہ جس پر بہت کم شکاری عمل کرتے ہیں، یہ ہے کہ دو تین آدمی اس علاقے میں بے دھڑک گُھس جائیں جہاں شیر کی موجودگی کا امکان ہو، شیر اس مداخلت پر ناراض ہو کر اپنے ٹھکانے سے باہر آ جائے گا اور پھر ان میں سے کوئی آدمی بھی اُسے ہلاک کر سکتا ہے۔ یہ طریقہ بے حد مشکل اور جان لیوا ہے، کیونکہ شکاری اگر ذرا بھی چُوکے یا نشانہ غلط ہو جائے، تو شیر اُسے آناً فاناً اٹھا لے جائے گا، لیکن سچ پوچھیے، تو شکار کا اصل لُطف اور مہم کا حقیقی مزا ہے اسی چوتھے طریقے پر عمل کرنے میں۔
ایک اور طریقہ بھی ہمارے ہاں رائج ہے وہ مچان پر بیٹھ کر انتظار کی گھڑیاں گننے کیا۔ اس طریقے میں شکاری بارہ چودہ فٹ اونچے مچان پر بیٹھا ہے اور کچھ فاصلے پر کسی بکری یا بچھڑے کو درخت سے بندھوا دیتا ہے۔ شیر کا جی چاہے تو اس طرف آ نکلے اور شکاری خوش نصیب ہو، تو اسے ہلاک کرے۔ ورنہ یہ طریقہ کچھ زیادہ دلچسپ اور کامیاب ثابت نہیں ہوتا۔ شکاری کو مچان پر گھنٹوں دَم سادھے بیٹھنا پڑتا ہے اور پھر بھی درندہ خفیف سی آہٹ پر چوکنّا ہو جاتا ہے۔
آپ یہ سن کر حیران ہوں گے اور شاید میری حماقت پر ہنسیں کہ میں نے کم سنی اور ناتجربہ کاری کے باوجود تیسرے طریقے پر چلنے کا فیصلہ کیا۔ مجھے تو شوق اس بات کا تھا کہ والد کی غیر حاضری میں آدم خور کو ہلاک کر کے اپنی بہادری کا سکہ جماؤں اور لوگ میرے اس کارنامے پر تحسین و آفرین کے ڈونگرے برسائیں۔
پہلا انسانی شکار مارنے کے بعد شیر وہاں سے یوں غائب ہوا کہ تلاش بسیار کے باوجود اُس کا کوئی سراغ نہ ملا۔ تین چار روز تک تو گاؤں والے خوفزدہ رہے اور انہوں نے ندّی یا گاؤں سے زیادہ فاصلے پر جانا چھوڑ دیا تھا۔ مگر رفتہ رفتہ پہلے کی سی چہل پہل شروع ہو گئی۔ میں نے اور سدا رام نے شیر کو ڈھونڈنے کے لیے جنگل کا چپّہ چپّہ چھان مارا اور کامل دس دن تک دن کو آرام نہ رات کو پلک جھپکائی۔ میں نے محسوس کیا کہ سدا رام غیر معمولی طور پر چُپ چُپ ہے۔ میں نے اسے تھکن پر محمول کیا، کیونکہ خود بھی میرا یہی حال تھا۔
گیارھویں دن والد کا خط مجھے ملا کہ وہ تین روز بعد آ رہے ہیں۔ اب تو میری مایوسی کی انتہا نہ رہی۔ اُن کے آنے کے بعد اگر شیر نے کوئی حرکت کی تو ظاہر ہے والد ہی اُس سے دو دو ہاتھ کریں گے اور مہم میں شاید مجھے ساتھ نہ لے جائیں۔ سہ پہر کے وقت میں اپنے کیمپ میں کُرسی پر بیٹھا انہی خیالوں میں گُم تھا کہ گاؤں کی طرف سے عورتوں اور بچّوں کے چیخنے کی آوازیں سنائی دیں۔ سدا رام بھی میرے قریب ہی بیٹھا ہوا تھا۔ معاً اُس کے منہ سے یہ جُملہ نکلا: "لیجیے، پھر کوئی واردات ہوئی اور وہ موذی دوبارہ اِس علاقے میں آن پہنچا۔’ معلوم ہوا کہ پندرہ بیس عورتیں اور بچّے ندی پر نہانے اور کپڑے دھونے گئے تھے کہ وہان انہوں نے ایک بڑے باگھ (شیر) کو پھرتے دیکھا۔ اُس نے ایک عورت کو پکڑنے کی کوشش کی، مگر دوسری عورتوں نے غل مچایا، تو وہ بھاگ گیا اور جھاڑیوں میں چُھپ کر غرّانے لگا اور اب بھی وہیں موجود ہے۔
شام کا جھٹپٹا چھانے لگا تھا کہ ہم دونوں ندّی کنارے پہنچے۔ ریت اور کیچڑ میں شیر کے تازہ پنجوں کے نشانات موجود تھے جو ہماری رہنمائی مشرق کی جانب پھیلی ہوئی گھاس کی طرف کر رہے تھے۔ پھر مَیں نے اُس کی ہلکی سی جھلک سرسراتی ہوئی گھاس میں دیکھی، وہ دبے پاؤں ہماری جانب آ رہا تھا۔ سدا رام کے لبوں پر نمودار ہونے والی وہ آخری مغموم مسکراہٹ مجھے اب تک یاد ہے اور مجھے حیرت ہے کہ اُس نے بچنے کی کوشش کیوں نہ کی۔ ایک ہولناک للکار کے ساتھ جس سے زمین تھرّا گئی، بُھوکا درندہ گھاس میں سے نکل کر سدا رام پر لپکا اور ایک ہی وار میں اُسے نیچے گرا دیا۔ دوسرے لمحے اُس نے سدا رام کی ٹانگ جبڑے میں دبائی اور ندّی چکّر کاٹ کر اسے جھاڑیوں کی طرف گھسیٹنے لگا۔ میں اپنی جگہ دم بخود کھڑا تھا۔ برسوں برس پہلے کا دیکھا ہا وہی خونیں منظر ایک بار پھر سامنے تھا۔ یکایک کسی غیبی قوّت نے مجھے ہوشیار کیا، فوراً ہی میری طاقت ور رائفل حرکت میں آئی اور اس کی پہلی ہی گولی نے شیر کو ڈھیر کر دیا، مگر وہ ظالم مرتے مرتے بھی اپنے ساتھ سدا رام کو مار گیا۔ یُوں اس نیک شخص نے اپنی جان دے کر اس خوں آشام درندے سے گاؤں والوں کو نجات دلا دی۔

Popular Posts