جمعرات، 18 جولائی، 2019

امبل میرو کا پُراسرار بُھوت
 مقبول جہانگیر
یہ واقعہ میری طویل شکاری زندگی کے اُن عجیب اور لرزہ خیز واقعات میں سے ہے جنہیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس واقعے کی صحیح پوزیشن سمجھنے کے لیے آپ کو آندھرا پردیش کے جنگلوں میں جانا پڑے گا۔ ضلع چتّوڑ میں بھاکر پت، چمالا اور مامندر کے تینوں جنگل قریب قریب واقع ہیں۔ ان کے کناروں پر بہت سے گاؤں اور بستیاں آباد ہیں۔ یہ جنگل اپنے قدرتی مناظر کے اعتبار سے جتنے حسین ہیں، اس سے کہیں زیادہ خطرناک
بھی ہیں۔ درندوں کے علاوہ یہاں ریچھ بھی پائے جاتے ہیں۔ مجھے اس طرف جانے کا بارہا اتفاق ہوا ہے، لیکن شکار کے لیے نہیں۔ مَیں جنگل کے معصوم جانوروں کو خواہ مخواہ ہلاک کرنا شکار کی اسپرٹ کے خلاف سمجھتا ہوں۔ بعض شکاریوں کا وطیرہ ہے کہ وہ درندے کو دیکھتے ہی فائر جھونک دیتے ہیں۔ البتہ آدم خور چیتوں، شیروں اور ہر اُس جانور کا دشمن ہوں جو انسان کو ہڑپ کرنے یا مار ڈالنے پر اتر آتا ہے۔ میں جنگل کی زندگی کا عاشق ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ جانوروں سے بَیر باندھنے کے بجائے انہیں اپنا دوست بناؤں۔ اس مختصر تمہید کے بارے میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔
ایک روز ہمارے چیتے کا پالتو بچہ اچانک مَر گیا۔ میری بیوی نے اُسے بڑے شوق سے پالا تھا۔ بچّے کی موت سے میری بیوی کو سخت صدمہ پہنچا، لیکن مَیں نے کہا، فکر نہ کرو۔ ایک دو روز تک جنگل سے دوسرا بچّہ پکڑ لاؤں گا۔ چنانچہ آندھرا پردیش کے گنجان اور سینکڑوں میل میں پھیلے ہوئے جنگلوں میں میرے آنے کی صرف یہی وجہ تھی۔ اس موسم میں مادہ اکثر بچّے دیتی ہے، اس لیے میرا خیال تھا کہ معمولی سی تلاش کے بعد کوئی بچّہ پکڑنے میں کامیاب ہو جاؤں گا اور بندوق چلائے بغیر یہاں سے چل دوں گا، لیکن کئی دن گزر گئے، بیس بیس میل جنگل میں پھرنے کے باوجود گوہرِ مقصود ہاتھ نہ آیا۔ ایک روز مجھے معلوم ہوا کہ رنگام پت کا ایک شخص تھانڈا جو گزشتہ دو ہفتوں سے غائب تھا، اس کی ہڈیاں مِل گئی ہیں۔۔۔ یہ شخص اِردگِرد کے دیہات میں جنگلی بوٹیاں بیچتا اور جادو ٹونا بھی کرتا تھا۔ اس کے غائب ہونے سے بُھوت پریت کے قائل دیہاتیوں نے قیاس کیا کہ تھانڈا کو کسی بُھوت نے مار ڈالا ہے۔ تھانڈا کا تھیلا اور سامان فارسٹ گارڈوں نے ایک پہاڑی چشمے کے عقب میں پڑا پایا تھا۔ تھوڑی سی تلاش کے بعد اس کی ہڈّیاں اور گلا سڑا گوشت بھی مَل گیا۔ فارسٹ گارڈوں نے فورا رنگام پت کی پولیس چوکی کو اطلاع بھیجی اور پولیس کی رسمی تفتیش کے بعد یہ معاملہ ختم ہو گیا۔
مَیں اسی وقت سمجھ گیا کہ ان آبادیوں پر بلا نازل ہوا ہی چاہتی ہے، کوئی آدم خور درندہ اِدھر آ نکلا ہے اور جب تک وہ پچاس ساٹھ انسانوں کے گوشت اور خون سے اپنا پیٹ نہ بھر لے گا، کہیں اور نہ جائے گا۔ بہرحال مَیں نے چیتے کے بچّوں کی تلاش کا کام تو ملتوی کیا اور کوئی نئی خبر سننے کا بے چینی سے انتظار کرنے لگا۔ آدم خور کی خبر سُن کر میری حالت بالکل اُس پہلوان کی سی ہو جاتی ہے جو کُشتی لڑنے کے لیے اکھاڑے میں اُترنے کی تیاریاں کر رہا ہو۔
مجھے انتظار کی کوفت زیادہ دیر برداشت نہ کرنا پڑی۔۔۔ اگلے ہی روز سہ پہر کے وقت پولی بونو کے مقام پر ایک عجیب حادثہ پیش آیا۔ پولی بونو گاؤں، رنگام پت سے کوئی سات میل دُور تھا۔ جنگل میں سات بیل گاڑیاں گزر رہی تھیں، جب وہ نرشیا کے قریب پہنچیں، جہاں سڑک سے کوئی دو فرلانگ ہٹ کر ایک قدرتی تالاب تھا، تو گاڑی بانوں نے تالاب میں نہانے کا پروگرام بنایا۔ انہوں نے اپنی اپنی بیل گاڑیاں ایک جگہ روکیں اور آپس میں ہنسی مذاق کرتے ہوئے تالاب کی طرف چلے۔ تھوڑی دیر بعد نہانے کے بعد وہ تالاب سے باہر نکلے اور بڑ کے درخت کے نیچے بیٹھ کر بیڑیاں پینے لگے۔ بیڑیاں ختم کر کے وہ اُٹھے اور بیل گاڑیوں کی طرف جانے لگے، وہ ایک دوسرے کے پیچھے چَل رہے تھے، لیکن جب وہ گاڑیوں پر بیٹھے، تو دفعتہً انہیں احساس ہوا کہ ان کا ایک ساتھی غائب اور تعداد میں سات کے بجائے وہ چھ رہ گئے ہیں۔ انہوں نے سوچا شاید پُتّو رفع حاجت کے لیے کہیں رُک گیا ہے، وہ دیر تک انتظار کرتے رہے۔ لیکن وہ نہ پلٹا، تو انہیں سخت تشویش ہوئی۔ سورج آہستہ آہستہ مغرب کی طرف ڈھل رہا تھا، تھوڑی دیر بعد جنگل تاریکی میں ڈوب جائے گا، وہ دوبارہ گاڑیوں سے اُترے اور اِدھر اُدھر پھیل کر اپنے ساتھی کو آوازیں دینے لگے۔
"پُتّو۔۔۔ پُتّو۔۔۔ ارے کہاں چلے گئے؟ پُتّو۔۔۔ پُتّو۔۔۔’
اس چیخ پکار کا کوئی جواب نہ مِلا۔ پُتّو نہ جانے کہاں غائب ہو گیا تھا۔ تالاب پر دوبارہ جانے کی ہمّت کسی میں نہ تھی۔ وہ طرح طرح کی قیاس آرائیاں کر رہے تھے۔ پُتّو کو کسی بَدروح نے پکڑ لیا ہوگا، ناگ دیوتا نے ڈس لیا ہے اور یہ بھی تو ممکن ہے کہ اسے کسی شیر یا چیتے یا ریچھ ہی نے مار ڈالا ہو۔ تالاب پر جانے کے لیے کوئی آمادہ نہ تھا۔ مایوس ہو کر انہوں نے پُتّو کی بیل گاڑی وہیں چھوڑی اور اپنی اپنی گاڑیاں تیز دوڑاتے ہوئے گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے۔ پُتّو کے بیل اپنے مالک کی راہ تکتے رہے۔ آدھی رات کو جب اوس پڑنے لگی، تو بیل سردی سے کانپنے لگے اور اپنے مالک کا خیال چھوڑ کر وہ بھی گاؤں کی طرف چل پڑے۔ اور صبح چار بجے وہ پُتّو کے گھر تک پہنچ گئے۔
اس روز گاؤں والے دن بھر جنگل میں پھر کر پُتّو کی تلاش کرتے رہے۔ مگر بے سود۔ کسی شیر یا چیتے نے اسے کھایا ہوتا، تو اس کی ہڈّیاں یا بچا کھچا گوشت ملتا یا اس کو کوئی کپڑا ہی نظر آتا، لیکن سمجھ میں نہ آتا تھا کہ بدنصیب گاڑی بان کو آسمان کھا گیا ہے یا زمین نکل گئی ہے۔
پُتّو کی پراسرار گم شدگی پر قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ دو دن بعد پھر ایسا ہی حادثہ پیش آیا۔ اس مرتبہ گاؤں کا ایک بنیا غائب ہوا، وہ رنگام پت سے تیرہ میل دُور ایک دوسرے گاؤں میں اناج اور ضرورت کا دوسرا سامان لے کر جا رہا تھا۔ اس نے سامان گدھوں لاد رکھا تھا۔ پولی بونو کے مقام پر اس نے کھانا کھایا اور آگے چل پڑا۔ ساتویں میل پر جنگل میں بانس کاٹنے والے ایک لکڑہارے نے اسے کنوئیں میں سے پانی نکال کر پلایا، اس کے بعد وہ بنیے کو دوبارہ کسی نے نہ دیکھا۔ اس کے گدھے جنگل میں بھٹکتے ہوئے پائے گئے۔ سامان بدستور ان کی پشت پر لدا ہوا تھا۔
چوتھے روز پولی بونو کا وہ لکڑ ہارا بھی غائب ہو گیا جس نے بنیے کو پانی پلایا تھا۔ وہ دن بھر مزدوروں کے ساتھ جنگل میں کام کرتا رہا اور سورج ڈوبنے سے تھوڑی دیر پہلے جب سب گاؤں کی طرف چلے، تو لکڑہارا مزدوروں میں شامل نہ تھا۔۔۔ تلاشِ بسیار کے باوجود اس کا کوئی سراغ نہ مِلا۔ البتّہ ایک درخت کے قریب اس کی کلہاڑی اور سفید پگڑی پڑی مل گئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ لکڑہارے نے سر سے پگڑی اُتار کر رکّھی اور اس کے بعد ہی وہ غائب ہو گیا۔
اس قسم کے پُراسرار واقعات پے درپے رونما ہوئے۔ تو بھاکر پت،چمالا اور مامندر کی آبادیوں میں سنسنی پھیل گئی اور لوگ اعلانیہ کہنے لگے کہ یہ کسی درندے کا کام نہیں، بلکہ کوئی بُھوت ہے جو انسانوں کی اٹھا کر لے جاتا ہے۔ درندہ اگر ایسی حرکت کرتا، تو اس کے پنجوں کے نشان، خون کے دھبّے یا کھائی ہوئی لاش کے کچھ حِصّے تو مِلتے۔ مگر ان میں سے کوئی نشان نہ پایا گیا۔ لوگوں نے گاؤں سے باہر نکلنا چھوڑ دیا۔ اکیلا دُکیلا آدمی تو جنگل کا رُخ کرنے کی جرأت ہی نہ کرتا تھا۔ اگر کہیں جانا ضروری ہوتا، تو لوگ چار چار پانچ پانچ کی ٹولیوں میں جاتے اور ایک دوسرے کو تنہا ہرگز نہ چھوڑتے تھے۔ یہ صورتِ حال محکّمہ جنگلات کے لیے بڑی نازک تھی۔ افسروں نے پولیس کو خبردار کیا، پولیس کے کچھ آدمی آئے، انہوں نے بھی جنگل کا کونا کونا چھان مارا، مگر معمولی سا سراغ بھی نہ مِل سکا۔۔۔ بھلا بُھوت پریت سے پولیس کا کیا واسطہ؟ بستیوں کے وہ لوگ جن کا گزارہ ہی جادو ٹونے پر تھا، بے چارے دیہاتیوں کو مسلسل ڈرا رہے تھے کہ اگر اتنا روپیہ دان نہ کیا گیا، اتنی بکریوں کا بلیدان نہ کیا گیا تو اتنی شراب نہ پیش کی گئی، تو یہ نادیدہ بلا ایک ایک کر کے سب کو ہڑپ کر جائے گی۔۔۔ ایک جادُوگر نے تو یہاں تک کہا کہ گاؤں والے کسی بچّے کی قربانی دے دیں تو یہ بلا ٹل جائے گی۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ اس سے پہلے بھی یہ لوگ اس قسم کی قربانیاں دیتے رہے ہیں، تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ جس جادُوگر نے یہ رائے دی تھی اس کا نام کرشناپا تھا۔ مَیں نے پولیس کے دفعدار سے کہا کہ اس منحوس جادُوگر کو حوالات میں بند کیا جائے اور اگر گاؤں کا کوئی بچّہ گم ہو، تو کرشنا پھانسی پر لٹکا دیا جائے، لیکن پولیس نے میرے مشورے پر عمل نہ کیا۔ آخر جس بات کا مجھے کھٹکا تھا، وہ ہو کر رہی، چند روز بعد چندراگری کے مقام پر نو سال کا ایک اچُھوت لڑکا گُم ہو گیا۔
چندراگری ایک خوبصورت اور چھوٹی سی بستی رنگام پت سے چھ میل دُور واقع ہے۔ یہاں پیر کے روز بازار لگتا تھا اور اِردگِرد کے گاؤں اور آبادیوں سے لوگ خرید و فروخت کے لیے آتے تھے۔ نو سالہ ادیراج بھی اپنی ماں کے ساتھ وہاں آیا اور پھر اس کا پتا نہ چلا۔ بچّے کی گمشدگی پر ماں دیوانی ہو گئی اور اسے کئی روز تک تلاش کرتی پھری۔ آخر یہ معاملہ پولیس کے علم میں لایا گیا۔ پولیس کے سب انسپکٹر نے سب سے پہلے کرشناپا جادُوگر کے مکان کی تلاشی لی۔ اسے شبہ تھا کہ بچّے کو اغوا کر کے بلیدان کر دیا گیا ہے اور شاید اس کے خون آلود کپڑے، ہاتھ، پاؤں اور انتڑیاں وغیرہ مل جائیں، کیونکہ جادو ٹونے کے معاملات میں انسانی اعضا جادوگروں کے بہت کام آتے تھے، لیکن پوری چھان بین کرنے کے باوجود لڑکے کا کوئی پتا نشان نہ ملا۔ پولیس انسپکٹر کو کرشناپا پر بہرحال شک تھا، اس کا دل گواہی دیتا تھا کہ واردات میں اس بدمعاش کا ضرور ہاتھ ہے۔ چنانچہ وہ اسے ہتھکڑی لگا کر چوکی پر لے گیا اور ایک ہفتے تک اس سے اِقبالِ جرم کرانے کی کوشش کرتا رہا، مگر جادوگر نے کچھ نہ اُگلا۔ مایوس ہو کر کرشناپا کو چھوڑ دیا، لیکن اس تاکید کے ساتھ کہ وہ پولیس کی اجازت کے بغیر اپنے گھر سے باہر نہیں جائے گا۔ کرشناپا نے چوکی سے نکلتے ہوئے پولیس انسپکٹر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا:
"لومڑی خواہ کتنی چالاک ہو، مگر گیدڑ کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔’
یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور انسپکٹر کئی دن تک سوچتا رہا کہ ان الفاظ کا آخر مطلب کیا ہے۔ اگلے روز رنگام پت اور پولی بونو کے درمیانی علاقہ کی رہنے والی ایک عورت غائب ہو گئی۔ اس کا خاوند صبح سویرے مویشیوں کو چرانے جنگل میں گیا۔ بہت سے لوگ اپنے اپنے مویشیوں کو لے کر جاتے تھے۔ دوپہر کو اس عورت نے خاوند کے لیے روٹی تیار کی اور ایک برساتی نالے کے کنارے کنارے چلتی ہوئی پیپل کے ایک درخت تک جا پہنچی۔ نالا اس مقام پر تیس فٹ گہرا تھا۔ اس کے بعد عورت کا پتہ نہ چلا۔ بُھوک کے باعث بیتاب ہو کر خاوند اپنی عورت کو دل میں بُرا بھلا کہتا گھر پہنچا، تو اس کی چھوٹی لڑکی نے بتایا کہ ماں تو بہت دیر ہوئی روٹی لے جا چکی ہے۔
خاوند نے یہ سُنا، تو فوراً پُراسرار بُھوت کی کہانیاں اس کے ذہن میں گونجنے لگیں۔ اس نے چند اور آدمیوں کو ساتھ لیا اور بیوی کی تلاش میں نالے تک جا پہنچا۔ پیپل کے بڑے درخت سے آدھ میل دُور مٹّی کے برتن ٹوٹے پائے گئے جن میں وہ روٹی لے کر گئی تھی، لیکن خود اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔
مَیں ان دنوں اپنے ایک ہندو دوست ویوا کے ساتھ ناگا پٹلا کے فارسٹ بنگلے میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ناگا پٹلا، پولی بونو جانے والے راستے پر رنگا پت سے ایک میل دُور واقع ہے اور قریب ہی دریائے کلیانی بہتا ہے۔ ان تمام واقعات کی اطلاع مجھے بنگلے کے چوکیدار سے ملتی رہتی تھی۔ میں سوچتا تھا کہ یہ معاملہ کیا ہے، لیکن عقل کام نہ کرتی تھی۔ اس دوران میں چوکیدار نے مجھے بے شمار کہانیاں سنا ڈالیں جن میں حقیقت کم اور جھوٹ زیادہ تھا۔ ایک رات چوکیدار ہمارے پاس بیٹھا حسب معمول گاؤں والوں کے قصّے بیان کرتا رہا تھا کہ دریا کی طرف سے چیتے کے گرجنے کی آواز سنائی دی۔
"صاحب، یہ چیتا بول رہا ہے۔’ چوکیدار نے سہم کر کہا۔
"ہاں ہمیں معلوم ہے۔ خاموش رہو۔’ ریوا نے اسے ڈانٹ دیا:
"جاؤ، اپنی کوٹھڑی میں۔۔۔’
چوکیدار کے جانے کے بعد میں نے دیوا سے کہا: "چیتے کی آواز سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس وقت سخت بھوکا ہے اور کسی شکار کی تلاش میں گھوم رہا ہے۔’
دیوا کے چہرے پر دہشت کی علامات نمودار ہوئیں۔ اس نے بنگلے کی چار دیواری کا جائزہ لیا اور بولا: چیتا ان دیواروں کو آسانی سے پھلانگ کر اندر آ سکتا ہے، ہمیں آج اندر کمرے میں سونا چاہیے۔’
ہمارے بستر اندرونی کمرے میں بچھا دیے گئے۔ چیتا معمولی معمولی وقفوں کے بعد آدھی رات تک بولتا رہا۔ کمرے کے اندر حبس بہت تھا اور چوہے مسلسل پریشان کر رہے تھے۔ کچھ فاصلے پر ایک موٹا سا چوہا چند لمحے تک چُوں چُوں کرنے کے بعد یکایک خاموش ہو گیا۔ چوہے کی آواز میں ایسا کرب تھا کہ دیوا کہنے لگا:
"یہ چوہا اس طرح کیوں چیخ رہا تھا؟’
شاید کسی سانپ نے اُسے منہ میں دبوچ لیا ہے۔’ میں نے جواب میں کہا۔
دیوا سانپ سے بے حد ڈرتا تھا، وہ فوراً بستر سے اُٹھا:
مَیں تو برآمدے میں جاتا ہوں۔ اَب مجھ سے یہاں سویا نہیں جائے گا۔’
ہم نے اپنے اپنے بستر اٹھائے اور برآمدے میں جا کر لیٹ گئے اور تھوڑی دیر بعد آنکھ لگ گئی۔ پَو پھٹنے سے کچھ دیر پہلے دفعتہً میری آنکھ کھلی۔ میری چھٹی حِس کسی انجانے خطرے کا اعلان کر رہی تھی۔ مَیں نے جلدی سے سرہانے رکھی ہوئی ٹارچ روشن کی اور رائفل اٹھا لی۔ دیوا بے خبر سو رہا تھا۔ معاً ایسی آواز آئی جیسے کوئی شخصن دیوار کُھرچ رہا ہے۔ مَیں نے روشنی اِدھر اُدھر پھینکی تو آواز یک لخت بند ہو گئی۔ میں دبے پاؤں اُٹھا اور رائفل سنبھال کر برآمدے سے باہر آیا۔ ٹارچ بُجھا دی اور ایک ستون کے پیچھے چُھپ کر کھڑا ہو گیا۔ دُور کہیں جنگلی مور چیخ رہا تھا۔
می۔۔۔ آ۔۔۔ او۔۔۔ می آ۔۔۔او۔۔۔ او۔۔۔ پھر کسی ہرن نے جواب دیا، ای او۔۔۔ ای او۔۔۔
چند منٹ بعد پھر دیوار کُھرچنے کی آواز کان میں آئی۔۔۔ یہ اتنی واضح اور صاف تھی کہ کوئی شبہہ نہ رہا۔ کوئی جانور اپنے پنجے دیوار پر تیز کر رہا تھا۔ مَیں پنجوں کے بل چلتا ہوا آواز کی بڑھا۔ ابھی چند قدم ہی چلا ہوں گا کہ پیچھے سے دیوا کے کھانسنے کی آواز آئی اور پھر فوراً ہی چیتے کی غرّاہٹ فضا میں بلند ہوئی اور وہ دوڑتا ہوا جنگل میں غائب ہو گیا۔
صبح ہم نے اس کے پنجوں کے گہرے نشان دیوار کے آس پاس دیکھے۔ چوکیدار کی حالت بڑی خراب تھی، کیونکہ وہ بیرونی کوٹھڑی میں رہتا تھا اور رات کو اکثر دروازہ کُھلا چھوڑ کر ہی سو جاتا تھا۔ چیتا اگر چاہتا، تو اس رات بڑی آسانی سے چوکیدار کا گلا دبا سکتا تھا، لیکن میرے بروقت بیدار ہو جانے اور اٹھنے کے باعث وہ ایسا نہ کر سکا۔ ناشتے کے بعد مَیں نے دیوا کو ساتھ لیا اور جنگل میں ٹہلنے نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد ہم پیپل کے اس درخت کے نیچے کھڑے تھے جہاں چند روز پہلے وہ عورت غائب ہوئی تھی جو اپنے شوہر کو روٹی دینے جا رہی تھی۔ چیتے کے پنجوں کے نشان دریائے کلیانی کے بائیں کنارے پر دُور تک پھیلے ہوئے تھے۔
ان نشانوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ چیتا غیر معمولی طور پر قوی ہیکل اور بڑی جسامت کا ہے۔ مزید ایک میل دُور مختلف جانوروں کے نشان بھی گیلی ریت پر دکھائی دیے۔ ان میں مادہ ریچھ، اس کے دو بچّوں، پھول دار ہرن، سانبھر اور جنگلی سور کے پیروں کے نشان نمایاں تھے، لیکن مجھے جن نشانوں کی تلاش تھی، وہ کہیں نہ تھے۔ میں شیر کی تلاش میں تھا اور یہ کتنی حیرت کی بات تھی کہ جنگل کے تمام جانور پانی پینے دریا پر آتے تھے، مگر شیر اِدھر کا رخ نہ کرتا تھا۔ ہم یہاں سے رنگام پت کی طرف گئے۔ چوپال میں بہت سے لوگ بیٹھے اس پُراسرار کے بلا کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔ ہمیں دیکھ کر وہ چُپ ہو گئے۔ جب دیوا نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ میں جنگل کے اس بُھوت کو فنا کرنے آیا ہوں، تو انہوں نے حیرت اور خوف کی مِلی جُلی نظروں سے مجھے دیکھا۔
"آپ اسے کبھی نہیں مار سکتے۔’ ایک شخص نے دبی زبان سے کہا۔
"کیوں؟ کیا وہ بہت طاقت ور اور چالاک ہے؟’ دیوا نے پوچھا۔
گاؤں کے مُنصف نے کھنکھار کر جواب دیا: اُس سے لڑنا آدمی کے بس کی بات نہیں۔ ان بندوقوں اور رائفلوں کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا، اس کے پیروں کے نشان بھی نہیں ہوتے، وہ پانچ آدمیوں کو اٹھا کر لے جا چکا ہے اور کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ معمولی کیڑے سے لے کر بڑے اژدہے تک اور چوہے سے لے کر شیر تک، ہر جانور کی صورت اختیار کر سکتا ہے، وہ پانی میں بھی غائب ہو جاتا ہے اور ہوا پر بھی قابو رکھتا ہے۔ اگر ہم اس جنگل کو چھوڑ کر کہیں اور نہ جائیں گے، تو وہ ہم سب کو ایک ایک کر کے کھا جائے گا۔ صدیوں سے ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے۔’
مُنصف کی تقریر سُن کر گاؤں والوں کے چہرے اور زرد ہوگئے اور بڈھے مُنصف کی تائید میں سر ہلانے لگے۔ مجھے ان جاہل لوگوں پر غصّے کی بجائے ترس آنے لگا۔ مَیں نے مُنصف سے کہا:
"تعجب ہے کہ آپ اتنے سمجھدار اور عمر رسیدہ ہونے کے باوجود ان بے ہودہ باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔۔ ایسا کوئی بُھوت پریت دنیا میں موجود نہیں جو انسانوں کے گوشت اور خون پر گزارا کرتا ہو۔ مجھے شک ہے کہ یہ کسی آدم خور شیر یا مکّار چیتے کی حرکت ہے۔’
"آدم خور؟’ بڈھے منصف کے بے جان لبوں پر پھیکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ "صاحب، میں ںے بہت سے آدم خور درندے دیکھے ہیں اور مجھے خوب معلوم ہے کہ وہ لوگوں کو کس طرح شکار کرتے ہیں۔ جب میں آپ کی طرح جوان تھا، تو امبل میرو کی کھائی کے پیچھے ایک آدم خور نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ میرے ہاتھ میں کلہاڑی تھی۔ میں نے اس سے شیر کی کھوپڑی زخمی کر دی، وہ بھاگ گیا اور دوبارہ نظر نہ آیا۔ یقیناً وہ مر گیا ہوگا، لیکن یہ معاملہ آدم خور کا نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ بہت بڑے شکاری ہیں اور ان جنگلوں میں کئی مرتبہ شیروں اور چیتوں کو مار چکے ہیں۔ آپ نے کوئی ایسا شیر یا چیتا بھی دیکھا ہے جو اپنے پنجوں کے نشان مٹی پر نہ چھوڑتا ہو؟ لاش کو گھسیٹ کر نہ لے جاتا ہو اور خون کے دھبّے کہیں دکھائی نہ دیتے ہوں؟ اگر یہ آدم خور شیر یا چیتا ہے، تو ہمیں اس کا سراغ اَب تک کیوں نہیں ملا؟ جنگل کے اندر، نالے کے کنارے یا دریا کی گیلی ریت پر اس کے پنجوں کے نشان کیوں نہیں پائے گئے؟ چِیتا ہمیشہ لاش کو گھسیٹ کر دُور لے جاتا ہے، ہمیں ایسا بھی کوئی نشان نہیں دکھائی دیا، پھر یہ بھی سوچیے کہ آدم خور درندہ ہمیشہ رات کی تاریکی یا شام کے جھٹپٹے میں آدمیوں پر حملہ کرتا ہے، لیکن اس مرتبہ دن کی روشنی میں عین دوپہر کے وقت پانچ افراد غائب ہوئے۔ دن دہاڑے ایسی حرکت آدم خور درندے کی فطرت سے بعید ہے۔ آپ کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہ ہوگا، لیکن میں ان کا جواب دے سکتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہمارا واسطہ ایسے بُھوت سے ہے جو ہر بھیس میں آ سکتا ہے۔ مَیں آپ کو یہی مشورہ دے سکتا ہوں کہ اسے مارنے کا خیال چھوڑ کر اپنے گھر چلے جائیں، ورنہ وہ آپ کو بھی ختم کر دے گا۔’
حقیقت یہ ہے کہ میرے پاس ان باتوں کا کوئی جواب نہ تھا۔ ہم دونوں خاموشی سے ناگا پٹلا کی طرف لوٹ آئے، لیکن بڈھے منصف کے الفاظ مسلسل میرے کانوں میں گونج رہے تھے۔ ایسی عجیب و غریب اور ناقابلِ یقین صورت حال سے کبھی واسطہ نہ پڑا تھا۔ مَیں جتنا سوچتا، اتنی ہی اُلجھنیں سامنے آتی تھیں۔۔۔ بُھوت پریت کے وجود کو عقل تسلیم کرنے پر تیار نہ تھی اور آدم خور اگر ایسی حرکتیں کرتا، تو اپنا نشان ضرور چھوڑ جاتا۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ ہے کیا بلا؟ تمام واقعات کا اچّھی طرح جائرہ لینے کے بعد جو حقائق میرے سامنے آئے وہ یہ تھے:
1۔ پانچوں افراد پُراسرار طور پر موت کا شکار ہوئے۔
2۔ ہر شخص دوپہر یا سہ پہر کے وقت غائب ہُوا۔
3۔ اِن حادثوں کو کسی نے بچشمِ خود نہ دیکھا۔
4۔ غائب ہونے والا ہر فرد تنِ تنہا تھا۔
5۔ البتہ بنیے کے ساتھ اس کے گدھے بھی تھے جو بول نہیں سکتے، لیکن انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا، وہ اطمینان سے جنگل میں گھاس چرتے رہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ خوف زدہ نہ تھے، ورنہ ضرور اِدھر اُدھر منتشر ہو جاتے۔
6۔ شیر یا چیتے کے علاوہ یہ کسی جنگلی بھینسے یا ہاتھی کی حرکت نہیں ہو سکتی، کیونکہ اس علاقے میں یہ دونوں حیوان نہیں پائے جاتے، ہاں ریچھ کا امکان ہے، لیکن ریچھ انتہائی بے وقوف اور بے ڈھب جانور ہے، وہ انسان کو اس ہوشیاری سے ہلاک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور ضرور اپنے پیچھے کوئی نشان چھوڑ جاتا۔ ایک لمحے کے لیے فرض کر لیجیے کہ ریچھ ہی ذمّے دار ہے، تب بھی وہ لاشوں کو گھسیٹ کر غائب نہیں کر سکتا تھا۔ وہ آدمیوں کو ہلاک کرنے کے بعد موقع پر ہی چھوڑ جاتا ہے۔
اس مسئلے پر دیوا کے ساتھ مَیں دیر تک بحث کرتا رہا، لیکن کسی رُخ سے بھی اس معاملے کی تہہ تک پہنچنا مشکل بلکہ ناممکن نظر آتا تھا، تاہم مَیں نے فیصلہ کر لیا کہ خواہ کچھ ہو، میں یہ راز بے نقاب کر کے رہوں گا۔
اسی روز دوپہر کو ہم دونوں کیل کانٹے سے لیس ہو کر جنگل میں نکلے۔ اَن دیکھی بلا کے تصوّر سے میرا دل دھڑک رہا تھا اور دیوا کی کیفیّت بھی یہی تھی کہ پتّا کھڑکتا، تو وہ سہم کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگتا۔ پہلے مشرق کی طرف چار میل دُور نرشیما کے چشمے تک گئے کہ شاید کسی کا شیر کا نشان مِل جائے، مگر وہاں چیتے کے پنجوں کے تازہ نشان دکھائی دیے۔ وہاں سے ہم دریائے کلیانی کی طرف آئے اور یہاں پھر ہم نے چیتے کے نشان دیکھے، لیکن یہ نشان اُن نشانوں سے بالکل مختلف تھے جو اس سے پہلے ہم دیکھ چکے تھے۔ اَب یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی کہ اس علاقے کے گرد و نواح میں شیر نہیں، دو بڑے بڑے چیتے موجود ہیں اور شاید اس بھی زیادہ ہوں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ان میں سے ایک چیتا آدم خور ہو؟ مگر پھر وہی سوال سامنے آتا تھا کہ اگر یہ حرکت چیتے کی ہے، تو وہ اپنے شکار کو موقعے پر ہی کھانا شروع کر دیتا ہے، مگر ان وارداتوں میں سے کوئی بھی ایسی نہ تھی جس سے پتا چلتا کہ چیتا ذمّے دار ہے۔
اگلے روز علی الصباح ہم سات میل پیدل چل کر پولی بونو پہنچے اور گھنٹوں لکڑہاروں سے سر کھپانے کے باوجود اصل بات کا علم نہ ہو سکا۔ ہر شخص بُھوت کو ذمّے دار ٹھہراتا تھا۔ ہم نے پولی بونو کا چپّہ چپّہ دیکھا اور آخر شمال مشرق کی طرف ایسے مقام پر پہنچے جہاں ایک کھائی کے نزدیک دو قدرتی تلاب بنے ہوئے تھے۔ کھائی والے تالاب کو مقامی لوگ امبل میرو کہتے تھے اور یہی وہ مقام تھا جہاں سب سے پہلے تھانڈا غائب ہوا تھا۔ یہاں سے رنگام پت کی طرف دو جُڑی ہوئی پگڈنڈیاں جاتی تھیں جن کی شکل انگریزی حرف وائی (Y) سے ملتی تھی۔ ہم اس میں سے ایک پگڈنڈی پر چل پڑے۔۔ اور ایک میل دُور چلنے کے بعد پہلی بار ہمیں شیر کے پنجوں کے نشان دکھائی دیے۔
یہ نشان اگرچہ کئی دن کے تھے، لیکن بہرحال ثابت کرتے تھے کہ شیر آس پاس موجود ہے۔ اسی راستے پر ہم نے چیتے اور چرخ کے پنجوں کے نشان بھی دیکھے۔ دیوا نے خیال ظاہر کیا۔ ممکن ہے کسی چرخ نے ان افراد کو ہلاک کر کے غائب کر دیا ہو، مگر مَیں نے اسے رد کر دیا۔ چرخ نہایت ڈرپوک جانور ہے۔ انسان کو ہلاک کرنا تو کُجا، اسے دیکھتے ہی بھاگ نکلتا ہے اور ہمیشہ شیر یا چیتے کا بچا کھچا شکار کھاتا ہے۔ بڑی ہمّت کی تو کسی گاؤں گوٹ میں داخل ہو کر شیر خوار بچّوں کو اُٹھا کر لے گیا یا مُردار پر مُنہ مارا، اس کی پہنچ بس یہیں تک ہے۔
سورج غروب ہونے کے بعد جب ہم بنگلے پر واپس پہنچے، تو تھکن اور بُھوک کے باعث بُرا حال تھا۔ جنگل میں اٹھارہ میل گُھومنا آسان کام نہیں ہے۔ کھانا کھاتے ہی ایسے سوئے کہ دوپہر کو آنکھ کُھلی۔ ابھی ہم چائے پی رہے تھے کہ ایک شخص بنگلے پر آیا اور کہنے لگا کہ وہ پولی بونو سے آیا ہے۔ وہاں امبل میرو کے ایک پہاڑی ٹیلے پر بہت بڑا شیر دیکھا گیا ہے۔ شیر کو دیکھتے ہی اس جنگل میں کام کرنے والے سب مزدور ایک جگہ جمع ہو گئے اور انہوں نے ٹھیکیدار سے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ اس وقت تک کام پر نہ جائیں گے جب تک شیر کا قصّہ پاک نہیں ہو جاتا۔ ٹھیکیدار نے دراصل ہمیں بُلانے کا پیغام بھیجا تھا۔ ہم جلدی جلدی تیار ہو کر اس شخص کے ساتھ پولی بونو روانہ ہو گئے۔ ٹھیکیدار سے ملاقات ہوئی۔ وہ سخت بدحواس تھا۔ کام رُک جانے سے اس کا ہزاروں روپے کا نقصان ہو رہا تھا۔ مزدوروں کے تیور بتا رہے تھے کہ وہ کسی صورت کام پر نہیں جائیں گے کیونکہ اَب انہیں یقین ہو چکا تھا کہ جنگل کا پُراسرار بُھوت اس شیر کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ مَیں نے ٹھیکیدار کو دلاسا دیا، مزدوروں سے بات کی اور ان سے وعدہ کیا کہ شیر کو مارنے کی ہرممکن کوشش کی جائے گی۔ سمجھانے بُجھانے سے مزدور راضی ہوئے اور انہوں نے کام شروع کر دیا۔ وہ رات ہم نے وہیں گزاری۔ اگلے روز دوپہر کے وقت مزدوروں کے انچارج نے سیٹی بجا کر روٹی کھانے کے وقفے کا اعلان کیا۔ انہیں روزانہ ایک گھنٹہ اس مقصد کے لیے دیا جاتا تھا۔ اس عرصے میں مزدور چاول اور کڑھی کھا کر امبل میرو تالاب میں منہ ہاتھ دھوتے، کچھ دیر سستاتے، پان کھاتے، بیڑیاں سُلگا لیتے، بعض مزدور سو بھی جاتے تھے۔ ایک گھنٹہ گزر جانے کے بعد انچارج نے پھر سیٹی بجائی۔ مزدوروں اپنی اپنی کلہاڑیاں سنبھال لیں اور بانس کے درخت کاٹنے لگے، لیکن وہ مزدور، جس نے ایک روز پہلے شیر کو دیکھا تھا، نہایت خوفزدہ اور بدحواس تھا، وہ بار بار اِدھر اُدھر دیکھتا اور پھر درخت پر کلہاڑی سے اُلٹے سیدھے ہاتھ مارنے لگتا۔
اس سے صرف پانچ فٹ کے فاصلے پر کچّے بانسوں کا ایک گھنا جُھنڈ تھا۔ دفعتہً اس جُھنڈ میں ہلکی سی جنبش ہوئی۔ مزدور نے فوراً اُدھر دیکھا اور پھر کلہاڑی اس کے ہاتھ سے چُھوٹ گئی۔ کچّے بانسوں کے اس جھنڈ میں وہی شیر اپنی زرد زرد چمکدار بُھوکی آنکھوں سے مزدور کو گُھور رہا تھا۔ دہشت سے مزدور کی گھگھی بندھ گئی، وہ ایک قدم پیچھے ہٹا اور اس کے ہٹتے ہی شیر سمجھ گیا کہ شکار ہاتھ سے نکلا جاتا ہے، اس نے وہیں سے جست کی اور عین مزدور کے اوپر جا پڑا، لیکن اس شخص کی زندگی کے کچھ دن ابھی باقی تھے۔ اس کے حلق سے ایک لرزہ خیز چیخ نکلی، فوراً ہی دوسرے مزدور چیختے چلّاتے اُدھر لپکے اور شیر گرجتا غرّاتا چشم زدن میں نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
مَیں اور دیوا اس وقت پولی بونو کی بائیں پگڈنڈی کے چوتھے میل پر اس شیر کی تلاش میں گھوم رہے تھے کہ مزدروں کا ایک گروہ لاٹھیوں سے مسلّح دوڑتا ہوا آیا اور اس حادثے کی اطلاع دی۔ ہم فوراً ان کے ساتھ موقعے پر پہنچے اور سب سے پہلے اس مزدور کو دیکھا، وہ ہوش و حواس کھو چکا تھا، اس لیے کوئی بیان نہ دے سکا، البتہ اس کے ساتھیوں نے بتایا کہ دائیں طرف پگڈنڈی کے نویں میل پر یہ حادثہ پیش آیا۔ میں اس شیر کے پنجوں کا نشان دیکھنے کے لیے بے تاب تھا، چنانچہ جب ہم نو میل کا فاصلہ طے کر کے اس جگہ پہنچے تو شام کے ساڑھے چھ بج رہے تھے اور سورج چند منٹ کے اندر اندر غروب ہونے ہی والا تھا، لیکن ہمیں اندھیرے کی کوئی فکر نہ تھی، کیونکہ ہمارے پاس نہایت طاقتور برقی ٹارچیں موجود تھیں۔
لمحہ بہ لمحہ بڑھتی ہوئی تاریکی کے باوجود ہم نے کچّے بانسوں کے جھنڈ میں پنجوں کے نشانات صاف دیکھ لیے، لیکن یہ اندازہ نہ ہو سکا کہ نشان شیر کے ہیں شیرنی کے۔۔۔ بہرحال یہ راز اَب کُھل چکا تھا کہ امبل میرو کا بُھوت کون ہے؟ اور کس نے پانچ افراد کو ہلاک کر کے غائب کیا ہے۔ اَب سوال یہ تھا کہ ہم کیا کریں؟ رائفلیں ہمارے پاس موجود تھیں، لیکن آدم خور کو پھانسنے کے لیے کوئی بکری یا گدھا ہمارے پاس نہ تھا۔ دیوا کی رائے یہ تھی کہ ہم آج کے بجائے کل یہاں آئیں، مگر اس اندھیرے میں بارہ میل پیدل چل کر بنگلے تک پہنچنا میرے لیے ممکن نہ تھا۔ برقی ٹارچیں کہاں تک ساتھ دیتیں اور یہ بھی خدشہ تھا کہ اس خطرناک جنگل میں کم از کم دو چیتے اور ایک آدم خور شیر موجود ہے، ہماری جان کس حد تک ان کے رحم و کرم پر ہوگی۔
جب میں نے دیوا اور ساتھ آنے والے مزدوروں سے کہا کہ میں رات کو یہیں چُھپ کر آدم خور کا انتظار کروں گا، تو خوف سے ان کی آنکھیں پھیل گئیں۔ دیوا نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی، مگر مَیں نے اسے ڈانٹ دیا اور کہا: "اگر تم ڈرتے ہو تو بے شک چلے جاؤ۔’ چنانچہ اس نے بھی سرِتسلیم خم کر دیا۔ ہم نے امبل میرو تالاب کو معائنہ کیا۔ یہاں چاروں طرف کچّے بانسوں کے گھنے جُھنڈ تھے جن میں چُھپنا سخت خطرناک تھا۔ مچان باندھنے کا وقت نہ تھا۔ ابھی میں اس فکر میں گم تھا کہ کیا تدبیر کی جائے، کچھ فاصلے پر برگد کے پرانے درخت پر نظر پڑی۔ اس کی شاخیں زمین تک پہنچ رہی تھیں۔ درخت یقیناً سو ڈیڑھ سو برس پُرانا تھا اور اس نے کافی وسیع جگہ گھیر رکّھی تھی۔ کوئی اور موقع ہوتا تو مَیں اس پُرشکوہ اور قدیم درخت کا نہایت دلچسپی سے معائنہ کرتا، لیکن آدم خور سے دو دو ہاتھ کرنے کے شوق میں درخت کی طرف توجہ دینے کی مہلت نہ ملی۔ مَیں اس کی شاخیں ایک طرف ہٹا کر اُوپر کی طرف ایک موٹی شاخ پر ڈیرا جمانے کا فیصلہ کر لیا۔۔۔ دیوا سے کہا کہ وہ رائفلیں ان ٹہنیوں کے اندر پھنسا دے، اور درخت پر چڑھ کر خاموشی سے بیٹھ جائے، کھانسنے یا سگریٹ پینے کی بھی کوشش نہ کرے۔ مَیں نے ٹارچ کی روشنی میں دیکھا کہ درخت کے عظیم تنے میں بڑے بڑے سوراخ بنے ہوئے ہیں۔ دیوا ان سوراخوں کو دیکھ کر دبی زبان سے بول اُٹّھا:
"ان میں سانپ ہوں گے، کیا یہاں بیٹھنا ضروری ہے؟’
"خواہ ان میں شیر ہوں، تمہیں یہیں بیٹھنا ہوگا۔’ میں نے جواب دیا اور وہ خون کے گھونٹ پی کر چپ ہو گیا۔ دراصل مَیں آج دیوا کو بھی سزا دینا چاہتا تھا، کیونکہ اس نے اپنی بہادری کی ڈینگیں مار مار کر میرا ناطقہ بند کر رکّھا تھا۔ دیوا کے قریب مَیں نے ایک دلیر مزدور کو ٹارچ دے کر بٹھا دیا اور خود زمین پر تنے کے ساتھ لگ کر اس طرح بیٹھ گیا کہ میرا منہ جنگل کے رُخ تھا، دیوا اور مزدور میری طرف پیٹھ کیے بیٹھے تھے اور ان کی نظروں کے سامنے تالاب تھا۔ بارہ بارہ بور کی شاٹ گنیں ہمارے پاس تھیں اور مزدور تیز دھار کلہاڑی سے مسلّح تھا۔ شیر تالاب کی طرف آتا، تو اسے ہم تک پہنچنے کے لیے لازماً پانی کے اندر سے گزرنا پڑتا تھا اور اگر وہ جنگل کی طرف سے آتا، تو مَیں ٹارچ کی روشنی میں اسے دیکھ سکتا تھا۔ ہمارے ہوش و حواس اور اعصاب کی بیداری و چستی کا کڑا امتحان تھا کہ ہم گھپ اندھیرے میں آدم خور کے پیروں کی آہٹ سن سکتے ہیں یا نہیں، کیونکہ ہمیں بخوبی احساس تھا کہ حریف ہم سے کہیں زیادہ چالاک، قوی اور نڈر ہے۔
پرندے اپنے اپنے گھونسلوں میں پناہ لے چکے تھے۔ جنگل پر ہُو کا عالم طاری تھا۔ آدھ گھنٹہ گزر گیا۔ مغرب کی طرف سے اُلّو کے ہُو ہُو کی آواز سنائی دی۔ اس موقع پر اُلّو کا بولنا مجھے تو بُرا نہ لگا، لیکن دیوا کے دل پر جو کچھ گزری ہوگی، وہ میں خوب سمجھتا تھا۔ ہندو ہونے کے باعث وہ اُلّو کی آواز کو برا شگون سمجھتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد تالاب میں چُھپے ہوئے مینڈکوں نے اپنا راگ چھیڑ دیا۔ امبل میرو تالاب اندازاً ساٹھ فٹ لمبا اور تیس فٹ چوڑا ہوگا۔ شمال کی جانب یہ تنگ ہوتا چلا گیا تھا، آخر میں پانچ سو فٹ اونچی پہاڑی اور تین طرف جنگل تھا۔ تھوڑے فاصلے پر گھاس میں چُھپا ہوا کوئی چھوٹا سا جانور مٹّی کریدنے لگا اور پھر یک لخت رُک گیا۔
پانچ منٹ گزر گئے۔ دیوا نے آہستہ سے سیٹی بجائی۔ یہ خبردار رہنے کا مخصوص اشارہ تھا۔ مَیں نے گردن موڑ کر تالاب کی طرف دیکھا اور رائفل کندھے سے لگا کر لبلبی پر انگلی رکھ دی۔ پانی کے اندر چپکے چپکے کوئی جانور حرکت کر رہا تھا۔ میرا دل دھڑکنے لگا، لیکن میں سانس روکے اُدھر دیکھتا رہا۔ تاروں کی مدھم روشنی میں سیاہ رنگ کا بھدّا اور بے ڈول جانور تالاب کو عبور کرتا ہوا ہماری طرف آ رہا تھا اور یہ جانور آدم خور کے سوا اور کون ہو سکتا ہے۔ مَیں نے بائیں ہاتھ سے ٹارچ کا بٹن دبا دیا۔ تیز روشنی کی لمبی سی لکیر شیشے سے نکلی اور آگے بڑھتا ہوا جانور فوراً رُک گیا۔ اس کی گہرے سبز رنگ کی آنکھیں حیرت سے میری طرف تک رہی تھیں اور اس کے چہرے پر حماقت آمیز آثار تھے۔ اس نے بڑا سا سر گھما کر اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر یک دم فُوں فُوں کی آوازیں حلق سے نکالنا اور اُچھلتا ہوا ایک جانب بھاگ گیا۔ اس منحوس چرخ کو دیکھنے کے بعد میرا خون کھول ہی رہا تھا کہ دیوا کی دبی دبی ہنسی سنائی دی، پھر وہ بولا:
"شیر نے اپنی آمد سے پہلے چرخ کو ہمارے استقبال کے لیے بھیجا ہے۔’
"خدا کے لیے دیوا، چپ رہو۔’ میں نے جھلّا کر کہا۔ "تم نے دیکھا نہیں کہ چرخ تالاب پار کیے بغیر بھی اِدھر آ سکتا تھا۔’
میرے اِن الفاظ پر دیوا کو سانپ سونگھ گیا۔ چند لمحے بعد چرخ کے چیخنے کی آواز پھر سنائی دی۔ اس مرتبہ لکڑہارے نے زیرِ لب چرخ کو گالی دی اور مجھ سے کہنے لگا:
"صاحب آپ نے اس بدمعاش کو بچ کر جانے ہی کیوں دیا، اَب وہ چیخ چیخ کر شیر کو خبردار کر رہا ہے۔ جنگل کے یہ سب جانور ایک دوسرے کے دوست ہیں اور کبھی ہمارا ساتھ نہیں دیتے۔’
وقت چیونٹی کی رفتار سے گزر رہا تھا۔ مَیں نے گھڑی پر نگاہ کی، رات کے پورے بارہ بجے تھے۔ اَب میری آنکھیں تالاب اور جنگل کا منظر کچھ فاصلے تک بخوبی دیکھ سکتی تھیں۔ یکایک چرخ پھر نمودار ہوا۔ اس مرتبہ وہ چیخے چِلّائے بغیر نہایت مضطرب ہو کر چکّر کاٹ رہا تھا۔ جب وہ ہماری بُو پاتا، تو اپنی پچھلی چھوٹی اور اگلی بڑی ٹانگوں کے سہارے نہایت مضحکہ خیز انداز میں اُچھلتا ہوا تالاب کی طرف جاتا، مگر چند ثانیے بعد وہاں سے پلٹ کر کسی اور طرف نکل جاتا۔ وہ دیر تک اسی طرح دوڑتا بھاگتا رہا اور ہم دم بخود یہ تماشا دیکھتے رہے۔ جب چوتھی مرتبہ چرخ تالاب کے نزدیک گیا تو دوسرے کنارے سے اچانک شیر غرایا۔ شیر کی آواز سُن کر چرخ وہیں پتّھر کے بُت کی مانند بے حس و حرکت ہو گیا۔ البتّہ اس کے لمبے کان آہستہ آسہتہ ہِل رہے تھے۔ چند ثانیے اس حالت میں رہنے کے بعد دفعتہً وہ پلٹا اور بڑی تیزی سے جھاڑیوں اور خشک ٹہنیوں میں گُھستا ہوا نہ جانے کہاں غائب ہو گیا۔
شیر دوبارہ ہلکی آواز میں غُرّایا اور پھر اس کی آواز سنائی نہ دی۔ دراصل چرخ نے اسے ہماری موجودگی سے آگاہ کر دیا تھا۔ اَب میں سوچ رہا تھا کیا شیر "تفتیش’ کے لیے اِدھر آئے گا؟ شاید وہ اپنے تجسّس کو تسکین دینے کی خاطر تالاب کو عُبور کرنے کی کوشش کرے۔ بہرحال مجھے انتظار کرنا چاہیے۔ مینڈکوں نے ایک بار پھر ٹرّانا شروع کر دیا اور چند لمحوں بعد مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے مینڈکوں کی آوازیں برچھیوں کی طرح میرے سینے میں اُتر رہی ہیں۔
مغرب کی طرف لمحہ بہ لمحہ جھکتے ہوئے سورج کی زرد کرنوں میں یہ کھنڈر عجب ڈراؤنا منظر پیش کر رہے تھے۔ میں ایک پتّھر پر بیٹھ کر سانس درست کرنے اور پسینہ سکھانے لگا۔ معاً میری چھٹی حِس بیدار ہوئی اور اس نے خطرے کا اعلان کیا۔ میں نے بھری ہوئی رائفل کے ٹریگر پر انگلی رکھ دی اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔ مجھے اپنی قوتِ سماعت پر بڑا اعتماد تھا اور اسی کی بدولت کئی مرتبہ میری جان بچی تھی۔ میں نے اپنے دائیں جانب گھنی جھاڑیوں میں ہلکی سی کھڑکھڑاہٹ کی آواز سن لی تھی اور اب میں بے حس و حرکت اپنی جگہ بیٹھا آنکھیں گھما کر اُدھر ہی دیکھ رہا تھا۔ میں نے نگاہوں ہی نگاہوں میں جھاڑیوں کا فاصلہ ماپ لیا تھا۔ وہ مجھ سے تیس گز دور تھیں اور ان میں چھپا ہوا آدم خور نہایت مکّاری سے میری طرف بڑھ رہا تھا۔ وہ اپنی فطرت کے مطابق مجھے بیخبری میں دبوچ لینا چاہتا تھا۔
اب وہ مجھ سے بیس گز دور تھا۔۔۔ پندرہ گز۔۔۔ بارہ گز۔۔۔ دس گز۔۔۔ یکایک اس نے اپنا سر اٹھایا اور میں نے دیکھا کہ وہ شیرنی ہے۔ پھر جبڑا کھول کر وہ آہستہ سے غرائی، میں نے اس کے چمکتے ہوئے لمبے دانت دیکھے اور اس سے پیشتر کہ وہ مجھ پر چھلانگ لگائے، میری گولی اس کا جبڑا توڑتی ہوئی گردن میں سے نکل گئی، لیکن کس بلا کی قوّت اس کے اندر کام کر رہی تھی۔ وہ زخمی ہونے کے باوجود اندھا دُھند میری طرف جھپٹی، لیکن مجھ سے صرف دو گز کے فاصلے پر آن کر گری اور پھر دہاڑتی گرجتی الٹے قدموں بھاگی۔ میں نے یکے بعد دیگرے تین فائر کیے۔ اس کی گردن سے ابلتا ہوا خون صاف غمازی کر رہا تھا کہ وہ کدِھر گئی۔
مجھے اتنا یاد ہے میرے نشانے خالی نہیں گئے اور شیرنی آگے جا کر یقیناً گر گئی ہوگی، لیکن میری کیفیت یہ تھی کہ بدن تھرتھر کانپ رہا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میں بے ہوش ہونے ہی والا ہوں۔ میں گرتا پڑتا اور جھاڑیوں میں سے لہولہان ہو کر اس درخت تک پہنچ گیا جہاں میرے ساتھی موجود تھے۔ انہوں نے شیرنی کے گرجنے اور فائروں کی آوازیں سن لی تھیں اور اب یہ سوچ رہے تھے کہ آیا انہیں میری تلاش میں نکلنا چاہیے یا نہیں۔ دراصل وہ یہ سمجھ چکے تھے کہ زندہ نہیں واپس آ سکوں گا۔ انہوں نے مجھے سنبھالا اور ابھی ہم ایک فرلانگ گئے ہوں گے کہ میکٹوش اور دوسرے دو آدمی بھاگتے ہوئے ہماری طرف آتے نظر آئے۔ انہوں نے بھی فائرنگ کی آوازیں سن لیں تھیں۔ میکٹوش نے مجھے زخمی دیکھا تو وہ یہی سمجھا کہ آدم خور نے مجھے چبا ڈالا ہے اور میں کوئی دن کا مہمان ہوں۔ میں نے تسلی دی اور سارا قصّہ سنایا۔ چند لمحے آرام کرنے کے بعد ہم سب پھر قلعے کی طرف چلے اس مرتبہ میکٹوش آگے آگے تھا اور پیچھے گاؤں والے لالٹینیں لیے چل رہے تھے۔ شیرنی کے جسم سے جابجا گرا ہوا خون ہماری رہنمائی کر رہا تھا۔ جس مقام پر اس نے مجھ پر حملہ کیا، وہاں سے صرف ساٹھ گز دور جھاڑیوں میں خون بہت زیادہ مقدار میں دیکھا گیا اس سے پتہ چلا کہ زخمی شیرنی یہاں رکی تھی۔ میکٹوش اندھا دھند آگے بڑھ رہا تھا۔ کئی مرتبہ میں نے اسے روکنے کی کوشش کی، مگر بے سُود۔ جھاڑیوں میں سے راستہ بناتے ہوئے اس کے کپڑے بھی چھلنی ہو رہے تھے چہرے بازوؤں اور ٹانگوں پر بے شمار خراشیں آ چکی تھیں۔
ایک جگہ وہ اچانک رُکا اور پھر پیچھے ہٹ کر چند پتّھر اٹھائے اور جھاڑی کے اندر پھینکنے لگا۔ غالباً آدم خور شیرنی اس کے اندر چُھپی ہوئی تھی۔ پھر وہ رائفل تان کر آگے بڑھا اور میں نے ٹارچ روشن کی۔ اسی لمحے زخمی شیرنی نے کروٹ لی اور میکٹوش کے اوپر چھلانگ لگائی، لیکن چند فٹ کے فاصلے پر ہی آ کر گر پڑی اور جبڑا کھول کر غرانے لگی۔ ہمارے ساتھی لالٹینیں پھینک کر بھاگ نکلے، لیکن اب ہمیں اس زخمی اور معذور شیرنی سے کوئی خطرہ نہ تھا، کیوں کہ وہ مرنے ہی والی تھی، مجھے حیرت تھی کہ تین گولیاں کھانے کے باوجود وہ اتنی دیر تک زندہ کیسے رہی۔ میکٹوش نے چند لمحے تک شیرنی کو غور سے دیکھا اور پھر اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔
اور اس طرح چیتل درُوگ، ہوس دُرگا اور ہوللکر میں تباہی مچانے والی آدم خور شیرنی اپنے انجام کو پہنچ گئی جس نے نہ جانے کتنے انسانوں کو ہڑپ کیا تھا اور جن میں نوجوان اور بھولا بھالا شکاری ٹاڈ بھی شامل تھا، لیکن میں اس بات پر حیران ہوں کہ وہ دونوں الگ الگ فطرت رکھنے کے باوجود اکٹھے ہی شکار کو کیوں نکلتے تھے۔ بنگلور روانہ ہوتے وقت میں نے لوگوں کو کہہ دیا کہ اب کوئی واردات ہو تو فوراً مجھے اطلاع کی جائے لیکن کئی مہینے گزر گئے اور وہاں سے کوئی خبر نہ آئی، تو مجھے اطمینان ہوا۔

Popular Posts