منگل، 14 مئی، 2013

کماؤں کے آدم خور
جم کوربٹ
مترجم: محمد منصور قیصرانی

پیش لفظ
اس کتاب میں موجود تمام واقعات میجر جم کاربٹ کے ان سچے تجربات کو بیان کرتے ہیں جو صوبجات متحدہ کے جنگلات میں آدم خور شیروں کے تعاقب میں انہیں پیش آئے۔ میری خوش نصیبی ہے کہ میں یہ کتاب ایڈونچر اور ایکشن کے متلاشی افراد کے لئے پیش کر سکوں۔
شکاری حضرات کے لئے اس کتاب میں ان کے ذوق کی تسکین کے لئے اور نئی باتیں سیکھنے کے لئے بہت کچھ موجود ہے۔ نئے شکاری حضرات اگر اس کتاب کو پہلی بار شیر کے شکار پر جانے سے قبل پڑھیں تو شاید ان کے ہاتھوں زخمی ہو کر آدم خور بننے والے شیروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ جائے۔ اچھے نشانے اور حوصلے سے زیادہ اور بھی اہم باتیں ہیں جو شیروں کے شکاری کو مدنظر رکھنی چاہیں۔ شکار پر جانے سے قبل مکمل منصوبہ بندی، تیاری اور مستقل مزاجی اس شکار میں کامیابی کے لئے انتہائی اہم ہیں۔
صوبجات متحدہ میں مصنف کا نام ایک ایسے شخص کے طور پر جانا جاتا ہے جو یہاں کے باسیوں کو ان کے آس پاس موجود آدم خور درندوں سے انہیں بچاتا ہے۔ بہت سارے سرکاری افسران جو اپنے زیر انتظام علاقوں میں موجود ان جانوروں سے ہونے والی تباہی سے تنگ آ چکے تھے، مدد کے لئے جم کاربٹ کے پاس آئے اور مجھے پورا یقین ہے کہ ان کی یہ کوشش کبھی رائیگاں نہیں گئی۔ یقیناً جم کاربٹ کے ہاتھوں ان غیر معمولی اور دہشتناک درندوں کی ہلاکت نہ صرف مقامی آبادی بلکہ حکومت کے لئے بھی گراں قدر خدمت تھی۔
ان کہانیوں سے قارئین کو جم کاربٹ کے دل میں فطرت سے محبت کا اندازہ ہوگا۔ میں ان کے ساتھ کئی بار شکاری مہمات میں جا چکا ہوں اور میرے نزدیک دنیا کے کسی براعظم کے کسی جنگل میں موجود نشانات کو جم کاربٹ سے بہتر اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ انہوں نے متعدد بار بتایا کہ جنگل کے فطری ماحول کے مشاہدے سے انہیں کتنی خوشی ملتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکھا اس کی مدد سے وہ ان فوجیوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں جو جنگ کے دوران اپنی بینائی کھو بیٹھے تھے۔ اس کتاب کے پہلے ایڈیشن سے ہونے والی تمام تر آمدنی انہوں نے انہی نابینا فوجیوں کی امداد کے لئے بنائے گئے سینٹ ڈنسٹن کے فنڈ کے لئے وقف کر رکھی ہے۔ ان فوجیوں نے اپنے ملک اور اپنی قوم کی آزادی کے لئے اپنی بصارت کی قربانیاں دی ہیں۔

لن لنتھ گو
وائسرائے ہاؤس
نیو دہلی

ترتیب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۔ مصنف کی رائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۔ چمپاوت کی آدم خور شیرنی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۳۔ روبن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۴۔ چوگڑھ کے شیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۵۔ پوال گڑھ کا کنوارہ شیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۶۔ موہن کا آدم خور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۷۔ میرے خوابوں کی مچھلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۸۔ کانڈا کا آدم خور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۹۔ پیپل پانی کا شیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۰۔ ٹھاک کا آدم خور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۱۔ صرف شیر

 مصنف کی رائے
چونکہ اس کتاب کے بیشتر واقعات آدم خور شیروں سے متعلق ہیں اس لئے یہ بتانا بہتر ہے کہ ان جانوروں میں آدم خوری کی عادت کیسے پیدا ہوتی ہیں۔
آدم خور شیر ایک ایسا شیر ہوتا ہے جو حالات و واقعات سے مجبور ہو کر اُس خوراک کی طرف متوجہ ہوتا ہے جو اُس کے لئے نئی ہوتی ہے۔ ایسے واقعات میں نوے فیصد شیر زخمی ہو کر اور بقیہ دس فیصد واقعات میں عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے آدم خور بنتے ہیں۔ زخمی ہونے کی ایک وجہ اناڑی شکاری کی چلائی ہوئی اوچھی گولی اور پھر زخمی شیر کا پیچھا نہ کرنا یا سیہی کےشکار میں بے احتیاطی ہوتی ہے۔ چونکہ انسان شیروں کی قدرتی خوراک نہیں ، اس لئے شیر عمر یا زخموں سے مجبور ہو کر انسان کا انتخاب بطور خوراک کرتا ہے۔
شکار کی تلاش میں گھات لگا کر یا پھر چھپ کر، دونوں طرح شیر کی کامیابی کا سارا دار و مدار اس کی رفتار پر اور کسی حد تک اس کے دانتوں اور پنجوں کی حالت پر بھی ہوتا ہے۔ زخموں کے باعث یا دانتوں کے گھس جانے یا ناکارہ ہو جانے کی وجہ سے شیر اپنے شکار کو پکڑنے سے معذور ہو جاتا ہے۔ بھوک سے مجبور ہو کر وہ انسانی شکار پر اتر آتا ہے۔ جانوروں کے شکار سے انسانی شکار پر اس کا مائل ہونا میرے خیال میں محض واقعاتی ہوتا ہے۔ اس کی مثال میں مکتسر کی شیرنی پیش کروں گا۔ یہ شیرنی نسبتاً نوجوان مادہ تھی۔ سیہی کے شکار میں اس نے نہ صرف ایک آنکھ گنوائی بلکہ اس کے بازو اور اگلے پنجے میں ایک سے نو انچ تک لمبے پچاس کانٹے پیوست تھے۔ کچھ کانٹے ہڈی سے ٹکرا کر واپس مڑ کر انگریزی کے حرف یو کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ جہاں سے شیرنی نے ان کانٹوں کو اپنے دانتوں کی مدد سے نکالنے کی کوشش کی، وہاں زخم بن گئے جن میں پیپ پڑ گئی۔ ایک دن جب یہ شیرنی گھاس کے ایک قطعے میں بیٹھی اپنے زخم چاٹ رہی تھی تو ایک عورت نے اسی قطعے سے گھاس کاٹنا شروع کی۔ شیرنی نے پہلے پہل تو کوئی توجہ نہ دی۔ جب عورت گھاس کاٹتے کاٹتے بالکل نزدیک پہنچ گئی تو شیرنی نے جست لگائی اور پنجہ عورت کے سر پر مارا۔ بیچاری عورت کی کھوپڑی انڈے کی طرح پچک گئی۔ اس کی موت اتنی اچانک تھی کہ اگلے دن جب اس کی لاش ملی تو اس کے ایک ہاتھ میں درانتی اور دوسرے میں وہ گھاس تھی جسے وہ کاٹنے والی تھی۔ عورت کی لاش کو چھوڑ کر شیرنی میل بھر دور ایک گرے ہوئے درخت کے تنے کے پیچھے لنگڑاتی ہوئی پہنچی اور لیٹ گئی۔ اگلے دن ایک آدمی آگ کے لئے اس گرے ہوئے درخت کو کاٹنے آیا۔ شیرنی جو درخت کی دوسری جانب لیٹی ہوئی تھی، نے حملہ کر کے اسے ہلاک کر دیا۔ چونکہ یہ آدمی اپنی صدری اور قمیض اتار چکا تھا، شیرنی کے حملے سے درخت پر گرا۔ شیرنی کے پنجوں سے اس کی کمر پر گہری خراشیں آئیں۔ ان خراشوں سے بہنے والے خون نے شیرنی کو شاید یہ خیال دلایا کہ وہ اس لاش سے اپنی بھوک مٹا سکتی ہے۔ خیر وجہ کوئی بھی ہو، شیرنی نے کہیں اور جانے سے قبل اس شخص کی کمر کا کچھ حصہ کھا لیا۔ ایک دن بعد اس نے تیسرے بندے کو مارا۔ اس بار اس نے باقاعدہ گھات لگائی تھی۔ اس دن سے اس شیرنی نے باقاعدہ طور پر آدم خوری شروع کر دی تھی۔ ہلاک ہونے سے قبل اس شیرنی نے کل چوبیس افراد مارے تھے۔
تازہ کئے گئے شکار پر موجود شیر، زخمی شیر یا بچوں والی شیرنی بھی اتفاق سے آدمی کو ہلاک کر سکتے ہیں۔ یہ شیر کسی بھی لحاظ سے آدم خور نہیں کہلائے جا سکتے اگرچہ اکثر لوگ انہیں بھی آدم خور گردانتے ہیں۔ ذاتی طور پر میں کسی بھی شیر کو آدم خور کہنے سے قبل کم از کم دو ہلاکتوں کا انتظار کرتا ہوں اور جہاں ممکن ہو، لاشوں کا پوسٹ مارٹم بھی کراتا ہوں۔ اس کے بعد میں اس جانور کو آدم خور شمار کرتا ہوں۔ پہاڑی علاقوں میں بہت سے ایسے واقعات میرے علم میں ہیں کہ قتل کر کے الزام شیر، تیندوے، لگڑ بگڑ یا بھیڑیوں پر ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تفصیل یہاں بتانا مناسب نہیں ہوگی۔
عام خیال ہے کہ آدم خور ہمیشہ بوڑھا اور خارش زدہ جانور ہوتا ہے۔ خارش زدہ اس لئے کہ انسانی جسم میں موجود نمک کی مقدار اسے خارش زدہ بنا دیتی ہے۔ میں انسانوں یا جانوروں کے گوشت میں موجود نمک کی مقدار پر رائے دینے کا حق تو نہیں رکھتا البتہ یہ ضرور جانتا ہوں کہ تمام آدم خوروں کی کھال نہایت نرم اور ریشمی ہوتی ہے۔ یعنی عام خیال کے برعکس انسانی گوشت کا آدم خور کی کھال پر کم از کم کوئی برا اثر نہیں پڑتا۔
ایک اور عام غلط فہمی یہ بھی ہے کہ تمام آدم خوروں کی اولاد بھی خود بخود آدم خور بن جاتی ہے۔ اس خیال کی وجہ یہ ہے کہ یہ جانور چونکہ انسانی گوشت پر پلتے ہیں تو ان کا آدم خور بن جانا فطری سی بات ہے۔ قدرتی طور پر انسان تیندوے یا شیر کی خوراک نہیں ہوتے۔
عام طور پر بچہ وہی کچھ کھاتا ہے جو اس کی ماں اسے لا کر دیتی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ کئی بار بڑے ہو کر یہ بچے انسانی شکار میں اپنی ماں کی مدد بھی کرتے ہیں۔ تاہم ماں کو چھوڑنے کے بعد یا ماں کی ہلاکت کے بعد کسی بھی بچے نے آدم خوری کو جاری نہیں رکھا۔
جب درندے انسانوں کو ہلاک کرتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ جانور شیر ہے یا تیندوا؟ میرے اصول کے مطابق ہر وہ ہلاکت جو دن کی روشنی میں ہو، شیر کے باعث اور ہر وہ ہلاکت جو رات کی تاریکی میں ہو، تیندوے کی طرف سے ہوتی ہے۔ آج تک میں نے اس اصول سے کسی جانور کو انحراف کرتے نہیں دیکھا۔ دونوں جانور نیم شب بیدار ہوتے ہیں، شکارکو مارنے یا گھات لگانے کا طریقہ بھی دونوں میں یکساں، دائرہ عمل بھی ایک ہی اور دونوں ہی انسانی شکار کو دور تک لے جا سکتے ہیں۔ یہ غلط فہمی عموماً پیدا ہو جاتی ہے کہ ان کے شکار کا وقت بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ یہ بات غلط ہے کیونکہ دونوں جانوروں کی ہمت اور حوصلہ فرق ہوتا ہے۔ شیر جب آدم خور بنتا ہے تو اس کے دل سے انسان کا خوف جاتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ دن میں انسان زیادہ آسانی سے اور زیادہ تعداد میں گھر سے باہر ہوتے ہیں تو اس میں شیروں کو سہولت رہتی ہے۔ اس کے بالکل برعکس تیندوا یا چیتا چاہے کتنے بندے مار چکا ہو، کے دل سے انسان کی دہشت نہیں زائل ہو پاتی۔ اس لئے یہ دن کی روشنی کی بجائے رات کی تاریکی میں انسان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اس لئے وہ رات کو گاؤں میں گھومتا یا رات کو ہی جھونپڑے توڑ کر شکار کرتا ہے۔ یہ حقیقت دیکھتے ہوئے کہ انسانی خوف زائل ہونے کے سبب شیر کیونکہ دن میں عام دکھائی دیتا ہے، اس کا شکار آدم خور تیندوے کی نسبت بہت آسان ہوتا ہے۔
آدم خور سے ہونے والی ہلاکتوں کی رفتار عموماً درج ذیل تین عوامل پر ہوتی ہے:
٭ اس کے شکار کے دائرے میں قدرتی شکار کتنا ہے۔
٭ اس کی معذوری کی نوعیت، جس نے اسے آدم خور بنایا۔
٭ آیا آدم خور نر شیر ہے یا بچوں والی مادہ شیرنی۔
ہم میں سے وہ افراد جو حقیقی صورتحال سے ناواقف اور سنی سنائی اور پر بھروسہ کرتے ہیں، میں ان کی یہ غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں۔ یہاں میں شیروں کی بات کروں گا کہ آدم خور شیر محض ایک انتہائی مختصر اقلیت ہوتے ہیں۔ جس مصنف نے سب سے پہلے "شیر جیسا خون کا پیاسا" یا "شیر جیسا سفاک" کی اصطلاح استعمال کی تھی، اس نے بظاہر ولن کے لئے یہ الفاظ چنے ہوں گے۔ اس طرح اس نے نہ صرف شیر جیسے شاندار جانورکی شہرت سے اپنی لاعلمی ظاہر کی بلکہ شیر کی شہرت کو بھی گہنا دیا۔ اس کی بنائی ہوئی یہ اصطلاحات اب پوری دنیا میں عام استعمال ہوتی ہیں۔ وہ شخص جو اس غلط العام رائے کا ذمہ دار ہے جس پر تقریباً پوری دنیا یقین رکھتی ہے۔
جب میں "شیر جیسا خون کا پیاسا" یا "شیر جیسا سفاک" کے الفاظ سنتا یا پڑھتا ہوں تو مجھے وہ ننھا لڑکا یاد آ جاتا ہے جس کے پاس ایک پرانی توڑے دار بندوق تھی۔ اس بندوق کی دائیں نال میں چھ انچ لمبا شگاف تھا۔ نالیوں اور کندے کو تانبے کی تاروں سے باندھا ہوا تھا تاکہ وہ ایک دوسرے سے الگ نہ ہو جائیں۔ یہ لڑکا ترائی اور بھابھر کے جنگلات میں بے فکر گھومتا پھرتا تھا۔ ان دنوں آج کی نسبت کم از کم دس گنا زیادہ شیر یہاں پائے جاتے تھے۔ یہ لڑکا جہاں بھی رات پڑے، سو جاتا تھا۔ اس کی نگرانی وہ چھوٹی سی آگ کرتی تھی جو وہ گرمی حاصل کرنے کو جلا لیتا تھا۔ اس کی نیند بار بار شیروں کی دھاڑ سن کر اکھڑ جاتی تھی جو بعض اوقات دور اور بعض اوقات بالکل نزدیک ہوتے تھے۔ یہ لڑکا آگ پر مزید ایک یا دو لکڑیاں ڈال کر پھر سونے کی کوشش کرتا تھا۔ اسے شیروں سے ڈر نہ لگتا تھا۔ اسے اپنے مختصر تجربے اور دوسرے لوگوں کی باتوں سے یہ علم ہو چکا تھا کہ جب تک شیر کو تنگ نہ کیا جائے تو وہ کوئی نقصان نہیں دیتا۔ اسی طرح دن کی روشنی میں شیر کو دیکھتے ہی وہ لڑکا اس کے راستے سے ہٹ جاتا۔ اگر ہٹنا ممکن نہ ہوتا تو بے حس و حرکت کھڑا ہو جاتا۔ شیر اس کے پاس سے ہو کر گذر جاتا اور لڑکا اپنا سفر جاری رکھتا۔ اسی طرح ایک واقعہ مجھے یاد ہے کہ جب وہ لڑکا جنگلی مرغیوں پر گھات لگاتے ہوئے آلو بخارے کی جھاڑی میں چھپا ہوا تھا کہ اس جھاڑی کی دوسری طرف سے شیر نکلا۔ اس نے حیرت سے لڑکے کو دیکھا اور جیسے زبان حال سے پوچھا "ارے، تم یہاں کہاں؟" جواب نہ ملنے پر شیر خاموشی سے آگے بڑھ گیا۔ اسی طرح مجھے وہ لاکھوں افراد یاد آتے ہیں جو ہر روز جنگل میں جاتے ہیں اور ان کی مڈبھیڑ شیروں سے ہوتی ہے۔ ان میں بچے، بوڑھے، جوان اور عورتیں سب شامل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک شخص بحفاظت گھر واپس لوٹتا ہے۔ اکثر کو تو شیر کی موجودگی کا علم تک نہیں ہو پاتا۔
جب وہ شیر اس آلو بخارے کی جھاڑی سے نکلا تھا، نصف صدی گذر چکی ہے ۔ گذشتہ بتیس سالوں میں میں نے بے شمار آدم خوروں کا سامنا بھی کیا ہے، ایسے مناظر بھی دیکھے ہیں جو پتھر کو بھی موم کر دیں، میں نے کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ شیر نے بلا وجہ شکار کیا ہو۔ ان کا کام ہمیشہ اپنی بھوک مٹانے کے لئے شکار تک محدود ہوتا ہے چاہے یہ شکار انسانی شکل میں ہو یا پھر جانور کی شکل میں۔
شیر کا قدرتی کردار فطری توازن کو برقرار رکھنا ہے۔ حالات سے مجبور ہو کر ہی وہ آدم خوری کی طرف متوجہ ہوتا ہے یا جب اس کی قدرتی خوراک انسانوں نے ختم کر دی ہو تو وہ آدم خوری کی طرف مائل ہوتا ہے۔ آدم خوری سے قبل وہ مویشی خوری کی طرف آتا ہے۔ اس سے ہونے والا نقصان کبھی بھی دو فیصد مویشیوں سے زیادہ نہیں ہوتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پوری نسل پر ہی بے رحم اور سفاک ہونے کا لیبل لگا دیا جائے۔
شکاری عموماً فطرت پسند ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے اس کا سالوں کا تجربہ ہوتا ہے جو اس نے جنگل میں گزارے ہوتے ہیں۔ ہر شخص کا اپنا نکتہ نظر ہو سکتا ہے لیکن اکثریت کی رائے تقریباً یکساں ہوتی ہے۔ اس لئے میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی میری رائے سے لفظ بلفظ اتفاق کرے گا۔ لیکن خیالات ضرور ملتے جلتے ہوں گے۔
تاہم ایک بات سے تمام شکاری اتفاق کریں گے چاہے وہ ہاتھی پر سوار ہو کر شکار کرتے ہوں،، مچان پر بیٹھ کر یا پھر زمین پر شیر کے دو بدو ہو کر، شیر ایک نہایت شریف النفس اور بے جگر درندہ ہے۔ جب یہ معدوم ہوا، جیسا کہ یہ اب معدومی کے خطرے سے دوچار ہے، ہندوستان اپنے سب سے خوبصورت جانور سے محروم ہو جائے گا۔
شیر کے برعکس تیندوے کسی حد تک مردار خور ہوتے ہیں۔ جب انسان اس کے قدرتی شکار کو ختم کر دیں تو یہ بھی آدم خوری کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔
ہمارے پہاڑوں کے باشندے عموماً ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ اپنے مردوں کو جلاتے ہیں۔ یہ رسم ندی یا دریا کے کنارے ادا کی جاتی ہے تاکہ راکھ بہتی ہوئی دریائے گنگا تک جا سکے اور پھر اس سے آگے سمندر تک۔ چونکہ ان پہاڑوں کی ندیاں اور دریا وغیرہ بہت دور ہوتے ہیں اور اتنی دور تک لاش کو لے جانے میں مزدوروں کے اخراجات بہت مہنگے پڑتے ہیں۔ بعض اوقات کی اموات اتنی مہنگی نہیں پڑتیں لیکن وبا کی صورت میں یہ لوگ زیادہ اموات کا سامنا کرتے ہیں۔ اس طرح ہر مردے کو جلانا ممکن نہیں رہتا۔ ان حالات میں یہ لوگ مردے کے منہ پر جلتا ہوا کوئلہ رکھ کر اسے کھائی میں پھینک دیتے ہیں۔
تیندوے کے علاقے میں ایسی لاشیں اسے انسانی گوشت مہیا کرتی ہیں۔ وبا کے اختتام پر جب تیندوے کو یہ مفت کی لاشیں ملنا بند ہو جاتی ہیں تو وہ آدم خوری شروع کر دیتا ہے۔
کماؤں کے دو تیندووں نے کل ۵۲۵ افراد ہلاک کئے تھے۔ پہلا تیندوا ہیضے کی وبا سے اور دوسرا "جنگی بخار" سے ۱۹۱۸ء میں آدم خور بنا تھا۔

کرنل جم کاربٹ
٭٭٭
  
چمپاوت کی آدم خور شیرنی
اس شیرنی کے متعلق میں نے پہلی بار تب سنا تھا جب میں ایڈی نولس کے ہمراہ مالانی میں شکار کھیل رہا تھا۔ اس شیرنی کو سرکاری طور پر بعد میں "چمپاوت کی آدم خور" کا نام دیا گیا تھا۔
ایڈی کو اس صوبے میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیونکہ فطرت سے ان کی محبت اور شکار کا شوق اپنی انتہا پر تھے۔ وہ ان چند خوش نصیب افراد میں سے ایک تھے جن کے پاس نہ صرف ہر چیز بلکہ ہر قسم کی بہترین چیز ہوتی ہے۔ ان کی رائفل کی نشانے کی درستگی اور ان کی گولی کی طاقت کا جوڑ نہیں تھا۔ ان کا ایک بھائی ہندوستان کی فوج کا سب سے بہترین نشانچی تھا۔ ان کا دوسرا بھائی ہندوستانی فوج کا سب سے بہترین ٹیننس کا کھلاڑی تھا۔جب ایڈی نے مجھے بتایا کہ ان کے بہنوئی کو حکومت نے "چمپاوت کی آدم خور شیرنی" کو مارنے کے لئے مقرر کیا ہے تو مجھے یقین تھا کہ اس شیرنی کے دن گنے جا چکے ہیں۔
تاہم چند نامعلوم وجوہات کی بناء پر شیرنی ہلاک نہ ہو سکی۔ چار سال بعد جب میں نینی تال پہنچا تو وہ شیرنی حکومت کا درد سر بن چکی تھی۔ اس کی ہلاکت پر انعامات مقرر ہو چکے تھے۔ خصوصی شکاری بھیجے گئے تھے۔ گورکھوں کی جماعتیں بھی اسے نہ مار سکیں۔ انسانی ہلاکتیں بڑھتی چلی گئیںَ
یہ شیرنی، جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا، کماؤں آنے سے قبل ہی آدم خور بن چکی تھی۔ کماؤں پہنچنے سے قبل وہ نیپال میں بھی دو سو افراد ہلاک کر چکی تھی۔ مسلح نیپالیوں کے دستے نے اسے وہاں سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا۔ کماؤں میں اس نے مزید دو سو چونتیس ہلاکتیں کی تھیں۔
نینی تال پہنچنے کے فوراً بعد برتھوڈ مجھ سے ملنے آئے۔ اس وقت برتھوڈ اس ضلع کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ اپنی ناگہانی موت کے بعد وہ ہلدوانی میں ہی دفن ہوئے۔ ان کے سارے جاننے والے ان سے محبت کرتے ہیں۔ جب انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے ضلع کے لوگ اس شیرنی سے کتنے تنگ آ چکے ہیں تو مجھے حیرت نہ ہوئی۔ لوگوں کا درد ان کا درد تھا۔ جانے سے قبل انہوں نے مجھ سے وعدہ لیا کہ اگلی ہلاکت کی اطلاع ملتے ہی میں اس شیرنی کا پیچھا کروں گا۔
تاہم میں نے دو شرائط رکھیں۔ پہلی تو یہ کہ تمام حکومتی انعامات جو اب تک مقرر ہو چکے ہیں، واپس لے لئے جائیں۔ دوسرا یہ کہ تمام شکاریوں اور الموڑہ کے گورکھوں کو واپس بلا لیا جائے۔ ان شرائط کی وجوہات بھی ظاہر تھیں۔ کوئی بھی اچھا شکاری انعام کے لالچ میں شکار نہیں کرتا۔ دوسرا جب اتنے ڈھیر سارے شکاری ایک ہی جگہ ہوں تو ان کی گولیوں سے بچنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ انہوں نے میری دونوں شرائط منظور کر لیں۔ اگلے ہفتے برتھوڈ میرے پاس آئے اور بتایا کہ انہیں گذشتہ رات ہرکارے نے پالی کے مقام پر ایک عورت کی ہلاکت کی اطلاع پہنچائی ہے۔ یہ گاؤں دیبی دھورا اور دھونا گھاٹ کے درمیان واقع ہے۔
اس گاؤں کی کل آبادی پچاس نفوس پر مشتمل تھی جن میں عورتیں، مرد، بچے اور بوڑھے سب شامل تھے۔ یہ لوگ انتہائی خوف و ہراس کا شکار تھے۔ جب میں وہاں پہنچا تو سورج ابھی کافی بلند تھا مگر وہ لوگ بند دروازوں کے پیچھے ہی خود کو محفوظ تصور کر رہے تھے۔ جب ہم لوگ گاؤں کے درمیان میں رک کر آگ جلا کر چائے تیار کرنے لگے تو اکا دکا دروازے کھلنے لگے۔
لوگوں نے مجھے بتایا کہ وہ پانچ روز سے گھر کی دہلیز سے باہر نہیں گئے۔ نتیجتاً صفائی کی صورتحال بہت ناگفتہ بہ تھی اور خوراک بھی ختم ہونے والی تھی۔ اگر شیرنی کو مارا یا بھگایا نہ جاتا تو یہ لوگ عن قریب بھوک سے مر سکتے تھے۔
شیرنی کی اس علاقے میں موجودگی صاف ظاہر تھی۔ گذشتہ تین راتوں سے وہ گاؤں کے پاس سڑک سے ہوتی ہوئی گذری تھی۔ یہ سڑک گاؤں سے بمشکل سو گز دور ہوگی۔ دن کی روشنی میں یہ شیرنی کئی بار گاؤں سے متصل کھیتوں میں بھی دیکھی گئی تھی۔
نمبردار نے مجھے ایک کمرہ دیا۔ ہم کل آٹھ افراد تھے۔ اس کمرے کا دروازہ اس طرف کھلتا تھا جہاں سارے گاؤں کی غلاظت پھینکی جاتی تھی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں رات کھلے آسمان کے نیچے گذاروں گا۔
رات کا کھانا جلدی جلدی کھا کر میرے آدمی اس کمرے میں محفوظ ہو کر بیٹھ گئے تو میں نے سڑک کے کنارے ایک درخت سے ٹیک لگا لی۔ چونکہ دیہاتیوں نے بتایا تھا کہ شیرنی اس سڑک سے ہو کر گذرتی ہے تو اگر میں اسے پہلے دیکھ پاتا تو اسے مار سکتا تھا۔ رات روشن تھی کیونکہ چودہویں کا چاند نکلا ہوا تھا۔
شکار کی تلاش میں میں نے بے شمار راتیں جنگل میں گذاری تھیں۔ کسی آدم خور کا مقابلہ کرنے کے لئے جنگل میں رات گذارنے کا یہ پہلا موقع تھا۔ جلد ہی ساری سڑک چاند کی روشنی سے منور ہو گئی۔ سڑک سے دائیں اور بائیں جانب درختوں کے پتوں سے چاندنی چھن رہی تھی۔ جب ہوا چلتی تو ایسا لگتا کہ درجنوں شیر میری طرف بڑھ رہے ہوں۔ مجھے اپنی حماقت پر افسوس ہونے لگا کہ میں نے زمین پر بیٹھنے کا فیصلہ کیوں کیا۔ اب میں اس آدم خور کے رحم و کرم پر تھا۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے شرمندگی ہو رہی ہے کہ مجھے گاؤں واپس جانے کی جرأت نہ ہو رہی تھی۔ سردی اور خوف سے میرے دانت بج رہے تھے۔ جب سورج کی سنہری کرنیں میرے سامنے والے پہاڑوں کی برفانی چوٹیوں پر پڑیں تو میں نے گھٹنوں میں سر دیا ور بے خبر سو گیا۔ گھنٹے بھر بعد میرے آدمی مجھے اٹھانے آئے۔ میں نے ساری رات شیرنی کی آواز تک نہ سنی تھی۔
گاؤں میں میری بحفاظت واپسی پر گاؤں والے پریشان تھے۔ میں نے انہیں کہا کہ وہ مجھے ان جگہوں پر لے جائیں جہاں شیرنی نے انسانی ہلاکتیں کی ہوں۔انہوں نے محض اپنی دہلیز سے ہی ہاتھوں کے اشارے سے بتانے کی کوشش کی۔ آخری ہلاکت جس کے بعد میں ادھر آیا تھا، گاؤں کے بالکل کنارے پر ہوئی تھی۔ عورتیں اور لڑکیاں جن کی تعداد بیس تھی، مویشیوں کے لئے درختوں سے پتے توڑنے گئی ہوئی تھیں۔ یہ عورتیں دن چڑھے گاؤں سے بمشکل نصف میل دور جا کر درختوں پر چڑھی تھیں تاکہ پتے توڑ سکیں۔ متوفیہ اور اس کے ہمراہ دو اور عورتوں نے کھڈ کے کنارے ایک درخت چنا۔ یہ کھڈ چار فٹ گہری اور دس یا بارہ فٹ چوڑی تھی۔ متوفیہ نے سب سے پہلے مطلوبہ مقدار میں پتے توڑ لئے تھے اور نیچے اترنے لگی۔ شیرنی جو کہ انتہائی خاموشی سے کھڈ تک پہنچی تھی، نے باہر نکل کر عورت کا پیر منہ میں دبا لیا۔ عورت کے ہاتھ سے درخت کی ٹہنی چھوٹ گئی۔ اسے کھڈ میں گھسیٹ کر شیرنی نے پاؤں چھوڑا اور اسے گلے سے دبوچ لیا۔ ہلاک کرنے کے بعد شیرنی نے اسے اٹھائے ہوئے جست لگائی اور گھاس میں گم ہو گئی۔
چونکہ یہ سارا واقعہ دیگر دو عورتوں کے سامنے پیش آیا تھا، انہوں نے یہ سب کچھ تفصیل سے دیکھا۔ شیرنی اور اس کے شکار کے نظروں سے اوجھل ہوتے ہی دہشت سے سہمی ہوئی ساری عورتیں اور لڑکیاں گاؤں کو لوٹیں۔ اسی وقت سارے گاؤں کے مرد دوپہر کا کھانا کھانے واپس آئے تھے۔ سب نے فوراً ہی ڈھول، ڈرم، دھاتی پتیلیاں، غرض ہر وہ چیز اٹھا لی جسے بجا کر شور کیا جا سکتا۔ سارے مدد کے لئے روانہ ہوئے۔ مرد آگے آگے اور عورتیں پیچھے پیچھے تھیں۔
جائے حادثہ پر پہنچ کر یہ سوال آ کھڑا ہوا کہ "اب کیا کریں؟" ابھی وہ یہ بحث کر ہی رہے تھے کہ شیرنی نے پاس والی جھاڑی سے نکل کر زور دار بھبھکی دی۔ تمام افراد سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے اور گاؤں پہنچ کر ہی دم لیا۔ جب سانس بحال ہوئی تو ہر ایک دوسرے کو الزام دینے لگاکہ وہ پہلے بھاگا تھا۔ جب تو تو میں میں اور تکرار کی نوبت آئی تو ایک شخص نے کہا کہ اگر کوئی سارے ہی اپنے دعوؤں کے مطابق اتنے سچے اور بہادر ہیں تو کیوں نہ دوبارہ جا کر اس عورت کی جان بچائیں؟ تین بار یہ پارٹی کھڈ تک جا کر لوٹ آئی۔ چوتھی بار جس شخص کے پاس بندوق تھی، نے ہوا میں گولی چلائی۔ شیرنی فوراً ہی جھاڑیوں سے غرائی۔ غرض یہ پارٹی اب مدد کا خیال دل سے نکال کر واپس لوٹ آئی۔ میں نے بندوقچی سے کہا کہ اس نے ہوا میں گولی چلانے کی بجائے جھاڑی میں کیوں نہیں گولی چلائی۔ وہ بولا کہ شیرنی پہلے ہی غضب ناک ہو رہی تھی۔ اگر بدقسمتی سے کوئی چھرا اسے لگ جاتا تو وہ اسے زندہ نہ چھوڑتی۔
اگلی صبح میں تین گھنٹے تک شیرنی کے نشانات تلاش کرتا رہا۔ ساتھ ہی ساتھ مجھے شیرنی سے اچانک مڈبھیڑ کا خطرہ بھی رہا۔ ایک جگہ جہاں گھنی جھاڑیاں تھیں، کی تلاش کی دوران تیتروں کا جھنڈ پھڑپھڑاتا ہوا اڑا تو مجھے لگا کہ میرا دل دھڑکنا بھول گیا ہے۔
میرے آدمیوں نے اخروٹ کے درخت تلے زمین صاف کر کے ناشتے کے لئے جگہ بنائی تھی۔ ناشتے کے بعد نمبردار نے مجھے کہا کہ اگر میں رائفل لے کر نگرانی کروں تو وہ لوگ گندم کی تیار فصل کاٹ لیں۔ اس نے کہا کہ اگر یہ فصل آج نہ کاٹی گئی تو بعد میں اسے کوئی نہیں کاٹنے والا۔ لوگ اتنے زیادہ خوفزدہ ہیں۔ نصف گھنٹے بعد پورا گاؤں بمع میرے آدمیوں کے کٹائی پر لگ گئے۔ میں رائفل لئے نگران کھڑا رہا۔ شام ہوتے ہوتے پانچ بڑے کھیتوں کی کٹائی مکمل ہو گئی۔ بقیہ دو کھیت چھوٹے اور گاؤں سے متصل تھے۔ نمبردار کے بقول یہ کھیت کٹائی کے لئے محفوظ تھے۔
گاؤں کی صفائی کی صورتحال اب کافی بہتر ہو چلی تھی۔ اب کے گاؤں والوں نے میرے لئے دوسرا کمرہ خالی کر دیا تھا۔ اس رات ہم نے اس کمرے کے دروازے کی جگہ کانٹے دار جھاڑیاں لگا دیں تاکہ ہوا کی آمد و رفت تو جاری رہے لیکن شیرنی نہ گذر پائے۔ یہ رات میں نے اچھی طرح نیند پوری کی جو کہ سابقہ رات کی ادھار تھی۔
اب میری موجودگی سے گاؤں والوں کی ہمت کافی بڑھ چکی تھی۔ ان کی نقل و حمل بھی نسبتاً بڑھ گئی تھی۔ تاہم ابھی بھی وہ مجھ پر اتنا بھروسہ نہیں کرتے تھے کہ میرے ساتھ چل کر آخری واردات کی جگہ دکھائیں یا جنگل میں میرے ساتھ مٹر گشت کر سکیں۔ یہ لوگ پورے جنگل سے اچھی طرح واقف تھے اور مجھے ان جگہوں تک لے جا سکتے تھے جہاں شیرنی کی موجودگی کا امکان ہوتا یا کم از کم میں شیرنی کے پنجوں کے نشانات تو دیکھ سکتا۔ اس وقت تک مجھے قطعی علم نہیں تھا کہ آیا یہ آدم خور نر ہے یا مادہ، نوعمر ہے یا بوڑھا شیر۔ ان سب معلومات کا حصول اس کے پنجوں کے نشانات یعنی پگوں کو دیکھ کر ہی ہو سکتا تھا۔
اس صبح چائے کے بعد میں نے گاؤں والوں سے کہا کہ میں اپنے آدمیوں کے لئے گوشت چاہتا وہں۔ کیا کوئی دیہاتی میرے ساتھ چل سکتا ہے کہ میں گڑھل یعنی پہاڑی بکرے کا شکار کر سکوں۔ یہ پورا گاؤں شرقاً غرباً ایک لمبی کھائی کے کنارے پہاڑ کی بلندی پرواقع تھا۔ اس کے ساتھ ہی وہ سڑک گذرتی تھی جہاں میں نے پہلی رات شیرنی کا انتظار کیا تھا۔ یہ سڑک بہت ساری ڈھلوانوں سے ہو کر گذرتی تھی۔ مجھے بتایا گیا کہ یہاں گڑھل بہت ملتے ہیں۔ میں نے اپنی خوشی ظاہر کئے بغیر تین افراد کا چناؤ کیا۔ میں نے نمبردار سے وعدہ کیا کہ اگر گڑھل بکثرت ہوئے تو میں ایک اپنے آدمیوں کے لئے اور دو گاؤں والوں کے لئے ماروں گا۔
سڑک عبور کر کے ہم گہری ڈھلوان کھائی میں نیچے اترے۔ میں ہر طرف اچھی طرح دیکھ بھال کر چل رہا تھا تاکہ کسی گڑھل کو دیکھ سکوں۔ نصف میل بعد کھائیاں ختم ہو رہی تھیں۔ ان کی جڑ سے پوری وادی کے دائیں جانب کا بہترین نظارہ دیکھنے کو مل رہا تھا۔ میں وہاں موجود چلغوزے کے اکلوتے درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا۔ اچانک میری آنکھ کے گوشے سے کسی حرکت کا احساس ہوا۔ میں نے اس طرف اپنی پوری توجہ مرکوز کر دی۔ حرکت دوبارہ ہوئی۔ یہ گڑھل کا سر تھا جس کے کان ہلے تھے۔ اس کا سر گھاس سے باہر نکلا ہوا تھا جبکہ پورا جسم گھاس میں چھپا ہوا تھا۔ دیگر ہمراہیوں نے کچھ بھی نہ دیکھا تھا کیونکہ سر اب بالکل پس منظر سے مل گیا تھا۔ انہیں اندازے سے بتا کر میں نے انہیں کہا کہ وہ بیٹھ کر دیکھتے رہیں۔ میرے پاس اس وقت ہنری مارٹینی رائفل تھی جو اپنے نشانے کی درستی اور گولی کے دھکے کی وجہ سے مشہورہے۔ اس میں کالے بارود کا کارتوس استعمال ہوتا تھا۔ گڑھل سے میری موجودہ جگہ کا فاصلہ کوئی دو سو گز رہا ہوگا جو کہ اس رائفل کے لئے معمولی بات تھی۔ میں نے رائفل کو اس درخت کی ایک ابھری ہوئی جڑ پر جما کر نشانہ لیا اور گولی چلا دی۔
کالے بارود کے دھوئیں نے میرے سامنے ایک پردہ سا تان دیا۔ میرے آدمیوں کا خیال تھا کہ کچھ بھی نہیں ہوا۔ شاید میں نے پتھروں یا پتوں کے ڈھیر پر گولی چلائی تھی۔ دھواں مدھم ہوا تو میں نے اس جگہ سے ذرا نیچے گھاس ہلتی ہوئی دیکھی۔ پھر لڑھکتے ہوئے گڑھل کی پچھلی ٹانگیں دکھائی دیں۔ جب گڑھل گھاس سے آزاد ہوا تو نیچے کی طرف لڑھکنے لگا۔ جوں جوں وہ نیچے آتا گیا اس کی رفتار بڑھتی چلی گئی۔ نصف فاصلے پر وہ اس جگہ سے گذرا جہاں مزید دو گڑھل لیٹے ہوئے تھے۔ لڑھکتے گڑھل سے خبردار ہو کر یہ اٹھے اور سیدھا اوپر کی طرف بھاگے۔ میں نے کارتوس بدل کر دوبارہ نشانہ درست کیا اور جونہی بڑا گڑھل ذرا سا رکا، میں نے اس کی کمر میں اور دوسرے کے کندھے میں گولیاں اتار دیں۔
بعض اوقات ہم سے ایسے کام ہو جاتے ہیں جو بظاہر ناممکن دکھائی دیتے ہیں۔ سخت زمین پر لیٹ کر ساٹھ ڈگری کے زاویے پر دو سو گز دور گڑھل کی گردن کے سفید نشان پر گولی چلانا، چاہے گولی کے درست جگہ لگنے کے لاکھوں میں سے ایک امکان ہونے کے باوجود بھی گولی بال برابر بھی اپنے نشانے سے نہ ہٹی۔ کالے بارود نے گولی کو ٹھیک نشانے پر پہنچایا۔ گڑھل اسی وقت مر چکا تھا۔ پھر اس سخت ڈھلوان پر لڑھکتا ہوا گڑھل اس جگہ پہنچا جہاں پہلے سے دو اور گڑھل موجود تھے۔ ابھی یہ گڑھل اس جگہ سے نیچے نہ آیا تھا کہ دوسرے دونوں گڑھل بھی اس کے پیچھے لڑھکنے لگ گئے۔ جونہی یہ تینوں جانور ہمارے قدموں میں آ کر رکے، دیہاتیوں کی حیرت قابل دید تھی۔ انہوں نے آج تک رائفل کا استعمال دیکھا تک نہ تھا۔ آدم خور کا خیال بھلا کر وہ صرف ان جانوروں کو اٹھانے لپکے۔
کئی اعتبار سے یہ مہم کامیاب رہی۔ اس سے نہ صرف گاؤں بھر کے لئے گوشت ملا بلکہ پورے گاؤں کا اعتماد بھی مجھے ملا۔ شکار کی داستانیں ہمیشہ بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہیں۔ میں ناشتہ کرنے لگا تو بقیہ گاؤں والے مردہ گڑھلوں کے گرد جمع ہو گئے۔ گڑھلوں کی کھال اتارنے اور گوشت کی تقسیم کے دوران ان تینوں افراد نے نہایت فیاضی سے میرے کارنامے پر روشنی ڈالی۔ میں نے بخوبی سنا کہ کس طرح میں نے میل بھر دور سے گڑھل پر گولی چلائی۔ نہ صرف یہ بلکہ ان جادوئی گولیوں نے گڑھلوں کو کھینچ کر صاحب کے قدموں میں لا کر ڈال دیا۔
دوپہر کے کھانے کے بعد نمبردار میرے پاس آیا اور اس نے مجھ سے پوچھا کہ مجھے کتنے افراد درکار ہیں اور یہ کہ میں کس طرف جنگل میں جانا چاہتا ہوں۔ اپنی مسرت کو چھپاتے ہوئے میں نے خاموشی سے دو افراد کو چنا جو گڑھلوں والی مہم میں میرے ساتھ تھے۔ اب ہم اس طرف روانہ ہوئے جہاں آخری واردات ہوئی تھی۔
چونکہ ہمارے پہاڑوں کے لوگ ہندو ہیں اور وہ اپنے مردوں کو جلاتے ہیں۔ آدم خور کے شکار کی صورت میں وہ کوشش کرتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ باقیات لازماً مل جائیں۔ چاہے وہ ہڈیوں کے محض چند ریزے ہی کیوں نہ ہوں۔ اس مردہ خاتون کی رسومات ابھی ہونی باقی تھیں۔ اس کے لواحقین نے درخواست کی کہ اگر ممکن ہو تو میں کچھ نہ کچھ باقیات لازماً اپنے ساتھ واپس لاؤں۔
لڑکپن سے ہی میں نے جنگل کا مطالعہ شروع کر دیا تھا۔ موجودہ واردات کے بارے مجھے عینی شاہدین نے بھی معلومات دی تھیں۔ عینی شاہدین ہمیشہ درست معلومات نہیں دیتے۔ لیکن جنگل میں موجود شواہد کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ جائے حادثہ پر پہنچ کر مجھے پہلی ہی نظر میں اندازہ ہو گیا کہ شیرنی یہاں چھپ کر کھڈ کے راستے ہی پہنچ سکتی ہے۔ کھڈ میں سو گز دور جا کر اور پھر اوپر لوٹتے ہوئے ایک جگہ میں نے نرم ریت پر شیرنی کے پنجوں کے واضح نشانات دیکھے۔ یہ ایک مادہ شیرنی تھی جو اپنی جوانی گذار چکی تھی۔ مزید اوپر جا کر درخت سے دس گز پہلے شیرنی ایک پتھر کے پیچھے چھپ کر عورتوں کے نیچے اترنے کا انتظار کرنے بیٹھی تھی۔ متوفیہ درخت سے اترنے والی پہلی عورت تھی۔ ابھی وہ پوری طرح نیچے اترنے بھی نہ پائی تھی کہ شیرنی نے پچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر اسے دبوچ لیا۔ اس بدقسمت عورت نے شاخ کو کتنی مضبوطی سے پکڑا ہوگا کہ اس پر ہتھیلی اور انگلیوں سے اتری ہوئی کھال ابھی تک موجود تھی۔ جہاں شیرنی نے عورت کو ہلاک کیا تھا، وہاں مزاحمت کے نشانات تھے اور خون کا ایک بڑا سا دھبہ بھی۔ یہاں سے خون کی خشک لکیر کھڈ ے ہوتی ہوئی دوسرے کنارے تک جا پہنچی۔ کھڈ سے نکلتے ہی وہ جھاڑیاں سامنے تھیں جہاں شیرنی نے اسے کھایا تھا۔
عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ آدم خور شیر کھوپڑی، پنجے اور پیروں کو نہیں کھاتے۔ یہ غلط تصور ہے۔ اگر آدم خور شیر کو تنگ نہ کیا جائے تو وہ سب کچھ کھا لیتے ہیں حتٰی کہ خون آلودہ کپڑے بھی۔ ایک بار میں نے ایک آدم خور کے پیٹ سے خون سے رنگے ہوئے کپڑے خود نکالے تھے۔ تاہم یہ قصہ کسی دوسرے وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔
اس وقت ہم نے عورت نے خون آلود کپڑے اور ہڈیوں کے چند ریزے پائے۔ انہیں ہم نے اپنے ساتھ لائے گئے سفید کپڑے میں احتیاط سے باندھ لیا۔ چاہے باقیات کتنی ہی مختصر کیوں نہ ہوں، یہ آخری رسومات کے لئے کافی ہوتی ہیں۔ انہیں جلا کر گنگا دریا ڈال دیا جاتا ہے۔
اس کے بعد میں نے دوسری مگر پرانی واردات کی جگہ کا چکر لگایا۔ گاؤں سے ہٹ کر سڑک کے پار چند ایکڑ کا ایک کھیت تھا۔ اس کے مالک نے سڑک کے کنارے اپنا گھر بھی بنایا ہوا تھا۔ اس کی بیوی دو بچوں کی ماں تھی جن میں سے ایک چھ سالہ لڑکا اور ایک چار سالہ لڑکی تھے۔ اس کی بڑی بہن بھی اس کے ہمراہ رہتی تھی۔ ایک روز یہ دونوں بہنیں مکان کے اوپر والی پہاڑی پر گھاس کاٹ رہی تھیں کہ اچانک شیرنی نمودار ہوئی اور بڑی بہن کو اٹھا کر چلتی بنی۔ چھوٹی بہن درانتی لہراتی ہوئی سو گز تک ان کے پیچھے بھاگی تاکہ شیرنی سے اپنی بہن کو چھڑا کر خود کو اس کے حوالے کر دے۔ اس جرأت کا سارے گاؤں والوں نے نظارہ دیکھا۔ سو گز کے بعد شیرنی نے متوفیہ کو زمین پر ڈالا اور دوسری بہن کی طرف پلٹی۔ غراہٹ کے ساتھ اس نے دوسری بہن پر چھلانگ لگائی جو اب گاؤں کی طرف بھاگتی ہوئی جا رہی تھی تاکہ گاؤں والوں کو اس واردات کے بارے بتا سکے۔ اسے علم نہ تھا کہ گاؤں والے یہ سب پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔ اس وقت عورت کی غوں غاں کو گھبراہٹ، خوف اور جوش کی وجہ سے سمجھا گیا۔ جب یہ تمام افراد شیرنی کے پیچھے جا کر ناکام پلٹے تو انہیں علم ہوا کہ یہ عورت اپنی قوت گویائی کھو چکی ہے۔ مجھے گاؤں میں یہ کہانی سنائی گئی اور جب میں سڑک عبور کر کے اس کے گھر پہنچا تو وہ بیچاری کپڑے دھو رہی تھی۔ اسے گونگی ہوئے پورا ایک سال ہو چکا تھا۔
آنکھوں سے اس کی بے چینی کے اظہار کے سوا وہ عورت بالکل نارمل لگ رہی تھی۔ جب میں اس کے پاس رک کر اسے یہ بتانے لگا کہ میں اس کی بہن کے قاتل کو ہلاک کرنے آیا ہوں تو اس نے جھک کر میرے پیروں کو چھوؤا۔ یقیناً میں اس علاقے میں آدم خور کو ہی ہلاک کرنے آیا تھا لیکن ایسا آدم خور جو کبھی ایک علاقے میں شکار نہ کرتا ہو، شکار کو کھانے بھی نہ پلٹتا ہو اور جو کئی سو مربع میل کے علاقے میں سرگرم ہو، کا شکار میرے لئے اتنا ہی دشوار ہوتا جتنا کہ بھوسے کے ایک نہیں بلکہ دو ڈھیروں سے ایک سوئی کو تلاش کرنا۔
نینی تال سے آتے ہوئے میں نے بے شمار منصوبے تیار کئے تھے۔ ایک منصوبہ تو جنگلی گھوڑوں کی وجہ سے ناقابل عمل تھا۔ موجودہ صورتحال میں دیگر تمام منصوبے بیکار لگ رہے تھے۔ اس کے علاوہ یہاں کوئی ایسا آدمی نہ تھا کہ جس سے میں مدد مانگ سکتا۔ یہ اس علاقے کا پہلا آدم خور تھا۔ اگلے تین دن تک میں سورج طلوع ہونے سے لے کر سورج ڈوبنے تک جنگلات میں گھومتا رہا اور بالخصوص ان جگہوں پر زیادہ توجہ دی جہاں گاؤں والوں کے اندازے کے مطابق شیرنی سے مڈبھیڑ کے زیادہ امکانات تھے۔
یہاں میں تھوڑا سا توقف کروں گا۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے۔ یہ غلط فہمی ان پہاڑی علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے کہ اس بار اور دیگر کوئی مواقع پر میں نے دیہاتی عورت کا سا لباس پہن کر آدم خوروں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے اور کلہاڑی یا درانتی سے انہیں ہلاک بھی کیا ہے۔ حقیقتاً اس افواہ میں اتنی صداقت ہے کہ میں نے محض اپنے لباس پر ساڑھی مانگ کر لیپیٹ لی اور گھاس کاٹی ہے یا درخت پر چڑھ کر میں نے پتے توڑے ہیں۔ میرے علم میں صرف دو بار آدم خور میری طرف متوجہ ہوئے تھے۔ انہوں نے گھات بھی لگائی، ایک بار ایک بڑے پتھر کے پیچھے چھپ کر اور دوسری بار گرے ہوئے درخت کے تنے کے پیچھے چھپ کر۔ دونوں بار مجھے گولی چلانے کا موقع نہیں مل سکا۔
اب میں اصل واقعہ جاری رکھتا ہوں۔ میرا اندازہ تھا کہ شیرنی ادھر سے چلی گئی ہے۔ لوگوں کی مایوسی کے باوجود میں نے چمپاوت منتقل ہونے کا ارادہ کیا۔ چمپاوت یہاں سے پندرہ میل دور تھا۔ صبح سویرے ہم روانہ ہوئے۔ دھونا گھاٹ پر ناشتہ کرنے رکے اور چمپاوت ہم سورج غروب ہوتے وقت جا پہنچے۔ اس علاقے کی سڑکیں بالکل غیر محفوظ تصور کی جاتی تھیں۔ آدمی بڑے بڑے گروہوں میں ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں یا بازاروں کو آتے جاتے تھے۔ دھونا گھاٹ سے روانہ ہوتے وقت ہم آٹھ افراد تھے کہ ہمارے ساتھ بائیس مزید دیہاتی بھی آن ملے۔ اب ہم کل تیس افراد کا گروہ چمپاوت پہنچا۔ ان نئے ہمراہیوں میں سے کچھ افراد دو ماہ قبل ایک اور بیس آدمیوں کے گروہ کے ساتھ شامل ہو کر چمپاوت پہنچے تھے۔ انہوں نے اس کی داستان کچھ یوں بیان کی۔
یہاں سڑک چند میل پہاڑ کے جنوب سے گذرتی ہے۔ پچاس گز دور وادی سے یہ سڑک متوازی ہے۔ دو ماہ قبل یہ بیس افراد چمپاوت کے بازار میں شرکت کے لئے آ رہے تھے۔ سڑک بالکل خالی تھی اور دن کا وقت تھا۔ اچانک انہوں نے چیخوں کی آوازیں سنیں اور دہشت زدہ ہو گئے۔ پھر انہوں نے شیرنی کو دیکھا جو ایک برہنہ عورت کو اٹھائے لا رہی تھی۔ یہ عورت اپنی چھاتی پیٹ پیٹ کر مدد کے لئے پکار رہی تھی۔ اس کے سر کے بال ایک طرف اور پاؤں دوسری طرف سڑک پر گھسٹ رہے تھے۔ شیرنی نے اسے کمر سے پکڑا ہوا تھا۔ ان سے پچاس گز دور سے شیرنی گذری اور اس کے بعد یہ لوگ اپنے راستے پر چل دیئے۔
میں نے کہا کہ تم بیس آدمی ہو کر بھی کچھ نہ کر پائے؟
نہیں صاحب۔ ہم اتنے خوفزدہ تھے کہ کچھ نہ کر سکے۔ آدمی جب خوفزدہ ہو تو کیا کر سکتا ہے؟ مزید یہ کہ اگر ہم شیرنی سے اس عورت کو چھڑا بھی لیتے اور شیرنی ہم پر حملہ بھی نہ کرتی تو بھی عورت اتنی زخمی تھی کہ اس کا بچنا ناممکن ہوتا۔
مجھے بعد میں علم ہوا کہ وہ عورت چمپاوت کے نزدیک ایک گاؤں سے تعلق رکھتی تھی۔ اسے شیرنی اس وقت اٹھا کر لے گئی جب وہ خشک لکڑیاں چن رہی تھی۔ اس کی ساتھیوں نے بھاگ کر گاؤں والوں کو خبردار کیا۔ ابھی امدادی جماعت تیار ہو ہی رہی تھی کہ یہ بیس افراد بھی آن پہنچے۔ اس طرح امدادی جماعت کو شیرنی کے جانے کا راستہ معلوم ہوا اور یہ سب اکٹھے ہو کر شیرنی کے پیچھے چلے۔ آگے کی کہانی کچھ یوں تھی:
ہم لوگ کوئی پچاس یا ساٹھ مضبوط و توانا مرد تھے جو اس عورت کو بچانے نکلے۔ ہمارے ساتھ کئی افراد بندقوں سے مسلح تھے۔ ایک فرلانگ دور اس عورت کی جمع شدہ لکڑیاں موجود تھیں۔ پاس ہی اس عورت کے تار تار کپڑے پڑے ہوئے تھے۔ یہاں سے ڈھول بجانے اور بندوقیں چلانے لگے۔ میل بھر دور جا کر انہوں نے ایک جگہ اس نوعمر عورت کی لاش ایک پتھر پر پڑی پائی۔ شیرنی نے اس کے جسم سے سارا خون چاٹ کر صاف کر دیا تھا لیکن ابھی اسے کھانا شروع نہیں کیا تھا۔ چونکہ یہ سارے مرد تھے انہوں نے منہ پھیر کر لاش کر کپڑے سے ڈھک دیا۔ بیچاری عورت اس طرح پڑی تھی جیسے وہ تھک کر سو گئی ہو اور ہلکی سی آہٹ ہوتے ہی جاگ جاتی۔
اس طرح کی داستانیں بند دروازوں کے پیچھے اور آتش دان میں جلتے انگاروں کی موجودگی میں سنائی جاتی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آدم خور کی موجودگی سے اس علاقے کے لوگوں کا رویہ اور احساسات کیسے بدل جاتے ہیں۔ اس کا حقیقی اندازہ گھر سے باہر تاریکی میں نکل کر لگایا جا سکتا ہے جہاں ان درندوں کی حکومت ہوتی ہے۔ جہاں لوگ ان کی موجودگی اور ان کی دہشت کے سائے میں جیتے ہیں۔ ان دنوں میں بالکل ناتجربہ کار تھا پھر بھی مجھے بخوبی اندازہ ہو چلا تھا کہ آدم خور کی موجودگی کے باعث کتنی دہشت ان علاقوں پر چھا جاتی ہے۔ میرے تئیس سال کے تجربے سے بھی یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے۔
چمپاوت کا تحصیلدار اس رات مجھ سے ملنے آیا۔ میرے پاس اس کے لئے ایک تعارفی خط موجود تھا۔ اس نے مجھے رائے دی کہ میں چند میل دور ایک اور بنگلے میں منتقل ہو جاؤں۔ اُس جگہ کے آس پاس کئی وارداتیں ہوئی تھیں۔
اگلی صبح جلدی سے تحصیلدار کے ہمراہ میں اس بنگلے میں پہنچا۔ وہاں میں برآمدے میں بیٹھا ناشتہ کر ہی رہا تھا کہ دو بندوں نے مجھے آ کر اطلاع دی کہ شیر نے گاؤں سے دس میل دور ایک گائے کو ہلاک کر دیا ہے۔ تحصیلدار نے معذرت کی کہ اسے چمپاوت میں چند اہم کام نمٹانے ہیں اور یہ کہ وہ شام کو میرے ساتھ آ کر بنگلے میں ہی رات گذارے گا۔ وہ چلا گیا۔ میرے رہنما دونوں ہی مضبوط افراد تھے۔ ہم نے دس میل کا فاصلہ رکارڈ وقت میں طے کیا۔ گاؤں آ کر ہم مویشیوں کے باڑے میں گئے۔ یہاں ایک کافی بڑا بچھڑا مرا ہوا تھا اور اسے تیندوے نے کھایا تھا۔ میرے پاس اس تیندوے سے مقابلہ کرنے کا نہ تو وقت تھا اور نہ ہی کوئی ارادہ۔ میں نے دونوں افراد کو مناسب انعام دیا اور واپس چل پڑا۔ بنگلے پہنچ کر میں نے دیکھا کہ تحصیلدار ابھی تک نہ لوٹا تھا۔ سورج ڈوبنے میں ایک گھنٹہ باقی تھا۔ میں چوکیدار کے ساتھ اس طرف چل دیا جہاں بقول چوکیدار شیرنی اکثر پانی پینے آیا کرتی تھی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں سے بنگلے کے باغیچے کو پانی آتا تھا۔ یہاں نرم مٹی میں شیر کے بے شمار پگ دکھائی دیئے جو کئی دن پرانے تھے۔ یہ نشانات آدم خور کے پگوں سے یکسر مختلف تھے۔
بنگلے لوٹ کر میں نے تحصیلدار کو موجود پایا۔ برآمدے میں بیٹھ کر میں نے دن بھر کی روداد سنائی۔ اس ے میری ناکامی پر ہمدردی کا اظہار کی۔ پھر اچانک ہی وہ اٹھا اور بولا کہ اس کی واپسی کا سفر کافی لمبا ہے اس لئے اسے فوراً ہی روانہ ہو جانا چاہیئے۔ مجھے انتہائی حیرت ہوئی۔ آج صبح دو بار اس نے مجھے کہا تھا کہ وہ میرے ساتھ رات گذارے گےا۔ مجھے اس کے رکنے یا نہ رکنے سے کوئی غرض نہ تھی۔ میں اس طرح اس کی واپسی کے خیال سے اور اس کی حفاظت کے لئے پریشان ہو رہا تھا۔ تاہم اس نے تمام باتیں سنی ان سنی کرتے ہوئے واپسی اختیار کی۔ اس کے پیچھے ایک مقامی بندہ لالٹین اٹھائے ہوئے تھا۔ اس مدھم روشنی میں اسے ان چار میلوں کا سفر طے کرنا تھا جو دن دیہاڑے لوگ بڑے بڑے گروہوں میں طے کرتے ہوئے کتراتے تھے۔ میں نے اس بہادر شخص کو سلام کیااور اسے نظروں سے دور ہوتے ہوئے دیکھتا رہا۔
اس بنگلے کے متعلق بھی مجھے ایک داستان سنانی ہے لیکن اس کتاب میں نہیں۔ یہ کتاب جنگل سے متعلق ہے۔ جنگل سے ہٹ کر مافوق الفطرت باتیں اس کتاب میں کرنا مناسب نہیں۔
اگلی صبح میں نے بنگلے کے پھلوں اور پھولوں سے بھرے باغ کا چکر لگایا اور چشمے پر نہا کر دوپہر کو میں نے تحصیلدارکو واپس آتے دیکھا تو اطمینان کا سانس لیا۔
ابھی میں وہیں کھڑا اس سے باتیں کر ہی رہا تھا کہ میں نے ڈھلوان سے اوپرکی طرف آتے ہوئے ایک شخص کو دیکھا جو کبھی چلتا اور کبھی دوڑتا ہوا آ رہا تھا۔ بظاہر وہ خاصی جلدی میں لگ رہا تھا۔ تحصیلدار سے کہہ کر کہ میں ابھی واپس آتا ہوں، نیچے اترا اور اس شخص کی طرف بھاگا۔ مجھے آتے دیکھ کر وہ شخص رک گیا اور سانس لینے بیٹھ گیا۔ جونہی میں اس کے قریب ہوا، وہ چلایا کہ "صاحب، جلدی کریں۔ شیرنی نے لڑکی کو مار ڈالا ہے۔" میں چلایا "وہیں بیٹھو" اور واپس بنگلے کی طرف بھاگا۔ تحصیلدار کو یہ بات بتائے ہوئے میں نے رائفل اٹھائی اور چند اضافی گولیاں جب میں ڈالیں اور واپس پلٹا۔ تحصیلدار کوپیچھے آنے کا کہتے ہوئے میں چل پڑا۔
جو شخص خبر لایا تھا، وہ کچھ اس طرح کا بندہ تھا کہ اس کی ٹانگیں اور زبان بیک وقت کام نہیں کر سکتی تھیں۔ منہ کھلتا تو اس کی ٹانگیں رک جاتیں اور جب چلتا تو منہ بند ہو جاتا۔ میں نے اسے کہا کہ وہ خاموشی سے میرے پیچھے آئے اور ہم پہاڑی سے نیچے اترے۔
گاؤں میں مردوں، عورتوں اور بچوں کا ہجوم جمع تھا اور وہ سب نہایت پرجوش ہو رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی سب کے سب ایک ساتھ بولنا شروع ہو گئے۔ انہیں ایک شخص چپ کرا رہا تھا۔ میں اس شخص کو الگ لے گیا اور اس سے ماجرا دریافت کیا۔ گاؤں کے ایک جانب چند درختوں کے جھنڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس نے بتایا جہاں ایک فرلانگ لمبی ڈھلوان تھی۔ یہاں درجن بھر افراد لکڑیاں جمع کر رہے تھے کہ اچانک آدم خور نمودار ہوئی اور ایک سولہ سالہ لڑکی کو اٹھا کر لے گئی۔ بقیہ افراد گاؤں کی طرف بھاگے اور چونکہ میری آمد کی خبر سب کو تھی، انہوں نے میری طرف فوراً ایک بندہ دوڑا دیا۔
جس بندے سے میں گفتگو کر رہا تھا، اس کی بیوی بھی ان درجن افراد میں شامل تھی۔اس نے پہاڑ کے کنارے والے درخت کی طرف اشارہ کیا کہ شیرنی نے وہاں سے لڑکی کو اٹھایا ہے۔ کسی فرد کو اتنا ہوش نہیں تھا کہ وہ مڑ کر یہ دیکھتا کہ شیرنی اس لڑکی کو لے کر کس طرف گئی ہے۔
سب کو یہ ہدایت کر کے کہ جب تک میں واپس نہ آ جاؤں، کوئی بھی گاؤں سے باہر نہ نکلے اور نہ ہی شور کرے۔ میں اب اس درخت کی طرف بڑھا۔ سارا علاقہ ہموار تھا اور کہیں بھی شیرنی کے چھپنے کی جگہ نہیں تھی۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ کس طرح شیرنی چھپ کر لڑکی تک پہنچی۔ دیگر افراد کو تب علم ہوا جب انہوں نے لڑکی کے دم گھٹنے کی آوازیں سنیں۔
اس جگہ پر جہاں شیرنی نے لڑکی کو ہلاک کیا تھا، خون کا تالاب سا بنا ہوا تھا۔ ساتھ ہی لڑکی کا گلوبند موجود تھا جو نیلے موتیوں کا تھا۔ یہاں سے نشانات پہاڑی کی طرف بڑھے۔
راستے کے ایک طرف خون کی لکیر اور دوسری طرف لڑکی کے پیروں کے گھسٹنے کے نشانات موجود تھے۔ پہاڑی پر نصف میل دور جا کر مجھے لڑکی کی ساڑھی ملی۔ ایک بار پھر شیرنی ایک برہنہ لاش اٹھائے جا رہی تھی۔ خدا کا شکر ہے کہ اس بار اس کا شکار مر چکا تھا۔
پہاڑ کی چوٹی پر نشانات ایک کانٹے دار جھاڑی سے گذرے جہاں لڑکی کے بال الجھے ہوئے تھے۔ یہاں ایک اور بہت دشوار گذار کانٹے دار جھاڑی سے شیرنی گذری تھی۔ اس سے بچنے کی کوشش میں ہی تھا کہ میں نے اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سنی۔ مڑ کر دیکھا تو ایک شخص رائفل اٹھائے میری طرف آ رہا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ میری واضح ہدایات کے باوجود اس نے گاؤں سے کیسے قدم باہر نکالا؟ اس نے کہا کہ اسے تحصیلدار نے میرا ساتھ دینے کو کہا تھا۔ اسے تحصیلدار کی حکم عدولی کی جرأت نہ ہوئی۔ چونکہ وہ واپس جانے والا نہیں تھا، میں نے اس سے بحث نہ کی کہ مفت میں وقت برباد ہوتا۔ میں نے اسے بھاری بوٹ اتارنے اور جھاڑیوں میں چھپا دینے کو کہا۔ پھر اسے ہدایت کی کہ وہ میرے بالکل قریب عقب میں چلے اور پیچھے سے پوری طرح خبردار رہے۔
میں پتلی جرابیں ، نیکر اور ربر سول والے جوتے پہنے ہوئے تھا۔ اس جھاڑی سے بچنے کا راستہ نہ تھا۔ اس لئے میں اس میں سے ہو کر گذرا جو کافی تکلیف دہ تھا۔
جھاڑیاں عبور کرتے ہی خون کے نشانات اچانک ہی بائیں طرف مڑ گئے اور آگے چل کر نیچے ایک بہت عمودی ڈھلوان سے گذرے جہاں پہاڑی بانس کے درخت موجود تھے۔ سو گز دور خون کی یہ لکیر ایک عمودی نالے سے گذری۔ یہاں شیرنی نے کسی قدر دقت سے اسے عبور کیا۔ کنارے پر کافی پتھر وغیرہ اپنی جگہ سے ہٹے ہوئے تھے۔ پانچ یا چھ سو گز تک میں اسی طرح آگے بڑھا۔ میرا ہمراہی بیچارہ ہیجان کا شکار ہو رہا تھا۔ بہت بار اس نے مجھے روک کر کہا کہ اسے نزدیک سے شیرنی کی آواز آ رہی ہے۔ نصف ڈھلوان پر ہمیں ایک اونچی چٹان ملی جو کم از کم تیس فٹ بلند تھی۔ میرا ساتھی چونکہ آدم خور کے مزید شکار کی ہمت نہ رکھتا تھا، میں نے اسے کہا کہ وہ اس چٹان پر چڑھ جائے اور میری واپسی کا انتظار کرے۔ وہ بخوشی اس چٹان پر چڑھ گیا۔ جب وہ اپنی جگہ پر چھپ کر بیٹھ گیا تو میں نے نالے میں اپنا سفر جاری رکھا۔ سو گز دور یہ ایک گہری کھائی سے ہو کر گذری۔ کھائی اور ندی کے ملاپ پر ایک تالاب سا بنا ہوا تھا۔ خون کی لکیر اس تالاب کے کنارے سے گذری۔
شیرنی لڑکی کو لے کر سیدھی ادھر آئی تھی اور میرے تعاقب نے اسے پریشان کر دیا تھا۔ ہڈیوں کے چند ٹکڑے ادھر موجود تھے اور پانی شیرنی کے قدموں کے نشانات سے ابھرنا شروع ہو رہا تھا۔ تالاب کے کنارے مجھے ایک عجیب چیز نے متوجہ کیا۔ بعد ازاں یہ ایک انسانی ٹانگ نکلی۔ آج تک میں نے اس سے زیادہ قابل رحم چیز اور نہیں دیکھی۔ گھٹنے سے ذرا نیچے اس طرح کٹی ہوئی تھی جیسے کسی نے اسے کلہاڑی سے کاٹ کر الگ کیا ہو۔ گرم خون ابھی تک اس سے رس رہا تھا۔
اس ٹانگ کو دیکھتے ہوئے میں شیرنی کو بھول گیا۔ اچانک ہی خطرے کی لہر میرے اندر دوڑ گئی۔ رائفل اٹھائے ہوئے میں نے اپنی دونوں انگلیاں لبلبی پر رکھیں اور سر اٹھایا تو پندرہ فٹ دور میں نے پتھر لڑھکتے ہوئے دیکھے جو اب تالاب میں گرنا شروع ہو گئے تھے۔ مجھے آدم خور کے شکار کا ابھی تک کوئی تجربہ نہ تھا ورنہ میں خود کو اس طرح خطرے میں نہ ڈالتا۔ رائفل اٹھانے کی وجہ سے شیرنی نے چھلانگ لگانے کا ارادہ بدلا اور بھاگ گئی۔ اس کے قدموں سے پتھر لڑھکے اور تالاب میں گرنے لگے گئے۔
کنارہ بہت عمودی تھا۔ اس پر چڑھنے کا واحد ذریعہ دوڑ کر اس پر چڑھنا ہی تھا۔ تالاب کی طرف جا کر میں بھاگا اور چھلانگ لگا کر اس پر چڑھتے ہوئے جھاڑی کا سہارا لے کر اوپر پہنچ گیا۔ یہاں جھاڑیوں کی جھکی ہوئی شاخیں اب آہستہ آہستہ اپنی جگہ لوٹ رہی تھیں کہ شیرنی ابھی ابھی ادھر سے گذری تھی۔ یہاں ایک جھکی ہوئی چٹان کے نیچے وہ لڑکی کی لاش چھوڑ کر مجھے دیکھنے آئی تھی۔
یہاں سے وہ لڑکی کی لاش کو لے کر اس حصے میں گھسی جہاں بڑے بڑے پتھر موجود تھے۔ یہ علاقہ کئی ایکڑ پر مشتمل تھا اور یہاں گھسنا خطرناک اور دشوار ہوتا۔ پتھروں کے درمیان بیلیں اور جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ ایک غلط قدم آسانی سے ہاتھ پیر تڑوا سکتا تھا یا پھر سیدھا موت کے منہ میں لے جاتا۔ اس صورتحال میں پیش قدمی بہت مشکل اور آہستہ تھی۔ شیرنی اس سے پورا فائدہ اٹھا رہی تھی۔ درجن بھر جگہوں پر میں نے اس کے رکنے کے نشانات دیکھے۔ ہر بار خون کی لکیر کم سے کم ہوتی گئی۔
یہ اس شیرنی کا ۴۳۶ واں شکار تھا۔ اسے بخوبی علم تھا کہ اس کا پیچھا کر کے لاش لے جانے کے لئے لوگ کیسے آتے ہیں۔ شاید یہ پہلی بار تھا کہ کوئی اس کا پیچھا اتنی مستقل مزاجی سے کر رہا تھا۔ اب اس نے غرانا شروع کر دیا تھا۔ شیرنی کی اس غراہٹ کا اندازہ آپ اس طرح لگا سکتے ہیں کہ جب آپ اس پتھریلے علاقے میں اور جھاڑیوں اور بیلوں سے بھری ہوئی جگہ پر ہوں، جہاں ہر قدم رکھنے سے پہلے یہ چیک کرنا لازمی ہو کہ آپ اندھے غار میں نہیں گریں گے۔
مجھے توقع تھی نہیں کہ آپ گھر میں آتش دان کے پاس بیٹھ کر میری کیفیت کا درست اندازہ لگا سکیں۔ شیرنی کی غراہٹ اس سے اس کے حملے کا امکان قوی سے قوی تر ہوتا جا رہا تھا اور ساتھ ہی یہ امیدیں بھی کہ حملے کی صورت میں گولی مار سکوں گا۔ اس طرح میں اس سے بدلہ لینے میں کامیاب ہو جاؤں گا۔
تاہم اس کی غراہٹ محض دھمکی ہی نکلی۔ اسے جونہی اندازہ ہوا کہ اس دھمکی سے میں ڈرنے والا نہیں بلکہ اور تیزی سے اس کا پیچھا جاری رکھے ہوئے ہوں تو وہ خاموش ہو گئی۔
تعاقب کرتے ہوئے اب چار گھنٹے سے زیادہ ہو گئے تھے۔ اگرچہ اس کی حرکت سے ہلتی ہوئی گھاس تو مجھے دکھائی دے رہی تھی لیکن اس کا بال بھی مجھے دکھائی نہیں دے سکا تھا۔ پہاڑیوں پر بلند ہوتے سائے مجھے اشارہ کر رہے تھے کہ اگر میں بخیریت واپسی چاہتا ہوں تو یہیں سے واپس مڑ جاؤں۔
چونکہ شکار ہونے والی یہ عورت ہندو تھی، اس کی رسومات کے لئے کچھ نہ کچھ باقیات لازمی درکار ہوتیں۔ تالاب سے گذرتے ہوئے میں نے اس کی ٹانگ نرم زمین میں گڑھا کھود کر دفن کر دی۔ یہاں وہ شیرنی اور دیگر جانوروں سے بھی محفوظ تھی اور جب چاہتے اسے نکال سکتے تھے۔
چٹان پر موجود میرا ساتھی مجھے زندہ دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ میری طویل غیر حاضری اور شیرنی کی غراہٹوں سے اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ شیرنی مجھے ہلاک کر چکی ہے۔ اب اسے گاؤں واپس جانے کی فکر ہو رہی تھی۔ اس نے یہ سب مجھے خود بتایا۔
نالے سے نیچے اترتے ہوئے میں نے سوچا کہ کسی گھبرائے ہوئے بندے، جس کے ہاتھ میں بھری ہوئی رائفل بھی ہو، کے آگے چلنا کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے جب وہ گرا تو اس کی اعشاریہ ۴۵۰ بور کی رائفل جو سیٖفٹی کیچ کے بغیر تھی، کا رخ دیکھ کر میں نے یہ طے کر لیا کہ آئیندہ ایبٹسن کے علاوہ کسی اور شخص کے ہمراہ آدم خور کے شکار میں نہیں جانا۔ اگر ہمراہی غیر مسلح ہو تو اس کی جان بچانا اور اگر وہ مسلح ہو تو اپنی جان بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔
پہاڑی پر اس جگہ پہنچ کر جہاں میرے ساتھی نے اپنے بوٹ چھپائے تھے، میں بیٹھ کر پائپ پینے اور اگلے دن کے منصوبے بنانے لگا۔
لازماً شیرنی آج رات متوفیہ کو مکمل ہڑپ کر لے گی اور کل کا دن وہ انہی پہاڑیوں میں گذارے گی۔
جس علاقے میں وہ اب تھی، وہاں اس پر گھات لگانا بہت مشکل تھا۔ اسی طرح اس کو گولی مارے بغیر چھیڑا جاتا تو ہو سکتا تھا کہ وہ یہ علاقہ ہی چھوڑ جاتی۔ اس لئے ہانکا ہی وہ واحد راستہ تھا جس سے کامیابی کے امکانات زیادہ تھے۔ شرط یہ تھی کہ میں اتنے افراد اکٹھے کر لیتا۔
میں اس وقت پہاڑی کے جنوبی سرے پر ایک جگہ بیٹھا تھا۔ تاحد نگاہ کسی قسم کا سبزہ نہ تھا۔ یہاں مغرب سے آنے والی ندی گذرتی تھی۔ یہ ندی وادی کو گہرائی میں کاٹتی ہوئی گذرتی تھی۔ مشرق میں یہ ندی ایک چٹان سے ٹکرا کر اپنا رخ بدل دیتی تھی اور اس جگہ سے ذرا ہٹ کر گذرتی تھی جہاں میں اب بیٹھا ہوا تھا۔
میرے سامنے والی پہاڑی کوئی دو ہزار فٹ بلند ہوگی۔ اس پر چھدری گھاس اور اکا دکا چلغوزے کے درخت تھے۔ مشرق میں یہ اتنی ڈھلوان ہو گئی تھی کہ گڑھل کے سوا کوئی ادھر نہ جا سکتا۔ اگر میں اتنے افراد اکٹھے کر لیتا جو اس ندی سے اس پہاڑی کی ڈھلوان والے سرے تک جمع ہو جاتے اور شیرنی کو بھگا پاتا تو شیرنی کے فرار کا فطری راستہ اسی جگہ سے ہو کر گذرتا جہاں میں بیٹھا ہوا تھا۔
یقیناً یہ کافی مشکل ہانکا ہوتا کیونکہ ڈھلوان والا سرا شمال کی جانب تھا جہاں میں نے شیرنی کو چھوڑا تھا۔ یہ درختوں سے بھرا ہوا تھا اور پون میل طویل اور نصف میل چوڑا تھا۔ تاہم اگر ہانکے والے میری ہدایات پر عمل کرتے تو شیرنی کو مارنے کا عمدہ موقع مل سکتا تھا۔
تحصیلدار گاؤں میں میرا منتظر تھا۔ میں نے اسے ساری صورتحال سمجھائی اور کہا کہ وہ فوراً ہانکے کے لئے بندوں کا انتظام شروع کر دے۔ میں نے اسے اگلی صبح دس بجے اس درخت کے ساتھ بلایا جہاں شیرنی نے لڑکی کو ہلاک کیا تھا۔ وہ اپنی پوری کوشش کرنے کا وعدہ کر کے چمپاوت لوٹ گیا اور میں پہاڑی پر چڑھ کر بنگلے میں چلا گیا۔
اگلی صبح پو پھٹتے ہی میں جاگا اور ناشتہ کر کے میں نے اپنے بندوں سے کہا کہ وہ واپسی کی تیاریاں کریں اور میری واپسی کا انتظار چمپاوت میں رک کر کریں۔ میں اب اس جگہ گیا جہاں ہانکا ہونا تھا تاکہ اپنے منصوبے پر ایک اور تنقیدی نظر ڈال سکوں۔ مجھے کوئی غلطی نہ دکھائی دی۔ نو بجے صبح میں اس جگہ پہنچا جہاں تحصیلدار سے ملنے کا وعدہ کیا تھا۔
تحصیلدار نے اعلان کیا تھا کہ وہ ہانکے کے دوران ہر جائز و نا جائز اسلحے سے چشم پوشی کرے گا اور یہ بھی کہ ہر فرد کو کارتوس اور گولیاں بھی سرکاری طور پر مہیا کی جائیں گی۔ اس روز اتنے بھانت بھانت کے ہتھیار جمع ہوئے کہ پورا عجائب خانہ بن سکتا تھا۔
مجھے یقین ہے کہ تحصیلدار نے بندوں کو کس مشکل سے اکٹھا کیا ہوگا کیونکہ آدم خور کا خوف ان لوگوں کے دلوں میں بیٹھا ہوا تھا۔ تحصیلدار کے خوف سے زیادہ شیرنی کا خوف انہیں ستا رہا ہوگا۔ دس بجے تحصیلدار اور ایک اور بندہ آیا۔ پھر دو دو، پانچ پانچ اور دس دس کی ٹولیوں میں بندے آئے۔ دوپہر تک ۲۹۸ افراد جمع ہو گئے۔
جب سارے آدمی جمع ہو چکے اور اسلحہ بھی تقسیم ہو چکا تو میں انہیں پہاڑی کے سرے تک لے گیا جہاں لڑکی کی قمیض پڑی تھی، میں نے سامنے والی پہاڑی پر موجود چلغوزے کے درخت کی اشارہ کیا جو آسمانی بجلی گرنے سے جل گیا تھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ وہ سرے پر قطار بنائیں اور جب وہ مجھے اس درخت کے نیچے رومال ہلاتا ہوا دیکھیں تو جس کے پاس اسلحہ ہو وہ اسے چلانا شروع کر دے جبکہ باقی افراد ڈھول تاشے وغیرہ بجائیں اور پتھر نیچے لڑھکائیں۔ کسی بھی صورت میں وہ نیچے قدم نہ رکھیں جب تک میں خود انہیں لینے نہ آؤں۔ جب مجھے اچھی طرح یقین ہو گیا کہ ہر کسی نے میری ہدایات کو سن اور مسجھ لیا ہے، میں تحصیلدار کے ہمراہ چل پڑا۔ تحصیلدار میرے ساتھ زیادہ محفوظ تصور کرتا تھا کیونکہ مقامی تیار کردہ اسلحہ زیادہ خطرناک ہوتا۔
وادی کا لمبا چکر کاٹ کر میں دوسری طرف کی پہاڑی پر چڑھ گیا اور درخت کی طرف گیا۔ یہاں پہاڑی انتہائی ڈھلوان ہو گئی تھی اور تحصیلدار پیٹنٹ لیدر کے بوٹ پہنے ہوئے تھا، بولا کہ اس کے لئے آگے جانا ممکن نہیں۔ اس نے بیٹھ کر اپنے جوتے اتارے اور اپنے چھالوں کو دیکھنے لگا۔ ہانکے والے افراد شاید طے شدہ اشارہ بھول گئے اور انہوں نے ہانکا شروع کر دیا۔ اپنی مجوزہ جگہ سے میں ابھی ڈیڑھ سو گز دور تھا۔ میں اتنی تیزی سے اس طرف بھاگا کہ مجھے اب حیرت ہوتی ہے کہ کم از کم درجن بھر مرتبہ میرے گردن ٹوٹتے ٹوٹتے کیسے بچی۔
بھاگتے ہوئے میں نے دیکھا کہ اس جگہ گھاس کا ایک قطعہ موجود ہے۔ چونکہ اس وقت اس سے بہتر جگہ کی تلاش ممکن نہیں تھی، میں وہیں جم گیا۔ میری پیٹھ اس طرف تھی جہاں سے میں آیا تھا۔ گھاس دو فٹ بلند تھی اور اگر میں غیر متحرک رہتا تو میرا آدھا جسم گھاس میں چھپ جاتا اور دکھائی نہ دیتا۔ میرے سامنے وہ پہاڑی تھی جہاں ہانکہ ہو رہا تھا۔ شیرنی کے گذرنے کی متوقع جگہ میرے پیچھے بائیں جانب تھی۔
پہاڑی کا سرا کٹا پھٹا تھا اور بندوقوں کے ساتھ ساتھ ڈھول تاشوں کی آوازیں قیامت برپا کر رہی تھیں۔ یہ سب اپنے عروج پر تھا کہ میں نے تیس گز دور دائیں جانب گھاس کے ایک اور قطعے سے شیرنی کو نکلتے دیکھا۔ تحصیلدار نے درخت کے نیچے سے ہی اپنی بندوق کی دونوں نالیاں چلا دیں۔ یہ آواز سنتے ہی شیرنی مڑی اور اسی طرف چل دی جہاں سے وہ آئی تھی۔ نا امیدی اور مایوسی سے میں نے بھی ایک گولی چلا دی۔
پہاڑی پر موجود ہانکے والوں نے جب تین گولیوں کی آواز سنی تو قدرتی طور پر یہ سمجھے کہ شیرنی ماری گئی ہے۔ انہوں نے آخری بار بندوقیں چلا کر اور چلا کر اجتماعی شور پیدا کیا۔ میں سانس روکے ان چیخوں کا منتظر تھا جب ان کی نظر شیرنی پر پڑتی۔ اسی وقت میری بائیں جانب شیرنی نکلی اور ایک ہی چھلانگ میں ندی عبور کر کے سیدھا میری طرف آئی جہاں میں اس کا منتظر تھا۔ میری تبدیل شدہ اعشاریہ ۵۰۰ بور کی کارڈائیٹ رائفل جو کہ سطح سمندر پر نشانہ درست کئے ہوئے تھی، سے نکلنے والی گولی شیرنی کی کمر پر تھوڑا اوپر لگی۔ میں سمجھا کہ شیرنی کو گولی نہیں لگی اور اب وہ چھلانگ لگا کر غائب ہو جائے گی۔ حقیقتاً میری گولی اسے لگی تھی لیکن نشانے سے ذرا پیچھے۔ سر جھکا کر وہ میری طرف تھوڑی سی مڑی اور یہاں تیس گز سے بھی کم فاصلے پر اس نے مجھے شانے پر گولی چلانے کا سنہری موقع دیا۔ گولی لگتے ہی وہ تھوڑا سا ڈگمگائی مگر چلتے ہوئے میری طرف بڑھتی رہی۔ میں رائفل کندھے سے لگائے سوچ رہا تھا کہ حملے کی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیئے۔ میرے پاس یہی تین کارتوس ہی تھے اور اب میں خالی رائفل لئے ہوئے تھا۔ میرے پاس تین گولیاں تھیں۔ شیر پر دو گولیاں ہی کافی سمجھتے ہوئے میں نے تیسری گولی کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے رکھی ہوئی تھی۔
خوش قسمتی سے زخمی شیرنی نے حملے کا ارادہ بدل دیا۔ بہت آہستگی سے وہ مڑی اور اپنے دائیں طرف موجود ندی کو عبور کر کے چند گری ہوئی چٹانوں پر چڑھی اور اس جگہ پہنچی جہاں ایک بہت بڑی چپٹی چٹان موجود تھی۔جہاں یہ چٹان پہاڑی سے ملی ہوئی تھی، وہاں ایک جھاڑی موجود تھی۔ شیرنی نے اس جھاڑی کو نوچنا شروع کر دیا۔ میں نے فوراً تحصیلدار سے چلا کر کہا کہ وہ اپنی بندوق لائے۔ اس نے لمبا سا جواب دیا جس میں سے مجھے صرف ایک لفظ سمجھ آیا "پاؤں"۔ اپنی رائفل زمین پر رکھ کر میں اس کی طرف بھاگا اور اس کی بندوق چھین کر واپس لوٹا۔
جب میں پہنچا تو شیرنی اب جھاڑی سے ہٹ کر چٹان کے سرے پر آ کر مجھے دیکھ رہی تھی۔ بیس فٹ کے فاصلے سے میں نے بندوق اٹھائی۔ اس کی نالی اور دستے کے درمیان کوئی چوتھائی انچ گہرا شگاف تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر تحصیلدار کے فائر کرتے وقت نالی نہیں پھٹی تو اب بھی نہیں پھٹے گی۔ البتہ اندھا ہونے کے "روشن" امکانات تھے۔تاہم چونکہ اور کوئی چارہ نہیں تھا، میں نے بندوق سے شیرنی کے کھلے منہ کا نشانہ لیا اور گولی چلا دی۔ شاید میرا نشانہ غلط تھا یا پھر میرا ہاتھ بہک گیا تھا یا شاید بندوق میں گولی کو بیس فٹ دور تک پھینکنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی۔ گولی شیرنی کے اگلے دائیں پنجے میں لگی۔ بعد ازاں یہ گولی میں نے ناخن سے کھرچ کر نکالی تھی۔ خیر خوش قسمتی سے شیرنی کا دم لبوں پر تھا اور یہ آخری دھکا اس کے لئے کافی ثابت ہوا۔ اس کا سر پنجوں پر آ کر ٹک گیا۔
جس وقت میں نے شیرنی کو دوسری بار اپنی بائیں جانب ندی عبور کرتے دیکھا، میں ہانکے والوں کی موجودگی کو یکسر بھلا چکا تھا۔اچانک مجھے اس چٹان سے آواز آئی "وہ رہی چٹان پر۔ اسے نیچے گراؤ اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔" مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ "ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو" تاہم یہ سچ تھا۔ اب دوسروں نے بھی شیرنی کو دیکھ لیا تھا اور ان کے منہ سے بھی یہی فقرہ نکلا۔
خوش قسمتی سے شیرنی جہاں تھی، وہ چٹان دوسری پہاڑی سے الگ تھی اور یہ لوگ چھلانگ لگا کر نہ آ سکتے تھے۔ لیکن دوسری طرف سے جہاں میں تھا، چڑھنا بہت آسان تھا۔ میں نے اوپر چڑھ کر شیرنی پر پاؤں رکھ دیا۔ مجھے امید تھی کہ شیرنی مردہ ہی ہوگی۔ ہانکے والے افراد جمع ہو کر اپنے اپنے ہتھیار لہرانے لگے۔
یہ چٹان بارہ سے چودہ فٹ بلند تھی۔ یہ افراد اوپر نہ چڑھ سکے کیونکہ اس کا دوسرا سرا بہت پھسلواں تھا۔ مجمع کا رویہ ظاہر ہے کہ غیر متوقع نہیں تھا۔ ان میں سے ہر شخص کا کم از کم ایک قریبی رشتہ دار اس شیرنی کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ جو بندہ اب ان کا سردار لگ رہا تھا، وہ بار بار بھاگ کر کہتا کہ یہ شیطان ہے۔ اس نے میری بیوی اور دو بیٹے کھا لیئے ہیں۔ جلد ہی ان کا جوش ٹھنڈا ہونے لگا۔ جو شخص سب سے زیادہ جذباتی ہو رہا تھا، سب سے پہلے ٹھنڈا ہوا۔ وہ چٹان کے قریب آ کر بولا۔ "صاحب ہم پاگل ہو گئے تھے۔ اب ہم دوبارہ ہوش میں آ گئے ہیں۔ ہم آپ سے اور تحصیلدار صاحب سے معافی مانگتے ہیں۔"
میں نے بندوق کا غیر استعمال شدہ کارتوس نکالا اور اسے نیچے لٹکایا جو انہوں نے سنبھال لی۔ میں نے اب انہیں بتایا کہ وہ اوپر آ سکتے ہیں۔ وہ اس شیرنی کو آرام سے نیچے لائے اورہر کوئی اس کے گرد جمع ہو گیا۔
جب شیرنی چٹان پر جھکی ہوئی مجھے دیکھ رہی تھی تو مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہوا تھا۔ جیسے اس کا منہ کچھ خراب ہو۔ اب اس کا معائینہ کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ اوپر اور نیچے والے دائیں بڑے دانت ٹوٹے ہوئے تھے۔ اوپر والا آدھا اور نیچے والا جبڑے کی ہڈی سے ٹوٹا ہوا تھا۔ اس مستقل نوعیت کی چوٹ سے جو بندوق کی گولی سے لگی تھی، نے شیرنی کو اس کے قدرتی شکار سے معذور کر دیا تھا اور وہ آدم خور بن گئی تھی۔
ان افراد نے درخواست کی کہ میں اس شیرنی کی کھال یہاں نہ اتاروں۔ وہ اسے اپنے گاؤں لے جانا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی عورتیں اور بچے شیرنی کو مردہ دیکھے بغیر یقین نہیں کریں گے۔
انہوں نے دو چھوٹے درخت کاٹ کر شیرنی کے اطراف میں رکھے اور پگڑیوں اور صافوں کی مدد سے شیرنی کو احتیاط اور مضبوطی سے باندھا۔ جب یہ سب تیار ہو گیا تو ہم شیرنی کو نیچے لے چلے۔ ہانکے والے شیرنی کو لے کر سیدھا پہاڑ پر چڑھے اور دوسری طرف والے گاؤں لے چلے۔ ہر آدمی اگلے آدمی کو سہارا دیئے ہوئے تھا۔ اس طرح یہ قطاریں آگے بڑھیں۔ دور سے یہ چیونٹیوں کی قطاریں لگ رہی تھیں جو کسی کھٹمل کو لے کر جا رہی ہوں۔ اگر یہ انسانی زنجیر ٹوٹ جاتی تو بے شمار لوگ مر سکتے تھے۔ خوش قسمتی سے یہ زنجیر نہ ٹوٹی۔ وہ لوگ اب پہاڑ پر چڑھ چکے تھے۔ وہ ناچتے اور گاتے جا رہے تھے۔ میں اور تحصیلدار چمپاوت لوٹے۔
پہاڑی پر چڑھ کر میں نے ایک بار اس وادی پر الوداعی نظر ڈالی۔ یہاں وہ جھاڑی تھی جہاں لڑکی کے سر کے بال الجھے ہوئے دیکھے تھے اور اسی جگہ شیرنی کا اختتام ہوا۔
نیچے اترتے ہوئے ہانکے والوں کو لڑکی کا سر ملا۔ اب وادی سے دھوئیں کی لکیر بلند ہو رہی تھی کہ اس لڑکی کے رشتہ دار اس کی آخری رسومات ادا کر رہے تھے۔ یہ سب اسی جگہ ہو رہا تھا جس جگہ شیرنی نے آخری سانس لیا۔
رات کا کھانا کھا کر ہم تحصیل کے صحن میں ہی کھڑے تھے کہ ہم نے چلغوزے کی مشعلیں آتے ہوئے دیکھیں جو سامنے والی پہاڑی پر تھیں۔ گھنٹہ بھر بعد وہ لوگ آن پہنچے۔
اتنے بڑے مجمع کے سامنے کھال اتارنا کافی مشکل تھا۔ میں نے کام شروع کرنے کی نیت سے اس کا سر گردن اور پنجے کاٹ کر جسم سے کھال سے ہی لگے رہنے دیئے۔ بقیہ کھال اگلے دن صبح کو اتارنے کا سوچا۔ رات بھر کے لئے پولیس کا ایک سپاہی پہرے پر کھڑا کر کے ہم سو گئے۔ اگلے دن جب مجمع اکٹھا ہوا تو جسم، ٹانگیں، دم کو کاٹ کر لوگوں نے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کئے اور انہیں تقسیم کر دیا۔ دیگر فوائد کے علاوہ یہ ٹکڑے بچوں کو بطور تعویذ دیئے گئے تھے کہ اس طرح وہ بہادر بنیں گے۔ بعد ازاں شیرنی کے معدے سے نکلی ہوئی لڑکی کی ثابت انگلیاں تحصیلدار نے مجھے سپرٹ میں ڈال کر نینی تال بھیجیں جو میں نے جھیل کے کنارے دفن کر دیں۔ یہ جگہ نندا دیوی کے مندر کے پاس ہے۔
کھال اتارنے کے دوران تحصیلدار، نمبردار اور مقامی تاجر وغیرہ ایک بڑی دعوت کا پروگرام بنا رہے تھے۔ مجھے انہوں نے بطور مہمان خصوصی مدعو کیا۔ رات گئے یہ سب لوگ چلے گئے۔ اب گاؤں اور پہاڑ محفوظ تھے۔ وہ دن یا رات کسی بھی وقت کہیں بھی آ جا سکتے تھے۔ میں نے تحصیلدار کے ساتھ آخری بار پائپ پیتے ہوئے اسے بتایا کہ میرا رکنا ممکن نہیں۔ وہ میری جگہ دعوت میں میری نیابت کر لے۔ ہمارے پاس اب دو دن اور پچہتر میل کا سفر تھا۔
سورج نکلتے ہی ہم لوگ روانہ ہوئے۔ شیرنی کی کھال میرے گھوڑے کی زین پر تھی۔ میں اپنے آدمیوں سے جلدی نکلا تاکہ اگلے چند گھنٹے اس کی کھال کی صفائی پر صرف کر سکوں۔ میرا ارادہ تھا کہ دیبی دھورا جا کر رات بھی گذارتا اور کھال کی صفائی بھی ہو جاتی۔ پالی سے گذرتے ہوئے میں نے سوچا کہ اس گونگی عورت کو شیرنی کی کھال دکھاتا چلوں۔ شاید اسے صبر آ جائے۔ گھوڑے کو برف پر چھوڑ کر میں پہاڑ پر چڑھا اور گھر تک پہنچ گیا۔ بچے میرے آس پاس جمع ہو کر مجھے کھال زمین پر بچھاتا ہوا دیکھنے لگے۔ بچوں کا شور سن کر ان کی ماں کھانا بناتی جگہ دروازے سے باہر جھانکا۔
میں صدمے اور جوابی صدمے کے بارے نہ تو کچھ جانتا ہوں اور نہ ہی کچھ کہوں گا۔ مجھے صرف اتنا علم ہے کہ وہ عورت جو بارہ ماہ سے گونگی تھی، اب اچانک گاؤں والوں کو چلا چلا کر بتانے لگی کہ آؤ دیکھو صاحب کیا لائے ہیں۔ بچے اپنی ماں کو بولتا دیکھ کر حیران ہوتے رہے۔
میں نے آرام کرتے ہوئے اور چائے پیتے ہوئے گاؤں والوں کو شیرنی کی ہلاکت کی داستان سنائی۔ وہاں سے نکل کر میں نصف میل دور سے بھی گاؤں والوں کی خوشی بھری آوازیں سنتا رہا۔
اگلی صبح میرا سامنا ایک تیندوے سے ہوا جو بہت دلچسپ رہا۔ یہ اس لئے بتا رہا ہوں کہ میں دیبی دھورا سے دیر سے کیوں نکلا۔ اب میرے گھوڑے کا وزن پھر بڑھ چکا تھا۔ میدان میں اس پر سوار اور اترائی چڑھائی پر اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے ہم نے ۴۵ میل کا سفرصبح نو بجے سے شام ۶ بجے کے دوران طے کیا اور نینی تال پہنچے۔
چند ماہ بعد نینی تال میں ایک بڑا دربار لگا۔ یہاں سر جان ہیوٹ جو کہ گورنر جنرل تھے، نے تحصیلدار کو ایک بندوق اور میرے دوسرے ہمراہی کو جو میرے ساتھ لڑکی کی ہلاکت کے بعد شیرنی کے پیچھے آیا تھا، ایک خوبصورت شکاری چاقو دیا۔ یہ خوبصورت ہتھیار نسل در نسل ان کے لئے باعث فخر رہیں گے۔ یہ انعامات ان کی بہادری کو تسلیم کر کے دیئے تھے۔

٭٭٭

روبن
میں نے اس کے والدین کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جب میں نے اسے نائٹ آف بروم سے خریدا تو انہوں نے بتایا کہ یہ سپینئل ہےاور اس کا نام پنچہ تھا۔ اس کا باپ بہت عمدہ شکاری کتا تھا۔ اس سےز یادہ میں روبن کے شجرہ نسب کے بارے نہیں جانتا۔
درحقیقت مجھے پلے کی تلاش بالکل نہیں تھی اور یہ محض اتفاق ہی تھا کہ جب میں اپنی ایک دوست کے ہمراہ وہاں گیا تو ہمارے مشاہدے کے لئے ہمارے سامنے سات پلوں کی ایک غلیظ ٹوکری رکھ دی گئی۔ پنچہ ان ساتوں پلوں میں سے سب سے چھوٹا اور سب سے کمزور تھا۔ صاف لگ رہا تھا کہ اپنی سی پوری کوشش کرکے یہ پلا ابھی تک زندہ ہے۔ اپنے دیگر بہن بھائیوں کو چھوڑ کر پنچہ اپنی ٹوکری سے نکلا اور میرے گرد چکر لگا کر میرے بڑے قدموں میں بیٹھ گیا۔ جب میں نے اسے اٹھا کر اپنے کوٹ کے اندر ڈالا کیونکہ صبح کا وقت تھا اور بہت شدید سردی تھی تو اس نے میرا منہ چاٹ کر شکریہ ادا کرنے کی کوشش کی۔ میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ یہ نہ جان سکے کہ میں اس سے اٹھنے والی بدبو سے پریشان ہوں۔
اس وقت اس کی عمر تین ماہ تھی اور میں نے اسے ۱۵ روپوں کے عوض خریدا تھا اور اب اس کی عمر ۱۳ سال ہو گئی ہے اور پورے ہندوستان کا سونا دے کر بھی کوئی مجھے اس سے جدا نہیں کر سکتا۔
جب میں اسے لے کر گھر پہنچا تو سب سے پہلے میں نے اسے پیٹ بھر کر کھانا کھلایا۔ پھر گرم پانی اور صابن سے اسے غسل دیا ۔ اس کے بعد ہم نے اس کا پرانا نام پنچہ ختم کر کے نیا نام روبن دیا۔ یہ نام ہمارے پرانے وفادار کولی نسل کے کتے کا تھا جس نے میری اور میرے چھوٹے بھائی کی زندگیاں ایک ریچھنی کے حملے سے بچائی تھیں۔ اس وقت میری عمر چھ سال جبکہ میرا بھائی چار سال کا تھا۔
روبن کو باقاعدہ خوراک ملتی رہی اور اس کی صحت بہتر ہوتی چلی گئی۔ اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ نو عمر لڑکے اور پلے کی تربیت میں عجلت نہیں کرنی چاہئے، چند ہفتوں بعد میں روبن کو لے کر تھوڑی دور گیا تاکہ اسے بندوق کی آواز سے شناسا کر سکوں۔
ہماری جاگیر کے نچلے سرے پر کچھ گھنی جھاڑیاں ہیں اور جب میں ان کے گرد چکر لگا رہا تھا کہ ایک مور اڑا۔ روبن کو بھلا کر میں نے فوراً ہی مور پر کارتوس چلایا اور مور فوراً ہی نیچے گرا۔ چونکہ مور کانٹے دار جھاڑی پر گرا تھا، روبن فوراً ہی اس کی جانب لپکا۔ چونکہ جھاڑیاں اتنی گھنی اور دشوار گذار تھیں کہ میرا گذر نہ ہو سکتا تھا، اس لئے میں گھوم کر دوسری جانب گیا جہاں کھلی زمین تھی۔وہاں کچھ فاصلے پر پھر سے گھنا جنگل شروع ہو جاتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ زخمی مور اسی جنگل کا رخ کرے گا۔ اس وقت اس قطعے میں سورج کی روشنی پھیلی ہوئی تھی اور اگر میرے پاس وڈیو کیمرہ ہوتا تو یقیناً ایک بے مثال وڈیو بنا سکتا تھا۔ زخمی مورنی جو کہ بوڑھی بھی تھی، کے گردن کے پرخوف کے مارے کھڑے تھے اور اس کا ایک پر ٹوٹا ہوا تھا۔ اس کی دم سے روبن لٹکا ہوا تھا اور مورنی روبن کو اپنے ساتھ گھیسٹ کر گھنے جنگل کو جا رہی تھی۔ میری حماقت دیکھیں کہ میں نے بھاگ کر مورنی کو گردن سے پکڑ کر اٹھا لیا۔ روبن بھی اس کے ساتھ اٹھتا چلا آیا۔ مورنی نے دولتی چلائی اور روبن قلابازی کھاتا نیچے گرا۔ فوراً ہی روبن دوبارہ اٹھا اور جب میں نے مردہ مورنی کو زمین پر ڈالا تو روبن اس کے گرد ناچنے لگا۔ آج کا سبق ختم ہو گیا تھا اور جب ہم گھر واپس آئے تو یہ کہنا مشکل تھا کہ ہم دونوں میں سے کون زیادہ خوش تھا، آیا روبن کہ جس نے آج اپنا پہلا شکار کیا تھا یا پھر میں جس نے اس غلیظ ٹوکری سے بہترین کتا چنا۔
گرمیوں میں ہم لوگ پہاڑی پر رہتے تھے اور نومبر میں ہم لوگ ہر سال نیچے دامن میں منتقل ہو جایا کرتے تھے۔ اس بار ۱۵ میل کے طویل سفر پر جب ایک جگہ تنگ موڑ مڑے تو دوسری جانب لنگوروں کا ایک بہت بڑا غول پہاڑی سے نیچے کی جانب جاتے ہوئے روبن کے بالکل قریب سے گذرا۔ میری سیٹی کو نظر انداز کرتے ہوئے روبن کھائی کی جانب لنگوروں کے پیچھے لپکا۔ لنگور فوراً ہی درخت پر چڑھ گئے۔ یہاں زمین کھلی تھی اور اکا دکا درخت موجدو تھے۔ اس کے بعد زمین اچانک ڈھلوان سے گذرتی ہوئی تیس یا چالیس گز نیچے جاتی تھی اور پھر وہاں چند گز سیدھی زمین تھی۔ اس سے آگے پھر زمین ڈھلوان ہوتی ہوئی وادی کو جاتی تھی۔ اس جگہ کے دائیں جانب جہاں کچھ جھاڑیاں تھیں، بارش کے پانی کے گذرنے سے وہاں کھائی سی بن گئی تھی۔ ابھی روبن ان جھاڑیوں تک پہنچا ہی تھا کہ واپس پلٹا۔ اس بار اس کے کان سر سے ملے ہوئے اور دم ٹانگوں میں دبائے وہ اپنی قیمتی جان بچانے کے لئے پوری قوت سے بھاگ رہا تھا۔ اس کے پیچھےا یک بہت بڑا تیندوا لگا ہوا تھا۔ چونکہ میں خالی ہاتھ تھا اس لئے محض شور مچا سکتا تھا۔ میرے ساتھ میگی کی ڈانڈی اٹھانےو الے مزدور بھی شور مچانے لگے۔ ہمارا ساتھ دینے کے لئے جب سو سے زیادہ لنگور بھی چلانے لگے تو شور و غل اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ ادھر تیندوا ہر چھلانگ پر روبن کے قریب تر ہوتا جا رہا تھا۔ یہ بے جوڑ دوڑ بمشکل پچیس یا تیس گز تک ہی چلی ہوگی اور تیندوا روبن کے بالکل قریب پہنچا چکا تھا کہ تیندوا اچانک مڑا اور وادی میں غائب ہو گیا۔ پہاڑی کے سرے سے مڑ کر روبن میرے پاس آیا۔ تیندوے سے بال بال بچنے کے بعد روبن نے دو قیمتی سبق سیکھے جو اس نے ساری زندگی یاد رکھے۔ پہلا سبق یہ تھا کہ لنگوروں کا پیچھا کرنا خطرناک ہے اور دوسرا یہ کہ جب لنگور خطرے کی آواز نکال رہے ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ تیندوا کہیں پاس ہی موجود ہے۔
موسم بہار میں روبن کی تربیت کا سلسلہ منقطع ہو گیا تھا اور جب یہ تربیت دوبارہ شروع ہوئی تو جلد ہی یہ بات واضح ہو گئی کہ روبن کے بچپن میں اس کی فاقہ کشی اور اس پر توجہ نہ دینے کے سبب اس کا دل بہت کمزور ہو گیا تھا اور تھوڑی سی بھی مشقت سے وہ بے ہوش ہو جاتا تھا۔
شکاری کتے کے لئے اس سے زیادہ اور کوئی مایوسی کی بات نہیں ہو سکتی کہ اس کا مالک شکار پر جاتے ہوئے اسے گھر پر ہی چھوڑ جائے۔ چونکہ پرندوں کا شکار روبن کے لئے شجر ممنوعہ بن چکا تھا، میں روبن کو ساتھ لے کر بڑے شکار پر جانے لگا۔ اس نئے مشغلے کو روبن نے ایسے اپنایا جیسے بطخ پانی کو۔ اس کےبعد سے جب بھی میں رائفل لے کر نکلتا، روبن میرے ساتھ ہوتا تھا۔
ہاتھی یا مچان کی نسبت زمین پر کھڑے ہو کر درندے کو فوری طور پر ہلاک کرنا زیادہ آسان ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ زخمی درندے کا تعاقب جب زمین پر رہ کر کرنا ہو تو شکاری پوری احتیاط سے گولی چلاتا ہے دوسرا یہ بھی کہ جب زمین پر کھڑے ہوں تو درندوں کے اہم اعضاءکو نشانہ بنانا آسان ہوتا ہے۔ تاہم میں چاہے جتنی احتیاط سے شکار کرتا رہا، کئی بار ایسا ہوا ہے کہ میں نے تیندوے یا شیر کو صرف زخمی کر پایا تھا۔ ان کا تعاقب کر کےانہیں جب تک میں نے ہلاک نہیں کر لیا، میں چین سے نہیں بیٹھا۔ اتنے برسوں کی رفاقت میں صرف ایک بار ایسا ہوا کہ روبن نے مجھے مشکل صورتحال میں اکیلا چھوڑا تھا۔ اس دن کی مختصر غیر حاضری کے بعد جب روبن دوبارہ میرے پاس آیا تو ہم نے فیصلہ کیا کہ اس بارے کسی کو نہیں بتائیں گے۔ تاہم اب ہم بوڑھے ہو چلے ہیں اور اتنا حساس نہیں رہے۔ روبن بھی جو اب بوڑھا ہو چلا ہے، اپنے بستر مرگ پر لیٹا ہوا ہے اور اس نے خوش دلی سے مجھے یہ واقعہ آپ کو سنانے کی اجازت دے دی ہے۔
یہ تیندوا اس وقت تک ہماری نظروں سے اوجھل تھا جب تک کہ وہ جھاڑیوں سے نکل کر ہمارے سامنے نہ آیا۔باہر نکل کر تیندوا رکا اور مڑ کر اپنے بائیں شانے سے پیچھے کی طرف دیکھنے لگا۔
یہ تیندوا غیر معمولی جسامت کا نر تھا اور اس کی کھال پر دھبے اس طرح چمک رہے تھے جیسے وہ مخمل پر بنے ہوں۔ ۱۵ گز کے فاصلے سے بہترین رائفل سے آرام سے چلائی جانے والی گولی اس کے دائیں شانے میں لگی۔ چاہے گولی اس کے دل سے کتنی قریب سے ہی کیوں نہ گذری ہو، اسے فوری طور پر گرا نہ سکی۔ جب گولی اس سے ہوتی ہوئی پچاس دور زمین میں جا دھنسی، تیندوا فضاء میں اچھلا اور قلابازی کھاتے ہوئے انہیں جھاڑیوں میں گرا جہاں سے وہ منٹ بھر پہلے نکلا تھا۔ بیس، چالیس، پچاس گز تک اس کے بھاگنے کی آوازیں جھاڑیوں سے آتی رہیں اور پھر اچانک ہی آوازیں رک گئیں۔ آوازوں کے ختم ہونے کے دو ہی مطلب ہو سکتے تھے۔ اول یہ کہ تیندوا زخم کی تاب نہ لاتے ہوئے مر چکا ہے، دوئم، تیندوا گھنی جھاڑیوں سے نکل کر کھلی زمین پر پہنچ گیا ہے۔
اس روز ہم لوگ بہت دور نکل آئے تھے اور سورج غروب ہونے والا تھا جبکہ ہم گھر سے چار میل دور تھے۔ جنگل کے اس حصے میں انسانی آمد و رفت نہ ہونے کے برابر تھی اور رات کو یہاں سے کسی انسان کے گذرنے کا قطعی کوئی امکان نہ تھا۔ اس کے علاوہ میگی بالکل نہتی تھیں اور نہ تو انہیں اکیلا چھوڑ کر تیندوے کا تعاقب کرنا مناسب تھا اور نہ ہی انہیں ساتھ لے جانا۔ ہم شمال کر مڑے اور گھر کو چل دیئے۔ اس جگہ نشانی لگانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ تقریباً پچاس سالوں سے ان جنگلوں سے میں روز روشن اور راتوں کو بھی بکثرت گذرتا تھا۔ اگر میری آنکھیں بند بھی ہوتیں تو بھی مجھے یہاں سے گذرنے میں مشکل نہ ہوتی۔
اگلی صبح ابھی نکلا نہ تھا کہ روبن اور میں اس جگہ واپس لوٹے۔ روبن کل میرے ساتھ نہ تھا۔ جہاں کل تیندوا آن کر رکا تھا، روبن نےزمین کو سونگھا اور آگے بڑھ کر ان جھاڑیوں تک پہنچا جہاں سے تیندوا نکلا تھا۔ اس جگہ تیندوے کے خون کے بڑے بڑے دھبے تھے۔ یہاں رک کر یہ دیکھنا کہ تیندوے کو زخم کس جگہ لگا تھا، فضول ہوتا کیونکہ پندرہ گز کے فاصلے سے نہ صرف میں نے گولی تیندوے کے شانے میں لگتی دیکھی بلکہ پچاس گز دور گولی کو زمین میں دھنستے بھی دیکھا۔ یعنی گولی تیندوے کے جسم کے آر پار ہو گئی تھی۔
اگرچہ یہاں سے ضروری تھا کہ ہم خون کے نشانات کا پیچھا کرتے لیکن چار میل کے سفر کے بعد کچھ آرام کرنا بہتر ہوتا۔ ابھی اندھیرا کچھ باقی تھا اور کچھ وقت گذارنے سے ہمیں کوئی نقصان نہ ہوتا بلکہ فائدہ ہی پہنچتا۔ سورج نکلنے والا تھا او رجنگل کے اکثر جانور اس وقت گھوم پھر رہے ہوتے ہیں۔ ممکن تھا کہ ان میں سے کسی جانور سے ہمیں تیندوے کی موجودگی کے بارے جاننے کا مزید موقع مل جاتا۔
ایک نزدیکی درخت کے نیچے میں نے ایسی جگہ تلاش کر لی جو شبنم سے پاک اور خشک تھی۔ یہاں ہم بیٹھے اور ابھی میں نے سیگرٹ ختم ہی کیا تھا کہ ایک مادہ چیتل پھر دوسری پھر تیسری بولی۔ یہ آواز ہمارے بائیں اور سامنے کی جانب ۶۰ گز کے فاصلے سے آئی تھی۔ روبن اٹھا اور آہستگی سے میری جانب دیکھنے لگا۔ میرا اشارہ پاتے ہی وہ دوبارہ آواز کی جانب مڑا۔ لنگور کی آواز پر اس کے پیچھے لپکنے والا پلا اب تجربہ کارشکاری کتا بن چکا تھا۔ آس پاس موجود دیگر جانوروں اور پرندوں کی طرح روبن بھی یہ جان چکا تھا کہ چیتل کسی تیندوے کی موجودگی کے بارے خبردار کر رہے ہیں۔
چیتلوں کے بولنے سے اندازہ ہو رہا تھا کہ تیندوا ان کے سامنےموجود ہے۔ تھوڑی دیر اور رکتے تو ہمیں پتہ چل سکتا تھا کہ آیا تیندوا زندہ ہے یا مر چکا ہے۔ پانچ منٹ بولتے رہنے کے بعد اچانک سب چیتل دو بار ایک ساتھ بولے اور پھر چپ کر گئے۔ یعنی تیندوا نہ صرف زندہ تھا بلکہ اپنی جگہ سے حرکت کر چکا تھا۔ اب ہمیں یہ جاننا تھا کہ تیندوا کس جگہ موجود ہے۔ یہ کام ہم چیتلوں کی گھات لگا کر سکتے تھے۔
ہوا کی مخالف سمت ۵۰ گز جا کر ہم گھنی جھاڑیوں میں داخل ہوئے اور چھپ کر چیتلوں کی جانب بڑھنے لگے۔ یہ کام اتنا مشکل بھی نہیں اور برسوں کے تجربے سے میں اور روبن سیکھ چکے ہیں کہ جنگلوں میں کیسے خاموشی سے چلنا ہے۔ چیتل ابھی تک ہماری نظروں سے اوجھل تھے اور اس وقت دکھائی دیئے جب ہم ان سے محض چند فٹ دو رہ گئے تھے۔ سارے چیتل کھلے میدان میں کھڑے شمال میں ایک ہی جگہ دیکھے جا رہے تھے۔ یہ تقریباً وہی جگہ تھی جہاں کل تیندوے کے فرار کے بعد آوازیں ختم ہوئی تھیں۔
اب تک ہمیں ان چیتلوں سے بھرپور مدد ملی تھی اور انہوں نے ہمیں انجانے میں تیندوے کی موجودگی اور پھر اس کی حرکات سے آگاہ کیا تھا۔ اب ہمیں ان سے تیندوے کی سمت کا بھی پتہ چل گیا تھا۔ تاہم یہ سب جاننے کے لئے ہمیں گھنٹہ لگ گیا تھا۔اگر چیتلوں نے ہماری موجودگی کو محسوس کر لیا تو یہ ساری محنت اکارت جاتی کیونکہ چیتل سارے جنگل کو ہماری موجودگی کے بارے آگاہ کر دیتے۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کیا میں الٹے قدموں واپس جا کر کچھ دور سے ان چیتلوں کے پیچھے سے جا کر تیندوے کا پیچھا کروں یا کسی تیندوے کی آواز نکال کر انہیں یہاں سے بھگا دوں کہ اچانک ایک مادہ مڑی اور سیدھا میرے منہ کو تکنے لگی۔ اگلے ہی لمحے سارا جنگل اس کی خطرے کی آواز سے جاگ اٹھا۔ سارے چیتل خطرہ بھانپ کر بھاگ لئے تھے۔مجھے صرف پانچ گز ہی آگے بڑھنا تھا کہ میں کھلے میدان تک پہنچتا لیکن تیندوا مجھ سے زیادہ تیز نکلا۔ جونہی میں جھاڑیوں سے نکلا تو مجھے تیندوے کی پچھلی ٹانگیں اور دم دوسری طرف کی جھاڑیوں میں گم ہوتی دکھائی دیں۔ چیتلوں نے ہماری ساری محنت پر اچھی طرح پانی پھیر دیا تھا۔ اب ہمیں پھر سے تیندوے کی موجودگی کو جاننا تھا۔ اس بار روبن یہ کام کرتا۔
میں چند منٹ تک کھلے میدان میں رکا تاکہ تیندوے کو آرام سے بیٹھنے کا وقت مل جائے اور اس کی چھوڑی ہوئی بو بھی کچھ مدھم ہو جائے۔ پھر روبن کو لے کر میں مغرب کی جانب گیا جہاں سے ہوا کا رخ ہمارے مخالف سمت تھا۔ ہم ابھی ۶۰ یا ۷۰ گز ہی گئے ہوں گے کہ میرے آگے چلتا ہوا روبن رکا اور ہوا کو سونگھنے لگا۔ روبن جنگلوں میں بالکل گونگا بن جاتا ہے اور اسے اپنے اعصاب پر پوری طرح قابو رہتا ہے۔ تاہم اس کی ایک رگ ایسی ہے جو تیندوے کی کہیں نزدیک موجودگی یا اس کی تازہ بو کو محسوس کر کے اس کے قابو میں نہیں رہتی ۔ یہ رگ اس کی پچھلی ٹانگوں کے پیچھےسے گذرتی ہے۔
پچھلے سال گرمیوں میں یہاں سے بہت بڑا طوفان گذرا تھا اور بہت سارے درخت جڑوں سے اکھڑ گئے تھے۔ ان گرے ہوئے درختوں میں سے ایک درخت کی جانب روبن کا رخ تھا۔ یہ درخت ہمارے موجودہ مقام سے ۴۰ گز دور تھا۔ اس کی شاخیں ہماری جانب اور جڑیں ہماری مخالف سمت تھیں۔ تنے کے دونوں جانب ہلکی جھاڑیاں تھیں اور چھوٹی چھوٹی گھاس بھی اگی ہوئی تھی۔
کسی بھی دوسرے موقع پر ہم سیدھے اس درخت کو چل پڑتے تاہم اس بار ہمارا سامنا نہ صرف ایک تیندوے سے تھا جو زخمی ہونے کے بعد انتہائی نڈر ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تیندوے کو پندرہ گھنٹے کا وقفہ بھی مل چکا تھا۔
گھر سے نکلتے وقت میں نے اعشاریہ ۲۷۵ بور کی رائفل اٹھائی تھی۔ لمبے فاصلوں تک ساتھ لے جانے کے لئے تو یہ رائفل بہت عمدہ ہے لیکن تھوڑے فاصلے سے زخمی تیندوے کا سامنا کرنے کے لئے اس کی طاقت کافی نہیں۔اس لئے براہ راست درخت تک جانے کی بجائے میں ایسا راستہ اختیار کیا جو ہمیں درخت سے پندرہ گز دور اور درخت کی سیدھ میں لے جاتا۔ قدم بقدم چلتے ہوئے ہم اس جگہ تک پہنچے اور جب شاخوں کو عبور کر کے ہم تنے کی سیدھ میں پہنچے تو روبن رک گیا۔ روبن کو دیکھتے ہوئے میں نے سمت متعین کی اور دیکھا کہ تیندوے کی دم اوپر نیچے ہل رہی تھی۔ یہ علامت ظاہر کرتی تھی کہ تیندوا حملے کے لئے تیار ہے۔ انہی قدموں میں رک کر ابھی میں رائفل کو شانے تک اٹھایا ہی تھا کہ سامنے کی جھاڑیوں سے تیندوا نمودار ہوا۔ میری چلائی ہوئی گولی جو تیندوے کو ہلاک کرنے کی بجائے محض اسے روکنے کے لئے چلائی گئی تھی، تیندوے کے پیٹ کے نیچے سے ہوتی ہوئی اس کی پچھلی بائیں ٹانگ میں لگی۔ گولی کے صدمے سے زیادہ گولی کی آواز سے تیندوے کی توجہ دوسری جانب مبذول ہوئی اور میرے دائیں شانے سے ہوتے ہوئے تیندوا گذرا۔ ابھی میں دوسری گولی چلانے کے قابل ہو ہی رہا تھا کہ تیندوا جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔ اس دوران روبن میرے قدموں سے نہیں ہٹا تھا اور اب ہم اس جگہ کا معائینہ کرنے آگے بڑھے جہاں سے تیندوا گذرا تھا۔ یہاں ہر طرف خون ہی خون تھا تاہم یہ جاننا ناممکن تھا کہ آیا یہ خون پرانے زخم سے نکلا ہے یا نئے زخم سے۔ تاہم اس کا روبن پر کوئی اثر نہ ہوا اور اس نے فوراً ہی تیندوے کا پیچھا شروع کر دیا۔ کچھ گھنی جھاڑیوں اور گھٹنوں تک لمبی گھاس سے جاتے ہوئے دو سو گز کے بعد میں اپنے سامنے تیندوے جاتے دیکھا۔ ابھی میں گولی چلانے کے لئے تیار ہو ہی رہا تھا کہ تیندوا ایک جھاڑی میں گھس کر غائب ہو گیا۔ یہ جھاڑی ایک بڑے خیمے کے حجم کی تھی۔ یہاں تیندوے کو نہ صرف پناہ حاصل تھی بلکہ یہاں سے وہ اگلے حملے کے لئے بھی تیار ہو سکتا تھا۔
ہمارے صبح کی اس مہم میں ہم کافی وقت گذار چکے تھے اور ہلکی رائفل کے ساتھ تیندوے کا مزید پیچھا کرنا حماقت ہی ہوتی۔ ہم مڑے اور گھر کو چل پڑے۔
اگلی صبح ہم دونوں پھر لوٹے۔ اس بار صبح سویرے سے ہی روبن بے چین ہو رہا تھا۔ جنگل میں صبح سویرے کی تمام خوشبوؤں سے بے نیاز روبن جلد از جلد اس جگہ واپس لوٹنا چاہتا تھا جہاں ہم نے تیندوے کو کل چھوڑا تھا۔
اس بار میرے پاس اعشاریہ ۴۵۰/۴۰۰ کی رائفل تھی اور کل کی نسبت مجھے بہت بہتر محسوس ہو رہا تھا۔ ابھی ہم اس کانٹے دار جھاڑی سے کئی سو گز دور تھے کہ میں رکا اور روبن کو احتیاط سے اور آہستگی سے چلنے کا اشارہ کیا۔ ایسا فرض کر لینا کہ جہاں گذشتہ روز زخمی جانور کو چھوڑا تھا، وہ اب بھی وہیں ہوگا، انتہائی خطرناک غلطی ہے۔ درج ذیل واقعہ اس بات کی وضاحت کرے گا۔
میرے ایک واقف شکاری نے دوپہر کے وقت ایک شیر کو زخمی کیا اور اس کا پیچھا کئی میل تک کرتے رہے۔ اگلی صبح بہت سارے ساتھیوں کے ہمراہ وہ اس جگہ کو لوٹے۔ ان کا ایک ساتھی جو مقامی شکاری بھی تھا، ان کی خالی رائفل اٹھائے ہوئے سب سے آگے تھا۔ ان کا ارادہ تھا کہ جہاں کل شیر کا پیچھا چھوڑا تھا، وہیں سے پیچھا نئے سرے سے شروع کریں گے۔ ابھی وہ لوگ خون کے نشانات پر چلتے ہوئے اس جگہ سے ایک میل پیچھے ہی تھے مقامی شکاری سیدھا اسی زخمی شیر پر جا پہنچا۔ نتیجتاً شیر نے اس شکاری کو ہلاک کر دیا جبکہ دیگر افراد میں کچھ تو درختوں پر چڑھ گئے جبکہ کچھ افراد نے سر پر پاؤں رکھا اور دور جا کر دم لیا۔
مجھے اس کانٹے دار جھاڑی کے مقام کا بخوبی اندازہ تھا اس لئے میں روبن کو ساتھ لے کر اس طرح بڑھا کہ ہم اس جھاڑی کی دوسری جانب چند گز کے فاصلے سے گذرتے۔ روبن کو بخوبی علم تھا کہ ہوا کے رخ کی مدد سے کسی جانور کو کیسے تلاش کیا جاتا ہے۔ ابھی ہم تھوڑا سا آگے بڑھے ہوں گے اور ابھی ہم اس جھاڑی سے تقریباً سو گز دور تھے کہ روبن رکا اور ہوا کو سونگھ کر مجھے اشارہ کیا کہ اسے تیندوے کی بو محسوس ہو رہی ہے۔ کل کی طرح آج بھی وہ ایک گرے ہوئے درخت کے پیچھے گھنی گھاس میں چھپا ہوا تھا۔ کل کے ناکام حملے کے بعد تیندوا اسی طرف گیا تھا۔ درخت کے ہماری طرف والے حصے میں زمین کھلی تھی اور دوسری جانب گھنی گھاس اور جھاڑیاں شروع ہو جاتی تھیں۔ روبن کو میں نے اشارہ کیا کہ ہمارے اصل راستے سے پیش قدمی جاری رکھے۔ ہم اس کانٹے دار جھاڑی کے پاس سے گذرے اور روبن نے اس جھاڑی کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا۔ اس کا رخ ایک نالے کی طرف تھا جو برساتی پانی سے بنا تھا۔ یہاں پہنچ کر میں نے اپنا کوٹ اتارا اور اس میں جتنے پتھر سما سکتے تھے، بھرے اور درخت کے پاس موجود کھلی زمین پر واپس لوٹ آیا۔
رائفل کو فوری طور پر استعمال کرنے کی نیت سے تیار رکھا اور کوٹ اٹھا کر پتھر پھینکنے شروع کر دیئے۔ میں نے درخت سے ابتداء کی اور پھر اس کے آس پاس کی جھاڑیوں میں بھی پتھر پھینکے۔ میرا ارادہ تھا اگر تیندوا زندہ ہوا تو اگر کوئی پتھر اس کے پاس گرا یا اسے لگا تو وہ حملہ کرے گا۔ حملے کی صورت میں میں جہاں تھا، وہاں سے تیندوے کا سامنا کرنا آسان ہوتا۔ جب تمام پتھر ختم ہو گئے تو میں نے تالیاں بجائیں، کھانسا اور شور مچایا لیکن نہ تو پتھراؤ کے دوران اور نہ ہی اس کے بعد تیندوے کی جانب سے کوئی آواز سنائی دی۔
اب میں سیدھا درخت کے قریب جا کر اس کے اوپر سے دوسری جانب دیکھنے میں میں حق بجانب تھا۔تاہم جنگل کی ایک پرانی کہاوت کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ تیندوے کی جب تک کھال نہ اتار لی جائے، اسے مردہ نہ سمجھو، میں نے درخت کے گرد ایک چکرلگانے شروع کر دیئے کہ ہر بار ہمارا فاصلہ کم ہوتا جائے حتٰی کہ میں درخت کے نیچے موجود جھاڑیوں میں جھانک سکوں۔ پہلے چکر میں نے ۲۵ گز کے فاصلے سے شروع کیا اور ابھی میں نے دو تہائی فاصلہ ہی طے کیا ہوگا کہ اچانک روبن رک گیا۔ جونہی میں نے مڑ کر نیچے دیکھا کہ روبن کیوں رکا ہے، سامنے سے تیندوے کی غراہٹیں سنائی دیں اور تیندوے نے سیدھا ہمارا رخ کیا۔ مجھے اپنے سامنے محض ہلتی ہوئی جھاڑیاں ہی دکھائی دے رہی تھیں۔ میں تھوڑا سادائیں جانب مڑا اور ابھی رائفل اٹھائی ہی تھی کہ تیندوا کا سر اور شانے مجھ سے چند فٹ دور جھاڑیوں سے نکلے۔
تیندوے کی جست میری رائفل سے گولی بیک وقت نکلی۔فوراً ہی میں بائیں جانب مڑا تاکہ روبن میرے قدموں میں نہ کچلا جائے، میں نے دوسری گولی چلائی۔ اس وقت تیندوا میرے قریب سے گذر رہا تھا۔ پہلی گولی میں نے ہاتھوں میں رائفل پکڑے ہوئے جبکہ دوسری گولی رائفل کو پہلو سے ٹکائے چلائی۔
جب کوئی زخمی جانور چاہے وہ شیر ہو یا تیندوا، اپنے حملے میں ناکام ہو جائے تو فرار کو ہی ترجیح دیتا ہے اور جب تک اسے دوبارہ نہ چھیڑا جائے، وہ حملہ نہیں کرتا۔
میں بائیں جانب اس لئے مڑا تھا کہ روبن میرے قدموں تلے نہ کچلا جائے اور جب میں نے دیکھا تو روبن کہیں دکھائی نہیں دیا۔اتنے برسوں کے دوران شکار میں ہماری رفاقت میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ روبن مجھے مشکل قوت میں اکیلا چھوڑ گیا تھا۔ شاید اب وہ گھر جانے کی کوشش کر رہا ہو؟ تاہم اس کی راہ میں حائل دشواریاں اور اس کے کمزور دل کے پیش نظر اس کا گھر پہنچنا بہت مشکل تھا۔ یہاں سے گھر کا فاصلہ کم از کم چار میل بنتا تھا۔ انہی خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے فوراً اس کو تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔ جونہی میں چلا، فوراً ہی میں نے اس کا سر تقریباً سو گز دور ایک درخت کے تنے کے پیچھے سے نکلتا دیکھا۔ جب میں نے ہاتھ اٹھا کر چٹکی بجائی تو لٹکے ہوئے کانوں اور شرمندہ شرمندہ انداز میں وہ چلتے ہوئے میرے پاس پہنچا۔ رائفل کو زمین پر رکھ کر جب میں نے اسے گود میں اٹھایا تو زندگی میں دوسری بار اس نے میرا منہ چاٹ کر مجھے یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ مجھے زندہ اور محفوظ دیکھ کر کتنا خوش ہو رہا ہے اور یہ بھی کہ مجھے اکیلا چھوڑنے پر وہ کتنا شرمندہ ہے۔
کسی بھی اچانک اور ان دیکھے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے انسان اور جانوروں کے رد عمل میں بہت فرق ہے، خصوصاً جب خطرہ سنائی دے رہا ہو لیکن دکھائی نہ دے۔ روبن نے ایسی صورتحال میں بھاگ نکلنے میں عافیت سمجھی جبکہ میرے قدم وہیں زمین میں گڑ گئے اور فرار کا راستہ میرے لئے ممکن نہ رہا۔
جب میں نے روبن کو یقین دلا دیا کہ میں اس سے بالکل بھی ناراض نہیں، اس نے کانپنا بند کیا اور ہم تیندوے کی لاش کی طرف چل پڑے۔ اس تیندوے نے انتہائی بہادرانہ انداز میں ہمارا مقابلہ کیا تھا اور بال برابر فرق کے ساتھ میری بجائے اس کی لاش وہیں پڑی تھی۔
میں نے آپ کو یہ واقعہ سنایا ہے اور جب میں یہ بتا رہا تھا تو دنیا کا سب سے بہادر کتا اور انسان کا بہترین دوست روبن، ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے جا چکا ہے۔ مجھے علم ہے کہ اگلی دنیا میں وہ میرا انتظار کر رہا ہے۔

٭٭٭

چوگڑھ کے شیر
(۱) 
مشرقی کماؤں کا جو نقشہ میرے سامنے دیوار پر لٹک رہا ہے، اس پر جا بجا کانٹے لگے ہیں۔ ہر کانٹے کے نیچے ایک تاریخ بھی درج ہے۔کانٹا اس علاقے کو اور تاریخ اس دن کو ظاہر کرتی ہے کہ جب سرکاری اطلاع کے مطابق اس جگہ چوگڑھ کے آدم خور نے انسانی جان لی تھی۔ نقشے پر کل چونسٹھ نشانات ہیں۔ میں نقشے کے درست ہونے پر اصرار نہیں کرتا کیونکہ یہ نقشہ میں نے صرف دو سال میں بنایا تھا۔ جو ہلاکتیں میرے علم میں نہ آئیں یا وہ اشخاص جو گھائل ہو کر بعد ازاں ہلاک ہو گئے، وہ اس فہرست میں شامل نہیں۔
پہلا کانٹا ۱۵ دسمبر ۱۹۲۵ کا ہے اور آخری ۲۱ مارچ ۱۹۳۰ کا ہے۔ شمالاً جنوباً دو کانٹوں کا انتہائی فاصلہ پچاس میل ہے اور شرقاً غرباً تیس میل۔ یہ علاقہ پندرہ سو مربع میل پر پھیلا ہوا اور پہاڑی ہے۔ یہاں سردیوں میں بہت برف پڑتی ہے اور گرمیوں میں وادیاں جھلسا دینے والی گرمی کا شکار ہوتی ہیں۔ اس علاقے میں چوگڑھ کے آدم خور نے اپنی سلطنت اور دہشت طاری کر رکھی تھی۔ اس پورے علاقے میں بکھرے ہوئے گاؤں اکا دکا گھرانوں سے لے کر سو افراد تک کی آبادی رکھتے تھے۔ سخت پگڈنڈیاں ان دیہاتوں کو آپس میں ملاتی ہیں۔ جب آدم خور کی سرگرمیوں کے باعث یہ راستے مخدوش ہو جاتے ہیں تو یہ لوگ رابطے کے لئے آواز سے کام لیتے ہیں۔ کسی اونچی جگہ مثلاً پتھر یا گھر کی چھت پر کھڑا ہو کر کوئی بھی شخص "کوووئی" کی آواز نکالتا ہے تاکہ پاس والے دیہات کے لوگ خبردار ہو جائیں۔ جب اس کا جواب ملتا ہے تو پہلا شخص تیز اور اونچی آواز میں چلا کر پیغام سنا دیتا ہے۔ ایک دیہات سے دوسرے اور پھر اس سے آگے یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور پیغام نہایت مختصر وقت میں پورے علاقے میں پہنچ جاتا ہے۔
اس آدم خور پر قسمت آزمائی کے لئے میں نے اپنا نام ڈسٹرکٹ کانفرنس میں فروری ۱۹۲۹ میں پیش کیا۔ اس وقت کماؤں کے ڈویژن میں تین آدم خور سرگرم تھے۔ چونکہ چوگڑھ کے آدم خور سب سے زیادہ تباہی پھیلا رہا تھا، میں نے پہلے اسی کو چنا۔
سرکاری طور پر کانٹوں اور تاریخوں سے بھرا نقشہ میرے حوالے کر دیا گیا۔ اس کے مطابق آدم خور کالا آگر کے شمالی اور مشرقی سرے پر زیادہ سرگرم تھا۔ یہ پہاڑ کوئی چالیس میل لمبا اور ساڑھے آٹھ ہزار فٹ بلند ہے۔ اس پہاڑ کے شمالی سرے سے سڑک گذرتی ہے اور کئی جگہ میلوں تک گھنے جنگلات سے گذرتی ہے۔ بعض جگہ یہ سڑک جنگل اور مزروعہ زمین کے درمیان حد بندی کا کام بھی دیتی ہے۔ ایک جگہ سڑک بل کھاتی ہے جو کالا آگر کے فارسٹ بنگلے سے نزدیک ہے۔ یہ بنگلہ ہی میری منزل تھا اور چار دن کے پیدل سفر اور چار ہزار فٹ کی عمودی چڑھائی کے بعد اپریل ۱۹۲۹ کی ایک شام میں اس تک پہنچا۔ اس جگہ آخری انسانی شکار ایک بائیس سالہ نوجوان تھا جو مویشیوں کو چراتے وقت مارا گیا تھا۔ پہنچنے کے بعد اگلی صبح جب میں ناشتہ کر رہا تھا تو اس جوان کی دادی مجھے دیکھنے آئی۔
اس نے مجھے بتایا کہ آدم خور نے اس کے واحد رشتہ دار کو ہلاک کر ڈالا ہے۔ جب وہ رو کر کچھ چپ ہوئی تو اس نے اپنی تینوں بھینسیں مجھے بطور چارہ استعمال کرنے کی پیش کش کی۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر اس کی بھینسوں کی مدد سے میں آدم خور کو مار سکا تو اسے سکون اور اطمینان مل جائے گا کہ اس کے پوتے کا بدلہ لیا جا چکا ہے۔ یہ بھینسیں پوری طرح جوان اور میرے لئے بیکار تھیں۔ تاہم براہ راست انکار کرنے سے اس کا دل ٹوٹ جاتا۔ میں نے اسے کہا کہ میں اپنے ساتھ نینی تال سے لائے ہوئے نوجوان بھینسے پہلے باندھوں گا۔ اس کے بعد اس کی بھینسوں کی باری آئے گی۔ اس دوران آس پاس کے دیہاتوں کے نمبردار بھی میرے گرد جمع ہو چکے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ آدم خور کو آخری بار دس دن قبل اور بیس میل دور ایک گاؤں میں دیکھا گیا تھا جہاں آدم خور نے میاں بیوی کو مار کر کھایا تھا۔
دس دن پرانے نشانات کا پیچھا کرنا بے کار تھا۔ نمبرداروں سے کافی دیر تک بات کے بعد جب میں فارغ ہوا تو میں نے فیصلہ کیا کہ مشرقی سرے کے گاؤں ڈلکانیہ کا چکر لگا لوں۔ ڈلکانیہ کالا آگر سے دس میل دور تھا اور آدم خور کی آخری واردات والے گاؤں سے دس میل دور۔
نقشے پر ڈلکانیہ اور اس کے آس پاس کے گاؤں پر لگے کانٹوں کی کثرت سے معلوم ہوتا تھا کہ آدم خور کی جائے رہائش یا مستقل ٹھکانہ یہیں آس پاس ہی کہیں ہے۔
اگلی صبح ناشتہ کر کے میں کالا آگر کی طرف فارسٹ روڈ پر چلتا ہوا بڑھا۔ یہ سڑک مجھے پہاڑ کے آخر تک لے جائے گی اور جہاں سے مجھے اس سڑک کو چھوڑ کر نیچے اترنا تھا اور دو میل چل کر میں ڈلکانیہ پہنچ جاؤں گا۔ یہ سڑک جو کہ گھنے جنگلات سے گذرتی ہے، کم ہی استعمال ہوتی تھی۔ اس پر پگ تلاش کرتا ہوا میں آگے بڑھا۔ دو بجے میں اس جگہ پہنچا جہاں میں نے سڑک کو چھوڑ کر نیچے اترنا تھا۔ یہاں میں ڈلکانیہ کے بہت سارے بندوں سے ملا۔ یہ لوگ "کوووئی" کی وجہ سے جان چکے تھے کہ میں اس جگہ کیمپ لگانے آ رہا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ اس صبح آدم خور نے عورتوں کی ایک جماعت پر حملہ کیا تھا جو ڈلکانیہ سے دس میل دور ایک اور گاؤں کے پاس فصل کاٹ رہی تھیں۔
میرے ساتھی آٹھ میل سے میرا کیمپ اٹھائے آ رہے تھے۔ وہ بخوشی دس میل اور چلنے کے لئے تیار تھے لیکن جب میں نے یہ سنا کہ اس گاؤں کا راستہ خاصا مشکل اور گھنے جنگلات سے گذرتا ہے، میں نے آدمیوں کو ڈلکانیہ بھیج دیا اور خود اکیلے اس جگہ جا کر شیر کے حملے کا معائینہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ میرے ملازم نے فوراً ہی کھانا بنانا شروع کر دیا۔ تین بجے کھانا کھا کر میں دس میل کے سفر پر چل دیا۔ عام حالات میں دس میل اڑھائی گھنٹے کا سفر ہے لیکن یہاں صورتحال برعکس تھی۔ مشرقی سرے سے گذرتا ہوا راستہ کئی گہری کھائیوں، بڑی بڑی چٹانوں، گھنی جھاڑیوں اور درختوں سے پٹا پڑا تھا۔ ہر اس طرح کی رکاوٹ جہاں آدم خور کی شکل میں موت چھپی ہو، سے پوری طرح محتاط ہو کر گذرنا پڑتا ہے۔ پیش قدمی ظاہراً بہت سست ہو جاتی ہے۔ ابھی میں کافی دور تھا کہ ڈھلے سائیوں نے مجھے رکنے کا عندیہ دیا۔
کسی بھی دوسرے علاقے میں رات کو کھلے آسمان تلے خشک پتوں پر سو جانا بہت آرام دہ ہوتا لیکن یہاں اس طرح سونا یقینی موت ہوتا۔ عرصہ دراز سے شب بسری کے لئے مناسب درخت کے انتخاب اور اس پر آرام سے سو جانے کی عادت نے یہ مسئلہ بھی حل کر دیا تھا کہ کہاں اور کیسے سویا جائے۔ اس بار میں نے برگد کا درخت چنا۔ ابھی میں چند ہی گھنٹے سویا ہوں گا کہ درخت کے نیچے چند جانورون کی آوازیں سن کر جاگ گیا۔ میری رائفل شاخ سے بندھی ہوئی تھی۔ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ ریچھوں کا غول "کارپھل" کے درختوں کی طرف جا رہا تھا۔ یہ درخت نزدیک ہی تھے۔ کھاتے وقت ریچھ بہت شور کرتے ہیں۔ جب تک وہ پیٹ بھر کر چلے نہ گئے، میرے لئے سونا ممکن نہ تھا۔
سورج ابھرے دو گھنٹے گذر چکے تھے کہ میں اس گاؤں پہنچا۔ پانچ ایکڑ کے خالی رقبے میں دو جھونپڑے اور مویشیوں کا ایک باڑہ تھا۔ اس کے ہر طرف جنگل ہی جنگل تھا۔ اس گاؤں سے چند ہی گز دور گندم کا وہ کھیت تھا جہاں تین موقعوں پر گھات لگاتا آدم خور بروقت دکھائی دے گیا تھا۔ مجھے وہ جگہ دکھائی گئی۔ جس شخص نے شیر کو دیکھ کر عورتوں کو خبردار کیا تھا، نے بتایا کہ ناکام ہونے پر آدم خور جنگل کی طرف پلٹا اور وہاں دوسرے شیر کے ساتھ مل کر پہاڑی سے نیچے اترا۔ ان دونوں جھونپڑوں کے مکینوں کو رات بھر نیند نہ آئی کیوں کہ شیر رات بھر بولتے رہے اور میری آمد سے ذرا دیر پہلے ہی چپ ہوئے۔ دو شیروں والی بات نے تصدیق کی کہ آدم خور کے ساتھ اس کا بچہ بھی ہے۔
ہمارے دیہاتی بہت مہمان نواز ہوتے ہیں۔ جب انہیں علم ہوا کہ میرا کیمپ ڈلکانیہ میں ہے اور میں نے رات جنگل میں گذاری تھی، انہوں نے فوراً کھانا تیار کرنے کی پیش کش کی۔ میں جانتا تھا کہ اس طرح ان لوگوں پر غیر ضروری بار پڑتا۔ میں نے انہیں چائے کا کہا۔ چائے تو موجود نہ تھی لیکن دودھ کا گلاس مل گیا جو بہت زیادہ گڑ کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی میٹھا تھا۔ اگر اس کی عادت ہو جائے تو یہ بہت مزہ دیتا ہے۔
میزبانوں کی درخواست پر میں رائفل لے کر نگرانی کرتا رہا اور وہ لوگ باقی بچی ہوئی فصل کاٹ کر جلد ہی فارغ ہو گئے۔ دوپہر کو ان لوگوں کی دعائیں لے کر میں اس طرف روانہ ہوا جہاں وادی سے انہوں نے شیروں کی آوازیں سنی تھیں۔
یہ وادی تین دریاؤں نندھور، لدھیا اور مشرقی گوالا کے ملاپ سے شروع ہو کر جنوب مغرب کی طرف بیس میل جتنی پھیلی ہوئی ہے اور خوب گھنے جنگلات سے بھری ہوئی ہے۔ نشانات کا کھوج لگانا تو ممکن نہ تھا۔ میرے لئے واحد ممکنہ راستہ یا تو ان جانوروں کو اپنی طرف متوجہ کرنا یا پھر جنگلی جانوروں کی آوازوں کی مدد سے ان کا پیچھا کرنا تھا۔
آپ میں سے وہ لوگ جو زمین پر رہ کر آدم خوروں کا شکار کرتے ہیں، بخوبی جانتے ہیں کہ جانوروں اور پرندوں کی آوازیں اور ہوا کا رخ اس طرز کے شکار میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اس جگہ ان جانوروں اور پرندوں کی تفصیل بتانا تو مناسب نہیں کیوں کہ اس جگہ تین یا چار میل کا مطلب کئی ہزار فٹ کی بلندی یا پستی ہوتا۔ اسی نسبت سے جانور اور پرندے بھی بدل جاتے ہیں کہ جن پر شکاری بھروسہ کرتا ہے اور جن کی مدد سے اس کو اپنی حفاظت اور شکار کی حرکات کے بارے علم ہوتا ہے۔ تاہم ہر سطح یا بلندی اور پستی ، ہر جگہ ہوا کے رخ کی اہمیت یکساں ہی رہتی ہے۔ اس بارے چند الفاظ شاید بے محل نہ ہوں۔
شیروں کو علم نہیں ہوتا کہ انسانوں میں سونگھنے کی طاقت یعنی قوت شامہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ شیر جب آدم خور بنتا ہے تو وہ انسان پر حملہ کرتے وقت وہی طریقہ اپناتا ہے جو وہ دیگر جنگلی جانوروں کے شکار کے لئے آزماتا ہے۔ یعنی یا تو ہوا کے رخ کی مخالف سمت سے حملہ یا پھر ہوا کے رخ پر لیٹ کر۔
اس بات کی اہمیت تب واضح ہوتی ہے جب شکاری آدم خور کی تلاش کر رہا ہوتا ہے تو کس طرف شیر کی موجودگی کے امکانات ہو سکتے ہیں۔ یعنی کہ شیر گھات لگا رہا ہے یا پھر شکاری کے انتظار میں لیٹا ہوا ہے۔ اگر ہوا شیر سے شکاری کی طرف چل رہی ہو تو شیر کی جسامت، رنگ، بے آواز حرکت کرنے کی صلاحیت بھی فائدہ نہیں دے سکتی۔
چاہے شیر چھپ کر حملہ کرے یا پھر گھات لگا کر، دونوں صورتوں میں حملہ پشت کی جانب سے ہی ہوتا ہے۔ اس لئے آدم خور کی تلاش میں نکلے شکاری کا ہوا کا رخ جانے بغیر گھنے جنگل میں گھسنا خودکشی کے مترادف ہوتا ہے۔ مثلاً اگر شکاری کسی ایسی جگہ گھسے جہاں ہوا مخالف سمت میں چل رہی ہو تو شیر کی موجودگی عقب میں ہی ممکن ہے جہاں شکاری کی کم سے کم توجہ ہو سکتی ہے۔ تاہم بار بار ہوا کے رخ سے آگے پیچھے ہو کر وہ خطرے کو عقب کی بجائے دائیں یا بائیں لا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان صفحات پر آپ کو یہ تجویز اتنی بھلی نہ لگے لیکن حقیقی زندگی میں یہ بالکل بہترین کام کرتی ہے۔ جب بھوکا آدم خور گھنے جنگل میں گھات لگائے ہوئے ہو تو پیچھے کے رخ چلنے سے زیادہ بہتر اور محفوظ طریقہ اور کوئی نہیں۔
شام ہوتے ہوتے میں وادی کے دوسرے سرے پر پہنچ گیا۔ اس دوران نہ تو شیروں کو دیکھا اور نہ ہی کسی پرندے یا جانور کی آواز سے اس کی موجودگی کا علم ہوا۔ اس جگہ سے نظر آنے والی واحد آبادی پہاڑ کے شمالی سرے پر موجود ایک مویشی خانہ ہی تھا۔
اس بار شب بسری کے لئے درخت کے چناؤ کے وقت میں کافی محتاط تھا۔ اس لئے رات بغیر کسی پریشانی یا مداخلت کے گذری۔ تاریکی چھانے کے کچھ دیر بعد ہی شیروں کی آواز آئی اور پھر چند منٹ بعد مزل لوڈنگ بندوق سے دو گولیاں چلنے کی آواز آئی۔ اس کے بعد مویشی خانے کے لوگوں کا شور وادی میں گونجا۔ بقیہ رات پر سکون گذری۔
اگلے دن دوپہر تک میں نے پوری وادی چھان ماری اور اب میں اس ڈھلوان پر چڑھ رہا تھا کہ ڈلکانیہ اپنے بندوں سے جا ملوں کہ میں نے مویشی خانے سے ایک لمبی سی "کوووئی" سنی۔ یہ آواز دوبارہ آئی۔ میرے جواب پر ایک شخص چٹان پر چڑھا اور اس نے چلا کر پوچھا کہ کیا میں وہی صاحب ہوں جو نینی تال سے آدم خور کو مارنے آیا ہوا ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ ہاں میں وہی صاحب ہوں۔ اس پر اس نے بتایا کہ دوپہر کو اس کے مویشی وادی میں اس طرف جہاں میں ابھی تھا، والی کھائی میں نکل گئے تھے۔ واپسی پر اس نے گنا تو ایک سفید گائے گم تھی۔
اس کا خیال تھا کہ اس گائے کو انہی شیروں نے مارا ہے جو گذشتہ رات اسی جگہ سے بول رہے تھے جہاں میں اب کھڑا تھا۔ اس اطلاع پر میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کھائی میں تفتیش کی نیت سے نکل کھڑا ہوا۔ ابھی میں اس کھائی کے سرے پر تھوڑا سا ہی آگے بڑھا ہوں گا کہ مجھے مویشیوں کے کھروں کے نشانات دکھائی دیئے۔ ان نشانات کا پیچھا کرتے ہوئے مجھے وہ جگہ مل گئی جہاں شیروں نے گائے کو ہلاک کیا تھا اور پھر کھائی میں لے گئے تھے۔ گھیسٹنے کے نشانات سے پیچھا کرنا عقلمندی نہ ہوتا۔ میں نے وادی کا ایک لمبا چکر لگایا اور اس جگہ دوسرے کنارے سے پہنچا جہاں میری توقع کے مطابق شیر گائے کو لے جاتے۔یہ کنارہ کم ڈھلوان تھا اور اس نوعیت کا تھا کہ اس سے گھات لگانا آسان تھی۔ قدم بقدم اور سائے کی طرح چھپ کر میں آگے بڑھتا رہا۔ اس جگہ گھاس میری کمر تک تھی۔ ابھی میں تیس گز ہی بڑھا ہوں گا کہ سامنے سے کچھ حرکت دکھائی دی۔ ایک سفید ٹانگ اوپر کو اٹھی اور پھر زور سے غراہٹ سنائی دی۔شاید دونوں شیروں کے درمیان گوشت کے کسی خاص ٹکڑے پر جھگڑا ہو رہا تھا۔
کئی منٹ تک میں بالکل خاموش کھڑا رہا۔ ٹانگ بار بار ہلتی رہی لیکن غراہٹ کی آواز دوبارہ نہ آئی۔ اگر میں کسی طرح تیس گز اور آگے بڑھ سکتا اور ایک شیر کو ہلاک کر بھی لیتا تو دوسرا چڑھ دوڑتا۔ اس جگہ تحفظ ناممکن تھا۔ مجھ سے بیس گز دور اور شیروں سے بھی اتنے ہی فاصلے پر ایک بڑا پتھر تھا جو دس یا پندرہ فٹ بلند ہوگا۔ اگر میں اس تک پہنچ پاتا تو میرے لئے گولی چلانا نسبتاً آسان ہو جاتا۔ گھٹنوں اور کہنیوں کے بل چلتا اور رائفل کو دھکیلتا ہوا میں اس پتھر کے پیچھے پہنچا۔ منٹ بھر رک کر سانس بحال کی اور رائفل بھر کر چٹان پر چڑھا۔ جب میری آنکھیں پتھر کی اوپری سطح کے برابر آئیں، میں نے جھانکا تو دو شیر دکھائی دیئے۔
ایک شیر گائے کا پچھلا حصہ کھا رہا تھا اور دوسرا ساتھ ہی لیٹا ہوا پنجے چاٹ رہا تھا۔ دونوں بظاہر ایک ہی جسامت کے حامل تھ۔ جو پنجے چاٹ رہا تھا، اس کا رنگ کچھ مدھم سا تھا۔ میں نے سوچا کہ بڑی عمر کی وجہ سے کھال کا رنگ مدھم پڑ گیا ہوگا۔ پوری احتیاط سے نشانہ لے کر گولی چلائی۔ گولی لگتے ہی وہ اچھلا اور نیچے گرا جبکہ دوسرے نے اتنی تیزی سے چھلانگ لگائی کہ مجھے دوسری لبلبی دبانے کا وقت بھی نہیں ملا۔ جس شیر کو گولی لگی تھی، وہ بے حس و حرکت تھا۔ اسے پتھر وغیرہ مار کر میں نے تسلی کی اور پھر اس کی طرف گیا۔ اسے دیکھ کر مجھے سخت مایوسی ہوئی کہ میں نے غلطی سے شیرنی کی بچی کو مار دیا تھا۔ اس غلطی کا خمیازہ مجھے مزید بارہ ماہ کی اضافی محنت اور ضلع کو پندرہ مزید انسانی جانوں کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ میں خود بھی مرتے مرتے بچا۔
یہ سوچ کر میری مایوسی کچھ کم ہوئی کہ اگرچہ اس شیرنی نے ابھی تک کوئی انسان نہیں مارا تھا لیکن انسانی ہلاکتوں میں اس نے اپنی ماں کی مدد تو کی ہوگی (یہ اندازہ بعد ازاں درست نکلا)۔ بہرحال اس کی پرورش تو انسانی گوشت پر ہی ہوئی تھی۔ عین ممکن تھا کہ آگے چل کر یہ بھی آدم خور ہی بنتی۔
کھلے میدان میں بیٹھ کر اور مناسب اوزاروں کی مدد سے شیر کی کھال اتارنا مشکل نہیں۔ لیکن یہاں میں اکیلا، چاروں طرف گھنی جھاڑیوں سے گھرا ہوا تھا۔ میرے پاس اوزار کے نام پر پینسل تراشنے والا ایک چاقو تھا۔ شیر بلاوجہ شکار نہیں کرتے۔ بظاہر مجھے آدم خور سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ تاہم میرے ذہن میں کسی جگہ یہ خیال موجود تھا کہ شیرنی لوٹ آئی ہے اور میری ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
سورج ڈوبنے سے ذرا قبل یہ کام پورا ہوا۔ چونکہ دوسری رات بھی مجھے جنگل میں ہی گذارنی تھی، میں نے اسی جگہ ہی رہنے کا سوچا۔ شیرنی کے پگ سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ بوڑھی شیرنی ہے اور اس نے ساری زندگی اسی جنگل میں گذاری ہے جہاں تقریباً ہر شخص کے پاس آتشیں اسلحہ ہوتا ہے۔ اسے آدمیوں کے طور طریقوں کا بھی علم ہے۔ اس کے باوجود امکان تھا کہ وہ رات کو کسی وقت دوبارہ گائے کو کھانے آتی اور سورج نکلنے تک ادھر ہی رہتی۔
درختوں کی تعداد خاصی محدود تھی اور اس رات جو درخت میں نے شب بسری کے لئے چنا، میں نے زندگی بھر اس سے زیادہ تکلیف دہ درخت نہیں دیکھا۔ شیرنی ساری رات وقفے وقفے سے بولتی رہی لیکن صبح ہوتے وقت اس کی آواز دور ہوتی چلی گئی۔ بالآخر اس کی آواز پہاڑ کے اوپر غائب ہو گئی۔
میرا جسم اکڑا ہوا، سخت بدن اور بھوک سے بد حال تھا۔ سابقہ چونسٹھ گھنٹوں سے میں نے کچھ نہ کھایا تھا۔ رات کو گھنٹہ بھر بارش بھی ہوئی تھی اور میں اچھی طرح بھیگ چکا تھا۔ صبح کو جب ہر چیز صاف دکھائی دینے لگی تو میں نیچے اترا۔ شیرنی کی کھال کو میں نے کوٹ میں باندھا اور ڈلکانیہ چلا۔میں نے شیر کی تازہ اتری ہوئی کھال کا کبھی وزن نہیں کیا۔ اگر کھال، پنجے اور سر ملا کر کل وزن چالیس پاؤنڈ ہوتا ہو تو اس پندرہ میل کے اختتام پر یہ وزن کوئی دو سو پاؤنڈ ہو چکا تھا۔
درجن بھر گھروں کا مشترکہ صحن، جس پر سلیٹ کے پتھر لگے ہوئے تھے، میں میرے آدمی سو سے زیادہ دیہاتیوں کے ساتھ محو گفتگو تھے۔ میری آمد کا اس وقت تک کسی علم نہ ہوا جب تک کہ میں خون میں لت پت، بھوکا اور ٹھوکریں کھاتا لوگوں کے درمیان میں نہ پہنچ گیا۔ یہ منظر مجھے تادم مرگ یاد رہے گا۔
میرا چالیس پاؤنڈ کا خیمہ کھیت کے بیچوں بیچ نصب تھا اور گاؤں سے سو گز دور۔ ابھی میں اس تک پہنچا ہی تھا کہ میرے سامنے چائے لا کر رکھ دی گئی۔ میز کی جگہ دو اٹیچی تھے۔ بعد ازاں مجھے دیہاتیوں نے بتایا کہ میرے ہمراہی جو برسوں سے اس طرح کی مہمات میں میرے ساتھ تھے، نے یہ ماننے سے انکار کیا تھا کہ میں آدم خور کا لقمہ بن چکا ہوں۔ دن ہو یا رات، وہ چائے کی کیتلی آگ پر رکھے میرے منتظر رہے۔ انہوں نے ڈلکانیہ اور دیگر دیہاتوں کے نمبرداروں وک الموڑہ یہ اطلاع بھیجنے سے بھی روکے رکھا کہ میں گم ہو چکا ہوں۔
انتہائی مجبور ہو کر میں نے سارے گاؤں کے سامنے ہی گرم غسل کیا کیونکہ میں بہت گندا اور تھکا ہوا تھا۔ اس کے بعد میں نے کھانا کھایا۔ ابھی میں سونے ہی جا رہا تھا کہ زور سے آسمانی بجلی چمکی اور پھر گرج سنائی دی۔ کھیت میں خیمے کے لئے کیل زیادہ مضبوط نہیں گاڑے جا سکتے۔ ہم نے گاؤں سے کھونٹے منگوائے اور ان کی مدد سے خیمہ پھر سے گاڑا۔ مزید حفاظت کے لئے ہم نے اضافی رسیاں خیمے پر ہر طرف سے لپیٹ کر کھونٹوں سے باندھ دیں۔ آندھی اور طوفان گھنٹہ بھر جاری رہا اور میرے خیمے نے اتنا شدید طوفان پہلے کبھی نہیں جھیلا تھا۔ خیمے کی اپنی کئی رسیاں کینوس سے ٹوٹ کر الگ ہو گئیں لیکن کھونٹے اور اضافی رسیاں اپنی جگہ قائم رہیں۔ اکثر اشیاء بھیگ گئیں اور کئی انچ گہری ندی خیمے کے آر پار بہہ رہی تھی۔ تاہم خوش قسمتی سے میرا بستر نسبتاً خشک تھا۔ دس بجے جب میرے آدمی گاؤں میں اپنے لئے مختص کردہ کمرے میں دروازہ بند کر کے سو گئے تو میں نے بھی رائفل بھری اور سو گیا۔ بارہ گھنٹے بعد میں اٹھا۔
اگلا دن سامان سکھانے اور شیرنی کی کھال صاف کرنے اور سیدھا کرنے میں گذارا۔ یہ سارا منظر گاؤں والوں نے دیکھا جو اس دن اپنے کاموں سے چھٹی کر کے میری داستان سننے کو آئے ہوئے تھے۔ ہر وہ شخص موجود تھا جس کا ایک یا ایک سے زیادہ رشتہ دار شیرنی کے ہاتھوں ہلاک ہوا تھا۔ کئی لوگوں کے جسموں پر شیرنی کے پنجوں اور دانتوں کے نشانات تادم مرگ ثبت رہیں گے۔ان لوگوں نے میری معذرت کو قبول نہ کیا کہ میں نے شیرنی کی بجائے غلطی سے اس کے بچے کو مار دیا ہے۔ اصل میں آدم خور ایک ہی تھا لیکن گذشتہ کئی ماہ سے لاشیں لانے والے امدادی جماعتوں نے ہمیشہ دو ہی شیرنیاں دیکھی تھیں۔ دو ہفتے قبل ہی میاں بیوی کا ایک ساتھ مارا جانا اس بات کا ثبوت تھا کہ دونوں شیرنیاں ہی آدم خور تھیں۔
میرا خیمہ پہاڑ کی بلندی پر تھا اور کافی وسیع علاقہ میرے سامنے تھا۔ میرے بالکل سامنے دریائے نندھور کی وادی تھی جس میں ہر طرح کے جھاڑ جھنکار سے پاک پہاڑی تھی جو دوسری طرف سے نو ہزار فٹ بلند تھی۔ شام کو میں اس جگہ دوربین لے کر بیٹھا اور با آسانی وہ تمام جگہیں تلاش کر لیں جہاں آدم خور نے سرکاری نقشے کے مطابق وارداتیں کی تھیں۔ تین سال میں یہ وارداتیں چالیس مربع میل پر پھیلی ہوئی تھیں۔
اس علاقے کے جنگل مویشیوں کے لئے وقف تھے۔ مویشیوں کے راستے پر میں نے اپنے چاروں نوعمر بھینسے باندھنے کا سوچا۔
دس دن تک شیرنی کی کوئی اطلاع نہ آئی۔ میں ہر روز صبح سویرے بھینسوں کی طرف چکر لگاتا۔ دن بھر جنگل میں ہوتا اور شام کو بھینسوں کو جا کر دوبارہ باندھتا۔ گیارہویں دن مجھے اطلاع ملی کہ میرے خیمے سے اوپر والے پہاڑ پر ایک کھڈ میں ایک گائے ماری گئی ہے۔ میری امیدیں دوبارہ تازہ ہو گئیں۔ جا کر دیکھا تو یہ ایک پرانے تیندوے کا شکار تھی جس کے پگ اکثر یہاں دکھائی دیتے تھے۔ دیہاتیوں نے شکایت کی کہ اس تیندوے نے ان کے ڈھیروں جانور مارے ہیں۔ میں مردہ گائے کے نزدیک ہی ایک کھوہ میں چھپ گیا۔ جلد ہی تیندوا مخالف سمت سے آتا دکھائی دیا۔ ابھی میں گولی چلانے کے لئے رائفل سیدھی کر ہی رہا تھا کہ گاؤں سے ایک بے چین آواز سنی جو مجھے بلا رہی تھی۔
اس ہنگامی بلاوے کا ایک ہی مقصد ہو سکتا تھا۔ ہیٹ اٹھائے میں کھوہ سے نکلا۔ تیندوا پہلے تو حیرت سے اچھل کر چت گرا، پھر غصیلی آواز نکالتے ہوئے فرار ہو گیا۔ میں نے کھڈ سے نکل کر اس آدمی کو چلا کر بتایا کہ میں آ رہا ہوں، اور اس طرف بھاگا۔
وہ آدمی چڑھائی کا پورا راستہ بھاگتے ہوئے آیا تھا۔ جب اس کا سانس بحال ہوا تو پتہ چلا کہ شیرنی نے گاؤں سے نصف میل دور ایک عورت کو ہلاک کیا ہے۔ راستے میں ہی میں نے صحن میں لوگوں کا ہجوم دیکھا۔ کسی نے میری آمد کا نوٹس بھی نہ لیا۔ ان کے سروں پر سے جھانک کر دیکھا کہ ایک لڑکی زمین پر بیٹھی ہے۔
اس کے اوپری جسم کے کپڑے تار تار ہو چکے تھے اور ہاتھ پیچھے ٹکائے اس کا سر پیچھے کو جھکا ہوا تھا۔ وہ بے حس و حرکت بیٹھی تھی۔ اس کی چھاتی ہلنے سے سانس کی آمد و رفت کا اندازہ ہو رہا تھا۔ اس کی گردن اور چہرے سے خون بہہ رہا تھا اور لوتھڑوں کی شکل میں جمع ہوتا جا رہا تھا۔
جلد ہی لوگوں نے میری آمد کو محسوس کیا اور مجھے راستے دینے کو ہٹنے لگے۔ لڑکی کے پاس پہنچ کر اس کے زخموں کا جائزہ لیتے ہوئے مجھے لوگوں نے بتایا کہ نسبتاً کھلے میدان میں شیرنی نے اس پر حملہ کیا تھا اور بہت سارے لوگ اسے دیکھ رہے تھے۔ لڑکی کا شوہر بھی ان لوگوں میں شامل تھا۔ ان لوگوں کے شور سے شیرنی بھاگ گئی اور لڑکی وہیں کی وہیں پڑی رہی۔ اس کے ساتھی بھاگ کر گاؤں آئے تاکہ مجھے اطلاع ہو سکے۔ بعد میں جب لڑکی کو ہوش آیا تو وہ خود چل کر گاؤں پہنچی۔ لوگوں نے کہا کہ یہ لڑکی جلد ہی مرنے والی ہے۔ اس لئے اسے اٹھا کر ہم جائے واردات پر لے چلتے ہیں۔ جب یہ مر جائے گی تو اس کی لاش پر میں چھپ کر شیرنی کو مار سکتا ہوں۔
ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں اور لڑکی کی نگاہیں مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔ زخمی اور بے بس جانور کا سا تائثر اس کی آنکھوں سے ظاہر تھا۔ لوگ اتنے جمع تھے کہ مجھے لڑکی کے سانس لینے کے لئے جگہ بنانی پڑی۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے کافی غیر مہذب انداز میں لوگوں کو ہٹایا۔ جب سارے مرد چلے گئے تو عورتیں سامنے آئیں جو ابھی تک پیچھے تھیں۔ میں نے انہیں گرم پانی لانے کو بھیجا اور اپنی نسبتاً صاف قمیض کو پھاڑ کر پٹیاں بنائیں۔ ایک لڑکی جو تقریباً ہسٹیریائی انداز میں چیخ رہی تھی، کو قینچی لانے بھیجا۔ اس کی واپسی سے قبل ہی پٹیاں بن چکی تھیں اور گرم پانی بھی آ چکا تھا۔ لڑکی گاؤں کی واحد قینچی لے کر واپس آئی۔ اس کا مالک درزی کافی عرصے پہلے مر چکا تھا۔ درزی کی بیوی اس قینچی سے آلو اکھاڑی تھی۔ یہ قینچی زنگ آلود تھی اور اس کے آٹھ انچ لمبے پھل کسی بھی جگہ ایک دوسرے سے نہیں ملتے تھے۔ ناکام ہو کر میں نے خون آلود بالوں کو ویسے ہی رہنے دیا۔
اس لڑکی کو دو بڑے زخم آئے تھے جو شیرنی کے پنجوں سے بنے تھے۔ ایک زخم آنکھوں کے درمیان سے شروع ہو کر سر سے ہوتا ہوا پیچھے گدی پر جا کر ختم ہوتا تھا۔ دوسرا زخم پہلے کے قریب سے شروع ہو کر دائیں کان تک جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بے شمار گہری خراشیں دائیں چھاتی، دائیں کندھے اور گرن پر تھیں۔ ایک گہرا زخم دائیں ہاتھ کی پشت پر بھی تھا جو بظاہر سر کو بچاتے ہوئے لگا۔
ایک بار میں اپنے ایک ڈاکٹر دوست کو شیر کے پیدل شکار پر لے گیا تھا۔ واپسی پر انہوں نے مجھے دو اونس جتنا کوئی زرد رنگ کے محلول کی ایک شیشی دی تھی۔ انہوں نے ہدایت کی تھی کہ میں اسے ہمیشہ اپنی شکاری مہمات پر ساتھ رکھوں۔ میری اندرونی جیب میں رکھے رکھے اس شیشی کو ایک سال ہو چکا تھا۔ اس کا کچھ حصہ تو عمل تبخیر سے اڑ چکا تھا لیکن ابھی بھی تین چوتھائی دوائی باقی تھی۔ اس لڑکی کا سر اور جسم دھو کر میں نے اس شیشی کا ڈھکن اتارا اور اس میں موجود آخری قطرہ تک اس لڑکی کے زخموں پر انڈیل دیا۔ اس کے بعد میں نے اس انداز میں سر پر پٹی باندھی کہ اس کی جلد جڑی رہے۔ اس کے بعد میں اسے اٹھا کر اس کے گھر لے گیا۔ گھر میں ایک ہی کمرہ تھا جو بیک وقت باورچی خانے، سونے کے کمرے وغیرہ کا کام دیتا تھا۔ بقیہ عورتیں میرے پیچھے پیچھے آئیں۔
دروازے کے ساتھ ہی ٹوکری میں ایک ننھا سا بچہ بھوک سے رو رہا تھا۔ اس مشکل کا حل میرے بس سے باہر تھا۔ میں نے یہ ذمہ داری عورتوں پر ڈال دی۔ دس دن بعد روانگی سے ایک روز قبل شام کو میں اس لڑکی کو دیکھنے گیا۔ وہ اپنے گھر کی دہلیز پر بیٹھی تھی اور اس کا بچہ اس کی گود میں بے خبر سو رہا تھا۔
اس کے تمام زخم ما سوائے گدی والے زخم کے (جہاں شیرنی کے پنجے زیادہ گہرے گڑے تھے) بھر چکے تھے۔ اس نے اپنے کالے سیاہ بال ہٹا کر مجھے زخم دکھایا جو بالکل ہی بھر چکا تھا اور کھال بھی مل چکی تھی۔ مسکراتے ہوئے اس نے بتایا کہ اسے اس بات کی بہت خوشی ہے کہ اس کی بہن درزی کے گھر سے غلط قینچی لے کر آئی تھی (ہندوستان میں کٹے ہوئے بال یا گنجی عورت بیوگی کی علامت ہوتی ہے)اگر میرے ڈاکٹر دوست یہ سطریں پڑھ رہے ہوں تو میں انہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان کی دی ہوئی زرد محلول کی شیشی نے ایک نوجوان بہادر ماں کی جان بچا لی ہے۔
جب میں لڑکی کی مرہم پٹی کر رہا تھا تو میرے آدمیوں نے ایک بکری لی اور خون کے نشانات کا پیچھا کرتے ہوئے ہم اس جگہ پہنچے جہاں شیرنی نے لڑکی پر حملہ کیا تھا۔ بکری کو ایک جھاڑی سے باندھ کر میں یہاں موجود اکلوتے درخت پر چڑھ گیا۔ سونے کا خیال ہی بے کار تھا کیونکہ میں زمین سے چند ہی فٹ اوپر تھا اور شیرنی ابھی تک بھوکی تھی۔ تاہم اس رات نہ تو شیرنی کی آواز سنائی دی اور نہ وہ ادھر آئی۔
اگلی صبح زمین کا جائزہ لیتے ہوئے، جس کا مجھے گذشتہ شام وقت نہ مل سکا تھا، میں نے دیکھا کہ لڑکی پر حملے کے بعد شیرنی وادی میں نصف میل وہاں تک گئی تھی جہاں مویشیوں کا راستہ دریائے نندھور سے ہو کر گذرتا ہے۔ اس راستے پر وہ دو میل گئی جہاں سڑک ڈلکانیہ کے اوپر فارسٹ روڈ سے جا ملتی ہے۔ یہاں زمین سخت تھی اور میں اس کے نشانات کھو بیٹھا۔
دو دن تک ارد گرد کے دیہاتیوں نے اپنے گھروں سے باہر قدم نہ رکھا۔ تیسرے دن مجھے چار ہرکاروں نے آ کر اطلاع دی کہ شیرنی نے ڈلکانیہ سے جنوب میں ایک شکار کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فارسٹ روڈ سے راستہ دس میل ہے اور شارٹ کٹ سے یہ فاصلہ کوئی پانچ میل رہ جاتا ہے۔ جلد ہی میں تیار ہو گیا اور دوپہر کے ذرا بعد میں ان کے ہمراہ چل پڑا۔
دو میل کی سخت چڑھائی کے بعد ہم ڈلکانیہ کے جنوب میں پہاڑ کی چوٹی تک پہنچ گئے۔ ہمارے سامنے تین میل چوڑی وادی تھی جہاں شیرنی نے شکار کیا تھا۔
ہرکارے اس سے زیادہ کچھ نہ جانتے تھے۔ وہ خود موہالی والی طرف اس جگہ سے میل بھر دور رہتے تھے۔ دس بجے انہیں پیغام ملا کہ لوہالی میں ایک عورت کو شیرنی نے مار ڈالا ہے اور وہ مجھے ڈلکانیہ جا کر اس کے بارے اطلاع دیں۔ انہیں یہ اطلاع بذریعہ "کوووئی" ملی تھی۔
یہ چوٹی جہاں ہم اس وقت کھڑے تھے، بالکل بنجر تھی اور میں یہاں سانس لینے اور سیگرٹ پینے کے لئے رکا۔ اس دوران میرے ساتھی مجھے اس علاقے کے بارے بتاتے رہے۔ اس جگہ سے نزدیک، جہاں ہم کھڑے تھے، ایک پرانا بوسیدہ جھونپڑا تھا جو ایک بڑی چٹان کے نیچے تھا۔ اس کے گرد کانٹوں کی باڑ لگی ہوئی تھی۔ اس جھونپڑے کے بارے میں سوال کا جواب کچھ یوں ملا کہ یہ جھونپڑا چار سال پہلے ایک بھوٹیا نے بنایا تھا تاکہ وہ اپنی بکریاں گرمیوں اور برسات میں ادھر لا سکے۔ وہ گڑ اور نمک وغیرہ کو ادھر سے ادھر لاتا لے جاتا تھا۔ چند ہفتے بعد اس کی بکریاں انہی لوگوں کے کھیت میں گھس گئیں۔ یہ لوگ جب شکایت کرنے آئے تو دیکھا کہ جھونپڑا خالی تھا۔ اس طرح کے لوگوں کے پاس رکھوالی کے خونخوار کتے ہوتے ہیں۔ اس بھوٹیا کا اسی طرح کا کتا زنجیر سے بندھا مرا ہوا تھا۔ انہیں شک پڑا اور اگلے دن آس پاس کے دیہاتوں کے لوگوں نے مل کر تلاش شروع کی۔ چار سو گز دور آسمانی بجلی سے جلا ہوا ایک برگد کا درخت تھا۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میرے ساتھیوں نے بتایا کہ اس کے نیچے بھوٹیا کی باقیات میں کھوپڑی اور ہڈیوں کے چند ریزے اور خون آلود کپڑے ملے۔ چوگڑھ کی آدم خور کا یہ پہلا شکار تھا۔
جہاں ہم ابھی بیٹھے تھے، یہاں سے نیچے اترنا ناممکن تھا۔ انہون نے بتایا کہ نصف میل آگے چل کر ہم اس جگہ پہنچیں گے جہاں ایک مشکل راستہ ہمیں سیدھا نیچے لے جائے گا۔ ان کے گاؤں سے گذر کر یہ راستہ لوہالی جاتا ہے۔ لوہالی یہاں سے دکھائی دے رہا تھا۔ نصف راستہ طے کرنے کے بعد اچانک میں نے بغیر کسی وجہ سے محسوس کیا کہ ہمارا تعاقب ہو رہا ہے۔ میں نے خود کو سمجھایا کہ اس علاقے میں ایک ہی آدم خور ہے اور اس نے تین میل دور ایک شکار مارا ہے اور وہ اب اس کے پاس ہی موجود ہوگی۔ تاہم یہ مجھے مسلسل یہی محسوس ہوتا رہا۔ ابھی چونکہ ہم گھاس کے قطعے پر تھے، میں نے ساتھیوں کو نیچے بیٹھنے اور میری واپسی تک کوئی حرکت نہ کرنے کا کہا۔ اب میں واپس مڑا تاکہ کچھ تفتیش کر سکوں۔ الٹے قدموں میں واپس چلا اور اس جگہ پہنچا جہاں سے ہم اس کنارے پر چڑھے تھے۔ یہاں سے میں جنگل میں گھس گیا اور اس کھلے علاقے کا جائزہ لے کر واپس اپنے آدمیوں کے پاس پہنچا۔ کسی جانور یا پرندے نے مجھے شیر کی موجودگی کے بارے نہیں بتایا تھا لیکن اب میں نے چاروں ساتھیوں کو اپنے آگے چلنے کا کہا اور سفیٹی کیچ پر انگلی رکھے میں مستقل پیچھے کی طرف نگران رہا۔
جب ہم اس گاؤں پہنچے جہاں سے میرے ساتھیوں نے اپنا سفر شروع کیا تھا، انہوں نے رخصت چاہی۔ بخوشی میں نے انہیں اجازت دی۔ ابھی میں نے میل بھر گھنے جنگل سے گذرنا تھا اور اگرچہ تعاقب کا احساس کافی دیر سے غائب ہو چکا تھا، پھر بھی اکیلی جان کی حفاظت کرنا نسبتاً زیادہ آسان ہوتا۔ چھجے نما کھیتوں سے ذرا نیچے میں نے صاف شفاف پانی کا ایک چشمہ دیکھا جہاں سے گاؤں کے لوگ پانی بھرتے تھے۔ اس جگہ نرم کیچڑ میں شیرنی کے بالکل تازہ پگ دکھائی دیئے۔
یہ پگ اسی گاؤں سے آ رہے تھے جہاں میں جا رہا تھا۔ پگ اور تعاقب کے احساس سے مجھے یقین ہو گیا کہ کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہے اور یہ میرا یہ چکر بے کار رہے گا۔ میں جنگل سے نکل کر لوہالی کے سامنے پہنچا۔ یہ پانچ یا چھ چھوٹے چھوٹے گھروں کا گاؤں گا۔ ان میں سے ایک مکان کے دروازے کے سامنے کئی افراد جمع تھے۔
کھلی ڈھلوان سے انہوں نے مجھے کافی دور سے دیکھ لیا اور ان میں سے چند افراد میری طرف بڑھے۔ ان میں سے ایک شخص جو کافی معمر تھا، نے جھک کر میرے پیر چھوئے اور بہتے آنسوؤں سے درخواست کی کہ میں اس کی بیٹی کو بچا لوں۔ اس کی کہانی مختصر مگر دردناک تھی۔ اس کی بیوہ بیٹی جو اس کی واحد رشتہ دار تھی، دس بجے خشک لکڑیاں جمع کرنے گئی تاکہ دوپہر کا کھانا بنا سکے۔ وادی کے درمیان ایک چھوٹی سی ندی گذرتی ہے اور اس نے ندی کے دوسرے سرے سے پہاڑی اچانک ہی اوپر کو اٹھنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس پہاڑی کے نچلے سرے پر کئی چھجے نما کھیت ہیں۔ سب سب نچلے کھیت کے کنارہ جو کہ گھر سے ڈیڑھ سو گز دور تھا، اس نے لکڑیاں چننا شروع کیں۔ تھوڑی دیر بعد دیگر عورتوں نے جو کہ ندی پر کپڑے دھو رہی تھیں، نے چیخ سنی۔ اوپر دیکھنے پر پتہ چلا کہ شیرنی اس عورت کو اٹھائے جنگل میں غائب ہو رہی تھی۔ یہ جنگل اسی کھیت کے نچلے کنارے سے شروع ہو جاتا تھا۔ بھاگم بھاگ ان عورتوں نے گاؤں پہنچ کر اطلاع دی۔ اس بستی کے لوگ اتنے خوفزدہ تھے کہ وہ مدد کی کوشش بھی نہ کر سکے۔ انہوں نے اوپر والے گاؤں میں پیغام بھیجا جہاں سے چار افراد مجھے اطلاع دینے آئے۔ پیغام بھیجنے کے نصف گھنٹے بعد زخمی عورت رینگتی ہوئی گھر آن پہنچی۔ اس نے بتایا کہ اس نے شیرنی کو اس وقت دیکھا جب وہ اس پر جست لگانے والی تھی۔ اسے بھاگنے کا کوئی موقع نہ ملا۔ اس نے کھیت سے نیچے چھلانگ لگائی اور شیرنی نے اسے ہوا میں ہی دبوچ لیا۔ دونوں اکھٹے نیچے گریں۔ اس کے بعد اسے ہوش نہ رہا۔ دوبارہ ہوش آیا تو دیکھا کہ وہ ندی کے پاس پڑی ہے۔ مدد کے لئے وہ کوئی آواز نہ نکال پائی اور مجبوراً گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل گھسٹتی ہوئی وہ گھر واپس آئی۔
ابھی یہ کہانی جاری ہی تھی کہ ہم اس کے دروازے تک آن پہنچے۔ لوگوں کو دروازے سے ہٹا کر میں نے عورت سے خون آلود چادر ہٹائی۔ لوگوں کو ہٹانے کی وجہ یہ تھی کہ کمرے میں روشنی کا واحد ذریعہ دروازہ ہی تھا۔ اس عورت کی حالت اتنی قابل رحم تھی کہ میں بتا نہیں سکتا۔ اگر میں سند یافتہ ماہر ڈاکٹر ہوتا اور میرے پاس جدید اوزار اور ادویات بھی ہوتیں تو بھی اس بدنصیب عورت کو بچایا نہ جا سکتا۔ کجا میں ایک عام آدمی تھا اور دوائی کے نام پر میرے پاس تھوڑی سی پوٹاشیم پر میگنیٹ تھی۔ شیرنی کے بڑے دانتوں سے اور پنجوں سے آنے والے گہرے زخم سر، چہرے، گردن اور جسم کے کئی حصوں پر تھے۔ اس گرم اور تاریک کمرے میں اب تک وہ زخم سڑنا شروع ہو گئے تھے۔ شکر ہے کہ وہ عورت بیچاری نیم بے ہوش تھی۔ اس کا باپ میرے ساتھ اندر آیا تھا۔ میں نے اس کی تسلی کے لئے پوٹاشیم پر میگنیٹ کے گاڑھے محلول اور رومال سے اس عورت کے زخم صاف کئے۔
اب کیمپ واپس جانے کا وقت نہ بچا تھا۔ رات گذرانے کے لئے مناسب جگہ کا انتظام بھی لازمی تھا۔ ندی سے ذرا اوپر جہاں عورتیں کپڑے دھو رہی تھیں، پیپل کا ایک بڑا درخت تھا۔ اس درخت کے گرد ایک فٹ اونچا چبوترا تھا جو گاؤں والوں کی مذہبی رسومات ادا کرنے کے کام آتا تھا۔
اس درخت کے نیچے میں نے کپڑے اتار کر غسل کیا۔ جب ہوا سے میرا بدن خشک ہو گیا تو میں نے کپڑے دوبارہ پہنے اور رائفل تیار حالت میں لئے شب بسری کے لئے تیار ہو گیا۔ میں مانتا ہوں کہ یہ کوئی اتنی اچھی یا محفوظ جگہ نہیں تھی لیکن گاؤں سے بہت بہتر تھی جہاں تاریک اور مکھیوں سے بھرے کمرے میں ایک زخمی عورت سانس لینے کے لئے کوشاں تھی۔
رات کو عورتوں کے بین سے علم ہوا کہ اس زخمی عورت کی مشکل حل ہو چکی ہے۔ اگلی صبح ادھر سے گذرتے ہوئے دیکھا کہ وہاں اس عورت کی آخری رسومات کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔
اس بدنصیب عورت اور ڈلکانیہ کی لڑکی کے واقعات سے یہ صاف ظاہر تھا کہ بوڑھی شیرنی کے شکار کا زیادہ تر دارومدار اس کی جوان بچی پر تھا۔ آدم خور کے حملے میں عموماً سو میں سے ایک آدمی بچتا ہے لیکن اس وقت آدم خور ہلاکتوں سے زیادہ گھائل کر رہی تھی۔ یہاں سے نزدیکی ہسپتال کوئی پچاس میل دور تھا۔ جب میں نینی تال لوٹا تو حکومت سے درخواست کی کہ آدم خور کے علاقے میں ہر گاؤں کے نمبردار کو جراثیم کش ادویات اور پٹیاں بھجوا دے۔ اگلے چکر پر میں نے دیکھا کہ میری درخواست قبول ہو گئی تھی اور جراثیم کش ادویات کے سبب بہت ساری جانیں بچ گئی تھیں۔
میں ڈلکانیہ مزید ایک ہفتہ رکا۔ اس کے بعد میں نے ہفتے کے روز اعلان کیا کہ میں پیر کے دن واپس جا رہا ہوں۔ اس آدم خور کے پیچھے میں ایک ماہ سے لگا ہوا تھا اور کھلی فضاء میں خیمے میں سونا، سارا دن میلوں بے تکان چلنا، ہر قدم کو آخری قدم سمجھنا میرے اعصاب پر اب بھاری پڑنا شروع ہو گیا تھا۔ گاؤں والے میرے جانے کی خبر سن کر بہت پریشان ہوئے۔ لیکن جب میں نے انہیں یقین دلایا کہ میں جلد ہی واپس لوٹ آؤں گا، انہوں نے مجھے روکنے کی کوشش نہ کی۔
اتوار کو ناشتے کے بعد ڈلکانیہ کا نمبردار میرے پاس آیا۔ اس نے درخواست کی کہ میں گاؤں والوں کے کھانے کے لئے کوئی جانور مار دوں۔ میں نے بخوشی آمادگی ظاہر کی۔ نصف گھنٹے بعد چار مقامی اور اپنے ایک ساتھی کو ساتھ لے کر نکلا۔ میرے پاس اعشاریہ ۲۷۵ کی رائفل تھی اور کارتوسوں کا ایک کلپ۔ ہم دریائے نندھور کی دوسری طرف سے آگے بڑھے جہاں کیمپ سے میں نے پہاڑی ڈھلوان پر بکثرت گڑھل چرتے دیکھے تھے۔
میرے ہمراہی دیہاتیوں میں ایک طویل القامت، جناتی جثے اور بگڑے چہرے والا ایک شخص تھا۔ وہ میرے کیمپ میں اکثر آتا تھا۔ چونکہ میں اس کے لئے اچھا سامع نکلا، اس نے مجھے اپنی کہانی اتنی بار سنائی کہ نیند میں بھی میں اسے دہرا سکتا ہوں۔ چار سال قبل اس کی مڈبھیڑ آدم خور سے ہوئی تھی۔ بقیہ کہانی اس کی زبانی سنیں:
صاحب، وہ سامنے چلغؤزے کا درخت دیکھ رہے ہیں؟ وہی جو پہاڑی کے سرے والی ڈھلوان کے نچلے کنارے پر ہے؟ جی، وہی چلغوزے کا درخت اور اس کے ساتھ وہ سفید بڑی چٹان۔ اسی ڈھلوان کے اوپری سرے پر آدم خور نے مجھ پر حملہ کیا تھا۔ یہ ڈھلوان مکان کی دیوار کی طرح سیدھی ہے۔ ہم پہاڑیوں کے سوا اس پر کوئی نہیں قدم جما سکتا۔ میرا بیٹا جو اس وقت آٹھ سال کا تھا، میرے ساتھ ہی گھاس کاٹنے آیا ہوا تھا۔ ہم گھاس کاٹ کر ان درختوں تک لے جاتے جہاں زمین ہموار ہے۔
میں اس چٹان کے سرے پر گھاس کو بڑے گٹھڑ کی شکل میں باندھ رہا تھا کہ شیرنی مجھ پر جھپٹی۔ اس کا ایک دانت میری دائیں آنکھ اور ایک میری تھوڑی کے نیچے جبکہ بقیہ دو گردن کے پیچھے گڑ گئے۔ شیرنی کے حملے اور اس کے منہ سے لگنے والی ٹکر سے میں نیچے گرا۔ شیرنی اور میں سینہ بہ سینہ تھے۔ اس کا پیٹ میری ٹانگوں کے درمیان تھا۔ نیچے گرتے ہوئے میں نے اپنے ہاتھ آزاد کئے اور اتفاق سے پیپل کا ایک چھوٹا درخت میرے ہاتھ آ گیا۔ جونہی میں نے اس درخت کو پکڑا، میرے ذہن میں خیال آیا۔ میری ٹانگیں آزاد تھیں اور انہیں سکیڑ کر میں شیرنی کے پیٹ سے ٹکا کر اسے دور پھینک کر بھاگ سکتا تھا۔ شیرنی کی گرفت سے میرے چہرے کے دائیں جانب کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں اور بے پناہ درد ہو رہا تھا۔ میں نے اپنے اوسان بحال رکھے۔ صاحب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جوانی میں میرا مقابل کوئی نہ تھا۔ آہستہ آہستہ اور شیرنی کو غصہ دلائے بغیر میں نے اپنے پاؤں اس کے پیٹ پر جما دیئے۔ بائیں ہاتھ کو اس کے سینے پر جما کر میں نے جو زور لگایا تو شیرنی کو اٹھا لیا۔ ہم اس وقت بالکل کنارے پر تھے۔ اگر میں نے درخت کو نہ پکڑا ہوا ہوتا تو ہم دونوں ہی نیچے گرتے۔ اس طرح شیرنی نیچے جا گری۔
میرا بیٹا اتنا گھبرا گیا تھا کہ وہ بھاگ بھی نہ سکا۔ جب شیرنی بھاگ گئی تو میں نے اس کی دھوتی اتاری اور اپنے چہرے اورمنہ کے گرد باندھ لی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر گاؤں لوٹا۔ گھر آ کر میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ میرے سارے دوستوں کو اکٹھا کرے۔ میں مرنے سے قبل ان کو ایک بار دیکھنا چاہتا تھا۔ جب میرے دوست جمع ہوئے اور انہوں نے میری حالت دیکھی تو مجھے چارپائی پر ڈال کر پچاس میل دور الموڑہ لے جانے کو تیار ہو گئے۔ میری مصیبت اور تکلیف بے انتہا تھی۔ میں چاہتا تھا کہ جہاں پلا بڑھا ہوں، وہیں مروں۔ میں پیاسا بھی تھا۔ انہوں نے پانی میرے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی لیکن وہ گردن کے سوراخوں سے بہہ گیا۔ میرے سر میں آگ سی لگی ہوئی تھی۔ بعد ازاں بہت عرصے تک بے حد تکلیف اور درد کے ساتھ میں موت کا انتظار کرتا رہا۔ موت تو نہ آئی لیکن ایک دن میں ٹھیک ہو گیا۔
صاحب، اب میں بوڑھا اور کمزور ہو چکا ہوں۔ میرے بال کھچڑی ہو گئے ہیں اور میرے چہرے پر کوئی شخص کراہت کے بغیر نہیں دیکھ سکتا۔ میری دشمن زندہ ہے اور مسلسل انسانوں کو ہلاک کر رہی ہے۔ آپ اسے شیر نہ سمجھیں۔ یہ ایک بد روح ہے جو کبھی کبھار شیر کے روپ میں ظاہر ہوتی ہے۔ صاحب، لوگ کہتے ہیں آپ سادھو ہیں۔ سادھوؤں کی حفاظت پر مامور روحیں بد روحوں سے زیادہ طاقتور ہوتی ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ تین دن جنگل میں رہ کر واپس آئے ہیں۔ جیسا کہ آپ کے آدمیوں نے کہا تھا، بالکل محفوظ اور زندہ سلامت لوٹے ہیں۔
اس شخص کے جناتی قد کاٹھ سے اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ جوانی میں وہ کس جسامت اور طاقت کا حامل ہوگا۔ اس طرح کی جناتی قوت کا حامل شخص شیرنی کو اٹھا کر، اپنے سر کو اس کی گرفت سے چھڑا کر نیچے پھینک سکتا ہے جبکہ اس کا آدھا چہرہ شیرنی کے منہ میں ہی رہ گیا تھا۔
اس شخص نے بطور کھوجی ساتھ چلنے کی پیش کش کی۔ اس کے پاس بہت خوبصورت اور پالش شدہ کلہاڑی تھی جس کا دستہ لمبا تھا۔ اس نے کندھے پر کلہاڑی رکھی اور ہمارے آگے چلتا ہوا ڈھلوان سے نیچے اترا۔ دریائے نندہ عبور کر کے ہم کئی کھیتوں سے گذرے جو آدم خور کی دہشت کے سبب ویران تھے۔ پہاڑی کے دامن میں پہنچ کر پتہ چلا کہ انتہائی سخت چڑھائی اور گھاس سے بھری ڈھلوانوں کا سامنا ہے۔ میرا یہ دیوزاد دوست بہت سخت جان تھا۔ میں جگہ جگہ رک کر قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتا رہا۔
جنگل سے نکل کر ہم سیدھا گھاس والی پہاڑی ڈھلوان کو ترچھے رخ سے عبور کرتے ہوئے پہاڑی کی طرف بڑھے۔ یہ تقریباً ہزار فٹ بلند تھی۔ اس پہاڑ پر جگہ جگہ چھوٹی چھوٹی گھاس تھی جہاں میں نے اپنے کیمپ سے گڑھل چرتے دیکھے تھے۔ ابھی ہم چند سو گز ہی بڑھے ہوں گے کہ گڑھل کھڈ سے نکلا اور اوپر کی طرف بھاگا۔ گولی لگتے ہی وہ نیچے گرا اور اسی جگہ گم ہو گیا جہاں سے نکلا تھا۔ گولی کی آواز سن کر ایک دوسرا گڑھل اچھلا اور سیدھا پہاڑ کی چوٹی کی طرف بھاگا جو انتہائی مشکل چڑھائی تھی۔ جونہی وہ اوپر کی طرف بڑھا، میں نے لیٹ کر رائفل کی شست کو دو سو گز پر درست کیا اور اس کے رکنے کا انتظار کرنے لگا۔ ابھری ہوئی چٹان کے پیچھے سے نکل کر وہ ہمیں دیکھنے کے لئے آگے بڑھا کہ میں نے اس پر گولی چلائی۔ وہ گولی لگتے ہی لڑکھڑایا اور پھر آہستہ آہستہ اوپر کی طرف چڑھنے لگا۔ دوسری گولی لگتے ہی وہ ہوا میں معلق ہوا اور پھر لڑھکتا ہوا نیچے بڑھا۔ ہم سے سو گز دور ہوتا ہوا وہ ڈیڑھ سو گز نیچے جا رکا۔
اس بار میں نے جو منظر دیکھا، وہ ایک بار پہلے بھی ایک تیندوے کے ساتھ دیکھ چکا تھا۔
ابھی گڑھل بمشکل رکا ہی تھا کہ کھڈ سے ایک بڑا ریچھ بھاگتا ہوا نکلا اور بغیر رکے یا ادھر ادھر دیکھے، مویشیوں کے چلنے والے راستے پر بڑھتا ہوا گڑھل کے پاس آ رکا۔ پھر بیٹھ کر اس نے گڑھل کو گود میں لے لیا۔ ابھی وہ اسے سونگھ ہی رہا تھا کہ میری گولی اسے لگی۔ شاید میں نے جلدی کی یا پھر شست کو درست فاصلے کے لئے نہ استعمال کیا تھا۔ گولی اسے سینے کی بجائے پیٹ میں لگی۔ ہم سب کو یوں لگا جیسے ریچھ یہ سمجھا ہو کہ گڑھل نے اسے ٹکر ماری ہے۔ وہ فوراً اٹھا اور گڑھل کو پھینک کر بھاگا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ غصے سے آوازیں بھی نکال رہا تھا۔ جب وہ ہم سے سو گز نیچے سے گذرا، میں نے اپنی پانچویں اور آخری گولی بھی اس پر چلا دی۔ بعد ازاں دیکھا تو علم ہوا کہ یہ گولی ریچھ کے جسم میں نیچے لگی اور گوشت سے ہوتی ہوئی گذر گئی۔
جتنی دیر میں میرے ساتھی دونوں گڑھلوں کو اٹھاتے، میں نے نیچے اتر کر خون کے نشانات کا جائزہ لیا۔ راستے پر خون کی بڑی مقدار دیکھ کر اندازہ ہوا کہ گولی کسی نازک جگہ لگی ہے۔ ریچھ عام صورتحال میں بھی کافی خطرناک ہوتا ہے اور زخمی ریچھ کا سامنا نہتے ہو کر کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
جب میرے ساتھی آن پہنچے تو ہم نے صلاح مشورہ کیا۔ کیمپ ساڑھے تین میل دور تھا۔ ابھی دت بج رہے تھے۔ یہ ناممکن تھا کہ ہم کیمپ جا کر مزید گولیاں لاتے اور پھر ریچھ کو تلاش کرتے اور اسے مار کر اندھیرا ہونے سے قبل کیمپ بھی پہنچ پاتے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ریچھ کا تعاقب کر کے اسے پتھروں اور کلہاڑی سے ہلاک کریں۔
پہاڑی کافی ڈھلوان تھی اور گھاس پھونس نہ ہونے کے برابر۔ ریچھ کے اوپر رہتے ہوئے ہمارے پاس موقع تھا کہ ہم اپنا کام کسی دشواری کے بغیر پورا کر لیتے۔ اس طرح ہم آگے بڑھے۔ میں آگے آگے اور پھر تین آدمی میرے پیچھے اور ان کے پیچھے وہ افراد جو اپنی کمر پر مردہ گڑھل اٹھائے ہوئے تھے۔ جہاں میں نے آخری گولی چلائی تھی، اس جگہ پہنچ کر خون کے مزید نشانات دیکھ کر ہمارا حوصلہ اور بلند ہوا۔ دو سو گز آگے جا کر خون کی لکیر ایک کھڈ میں مڑ گئی۔ یہاں میں اور کلہاڑی والا ساتھی ایک طرف جبکہ بقیہ تین افراد دوسری طرف ہو گئے۔ گڑھل اٹھانے والے افراد ہمارے پیچھے تھے۔ جب ہم دونوں طرف سے تیار ہو گئے تو ہم نے پہاڑی سے نیچے اترنا شروع کر دیا۔ ہم سے پچاس گز نیچے کھائی کی تہہ میں بانسوں کا ایک جھنڈ تھا۔ اس جھنڈ میں پتھر پھینکنے سے ریچھ کی چیخ سنائی دی۔ ہم چھ کے چھ افراد سر پر پیر رکھ کر اوپر کو بھاگے۔ میں اس طرح کی صورتحال کے لئے ظاہر ہے کہ تیار نہ تھا۔ مڑ کر دیکھا تو پتہ چلا کہ ریچھ ہماری مخالف سمت یعنی نیچے کی طرف بھاگ رہا ہے۔ میں نے چلا کر اپنے ساتھیوں کو صورتحال بتائی۔ پھر ہم نے رخ بدلا اور ریچھ کی طرف بھاگنے لگے۔ ہم میں سے چند ساتھیوں کے پتھر بھی ریچھ کو لگے۔ پتھر مارنے والے کا خوشی کا نعرہ اور ریچھ کی چیخ آئی۔ پھر اس کھائی میں ایک موڑ آیا۔ احتیاط کی وجہ سے ریچھ ہم سے آگے نکل گیا۔ خون کے نشانات کا پیچھا کرنا آسان تھا لیکن یہ پورا علاقہ بڑے بڑے پتھروں سے بھرا ہوا تھا اور ریچھ کسی بھی پتھر کے پیچھے چھپا ہوا ہو سکتا تھا۔ جتنی دیر میرے ساتھی آرام کرنے بیٹھے، میں نے کھائی کے ارد گرد کا جائزہ لیا۔ میرا ساتھی آگے بڑھا تاکہ کھائی میں جھانک سکے۔ میں اس پہاڑی کنگورے پر چڑھا جو کوئی دو سو فٹ نیچے تک دیوار کی طرح سیدھا تھا۔ درخت کو پکڑ کر میں نیچے جھکا تو دیکھا کہ چالیس فٹ نیچے ریچھ ایک غار نما کھڈ میں موجود ہے۔ تیس پاؤنڈ وزنی ایک پتھر اٹھا کر اتنا آگے بڑھا کہ خود میرے اپنے نیچے گرنے کا اندیشہ پیدا ہو گیا۔ دونوں ہاتھوں سے پتھر سر سے اونچا کر کے میں نے پھینکا۔
پتھر ریچھ کے سر سے چند انچ دور گرا۔ ریچھ ہڑبڑا کر اٹھا اور فرار ہو گیا۔ منٹ بھر بعد وہ پہاڑی کے سرے پر نکلا۔ ایک بار پھر تعاقب شروع ہو گیا۔ زمین مسطح اور نسبتاً خالی تھی۔ ہم چاروں افراد جو کہ خالی ہاتھ تھے، برابر بھاگ رہے تھے۔ میل بھر ہم لوگ پوری رفتار سے بھاگے ہوں گے کہ جنگل سے نکل کر کھیتوں تک آن پہنچے۔ بارش کے پانی سے یہاں کئی گہری کھائیاں بن چکی تھیں۔ انہی میں سے ایک میں ریچھ چھپا ہوا تھا۔ ہم نے اپنے بگڑے چہرے والا ساتھی جو کہ کلہاڑی سے مسلح تھا، کو ریچھ مارنے کے لئے چنا۔ بڑی احتیاط سے وہ ریچھ تک پہنچا اور اپنی خوبصورت کلہاڑی گھا کر اس نے سیدھی ریچھ کے سر پر ماری۔ نتیجہ ہماری توقعات کے بالکل الٹ نکلا۔ کلہاڑی کا پھل ریچھ کے سر سے ٹکرا کر اس طرح پلٹا جیسے وہ کسی ربر سے ٹکرایا ہو۔ غصے سے چیخ کر ریچھ اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہوا۔ ہم لوگ بھاگنے کی کوشش میں ایک دوسرے سے الجھ کر گرے۔ خوش قسمتی سے ریچھ نے ہمارا پیچھا نہ کیا۔
بظاہر ریچھ کو یہ کھلا علاقہ پسند نہ آیا تھا اور تھوڑی دور جا کر وہ پھر اوٹ میں ہو گیا۔ اس بار کلہاڑی کے استعمال کی باری میری تھی۔ تاہم ریچھ ایک بار کلہاڑی کا اوچھا وار سہہ چکا تھا، میری بو محسوس کر کے محتاط ہو گیا۔ بڑی محنت کے بعد میں اس قابل ہوا کہ ریچھ پر وار کر سکوں۔ بچپن میں میرا خواب تھا کہ میں کینیڈا میں جا کر لکڑہارا بنوں۔ اس لئے میں نے اتنی مہارت حاصل کر لی تھی کہ کلہاڑی سے ماچس کی تیلی چیر سکتا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے یہ ڈر بھی نہ تھا کہ اگر وار خطا ہوا تو کلہاڑی پتھروں سے ٹکرا کر خراب ہو جائے گی۔ جونہی میں ریچھ سے نزدیک ہوا، میں نے کلہاڑی کا پورا پھل ریچھ کے سر میں گاڑ دیا۔
ہمارے پہاڑوں میں ریچھ کی کھال بیش قیمت سمجھی جاتی ہے۔ میں نے جب کلہاڑی کے مالک سے کہا کہ وہ گڑھل کا دگنا گوشت اور ریچھ کی کھال بھی لے سکتا ہے تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ گاؤں سے کئی بندے اب ادھر پہنچ چکے تھے۔ وہ لوگ گوشت بانٹنے اور ریچھ کی کھال اتارنے میں مشغول ہو گئے اور میں اوپر چڑھ کر گاؤں میں اس زخمی لڑکی سے آخری ملاقات کرنے چلا گیا جو میں پہلے بتا چکا ہوں۔ دن بہت تھکا دینے والا تھا۔ اگر اس رات آدم خور میرے خیمے پر حملہ کرتی تو مجھے با آسانی نیند میں ہی ہڑپ کر جاتی۔
ڈلکانیہ سے آتے ہوئے راستے میں بہت ساری ننگی پہاڑیاں آتی ہیں اور جب میں نے اس مشکل راستے کا ذکر گاؤں والوں سے کیا تو وہ بولے کہ میں ہیرا خان کی طرف سے واپس جاؤں۔ اس کے لئے مجھے اس گاؤں کے پیچھے پہاڑ پر چڑھنا ہوتا اور باقی سارا راستہ اترائی ہی اترائی تھی۔ رانی باغ سے میں بذریعہ کار نینی تال پہنچ سکتا تھا۔
میں نے اپنے آدمیوں سے کہہ دیا تھا کہ وہ اگلی صبح روانگی کے لئے تیار رہیں۔ سورج نکلنے سے ذرا قبل میں انہیں سامان وغیرہ باندھتا چھوڑ کر آگے بڑھ گیا تاکہ میں جب تک ڈلکانیہ کے لوگوں کو الوداع کہہ لوں، میرے ساتھی مجھے آن ملیں۔ پھر میں نے دو میل کی چڑھائی شروع کی۔ جو پگڈنڈی میں نے چنی تھی، وہ نہ تھی جس سے ہم لوگ آئے تھے۔ بلکہ یہ راستہ دیہاتی بازاروں وغیرہ کو آنے جانے کے لئے استعمال کرتے تھے۔
راستہ گہری کھائیوں سے ہو کر گذرتا تھا اور گھنے جنگل، جھاڑیاں وغیرہ بھی راستے میں آتے تھے۔ ایک ہفتے سے شیرنی کی کوئی خیر خبر نہ تھی۔ اس غیر موجودگی کی بنا پر میں زیادہ محتاط ہو چلا تھا۔ کیمپ سے نکلنے کے گھنٹے بھر بعد میں پہاڑ کے اوپری سرے تک بغیر کسی دقت کے پہنچ گیا۔ یہ جگہ بنجر تھی اور چوٹی کے پاس۔ فارسٹ روڈ یہاں سے سو گز دور سے گذرتی تھی۔ یہ بنجر قطعہ ناشپاتی کی شکل جیسا تھا۔ اندازاً سو گز لمبا اور پچاس گز چوڑا۔ اس کے درمیان میں بارش کے پانی کا ایک چھوٹا سا تالاب تھا۔ سانبھر وغیرہ یہاں سے پانی پیتے تھے۔ اس پر پگ دیکھنے کے خیال سے میں راستے سے مڑ کر اس طرف آیا جو راستہ اس قطعے سے بائیں ہو کر گذرتا تھا اور ایک ایسی چٹان کے نیچے سے گذرتا تھا جو راستے پر سائبان کی طرح معلق تھی۔ جونہی میں اس تالاب پر پہنچا، میں نے شیرنی کے بالکل تازہ پگ نرم زمین پر ثبت دیکھے۔ وہ اسی طرف سے تالاب پر آئی تھی جہاں سے میں ابھی آیا۔ میری وجہ سے وہ یہاں سے تالاب کو عبور کر کے دائیں طرف کے گھنے جنگل میں گھس گئی۔ اگر میں سامنے کی طرف بھی اتنا ہی محتاط ہوتا جتنا کہ عقب کی طرف سے تھا، یقیناً میں شیرنی کو پہلے دیکھ لیتا۔ سنہری موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ تاہم اگرچہ یہ موقع تو ضائع ہوا لیکن پھر بھی صورتحال میرے حق میں تھی۔
اگر شیرنی مجھے نہ دیکھتی تو تالاب عبور کر کے جنگل میں چھپنے کے لئے ہرگز جلدی نہ کرتی۔ اس کے پگوں سے اس کی رفتار ظاہر ہو رہی تھی۔ اس نے چھپ کر مجھے دیکھا تھا کہ میں اکیلا ہوں اور اس کی طرح پانی بھی پینے آؤں گا۔ اس مقام تک میری حرکات قطعی عام سی تھیں۔ اگر میں اسی طرح رویہ اختیار کرتا کہ جیسے مجھے شیرنی کی موجودگی کا علم نہیں، ہو سکتا ہے کہ مجھے دوبارہ موقع ملتا۔ پنجوں کے بل بیٹھتے ہوئے میں نے ہیٹ کے نچلے گوشے سے ہر طرف گہری نظر رکھی۔ کئی بار کھانسا، پانی کو اچھالتا رہا اور پھر بہت آہستگی سے خشک لکڑیاں چننے لگا۔ میرا رخ اب اس عمودی چٹان کی طرف تھا۔ یہاں میں نے مختصر سی آگ جلائی اور چٹان سے ٹیک لگا کر سیگرٹ سلگا لی۔ جب سیگرٹ پی چکا اور آگ بھی ختم ہو گئی تو میں لیٹ گیا۔ بائیں ہاتھ سے تکیہ بنایا اور رائفل کی لبلبی پر ہاتھ رکھے اسے بھی سامنے رکھ لیا۔
میرے عقب میں موجود چٹان بہت عمودی تھی اور اس پر کوئی بھی جانور نہ چڑھ سکتا تھا۔ میرے سامنے کم از کم بیس گز تک جھاڑ جھنکار وغیرہ سے پاک زمین تھی۔ میں نسبتاً محفوظ تھا۔ اس دوران میں نے نہ تو کچھ دیکھا اور نہ ہی کچھ سنا لیکن پھر بھی مجھے علم ہو گیا کہ شیرنی مجھے دیکھ رہی ہے۔ میرے ہیٹ کا کنارہ اگرچہ میری آنکھوں پر جھکا ہوا تھا لیکن میری نظروں کے سامنے کسی قسم کی رکاوٹ نہ بن رہا تھا۔ میں نے سامنے موجود جنگل کا انچ انچ چھانا۔ ہلکی سی ہوا بھی نہ چل رہی تھی اور نہ ہی گھاس کا کوئی تنکا تک ہلا۔ میرا اندازہ تھا کہ شیرنی اب اس وقفے میں اپنی جگہ سے نکل کر یا تو گھات لگائے گی یا پھر براہ راست ہلہ بول دے گی۔
بعض اوقات وقت نہیں گذر پاتا اور بعض اوقات اسے پر لگ جاتے ہیں۔ سر کے نیچے بائیاں ہاتھ کافی دیر پہلے سن ہو چکا تھا۔ پر بھی نیچے وادی سے میرے آدمیوں کی گانے کی آواز بہت جلد ہی ادھر آن پہنچی۔ آواز اونچی ہوتی چلی گئی اور پھر میں نے موڑ پر اپنے ساتھیوں کو آتا دیکھا۔ شاید اسی جگہ پر شیرنی نے مجھے دیکھا تھا اور پانی پی کر فرار ہو گئی تھی۔ ایک اور ناکامی اور اس دورے کا آخری موقع بھی ہاتھ سے نکل گیا۔
جب میرے ساتھی آرام کر چکے تو ہم سڑک پر چڑھے اور فارسٹ روڈ کی مدد سے ہیرا خان کی طرف کا بائیس میل کا سفر شروع ہوا۔ دو سو گز آگے جا کر سڑک کھلے قطعے سے اچانک گھنے جنگل میں مڑ گئی۔ یہاں میں نے اپنے ساتھیوں کو آگے چلنے کا کہا اور خود عقب سنبھالا۔ دو میل اسی طرح چل کر ہم نے موڑ پر ایک شخص کو بیٹھے دیکھا جو اپنی بھینسوں کی نگرانی کر رہا تھا۔
ناشتے کا وقت ہو چکا تھا۔ میں نے اس آدمی سے پوچھا کہ پانی کہاں سے ملے گا۔ اس نے سیدھا نیچے کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ وہاں ایک چشمہ موجود ہے جہاں سے گاؤں والے پانی بھرتے ہیں۔ تاہم اگر ہم سیدھا چلتے جائیں تو تھوڑا آگے جا کر ایک چشمہ سڑک ہی سے گذرتا ہے۔
لوہالی گاؤں وادی کے اوپری سرے پر واقع تھا جہاں گذشتہ ہفتے شیرنی نے عورت کو ہلاک کیا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس دن کے بعد سے شیرنی کی کوئی اطلاع نہیں۔ اس نے بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ شیرنی اب ضلع کے دوسرے سرے پر ہو۔ میں نے اس بات کی تردید کی اور اسے ان تازہ پگوں کے بارے بتایا جو میں نے کچھ دیر قبل دیکھے تھے۔ میں نے اسے کہا کہ وہ بھینسوں کو اکٹھا کر کے گاؤں چلا جائے۔ اس کی دس بھینسیں تھیں جو اب سڑک کی طرف چر رہی تھیں۔ اس نے کہا کہ جہاں وہ بیٹھا ہے، جونہی بھینیسں اس جگہ کو چر لیں، وہ انہیں لے کر چلا جائے گا۔ میں نے اسے ایک سیگرٹ دی اور تنبیہہ کر کے چل پڑا۔ اس کے بعد کیا ہوا، مجھے اس کے گاؤں والوں نے کئی ماہ بعد میرے اگلے چکر پر بتایا۔
اس دن جب وہ آدمی گھر پہنچا تو اس نے جمع شدہ لوگوں کو بتایا کہ کس طرح وہ مجھ سے ملا تھا اور میری تنبیہہ کے بارے بھی بتایا۔ اس نے مجھے موڑ مڑ کر اوجھل ہوتے دیکھا تو وہ سیگرٹ جلانے لگا۔ ہوا چل رہی تھی اور ماچس کی تیلی کو بجھنے سے بچانے کے لئے وہ جھکا۔ ابھی دوبارہ سیدھا نہ ہوا تھا کہ کسی نے اسے دائیں کندھے سے پکڑ کر پیچھے کو کھینچا۔ اس کے ذہن میں فوراً ہی ہمارا خیال آیا۔ بدقسمتی سے ہم اس کی چیخ نہ سن سکے۔ تاہم مدد زیادہ دور نہ تھی۔ اس کی چیخ سنتے ہی اس کی بھینسیں جمع ہو کر شیرنی کی طرف بڑھیں اور اسے بھگا دیا۔ اس کا کندھا اور بازو ٹوٹ چکے تھے۔ بمشکل وہ اپنی ایک بھینس پر سوار ہوا اور بقیہ بھینسوں کے گھیرے میں گاؤں پہنچا۔ اس کے گاؤں والوں نے اس کے زخم باندھ کر اسے بغیر رکے اٹھا کر تیس میل دور ہلدوانی ہسپتال پہنچایا جہاں وہ داخلے کے کچھ دیر بعد مر گیا۔
قدرت بعض اوقات سامنے آنے والی زندگی کی ڈور چھوڑ کر دوسری کاٹ دیتی ہے۔ کس ڈور کو کٹنا چاہیئے اور کس کو نہیں، اس کی ذمہ داری ہم قسمت، نصیب یا جو چاہے کہہ لیں، پر ڈال دیتے ہیں۔
ایک ماہ تک میں کھلے میدان میں انسانوں سے کم از کم سو گز دور خیمے میں سوتا رہا۔ صبح سے شام تک جنگلوں میں پھرتا رہا، کئی بار عورت کا بھیس بھی بدلا اور ان جگہوں پر گھاس کاٹی جہاں کوئی انسان جانے کی ہمت نہ کرتا تھا۔ اس دوران شیرنی نے مجھے ہضم کرنے کے کئی نادر مواقع ضائع کئے۔ آخری موقع پر قسمت نے میری بجائے اس بدقسمت شخص کو شیرنی کے سامنے پیش کر دیا۔

(۲)
فروری میں میں ڈلکانیہ لوٹا۔ بہت سارے آدمی مارے جا چکے تھے اور ان سے بھی کہیں زیادہ گھائل ہوئے تھے۔ چونکہ شیرنی کے بارے ابھی کوئی تازہ اطلاع نہ تھی، ہر جگہ اس کی موجودگی کے یکساں امکانات تھے۔ میں نے اس جگہ ہی کیمپ لگانے کا سوچا جس جگہ سے میں زیادہ واقف تھا۔
ڈلکانیہ پہنچتے ہی مجھے اطلاع ملی کہ جہاں ہم پچھلی مرتبہ ریچھ کا شکار کیا تھا، اس جگہ ایک گائے ماری گئی ہے۔ جو آدمی گایوں کی دیکھ بھال کر رہا تھا، اسے یقین تھا کہ یہ کام شیرنی کا ہی ہے۔ اب اس گائے کی لاش ایک غیر آباد کھیت کے کنارے موجود ہے اور اس جگہ سے صاف دکھائی دے رہی ہے جہاں میرا خیمہ لگنے والا ہے۔ گدھ اس جگہ بار بار چکر لگا رہے تھے اور دور بین سے دیکھنے پر میں نے بہت سارے گدھوں کو اس درخت پر بیٹھے دیکھا جو لاش کے بائیں جانب تھا۔ چونکہ لاش کھلی فضاء میں تھی اور گدھ نیچے نہ اترے تھے، میں نے یہ نتائج نکالے:
۱۔ گائے کو تیندوے نے مارا ہے
۲۔ تینداو شکار کے پاس ہی چھپا ہوا ہے
اس لاش والے کھیت سے نچلا کھیت کافی ڈھلوان اور جھاڑ جھنکار سے بھرپور تھا۔ آدم خور ابھی زندہ تھی اس لئے اس جگہ سے پیش قدمی کرنا مناسب نہ تھا۔
دائیں طرف گھاس سے بھری ہوئی ڈھلوان تھی لیکن علاقہ کھلا تھا اور دکھائی دیئے بغیر میرا ادھر سے جانا ممکن نہ تھا۔ پہاڑ سے ایک گہری اور درختوں سے بھری ہوئی کھائی شروع ہو کر دریائے نندھور کو جاتی تھی۔ راستے میں یہ کھائی لاش کے قریب سے گذرتی تھی۔ وہ درخت جو کھائی کے کنارے پر تھا، اب گدھوں کے بوجھ سے جھکا ہوا تھا۔ میں نے کھائی سے ہی آگے بڑھنے کا سوچا۔ جتنی دیر میں میں اس علاقے سے بخوبی واقف دیہاتیوں سے پیش قدمی کا پروگرام بنا رہا تھا کہ میرے ملازمین نے چائے تیار کر دی۔ دن ڈھل رہا تھا۔ اگر میں عجلت کرتا تو اس جگہ کا جائزہ لے کر اندھیرا ہونے سے پہلے واپس آ سکتا تھا۔
نکلنے سے قبل میں نے اپنے آدمیوں سے خبردار رہنے کا کہا۔ یہ بھی کہا کہ اگر وہ گولی چلنے کے بعد مجھے اس جگہ دیکھیں تو تین چار بندے سیدھے اس کھلے علاقے سے ہو کر میری طرف آئیں۔ اگر گولی نہ چلتی اور صبح تک میں واپس نہ آتا تو میری تلاش شروع کرتے۔
کھائی رس بھری کی جھاڑیوں سے پٹی پڑی تھی۔ ہوا پہاڑی سے نیچے کی طرف آ رہی تھی اور میں بہت آہستگی سے بڑھ رہا تھا۔ سخت چڑھائی کے بعد میں گدھوں کے درخت تک پہنچ گیا۔ یہاں آ کر پتہ چلا کہ لاش یہاں سے دکھائی نہیں دیتی۔ دوربین سے دیکھنے پر یہ جگہ ہموار دکھائی دی تھی لیکن نزدیک آ کر پتہ چلا کہ یہ ہلالی شکل میں ہے اور درمیان میں کم از کم دس گز چوڑی اور سروں پر پتلی ہے۔ اس کا بیرونی کنارہ گھنی جھاڑیوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس کے اندورنی سرے پر پہاڑی تیزی سے نیچی ہوتی جاتی تھی۔ یہاں سے دو تہائی جگہ تو دکھائی دے رہی تھی۔ بقیہ ایک تہائی جہاں گائے کی لاش تھی، دیکھنے کے لئے مجھے یا تو دور سے لمبا چکر لگانا پڑتا یا پھر گدھوں والے درخت پر چڑھتا۔
میں نے سوچا کہ درخت پر چڑھتا ہوں۔ میرے اندازے سے گائے بیس گز دور تھی۔ یہ بھی عین ممکن تھا کہ تیندوا اس سے بھی کم فاصلے پر ہوتا۔ اگر گدھ اس درخت پر نہ ہوتے تو میں تیندوے کو خبردار کئے بناء اس پر نہ چڑھ پاتا۔ درخت پر بیس کے قریب گدھ جمع تھے اور ان کی تعداد وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی تھی۔ چونکہ اوپری شاخوں پر جگہ کم پڑ رہی تھی، اس لئے پروں کی پھڑپھڑاہٹ اور لڑائی میں شدت آتی جا رہی تھی۔ درخت پہاڑ سے باہر کی طرف جھکا ہوا تھا اور کھائی کے اوپر ایک شاخ زمین سے دس فٹ کی بلندی پر پھیلی ہوئی تھی۔ رائفل اٹھائے میں احتیاط سے اس شاخ تک پہنچا۔ جونہی گدھوں نے دوبارہ لڑائی شروع کی، میں اس شاخ پر چڑھ گیا۔ اس جگہ غلط قدم یا پیر پھسلنے کا مطلب سو فٹ نیچے چٹانوں پر گرنا تھا۔ میں ایک دوشاخے پر پہنچ کر بیٹھ گیا۔
گائے کی لاش اب صاف دکھائی دے رہی تھی۔ اس سے چند لقمے ہی کھائے گئے تھے۔ دس منٹ میں اسی جگہ پر رکا کیونکہ میری نشست کافی آرام دہ تھی۔ میں نے دو گدھ اس جگہ اترتے ہوئے دیکھے کہ شاید ان کے لئے درخت پر ناکافی جگہ تھی۔ ابھی وہ بمشکل رکے ہی ہوں گے کہ دوبارہ اڑے۔ اسی وقت میری طرف کی جھاڑیاں ہلیں اور اس سے ایک عمدہ نر تیندوا نکل کر باہر آیا۔
وہ افراد جنہوں نے تیندوے کو قدرتی ماحول میں نہیں دیکھا، وہ اس کی حرکات و سکنات میں موجود شان و شوکت، کھال کی خوبصورتی اور ہندوستانی جنگلوں کے اس خوبصورت ترین جانور کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ اس کی جسامت اور وزن کے حساب سے اس کی طاقت کا کوئی مقابل نہیں۔ نڈر پن میں اس کا دور دور تک کوئی ثانی نہیں۔ اس جانور کو حقیر حشرات الارض کے برابر سمجھنا ایک ایسا جرم ہے جو انہی لوگوں سے سرزد ہوتا ہے جنہوں میں چڑیا گھر میں فاقہ زدہ اور قابل رحم تیندوے کو ہی دیکھتے ہیں۔ یہ جانور اپنی خوبصورتی کے باوجود مویشی خور ہو کر اپنی قسمت پر خود ہی مہر لگا چکا تھا۔ پچھلے چکر میں میں نے ڈلکانیہ کے باشندوں سے سے وعدہ کیا تھا اگر موقع ملا تو اس تیندوے کو ٹھکانے لگا دوں گا۔ اب وہ موقع میرے سامنے تھا۔ میرا خیال ہے کہ تیندوے نے اس گولی کی آواز بھی سنی ہوگی جس سے اس کی موت ہوئی۔
ہماری زندگی میں بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی کوئی وجہ پتہ نہیں چلتی۔ جس گائے کی لاش پر میں نے تیندوے کو مارا، اس کے مالک ہی کے بارے سوچیں۔ یہ آٹھ سالہ لڑکا تھا اور اپنے والدین کی اکلوتی اولاد۔ دو سال قبل اس کی ماں کو اسی گائے کے لئے چارہ کاٹتے ہوئے آدم خور نے ہلاک کیا تھا۔ بارہ ماہ بعد اس کے باپ کا یہی حشر ہوا۔ گھر کے چند برتن جو تھے وہ باپ کے قرض چکانے میں لگ گئے۔ اس لڑکے نے اپنی زندگی کا آغاز گائے کے مالک کے طور پر کیا۔ اس تیندوے نے اس گاؤں کی دو یا تین سو گایوں کو چھوڑ کر صرف اسی کی گائے کو چنا (مجھے ڈر ہے کہ میں نے جو لال رنگ کی بہترین نسل کی بہترین گائے اسے دی، سے اس کی تشفی نہ ہو پائی۔ اس گائے سے اس لڑکی کی پوری زندگی وابستہ تھی۔)۔
میرے نوجوان بھینسے جو میں پچھلے چکر پر ایک دیہاتی کی نگرانی میں دے کر گیا تھا، نے ان کا خوب خیال رکھا تھا۔ اپنی آمد کے اگلے دن میں نے انہیں باندھنا شروع کر دیا۔ آدم خور کی طرف سے موہوم سی امید تھی کہ وہ انہیں ہلاک کرے۔
وادی نندھور سے پانچ میل نیچے ایک بڑی چٹان کی جڑ میں ایک ہزار فٹ کی بلندی پر ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ آدم خور نے سابقہ چند مہینوں میں اس جگہ سے چار افراد ہلاک کئے تھے۔ تیندوے کی ہلاکت کے بعد اسی گاؤں سے چند اشخاص آئے کہ میں اپنا کیمپ ان کے گاؤں کے پاس لگاؤں۔ انہوں نے بتایا کہ آدم خور اس بڑی چٹان پر اکثر دکھائی دیتی ہے اور غالب امکان ہے کہ وہ اسی جگہ کسی غار میں رہتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسی صبح چند عورتوں نے گھاس کاٹتے وقت شیرنی کو دیکھا تھا۔ اب گاؤں والے انتہائی دہشت زدہ تھے اور گھر سے نکلنا دوبھر ہو چکا تھا۔ ان سے ہر ممکن مدد کا وعدہ کر کے اگلی صبح میں گاؤں کی مخالف سمت سے پہاڑی پر چڑھا اور دوربین سے اس پوری چٹان کا جائزہ ڈیڑھ گھنٹے تک لیتا رہا۔ پھر میں نے وادی عبور کی اور گہری کھائی کی مدد سے اوپر گاؤں پر موجود چٹان پر چڑھا۔ یہاں راستہ بہت مشکل اور میری امید کے خلاف تھا۔ اس میں نیچے گرنے کا بھی اندیشہ تھا جو براہ راست گردن ٹوٹنے پر ہی منتج ہوتا۔ اس جگہ اپنا دفاع کرنا بھی ممکن نہ تھا۔
دو بجے تک میں نے ہر وہ جگہ دیکھ لی جس کی مجھے ضرورت پڑ سکتی تھی اور کیمپ کا رخ کر چکا تھا تاکہ جا کر ناشتہ کر سکوں۔ ایک بار مڑ کر دیکھنے پر پتہ چلا کہ دو آدمی میری طرف بھاگتے ہوئے آ رہے ہیں۔ ان سے ملا تو انہوں نے بتایا کہ اسی صبح شیرنی نے اس کھائی میں ایک بیل ہلاک کیا ہے۔ یہ وہی کھائی تھی جہاں سے میں صبح کو اوپر گیا تھا۔ ایک آدمی سے یہ کہہ کر کہ وہ میرے کیمپ جا کر میرے ملازمین کو کھانا اور چائے بھیجنے کا کہے، میں دوسرے آدمی کے ساتھ الٹے قدموں وادی کی جانب مڑا۔
یہ کھائی دو سو فٹ گہری اور سو فٹ چوڑی تھی۔ نزدیک پہنچے تو گدھ اڑنے لگ گئے۔ افسوس کہ گدھوں نے کھال اور ہڈیوں کے سوا سب کچھ ہڑپ کر لیا تھا۔ ان ہڈیوں سے گاؤں بمشکل سو گز ہی دور تھا لیکن چٹان ناقابل عبور تھی۔ میرا رہنما مجھے کھائی میں چوتھائی میل نیچے لے گیا جہاں مویشیوں کی پگ ڈنڈی گذرتی تھی۔ بلند ہو کر یہ راستہ گھنے جنگلوں سے بار بار گذرتا ہوا آخر کار گاؤں جا ختم ہوتا تھا۔ گاؤں پہنچ کر میں نے نمبردار سے کہا کہ گدھوں نے بیل کی لاش کو ختم کر دیا ہے اور یہ بھی وہ ایک نو عمر بھینسا اور ایک چھوٹی مگر مضبوط رسی مہیا کرے۔ جتنی دیر میں یہ چیزیں ملتیں، میرے دو آدمی کھانا اور چائے لے کر دوسرے دیہاتی کے ہمراہ پہنچ گئے۔
جب میں اس کھائی میں داخل ہوا تو سورج ڈوبنے والا تھا۔ میرے پیچھے کئی آدمی تھے جو ایک جوان اور قوی الجثہ بھینسے کو لا رہے تھے۔ یہ بھینسا نمبردار نے میرے لئے نزدیکی گاؤں سے خریدا تھا۔ جہاں بیل ہلاک ہوا تھا، سے پچاس گز دور چلغوزے کا ایک درخت پہاڑ سے اکھڑ کر نیچے گرا تھا اور اس کا ایک سرا کھائی کی زمین میں دفن تھا۔ بھینسے کو اس درخت سے باندھ کر سارے افراد واپس چلے گئے۔ اس علاقے میں اس درخت نہیں تھے۔ میری نشست کی ممکنہ جگہ اس کھڈ میں گاؤں والے کنارے پر موجود ایک دراڑ تھی۔ بہت مشکل کے ساتھ میں اس دراڑ تک پہنچا جو دو فٹ چوڑی اور پانچ فٹ لمبی تھی۔ کھائی کی تہہ یہاں سے بیس فٹ نیچے تھے۔ دراڑ نیچے جا کر کچھ اس طرح کی ہو گئی تھی مجھے وہ حصہ دکھائی نہ دیتا تھا۔ دوسرا دراڑ کچھ اس زاویے پر تھی کہ جب میں اس میں بیٹھتا تو شیرنی کی متوقع آمد میرے عقب سے ہوتی جبکہ بھینسا میرے سامنے تیس گز دور تھا۔
ابھی سورج ڈوبا ہی تھا کہ بھینسا اچانک ہڑبڑا کر کھڑا ہو گیا۔ اس کا رخ دراڑ کی طرف تھا۔ اسی وقت ایک پتھر لڑھکتا ہوا نیچے آیا۔ جس طرف سے آواز آئی تھی، اس طرف گولی چلانا ممکن نہ تھا۔ دیکھے جانے کے ڈر سے میں بالکل چپ چاپ اور ساکت ہو کر بیٹھا رہا۔ کچھ دیر بعد بھینسے کا رخ آہستہ آہستہ بائیں جانب میری طرف ہوا۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ جس چیز سے خوف زدہ ہے، وہ میرے بالکل نیچے ہے۔ پھر شیر کا سر میرے نیچے سے نکلا۔ شیر کے سر پر گولی چلانا صرف انتہائی ہنگامی حالت میں ہی بہتر ہے۔ دوسرا اس وقت میری ہلکی سی بھی حرکت شیر کو میری جگہ سے با خبر کر دیتی۔ ایک یا دو منٹ تک یہ سر بالکل ساکت رہا پھر اچانک ہی یہ آگے بڑھا۔ ایک ہی چھلانگ میں شیر بھینسے پر تھا۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، بھینسا شیر کی طرف رخ کئے ہوئے تھا۔ شیر ایک ہی چھلانگ میں بھینسے پر تھا۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، بھینسا شیر کی طرف رخ کئے ہوئے تھا۔ شیر اس تیز رفتاری سے بھینسے کے پہلو میں پہنچا اور ایک ہی چھلانگ میں اسے زاویہ قائمہ پر جا لیا۔ سامنے سے نہ جانے کی وجہ سینگوں سے زخمی ہونے کا ڈر تھا۔ نہ تو دانت جمانے کے لئے شیر کو کوشش کرنا پڑی اور نہ ہی کوئی جد و جہد۔ دو بھاری جسموں کے ٹکراؤ کی آواز آئی اور بس۔ اب شیر بھینسے پر لیٹا ہوا اس کے گلے کو دبوچے ہوئے تھا۔ عام خیال کیا جاتا ہے کہ شیر گردن توڑ کر جانور کو مارتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ شیر دانتوں سے مارتے ہیں۔
شیر کا دائیاں پہلو میری طرف تھا۔ اپنی اعشاریہ ۲۷۵ کی رائفل سے میں نے احتیاط سے نشانہ لیا اور گولی چلا دی۔ بھینسے کو چھوڑ کر شیر بغیر کوئی آواز نکالے جست لگا کر یہ جا وہ جا۔ یقیناً شیر کو گولی نہیں لگی۔ بظاہر اس کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی کہ نشانہ کیوں خطا ہوا۔ اگر شیر نے مجھے نہیں دیکھا یا رائفل کا شعلہ اسے نہیں دکھائی دیا تو ہو سکتا ہے کہ وہ پلٹے۔ اس لئے رائفل کو دوبارہ بھر کر میں تیار ہو بیٹھا۔
شیر کے فرار کے بعد بھینسا بالکل ہی ساکت رہا۔ مجھے خیال ہوا کہ شاید گولی شیر کی بجائے بھینسے کو لگی ہے۔ دس یا پندرہ منٹ بہت طویل ہو کر گذرے۔ اس کے بعد شیر کا سر دوبارہ اسی جگہ میرے نیچے سے نمودار ہوا۔ پھر وقفہ، پھر شیر آہستہ آہستہ سامنے آیا۔ بھیہنسے کے پاس جا کر وہ رکا اور اس نے بھینسے کو دیکھنا شروع کیا۔ شیر کا پورا جسم اس جگہ سے میرے سامنے تھا۔ دوسری بار مجھ سے وہی غلطی نہ ہوتی۔ اس بار میں نے بہت احتیاط سے نشانہ لیا اور گولی چلائی۔ میری توقع کے بالکل الٹ، شیر گرنے کی بجائے جست لگا کر بائیں جانب عمودی ڈھلوان پر چڑھ گیا اور پتھر نیچے لڑھکنے لگے۔
تیس گز کے فاصلے سے اور نسبتاً بہتر روشنی میں شیر پر چلائی گئی دو گولیاں جو میلوں دور تک دیہاتوں میں سنی گئی ہوں گی، اور میرے سامنے بھینسے کی لاش تھی جس پر ایک یا دو گولیوں کے سوراخ ہوں گے۔ یقیناً میری نظر میں فرق آ گیا تھا۔ یا چڑھائی میں رائفل کے دیدبان ہل گئے تھے۔ لیکن چھوٹی چھوٹی اشیاء پر نگاہ جمانے سے بصارت کی کمزوری نہ نکلی۔ رائفل کے دیدبان بھی بظاہر ٹھیک تھے۔ واحد امکان یہی تھا کہ میرا نشانہ خراب تھا۔
شیرنی کی تیسری بار آمد کا کوئی امکان نہ تھا۔ اگر وہ آتی بھی تو اتنی کم روشنی میں گولی چلانا یا اسے زخمی کرنا بیکار ہوتا جبکہ بہتر روشنی میں میں اس پر دو گولیاں ضائع کر چکا تھا۔ اب میرا یہاں رکنا بے کار تھا۔
سارے دن کی مشقت سے میرے کپڑے ابھی تک گیلے تھے اور بتدریج ٹھنڈی ہوتی ہوا مزید ٹھنڈی ہوتی جا رہی تھی۔ میری نیکر پتلے خاکی کپڑے کی تھی اور چٹان سخت اور ٹھنڈی۔ گاؤں میں چائے کا گرم گرم کپ میرا منتظر تھا۔ یہ تمام وجوہات چاہے جتنی عمدہ ہی کیوں نہ ہوں، مجھے آدم خور کی وجہ سے ادھر ہی رکنا تھا۔ اندھیرا گہرا ہوا چلا تھا۔ پون میل کا سفر گہری کھائیوں، بڑے بڑے پتھروں اور گھنے جنگل سے ہو کر گذرتا تھا۔ باوجود اس کے کہ گاؤں والوں نے کل شیرنی دیکھی تھی، باوجود اس کے کہ میں نے بظاہر آدم خور پر دو گولیاں چلائی تھیں، مجھے شیرنی کی اصل موجودگی کا کوئی علم نہ تھا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ پچاس میل دور ہو، ہو سکتا ہے کہ وہ پچاس گز دور سے مجھے دیکھ رہی ہو۔میری نشست جتنی بھی غیر آرام دہ تھی، بہتر یہی تھا کہ میں اسی جگہ صبح ہونے تک رہتا۔ جوں جوں وقت گذرتا رہا، مجھے یہ خیال تنگ کرتا رہا کہ رات کے اندھیرے میں شیرنی پر گولی چلانا اتنا آسان کام نہیں تھا جتنا کہ میں نے فرض کر لیا تھا۔ اگر یہ جانور دن کی روشنی میں نہ مارا جا سکا تو پھر اسے قدرتی موت مرنے کے لئے چھوڑ دینا پڑے گا۔ صبح کی روشنی ہوتے ہوتے یہ خیال اچھی طرح میرے ذہن میں جڑ پکڑ چکا تھا۔ نیچے اترتے ہوئے میں پھسلا اور زمین پر کمر کے بل گرا۔ میری ٹانگیں آسمان کی طرف ہو گئیں۔ ساری رات کی سردی نے مجھے اکڑا دیا تھا۔ خوش قسمتی سے میں ریت پر گرا اور مجھے یا رائفل کو خراش تک نہ آئی۔
اتنی صبح کے وقت پورا گاؤں بیدار تھا۔ فوراً ہی انہوں نے مجھے گھیر لیا۔ ان کے سوالات کے جواب میں میں نے صرف اتنا کہا کہ میں فرضی شیر پر خالی کارتوس چلا رہا تھا۔
بھڑکتی آگ کے پاس بیٹھ کر اور چائے دانی خالی کرنے کے بعد میری ہمت کچھ بحال ہو گئی۔ اب گاؤں بھر کے مردوں اور لڑکوں کو اپنے ساتھ لے کر میں دوبارہ اسی جگہ لوٹا اور اس جگہ کھائی کے اوپر کھڑا ہوا جس جگہ میں نے رات بسر کی تھی۔ اب میں نے لوگوں کو بتایا کہ کس طرح شیر اس جگہ سے نکلا اور میرے گولی چلانے پر وہ اس طرف بھاگا۔ جونہی میں نے کھائی کی طرف اشارہ کیا، سارا ہجوم چلایا کہ "صاحب، شیر وہاں مردہ پڑا ہوا ہے۔" رات بھر جاگنے کے بعد شاید میری آنکھیں تھک گئی تھیں، لیکن بار بار دیکھنے پر بھی شیر غائب نہ ہوا۔ ظاہر ہے کہ لوگوں نے پوچھا کہ بیس یا تیس منٹ بعد میں نے دوبارہ کیوں گولی چلائی؟ میں نے بتایا کہ کس طرح شیر دوبارہ اسی جگہ سے نکلا اور کس طرح میں نے اس پر گولی چلائی جب وہ بھینسے کے پاس کھڑا تھا اور گولی لگتے ہی وہ کیسے بھاگ کر بائیں جانب چڑھا۔ فوراً ہی غلغلہ بلند ہوا "صاحب، دوسرا شیر وہاں مردہ پڑا ہے۔" اس بار آوازوں میں گاؤں بھر کی لڑکیاں اور عورتیں بھی شامل تھیں جو دیر سے پہنچی تھیں۔ دونوں شیر ایک ہی جسامت کے تھے اور ساٹھ گز دور مردہ پڑے تھے۔
دوسرے شیر کے بارے پوچھنے پر دیہاتیوں نے بتایا کہ سابقہ چار ہلاکتوں کے مواقع اور پھر بیل کی لاش کے پاس کھوجی جماعت کو ہمیشہ ایک ہی شیر دکھائی دیا تھا۔ شیروں کے ملاپ کا موسم نومبر سے اپریل تک پھیلا ہوتا ہے۔ اگر دونوں شیروں میں سے ایک آدم خور ہوتی تو لازماً اس نے اپنا ساتھی تلاش کر لیا تھا۔
جہاں میں بیٹھا تھا، اس سے دو سو گز دور نیچے ایک عمودی راستہ تلاش کر لیا گیا اور سارے گاؤں والے میرے پیچھے چل پڑے۔ نزدیک جانے پر میری امیدیں اچانک بڑھ گئیں کہ یہ ایک بوڑھی شیرنی تھی۔ نزدیکی بندے کو رائفل تھما کر میں گھٹنوں کے بل جھکا اور اس کے پنجوں کو دیکھا۔ جس دن شیرنی نے گھاس کاٹتی عورتوں پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی، وہ اپنے پیروں کے بہت خوبصورت نشانات چھوڑ گئی تھی۔ یہ پہلے پگ تھے جو میں نے اس آدم خور کے دیکھے تھے۔ میں نے ان کو بغور دیکھا تھا۔ ان سے ہی علم ہوا تھا کہ شیرنی ایک بہت پرانی مادہ ہے جس کے ناخن اتنے بڑھ چکے ہیں کہ میں نے زندگی بھر کسی شیر کے اتنے بڑے ناخن نہیں دیکھے۔ ان وجوہات کی بنا پر آدم خور کو سو مردہ شیروں میں سے با آسانی پہچانا جا سکتا تھا۔ میری مایوسی کی انتہا دیکھیں، یہ مردہ بوڑھی شیرنی آدم خور نہیں تھی۔ جب میں نے یہ بات گاؤں والوں کو بتائی تو انہوں نے تسلیم کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ پچھلے موقع پر میں نے خود کہا تھا کہ آدم خور ایک بہت پرانی شیرنی ہے اور اب جب وہ میرے سامنے مردہ پڑی ہے تو میں اسے تسلیم کرنے سے انکاری ہوں۔ حالانکہ جس جگہ سے مری پڑی ہے، اس سے نزدیک ہی ان کے چار آدمی مختصر وقت میں مارے گئے ہیں۔ ان سب دلائل کے باوجود میرے پاس شیرنی کی پاؤں کی زیادہ اہمیت ہے جبکہ سب شیروں کے پاؤں ایک جیسے ہوتے ہیں۔
ان حالات میں دوسرا شیر نر ہی ہو سکتا تھا۔ جب میں شیرنی کی کھال اتارنے کی تیاری میں تھا تو ایک جماعت جا کر نر کو لے آئی۔ اس طرف ڈھلوان بہت عمودی تھی۔ کافی مشقت کے بعد وہ لوگ ایک خوبصورت نر شیر کو میرے پاس لائے۔
دس گھنٹے قبل مردہ اور اکڑے ہوئے شیروں کی کھال ایسے وقت اتارنا جب ارد گرد لوگ جمع ہوں اور سورج پشت جلا رہا ہو، ،میری زندگی کے تلخ ترین تجربات میں سے ایک ہے۔ دوپہر کو جا کر یہ کام مکمل ہوا۔ میرے آدمیوں نے بہت احتیاط سے ان کھالوں کو لپیٹا اور ہم پانچ میل دور کیمپ جانے کو تیار ہو گئے۔
صبح کے دوران میں نے ارد گرد کے دیہاتوں کے نمبرداروں کو بتایا کہ چوگڑھ کی شیرنی زندہ ہے۔ انہیں تمام ممکنہ احتیاط کرنی ہوگی ورنہ شیرنی لازماً فائدہ اٹھائے گی۔ اگر میری ہدایات پر عمل کیا جاتا تو آگلے مہینوں میں آدم خور اتنے شکار نہ کر پاتی۔
اگلے چند ہفتے تک آدم خور کی کوئی اطلاع نہ ملی۔ اس کے بعد میں ڈلکانیہ سے روانہ ہو گیا تاکہ ترائی میں ہونے والی سرکاری میٹنگ میں شریک ہو سکوں۔
مارچ ۱۹۳۰ میں ہمارے ضلع کے کمشنر ویوان آدم خور کے علاقے سے گذر رہے تھے۔ بائیس کو انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ وہ کالا آگر میں میرے منتظر ہیں، فوراً پہنچوں۔ نینی تال سے کالا آگر تک پچاس میل کا سفر ہے۔ خط کے دو دن بعد میں کالا آگر کے فارسٹ بنگلے میں مسٹر اور مسز ویوان کے ساتھ ناشتہ کر رہا تھا جہاں یہ لوگ مقیم تھے۔
ناشتے کے بعد ویوان نے بتایا کہ اکیس تاریخ کو ان کی آمد کے بعد، جب وہ لوگ برآمدے میں چائے پی رہے تھے، آدم خور نے بنگلے کے صحن میں گھاس کاٹتی ایک عورت کو ہلاک کر دیا اور اٹھا کر لے گئی۔ انہوں نے فوراً رائفلیں اٹھائیں اور اپنے چند ملازمین کے ہمراہ پیچھے روانہ ہوئے۔ عورت کی لاش انہیں ایک بڑے درخت کے نیچے جھاڑی میں ملی۔ بعد ازاں میں نے اس جگہ کا معائینہ کیا تو پتہ چلا کہ شیرنی ویوان وغیرہ کی آمد پر لاش کو چھوڑ کر نیچے اتری اور لاش کی جگہ سے پچاس گز دور رس بھری کی ایک جھاڑی میں چھپ گئی۔ اس بڑے درخت پر ویوان کے لئے اور دو دیگر درختوں پر دوسرے افراد کے لئے مچانیں باندھی گئیں۔ جونہی مچانیں تیار ہوئیں، یہ لوگ ان پر بیٹھ گئے۔ تاہم پوری رات شیرنی واپس نہ آئی۔
اگلی صبح لاش کو مذہبی رسومات کے لئے لے جایا گیا۔ انہوں نے اس جگہ ایک نو عمر بھینسا باندھ دیا جسے شیرنی نے اسی رات مار دیا۔ یہ جگہ بنگلے سے نصف میل دور تھی۔ اگلی شام کو دونوں میاں بیوی مچان بندھوا کر بیٹھے۔ چاند نہ نکلا تھا اور دن کی روشنی مدھم ہو چکی تھی کہ انہوں نے کسی جانور کو آتے سنا۔ پھر وہ جانور دکھائی بھی دیا۔ ناکافی روشنی کی وجہ سے وہ اسے ریچھ سمجھے۔ بدقسمتی سے یہ شیرنی ہی تھی۔ اگر وہ لوگ غلطی نہ کرتے تو یقیناً آدم خور اپنے انجام کو پہنچ چکی ہوتی۔ دونوں میاں بیوی اچھے نشانچی ہیں۔
یہ لوگ پچیس تاریخ کو کالا آگر سے نکلے اور اسی دن میرے چار نو عمر بھینسے ڈلکانیہ سے آن پہنچے۔ چونکہ شیرنی اب چارے کے لئے تیار تھی، میں نے یہ چاروں فارسٹ روڈ سے چند سو گز دور بندھوا دیئے۔ تین راتیں مسلسل شیرنی ان بھینسوں سے چند فٹ کے فاصلے سے گذرتی رہی لیکن انہیں چھوؤا تک نہیں۔ چوتھی رات بنگلے کے نزدیک والا بھینسا مارا گیا۔ جائزہ لینے سے پتہ چلا کہ اسے تیندوؤں کے ایک جوڑے نے ہلاک کیا ہے جو گذشتہ رات بنگلے کے اوپر بول رہے تھے۔ میں اس علاقے میں گولی نہ چلانا چاہتا تھا کہ شیرنی فرار ہو جاتی۔ لیکن اگر انہیں نہ مارا جاتا تو وہ میرے سارے بھینسے مار ڈالتے۔ میں نے ان کا پیچھا کیا اور بھینسے کی لاش سے ذرا دور دھوپ سینکتے ہوئے گھات لگا کر ہلاک کر دیا۔
کالا آگر بنگلے سے فارسٹ روڈ کئی میل تک گھنے جنگلات سے گذرتی ہے۔ کماؤں کے دیگر حصوں کے مقابلے یہاں سانبھر، کاکڑ، سور وغیرہ اور پرندے بھی بکثرت ہیں۔ دو بار میں نے ان جنگلات میں خون کے نشانات دیکھے اور اندازہ لگایا کہ شیرنی نے سانبھر مارا ہے لیکن تلاش نہ کر پایا۔
اگلے دو ہفتوں تک میں دن کا وقت اسی فارسٹ روڈ کے دونوں اطراف گشت میں گذارا۔ دو بار میں شیرنی کے نزدیک بھی پہنچا۔ پہلی بار جب میں کالا آگر کے سرے پر واقع ایک غیر آباد گاؤں گیا تھا۔ یہ گاؤں آدم خور کی سرگرمیوں کی وجہ سے خالی ہو چکا تھا۔ واپسی پر میں نے مویشیوں کی گذرگاہ پکڑی جو گھوم کر فارسٹ روڈ کی طرف جاتی ہے۔ یہاں پتھروں کے ڈھیر کے پاس پہنچ کر میں ٹھٹھک کر رک گیا۔ مجھے خطرہ محسوس ہوا۔ اس جگہ فارسٹ روڈ تقریباً تین سو گز دور ہوگی۔ یہاں کنارے سے راستہ ہٹ کر چند گز سخت ڈھلوان اختیار کرتا ہوا دائیں مڑتا ہے اور پہاڑی پر سو گز تک جاتا ہے۔ اس راستے پر دائیں جانب درمیان میں پتھروں کا یہ ڈھیر تھا۔ ان پتھروں کے ڈھیر کے بعد راستہ ایک تنگ سا موڑ کاٹ کر ان پتھروں کے بائیں آ جاتا ہے۔ آگے چل کر ایک اور تنگ موڑ اور پھر یہ فارسٹ روڈ سے جا ملتا ہے۔
اس راستے سے میں پہلے بھی کئی بار آ چکا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے پتھروں کے ڈھیر سے گذرتے ہوئے جھجھک محسوس ہوئی۔ ان سے بچنے کا ایک راستہ یہ تھا کہ میں کئی سو گز گھنے جنگل سے گذرتا یا پتھروں کے اوپر سے لمبا چکر کاٹ کر گذرتا۔ میرے پاس لمبے چکر کا وقت نہ تھا کہ سورج ڈوبنے والا ہی تھا اور مجھے دو میل مزید چلنا تھا۔ اگر میں پہلا راستہ اختیار کرتا تو مجھے شدید خطرے سے دو چار ہونا پڑتا۔ چاہے مجھے کتنا ہی برا لگے، مجھے انہی پتھروں سے قریب سے ہو کر ہی جانا تھا۔ چونکہ ہوا پہاڑی کے نیچے سے اوپر کی طرف چل رہی تھی، میں بائیں جانب موجود گھنی گھاس کا قطعہ نظر انداز کر کے ساری توجہ دائیں طرف پتھروں پر ہی مرکوز رکھ سکتا تھا۔ سو فٹ کے بعد میں خطرے سے باہر ہوتا۔ یہ فاصلہ میں نے قدم بقدم طے کیا۔ میرا چہرہ ان پتھروں کی طرف اور رائفل شانے سے لگی ہوئی تھی۔ اگر کوئی مجھے دیکھتا تو ہنسی نہ روک پاتا۔
ان پتھروں سے تیس گز دور ایک کھلا قطعہ تھا جو راستے کے دائیں جانب سے شروع ہو کر پہاڑی پر پچاس یا ساٹھ گز تک چلا جاتا تھا اور اس کے اور ان پتھروں کے ڈھیر کے درمیان ایک گھنی جھاڑی حائل تھی۔ اس قطعے میں ایک کاکڑ چر رہا تھا۔ میں نے اسے پہلے دیکھا۔ اسے براہ راست دیکھنے کی بجائے میں نے آنکھوں کے گوشے سے دیکھا۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے سر اٹھایا لیکن اپنی طرف متوجہ نہ پا کر اس نے ساکت ہی کھڑے رہنے کو ترجیح دی۔ عموماً جب ان جانوروں کو احساس ہو کہ ان پر توجہ نہیں دی جا رہی تو وہ بھاگتے نہیں۔ پہلے موڑ پر پہنچ کر میں نے کنکھیوں سے دیکھا تو کاکڑ دوبارہ گھاس چرنے لگ گیا تھا۔
ابھی اس موڑ سے میں تھوڑا سا ہی آگے بڑھا ہوں گا کہ کاکڑ دیوانہ وار بھونکتا ہوا سیدھا پہاڑی کے اوپر کی طرف بھاگا۔ چند ہی قدموں میں واپس موڑ پر تا۔ اسی وقت میں نے راستے کی نچلی طرف والی جھاڑیاں ہلتی دیکھیں۔ لازماً کاکڑ نے اسے دیکھا تھا اور جس جگہ جھاڑیاں ہل رہی تھیں، واحد جگہ تھی جہاں سے کاکڑ شیرنی کو دیکھ سکتا تھا۔ جھاڑی میں حرکت کا سبب پرندہ بھی ہو سکتا تھا اور شیرنی بھی۔ تاہم آگے جانے سے قبل ذرا سی تفتیش لازمی ہو گئی تھی۔
راستے پر پتھروں سے نکلنے والے چھوٹے سے چشمے کے سبب لال مٹی کیچڑ کی شکل میں تھی۔ اس جگہ قدموں کے نشانات بالکل واضح تھے۔ اس سے گذرتے ہوئے میں نے بھی اپنے نشانات چھوڑے تھے۔ یہاں اب پتھروں سے شیرنی کے کودنے اور اس وقت تک میرے پیچھے آنے کے نشانات تھے جب تک کہ کاکڑ نے بول کر اسے خبردار نہ کر دیا۔ یقیناً شیرنی اس پورے علاقے سے بخوبی واقف تھی۔ پتھروں پر مجھے شکار نہ کر سکنے کے بعد اب وہ اگلے موڑ پر گھات لگانے جا رہی تھی کہ کاکڑ نے اس کا کھیل بگاڑ دیا۔ شاید اب وہ گھاس میں چھپ کر اگلے موڑ پر مجھے جا لینے کی کوشش کرے۔
اب راستے پر مزید چلنا بے وقوفی تھی۔ میں نے کاکڑ کے فرار کے راستے کو ترجیح دی۔ بائیں مڑ کر نیچے اترا اور کھلے میدان سے ہو کر میں فارسٹ روڈ تک جا پہنچا۔ اگر اس وقت دن کی روشنی باقی ہوتی تو مجھے یقین تھا کہ شیرنی نہ بچ پاتی۔ پتھروں سے نکلنے کے بعد سے سارے حالات میری موافقت میں تھے۔ اس علاقے سے ہم دونوں ہی بخوبی واقف تھے۔ شیرنی کو میرے ارادے کا علم نہ تھا جبکہ میں اس کے ارادے سے بخوبی واقف تھا۔ تاہم یہ سب باتیں بیکار تھیں کیونکہ تاریکی چھانے میں اب کم ہی وقت رہ گیا تھا۔
میں نے پہلے بھی بتایا کہ خطرے کے وقت میری چھٹی حس بیدار ہو کر اپنا کام کرتی ہے۔ مزید اس بارے کچھ کہنا کہ یہ کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے وغیرہ وغیرہ، موضوع سے بالکل ہٹ کر ہے۔ اس موقع پر میں نے نہ تو شیرنی کو دیکھا اور نہ ہی اس کی آواز سنی، نہ ہی پرندوں یا چرندوں نے کوئی اطلاع دی لیکن پھر بھی مجھے صاف اور بالکل واضح طور پر معلوم ہو گیا کہ وہ پتھروں کے پیچھے موجود ہے۔ اس دن میں بہت دیر سے جنگل میں تھا، کئی میل کا سفر بھی طے کیا اور بالکل کوئی خطرہ نہ محسوس کیا۔ جونہی پتھروں کے نزدیک پہنچا مجھے اچانک ہی علم ہو گیا کہ یہاں میرے لئے خطرہ ہے۔ چند منٹ بعد کاکڑ نے مجھے اور آس پاس کے جنگل کو شیرنی کی موجودگی سے خبردار کر دیا۔ مڑ کر تحقیق کرنے سے پتا چلا کہ شیرنی کے پگ میرے اپنے قدموں کے نشانات کے اوپر موجود تھے۔

(۳)
میں اپنے تمام قارئین کا شکر گذار ہوں کہ وہ اب تک میری یہ داستان توجہ سے پڑھ رہے ہیں۔ اب میں تفصیل سے انہیں شیرنی سے اپنی پہلی اور آخری ملاقات کے بارے بتاتا ہوں۔
یہ ملاقات ۱۱ اپریل ۱۹۳۰ کو میرے کالا آگر آنے کے انیسویں دن دوپہر کو ہوئی۔
اس دن میں دو بجے جنگل میں نکلا ہوا تھا تاکہ تین بھینسے پہلے سے منتخب شدہ جگہوں پر باندھوں۔ بنگلے سے میل بھر دور جہاں سڑک ایک کنارے سے ہو کر گذرتی ہے اور کالا آگر میں شمال سے مغرب کا رخ کرتی ہے، میں نے بہت سے آدمی دیکھے جو لکڑیاں اکٹھی کر رہے تھے۔ اس جماعت میں ایک بوڑھا آدمی تھا۔ اس نے یہاں سے پانچ سو گز دور درختوں کے ایک جھنڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ پچھلے ماہ آدم خور نے اس کے اٹھارہ سالہ نوجوان اور اکلوتے بیٹے کو مارا تھا۔ مجھے یہ کہانی متوفی کے باپ کی زبانی سننے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ جب ہم سڑک کے کنارے سیگرٹ پینے بیٹھے تو اس نے مجھے تفصیل بتائی اور اشاروں سے وہ جگہ دکھائی جہاں اس کا بیٹا مارا گیا تھا اور اگلے دن باقیات ملی تھیں۔ اس نے ان پچیس لوگوں کو لعنت ملامت کی جو اس دن اس کے ساتھ تھے لیکن اس کے بیٹے کو شیرنی کے رحم و کرم پر چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ اس کا لہجہ تلخ تھا۔ ارد گرد موجود لوگوں میں سے چند لوگ اس دن اس کے ساتھ تھے۔ انہوں نے ان الفاظ کو سنتے ہی بوڑھے پر الزام دھرا کہ بوڑھے نے ہی غل مچایا تھا کہ شیر کی آواز آ رہی ہے، سب اپنی اپنی جانوں کو بچانے کے لئے بھاگیں۔ بوڑھا اس وضاحت سے مطمئن نہ ہوا۔ اس نے سر ہلا کر کہا کہ تم سب تجربہ کار تھے اور وہ محض لڑکا۔ تم نے اسے اکیلا چھوڑ دیا۔ مجھے افسوس ہوا کہ میرے سوالات کی وجہ سے یہ تلخی پیدا ہوئی۔ بوڑھے کی تسلی کے لئے میں نے اسے بتایا کہ ایک بھینسا میں اس جگہ بھی باندھوں گا جہاں اس کا بیٹا مارا گیا تھا۔ اپنے دو ہمراہیوں کو دو بھینسے دے کر میں نے بنگلے واپس بھیجا اور خود تیسرے بھینسے اور دو آدمیوں کے ہمراہ اس جگہ چل دیا جہاں اس شخص کا بیٹا مارا گیا تھا۔
جہاں ہم بیٹھے تھے، اس سے نزدیک والی پگ ڈنڈی لے کر ہم چل پڑے۔ یہ پگ ڈنڈی زگ زیگ ہوتی ہوئی نیچے وادی میں اترتی ہے اور دو میل آگے جا کر فارسٹ روڈ سے جا ملتی ہے۔ یہ راستے ایک کھلے قطعے سے گذرتا ہے جو ان درختوں کے جھنڈ کے کنارے واقع ہے۔ یہاں وہ لڑکا مارا گیا تھا۔ اس کھلے قطعے میں جو کہ تیس مربع گز کا تھا، چلغوزے کا ایک نوعمر درخت تھا۔ اسے میں نے کاٹ کر کٹے ہوئے تنے سے بھینسے کو باندھ دیا۔ ایک آدمی سے کہا کہ وہ اس کے لئے گھاس جمع کرے۔ دوسرا آدمی مادھو سنگھ تھا جو گڑھوالی رجمنٹ میں کام کر چکا تھا اور اب متحدہ صوبہ جات کی پولیس میں ملازم تھا، کو کہا کہ وہ درخت پر چڑھ کر کلہاڑی تنے پر مارے اور آواز پیدا کرتا رہے۔ یہ آواز مقامی افراد عموماً اکثر پیدا کرتے رہتے ہیں۔ اس کے بعد میں چار فٹ اونچے پتھر پر بیٹھ گیا۔ اس کا نچلا سرا زمین سے ملا ہوا تھا۔ اس پتھر کے پیچھے کی پہاڑی بہت ڈھلوان تھی اور گھنے جنگل سے بھری وادی تک جا رہی تھی۔
پہلا آدمی گھاس کاٹ کاٹ کر بھینسے کے سامنے ڈال رہا تھا اور مادھو سنگھ مسلسل شور کر رہا تھا۔ میں پتھر پر بیٹھا سیگرٹ پی رہا تھااور رائفل میرے بائیں بازو میں دبی ہوئی تھی۔ اچانک مجھے علم ہو گیا کہ شیرنی آ گئی ہے۔ زمین پر موجود پہلے آدمی کو اشارہ کیا کہ وہ میری طرف بھاگ کر آئے اور سیٹی بجا کر مادھو سنگھ کو بھی خاموش کرا دیا۔ تین اطراف سے زمین نسبتاً خالی تھی۔ مادھو سنگھ میرے سامنے بائیں جانب درخت پر تھا۔ گھاس کاٹنے والا بندہ اب میرے سامنے تھے۔ بھینسا ہمارے سامنے دائیں طرف تھا اور بے چین دکھائی دے رہا تھا۔ اس علاقے میں شیرنی مجھے دکھائی دیئے بغیر نزدیک نہ آ سکتی تھی۔ ایک ہی امکان تھا کہ شیرنی میرے عقب اور نیچے سے آئی تھی جہاں میں اسے نہ دیکھ سکتا تھا۔
اس پتھر کو چنتے وقت میں نے دیکھا تھا کہ اس کے عقبی طرف ڈھلوان بہت عمودی تھی اور اس کی جڑ چلغوزے کے درخت اور جھاڑیوں وغیرہ سے بھری ہوئی تھی۔ یہاں سے زمین آٹھ یا دس فٹ نیچے تھے۔ شیرنی کا اوپر چڑھنا مشکل سہی لیکن ناممکن نہ تھا۔ میری حفاظت کا سارا دار و مدار شیرنی کی اس گھاس پھونس میں حرکت کی آواز سننے پر تھا۔
مجھے یقین ہے کہ آدم خور مادھو سنگھ کے شور کی وجہ سے متوجہ ہوئی تھی۔ اس کی گھاس میں شیرنی اس پتھر تک پہنچی اور مجھے دیکھ کر اپنے اگلے قدم کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ مجھے اس کی موجودگی کی خبر ہو گئی۔ میرے رخ بدلنے اور میرے آدمیوں کی طرف سے اچانک خاموش ہو جانے سے شیرنی کو شک ہو اہوگا۔ خیر چند منٹ بعد وادی کے نچلے سرے سے خشک ٹہنی ٹوٹنے کی آواز آئی اور بے چینی کی کیفیت اچانک ہی دور ہو گئی اور میں پر سکون ہو گیا۔ ایک موقع ضائع ہو گیا لیکن مجھے یقین تھا کہ وہ جلد یا بدیر واپس لوٹے گی اور بھینسے پر ہاتھ صاف کرے گی۔ ابھی چار یا پانچ گھنٹے جتنی روشنی باقی تھی اور وادی سے ہو کر مخالف سمت میں پہاڑی پر چڑھنے سے مجھے بھینسا اور وادی کا بقیہ حصہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اس جگہ سے اگر میں گولی چلاتا تو کم از کم دو یا تین سو گز دور ہوتا۔ لیکن میرے پاس موجود اعشاریہ ۲۷۵ کی رائفل بہت عمدہ نشانے کی حامل تھی۔ اگر میں شیرنی کو زخمی بھی کر دیتا تو اس کا پیچھا کرنا نسبتاً آسان ہو جاتا بجائے اس کے کہ میں اسے کئی سو مربع میل کے جنگل میں تلاش کرتا جو میں گذشتہ کئی ماہ سے کر رہا تھا۔
میرے ساتھی میری مشکل تھے۔ انہیں اکیلا بنگلے بھیجنا قتل کے مترادف ہوتا۔ اس لئے انہیں ساتھ ہی رکھنا پڑا۔
بھینسے کو تنے سے مضبوطی سے باندھ کر تاکہ شیرنی اسے نہ لے جا سکے، ہم اس کھلے قطعے سے نکل کر دوبارہ راستے پر چڑھے تاکہ سامنے والی پہاڑی سے گولی چلانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہوں۔
راستے سے سو گز دور میرے سامنے ایک کھائی آئی۔ اس کی دوسری طرف راستہ بہت گھنی جھاڑیوں سے ہو کر گذرتا تھا جہاں دو دیگر آدمیوں کے ہمراہ گذرنا نادانی ہوتی۔ میں نے سوچا کہ کھائی سے ہو کر نیچے اترتا ہوں اور پھر آگے چل کر اوپر کی طرف نکلیں گے اور جہاں یہ جھاڑیاں ختم ہو رہی ہیں، پر راستے پر دوبارہ آ جائیں گے۔
کھائی دس گز چوڑی اور چار یا پانچ فٹ گہری ہوگی۔ جونہی میں اس میں اترا، ایک الو اس جگہ سے اڑا جہاں میں نے چٹان پر ہاتھ رکھا تھا۔ اس جگہ غور کرتے ہی مجھے دو انڈے دکھائی دیئے۔ یہ انڈے زردی مائل تھے اور ان پر بھورے رنگ کے دھبے موجود تھے۔ ان کی شکل بہت عجیب تھی۔ ایک بہت لمبا اور نوکدار جبکہ دوسرا کسی سنگ مر مر کی گیند کی طرح گول۔ میرے مجموعے میں الو کے انڈے نہیں تھے اس لئے میں نے سوچا کہ ان انڈوں کو ساتھ لیتا چلوں۔میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں تھی کہ جس میں احتیاط سے انڈے لے جاتا۔ میں نے ہتھیلی کو گہرا کیا اور اس میں انڈے رکھ کر ارد گرد موس رکھ دی۔
جونہی میں نیچے اترا، کھائی کے کنارے اونچے ہو گئے اور جہاں ہم نیچے اترے تھے، ساٹھ گز دور اچانک ہی راستہ بارہ یا چودہ فٹ نیچے کی طرف عمودی ڈھلان کی شکل میں تھا۔ ان پہاڑی کھائیوں میں بہنے والے تیز رفتار پانی نے اس پتھر کو کاٹ کر شیشے کی طرح ہموار اور چکنا بنا دیا تھا۔ چونکہ اس پر قدم جمانا مشکل تھا، میں نے رائفل اپنے ساتھیوں کو دے کر خود بیٹھا اور پھسل کر نیچے اترا۔ ابھی بمشکل میرے پیر زمین سے لگے ہوں گے کہ میرے ساتھی میرے دائیں بائیں غڑاپ سے اترے اور رائفل مجھے دیتے ہوئے چیخے کہ کیا میں نے شیرنی کی آواز سنی؟ حقیت میں میں نے پھسلتے ہوئے اپنے کپڑوں کی سر سراہٹ کے سوا اور کچھ نہ سنا تھا۔ سوال کیا تو پتہ چلا کہ انہوں نے زور دار دھاڑ کی آواز سنی تھی۔ یہ آواز بہت نزدیک سے آئی تھی لیکن وہ سمت کا اندازہ کرنے سے قاصر رہے۔ شیر جب شکار کی نیت سے گھات لگا رہے ہوں تو وہ آواز نکال کر اپنی موجودگی کا راز نہیں فاش کرتے۔ اس کا بہت ہی غیر مطمئن کردہ جواب یہ تھا کہ شیرنی نے ہم تینوں میں سے شکار کے لئے مجھے چنا اور جونہی میں پھسل کر اس کی نظروں سے اوجھل ہوا، اس نے آواز نکالی۔ ظاہرہے کہ یہ جواب کوئی معقول نہیں تھا کیونکہ بغیر کسی وجہ سے یہ فرض کرنا کہ شیرنی نے میرے ساتھیوں کو چھوڑ کر مجھے ہی منتخب کیا تھا، کیا اسے بقیہ دو انسانوں سے کوئی دل چسپی نہیں تھی؟
جہاں ہم تینوں رکے ہوئے تھے، ہمارے عقب میں وہی ڈھلوان تھی جہاں سے ہم نیچے اترے تھے، دائیں جانب چٹانی دیوار جو کہ پندرہ فٹ بلند اور کھائی پر ہلکی سی جھکی ہوئی تھی اور ہمارے بائیں جانب چٹانی کنارہ تھا جو تیس یا چالیس فٹ بلند تھا۔ کھائی کا ریتلا پیندہ تھا جہاں ہم کھڑے تھے، کوئی چالیس فٹ لمبا اور دس فٹ چوڑا تھا۔ اس کے نچلے سرے پر چلغوزے کا ایک بڑا درخت گرا ہوا تھا اور اس نے بند سا قائم کیا ہوا تھا۔ اس جگہ ریت کی موجودگی اسی بند کی وجہ سے تھی۔ جھکی ہوئی چٹان درخت سے کوئی بارہ یا پندرہ فٹ قبل ہی ختم ہو جاتی تھی۔ میں اس تک بے آواز پہنچا۔ یہاں خوش قسمتی سے میں نے محسوس کیا کہ ریت اس چٹان کے دوسری طرف بھی موجود ہے۔
یہ پتھریلی چٹان یوں سمجھیں کہ سکول والی ایک بہت بڑی سلیٹ کی مانند تھی۔ اس کا نچلا سرا دو فٹ موٹا اور یہ سیدھی کھڑی تھی۔
جونہی میں اس سے آگے بڑھا، میں نے اپنے دائیں کندھے سے سر کو موڑ کر دیکھا تو میری آنکھیں براہ راست شیرنی کی آنکھوں سے جا ٹکرائیں۔
اب میں آپ کو اس ساری صورتحال کی واضح تصویر پیش کرتا ہوں۔
ریتلا پیندا چٹان کی دوسری طرف تقریباًہموار تھا۔ اس کے دائیں جناب پندرہ فٹ بلند اور جھکی ہوئی چٹان تھی۔ اس کے بائیں جانب پندرہ فٹ بلند کنارہ تھا جو کانٹے دار جھاڑیوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس کی پرلی طرف اسی طرح کی ڈھلوان تھی جیسی کہ ہم نے کچھ دیر پہلے دیکھی تھی تاہم یہ کچھ زیادہ بلند تھی۔ ریتلا پیندہ تین اطراف سے ان قدرتی دیواروں سے گھرا ہوا تھا اور بیس فٹ لمبا اور دس فٹ چوڑا تھا۔ اس پر شیرنی اگلے پنجے پھیلائے اور پچھلے پنجوں پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کا فاصلہ مجھ سے آٹھ فٹ (بعد میں ماپا گیا) تھا۔ اس کے چہرے پر کچھ ایسی مسکراہٹ تھی جیسے کوئی کتا اپنے مالک کو بہت دن بعد گھر آتا دیکھے تو اس کے چہرے پر ہوتی ہے۔
میرے ذہن میں فوراً ہی دو سوچیں آئیں۔ پہلی تو یہ کہ مجھے کچھ کرنا ہوگا، دوسری یہ کہ جو کچھ کروں، ایسے انداز سے ہو کہ شیرنی کو خطرہ نہ محسوس ہو۔
رائفل میرے دائیں ہاتھ میں اور دوسری طرف تھی۔ سیفٹی کیچ بند تھا اور شیرنی تک اس کو گھمانے کے لئے تین چوتھائی دائرہ طے کرنا ہوتا۔
بہت آہستگی سے ایک ہاتھ سے رائفل کی نالی کو حرکت دینا شروع کیا لیکن اس کی رفتار نہ ہونے کے برابر تھی۔ جب چوتھائی دائرہ طے ہوا، کندہ میرے پہلو سے لگا۔ اب مجھے اپنے بازو کو آگے بڑھا کر دائرہ پورا کرنا تھا۔ میں نے ہاتھ لمبا کر کے حرکت جاری رکھی۔ میرا بازو پوری طرح پھیلا ہوا تھا اور رائفل کا بوجھ بھاری پڑنا شروع ہو گیا تھا۔ تھوڑا سا اور حرکت کرنی تھی۔ اس دوران شیرنی کی نگاہیں میری نگاہوں سے نہیں ہٹی اور اس کے چہرے پر وہی مسکراہٹ تھی۔
رائفل کو تین چوتھائی دائرہ طے کرنے میں کتنا وقت لگا، کہنا مشکل ہے۔ میرے لئے تو بس شیرنی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے رائفل کو حرکت دینا اور رائفل کی حرکت کو نہ دیکھ سکنا، ہاتھ کا شل ہوتا ہوا محسوس کرنا، جیسے کہ یہ دائرہ کبھی پورا نہیں ہوگا۔ تاہم بالآخر دائرہ مکمل ہوا اور جونہی رائفل شیرنی کے جسم کی طرف سیدھی ہوئی، میں نے لبلبی دبا دی۔
جونہی رائفل چلی، اس کا دھکہ، اس تنگ جگہ میں اس کی گونجتی ہوئی دھمک سے مجھے رائفل کے چلنے کا احساس تو ہوا لیکن لبلبی دبانے سے رائفل چلنے تک ایسا لگا جیسے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہا ہوں۔ ایسا خواب کہ شدید خطرے کی حالت میں رائفل کی لبلبی تو بار بار دبائی جاتی ہے لیکن رائفل نہیں چلتی۔
کچھ دیر تک شیرنی اپنی جگہ پر بے حس و حرکت رہی پھر بہت آہستگی سے اس کا سر اس کے پھیلے ہوئے اگلے پنجوں کی طرف جھکنے لگا۔ اسی وقت گولی کے سوراخ سے خون کی دھار بہہ نکلی۔ گولی اس کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑتی ہوئی اس کے دل کے اوپری حصے کے چیتھڑے اڑا گئی۔
میرے دونوں ساتھی جو چند گز پیچھے تھے، شیرنی کو سلیٹ نما چٹان کی وجہ سے نہ دیکھ سکے، مجھے رکتے دیکھ کر وہ بھی رک گئے۔ انہیں پتہ لگ گیا کہ میں نے شیرنی کو دیکھ لیا ہے اور میرے انداز سے جان گئے کہ شیرنی بہت نزدیک ہے۔ مادھو سنگھ نے بعد ازاں مجھے بتایا کہ وہ مجھ چلا کر بتانے والا تھا کہ میں انڈے پھینک کر دونوں ہاتھوں سے رائفل کو پکڑ لوں۔ جونہی میں نے گولی چلائی اور پھر کچھ دیر کے بعد رائفل کو نیچے کر کے اپنے پنجےپر رکھا، مادھو سنگھ، جو کہ نزدیک تھا، نے بڑھ کر رائفل کو مجھ سے لے لیا۔ میری ٹانگیں اچانک ہی جواب دے گئیں۔ بڑی مشکل سے میں اس گرے ہوئے درخت تک پہنچا اور بیٹھ گیا۔ شیرنی کے پنجوں کو دیکھنے سے قبل ہی مجھے یقین ہو گیا تھا کہ آدم خور اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ قسمت کی مدد سے اس نے سرکاری طور پر چونسٹھ اور ضلع کے لوگوں کے مطابق اس سے دگنی تعداد کے لوگوں کی زندگی کی ڈور کاٹی، اب اگرچہ سب کچھ اسی کے حق میں تھا، قسمت نے اس کی اپنی ڈور کاٹ دی۔
آپ کو شاید ایسا لگے کہ تین چیزیں میری کمزوری تھیں جبکہ وہ تینوں میری موافقت میں تھیں۔ ان میں ۱۔ بائیں ہاتھ میں انڈے ۲۔ میرے پاس ہلکی رائفل کا ہونا ۳۔ شیرنی کا آدم خور ہونا۔ اگر میرے ہاتھ میں انڈے نہ ہوتے تو شیرنی کو اتنا قریب دیکھتے ہی میں مڑتا اور رائفل کو اس کی طرف پھیرنے کی کوشش کرتا۔ اس طرح شیرنی فوراً جست لگا دیتی جو کہ میری آہستہ آہستہ رائفل کا رخ بدلنے کی وجہ سے نہیں لگائی گئی۔اسی طرح اگر رائفل ہلکی نہ ہوتی تو میرے لئے ایک ہاتھ سے اس کا رخ بدلنا اور پھر ایک ہاتھ کو پوری طرح پھیلائے ہوئے اسے چلانا ناممکن ہوتا۔ آخری بات، اگر شیرنی آدم خور نہ ہوتی تو جونہی اس نے خود کو گھرا ہوا دیکھا تھا، فوراً ہی جست لگا کر مجھے اپنی راہ سے ہٹاتی جاتی۔ شیروں کے اس طرح کسی کو ہٹانے کا مطلب عموماً یقنی موت ہوتا ہے۔
جب تک میرے ساتھی لمبا چکر کاٹ کر بھینسے کو کھولنے اور رسی لانے گئے، جو ایک اور خوش گوار مقصد کے لئے تھا، میں چٹانوں پر چڑھا اور کھائی میں جا کر انڈوں کو ان کے جائز مالک کے پاس واپس کر آیا۔ بے شک آپ یا دیگر شکاری مجھے توہم پرست کہیں تو کہتے رہیں۔ تین مختلف مواقع پر، بہت لمبے عرصے تک، سال بھر تک شیرنی کا پیچھا کرتے رہنے کے باوجود، ہر ممکنہ کاوش کے باوجود، میں شیرنی پر ایک گولی بھی نہ چلا سکا۔ ان انڈوں کو چند منٹ تک اپنے ہاتھ میں لیتے ہی قسمت بدل گئی۔
یہ انڈے جو اب تک میرے بائیں ہاتھ میں بالکل محفوظ اور ابھی تک گرم تھے، میں نے انہیں واپس ان کے گھونسلے میں رکھ دیا۔ نصف گھنٹے بعد جب ہم ادھر سے گذرے تو ان کی ماں ان پر بیٹھ چکی تھی اور اس کا رنگ آس پاس سے اتنا مل گیا تھا اصل جگہ کو جانتے ہوئے بھی میں اسے نہ دیکھ پایا۔
مہینوں کی دیکھ بھال اور نگہداشت کے بعد بھینسا اب ہم سے اتنا مانوس ہو چکا تھا کہ کتے کی طرح ہمارے پیچھے چلتا ہوا آیا اور شیرنی کی لاش کو سونگھ کر اس کے پاس لیٹ کر جگالی کرنے لگا۔ ہم نے درخت کاٹ کر شیرنی کو اس پر لادا۔
میں نے کوشش کی کہ مادھو سنگھ بنگلے میں جا کر کچھ اور افراد لائے لیکن اس نے ایک نہ سنی۔ آدم خورنی کو لے جانے کے فخر میں اس نے کسی اور شریک کرنا مناسب نہ سمجھا۔ مجھے بھی ان کی مدد کرنی پڑی کیونکہ دو بندوں کے لئے لاش بہت بھاری تھی۔ مادھو سنگھ کے خیال میں جگہ جگہ رکتے ہوئے ہم چلتے جائیں تو اتنا زیادہ مشکل نہ ثابت ہو۔ ہم تینوں بہت مضبوط جثے کے افراد تھے۔ دو بچپن سے کڑی محنت کے عادی اور تیسرے کو زندگی نے بہت سخت بنا دیا تھا۔ تاہم پھر بھی یہ کام کسی معجزے سے کم نہ تھا۔
جس راستے سے ہم آئے تھے، بہت تنگ اور بل کھاتا ہوا تھا کہ اس پر شیرنی والا درخت نہ گذر سکتا تھا۔ جگہ جگہ رک کر سانس بحال کرنے اور کپڑے کو اس طرح کندھوں پر رکھتے ہوئے کہ درخت ہمارے گوشت میں نہ کھب جائے، ہم سیدھے پہاڑی پر رس بھری اور دیگر جھاڑیوں سے ہوتے ہوئے چڑھے۔ ان جھاڑیوں میں ہمارے چہرے اور جسموں کی کھال کا کچھ حصہ اٹکا رہ گیا۔ بعد ازاں کئی دن تک نہاتے ہوئے کافی تکلیف رہی۔
سورج ابھی تک آس پاس کی پہاڑیوں پر چمک رہا تھا کہ تھکے ہوئے مگر انتہائی خوش ہم تین افراد کالا آگر کے بنگلے میں پہنچے۔ اس شام سے اب تک اس علاقے میں سینکڑوں مربع میل تک کے علاقے میں کوئی انسان نہیں مارا گیا یا زخمی ہوا جو چوگڑھ کی آدم خور شیرنی نے پانچ سال سے جاری رکھا ہوا تھا۔
مشرقی کماؤں کے اس نقشے پر میں نے ایک اور کانٹا لگا دیا ہے۔ یہ نقشہ میرے سامنے دیوار پر لٹک رہا ہے۔ اس پر وہی تاریخ درج ہے جس تاریخ میں آدم خور ماری گئی۔ یہ کانٹا کالا آگر سے دو میل دور لگا ہے اور اس پر ۱۱ اپریل ۱۹۳۰ کی تاریخ درج ہے۔
شیرنی کے پنجے ٹوٹے اور گھسے ہوئے تھے۔ اس کا ایک بڑا دانت ٹوٹ چکا تھا اور سامنے والے دانت بھی جبڑے کی ہڈی تک گھسے ہوئے تھے۔ انہی معذوریوں کی وجہ سے ہی وہ اپنا فطری شکار نہ جاری رکھ سکی اور اسے آدم خور بننا پڑا تھا۔ وہ خود سے شکار کو فوراً ہلاک کرنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ خصوصاً جب سے میں نے پہلے چکر پر غلطی سے اس کے نوجوان بچی کو مار دیا تھا۔

٭٭٭

پوال گڑھ کا کنوارہ شیر
(۱)
ہمارے سرمائی گھر سے تین میل دور اور جنگل کے عین وسط میں کھلی زمین کا ایک قطعہ ہے جو چار سو گز لمبا اور دو سو گز چوڑا ہے۔ اس پر زمرد جیسی سبز رنگت والی گھاس اگی ہوئی ہے اور بڑے بڑے درخت اس کے آس پاس موجود ہیں جن پر مختلف بیلیں چڑھی ہوئی ہیں۔ اس قطعے سے زیادہ خوبصورت کوئی اور نہیں اسی قطعے میں ہی پہلی بار میں نے اس شیر کو دیکھا جو صوبجات متحدہ میں پوال گڑھ کے کنوارے شیر کے نام سے مشہور تھا۔ ۱۹۲۰ سے ۱۹۳۰ کے دوران بڑے شکار کے شوقین افراد سب سے زیادہ اسی شیر کے پیچھے لگے رہے تھے۔
سردیوں کی اس صبح کو ابھی سورج نکلا ہی تھا جب میں اس اونچی جگہ پہنچا جہاں سے قطعے کا نظارہ ممکن تھا۔ اس کی دوسری جانب سرخ جنگلی مرغیوں کا ایک غول پتوں میں اپنی خوراک تلاش کر رہا تھا۔ یہ جگہ ایک شفاف ندی کے بالکل کنارے پر واقع تھی۔ اس جگہ سبز گھاس پر شبنم کے قطرے سورج کی روشنی میں چمک رہے تھے۔ اسی گھاس پر ۵۰ یا اس سے بھی زیادہ چیتل چر رہے تھے۔ درخت کے تنے پر بیٹھا میں سیگرٹ پیتے ہوئے میں اس منظر سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ کچھ دیر بعد سب سے پیچھے والی مادہ نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور بولی۔ اگلے ہی لمحے یہ شیر جسے بیچلر کہا جاتا تھا، میرے درخت کے نیچے موجود گھنی جھاڑیوں سے نکل کر اس قطعے میں داخل ہوا۔ کافی دیر تک وہ اسی جگہ رکا ہوا اس منظر سے لطف اندوز ہوتا رہا اور پھر آہستہ خرامی سے چلتا ہوا قطعے کو عبور کرنے لگا۔ اس کی خوبصورت کھال سردیوں کی ہلکی دھوپ میں انتہائی خوبصورت لگ رہی تھی۔ چلتے ہوئے وہ بار بار دائیں بائیں جائزہ لیتا اس راہ پر چلتا گیا جہاں سے چیتل ہٹتے جا رہے تھے۔ ندی پر لیٹ کر اس نے اپنی پیاس بجھائی اور چھلانگ لگا کر ندی کو عبور کرتے ہوئے اس کے بعد والے جنگل میں گم ہو گیا۔ جنگل میں داخل ہوتے وقت اس نے تین بار گرج کرجنگل کی تمام مخلوق کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اسے گرمجوشی سے خوش آمدید کہا تھا۔ ہر بار جونہی وہ بولا، تمام جنگلی مرغیاں اور درختوں پر موجود بندر بولے۔
اس روز بیچلر اپنے گھر سے بہت دور تھا۔ ایسے علاقے میں جہاں کے زیادہ تر شیروں کو ہاتھی کی پشت پر بیٹھ کر شکار کیا گیا تھا، اس نے اپنے گھر کا چناؤ بہت احتیاط سے کیا تھا۔ پہاڑی دامن میں موجودنصف میل طویل کھائی جس کے دونوں اطراف ڈھلوان کھائیاں کم از کم ہزار فٹ بلند تھیں، کے ایک سرے پر بیس فٹ بلند آبشار موجود تھی اور دوسرے سرے پر راستہ محض چار فٹ طویل رہ گیا تھا۔ ہر وہ شکاری جو اس شیر کو شکار کرنا چاہتا، اسے پیدل چل کر ہی یہاں آنا تھا۔ اس محفوظ جگہ رہنے اور رات کے شکار پر حکومتی پابندی کی وجہ سے اس شیر نے اپنے کھال کو بہت طویل عرصے تک بچائے رکھا۔
اگرچہ بیچلر کو مارنے کے لئے بہت بار بودے باندھے گئے لیکن کبھی بھی اس پر گولی چلانے کا موقع نہیں مل سکا۔ میرے علم میں دو بار ایسا ہوا تھا کہ بیچلر بال برابر فاصلے سے اپنی موت سے بچا۔ پہلی بار ہانکے کے بعد جب شیر نکلا تو فریڈ اینڈرسن کی رائفل کے سامنے عین اس وقت مچان والی رسی آ گئی جب وہ گولی چلانے والے تھے اور دوسری بار بیچلر ہانکا شروع ہونے سے قبل ہی مچان کے قریب سے گذرا جب ہیوش ایڈی اپنا پائپ بھر رہے تھے۔ دونوں بار ہی ان شکاریوں نے اسے چند فٹ کے فاصلے سے دیکھا اور اینڈرسن کے مطابق یہ شیر شیٹ لینڈ پونی کے برابر اور ایڈی کے خیال میں گدھے جتنا بڑا تھا۔
ان ناکام کوششوں کے بعد سردیوں میں میں ونڈھم کو اپنے ساتھ جنگل میں بیچلر کی رہائش گاہ کے سرے پر لے گیا۔ ہندوستان میں شیروں کے متعلق ونڈھم سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ اس جگہ میں نے علی الصبح بیچلر کے پگ دیکھے تھے۔ ونڈھم کے ساتھ ان کے دو مقامی شکاری بھی تھے۔ ان تینوں نے پگوں کا معائینہ کیا۔ ونڈھم کے مطابق کھونٹوں کے درمیان شیر کی لمبائی ۱۰ فٹ ، پہلے شکاری کے مطابق شیر کی لمبائی نشیب و فراز سے ۱۰ فٹ ۶ انچ دوسرے کے مطابق ۱۰ فٹ ۵ انچ تھی۔ تاہم تینوں کا متفقہ خیال تھا کہ اس سے زیادہ بڑے شیر کے پگ انہوں نے زندگی بھر نہیں دیکھے۔
۱۹۳۰ میں محکمہ جنگلات نے بیچلر کے رہائشی علاقے میں جنگلوں کی کٹائی شروع کر دی۔ اس سے تنگ آ کر بیچلر نے اپنی رہائش بدل دی۔ مجھے اس بارے ان دو شکاریوں نے بتایا جن کے پاس اس علاقے میں شیر کے شکار کے اجازت نامے تھے۔ یہ اجازت نامے ہر ماہ پندرہ دن کے لئے دیئے جاتے تھے۔ اس سال سردیوں میں شکاریوں کی جماعتیں اس شیر کو مارنے کی ناکام کوششیں کرتی رہیں۔
سردیوں کے اختتام پر ڈاک کے ہرکارے نے مجھے آ کر بتایا کہ اس نے صبح کو ایک بہت بڑے شیر کے پگ دیکھے۔ اتنے بڑے پگ اس نے ۳۰ سال کے دوران نہیں دیکھے تھے۔ یہ ہرکارہ ہر روز صبح اور شام کو ہمارے گاؤں سے گذرتا تھا۔ اس کے مطابق یہ شیر مغرب سے آیا اور سڑک پر دو سو گز تک چلنے کے بعد بادام کے درخت کے پاس سے مشرق کو مڑ گیا۔ یہ درخت ہمارے گھر سے دو میل دور تھا اور مشہور درخت تھا۔ جس راستے پر شیر گیا تھا وہ راستہ نصف میل گھنے جنگلوں سے گذرنے کے بعد ایک بڑے نالے سے ہوتا ہوا پہاڑ کے دامن میں مڑ کر گھنے جنگل سے بھری ہوئی وادی کو جاتا ہے۔ یہ جگہ شیروں کی پسندیدہ رہائش گاہ ہے۔
اگلے روز صبح سویرے میں روبن کے ساتھ اس نیت سے نکلا تاکہ وادی میں اس جگہ جہاں پگڈنڈی وادی میں داخل ہوتی ہے، کو دیکھوں ۔ یہاں وادی میں جانے اور وادی سے آنے والے تمام جانور گذرتے ہیں۔ جونہی ہم گھر سے نکلے تو روبن کو پتہ چل گیا تھا کہ ہم کسی خاص مہم کے لئے جا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے اس نے شور مچاتی جنگلی مرغی، ہمیں قریب آنے دینے والے کاکڑ اور ہمیں دیکھ کر شور مچانے والے دو سانبھروں کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ جہاں مویشیوں کی پگڈنڈی وادی میں داخل ہوتی ہے اور زمین سخت ہو جاتی ہے، اس جگہ پہنچ کر روبن نے اپنا سر جھکایا اور پوری احتیاط سے زمین اور آس پاس کے پتھروں کو سونگھا۔ میرا اشارہ پاتے ہی وہ آگے ہوا اور مجھ سے ایک گز آگے چلتا ہوا بڑھا۔ اس کے انداز سے ظاہر تھا کہ وہ شیر کی تازہ بو کا پیچھا کر رہا ہے۔ سو گز مزید نیچے جا کر جہاں پگڈنڈی چوڑی ہو جاتی ہے، نرم زمین پر میں نے شیر کے پگ دیکھے۔ ایک ہی جھلک سے مجھے تسلی ہو گئی کہ یہ پگ بیچلر کے ہی ہیں جو ہم سے بمشکل ایک یا دو منٹ پہلے یہاں سے گذرا ہے۔
نرم زمین سے گذرنے کے بعد راستہ ۳۰۰ گز تک پتھروں سے ہوتا ہوا پھر کھلے میدان میں جا داخل ہوتا ہے۔ اگر شیر راستے پر ہی چلتا رہا ہو تو اس کھلے قطعے میں ہم اسے دیکھ سکتے تھے۔ ابھی ہم پچاس گز مزید آگے گئے ہوں کہ روبن نے رک کر اپنا سر اٹھایا اور راستے کے بائیں جانب گھاس کے ایک پتے کو اوپر سے نیچے اور پھر نیچے سے اوپر سونگھا۔ پھر راستہ چھوڑ کر گھاس میں داخل ہو گیا۔ یہ گھاس دو فٹ بلند تھی۔ گھاس کے دوسرے سرے پر چالیس فٹ چوڑی ایک کانٹے دار جھاڑی تھی۔ عموماً یہ جھاڑی انتہائی گھنی اور پانچ فٹ تک اونچی ہوتی ہے۔ اس کے پتے چوڑے اور اتنے گھنے نہیں ہوتے۔ پھول بھی گچھوں کی شکل میں لٹکتے ہیں۔ شیر، سانبھر اور سور اس کے سائے کو بہت پسند کرتے ہیں۔ جب روبن یہاں پہنچا تو رکا اور مڑ کر میری طرف آیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اسے جھاڑی میں دکھائی نہیں دے رہا اس لئے میں اسےگود میں اٹھا لوں۔ اسے اٹھا کر میں نے اس کی پچھلی ٹانگیں اپنی بائیں جیب میں ڈالیں جبکہ اس نے اگلے پنچے میرے بائیں شانے پر رکھ دیئے۔ اس طرح وہ پوری طرح محفوظ تھا اور میرے دونوں ہاتھ بھی رائفل کے استعمال کے لئے آزاد تھے۔ اس حالت میں روبن نے کبھی بھی، چاہے اس نے کچھ بھی دیکھا ہو یا گولی چلانے سے قبل یا گولی چلانے کے بعد ہمارے شکار نے چاہے جو کچھ بھی کیا ہو، روبن اپنی جگہ سے نہیں ہلا اور نہ ہی میرا نشانہ خراب کیا۔ میں اس جھاڑی میں گھسا اور آہستگی سے آگے بڑھا۔ میں نے ابھی نصف فاصلہ ہی طے کیا ہوگا کہ اچانک میں نے اپنے سامنے کی جھاڑیاں ہلتی دیکھیں۔ شیر کو جھاڑی سے نکلنے کا موقع دے کر میں آگے بڑھا تاکہ کھلے میدان میں شیر کو دیکھ سکوں تاہم شیر گم ہو چکا تھا۔ روبن کو نیچے اتارا تو اس نے سونگھ کر مجھے بتایا کہ شیر بائیں جانب کی ایک تنگ اور گہری کھائی میں اترا ہے۔ یہ کھائی آگے جا کر ایک وادی میں ختم ہوتی ہے جہاں کئی غار ہیں۔ ان غاروں میں شیر بکثرت رہائش رکھتے ہیں۔ چونکہ قریب سے شیر کے حملے کا سامنا کرنے کے لئے میرے پاس مناسب رائفل نہیں تھی اور ناشتے کا وقت بھی ہو رہا تھا، میں اور روبن واپس لوٹے۔
ناشتے کے بعد میں اعشاریہ ۴۵۰ بور کی رائفل کے ساتھ اکیلا واپس لوٹا۔ جونہی میں اس پہاڑی کے نزدیک پہنچا جہاں سے مقامی افراد گورکھوں کے حملے کا سامنا کرتے رہے تھے تو مجھے کسی آدمی کے چلانے اور بھینسوں کی گھنٹی کی آواز سنائی دی۔ یہ آوازیں اسی پہاڑی کے اوپر سے آ رہی تھیں جہاں زمین نصف ایکڑ جتنی مسطح ہے۔ جب میں پہاڑی پر چڑھا تو دیکھا کہ ایک آدمی درخت پر چڑھا ہوا کلہاڑی کے دستے کو درخت پر مار کر شور کر رہا ہے۔ درخت کے تنے کے آس پاس بہت ساری بھینسیں جمع تھیں۔ جب اس بندے نے مجھے دیکھا تو اس نے شور مچانا بند کر دیا اور مجھے بتایا کہ شکر ہے کہ میں بروقت پہنچا۔ ورنہ اونٹ کے برابر شیطان شیر اسے کئی گھنٹوں سے تنگ کر رہا تھا۔ اس کی بیان کردہ کہانی سے پتہ چلا کہ جب میں اور روبن واپس لوٹے تو اس بندے نے اپنی بھینسوں کے لئے بانس کے پتے کاٹنا شروع کیئے۔ فوراً ہی اس نے ایک شیر کو اپنی جانب آتے دیکھا۔ اس نے اسے دیکھتے ہی شور مچایا جیسا کہ عام لوگ شیروں کو بھگانے کے لئے کرتے ہیں۔ بھاگنے کی بجائے شیر غرانے لگا۔ فوراً ہی یہ بندہ بھاگا اور قریبی درخت پر چڑھ گیا۔ شیر نے اس کی چیخوں اور شور پر کوئی توجہ نہ دی اور درخت کے چکر کاٹنے شروع کر دیئے۔ بھینسوں نے درخت کے گرد جمع ہو کر اپنا رخ شیر کی طرف کر دیا۔ شاید شیر نے مجھے آتے سنا اس لئے چند لمحے قبل ہی چلا گیا تھا۔ یہ بندہ میرا پرانا دوست تھا اور نمبردار سے جھگڑے سے قبل اس کی بندوق سے بہت زیادہ ناجائز شکار کھیل چکا تھا۔ اس نے درخواست کی کہ میں اسے اور اس کی بھینسوں کو بحفاظت جنگل سے باہر لے جاؤں۔ اسے آگے چلنے کا کہہ کر میں اس کے پیچھے چلنے لگا تاکہ اگر کوئی بھینس بھٹک جائے تو اسے ساتھ لے آؤں۔ ابتداء میں ساری بھینسیں دائرے کی صورت میں ہی اکٹھی رہیں تاہم کچھ دیر بعد ہم انہیں لے کر چل پڑے۔ ابھی ہم نے اس جنگل میں نصف راستہ ہی طے کیا ہوگا کہ مجھے محسوس ہوا کہ شیر ہماری دائیں جانب سے بولا ہے۔ میرے ساتھی نے اپنی رفتار تیز کر دی اور میں نے بھی بھینسوں کو تیز چلنے کا اشارہ کیا۔ ہمارے سامنے ابھی ایک میل جتنا انتہائی گھنا جنگل موجود تھا جس کے بعد ندی کے پار کھلا میدان شروع ہو جاتا تھا جو ان کے لئے محفوظ تھا۔ یہاں اس کا گاؤں بھی موجود تھا۔
میرے شناسا مجھے شکاری سے زیادہ فوٹوگرافر کی حیثیت سے جاننے لگ گئے ہیں۔ قبل اس کے کہ میں اپنے اس دوست سے جدا ہوں، اس نے مجھ سے درخواست کی کہ اس بار میں کیمرہ ایک طرف رکھ کر رائفل اٹھاؤں اور اس شیطان شیر کو ہلاک کر دوں۔ اگر یہ شیر ایک بھینس روز کھائے تو پچیس روز میں اس کا سارا گلہ ختم کر دے گا۔ میں نے اپنی سی پوری کوشش کرنے کا وعدہ کیا اور اس طرف چل پڑا جہاں ایسا تجربہ میرا انتظار کر رہا تھا جس کی تمام تر جزیات میرے ذہن میں نقش ہیں۔
کھلے میدان میں پہنچ کر میں زمین پر بیٹھ گیا تاکہ جب شیر بولے یا کوئی جنگلی جانور بولیں تو مجھے شیر کے محل وقوع کا علم ہو جائے۔ اس وقت تین بج رہے تھے اور سورج کی تمازت راحت دے رہی تھی۔ اپنے گھٹنوں پر سر جھکانے کے بعد میں ابھی چند منٹ غنودگی کے عالم میں رہا ہوں گا کہ شیر کی آواز سے بیدار ہو گیا۔ اس کے بعد شیر نے وقفے وقفے سے بولنا شروع کر دیا۔
پہاڑوں اور میدانوں کے درمیان ایک پٹی سی ہے جو نصف میل چوڑی جنگل سے بھری ہوئی ہے۔ کئی سو میل تک اتنا گھنا جنگل کہیں اور نہیں۔ میں نے اندازہ لگایا کہ شیر اسی پٹی میں دوسری جانب موجود ہے جہاں سے اس کا فاصلہ یہاں سےپون میل ہوگا۔ اس کے بولنے کے انداز سے مجھے یہی محسوس ہوا کہ شیر ملاپ کے لئے جوڑے کی تلاش میں نکلا ہوا ہے۔
جہاں میں بیٹھا تھا، وہاں سے نزدیک اور اس قطعے کے بالائی بائیں جانب سےا یک راستہ شروع ہوتا تھا جو کئی سال قبل جنگل کی کٹائی اور لکڑی کی منتقلی کے لئے استعمال ہوتا رہا تھا اور یہ راستہ آگے چل کر مجھے تقریباً وہیں لے جاتا جہاں اس وقت شیر موجود تھا۔ اگر میں یہ راستہ اپناتا تو براہ راست شیر تک پہنچ سکتا تھا تاہم وہاں گھاس بہت لمبی تھی اور روبن کی مدد کے بغیر میرے لئے شیر کو تلاش کرنا تقریباً ناممکن ہوتا۔ اس لئےشیر کی جانب جانے کی بجائے میں نےا سے بلانے کا فیصلہ کیا۔ میں شیر سے اتنا دور تھا کہ وہ مجھے نہ سن سکتا۔ اس لئے میں اس راستے پر چند سو گز تک بھاگا اور پھر رائفل زمین پر رکھ کر ایک اونچے درخت پر چڑھا اور تین بار بولا۔ فوراً ہی بیچلر کا جواب آیا۔ نیچے اتر کر میں واپس بھاگا اور بار بار آواز نکالتا جا رہا تھا۔ جب میں اس قطعے پر واپس پہنچا تو مجھے چھپنے کے لئے کوئی مناسب جگہ نہ ملی۔ مجھے یہ جگہ جلد ہی تلاش کرنی تھی۔ ایک چھوٹے سے گڑھے کو نظر انداز کرتے ہوئے جہاں کالا اور بدبودار پانی کھڑا تھا، میں کھلے میدان میں ایک جگہ لیٹ گیا۔ یہ جگہ اس مقام سے بیس گز دور تھی جہاں یہ راستہ گھاس میں داخل ہوتا تھا۔ اس جگہ سے مجھے راستہ پچاس گز تک دکھائی دیتا تھا اور اس کے بعد جھاڑیوں کی وجہ سے نظروں سے اوجھل ہو جاتا تھا۔ جیسا کہ میرا اندازہ تھا، شیر اسی راستے سے آتا اورمیں نے فیصلہ کیا کہ جونہی شیر دکھائی دیا فوراً ہی گولی چلا دوں گا۔
رائفل کو کھول کر اور کارتوسوں کو دیکھ کر میں نے اطمینان کیا کہ رائفل بھری ہوئی ہے۔ پھر میں نے سیفٹی کیچ اتار کر نرم زمین پر کنیو ں کے بل لیٹتے ہوئے میں شیر کا انتظار کرنے لگا۔ اس میدان میں پہنچ کر میں نے پھر سے شیرنی کی آواز نہیں نکالی تھی اور اب میں نے ایک ہلکی سی آواز سے شیر کو اپنے موجودہ مقام سے آگاہ کیا۔ فوراً ہی سو گز کے فاصلے سے شیر کا جواب آیا۔ اگر وہ اپنی موجودہ رفتار سے آیا تو تیس سیکنڈ کے اندر اندر وہ مجھے دکھائی دے جاتا۔ میں نے بہت آہستگی سے گننا شروع کیا اور اسی تک گنا کہ اچانک دائیں جانب جھاڑیوں میں حرکت دکھائی دی۔ اس جگہ جھاڑیاں مجھ سے محض دس گز دور تھیں۔ اپنی آنکھیں اس طرف گھماتے ہوئے دیکھا کہ ایک بہت بڑے شیر کا سر جھاڑیوں کے اوپر سے نکلا ہوا ہے۔ اس جگہ جھاڑیاں چار فٹ بلند تھیں۔ اگرچہ شیر محض ایک یا دو فٹ جتنا جھاڑیوں کےا ندر تھا لیکن مجھے اس کا سر ہی دکھائی دے رہا تھا۔ بہت آہستگی سے میں نے رائفل گھمائی اور جونہی دیدبان سے میں نے شست باندھی، مجھے محسوس ہوا کہ شیر کا سر بالکل میری سیدھ میں نہیں ہے۔ چونکہ میں نیچے لیٹا ہوا تھا اور شیر کا سر بلندی پر تھا اور مجھے اوپر کی طرف گولی چلانی تھی تو میں نے اس کی دائیں آنکھ سے ایک انچ نیچے کا نشانہ لیا اور گولی چلا دی۔ اس کے بعد اگلے نصف گھنٹے تک خوف کے مارے میرا دم نکلا رہا۔
جیسا کہ میں نے سوچا تھا، اسی جگہ گرنے کی بجائے شیر سیدھا ہوا میں اچھلا اور کمر کے بل جھاڑیوں پر گرا۔ اس جگہ ایک فٹ چوڑا درخت تھا کسی طوفان میں گر گیا تھا۔ تاہم ابھی یہ درخت سبز تھا۔ ناقابل یقین غصے سے شیر نے دھاڑ پر دھاڑ لگاتے ہوئے اس درخت کے پرزے پرزے کرنا شروع کر دیئے جیسے کہ یہ درخت ہی اس کا دشمن ہو۔ درخت کی شاخیں ایسے ہوا میں اچھل رہی تھیں جیسے کوئی گردباد انہیں اچھال رہا ہو اور میری طرف جھاڑیاں ہل رہی تھیں۔ ہر لحظہ مجھے یہی ڈر تھا کہ شیر اب ان جھاڑیوں سے نکلا کہ تب۔ جب میں نے گولی چلائی تو شیر براہ راست مجھے دیکھ رہا تھا اور اسے بخوبی علم تھا کہ میں کہاں ہوں۔
میں اتنا دہشت زدہ تھا کہ رائفل کو دوبارہ بھرنے کی ہمت نہ کر سکا مبادا کہ شیر اس آواز سے میری طرف متوجہ ہو جائے۔ نصف گھنٹے تک بائیں نالی کی لبلبی پر انگلی رکھے اور پسینے سے شرابور میں اسی جگہ بے حس و حرکت لیٹا رہا۔ آخر کار درخت کی شاخوں اور جھاڑیوں کا ہلنا بند ہوا اور شیر کی دھاڑیں بھی کم ہوتی گئیں اور ان کے بند ہوتے ہی میں نے سکون کا سانس لیا۔ مزید نصف گھنٹے تک میں بے حس و حرکت لیٹا رہا حتٰی کہ میرے بازو رائفل کے بوجھ سے شل ہو گئے۔ پھر میں نے اپنے پنجوں کی مدد سے خود کو پیچھے کی طرف کھینچنا شروع کر دیا۔ تیس گز تک اسی طرح حرکت کرنے کے بعد میں اٹھا اور جھک کر چلتے ہوئے نزدیک درخت پر چڑھ گیا۔ یہاں میں مزید چند منٹ تک رکا لیکن پھر ہر طرف چھائی ہوئی خاموشی کے سبب اٹھا اور گھر کو چل دیا۔

(۲)
اگلی صبح میں اپنے ایک آدمی کے ساتھ لوٹا۔ یہ آدمی درخت پر چڑھنے کا ماہر تھا۔ پچھلی شام کو میں نے محسوس کیا تھا کہ کھلی زمین کے کنارے پر ایک درخت اگا ہوا تھا اور یہاں سے چالیس گز دور گولی کھا کر شیر گرا تھا۔ ہم یہاں تک بڑی احتیاط سے پہنچے اور میں تنے کے پیچھے رکا جبکہ میرا ساتھی درخت پر چڑھا۔ کافی دیر تک عمیق توجہ سے دیکھتے رہنے کے بعد اس نے سر ہلایا اور نیچے اترا۔ نیچے اتر کر اس نے مجھے بتایا کہ کافی بڑے رقبے پر موجود جھاڑیاں گری ہوئی ہیں لیکن شیر کا کہیں کوئی نشان نہیں۔
میں نے اسے دوبارہ اوپر چڑھنے کا کہا اور بتایا کہ وہ پوری توجہ مرکوز رکھے۔ اگر اسے جھاڑیوں میں کوئی حرکت دکھائی دے تو فوراً مجھے مطلع کرے۔ اس کے بعد میں پوری احتیاط سے ان جھاڑیوں کی طرف گیا جہاں کل شیر نے اپنا غصہ ٹھنڈا کیا تھا۔ شیر کے پاس اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کی معقول وجہ تھی۔ نہ صرف اس نے درخت کی شاخوں اور چھال کو ادھیڑا تھا بلکہ بہت ساری جھاڑیوں کو اس نے یا تو جڑ سے اکھاڑ کر یا کاٹ کر پھینک دیا تھا۔ ہر جگہ خون ہی خون بکھرا ہوا تھا اورزمین پر دو جگہوں پر جمے ہوئے خون کے دائرے دکھائی دیئے۔ ان میں سے ایک دائرے کے پاس میں نے دو مربع انچ حجم کی ایک ہڈی اٹھائی۔ معائینے سے میں نے اندازہ لگایا کہ یہ ہڈی شیر کی کھوپڑی کی ہے۔
اس جگہ کے بعد سے خون کے نشانات ختم ہو گئے تھے۔ یہ اس بات کی دلالی کرتے تھے کہ شیرزندہ ہے اور اگر میں نے کل یہاں سے نکلتے وقت ہر ممکن احتیاط نہ برتی ہوتی تو شاید میں آج زندہ نہ ہوتا کیونکہ جب میں یہاں سے کھسکنے لگا تو میں دنیا کے سب سے خطرناک جانور یعنی تازہ زخمی شیر سے محض دس گز دور تھا۔ اس جگہ دائرے میں گھومنے سے میں کہیں کہیں خون کے دھبے دیکھے۔ غالباً شیر نے یہاں اپنا منہ رگڑا ہوگا۔ ان نشانات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ یہ نشانات دو سو گز دور سیمل کے ایک بڑے درخت کو جا رہے ہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل میں پیچھے ہٹا اور اپنے ساتھی والے درخت پر چڑھا تاکہ اس جگہ داخل ہونے سے قبل اس کا طائرانہ جائزہ لے سکوں۔ مجھے یہ خلش ستا رہی تھی جب میں اس جگہ جاؤں گا تو شیر ابھی زندہ ہوگا۔ سر کے زخم کے ساتھ شیر کئی دنوں تک زندہ رہ سکتے ہیں اور کبھی کبھار تو وہ بالکل بھی تندرست ہو جاتے ہیں۔ بے شک اس شیر کی کھوپڑی کا کچھ حصہ گم تھا لیکن مجھے اس طرح کے زخمی شیر کے سامنے کا کوئی سابقہ تجربہ نہ تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ شیر چند گھنٹوں یا چند دنوں تک زندہ رہے یا پھر بہت برس زندہ رہ کر اپنی فطری موت مرے۔ اس وجہ سے میں نے اس شیر کو معمولی زخمی شیر کے طور پر لیا اور ہر ممکن طور پر خطرے سے بچتے ہوئے اس کا پیچھا کرنے کا فیصلہ کیا۔
درخت پر اس بلند جگہ سے میں نے دیکھا کہ سیمل کے درخت کی جانب سیدھی لکیر سے تھوڑا سا بائیں جانب دو اور درخت ہیں۔ نزدیکی درخت خون کے نشانات سے ۳۰ گز جبکہ دوسرا مزید ۵۰ گز دور تھا۔ اپنے ساتھی کو درخت پر چھوڑ کر میں نیچے اترا، رائفل، بندوق اور سو کارتوسوں کا تھیلا اٹھایا اور بہت احتیاط سے نزدیکی درخت پر چڑھ کر تیس فٹ کی بلندی پر بیٹھ گیا۔ پھر میں نے رائفل اور بندوق او پر کھینچا جو پہلے سے ہی میں نے ڈوری سے باندھی ہوئی تھیں۔ رائفل کو درخت کے دو شاخے پر اس طرح جما کر کہ فوراً اٹھا کر گولی چلا سکوں، میں نے بندوق سے چھروں کو دوسرے درخت کی جڑ تک ہر جگہ مارنا شروع کر دیا۔ میرے ذہن میں یہ خیال تھا کہ اگر شیر زندہ ہے اور اسی علاقے میں ہے تو زخمی شیروں کی طرح اپنے پاس بندوق چلنے کی آواز سن کر یا کوئی چھرا لگنے کی وجہ سے یا تو حملہ کرے گا یا پھر غرائے گا۔ شیر کی موجودگی کی کوئی اطلاع نہ پا کر میں نے دوسرے درخت کا رخ کیا اور وہاں سے سیمل کے درخت سے چند گز دور تک پھر چھرے مارے۔ آخری کارتوس میں نے سیمل کے درخت پر چلایا۔ اس کارتوس کے چلانے کے بعد مجھے محسوس ہوا جیسا کہ شیرہلکی آواز سے غرایا ہو۔ تاہم چونکہ یہ آواز دوبارہ نہ آئی تو میں نے اسے تخیل پرمحمول کیا۔ چونکہ کارتوسوں کا تھیلا ختم ہو گیا تھا، میں نے دوسرے ساتھی کو درخت سے اتارا اور گھر چل پڑا۔
جب میں دوسری صبح لوٹا تو میرا بھینسوں والا دوست کھلے میں میں اپنی بھینسیں چرا رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے سکون کا سانس لیا۔ اس کی وجہ مجھے بعد میں معلوم ہوئی۔ گھاس ابھی تک شبنم سے نم تھی لیکن ایک خشک جگہ دیکھ کر ہم سیگرٹ پینے اور گپ شپ کے لئے بیٹھ گئے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا، میرا یہ دوست ناجائز شکاری رہ چکا تھا اور چونکہ اس نے ساری زندگی انہی جنگلوں میں گذاری تھی جو شیروں سے پٹے پڑے تھے، اس کا تجربہ کافی تھا۔
کل جب میں اسے کھلے میدان میں چھوڑ کر واپس لوٹا تھا تو اس نے نالا عبور کیا اور پھر اس جانب سے آوازیں سننے بیٹھ گیا جہاں میں واپس گیا تھا۔ اس نے دو شیروں کو بولتے سنا اور پھر میری گولی کی آواز سنی اور پھر دوسرے شیر کو غصے سے غراتے سنا تو اس کے ذہن میں فوری طور پر یہ خیال آیا کہ میں نے ایک شیر کو زخمی کر دیا ہے جس نے حملہ کر کے مجھے ہلاک کر دیا ہے۔ اگلی صبح اسی جگہ لوٹ کر اس نے پورے سو مرتبہ بندوق چلنے کی آوازیں سنیں اور اچھنبے میں پڑ گیا۔ تجسس اتنا بڑھ گیا تھا کہ آج وہ اس معاملے کو تفصیل سے جاننے آ گیا تھا۔ خون کی بو پا کر اس کے بھینسوں نے اس کی رہنمائی اس جگہ تک کی جہاں شیر گرا تھا اور وہاں اس نے خشک خون کے دھبے اور ہڈی کا ٹکڑا پڑا ہوا پایا۔ اس کے خیال میں ایسا جانور جس کی کھوپڑی سے ہڈی کا ٹکڑا ٹوٹ کر الگ ہو چکا ہو، چند گھنٹوں سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسے اس بات کا اتنا یقین تھا کہ اس نے مجھے پیش کش کی کہ ہم اس کی بھینسوں کو لے کر جنگل میں گھسیں اور شیر کی لاش کو ڈھونڈیں۔ بھینسوں کی مدد سے زخمی جانور کو تلاش کرنے کے بارے میں پہلے بھی سن چکا تھا تاہم کبھی اس کو استعمال کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ جب میرے دوست نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اگر اس کی کوئی بھینس زخمی ہوئی یا ماری گئی تو وہ اس کے بدلے مجھ سے رقم لے لے گا تو میں نے حامی بھر لی۔
بھینسوں کا رخ بدل کر، جن کی تعداد ۲۵ تھی، اور انہیں اکٹھا رکھتے ہوئے ہم اس جگہ بڑھے جہاں میں نے کل سو کارتوس چلائے تھے۔ ہم سیدھا سیمل کے درخت کو گئے اور بھینسیں ہمارے پیچھے تھی۔ پیش قدمی کافی سست تھی۔ اس کی وجہ نہ صرف ہماری تھوڑیوں تک بلند گھاس تھی اور ہمیں ہاتھوں سے گھاس کو ہٹا کر قدم رکھنے کے لئے جگہ تلاش کرنی پڑتی تھی بلکہ ہمیں بار بار اس لئے بھی رکنا پڑ رہا تھا تاکہ بھینسیں منتشر نہ ہو جائیں۔ جونہی ہم سیمل کے درخت کے پاس پہنچے تو گھاس کچھ ہلکی ہو چکی تھی اور یہاں میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا نشیب تھا جہاں خشک پتے بچھے ہوئے تھے اور اس میں خون کے دھبے موجود تھے۔ ان میں سے کچھ دھبے خشک، کچھ خشک ہو رہے تھے اور ایک دھبہ بالکل تازہ تھا۔ جب میں نے اس نشیب میں اپنا ہاتھ رکھا تو وہ ابھی تک گرم تھا۔ چاہے یہ بات کتنی ہی عجیب کیوں نہ محسوس ہو، شیر کل اس جگہ لیٹا ہوا تھا جب میں نے یہاں پورے سو کارتوس چلائے تھے۔ اب اس نے یہاں سے اس وقت حرکت کی جب اس نے ہمیں آتے ہوئے دیکھا۔ بھینسوں نے اب خون کو دیکھ لیا تھا اور زمین پر اپنے کھر مار رہی تھیں۔ ایسی صورتحال کہ ایک طرف سے شیر حملہ کر رہا ہو اور دوسری جانب بپھری ہوئی بھینسیں ہوں، مجھے بالکل نہیں جچی۔ فوراً ہی میں نے اپنے دوست کو بازو سے پکڑا اور کھلے میدان کو لوٹ آئے۔ جب ہم محفوظ جگہ پہنچے تو میں نے اپنے دوست سے کہا کہ گھر واپس چلیں اور میں کل اکیلا آ کر اس شیر کا سامنا کروں گا۔
جس راستے سے میں ہر روز گذر کر میں آتا جاتا تھا پر کچھ حصے کی مٹی بالکل نرم تھی۔ چوتھے دن اسی نرم مٹی پر میں نے ایک بڑے نر شیر کے پگ دیکھے۔ ان پگوں کا پیچھا کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ سو گز آگے جا کر شیر سیمل کے درخت سے سو گز کے فاصلے پر گھنی جھاڑیوں میں گھسا ہے۔ یہ صورتحال انتہائی غیر متوقع تھی۔ اگر اب میں کسی شیر کو دیکھتا تو انتہائی قریب جائے بغیر یہ جاننا ممکن نہیں تھا کہ آیا میں زخمی شیر کو دیکھ رہا ہوں کہ دوسرے شیر کو۔ تاہم فی الوقت چونکہ میرے سامنے کوئی شیر نہیں تھا، اس لئے اس بارے سوچنا بے کار تھا۔ میں جھاڑیوں میں گھسا اور سیمل کے درخت کے پاس موجود اس نشیب کو چل پڑا جہاں کل میں نے شیر کی موجودگی کے آثار پائے تھے۔
چونکہ اب یہاں خون کے نشانات نہیں تھے، میں آڑا ترچھا ہو کر چلنے لگا۔ اس جگہ جھاڑیاں اتنی گھنی تھیں کہ چند انچ سے زیادہ آگے دیکھنا ممکن نہ تھا۔ میں گھنٹے سے زیادہ چلتا رہا حتٰی کہ دس فٹ چوڑے نالے پر پہنچا۔ نیچے اترنے سے قبل میں نے اوپر دیکھا تو مجھے ایک شیر کی پچھلی ٹانگ اور دم دکھائی دی۔ شیر اپنی جگہ بالکل ساکت تھا اور اس کا سر اور جسم درخت کے پیچھے چھپے ہوئے تھے۔ صرف ایک ٹانگ ظاہر تھی۔ شیر مجھ سے محض دس گز دور تھا اس لئے گولی چلا کر اس کی ٹانگ توڑ دینا انتہائی آسان کام تھا۔ میں یقیناً گولی چلا دیتا اگر مجھے یقین ہوتا کہ یہ ٹانگ اسی زخمی شیر کی ہے۔ تاہم اس علاقے میں اب دو شیر موجود تھے اور اگر میں غلط شیر کو زخمی کر دیتا تو میری مشکلات دو گنا بڑھ جاتیں۔ پھر شیر نے حرکت کی اور آگے چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد میں اس جگہ پہنچا تو دیکھا کہ وہاں خون کی چند بوندیں موجود تھیں۔ اب یہ سوچ کر افسوس کرنا کہ میں نے گولی چلا کر شیر کی ٹانگ کیوں نہیں توڑ دی، بے کار تھا۔
چوتھائی میل آگے جا کر ایک چھوٹی ندی آتی تھی اور چونکہ شیر کے زخم بھر رہے تھے، شاید وہ اسی ندی پر پانی پینے جائے۔ اسے راستے ہی میں جا لینے کے خیال سے یا پھر ندی پر جا کر گھات لگانے کی نیت سے میں نےا یک پگڈنڈی پکڑی۔ یہ پگڈنڈی جنگلی جانوروں کے چلنے سے بنی تھی اور میں جانتا تھا کہ آگے جا کر یہ پگڈنڈی ندی سے جا گذرتی ہے۔ ابھی میں کچھ ہی فاصلہ چلا ہوں گا کہ میں نے بائیں جانب سانبھر کی خطرے سے متعلق آواز سنی اور پھر سانبھر گھنے جنگل میں بھاگ گیا۔ یعنی شیر اور میں ندی سے یکساں دور تھے۔ چند سیکنڈ بعد مجھے پچاس گز دور اسی جگہ سے کسی بھاری جانور کے پنجے کے نیچے آ کر خشک شاخ ٹوٹنے کی آواز سنائی دی جہاں سے سانبھر بھاگا تھا۔ سانبھر نے پورے جنگل کو شیر کی موجودگی سے خبردار کر دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ شاخ شیر کے پنجے تلے آ کر ہی ٹوٹی تھی۔ فوراً ہی زمین پر لیٹ کر میں نے اسی جانب رینگنا شروع کر دیا۔
یہاں جھاڑیاں چھ سے آٹھ فٹ تک بلند تھیں۔ ان کی اوپری شاخوں پر گھنے پتے جبکہ تنے اور نچلے حصے کافی چھدرے تھے۔ زمین پر لیٹ کر میں تقریباً پندرہ فٹ تک دیکھ سکتا تھا۔ میں نے تیس گز کا فاصلہ طے کیا تھا اور میری خواہش تھی کہ شیر سامنے سے ہی حملہ کرے (کیونکہ میں صرف سامنے ہی کی جانب گولی چلا سکتا تھا)۔ اچانک مجھے کسی سرخ چیز پر سورج چمکتا ہوا دکھائی دیا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی خشک پتہ ہو یا پھر شیر۔ تاہم دو گز دائیں جانب جا کر میں اسے مزید بہتر دیکھ سکتا تھا۔ سر کو اتنا جھکا کر کہ تھوڑی زمین کو لگنے لگی، میں اس طرف رینگنے لگا۔ اس جگہ پہنچ کر میں نے سر اٹھایا تو سیدھا شیر کو اپنے سامنے دیکھا۔ زمین پر جھکا ہوا شیر سیدھا مجھے دیکھ رہا تھا۔ سورج اس کے بائیں شانے پر چمک رہا تھا۔ میری دو گولیاں کھاتے ہی وہ بائیں پہلو پر گرا اور آواز تک نہ نکالی۔
اس کے پاس کھڑے ہو کر میں نے جب اس پر نظریں دوڑائیں تو مجھے اس کے پنجے دیکھنے کی ضرورت نہیں محسوس ہوئی کیونکہ میں جانتا تھا کہ میرے سامنے بیچلر مرا ہوا ہے۔
چار دن قبل لگنے والی گولی کا داخلی سوراخ کھال کی سلوٹ میں چھپ گیا تھا اور سر کی پشت پر بڑا سوراخ تھا جو ناقابل یقین حد تک صاف اور صحت مند دکھائی دے رہا تھا۔
چونکہ میری رائفل کی آواز دور تک سنی گئی ہوگی، میں فوراً ہی گھر لوٹا۔ جب میں نے تفصیل بتاتے ہوئے چائے پی تو میرے آدمی جمع ہونے لگ گئے تھے۔
اپنی بہن اور روبن کے علاوہ میرے ساتھ ۲۰ ساتھی تھے۔ ہم اسی جگہ لوٹے اور شیر کو رسیوں سے باندھنے سے قبل میں نے اپنی بہن کی مدد سے شیر کو سر سے دم تک اور دم سے سر تک ماپا۔ گھر پہنچ کر ہم نے اسے دوبارہ ماپا۔ تاہم کسی آزاد ذریعے کی غیر موجودگی میں ایسی پیمائشیں بے کار ہوتی ہیں، تاہم اصل مقصد بتایا یہ مقصود ہے کہ ماہر شکاری کس طرح جانور کے پگ سے اس کی پیمائش کا بالکل درست اندازہ لگا سکتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ونڈہم نے بتایا تھا کہ دو کھونٹوں کے درمیان شیر کی لمبائی دس فٹ، جو کہ نشیب و فراز شامل کرنے سے دس فٹ چھ انچ بنتی ہے۔ دوسرے شکار نے دس فٹ پانچ انچ نشیب و فراز کو شامل کر کے جبکہ دوسرے نے دس فٹ چھ انچ یا اس سے کچھ زیادہ بتائی تھی۔ ان اندازوں کے سات سال بعد اپنی بہن کی مدد سے جب میں نے ماپا تو شیر کی لمبائی دس فٹ سات انچ نشیب و فراز کو شامل کر کے حاصل ہوئی۔
میں نے اس شیر کے شکار کی کہانی قدرے تفصیل سے سنائی ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وہ شکار جو ۱۹۲۰ سے ۱۹۳۰ کے درمیان شیروں کا شکار کرتے رہے تھے، وہ بیچلر کے مارے جانے کے بارے جاننا چاہیں گے۔

٭٭٭

موہن کا آدم خور
(۱)
ہمالیہ میں ہمارے گرمائی گھر سے اٹھارہ میل دور پہاڑی سلسلہ شروع ہوتا ہے جو شرقاً غرباً نو ہزار فٹ کی بلندی تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے مشرقی سرے پر ڈھلوانیں گھاس سے بھری ہوئی ہیں۔ اس گھاس کے بعد یہ پہاڑی سلسلہ تیزی سے نیچے گرتا ہوا دریائے کوسی تک جا پہنچتا ہے۔
ایک دن اس جگہ کے شمالی طرف واقع گاؤں سے عورتیں اور لڑکیاں گھاس کاٹ رہی تھیں کہ اچانک ایک شیر نمودار ہوا۔ بھگدڑ کے دوران ایک عورت کا پیر پھسلا اور وہ ڈھلوان سے لڑھکتی ہوئی چٹان سے نیچے جا گری۔ ان عورتوں کی بھاگ دوڑ اور چیخوں سے پریشان ہو کر شیر جتنی خاموشی سے آیا تھا، اتنی ہی خاموشی سے غائب ہو گیا۔ جب یہ سب کچھ پرسکون ہوئیں تو انہوں نے اکٹھے ہو کر چٹان سے نیچے جھانکا۔ ان کی ساتھی ذرا نیچے ایک اور چٹان پر پڑی تھی۔
اس عورت نے بتایا کہ وہ سخت زخمی ہے اور حرکت نہیں کر سکتی۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس کی ایک ٹانگ اور کئی پسلیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ کافی غور و خوض کے بعد انہوں نے طے کیا کہ یہ مردوں کا کام ہے۔ انہوں نے زخمی عورت سے کہا کہ وہ گاؤں جا کر مدد لاتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان میں سے کوئی بھی زخمی عورت کے پاس رکنے کو تیار نہیں۔ زخمی عورت نے منتیں کیں کہ کوئی تو رک جائے۔ اس کی بے بسی پر ترس کھاتے ہوئے ایک سولہ سالہ لڑکی رک گئی۔ باقی تمام عورتیں گاؤں روانہ ہو گئیں جبکہ یہ لڑکی راستہ تلاش کر کے نیچے اتری۔
یہ چٹان پہاڑی سے ذرا سا باہر نکلی ہوئی تھی۔ جس جگہ عورت لیٹی تھی، اس کے پاس ہی ایک گڑھا سا تھا۔ زخمی عورت کو یہ خوف تھا کہ کہیں وہ نیچے نہ گر جائے۔ اس نے لڑکی سے کہا کہ وہ اسے کنارے سے ہٹا کر اس گڑھے میں لے جائے۔ اس لڑکی نے بمشکل تمام زخمی عورت کو گڑھے تک پہنچایا۔ گڑھا اتنا چھوٹا تھا کہ اس میں لڑکی کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ وہ مشکل سے سکڑ کر بیٹھ گئی۔
گاؤں چار میل دور تھا۔ دونوں بار بار اندازہ لگاتیں کہ کتنی دیر بعد مدد پہنچ جائے گی۔ عورتوں کو کتنا وقت لگے گا کہ وہ گاؤں پہنچیں اور کتنی دیر میں مرد وغیرہ اکٹھے ہو کر آئیں گے۔
یہ ساری گفتگو سرگوشیوں میں ہو رہی تھی کہ کہیں شیر آس پاس ہو اور ان کی آواز سن کر آ جائے۔ اچانک زخمی عورت نے لڑکی کو سختی سے جکڑ لیا۔ اس عورت کے چہرے پر دہشت کے آثار دیکھ کرلڑکی نے اپنے کندھے کے اوپر سے دیکھا تو کانپ کر رہ گئی۔ شیر نیچے اتر کر ان کی طرف ہی آ رہا تھا۔
میرا خیال ہے کہ ہم میں سے چند ایک ہی ان خوفناک بھیانک خوابوں سے جاگے ہوں گے جب دہشت کے مارے ان کے اعضاء اور حلق بیکار ہو جاتے ہیں۔ بھیانک بلائیں ان کا پیچھا کر رہی ہوتی ہیں۔ خوف ہمارے مسامات سے پسینے کی شکل میں بہہ رہا ہوتا ہے۔ بیدار ہونے پر ہم خدا کا شکر ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اس بے چاری بدقسمت لڑکی کے بس میں اس بھیانک حقیقت سے فرار ممکن نہ تھا۔ اس منظر کا اندازہ کرنے کے لئے زیادہ وقت نہیں لگتا۔ پہاڑی سے نکلی ہوئی چٹان کا سرا جو کہ ایک گڑھے پر جا کر ختم ہوتا ہے، پر دو عورتیں موجود ہیں۔ خوف کے مارے حرکت کرنا بھول جاتی ہیں۔ شیر ان کی طرف آہستگی سے بڑھتا چلا آ رہا ہے۔ فرار کے تمام راستے مسدود ہیں۔
میرا پرانا دوست موٹھی سنگھ اس وقت اسی گاؤں میں اپنی بیمار بیٹی کی تیمارداری کرنے آیا ہوا تھا کہ یہ عورتیں آن پہنچیں۔ وہ بطور سربراہ امدادی جماعت کے ساتھ گیا۔ جب یہ سب لوگ چٹان پر جا کر جھکے تو نیچے صرف بے ہوش عورت اور خون کے نشانات ہی باقی تھے۔
زخمی عورت کو احتیاط سے اٹھا کر یہ لوگ گاؤں واپس لائے۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے اپنی بپتا سنائی۔ موٹھی سنگھ اسی وقت میری طرف روانہ ہو گیا۔ وہ ساٹھ سال سے زیادہ عمر کا تھا۔ میرے پاس اٹھارہ میل چل کر جب وہ پہنچا تو یہ ماننے کو تیار نہ تھا کہ اسے آرام کرنا ہے یا وہ تھکا ہوا ہے۔ ہم اسی وقت روانہ ہو گئے۔ حادثے کو ہوئے چوبیس گھنٹے گذر چکے تھے کہ ہم جائے واردات پر پہنچے۔ میں اب کچھ بھی نہ کر سکتا تھا۔ شیر نے اس بہادر لڑکی کے جسم کی چند ہڈیاں ہی باقی چھوڑی تھیں یا پھر خون آلود کپڑے۔
یہ اس شیر کی پہلی واردات تھی۔ بعد ازاں اسے "موہن کا آدم خور" کا سرکاری نام دیا گیا۔
لڑکی کو مارنے کے بعد شیر سردیوں میں نیچے کوسی وادی چلا گیا اور جاتے ہوئے راستے بھر میں ہلاکتیں کرتا گیا۔ ان میں پبلک ورکس ڈیمپارٹمنٹ کے دو بندے اور ہماری اسمبلی کے ممبر کی بہو بھی شامل تھے۔ گرمیوں میں یہ واپس لوٹ کر اس جگہ آیا جہاں سے اس نے آدم خوری شروع کی تھی۔ اس کے کئی سال بعد تک اس کی شکار گاہ کوسی وادی سے ککری کھاٹ اور گرگیا تک وسیع رہی۔ یہ کل اندازاً چالیس میل بنتے ہیں۔ بعد ازاں یہ موہن کے اوپر کی طرف بھی شکار کرنے لگا۔
ضلعی کانفرنس میں جو کہ میں نے چوگڑھ کے شیروں میں بیان کی تھی، کماؤں کے ضلع میں سرگرم آدم خوروں کی یہ ترجیحی فہرست بنائی گئی: ۱۔ چوگڑھ کے شیر، ۲۔ موہن، ضلع الموڑا، ۳۔ کنڈا، ضلع گڑھوال
چوگڑھ کے شیروں کا خاتمہ کر کے جب میں فارغ ہوا تو بینز نے مجھے یاد دلایا کہ ابھی اس فہرست کا ایک حصہ پورا ہوا ہے۔ موہن کا یہ آدم خور اگلے نمبر پر اپنی باری کا منتظر ہے۔ بینز الموڑہ کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ انہوں نے بتایا کہ شیر کی سرگرمیاں روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ گذشتہ ہفتے اس نے مزید تین انسانی شکار کئے ہیں جو کہ تکنولا گاؤں سے تھے۔ بینز نے مشورہ دیا کہ میں اس گاؤں سے ابتداء کروں۔
میں جب چوگڑھ کے شیروں کے پیچھے تھا تو بینز نے پیشہ ور کئی شکاری اس شیر کے پیچھے لگائے تھے۔ انہوں نے انسانی لاشوں پر بیٹھ کر شیر کا انتظار کیا تھا لیکن انہیں ناکامی ہوتی رہی کیونکہ یہ شیر واپس نہ لوٹتا تھا۔ آخر کار یہ سب واپس لوٹ گئے۔ بینز نے مجھے بتایا کہ اب میں اس شیر کے پیچھے جا سکتا ہوں کہ دیگر تمام شکاری مایوس ہو کر واپس چلے گئے ہیں۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ آدم خور کے تعاقب میں ایک سے زیادہ شکاری نہ جائیں۔ آدم خور کا تعاقب کرتے وقت انتہائی گھبراہٹ میں ایک شکاری غلطی سے دوسرے شکاری کو بھی ہلاک کر سکتا ہے۔

(۲)
مئی کی ایک جھلساتی دوپہر تھی جب میں اپنے دو ملازموں اور چھ گڑھوالیوں کے ہمراہ نینی تال سے آنے والی ٹرین سے رام نگر کے سٹیشن پر اترا۔ یہاں سے ہم چوبیس میل کے پیدل سفر پر کرتکالہ کو روانہ ہوئے۔ ہماری پہلی منزل سات میل دور گرگیا تھی جہاں ہم شام کو پہنچے۔ بینز کا خط کچھ اس وقت ملا تھا کہ روانہ ہونے سے قبل مجھے ڈاک بنگلہ استعمال کرنے کی اجازت لینے کا وقت نہ ملا۔ اس وجہ سے ہم لوگ کھلی جگہ خیمہ لگا کر سو گئے۔
گرگیا میں دریائے کوسی کے کنارے کئی سو فٹ بلند ایک چٹان موجود ہے۔ جب میں سونے لگا تو اس طرف پتھر لڑھکنے کی آوازیں آنے لگیں جیسے پتھر لڑھکتے ہوئے دوسرے پتھروں سے ٹکرا رہے ہوں۔ کچھ دیر بعد مجھے اس آواز سے تشویش ہونے لگی۔ جب چاند نکلا اور اتنی روشنی ہو گئی کہ میں سانپ وغیرہ کو دیکھ کر ان سے بچ کر چل سکتا تھا تو میں آواز کی جانب بڑھا۔ آگے چل کر علم ہوا کہ یہ آواز سڑک کے کنارے ایک دلدل کے مینڈک پیدا کر رہے ہیں۔ میں نے خشکی، پانی حتٰی کہ درخت پر رہنے والے دنیا کے مختلف حصوں میں مینڈکوں کی آوازیں سنی ہیں لیکن جتنی عجیب آوازیں گرگیا کے مینڈک مئی کے مہینے میں پیدا کر رہے تھے، کہیں اور نہیں سنی۔
علی الصبح جب ہم موہن روانہ ہوئے تو ابھی دن گرم ہو رہا تھا کہ وہاں پہنچ گئے۔ یہ کل بارہ میل کا سفر تھا۔ جتنی دیر میں میرے ہمراہیوں نے اپنے لئے کھانا اور میرے ملازمین میرے لئے ناشتہ بنانے لگے، بنگلے کے چوکیدار، دو فارسٹ گارڈوں اور کئی مقامی لوگوں نے مجھے آدم خور کی داستانیں سنا سنا کر کافی محظوظ کیا۔ سب سے مزے کی داستان وہ تھی جس میں ایک مقامی مچھیرا اور ایک مقامی فارسٹ گارڈ موجود تھے۔ فارسٹ گارڈ نے خود کو اس کہانی کا ہیرو ظاہر کیا۔ اس نے مزے لے لے کر مجھے یہ داستان سنائی کہ کس طرح وہ ایک مقامی مچھیرے کے ہمراہ جا رہا تھا کہ ایک موڑ مڑتے ہوئے اس نے آدم خور شیر کو دیکھا۔ پھر اچانک مچھیرے نے فارسٹ گارڈ کی بندوق چھینی اور دونوں ہی سر پر پیر رکھ کر بھاگے۔ میں نے پوچھا کہ کیا تم نے پیچھے مڑ کر دیکھا؟ میری سادہ لوحی پر ترس کھاتے ہوئے اس نے جواب دیا کہ نہیں صاحب، جب آدم خور تعاقب میں ہو تو پیچھے مڑ کر دیکھنے کا کسے ہوش رہتا ہے۔ پھر اس نے بتایا کہ مچھیرا جو اس سے آگے تھا، اچانک گھاس میں سوئے ہوئے ایک ریچھ پر چڑھ گیا۔ پھر ان کی بدحواسی، ریچھ اور شیر کا مشترکہ ہنگامہ، غرض عجیب منظر تھا۔ جس کا منہ جس طرف اٹھا، ادھر کو بھاگ لیا۔ کافی دیر بعد مچھیرا جب واپس فارسٹ گارڈ کے پاس پہنچا۔ یہاں گارڈ نے اسے خوب لعن طعن کی کہ وہ کیسے اسے نہتا کر کے اور ریچھ اور آدم خور کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ فارسٹ گارڈ نے کہانی ختم کرتے ہوئے بتایا کہ اس سے اگلے روز مچھیرا بستی چھوڑ کر چلا گیا کیونکہ اس کی ٹانگ ریچھ سے ٹکرانے سے زخمی ہو گئی تھی اور یہ کہ دریائے کوسی سے مچھلیاں بھی ختم ہو گئی تھیں۔
دوپہر کو ہم مزید سفر کے لئے تیار تھے۔ پورا گاؤں اکھٹا ہو کر ہمیں الوداع کہنے اور خبردار کرنے آیا۔ ان کے خیال کے مطابق گھنے جنگل میں آدم خور ہمارا منتظر ہوگا۔ ہم اب کرتکالہ کی جانب چار ہزار فٹ کی چڑھائی کے لئے روانہ ہو گئے۔
ہماری پیش قدمی کافی سست تھی کیونکہ میرے ساتھی بھاری سامان اٹھائے ہوئے تھے اور چڑھائی بہت سخت تھی۔ گرمی کا تو پوچھئے مت۔ اس جگہ کچھ عرصہ قبل بدامنی پھیل گئی تھی اور اسے رفع کرنے کے لئے پولیس کا ایک چھوٹا سا دستہ بھیجنا پڑا تھا۔ مجھے ہدایت کی گئی تھی کہ میں اپنی ضرورت کی ہر چیز اپنے ساتھ ہی لے کر چلوں کیونکہ شورش کے باعث شاید مجھے کوئی چیز بھی مقامی طور پر نہ مل سکے۔ یہی ضروریات ہی وہ بھاری بوجھ تھیں جس کے تلے دبے میرے ساتھی ہانپ رہے تھے۔
کئی جگہوں پر رکتے رکتے ہم لوگ سہہ پہر کے بعد ایک مزروعہ قطعے تک پہنچ گئے۔ ابھی چونکہ ہم آدم کور کے علاقے سے باہر تھے، میں اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر بے خطر اس جھونپڑے کی طرف چل دیا جو موہن سے صاف دکھائی دے رہا تھا۔ مجھے فارسٹ گارڈ نے بتایا تھا کہ یہ میرے قیام کے لئے بہترین جگہ ہوگی۔
یہ جھونپڑا موہن پر جھکی چٹان پر بنا ہوا تھا۔ میں عام راستے سے چلتا ہوا اس کے قریب پہنچا۔ ایک کھڈ سے بچتے ہوئے جونہی میں مڑا تو ایک عورت دکھائی دی جو چشمے سے گھڑا بھر رہی تھی۔ چونکہ میں بے آواز چلتا ہوا اس سے کافی قریب پہنچ گیا تھا اور میرا اچانک اسے مخاطب کرنا خوفزدہ کر دیتا، میں ہلکا سا کھانسا اور چند گز دور رک کر سیگرٹ سلگانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے منہ دوسری طرف کئے ہوئے اس سے پوچھا کہ کیا اس وقت اور اس جگہ کسی فرد کا اکیلا پانی بھرنے کا فیصلہ دانش مندی ہے؟ چند لمحے رک کر اس نے جواب دیا کہ واقعی یہ محفوظ جگہ نہیں۔ لیکن پانی بھرنا لازمی تھا اور گھر میں کوئی مرد بھی نہیں تو اسے اکیلے ہی آنا پْڑا۔ میں نے پوچھا کہ کیا واقعی گھر میں کوئی مرد نہیں؟ اس نے جواب دیا کہ مرد تو ہے لیکن وہ کھیت میں ہل چلا رہا ہے۔ دوسرا پانی بھرنا عورتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پھر گھڑا بھرنے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے، بمشکل چند منٹ۔ اب یہ عورت اپنی جھجھک اور گھبراہٹ پر قابو پا چکی تھی اس لئے اب اس نے سوالات کرنے کا سوچا۔
کیا آپ پولیس والے ہیں؟
نہیں!
کیا آپ فارسٹ آفیسر ہیں؟
نہیں!
پھر کون ہیں؟
ایک آدمی!
کیوں آئے ہیں؟
آدم خور کو مارنے
آدم خور کے بارے مجھے کیسے علم ہوا؟
اکیلا کیوں آیا ہوں؟
میرے دوسرے ساتھی کہاں ہیں؟
وہ کل کتنے افراد ہیں؟
میں کب تک رکوں گا؟
وغیرہ وغیرہ
اس عورت نے جب تک یہ تمام سوالات نہ کر لئے، اس نے گھڑا بھرے جانے کے بارے نہیں بتایا۔ پھر اس نے میرے پیچھے چلتے ہوئے مجھے بتایا کہ پہاڑی کی جنوبی طرف ڈھلان
پر ایک درخت کے نیچے سے آدم خور تین روز قبل ایک عورت کو لے گیا تھا۔ اس نے مجھے وہ درخت دکھایا۔ یہ جگہ فارسٹرز ہٹ سے بمشکل دو یا تین سو گز دور ہوگی۔ اب ہم پہاڑ کے اوپر جانے والی پگڈنڈی پر آ گئے۔ اس نے مجھے بتایا کہ اب وہ بالکل محفوظ ہے کیونکہ اگلے موڑ پر ہی اس کا گاؤں ہے۔
آپ میں سے وہ افراد جو ہندوستانی خواتین کو جانتے ہیں، بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ میں نے کتنا بڑا معرکہ سر کر لیا تھا۔ خصؤصاً اس بات کے حوالے سے کہ حال ہی میں مقامی افراد کی پولیس سے جھڑپیں ہوئی تھیں۔ ایک عورت کو خوفزدہ کئے بغیر، ورنہ میں پورے گاؤں کو اپنا دشمن بنا لیتا، گھڑا بھرتے ہوئے اس کے پاس رک کر اور چند سوالات کے جواب دے کر میں نے ایک ایسا دوست بنا لیا تھا جو پورے گاؤں میں کچھ ہی دیر میں میری آمد سے آگاہ کر دے گا کہ میں کوئی افسر نہیں بلکہ میرے آنے کا واحد مقصد آدم خور سے ان لوگوں کی جان چھڑانا ہے۔

(۳)
فارسٹرز ہٹ سڑک سے بیس گز دور بائیں جانب ایک چھجے نما چٹان پر تھا۔ اس کا دروازہ زنجیر لگا کر بند کیا گیا تھا۔ میں اسے کھول کر اندر داخل ہوا۔ کمرہ دس مربع فٹ ہوگا اور بالکل صاف ستھرا تھا۔ البتہ اس سے پھپھوندی کی بو آ رہی تھی۔ مجھے بعد ازاں علم ہوا کہ ڈیڑھ سال قبل آدم خور کے اس طرف آنے کے وقت سے اب تک اسے استعمال نہیں کیا گیا۔ اس کمرے کے دونوں اطراف میں دو راہداری نما کمرے تھے۔ ایک بطور باورچی خانہ استعمال ہوتا تھا اور دوسرا بطور ایندھن کا گودام۔ یہ جھونپڑا میرے آدمیوں کے لئے قطعی محفوظ ثابت ہوتا۔ پچھلا دروازہ کھول کر میں نے ہوا کی آمد و رفت بحال کی۔ پھر باہر نکل کر میں نے سڑک اور اس ہٹ کے درمیان ایک جگہ اپنے چالیس پاؤنڈ وزنی خیمے کے لئے منتخب کی۔ چونکہ یہاں فرنیچر نہ تھا، میں ایک پتھر پر بیٹھ کر اپنے ساتھیوں کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔
یہاں چٹانی چھجا پچاس گز چوڑا تھا اور ہٹ اس کے بالکل جنوبی سرے پر تھا۔ گاؤں پہاڑی کی شمالی سرے پر تھا۔ اس لئے گاؤں سے ہٹ کو دیکھا جانا ممکن نہ تھا۔ ابھی پتھر پر بیٹھے ہوئے مجھے دس منٹ ہی گذرے ہوں گے کہ گاؤں کی جانب والی ڈھلوان سے ایک سر نمودار ہوا، پھر دوسرا پھر تیسرا۔ اس خاتون نے فوراً ہی میری آمد کے بارے پورے گاؤں کو بتا دیا تھا۔
ہندوستان میں جب اجنبی ملتے ہیں تو رسم یہ ہوتی ہے کہ وہ پہلے اصل موضوع سے ہٹ کر دنیا بھر کے موضوعات پر سیر حاصل بحث کریں گے۔ اس میں گھریلو، ذاتی معاملات بھی شامل ہوتے ہیں۔ آخر جب کوئی موضوع نہ باقی بچے تو پھر وہ اصل بات شروع کرتے ہیں۔ وہ سوالات جو دنیا بھر میں معیوب سمجھے جاتے ہوں، جیسے کہ شادی شدہ ہیں؟ اگر ہاں تو کتنے بچے ہیں اور لڑکے کتنے اور لڑکیاں کتنی، اگر شادی نہیں کی تو کیوں؟ پیشہ اور تنخواہ۔ صرف اس رسم سے واقف افراد ہی اسے برداشت کر سکتے ہیں۔
اکثر سوالات کے جوابات میں نے اس عورت کوپہلے ہی دے چکا تھا اور بقیہ سوالات جو کسی عورت کو مرد سے پوچھنے میں جھجھک ہو سکتی ہے، وہ انہوں نے اب پوچھ لئے۔ اب میرے ساتھی بھی پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے چشمے سے پانی بھرا اور خشک لکڑیاں جمع کر کے آگ جلائی اور چائے بنانے لگے۔ اب میں نے ڈبے بند دودھ کھولا۔ میں نے سنا کہ دیہاتی میرے آدمیوں سے پوچھ رہے تھے کہ ہم خشک دودھ کیوں استعمال کر رہے ہیں؟ تازہ دودھ میں کیا برائی ہے؟ میرے آدمیوں نے انہیں بتایا کہ حالات خراب ہونے کی وجہ سے تازہ دودھ کا ملنا ممکن نہیں۔ اس لئے ہم لوگ ڈبہ بند دودھ ساتھ لائے ہیں۔ یہ سنتے ہی وہ لوگ ناراضگی کا اظہار کرنے لگے۔ نمبردار نے مجھ سے کہا کہ ڈبہ بند دودھ لانا ان کی ہتک کے مترادف ہے کیونکہ گاؤں بھر کے دودھ میری ملکیت ہیں۔ میں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور کہا کہ میں چونکہ اس علاقے میں اجنبی ہوں اور پہلی بار آیا ہوں تو مجھے علم نہ تھا۔ اگر وہ لوگ ہماری ضروریات کے لئے تھوڑا سا دودھ الگ کر سکیں تو میں اسے خریدوں گا۔ دودھ کے علاوہ اور کچھ بھی درکار نہیں۔
میرا سامان اب کھل چکا تھا اور اس دوران گاؤں سے مزید افراد بھی آ گئے۔ میں نے اپنے آدمیوں کو بتایا کہ وہ کس جگہ میرا خیمہ نصب کریں۔ تمام دیہاتی دہشت اور خوف سے ایک ساتھ چلائے "خیمے میں رہیں گے؟"
میں نے کہا "جی"۔
"کیا میں آدم خور کی موجودگی کو بھلا چکا ہوں جو ہر رات اس سڑک سے باقاعدگی سے گذرتا ہے؟ اگر مجھے ان کے الفاظ پر یقین نہیں تو میں خود چل کر گاؤں کے گھروں کی دیواریں دیکھ لوں جو سڑک کے کنارے بنے ہوئے ہیں۔ شیر اکثر انہیں کھرچتا رہتا ہے۔ اگر شیر نے خیمے کے اندر مجھ پر حملہ نہ بھی کیا تو وہ میرے آدمیوں کو لازمی کھا جائے گا کیونکہ وہ اکیلے ہوں گے۔"
اس بات سے میرے ساتھیوں کے کان کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی گاؤں والوں کی ہاں میں ہاں ملائی۔ آخر کار میں کمرے میں سونے پر تیار ہو گیا۔ میرے دونوں ملازمین باورچی خانے اور چھ گڑھوالی ایندھن والے سٹور روم میں سونے تھے۔
چونکہ آدم خور کی بات شروع ہو چکی تھی اس لئے اب میں اس پر مزید بات کر سکتا تھا۔ انہوں نے مجھے وہ درخت دکھایا جس کے نیچے شیر نے اپنا آخری شکار مارا تھا۔ ساتھ ہی وقت اور وہ حالات بتائے جن کے تحت اس عورت کی ہلاکت ہوئی تھی۔ وہ سڑک بھی دکھائی جہاں سے شیر ہر روز رات کو گذرتا تھا۔ یہ سڑک مشرق کی طرف بیتل گھاٹ کی طرف جاتی تھی۔ اس کی ایک شاخ موہن کی طرف جاتی تھی۔ مغرب کی طرف یہ سڑک چکنا کل کی طرف جو دریائے رام گنگا پر واقع تھا۔ سڑک کے مغرب والے حصے کا کچھ ٹکڑا گاؤں سے گذرتا تھا اور پھر نصف میل مزروعہ زمین سے ہوتا ہوا جنوب کی طرف مڑتا تھا اور پہاڑ کے پاس سے ہو کر اس ہٹ کے ساتھ سے گذرتا تھا جہاں ہم اب بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے بعد یہ سڑک سیدھی چکنا کل جاتی تھی۔ کرتکانولہ اور چکنا کل کے درمیان چھ میل کا یہ حصہ خصوصاً انتہائی خطرناک شمار ہوتا تھا اور آدم خور کی آمد کے بعد سے اسے استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ بعد میں میں نے دیکھا کہ مزروعہ زمین سے نکل کر یہ سڑک گھنے جنگل سے ہو کر گذرتی ہے۔ یہ جنگل دریا تک پھیلا ہوا تھا۔
کرتکانولہ کی مزروعہ زمین پہاڑی کے شمالی طرف تھی۔ اس کے بعد کئی جگہوں پر چھجے سے بنے ہوئے تھے لیکن درمیان میں گہری کھائیاں بھی تھیں۔ ان میں سب سے نزدیکی چھجا ہٹ سے ہزار گز دور تھا اور وہاں چلغوزے کا ایک درخت موجود تھا۔ دس دن قبل اس درخت کے پاس سے آدم خور نے ایک عورت کو ہلاک کر کے جزوی طور پر کھایا تھا۔ یہاں سے چار میل دور فارسٹ بنگلے میں تین شکاری موجود تھے۔ جب وہ چلغوزے کے درخت پر نہ چڑھ سکے تو مقامی لوگوں نے تین الگ الگ درختوں پر ان کی مچانیں باندھ دیں۔ ہر ایک درخت دوسرے سے سو گز اور لاش سے پچاس گز دور تھا۔ رات ہونے سے قبل یہ شکاری اپنی ملازمین کے ہمراہ مچانوں پر جا بیٹھے۔ چاند کی شروع کی تاریخیں تھیں۔ چاند کے غروب ہو جانے کے بعد دیہاتیوں نے گولیوں کی کئی آوازیں سنیں۔ اگلی صبح جب انہوں نے نوکروں سے پوچھا تو انہوں نے لاعلمی ظاہر کی کہ انہوں نے خود بھی کسی چیز کو نہیں دیکھا تھا کہ جس پر گولیاں چلائی گئی ہوں۔ دو دن بعد ایک گائے ماری گئی۔ یہ شکاری اس پر بھی مچان بنا کر بیٹھے۔ اس بار بھی انہوں نے چاند غروب ہو جانے کے بعد گولیوں کی آوازیں سنیں۔ یہ ناکام کوششیں شیروں کو مزید محتاط بنا دیتی ہیں اور وہ جب تک زندہ رہتے ہیں، ان کا مارا جانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔
ان دیہاتیوں نے شیر کے بارے ایک عجیب بات بھی بتائی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ہمیشہ شیر کی آمد سے پہلے جان لیتے ہیں کہ شیر آ رہا ہے۔ اس کی آمد سے قبل ہلکی سی غراہٹیں سنائی دیتی ہیں۔ مزید سوالات سے علم ہوا کہ شیر یہ آواز تب نکالتا ہے جب وہ گھروں کے درمیان سے گذرتا ہے۔ بعض اوقات یہ آواز کچھ دیر کے لئے رک بھی جاتی ہے۔
اس سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ:
۱۔ شیر زخمی ہے
۲۔ زخم اس نوعیت کا ہے کہ صرف چلتے وقت تکلیف دیتا ہے۔ اس لئے
۳۔ یہ زخم اس کے کسی پاؤں یا ٹانگ میں ہے
مجھے بتایا گیا کہ شیر کو کسی مقامی شکاری نے زخمی نہیں کیا اور نہ ہی رانی کھیت کے کسی شکاری نے۔ چونکہ آدم خور کئی سال سے سرگرم تھا اس لئے یہ اندازہ تھا کہ یہ زخم ہی اس کے آدم خور بننے کا سبب ہوگا۔ یہ ایک ایسا نکتہ تھا جس کی تصدیق تب ہی ہو پاتی جب شیر مارا جاتا۔
ان لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں اس آواز کے بارے اتنا متجسس کیوں ہوں؟ جب میں نے انہیں بتایا کہ شیر کا ایک پاؤں زخمی ہے جو کسی گولی یا سیہہ کے کانٹے کے سبب ہوا ہے تو انہوں نے سختی سے تردید کی اور کہ انہوں نے شیر کو کئی بار دیکھا ہے اور ہر بار شیر بالکل تندرست اور صحت مند دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ جتنی آسانی سے شکار کو ہلاک کر کے لے جاتا ہے، یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ شیر ہرگز معذور نہیں۔ تاہم میری بات انہوں نے یاد رکھی اور جب شیر مارا گیا تو انہوں نے مجھے غیب کے حال جاننے والا گردانا۔
رام نگر سے گذرتے ہوئے میں نے تحصیلدار سے کہا تھا کہ وہ میرے لئے دو بچھڑے خرید کر موہن بھجوا دے۔ وہاں سے میرے آدمی انہیں وصول کر لیں گے۔
میں نے ان لوگوں کو بتایا کہ میں ان میں سے ایک بچھڑے کو اس جگہ باندھوں گا جہاں تین روز قبل ایک عورت ہلاک ہوئی تھی اور دوسرا چکنا کل۔ انہوں نے بھی اتفاق کیا کہ ان کے خیال میں اس سے بہتر جگہ اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ اندھیرا چھانے والا تھا اور روانگی سے قبل نمبردار نے وعدہ کیا کہ وہ اگلی صبح آس پاس کے تمام دیہاتوں میں میری آمد کی اطلاع بھجوا دے گا۔ وجہ یہ تھی کہ کسی بھی واردات کی صورت میں وقت ضائع کئے بنا وہ مجھے اس کے بارے بتا سکیں۔
کمرے میں پھپھوندی کی بو اب کافی کم ہو گئی تھی لیکن پھر بھی محسوس کی جا سکتی تھی۔ تاہم میں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی اور نہا کر کھانا کھانے کے بعد دروازے کے سامنے دو پتھر رکھ کر اسے بند کیا اور تھکن کی وجہ سے فوراً سو گیا۔ میں بہت ہلکی نیند سوتا ہوں اور دو یا تین گھنٹے بعد ہی جنگل میں سے گذرتے ہوئے کسی جانور کی آواز سے جاگ گیا۔ یہ آواز پچھلے دروازے سے آئی تھی۔ میں نے رائفل اور ٹارچ اٹھائی اور پاؤں سے پتھر ہٹا کر باہر نکلا۔ پتھر کے ہٹنے کی آواز سے وہ جانور بھاگ گیا۔ یہ آواز شیر کی بھی ہو سکتی تھی، تیندوے یا سیہہ کی بھی۔ تاہم جنگل اتنا گھنا تھا کہ رات کے وقت مجھے کچھ نہ دکھائی دیتا۔ کمرے میں واپس لؤٹ کر میں نے دوبارہ پتھر دروازے کے سامنے رکھے تو مجھے اپنا گلا کچھ خراب سا محسوس ہوا۔ اگلی صبح جب میرے ملازم میرے لئے چائے لے کر آئے تو میں نے دیکھا میرا گلا واقعی خراب تھا۔ اس کی وجہ شاید اس غیر آباد جگہ رہنا تھا۔ یہاں چمگادڑیں چھت سے بکثرت لٹک رہی تھیں۔ میرے نوکر نے بتایا کہ وہ اور اس کا ساتھی تو گلے کی خرابی سے بچ گئے ہیں لیکن چھ گڑھوالی اس بیماری کا شکار ہو چکے ہیں۔ میرے پاس دوائی کے نام پر دو اونس آئیوڈین اور چند کونین کی گولیاں تھیں۔ رائفل کے بکسے میں البتہ کچھ پوٹاشیم پرمیگنیٹ یعنی پنکی کا ایک چھوٹا پیکٹ موجود تھا جو میری بہن نے پچھلی مہم کے لئے دیا تھا۔ یہ پیکٹ رائفل کے تیل سے چکنا ہو رہا تھا لیکن اس میں موجود ڈلیاں قابل استعمال تھیں۔ میں نے برتن میں پانی ابالا اور اس میں کافی ساری ڈلیاں ڈال دیں اور کچھ آئیوڈین بھی ملا دی۔ نتیجتاً جو ملغوبہ بنا، اس سے غرارے کرنے سے ہمارے دانت تو سیاہ ہوئے لیکن گلے کافی بہتر ہو گئے۔
ناشتہ کر کے میں نے موہن کی طرف چار بندے بھیجے تاکہ بچھڑوں کو لے آئیں۔ میں خود آخری واردات کی جگہ کی طرف چل دیا۔ کل رات مجھے جو معلومات ملی تھیں ان کی روشنی مٰں شیر کے حملے کی جگہ تلاش کرنا مشکل نہ تھا۔ عورت پر حملہ اس وقت ہوا تھا جب وہ کٹی ہوئی گھاس کا گھٹڑ بنا رہی تھی۔ گھاس اور اسے باندھنے والی رسی وہیں پڑی تھیں۔ اس کے علاوہ اس کی دیگر ہمراہیوں کی گھاس بھی ادھر ہی موجود تھی جو شیر کے حملے سے گھبرا کر گاؤں کی طرف بھاگی تھیں۔ مجھے لوگوں نے بتایا تھا کہ عورت کی لاش نہیں مل سکی۔ میرا خیال تھا کہ انہوں نے تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ گھاس کے گٹھڑ اور درانتیاں ابھی تک جائے واردات پر موجود تھے۔
یہ عورت ایک لینڈ سلائیڈ کے اوپری حصے پر ماری گئی تھی۔ شیر اسے مار کر نیچے اتر کر گھنی گھاس کے قطعے میں گھسا۔ یہاں شیر کچھ دیر رکا۔ شاید وہ دیگر عورتوں کے دور چلے جانے کا منتظر ہو۔ یہاں سے شیر اس چھجے سے گذرا جو ہٹ سے دکھائی دیتا تھا۔ پھر ایک میل دور جا کر وہ گھنے جنگل میں گھس گیا۔ یہ نشانات اب چار دن پرانے تھے اور ان کا پیچھا کرنے سے کچھ نہ ملتا۔ اس لئے میں ہٹ کی طرف واپس چلا آیا۔ واپسی کی چڑھائی کافی دشوار تھی۔ دوپہر کو جب میں ہٹ میں واپس پہنچا تو میں نے برآمدے میں مختلف حجم کے بے شمار برتن دیکھے۔ یہ سب برتن دودھ سے لبا لب بھرے ہوئے تھے۔ عجیب اتفاق تھا کہ پہلے دودھ کی اتنی شدید قلت تھی اور اب اتنی کثرت۔ دودھ اتنی مقدار میں تھا کہ میں اس سے با آسانی نہا سکتا تھا۔ میرے ملازمین نے بتایا کہ ان کے احتجاج کے باوجود ہر شخص دودھ کا برتن رکھتا ہی چلا گیا اور سب نے یہی کہا کہ وہ ہمیں ڈبہ بند دودھ سے بچانے کے لئے ایسا کر رہے ہیں۔ جب تک ہم ادھر ہیں، وہ ہمیں ڈبے کا دودھ استعمال نہیں کرنے دیں گے۔
مجھے علم تھا کہ میرے آدمی بچھڑوں کو لے کر موہن سے مغرب کے بعد ہی واپس آئیں گے۔ دوپہر کا کھانا کھا کر میں چکنا کل کی سڑک کو دیکھنے چل دیا۔
ہٹ سے پہاڑی بتدریج بلند ہوتی ہوئی پانچ سو فٹ کے قریب اونچی ہو گئی تھی۔ اس کی شکل مثلث نما تھی۔ مزروعہ زمین سے نکل کر یہ سڑک بائیں مڑتی ہے اور ایک بہت عمودی ڈھلوان پہاڑی سے ہوتی ہوئی دوبارہ چھجے نما جگہ پر آ کر دائیں مڑتی ہے اور پھر سیدھی چکنا کل تک اترائی ہے۔ چھجے سے باہر نکل کر سڑک کچھ فاصلے تک ہموار تھی۔ پھر اچانک ڈھلوان سے گذرتی ہوئی نیچے اترتی ہے۔ موڑوں پر یہ البتہ کشادہ ہو جاتی ہے۔
چونکہ میرے پاس پوری سہہ پہر باقی تھی تو میں نے اس سڑک کا تین میل تک بغور جائزہ لیا۔ جب شیر کسی سڑک یا گذرگاہ کو بکثرت استعمال کرتا ہے تو وہ اس کے کنارے اپنے ناخنوں سے گہری خراشیں ڈالتا رہتا ہے۔ یہ نشان ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے گھریلو بلیاں ڈالتی ہیں۔ یہ نشانات ایک شکاری کے لئے بہت اہم ہوتے ہیں۔ ان سے درج ذیل معلومات مل سکتی ہیں:
۱۔ یہ جانور نر ہے یا مادہ؟
۲۔ اس کا رخ کس طرف تھا؟
۳۔ اسے یہاں سے گذرے کتنا وقت ہو چکا ہے؟
۴۔ اس کی جائے رہائش کا اندازاً فاصلہ اور سمت؟
۵۔اس کے شکار کی نوعیت
۶۔کیا اس جانور نے حال ہی میں انسانی گوشت کھایا ہے؟
ان آسانی سے ملنے والی معلومات سے اجنبی علاقے میں آدم خور کے بارے جاننے کے لئے بہت مدد ملتی ہے۔ شیر کے سڑک سے گذرتے وقت کے پگ بھی اہم ہوتے ہیں۔ ان سے کئی طرح کی معلومات مثلاً جانور کی سمت، رفتار، جنس، عمر اور یہ بھی کہ آیا جانور کے تمام پیر سلامت ہیں یا نہیں۔ اگر نہیں تو کس پیر میں نقص ہے۔
یہ سڑک لمبے عرصے سے استعمال نہیں ہوئی تھی اور اس پر چھؤٹی اور سخت گھاس اگ آئی تھی۔ ایک دو نم جگہیں چھوڑ کر کہیں بھی پگ نہ دکھائی دیئے۔ ان میں سے ایک نم جگہ چھجے کے نیچے سے گذرتی ہوئی سڑک سے دو یا تین گز دور تھی۔ اس کے پاس ٹھہرے ہوئے سبز رنگ کے پانی کا تالاب تھا۔ ایسے تالاب سانبھر کے پانی پینے کا اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔
موڑ کے فوراً بعد ہی میں نے بہت ساری کھرچنے کے نشانات دیکھے۔ یہاں سڑک مڑ کر مزروعہ زمین سے باہر چلی جاتی ہے۔ یہاں سے دو سو گز دور سڑک کافی تنگ ہو کر اس لٹکی ہوئی چٹان کے نیچے سے گذرتی ہے۔ یہ چٹان دس فٹ بلند تھی اور اس کے اوپر دو یا تین گز کا ہموار قطعہ سا تھا۔ اگر گاؤں کی طرف سے آئیں تو یہ جگہ صاف دکھائی دیتی ہے لیکن دوسری طرف سے یہ نظروں سے اوجھل ہی رہتی ہے۔ یہاں بھی کئی جگہوں پر کھرچنے کے نشان تھے۔ ابھی تک مجھے پنجوں کے نشانات نہیں مل سکے تھے۔ پہلے موڑ پر آ کر میں نے شیر کے پگ دیکھے۔ یہاں سے شیر چھلانگ لگا کر گذرا تھا اور نرم مٹی پر اس کے پگ موجود تھے۔ یہ نشانات کل کے تھے اور کچھ مٹ سے گئے تھے۔ تاہم یہ واضح تھا کہ یہ نشانات ایک بڑے اور پرانے نر شیر کے ہیں۔
جب آپ ایسے علاقے میں ہوں جہاں آدم خور مصروف عمل ہو تو پیش قدمی بہت سست ہو جاتی ہے۔ راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ چاہے وہ جھاڑی ہو، پتھر یا زمین میں موجود کوئی چھوٹا سا گڑھا جس میں آدم خور کی شکل میں موت چھپی ہونے کا امکان ہو، بغور دیکھ بھال کر عبور کئے جاتے ہیں۔ اگر ہوا نہ چل رہی ہو، جیسا کہ اب تھا، تو سامنے کے علاوہ پیچھے اور دائیں بائیں بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ مزید برآں مجھے یہاں مئی کے وسط میں چار سے پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر پھولوں کے بے شمار غنچے دکھائی دیئے جو میرے لئے دل چسپی کا خاص مرکز تھے۔ ہر دوسرا درخت ایسے لگتا تھا جیسے وہ ان پھولوں کو چیر کر باہر نکلا ہوا ہو۔
یہاں میں نے پہلی بار ایک ایسا پرندہ دیکھا جو بعد ازاں بمبئی نیچر ہسٹری میوزیم کے عملے نے پہاڑی گریگ ماؤنٹین کے نام سے شناخت کیا۔ یہ پرندہ خاکستری رنگ کا ہے۔ سینے پر گلابی رنگ کا ہلکا سا نشان ہے۔ اس کی جسامت روزی پیسٹر سے ذرا سی چھوٹی ہے۔ اس کے بچے بھی اس کے ساتھ تھے۔ ہر بالغ کے ساتھ چار بچے اونچے درخت کی خشک ٹہنیوں پر قطار بنائے بیٹھے تھے۔ والدین بار بار دو دو تین تین سو گز کی لمبی اڑان بھر کر کیڑے پکڑ لاتے۔ ان کی اڑان کی رفتار حیرت انگیز تھی۔ مجھے یقین ہے کہ ہندوستان میں کوئی اور پرندہ بشمول مہاجر پرندے جو سردیوں میں ادھر آٹے ہیں، اس سے زیادہ تیز نہیں اڑ سکتے۔ ان کی ایک اور دل چسپ خوبی ان کی قوت بصارت تھی۔ کئی بار یہ کئی سو گز تک سیدھی لائن میں اڑتے اور پھر کیڑے پکڑ کر لوٹتے تھے۔ ان کی تیز رفتار کے باعث یہ بھی کہنا ممکن نہیں کہ یہ پرندے کسی کیڑے کا پتنگے کے پیچھے اتنی دور تک گئے ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ پرندے جتنے فاصلے سے کیڑے دیکھ پاتے ہیں، کوئی انسان طاقتور ترین دور بین سے بھی نہیں دیکھ پاتا۔
اپنے عقب کا خیال رکھتے، نشانات دیکھتے، فطرت سے لطف اندوز ہوتے اور جنگل کی آوازیں سنتے، جن میں سانبھر کی میل بھر دور موہن کی طرف سے آواز بھی تھی، جو دوسروں کو شیر کی موجودگی سے آگاہ کر رہا تھا، کاکڑ اور لنگور چکناکل سڑک سے جو دوسروں کو کسی تیندوے کی موجودگی سے آگاہ کر رہے تھے، وقت تیزی سے گذرتا رہا۔ سورج غروب ہوتے وقت میں اس چٹانی چھجے کے پاس پہنچا جو راستے کے اوپر جھکا ہوا تھا۔ اس بار اس تک پہنچتے ہی میں نے محسوس کیا کہ اس پورے علاقے میں، جہاں میں اب تک گھومتا رہا ہوں، اس سے زیادہ خطرناک کوئی اور جگہ نہیں۔ اگر آدم خور اس پر لیٹا ہوا ہو تو گھاس میں پوری طرح چھپا ہوا ہوگا۔ اس کو صرف اتنا انتظار کرنا ہوتا کہ آنے یا جانے والا بندہ جونہی یہاں سے ایک بار گذرے۔ پھر وہ پوری طرح آدم خور کے رحم و کرم پر ہوتا۔ واقعی یہ انتہائی خطرناک جگہ تھی اور ہمیشہ اس سے محتاط رہنا بہتر تھا۔
ہٹ میں پہنچا تو دونوں بچھڑے پہنچ چکے تھے۔ لیکن اندھیرا ہونے کے سبب میں نے انہیں بندھوانا اگلے دن تک کے لئے ملتوی کر دیا۔
میرے ملازمین نے کمرے میں سارا دن آگ جلائے رکھی تھی جس سے کمرے کی ہوا میٹھی اور صاف ہو گئی تھی۔ پھر بھی میں نے دوبارہ اسی بند کمرے میں رات گذارنے کا خطرہ مول لینا مناسب نہ سمجھا۔ میں نے انہیں کہا کہ وہ سونے سے قبل دو بڑی جھاڑیاں کاٹ کر دروازے میں لگا دیں۔ اس رات جنگل بالکل خاموش رہا۔ اگلی صبح پرسکون نیند سے بیدار ہوا تو میرا گلا کافی بہتر محسوس کر رہا تھا۔
صبح کا وقت میں نے مقامی لوگوں سے باتیں کرتے ہوئے گذارا۔ وہ مجھے آدم خور کی کہانیاں سناتے رہے اور یہ بھی کہ کس کس طرح مختلف شکاریوں نے اسے مارنے کی کوششیں کی تھیں۔ دوپہر کے کھانے کے بعد میں اٹھا اور پہلا بچھڑا لا کر اس جگہ باندھا جہاں سے شیر عورت کو اٹھائے ہوئے گذرا تھا۔ دوسرے بچھڑے کو اس موڑ پر جہاں شیر گذرا تھا۔
اگلی صبح دونوں بچھڑے آرام سے سو رہے تھے اور میری ڈالی ہوئی گھاس کا بڑا حصہ صاف ہو چکا تھا۔ میں نے ان کے گلے میں گھنٹیاں باندھی ہوئی تھیں۔ ان تک پہنچتے ہوئے جب میں نے کوئی آواز نہ سنی تو سمجھا کہ وہ مارے گئے ہیں۔ لیکن وہ سو رہے تھے۔ اس شام میں نے موڑ پر بندھے ہوئے دوسرے بچھڑے کو اس جگہ باندھا جہاں سڑک چٹانی چھجے سے باہر آتی تھی۔ کھڑے پانی کا چھوٹا سا تالاب بھی یہاں سے نزدیک تھا۔
شیر کو مارنے کے عمومی طریقے یہ ہیں:
۱۔ مچان باندھ کر
۲۔ ہانکا کرا کے
دونوں صورتوں میں نو عمر بچھڑے استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اس علاقے کا تعین کیا جاتا ہے جو مچان یا ہانکے کے لئے موزوں ہو۔ شام ڈھلے اس جگہ بچھڑا باندھ دیا جاتا ہے۔ یہ رسی اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ بچھڑا نہیں توڑ پاتا لیکن شیر اسے با آسانی توڑ لیتا ہے۔ اس کے بعد جب شیر شکار کو لے جاتا ہے تو دیکھا جاتا ہے کہ آیا مچان بہتر رہے گی یا پھر ہانکا۔
موجودہ صورت میں یہ دونوں ہی طریقے ناقابل عمل تھے۔ میرا گلا کافی بہتر ہو چکا تھا لیکن اب بھی زیادہ دیر کھانسے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اس گھنے جنگل میں ہانکے کے لئے ہزار آدمی بھی ناکافی رہتے۔ میں نے سوچا کہ براہ راست ہی گھات لگائی جائے۔ اسل ئے میں نے دونوں بچھڑوں کو ایک ایک انچ موٹی رسی سے باندھا اور اگلے چوبیس گھنٹے کے لئے انہیں اکیلا چھوڑ دیا۔
باری باری صبح کے وقت جب اتنی روشنی ہو جاتی کہ میں گولی چلا سکتا، دونوں بچھڑوں کی طرف چھپ کر جاتا۔ ان علاقوں میں شیر چاہے وہ آدم خور یا عام، دن اور رات، یکساں شکار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ آس پاس کے گاؤں سے بھی کسی خبر کا انتظار رہتا، گلے کی دیکھ بھال کرتا اور آرام بھی جاری رہتا۔ میرے چھ گڑھوالی ساتھی بچھڑوں کی دیکھ بھال اور ان کے چارہ پانی کا خیال رکھتے۔
چوتھی شام سورج غروب ہوتے وقت میں واپس آ رہا تھا تو جب میں اس چٹانی چھجے سے تیس گز دور پہنچا تو مجھے محسوس ہوا کہ میں خطرے میں ہوں۔ یہاں آمد کے بعد پہلی بار مجھے خطرہ محسوس ہوا تھا۔ مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ یہ خطرہ اسی چٹانی چھجے پر موجود ہے۔ پانچ منٹ تک میں رکا رہا۔ میری آنکھیں چھجے پر کسی بھی حرکت کو دیکھنے کے لئے تیار تھیں۔ اس فاصلے سے پلک بھی جھپکنے کا عمل میری نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکتا تھا لیکن وہاں اتنی سی بھی حرکت نہ دکھائی دی۔ میں دس قدم مزید بڑھا اور پھر کئی منٹ کے لئے رک گیا۔ کسی بھی حرکت کا دکھائی نہ دینا اس بات کی ضمانت نہ تھا کہ شیر وہاں موجود نہیں۔ اصل سوال یہ تھا کہ اب کیا کرنا ہوگا؟ جیسا کہ میں نے پہلے آپ کو بتایا، یہ کافی ڈھلوان پہاڑی تھی۔ اس میں جگہ جگہ بڑی چٹانیں جھکی ہوئی تھیں۔ ہر طرف گھنی اور لمبی گھاس اور درختوں کے گھنے جھنڈ موجود تھے۔ اگر ابھی کچھ دن باقی ہوتا تو میں قدرے پیچھے جا کر شیر کے اوپر سے اس پر گولی چلانے کی کوشش کرتا۔ ابھی اس وقت میرے پاس صرف نصف گھنٹے جتنی روشنی باقی تھی اور میل بھر کا سفر بھی۔ اس وقت سڑک کو چھوڑنا سخت نادانی ہوتی۔ سیفٹی کیچ ہٹا کر اور رائفل کو کندھے سے لگا کر میں آگے بڑھا۔
یہاں سڑک تقریباً آٹھ فٹ چوڑی تھی۔ میں نے اس کے بیرونی سرے پر کیکڑے کی طرح چلنا شروع کر دیا۔ مجھے قوی امید تھی کہ اگر شیر اسی جگہ لیٹا رہا جہاں وہ تھا تو چھجے سے آگے جا کر میں اسے دیکھ بھی لیتا اور ممکن تھا کہ گولی بھی چلا سکتا۔ تاہم جب شیر میری محتاط پیش قدمی کی وجہ سے حملہ نہ کر سکا تو میرے چھجے سے نکلتے ہی اوپر سے غراہٹ کی آواز آئی اور پھر نزدیکی موڑ سے دو سانبھر بولے۔
شیر بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ تاہم میں بھی اپنی جان بچا چکا تھا۔ پچھتانے کا کیا سوال۔ جہاں سانبھر بولا تھا، مجھے یقین تھا کہ اس جگہ سے شیر نے بچھڑے کی گھنٹی ضرور سنی ہوگی۔ یہ بچھڑا کھڑے پانی کے تالاب کے ساتھ بندھا ہوا تھا۔
جب میں مزروعہ زمین تک پہنچا تو دیکھا کہ کافی لوگ میرا انتظار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کاکڑ اور سانبھر کی آوازیں سنی تھیں۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ میں شیر کو نہیں دیکھ سکا تو وہ کافی مایوس ہوئے۔ میں نے انہیں تسلی دی کہ کل صبح کافی بہتر امکانات موجود ہیں۔

(۴)
رات کو آندھی آئی اور پھر بارش بھی ہوئی تھی۔ ہمارے ہٹ کی چھت رستی تھی۔ تاہم میں نے ایک ایسی جگہ تلاش کر لی جہاں سے پانی کم رس رہا تھا۔ اس جگہ اپنا بستر گھسیٹ کر میں آرام سے سو گیا۔ اگلی صبح جب بیدار ہوا تو مطلع بالکل صاف تھا۔ بارش نے حدت اور گرد و غبار سب دھو دیا تھا۔ گھاس اور پتے سب طلوع ہوتے ہوئے سورج کی روشنی میں چمک رہے تھے۔
عام حالات میں میں پہلے بچھڑے کی طرف چکر لگاتا لیکن اب مجھے دوسرے بچھڑے کی طرف جانا تھا۔ میں نے اپنے آدمیوں کو ہدایت کی کہ روشنی اچھی طرح پھیل جانے کے بعد وہ نزدیکی بچھڑے کی دیکھ بھال کے لئے جائیں۔ پھر میں نے اپنی اعشاریہ ۴۰۰/۴۵۰ بور کی رائفل کو اچھی طرح صاف کیا اور تیل وغیرہ دے کر پھر میں چکنا کل کی طرف نکلا۔ یہ رائفل میری برسوں کی رفیق اور قابل اعتماد تھی۔
کل شام مجھے چھجے کے نیچے سے گذرتے ہوئے جو دقت ہوئی تھی، اس کا عشر عشیر بھی مجھے اب نہ محسوس ہوئی۔ میں یہاں سے آرام سے گذر گیا۔ اب میں نے شیر کے پگوں کی تلاش شروع کر دی کیونکہ بارش کی وجہ سے زمین نرم ہو چکی تھی۔ سب سے پہلے نمدار جگہ پر مجھے کوئی پگ نہ ملا۔ یہ جگہ دوسرے بچھڑے سے نزدیک تھی۔ یہاں نرم مٹی پر میں نے شیر کے پگ دیکھے جو رات کے طوفان سے پہلے کے تھے۔ یہ نشانات اسی چھجے کی طرف جا رہے تھے۔ اس جگہ کے پاس کھڈ کی طرف ایک تین فٹ بڑا پتھر تھا۔ پچھلی بارمیں نے سوچا تھا کہ اگر میں اس پتھر پر چڑھوں تو مجھے دوسرا بچھڑا موڑ کے پار دکھائی دے سکتا ہے۔ یہاں سے بچھڑا چالیس گز دور باندھا گیا تھا۔ اس بار اس پتھر پر چڑھ کر میں آہستہ آہستہ اوپر اٹھا۔ بچھڑا غائب تھا۔ یہ نئی صورتحال میرے لئے قابل قبول نہیں تھی۔ میں نے شیر کو بچھڑا لے جانے سے روکنے کے لئے ایک انچ موٹی رسی استعمال کی تھی تاکہ درخت پر یا زمین پر چھپ کر شیر کو ہلاک کر سکوں۔ تاہم شیر بچھڑے کو لے گیا تھا۔
میں بہت باریک تلے والے ربر سول کے جوتے پہنے ہوئے تھا۔ آہستگی سے چلتے ہوئے میں اس درخت تک پہنچا جہاں بچھڑا بندھا ہوا تھا۔ یہاں میں نے زمین کا بغور جائزہ لیا۔ بچھڑا طوفان سے قبل مارا گیا تھا۔ تاہم شیر اسے بارش تھمنے کے بعد اٹھا لے گیا تھا۔ لے جانے سے قبل شیر نے لاش کو چکھا تک نہ تھا۔ میں نے چار رسیوں کو بل دے کر بچھڑا باندھا تھا۔ شیر نے تین رسیاں کتر ڈالی تھیں اور ایک رسی ٹوٹی ہوئی تھی۔ اب اس کا رخ موہن کے سامنے والی پہاڑی کی طرف تھا۔ میرے سارے منصوبے الٹ پلٹ ہوگئے تاہم بارش کی وجہ سے بہت مدد ملی۔ کل تک خشک پتوں کا انبار اب بالکل نرم قالین بن چکا تھا۔ ان پر چلتے ہوئے بالکل بھی آواز نہ پیدا ہوتی تھی۔ اگر میں احتیاط سے کام لیتا تو شیر کے نزدیک آرام سے پہنچ کر اسے ٹھکانے لگا سکتا تھا۔
ایسی صورتحال میں جنگل داخل ہوتے وقت جب متواتر کئی گولیاں چلانے کی ضرورت پڑے، میں ہمیشہ رائفل کو اچھی طرح چیک کر لیتا ہوں کہ بھری ہوئی ہے یا نہیں۔ خطرے کے وقت لبلبی دبا کر یہ دیکھنا آیا رائفل بھری ہوئی ہے یا نہیں، مہلک بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ مجھے یقین تھا کہ چٹانی چھجے سے گذرتے ہوئے میں نے رائفل بھر لی تھی۔ پھر بھی میں نے کارتوس نکالے۔ ایک کارتوس کا رنگ کچھ اڑا ہوا تھا اور اس پر گڑھے سے بنے ہوئے تھے۔ میں نے اسے دوسرے کارتوس سے بدلا اور پھر سے رائفل کو بھرا۔ پھر سیفٹی کیچ کو کئی بار اوپر نیچے کر کےتسلی کی اور پھر چل پڑا۔ میں کبھی بھی بھرا ہوا ہتھیار سیفٹی کیچ کے بغیر اٹھا کر نہیں چلتا۔ اب میں گھسیٹنے کے نشانات کے تعاقب میں تھا۔
"گھسیٹ" لفظ سے شاید کچھ غلط فہمی پیدا ہو۔ گھسیٹنے سے مراد وہ نشانات ہوتے ہیں جو شیر اپنے شکار کو لے جاتے وقت بناتا ہے (ایک بار میں نے خود اپنی آنکھوں سے شیر کو ایک پوری طرح جوان گائے اٹھا کر چار میل دور لے جاتے دیکھا ہے)۔ شیر جانور کو حقیقتاً گھسیٹ کر نہیں لے جاتا بلکہ عموماً اٹھا کر لے جاتا ہے۔ تاہم اگر لاش بہت بھاری ہو تو شیر اسے چھوڑ جاتا ہے۔ جانور کے حجم اور اس کے اٹھانے کے طریقے سے بننے والے نشانات مدھم بھی ہو سکتے ہیں اور واضح بھی۔ مثلاً اگر شیر کا شکار سانبھر ہے اور شیر نے اسے گردن سے پکڑا ہوا ہے تو سانبھر کی پچھلی ٹانگیں زمین پر گھسٹنے کے صاف نشانات چھوڑتی ہیں۔ اسی طرح اگر سانبھر کو شیر کمر سے اٹھائے تو عموماً بہت مدھم نشانات بنتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی نشان نہ بنے۔
موجودہ صورتحال میں شیر بچھڑے کو گردن سے پکڑ کر لے گیا تھا۔ اس طرح بچھڑے کی پچھلی ٹانگیں زمین پر گھسٹنے کے صاف نشانات چھوڑ گئی تھیں۔ سو گز تک شیر سیدھا پہاڑی پر چڑھا۔ آگے چل کر چکنی مٹی کا ایک کنارہ آیا۔ اس کنارے کو پھلانگنے کی کوشش میں شیر کا پاؤں پھسلا اور بچھڑا اس کی گرفت سے نکل کر تیس یا چالیس گز نیچے ایک درخت سے ٹکرا کر رک گیا۔ اس بار شیر نے اسے کمر سے اٹھایا۔ اب بچھڑے کا پیر کبھی کبھار ہی زمین سے لگتا تھا۔ تاہم اس کا پیچھا کرنا اب بھی مشکل نہ تھا۔ اس طرح گرنے سے عارضی طور پر شیر کو سمتیں بھول گئیں۔ ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے شیر کو علم نہ ہو کہ اسے کس طرف جانا ہے۔ پہلے وہ دو سو گز دائیں طرف چلا پھر سو گز سیدھا نیچے اتر کر بانس کے جھنڈ میں پہنچا۔ یہاں وہ کافی وقت گذار کر پھر بائیں جانب اترا اور سیدھا پہاڑی کی طرف چند سو گز چلا حتٰی کہ ایک بڑی چٹان اس کے سامنے آ گئی۔ یہ چٹان اوپری طرف سے زمین سے ملی ہوئی اور دوسری طرف بیس فٹ گہری کھڈ سے جڑی تھی۔ اگر یہاں کوئی غار یا گڑھا ہوتا تو بلا شبہ شیر شکار کو لے کر سیدھا یہاں آ رکتا۔ اب میں گھسٹنے کے نشانات سے ہٹ کر براہ راست اس چٹان پر چڑھا۔ ساتھ ہی ساتھ میں دائیں بائیں بھی بغور دیکھتا رہا۔ چٹان کے دوسرے سرے پر پہنچ کر مجھے مایوسی ہوئی کہ یہاں چٹان سیدھی پہاڑی سے ملی ہوئی تھی۔ یہاں کوئی غار یا گڑھا نہ تھا کہ جہاں شیر ہوتا۔
یہاں سے جنگل کا اچھا منظر دیکھنے کو مل رہا تھا۔ یہ جگہ شیر کے اچانک حملے سے بھی محفوظ تھی۔ میں بیٹھ گیا۔ جونہی میں بیٹھا، چالیس یا پچاس گز دور مجھے ایک سرخ اور سفید رنگ کی چیز گھاس میں چھپی ہوئی دکھائی دی۔ اگر آپ جنگل میں شیر کی تلاش میں ہیں تو ہر سرخ چیز جو نظر آئے، شیر لگتی ہے۔ یہاں تو مجھے نہ صرف شیر کا لال رنگ بلکہ اس کی سفید دھاریاں بھی دکھائی دے رہی تھیں۔ کافی دیر تک میں سے دیکھتا رہا۔ اچانک ہی انکشاف ہوا کہ یہ شیر نہیں بلکہ بچھڑے کی لاش ہے۔ سرخ رنگ خون کی وجہ سے اور سفید دھاریاں اس کی پسلیاں تھیں جو کھال کو پھاڑ کر باہر نکل آئی تھیں۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ میں نے عجلت میں گولی نہ چلا دی تھی۔ میرے ایک دوست نے ایک بہت عمدہ شیر کو مارنے کا سنہری موقع اسی طرح کی صورتحال میں بچھڑے کی لاش پر دو گولیاں چلا کر ضائع کر دیا تھا۔ خوش قسمتی سے ان کا نشانہ بہت عمدہ تھا۔ ان کے دو بندے جو مچان باندھنے اس جگہ کے قریب تھے، بچ گئے۔
اگر شیر کو چھیڑا نہ گیا ہو اور اس کا شکار کھلے عام پڑا ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شیر کہیں قریب ہی چھپ کر لیٹا ہوا ہے تاکہ گدھوں اور دوسرے مردار خوروں کو دور رکھ سکے۔ اگر شیر دکھائی نہ دے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ شیر موجود ہی نہیں۔
شیروں کو مکھیاں بہت تنگ کرتی ہیں اور وہ ایک جگہ نہیں رک کر رہ سکتا۔ میں نے اسی جگہ رک کر شیر کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابھی میں نے یہ سوچا ہی تھا کہ میرے گلے میں سرسراہٹ شروع ہو گئی۔ جنگل یا چرچ میں ہم سانس روک کر یا تھوک بار بار نگل کر کھانسی روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں کوئی طریقہ نہ چلا۔ سرسراہٹ اتنی بڑھی کہ کھانسنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ میں نے کوشش کی کہ کھانسنے کے لئے لنگور کی آواز نکالوں۔ آوازوں کو لکھ کر بتانا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن پھر بھی کچھ اس طرح کی آواز تھی: "کھوک، کھوک، کھوک"۔ یہ آواز تھوڑے تھوڑے وقفے سے جاری رہتی ہے اور پھر "کھر کھررر" کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔ تمام لنگور شیر کو دیکھ کر اسی طرح کی آواز تو نہیں نکالتے لیکن ان پہاڑی علاقوں کے لنگور یہ آواز نکالتے ہیں۔ یہ آواز شیر نے بلاشبہ ہر روز کئی بار سنی ہوگی اور اس پر کبھی توجہ نہ دیتا۔ ایسی ہنگامی حالت میں میری آواز سو فیصد تو لنگور سے مشابہہ نہ تھی لیکن پھر بھی اس سے میرے حلق کی سرسراہٹ ختم ہو گئی۔
نصف گھنٹے تک میں اسی طرح بیٹھا رہا کہ کسی بھی حرکت کو دیکھ سکوں اور جانوروں کی آوازیں سن سکوں۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ شیر موجود نہیں تو میں چٹان سے نیچے اتر کر بچھڑے کی طرف بڑھا۔

(۵)
میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ایک وقت میں شیر کتنا کھا سکتا ہے لیکن یہ جانتا ہوں کہ شیر سانبھر کو دو دن میں، بھینس کو تین دن میں ختم کر سکتا ہے۔ شاید چوتھے دن کے لئے بھی کچھ بچ جائے۔
یہ بچھڑا پوری طرح جوان تو نہ تھا لیکن اسے کسی بھی طرح چھوٹا نہیں کہہ سکتے۔ شیر نے اسے تقریباً نصف کھا لیا تھا۔ اتنا پیٹ بھرنے کے بعد میرے اندازے کے مطابق شیر زیادہ دور نہ جا پاتا۔ زمین ابھی گھنٹہ دو گھنٹے نم رہتی اور شیر کا پیچھا کرنا آسان ہوتا۔
لاش کے آس پاس بے شمار پگ تھے۔ ایک لمبا چکر لگا کر میں نے شیر کی روانگی کے پگ دیکھ لئے۔ نرم پنجوں سے بننے والے پگ کھروں سے مدہم ہوتے ہیں۔ تاہم لمبے تجربے کے بعد یہ اتنا ہی آسان ہو جاتا ہے جتنا کہ شکاری کتا شکار کی بو کا پیچھا کرتا ہے۔ سائے کی طرح خاموشی اور احتیاط سے میں آگے بڑھا۔ سو گز دور جا کر مجھے ایک ہموار قطعہ دکھائی دیا۔ یہ بیس فٹ چوڑا اور بیس فٹ ہی لمبا تھا۔ اس پر خوش بو دار گھاس اگی ہوئی تھی۔ گھاس ان جگہوں سے دبی ہوئی تھی جس پر شیر لیٹا ہوا تھا۔
ابھی میں یہ نشان دیکھ ہی رہا تھا کہ شیر کے قد و قامت کا اندازہ لگا سکوں کہ گھاس پھر سے سیدھی ہونے لگی۔ یقیناً شیر منٹ بھر ہی پہلے یہاں سے اٹھا تھا۔
شیر شکار کو شمال سے نیچے لایا تھا۔ اسے چھوڑ کر وہ مغرب کی طرف گیا۔ یہاں وہ چٹان، شکار اور میری موجودہ پوزیشن ایک تکون کی طرح تھیں۔ ایک سرا چالیس گز اور باقی دو سرے دو دو سو گز کے تھے۔
گھاس کو اٹھتے دیکھ کر مجھے پہلا خیال یہی آیا کہ شیر مجھے آتا دیکھ کر اٹھا ہے۔ تاہم یہاں سے وہ چٹان اور بچھڑے کی لاش دکھائی نہ دیتی تھی اور میں نے پیش قدمی میں خاصی احتیاط کی تھی۔ پھر شیر کیوں اٹھا؟ میری پشت پر چمکتا ہوا سورج اس کا جواب تھا اور اب صبح نو بجے ہی سے اس کی گرمی ناقابل برداشت ہوتی جا رہی تھی۔ سورج درختوں سے چند ہی منٹ پہلے اوپر آیا تھا اور اس جگہ اس کی دھوپ پڑنے لگی تھی۔ شیر کو جب گرمی لگی اور وہ میری آمد سے ذرا پہلے اٹھ کر کسی چھاؤں کی تلاش میں چلا گیا۔
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، گھاس کا یہ قطعہ بیس مربع فٹ کا تھا۔ اس کے ایک طرف شمالاً جنوباً ایک درخت گرا ہوا تھا۔ اس درخت کا رخ میرے سامنے کی طرف تھا۔ یہ درخت چار فٹ موٹا تھا اور گھاس کے سرے پر تھا۔ میں اس وقت گھاس کے درمیان میں موجود تھا۔ درخت مجھ سے دس فٹ دور تھا۔ جڑوں کا رخ پہاڑی کی طرف تھا اور شاخیں میری طرف۔ اس کے پیچھے پہاڑی تقریباً زاویہ قائمہ بنا رہی تھی۔ یہاں سے تیس گز دور پہاڑی میں کھڈ تھا جو گھنے جنگل کی طرف جا رہا تھا۔
اگر میرا یہ اندازہ درست تھا کہ شیر دھوپ اور گرمی کی وجہ سے اٹھا ہے تو وہ لازما سائے کی تلاش میں اس درخت کے پیچھے گیا ہوگا۔ اس کی تصدیق کرنے کے لئے مجھے تھوڑا سا آگے بڑھ کر درخت کے اوپر سے جھانک کر دیکھنا پڑتا۔ کئی سال پرانی "پنچ" نامی رسالے میں چھپی ہوئی ایک تصویر مجھے یاد آ گئی۔ ایک شکاری شیر کی تلاش میں چٹان کے نیچے سے گذر رہا تھا۔ سر اوپر اٹھاتے ہی اس نے دیکھا کہ شیر اسے گھور رہا ہے۔ تصویر کے نیچے درج تھا کہ "شیر کی تلاش میں جاتے وقت توقع رکھیں کہ کسی بھی وقت شیر سے ملاقات ہو سکتی ہے"۔ یہاں فرق صرف اتنا سا تھا کہ مجھے اوپر کی بجائے نیچے دیکھنا تھا۔ باقی سب کچھ مشترک تھا۔
انچ انچ کر کے میں درخت کی طرف بڑھا۔ پانچ فٹ آگے جا کر میں نے دیکھا کہ ایک کالی اور پیلی سی چیز دکھائی دے رہی ہے۔ تین انچ لمبی یہ چیز چٹانی سرے کی طرف تھی جو کہ جنگلی جانوروں کی بنائی ہوئی پگڈنڈی تھی۔ منٹ بھر میں اسے دیکھتا رہا۔ یہ ساکت تھی۔ حتٰی کہ مجھے پورا یقین ہو گیا کہ یہ شیر کی دم کا سرا ہے۔
اگر دم کا سرا میری مخالف سمت تھا تو یقیناً سر میری طرف ہوتا۔ دم کا یہ سرا کوئی بیس فٹ دور تھا۔ شیر کی آٹھ فٹ کی جسامت ملا کر اس کا جسم مجھ سے بارہ فٹ دور ہوتا۔ یعنی شیر درخت کے پیچھے چھپا ہوا جست لگانے کے لئے تیار ہوگا۔ پھر بھی مجھے بہت آگے جا کر درخت کے اوپر سے جھانک کر دیکھنا پڑتا کہ کس جگہ شیر کو گولی مارنا بہتر رہے گا۔ زندگی میں پہلی بار مجھے سیفٹی کیچ استعمال کرنے کی عادت پر غصہ آیا۔ میری اعشاریہ ۴۰۰/۴۵۰ بور کی رائفل کا سیفٹی کیچ حرکت کرتے وقت واضح طور پر کلک کی آواز پیدا کرتا تھا۔ اس وقت ہلکی سی آہٹ سے بھی شیر حملہ کرنے کی بجائے دوسری جانب سے فرار ہو جاتا۔
انچ انچ کر کے میں آگے بڑھتا رہا حتٰی کہ شیر اس کی پوری دم اور پھر پچھلی ٹانگیں دکھائی دیں۔ جونہی اس کا پچھلا دھڑ دکھائی دیا، میرا دل چاہا کہ خوشی سے نعرہ لگاؤں۔ شیر چھلانگ لگانے کے لئے تیار نہیں بلکہ آرام سے سو رہا تھا۔ چونکہ درخت پر اس کے لئے دو فٹ جتنی ہی جگہ تھی، اس نے پچھلی ٹانگیں پھیلا کر پیچھے موجود درخت سے ٹکائی ہوئی تھیں۔ ایک فٹ اور آگے بڑھا تو مجھے شیر کا پیٹ دکھائی دیا۔ اس کی حرکت سے ظاہر ہو رہا تھا کہ شیر آرام سے سو رہا ہے۔ اب میں زیادہ تیزی سے آگے بڑھا اور پھر میں نے اس کے کندھے اور پھر سارا جسم دیکھا۔ اس کے سر کی پشت گھاس کے ٹکڑے پر تھی اور درخت کے تنے سے تین چار فٹ دور۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور ناک آسمان کی طرف تھا۔
رائفل سے اس کی پیشانی کا نشانہ لیتے ہوئے میں نے لبلبی دباتے ہوئے سیفٹ کیچ ہٹایا۔ مجھے قطعی اندازہ نہ تھا کہ اس کا کیا اثر ہوگا۔ تاہم تجربہ کامیاب رہا۔ اتنے قریب سے بھاری رائفل کی گولی لگی مگر اس کا بال بھی نہ ہلا۔ میں نے دوسری گولی چلائی۔ شیر اسی حالت میں رہا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اس کے پیٹ کا پھولنا پچکنا بند ہو گیا تھا اور ماتھے کے دو ننھے ننھے سوراخوں سے خون بہہ رہا تھا۔
مجھے اندازہ نہیں کہ شیر کا قرب دوسروں پر کیسے اثر کرتا ہے لیکن میرا سانس ہمیشہ پھول جاتا ہے۔ اس کی وجہ خوف اور جوش دونوں ہی ہیں۔ اس کے فوراً بعد آرام کرنے کی طلب ہوتی ہے۔ میں اسی ٹوٹے ہوئے درخت کے تنے پر بیٹھ گیا اور سیگرٹ سلگا لیا۔ گلا خراب ہونے کی وجہ سے کئی دن سے میں سیگرٹ پینا چھوڑے ہوئے تھا۔ اب میں نے ذہن کو آزاد چھوڑ دیا۔ ہر کام جب اچھے طریقے سے مکمل ہو جائے تو بہت اطمینان ملتا ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ میری یہاں آمد کی وجہ آدم خور کی ہلاکت تھی۔ دو گھنٹے قبل سڑک چھوڑنے سے لے کر سیفٹی کیچ ہٹانے تک بشمول لنگور کی آواز، سب کام بالکل بہترین انداز میں ہوئے تھے۔ اس وقت میں وہی کیفیت محسوس کر رہا تھا جو کیفیت کوئی مصنف اپنی کتاب کی تکمیل پر محسوس کرتا ہے۔ ایسی کتاب جس کا باب در باب اس کی توقع کے مطابق آگے بڑھتا چلا گیا ہو۔ تاہم میری موجودہ صورتحال میں اختتام اتنا تسلی بخش نہ تھا کیونکہ میں نے اس جانور کو سوتی ہوئی حالت میں پانچ فٹ دور سے ہلاک کیا تھا۔
میرے ذاتی احساسات شاید آپ کو دل چسپ نہ محسوس ہوں۔ تاہم یہ بات ملحوظ رہے کہ آدم خور کا شکار کوئی کرکٹ کا کھیل نہیں۔ میں آپ کے سامنے وہ دلائل پیش کرتا ہوں جو میں نے خود کو مطمئن کرنے کے لئے دیئے۔ امید ہے کہ آپ کو بھی یہ دلائل قائل کر لیں گے:
۱۔ شیر آدم خور تھا، اس کی زندگی سے زیادہ اس کی موت مطلوب تھی
۲۔ شیر کا نیند یا بیداری کی حالت سے قطع نظر، مارا جانا ہی بہتر تھا
۳۔ اگر میں اسے سوتی حالت میں چھوڑ کر چلا جاتا تو بعد میں ہونے والی تمام اموات کا میں براہ راست ذمہ دار ہوتا۔
تاہم یہ تمام دلائل بھی میرے دل سے یہ خلش نہ نکال پائے کہ میں نے شیر کو ایک بار جگا کر فرار کا موقع دیتے ہوئے گولی کیوں نہ چلائی۔
شیر مر چکا تھا اور یہ میرا انعام تھا۔ اسے نیچے گرنے اور پھر خراب ہونے سے بچانے کے لئے اسے جتنا جلد ممکن ہوتا، اس جگہ سے ہٹانا بہتر تھا۔ میں نے رائفل کو اسی گرے ہوئے درخت سے ٹکا دیا کیونکہ ابھی اس کا مزید فوری استعمال ضروری نہیں تھا۔ پھر میں سڑک پر پہنچا اور دونوں ہاتھوں کو منہ پر رکھ کر "کوووئی" کی آواز نکالی۔ مجھے دوسری بار آواز پیدا کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کیونکہ میرے ساتھی ابھی پہلے بچھڑے سے ہو کر لوٹ رہے تھے کہ انہوں نے گولیوں کی آواز سنی۔ آواز سنتے ہی وہ بھاگ کر ہٹ کی طرف گئے اور دیہاتیوں کو اکٹھا کیا اور میری کوئی سنتے ہی بھاگم بھاگ ادھر آن پہنچے۔
جب رسیاں اور کلہاڑیاں آ گئیں تو میں انہیں ساتھ لے کر لوٹا۔ شیر کو رسیوں سے باندھ کر اور کچھ اٹھائے اور کچھ گھسیٹتے ہوئے نیچے اتارا۔ ابھی میں اس کی کھال اتارنے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ لوگوں نے درخواست کی کہ میں اس کام کو کچھ دیر کے لئے ملتوی کر دوں۔ کرتکالہ اور دیگر دیہاتوں کے لوگ اگر اپنے دشمن کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ پاتے تو بہت مایوس ہوتے۔اس دشمن کو جس کے خوف کے سائے تلے وہ کئی سالوں سے جی رہے تھے۔
دو چھوٹے چھوٹے درختوں کو کاٹ کر اس پر شیر کو لادا اور پھر ہم ہٹ تک پہنچے۔ میں نے دیکھا کہ کئی لوگ شیر کی ٹانگوں پر ہاتھ پھیر کر میری بات کی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہٹ کے سامنے میں نے شیر کو رکھوایا اور لوگوں سے کہا کہ دو بجے میں کھال اتارنا شروع کر دوں گا کہ دن بہت گرم تھے اور دیر کرتا تو بال جھڑنے لگ جاتے اور کھال خراب ہو سکتی تھی۔
دو بجے سے قبل اس شیر کا میں تفصیلی معائینہ نہ کر سکا۔ پھر میں نے شیر کو پشت کے بل لٹایا اور کھال اتارنا شروع کی۔ میں نے محسوس کیا کہ اگلے بائیں پنچے کے اندر والی طرف سے زیادہ تر بال گم ہیں اور اس میں چھوٹے چھوٹے سوراخ ہیں جن سے زرد مواد نکل رہا تھا۔ میں نے اس ٹانگ کو وہیں چھوڑا اور باقی کھال اتارنا شروع کی۔ یہ ٹانگ دوسری ٹانگوں کی نسبت پتلی تھی۔ جب باقی کھال اتر چکی تو میں نے سینے سے لے کر اس کے بائیں ٹانگ کے پنجے کی گدی تک گہرا شگاف لگایا۔ جونہی میں نے کھال اتارنا شروع کی اور گوشت سامنے آیا، اس میں چبھے ہوئے سیہہ کے کانٹے میں نے یکے بعد دیگرے نکالنا شروع کر دیئے۔ میرے ساتھ کھڑے دیہاتی اسے بطور سوغات قبول کرتے گئے۔ ان میں سب سے بڑا کانٹا پانچ انچ لمبا تھا۔ کل کانٹے پچیس سے تیس کے درمیان تھے۔ کھال کے نیچے شیر کے سینے سے لے کر پاؤں تک گوشت صابن کی طرح نرم تھا اور اس کا رنگ گہرا زرد ہو چکا تھا۔ اسی وجہ سے شیر چلتے ہوئے آواز پیدا کرتا تھا۔ اسی وجہ سے ہی وہ آدم خور بنا۔ سیہہ کے کانٹے چاہے جتنے عرصے تک شیر کی کھال یا گوشت میں پیوست رہیں، گلتے نہیں۔
میں نے اب تک سیہہ کے کوئی دو سو کے قریب کانٹے اپنے شکار کردہ آدم خوروں کے جسم سے نکالے ہیں۔ ان میں سے اکثر کانٹے نو انچ تک لمبے اور پینسل جتنے موٹے بھی تھے۔ ان کی اکثریت مضبوط پٹھوں میں گھسی ہوئی تھی اور وہ کھال سے ذرا نیچے سے ٹوٹے ہوئے تھے۔
ظاہر ہے کہ یہ کانٹے سیہہ کے شکار کے دوران لگتے ہوں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیر جیسے چالاک اور عقلمند جانور سے اتنی غفلت کیسے ہو سکتی ہے کہ سیہہ اپنے کانٹے پھینک سکے۔ سیہہ ایسا پیچھے ہٹتے ہوئے ہی کرتی ہے۔ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کانٹے ٹوٹ کیوں جاتے ہیں کیونکہ وہ بھربھرے نہیں ہوتے؟ مجھے افسوس ہے کہ ان سوالات کا کوئی بھی تسلی بخش جواب میرے پاس نہیں۔
تیندوے شیروں کی طرح سیہہ کو شوق سے کھاتے ہیں لیکن وہ کانٹوں سے ہمیشہ ہے بچ نکلتے ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ تیندوے سیہہ کو سر سے پکڑ کر ہلاک کرتے ہیں۔ شیر یہ طریقہ کیوں نہیں اپناتے؟
یہاں اس ضلعی کانفرنس کے دوران مجھے تفویض کردہ تین آدم خوروں میں سے دوسرا بھی اپنے انجام کو پہنچا۔ موقع ملتے ہی میں آپ کو کنڈا کے آدم خور کی ہلاکت کا واقعہ بھی سناؤں گا۔

٭٭٭
  
میرے خوابوں کی مچھلی
مہاشیر مچھلیوں سے بھرے ہوئے پہاڑی دریا پر مچھلی کا شکار کھیلنا میرے نزدیک تمام شکاروں کا سردار ہے۔ ہمارا ماحول جہاں ہم اس سے شاید آگاہ بھی نہیں ہوتے، ہر قسم کے شکار کے لطف کو دوبالا کرتا ہے۔غیر دلچسپ ماحول میں مچھلی کا بہترین شکاری اپنی بہترین مچھلی پکڑنے پر ویسا ہی محسوس کرے گا جیسا کہ صحرائے صحارا میں منعقد ڈیوس کپ جیتنے والا ٹینس کا کھلاڑی۔
یہ دریا جہاں میں مچھلیاں پکڑ رہا تھا، چالیس میل طویل تھا اور خوبصورت وادی سے گذرتا تھا جہاں جنگل میں ہر قسم کے جانور اور پرندے پائے جاتے تھے۔ ایک بار میں نے ارادہ کیا کہ پورے دن میں دکھائی دینے والے پرندوں اور جانوروں کی انواع کی نمبرشماری کروں گا۔ دن کے اختتام پر میں نے سانبھر، چیتل، کاکڑ، گڑھل، سور، لنگور اور سرخ بندر جانوروں کی فہرست میں جبکہ پرندوں کی کل پچہتر اقسام شمار کیں۔
اس کے علاوہ میں نے پانچ اود بلاؤں کے ایک غول کے علاوہ کئی چھوٹے مگرمچھ اور ایک اژدھا بھی دیکھا۔ یہ اژدھا ایک ساکن تالاب کے پانی میں لیٹا ہوا تھا اور اس کے سر کا اوپری حصہ اور آنکھیں پانی سے باہر تھیں ۔ میں نے اس طرح لیٹے ہوئے اژدھے کی تصویر کھینچنے کی خواہش جانے کب سے دل میں پال رکھی تھی۔ تاہم اس کے لئے مجھے تالاب کے اوپر والے دریا کو عبور کر کے مخالف سمت کی پہاڑی چڑھنا تھا تاہم بدقسمتی سے اژدھا مجھے دیکھ چکا تھا اور جونہی میں واپس مڑا، اژدھا فوراً ہی تالاب کے کنارے پر موجود پتھروں میں اپنی رہائش کو چل پڑا۔
یہ وادی چند جگہوں پر اتنی تنگ ہو جاتی ہے کہ چند جگہوں پر اس کے دوسرے کنارے پر پتھر پھینکا جا سکتا ہے۔ بعض جگہوں پر اس کی چوڑائی ایک میل سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ کھلی جگہوں پر املتاس کے درخت اگے ہوئے ہیں جن کے دو دو فٹ لمبے پھولوں کے گچھے، کروندے اور دیگر جھاڑیوں پر مختلف خوبصورت پھول اس وادی کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔ ان پھولوں کی خوشبو مجموعی طور پر فضاء کو انتہائی خوشگوار بنا دیتی ہے اور پرندوں کی چہچہاہٹ ماحول کو انتہائی خوشگوار بنا دیتی ہیں۔ اس طرح کے مقام پر مہاشیر کا شکار کرنا بادشاہوں کو زیب دیتا ہے۔ تاہم اس جگہ میری آمد کا مقصد مہاشیر کا شکار نہیں تھا بلکہ دن کی روشنی میں شیر کی متحرک فلم بنانا تھا تاہم جب روشنی مناسب نہ رہی تو میں نے کیمرہ رکھ کر بنسی اٹھا لی۔
میں علی الصبح سے ہی گھر سے نکل آیا تھا۔ شیرنی اور اس کے دو بچوں کی متحرک فلم بنانے کے لئے میں نے گھنٹوں خرچ کئے تھے۔ یہ شیرنی نوعمر تھی اور ہر نوعمر ماں کی طرح پریشان تھی اور جونہی میں اس کے قریب ہوتا تو وہ فوراً ہی گھنی جھاڑیوں میں بچوں سمیت چھپ جاتی۔ تاہم بچوں کے ساتھ موجود ہر شیرنی کو تنگ کرنے کی ایک حد ہوتی ہے چاہے وہ نوعمر ہو یا بوڑھی۔ جونہی یہ حد پوری ہوئی تو میں نےا پنا طریقہ بدل دیا اور گھاس کے کھلے میدانوں کے کنارے درختوں پربیٹھا۔ اسی طرح لمبی گھاس میں کھڑے پانی کے تالاب کے کنارے چھپا رہا جہاں سے شیرنی اور اس کے بچے اکثر پانی پیتے تھے تاہم ناکامی ہوئی۔
تاہم جب ڈھلے سورج کی روشنی گھاس کے ان قطعوں سے ہٹی تو میں نے کوشش ترک کر دی اور اس دن کو سینکڑوں ایسے دنوں میں شمار کیا جو میں نے اسی طرح شیروں کی فلم بنانے کی ناکام کوششوں میں خرچ کئے تھے۔میرے ساتھ دو آدمی بھی تھے جو دریا کے دوسرے کنارے درخت کی چھاؤں میں بیٹھے تھے۔ انہیں بلا کر میں نے کیمرہ انہیں دیا اور بنسی اٹھا لی۔ انہیں میں نے ہدایت کی کہ جنگل میں پگڈنڈی کے راستے وہ کیمپ کو لوٹ جائیں۔ میرا ارادہ تھا کہ دریا پر جا کر رات کے کھانے کے لئے مچھلی پکڑوں۔
حالیہ برسوں میں مچھلی کے شکار میں استعمال ہونے والی بنسیوں میں تبدیلی آئی ہے اور یہ تبدیلی اتنی ہی بڑی ہے جیسا کہ خواتین کے لباسوں میں آنے والی تبدیلی۔ کون جانے کہ وہ اٹھارہ فٹ لمبی بنسیاں جن کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے مختلف چیزیں لگائی جاتی تھیں، جنہیں استعمال کرنے کے لئے طاقتور پٹھوں کی ضرورت پڑتی تھی اوران کی جگہ اب ایک ہاتھ سے استعمال ہونے والی ہلکی بنسیاں آ چکی ہیں۔
میرے پاس گیارہ فٹ طویل ٹورنامنٹ ٹراؤٹ والی بنسی تھی۔ ریل میں پچاس گز طویل کاسٹنگ لائن اور ۲۰۰ گز طویل ریشمی ڈوری تھی۔ اس کے سرے پر ایک انچ جتنی گھر پر بنائی ہوئی سپون تھی۔
جب شکار کرنے کے لئے بہت ساری جگہ موجود ہو تو بندہ خود بخود پریشان ہو جاتا ہے۔ کسی تالاب کو جانے والا راستہ دشوار لگتا ہے اور کسی جگہ ڈوری کے پھنس جانے کا اندیشہ ستانے لگتا ہے۔ اس بار بھی میں نے نصف میل چلنے کے بعد اپنی مرضی کی جگہ دیکھی۔ یہاں شفاف پانی پتھروں سے ہوتا ہوا ۸۰ گز تک سیدھا چلا جاتا ہے اور پھر سیدھا ۲۰۰ گز لمبے اور ۷۰ گز چوڑے تالاب میں جا گرتا ہے۔ اس جگہ میں نے رات کے کھانے کے لئے مچھلی پکڑنے کا ارادہ کیا۔
پانی کے بالکل قریب کھڑے ہو کر میں نے چارہ پھینکا اور ابھی میں نے چند ہی گز ڈوری ڈالی تاکہ بہاؤ کے ساتھ ساتھ کانٹا دور چلا جائے کہ کنارے کے پاس جہاں میں کھڑا تھا، اچانک ایک مچھلی نے چارہ اور کانٹا نگل لیا۔ خوش قسمتی سے بقیہ ڈور ریل سے آسانی سے نکلتی گئی۔
مچھلی کانٹے کے ساتھ بہاؤ کی سمت بھاگی اور ریل سے ڈوری نکلنے کی مسحور کن آواز آتی رہی۔ پچاس گز کاسٹ لائن کے بعد سو گز جتنی ڈوری بھی جا چکی تھی اگرچہ ان کے جانے سے میرے بائیں ہاتھ کی انگلیاں جل رہی تھیں۔ جتنی تیزی سے یہ دوڑ شروع ہوئی تھی، اتنی ہی تیزی سے اچانک ڈوری ڈھیلی پڑ گئی۔
ایسے مواقع پر اکثر منفی خیالات ذہن میں آتے ہیں۔ تاہم میں نے ان منفی خیالات کو ذہن سے جھٹک دیا۔ کانٹا مچھلی کے منہ میں اچھی طرح گڑ چکا تھا۔ کاسٹ پائلٹ گٹ کمپنی کی بنی ہوئی ڈوری سے میں نے خوداحتیاط سے بنا کر آزمائی تھی۔ آخری سوچ یہی تھی کہ پچھلے شکاروں کے دوران رنگ کے پتھر پر لگنے سے اس میں خراشیں آتی رہی تھیں جن کی وجہ سے اب یہ ٹوٹ گیا تھا۔
۶۰ گز جتنی ڈوری واپس ریل میں آ چکی تھی کہ اچانک ہی ڈوری بائیں جانب مڑتی دکھائی دی۔ اگلے ہی لمحے ڈوری بہاؤ کی مخالف سمت گھوم گئی۔ ظاہر ہے کہ مچھلی ابھی تک کانٹے میں ہی پھنسی ہوئی تھی اور اب اس کا رخ تیز بہاؤ والے پانی کی طرف تھا۔ میں نے بار بار ڈوری کو بہاؤ کی اور اس کے مخالف سمت کھینچا تاہم ڈوری اسی جگہ ہی رکی رہی۔ وقت گذرتا گیا اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ شاید کسی وجہ سے کانٹا مچھلی کے منہ سے نکل کر پتھر یا کسی اور چیز میں اٹک گیا ہے۔ ابھی میں ناامید ہونے ہی والا تھا کہ اچانک ہی ڈوری پہلے ڈھیلی پڑی اور پھر دوبارہ سے تن گئی۔ اگلے ہی لمحے مچھلی بہاؤ کے ساتھ انتہائی تیزی سے چل پڑی۔
بظاہر اس کا ارادہ یہی تھا کہ وہ اب دریا سے نکل کر نیچے موجود تالاب میں جا داخل ہو۔ ایک ہی دوڑ میں وہ تالاب کے آخری سرے تک پہنچ گئی۔یہاں پانی ساکن ہو کر اتھلا ہو گیا تھا۔ یہاں چند لمحے رک کر اس نے دوبارہ تالاب کا رخ کیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں نے پہلی بار اسے پانی کی سطح سے تھوڑا سا اوپر نکلتے دیکھا۔ چونکہ ڈور بالکل سیدھی اسی سمت تھی جہاں مچھلی نے پانی سے سر باہر نکالا تھا تاہم یہ یقین کرنا دشوار ہو رہا تھا کہ یہ اتنی بڑی مچھلی کہ جس کا ایک پر پانی کی سطح سے پانچ انچ جتنا نکلا ہوا ہے، مجھ سے ایک یا دو گز کے فاصلے سے کانٹا نگل سکتی ہے۔
تالاب کی گہرائی میں واپس پہنچنے کے بعد میں نے اسے انچ انچ کر کے اوپر کھینچنا شروع کیا۔ بڑی مچھلی کو ٹراؤٹ والی بنسی سے ایک ہاتھ کی مدد سے خشکی پر لانا کوئی آسان کام نہیں۔ چار بار میں اسے گھسیٹ کر کنارے پر اتنی دور لایا کہ اس کا اوپری حصہ پانی سے باہر تھا اور ہر بار میری آمد سے خبردار ہو کر وہ دوبارہ تالاب کا رخ کرتی اور ہر بار اسے دوبارہ سے میں اتنی محنت کر کے گھیسٹ لاتا۔ پانچویں بار میں نے بنسی کو ہاتھ میں اس طرح پکڑا کہ ڈوری راستے میں نہ آئے اور پھر میں نے پہلے ایک پھر دوسرا ہاتھ اس کے گلپھڑوں میں ڈالنے کے بعد اسے آسانی سے پانی سے نکال کر خشکی پر ڈال دیا۔
ایک مچھلی پکڑنے کی نیت سے میں نکلا تھا اور ایک ہی مچھلی میں نے پکڑی تھی۔ تاہم اس مچھلی کو آج رات کے کھانے میں استعمال کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ یہاں سے کیمپ تک تقریباً ساڑھے تیل میل کا دشوار گذار راستہ تھا جس کا نصف حصہ ہر حال میں مجھے تاریکی میں ہی طے کرنا تھا۔
۱۱ پاؤنڈ وزنی کیمرہ واپس بھیجتے وقت میں نے وہ سوتی دھاگہ اپنے پاس ہی رکھ لیا تھا جس کی مدد سے میں درخت پر چڑھنے کے بعد کیمرہ اوپر کھینچتا تھا۔ اس دھاگے کا ایک سرا میں نے مچھلی کے گلپھڑے سے داخل کر کے منہ سے نکالا اور گرہ دے دی۔ پھر میں نے دوسرا سرا درخت کی شاخ سے باندھ دیا۔ اس طرح مچھلی ایک بڑے پتھر کے پیچھے نسبتاً پرسکون پانی میں رک گئی۔ مجھے اود بلاؤں سے خطرہ تھا اس لئے میں نے اپنے رومال سے جھنڈی سے بنائی اور مچھلی سے کچھ نیچے اسے گاڑ دیا۔
اگلی صبح سورج ابھی پہاڑوں سے بلند ہو ہی رہا تھا کہ میں نے مچھلی کو وہیں پایا جہاں چھوڑ کر گیا تھا۔ سوتی دھاگے کو شاخ سے کھولنے کے بعد میں نے اپنے ہاتھ میں لپیٹ لیا اور نیچے اترا۔ میری آمد سے ڈر کر یا پھر ڈوری میں ارتعاش محسوس کر کے مچھلی اچانک تڑپی اور دریا کے بہاؤ کی مخالف سمت کا رخ کیا۔ مچھلی کی یہ حرکت اتنی غیر متوقع تھی کہ میں پھسلوان پتھر پر اپنے پیر نہ جما سکا اور مچھلی کے پیچھے پیچھے پانی میں گرا۔
ان پہاڑی دریاؤں میں میں اپنے قد سے زیادہ گہرے پانی میں جانے سے گریز کرتا ہوں کیونکہ مجھے کسی بھوکے اژدھے کے ہاتھوں مرنا قبول نہیں۔ خوش قسمتی سے وہاں کوئی انسان قریب نہیں موجود تھا ورنہ جتنی عجلت میں میں پانی سے باہر نکلا، اگر کوئی دیکھ پاتا تو ہنستے ہنستے بے حال ہو جاتا۔ جونہی میں دریا کے دوسرے کنارے پر نکلا تو مچھلی میرے ہاتھ سے بندھی ہوئی تھی اور اسی وقت میرے ساتھی آن پہنچے۔ انہیں مچھلی پکڑا کر میں نے ہدایت کی کہ اسے کیمپ لے جائیں اور خود کپڑے بدلنے اور کیمرہ تیار کرنے ان سے پہلے چل پڑا۔
اس وقت میرے پاس مچھلی کو تولنے کا کوئی پیمانہ نہیں تھا لیکن میرا اور میرے ساتھیوں کا اندازہ ۵۰ پاؤنڈ تھا۔
مچھلی کے وزن کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی کیونکہ انہیں کوئی یاد نہیں رکھتا۔ تاہم جس ماحول اور جس گرد و نواح میں مچھلی کا شکار ہوا ہو، ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ چمکدار نیلے پانی جس میں فرن موجود تھے اور جہاں پانی پتھروں پر بہتا ہوا ایک تالاب سے دوسرے کو جاتا ہے جہاں ہر تالاب دوسرے سے زیادہ خوبصورت ہے، جہاں کنگ فشر مچھلی کی تلاش میں پانی میں غوطہ لگا کر موتیوں جیسے پانی کے قطرے گراتا ہوا چہکتا ہوا اڑتا ہے، جہاں سانبھر دور سے بول رہا ہو اور چیتل صاف آواز میں جنگل کو اس شیر کی آمد کی خبر دے رہا ہو کہ جس نے چند منٹ قبل دریا عبور کیا تھا اور اب خوراک کی تلاش میں نکلا ہے۔ یہ باتیں کبھی نہیں بھول سکتیں اور ہمیشہ ذہن میں تازہ رہیں گی۔ ایسی جگہ جہاں انسان نے ابھی تک فطرت کو بدلنے کی کوشش نہیں کی۔

٭٭٭

کانڈا کا آدم خور
بے شک ہم لوگ دوسروں کی توہم پرستی کا جتنا بھی مذاق اڑا لیں مثلاً کھانے کی میز پر تیرہ افراد کا اکٹھا ہونا، کھانے میں شراب آگے بڑھانا، سیڑھیوں کے نیچے چلنا وغیرہ وغیرہ، تاہم ہماری ذاتی توہم پرستی ہمارے لئے بہت اہم ہوتی ہے۔
میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ آیا شکاری عام افراد کی نسبت زیادہ توہم پرست ہوتے ہیں یا نہیں۔ لیکن میرے علم میں یہ ہے کہ وہ شکاری اپنے توہمات کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ میرا ایک دوست جب بھی شیروں کے شکار پر جاتا ہے، ہمیشہ پانچ کارتوس لے کر جاتا ہے۔ نہ پانچ سے کم نہ پانچ سے زیادہ۔ ایک اور دوست سات کارتوس لے جاتا ہے۔ ایک اور دوست جو شمالی ہندوستان کا شیر وغیرہ کا بہترین شکاری کہلاتا ہے، شکار کے سیزن کا آغاز ہمیشہ مہاشیر مچھلی کے شکار سے کرتا ہے۔ میرا ذاتی تجربہ سانپوں سے متعلق ہے۔ یہ میرا بہت لمبا تجربہ ہے کہ چاہے میں آدم خور کے پیچھے کتنا ہی خوار کیوں نہ ہو لوں، اگر میں پہلے ایک سانپ نہیں مارلیتا، میں آدم خور کو مارنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔
ایک بار مئی کے گرم دنوں میں صبح سے بے شمار میل پہاڑوں پر اوپر نیچے پھرا۔ گھنی جھاڑیوں سے گذرا اور اپنے گھٹنے اور کہنیاں چھلوائیں۔ کسی گدھے کی طرح تھکا ہارا بنگلے کی طرف واپس لوٹا۔ دو کمروں کا یہ فارسٹ بنگلہ ان دنوں میری قیام گاہ تھا۔ یہاں آ کر میں نے کچھ مقامی لوگ دیکھے۔ انہوں نے یہ خوش خبری سنائی کہ آج آدم خور ان کے گاؤں کے پاس دیکھا گیا ہے۔ اس وقت اندھیرا ہو رہا تھا اور کچھ کرنا بیکار ہوتا۔ انہیں لالٹین دے کر میں نے واپس بھیجا۔ انہیں سختی سے یہ بھی تاکید کر دی کہ اگلے دن کوئی بھی شخص گھر سے باہر کسی بھی صورت نہ نکلے۔
یہ گاؤں اس چٹانی چھجے کی دوسری طرف تھا جہاں بنگلہ تھا۔ اکیلا گاؤں ہر طرف سے گھنے جنگلات سے گھرا ہوا تھا اور آدم خور کا سب سے زیادہ یہی نشانہ بنا۔ آدم خور کے حالیہ شکار دو عورتیں اور ایک مرد تھے۔
اگلی صبح میں نے گاؤں کے گرد چکر لگایا۔ دوسرے چکر کا بڑا حصہ بھی طے ہو چکا تھا جو پہلے چکر سے چوتھائی میل دور تھا۔ ایک ڈھلوان سامنے آئی جو پتھروں اور چکنی مٹی سے بھری ہوئی تھی۔ اس کے بعد ایک برساتی نالہ ملا جو پہاڑی سے سیدھا نیچے اترتا تھا۔ میں نے نالے میں اترنے سے قبل دونوں کناروں کا بغور جائزہ لیا تاکہ شیر کی عدم موجودگی کا اطمینان ہو۔ اچانک پچیس فٹ دور میں نے کچھ حرکت سی محسوس کی۔ یہاں باتھ ٹب سائز کا تالاب موجود تھا۔ اس کے دوسرے کنارے ایک سانپ پانی پی رہا تھا۔ اس نے سر اٹھایا تھا جو میری توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کا سبب بنا۔ اس نے دو یا تین فٹ بلند ہو کر پھن پھیلایا تو معلوم ہوا کہ ہی کنگ کوبرا ہے۔ میں نے آج تک اتنا خوبصورت سانپ نہیں دیکھا تھا۔ اس کا گلا میری طرف تھا جو خوبصورت گہرے نارنجی رنگ کا تھا اور بتدریج سرخ ہوتا ہوا باقی بدن سے جا ملتا تھا۔ اس کی پشت زیتونی سبز رنگ کی تھی۔ اس پر چاندی جیسے چانے بنے ہوئے تھے۔ یہ چانے دم سے چار فٹ اوپر کی طرف تھے۔ بقیہ پشت ساری کی ساری چمکدار کالے رنگ کی تھی۔ اس کی لمبائی تیرہ سے پندرہ فٹ کے لگ بھگ رہی ہوگی۔
اکثر لوگ قصے سنتے ہیں کہ کنگ کوبرا کو اگر چھیڑا جائے تو وہ کتنے خطرناک ہو جاتے ہیں اور ان کی رفتار بھی۔ اگر یہ سچ ہوتا تو میرے پاس بھاگنے کے لئے اوپر یا نیچے خطرہ ہی خطرہ تھا۔ میں نے اس پانی کے تالاب کے دوسرے کنارے پر ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے چھوٹی تھالی کے برابر پھن پر گولی چلا کر میں اس کا خاتمہ کر سکتا تھا لیکن اس طرح بھاری رائفل کے دھماکے سے خطرہ تھا کہ آدم خور ڈر کر بھاگ جاتا۔ منٹ بھر توقف کے بعد جس دوران سانپ اپنی زبان مسلسل اندر باہر کرتا رہا، سانپ نے پھن گرایا اور سڑک پر چل پڑا۔ اس سے نگاہیں ہٹائے بغیر میں نے ٹٹول کر زمین سے ایک پتھر اٹھایا جو کرکٹ کی گیند کے برابر حجم کا ہوگا۔ سانپ ابھی بمشکل ڈھلوان کے سرے تک پہنچا ہوگا کہ پوری طاقت سے پھینکا ہوا میرا پتھر اس کے سر پر لگا۔ کسی بھی دوسرے سانپ کو مارنے کے لئے یہ کافی ہوتا لیکن یہ سانپ پتھر کھاتے ہی مڑا اور میری طرف لپکا۔ میں نے دوسرا اور بڑا پتھر اٹھایا اور اس کی گردن پر مارا۔ اس دوران سانپ آدھا فاصلہ طے کر چکا تھا۔ دوسرا پتھر لگتے ہی سانپ وہیں تڑپنے لگا۔ اب اسے مارنا بہت آسان تھا۔ اب میں نے انتہائی مطمئن ہو کر دوسرا چکر پورا کیا۔ یہ بھی لاحاصل نکلا چونکہ میں سانپ کو مار چکا تھا، میرا حوصلہ بہت بلند تھا اور بہت دن کے بعد مجھے اب اپنی کامیابی کا یقین ہو چکا تھا۔
اگلے دن میں نے پھر اس گاؤں کے گرد چکر لگایا اور گذشتہ شام کےوقت شیر کے پگ ایک تازہ ہل چلے کھیت میں دیکھے۔ اس گاؤں کے کل باشندے سو کے لگ بھگ ہوں گے اور وہ سب کے سب پوری طرح خبردار تھے۔ انہیں اگلے دن واپسی کا کہہ کر میں نکلا اور فارسٹ بنگلے تک چار میل کے اکیلے سفر پر نکل کھڑا ہوا۔
جنگل سے یا ویران سڑکوں سے آدم خور کی موجودگی کے دوران گذرنا بہت زیادہ مشکل اور احتیاط طلب کام ہے۔ اس دوران بہت سارے اصولوں پر سختی سے کاربند رہنا چاہئے۔ آدم خوروں کا تجربہ کار شکاری ان اصولوں کو بخوبی جانتا ہے۔ اس کی تمام تر صلاحیتیں مرکوز ہو جاتی ہیں۔ اس دوران کوئی بھی غلطی اسے آدم خور کا تر نوالہ بنا سکتی ہے۔
قارئین پوچھ سکتے ہیں کہ میں اکیلا ہی سفر پر کیوں نکلا جبکہ میرے پاس کافی آدمی بھی تھے۔ میرا جواب یہ ہے کہ اگر بندہ اکیلا نہ ہو تو وہ دوسروں پر انحصار کرنے لگتا ہے اور اس طرح غیر محتاط ہو جاتا ہے۔ دوسرا شیر سے مڈبھیڑ اکیلے ہو تو اسے مار لینے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
اگلی صبح میں گاؤں پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ لوگ جمع ہیں۔ جب میں کچھ قریب ہوا تو وہ سب کے سب چلائے "شیر ایک بھینس لے گیا ہے۔" شیر نے بھینس کو گاؤں میں ہی مارا اور پھر اٹھا کر وادی کے نچلے سرے میں داخل ہوا۔ میں نے اندازے سے اس کا پیچھا کر کے اس جگہ پہنچنے کا سوچا جہاں بھینس کی لاش ہو سکتی تھی۔
میں نے ایک ابھری ہوئی چتان سے وادی کا جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ وادی میں شیر کے راستے سے گھسنا خطرناک ہے۔ اس کی بجائے بہتر یہ تھا کہ میں ایک لمبا چکر کاٹ کر دوسری طرف سے پہنچتا اور پھر نیچے سے اوپر کی طرف بڑھتا۔
میں چکر کاٹ کر کامیابی سے دوپہر کے وقت اس جگہ پہنچا جہاں میں نے اوپر کھڑے ہو کر جائزہ لیا تھا۔ یہاں وادی سو گز متوازی تھی اور پھر تین سو گز جتنی بلند ہوگئی تھی۔ میرے اندازےکے مطابق اس ہموار جگہ کے اوپری سرے پر شکار اور ممکن تھا کہ شیر بھی موجود ہوتا۔ اس تنگ اور دشوار وادی میں جھاڑیوں اور بانس کے جھنڈوں سے گذر کر میں پسینے میں شرابور ہو چلا تھا۔ جب فائر کرنے کا وقت نزدیک ہو تو پسینے والے ہاتھوں سے گولی چلانا غلط ہے۔ اس لئے میں پسینہ سکھانے اور سیگرٹ پینے کے لئے بیٹھ گیا۔
میرے سامنے کی زمین پر بڑے بڑے پتھر موجود تھے اور ان سے گذرتی ہوئی ندی جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے تالاب بناتی تھی۔ ان پتھروں پر چلتے ہوئے جانا ہی میرے لئے بہتر رہتا کیونکہ میں نے نہایت باریک ربر سول کے جوتے پہن رکھے تھے۔ جب میں پسینہ سکھا چکا تو آگے بڑھا کہ شاید سوتے ہوئے شیر پر نظر پڑ جائے۔ جب میں تین چوتھائی فاصلہ طے کر چکا تو میری نظر بھینس کی لاش پر پڑی جو جھاڑیوں میں موجود تھی۔ اس سے پچیس گز دور پہاڑی اچانک بلند ہوتی گئی تھی۔ شیر سامنے نہ تھا اور میں نے رک کر بہت احتیاط سےسامنے موجود ہر چیز کا جائزہ لیا۔
بڑھتے ہوئے خطرے کے اچانک پیدا ہونے والے احساسا سے تو سب ہی واقف ہیں۔ میں یہاں تین چار منٹ تک بالکل آرام سے رکا رہا۔ پھر اچانک ہی مجھے احساس ہوا کہ شیر بہت نزدیک سے مجھے دیکھ رہا ہے۔ میری چھٹی حس نے مجھے شیر کی اور شیر کی چھٹی حس نے اسے نیند سے جگا کر میری موجودگی کا احساس دلایا۔ میری بائیں جانب کچھ گھنی جھاڑیاں ایک ہموار جگہ پر اگی ہوئی تھیں۔ میری تمام تر توجہ ان جھاڑیوں پر مرکوز ہو گئی۔ یہ جھاڑیاں میری جگہ سے کوئی پندرہ یا بیس فٹ ہی دور رہی ہوں گی۔ جھاڑیوں میں اچانک معمولی سی حرکت ہوئی اور اگلے لمحے مجھے شیر پوری رفتار سے بھاگتا ہوا دکھائی دیا۔ اس سے پہلے کہ میں رائفل سیدھی کر پاتا، شیر ایک گھنے درخت کے پیچھے گم ہو گیا۔ دوبارہ مجھے شیر ساٹھ گز دور دکھائی دیا جب وہ جست لگا کر ایک پتھر پر چڑھ رہا تھا۔ میں نے نشانہ لے کر گولی چلائی اور گولی لگتے ہی شیر گر کر نیچے کی طرف لڑھکنے لگا۔ اس کے ساتھ بے شمار چھوٹے بڑے پتھر بھی لڑھک رہے تھے۔ میرا خیال تھا کہ شیر کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ جب چند لمحوں بعد شیر اور یہ سب پتھر وغیرہ میرے قدموں میں آ کر رکیں گے تو مجھے کیا کرنا چاہیئے، اچانک ہی شیر کی غراہٹیں بند ہو گئیں۔ اگلے لمحے وہ بظاہر ٹھیک ٹھاک بھاگتا ہوا پہاڑی پر چڑھ گیا۔ ایک لمحے کے لئے ہی وہ دکھائی دیا اور پھر اتنی تیزی سے گم ہو گیا کہ میں گولی نہ چلا سکا۔
بعد ازاں میں نے دیکھا کہ میری پچہتر ڈگری کے زاویے پر چلائی ہوئی گولی شیر کی بائیں کہنی پر لگی۔ اس جگہ سے ہڈی کا چھوٹا سا ٹکڑا ٹوٹ کر گرا۔ اسے انگریزی میں "فنی بون" کہتے ہیں۔ پھر گولی پتھر سے ٹکرا کر واپس پلٹی اور اس کے جبڑے کے سرے پر لگی۔ دونوں زخم تکلیف دہ تو ضرور تھے مگر مہلک نہیں ثابت ہو سکتے تھے۔ اس کے زخم سے بہتے ہوئے خون کی دھار کا پیچھا کرتے ہوئے میں اگلی وادی میں گھسا تو کانٹے دار جھاڑیوں کے ایک قطعے سے شیر کی غراہٹیں آنے لگیں۔ ان جھاڑیوں میں گھسنا خود کشی کے مترادف ہوتا۔
میری چلائی ہوئی گولی کی آواز گاؤں تک پہنچ گئی تھی اور لوگ جمع ہو کر چٹانی سرے پر میرے منتظر تھے۔ وہ یہ جان کر مجھ سے بھی زیادہ مایوس ہوئے کہ اتنی احتیاط اور مہارت دکھانے کے باوجود میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
اگلی صبح لاش کی طرف جا کر دیکھا تو پتہ چلا کہ شیر گذشتہ رات واپس آیا تھا اور اس نے لاش کو مزید کچھ کھایا بھی تھا۔ اب میرے لئے مچان پر بیٹھ کر گولی چلانے کا امکان پیدا ہو گیا تھا۔مشکل یہ آن کھڑی ہوئی کہ اس جگہ آس پاس کوئی بھی مناسب درخت نہ تھا۔ سابقہ تجربے کے باعث آدم خور کا انتظار زمین پر بیٹھ کرکرنا ھی ممکن نہیں تھا۔ ابھی میں اسی شش و پنج میں مبتلا تھا کہ نیچے وادی سے شیر کی دھاڑ سنائی دی۔یہ وہی جگہ تھی جہاں میں کل گیا تھا۔ اس آواز سے مجھے وہ طریقہ سوجھ گیا جو شیروں کو مارنے کے لئے کار آمد ہو سکتا ہے۔ شیر کو جن صورتوں میں اپنی طرف بلایا جا سکتا ہے وہ کچھ یوں ہیں: ۱۔ جب وہ ملاپ کے لئے ساتھی کی تلاش میں ہوں، ۲۔ جب وہ معمولی زخمی ہوں۔ یہ کہنا ضروری نہیں کہ شکاری شیر کی آواز کی بخوبی نقالی کر سکتا ہو۔ دوسرا یہ آواز کسی ایسی جگہ سے نکالی جائے جہاں شیر کو دوسرے شیر کی موجودگی کا امکان بھی محسوس ہوا، مثلاً گھنی جھاڑیاں یا گھنی گھاس کا قطعہ۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ شکاری کو بہت ہی کم فاصلے سے گولی چلانے کے لئے مکمل طور پر تیار رہنا چاہیئے۔ مجھے معلوم ہے کہ کچھ شکاری اس بات سے اتفاق نہیں کریں گے کہ معمولی زخمی شیر اس طرح کی آواز پر آ سکتا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ جب تک وہ خود نہ آزما لیں، اس سے انکار نہ کریں۔ موجودہ صورتحال میں اگرچہ شیر نے میری ہر آواز کا جواب دیا تھا اور گھنٹے بھر سے ہم آوازوں کا تبادلہ کر رہے تھے، شیر ذرا سا بھی نزدیک نہ ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ شیر شاید اس وجہ سے کترا رہا ہے کہ کل وہ اسی جگہ پر معمولی زخمی ہوا تھا۔ میں نے آخر کار ڈھلوان کے کنارے ایک درخت چنا اور اس کی آٹھ فٹ بلند شاخ پر بیٹھ گیا۔ یہاں میں نالے کی تہہ سے تیس فٹ بلند تھا جہاں میرے اندازے کے مطابق شیر نمودار ہوتا۔ درخت کا مسئلہ حل ہوا تو میں نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ وہ صبح ناشتے کے ساتھ آئیں۔
شام چار بجے میں آرام سے بیٹھ گیا۔ مین نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ وہ اگلی صبح نالے کے دوسرے کنارے سے "کووئی" کی آواز نکال کر مجھے مطلع کریں۔ اگر جواب میں تیندوے کی آواز آئے تو وہ وہیں رک جائیں اور اگر میری طرف سے جواب نہ ملے تو فوراً بھاگ کر گاؤں جائیں اور زیادہ سے زیادہ افراد جمع کر کے میری تلاش میں نکلیں۔ ساتھ ہی شور مچاتے اور پتھر پھینکتے آئیں۔
میں نے خود کو ہر طرح کی حالت میں سونے کے لئے عادی کیا ہوا ہے۔ چونکہ میں تھکا ہوا تھا، اس لئے نیند میں شام ڈھلنے کا پتہ بھی نہیں چلا۔ ڈوبتے سورج کی روشنی اور پھر لنگور کی آواز سن کر میں مکمل طور پر بیدار ہو گیا۔ میں نے فوراً ہی اس لنگور کو دیکھ بھی لیا۔ وہ وادی کے دوسرے سرے پر درخت کی سب سے اونچی ٹہنی پر بیٹھا میری ہی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں سمجھا کہ وہ مجھے تیندوا سمجھ کر شور مچا رہا ہے۔ یہ آواز چند ہی بار آئی اور پھر سورج ڈوبنے کے فوراً بعد ہی ختم ہو گئی۔
گھنٹوں پر گھنٹے گذرتے گئے اور اچانک پتھروں کا سیلاب سا بہتا ہوا میرے درخت سے آ ٹکرایا۔ اس کے ساتھ ہی میں نے بھاری جسامت اور نرم گدیوں والے جانور کی آواز سنی جو بلا شبہ شیر ہی تھا۔ پہلے میں نے سوچا کہ اتفاقاً شیر نیچے نالے سے آنے کی بجائے اوپر سے آ رہا ہے۔ جلد ہی یہ غلط فہمی بھی دور ہو گئی جب شیر نے میرے بالکل عقب سے غرانا شروع کر دیا۔ بظاہر شیر اس وقت یہاں پہنچا جب میں اپنے بندوں سے باتیں کر رہا تھا اور یہیں چھپ گیا۔ اسے دیکھ کر ہی لنگور چلا رہا تھا۔ شیر نے مجھے درخت پر چڑھتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ اب اس صورتحال کے لئے میں بالکل بھی تیار نہیں تھا۔ خاصی احتیاط کی ضرورت تھی۔ روشنی میں تو یہ شاخ بہت آرام دہ تھی لیکن اندھیرا چھاتے ہی اس پر حرکت کرنا مشکل ہوتا گیا۔ میں ہوائی فائر کر کے شیر کو بھگا سکتا تھا لیکن اس طرح شیر اتنا خوف زدہ ہو جاتا کہ پھر شاید ہی اس سے دوبارہ مڈبھیڑ ہوتی۔ میری رائفل اعشاریہ ۴۰۰/۴۵۰ بور کی بھاری رائفل تھی۔
مجھے معلوم تھا کہ شیر چھلانگ نہیں لگائے گا کہ اس طرح وہ تیس فٹ گہرے کھڈ میں گر سکتا تھا۔ لیکن اسے چھلانگ کی ضرورت بھی کیا تھی۔ آرام سے پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو کر وہ مجھے دبوچ سکتا تھا۔رائفل کو اٹھا کر الٹا پکڑا اور نالی کو پیروں کے بیچ لے آیا اور سیفٹی کیچ ہٹا دیا۔ اس بار زیادہ زور سے غراہٹ کی آواز آئی۔ اب اگر شیر حملہ کرتا تو وہ پہلے رائفل کی نال سے ٹکراتا۔ اس وقت میں انگلیاں لبلبیوں پر تھیں۔ اگر اس کے حملے پر گولی چلا کر میں اسے مار نہ بھی سکتا تو بھی میرے پاس اتنا وقت ہوتا کہ میں مزید اوپر چڑھ سکتا۔ وقت انتہائی سستی سے گذرتا رہا۔ آخر کار شیر نے چھلانگ لگا کر میری بائیں جانب ایک چھوٹی کھڈ عبور کی اور جلد ہی میں نے ہڈیوں کے چبائے جانے کی آواز سنی۔ میں کافی مطمئن ہو کر بیٹھ گیا۔ بقیہ رات شیر کے کھانے کی آواز آتی رہی۔
سورج نکلے ہوئے ابھی چند ہی منٹ ہوئے ہوں گے اور وادی ابھی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی کہ میرے آدمیوں کی "کووئی" کی آواز آئی۔ اسی وقت شیر نے میری بائیں جانب چھلانگ لگائی اور بھاگنے لگا۔ کم روشنی اور تھکے ہوئے اعصاب کے ساتھ میں نے اس پر گولی چلائی۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ گولی اسے لگی۔ زور سے دھاڑ کر وہ مڑا اور سیدھا میری طرف پلٹا۔ ابھی وہ درخت کے ساتھ پہنچ کر چھلانگ لگانے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ میری دوسری گولی اس کے سینے میں لگی۔ بھاری گولی کھاتے ہی اس کا رخ بدلا اور مجھ سے ذرا نیچے تنے سے ٹکرا کر گرا۔ گرتے ہی وہ پھر اٹھا اور چھلانگ لگا کر بھاگا۔ چند ہی گز دور جا کر وہ ایک تالاب کے کنارے گرا۔ وہ پانی اچھالتا رہا اور پورا تالاب دیکھتے ہی دیکھتے خون سے سرخ ہو گیا۔ پھر وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
شاخ پر پندرہ گھنٹے ایک ہی انداز میں بیٹھے رہنے سے میرے سارے پٹھے اکڑ گئے تھے اور نیچے اترتے ہوئے میرے کپڑے خون میں تر ہو گئے۔ شیر جہاں تنے سے آ کر ٹکرایا تھا، اس جگہ خون کے کافی نشانات چھوڑ گیا تھا۔ اب میں نے اپنے پٹھوں کو ہلایا جلایا اور پھر اس کے پیچھے لپکا۔ وہ تھوڑی دور ہی جا سکا تھا اور ایک اور تالاب کے کنارے مردہ پڑا ہوا تھا۔
میرے احکامات کے برعکس میرے ساتھیوں نے گولی کی آواز اور شیر کی دھاڑ سنی اور پھر دوسری گولی کی آواز سن کر بھاگے بھاگے آئے۔ خون سے لت پت درخت کے نیچے آ کر انہوں نے میرا ہیٹ پڑا دیکھا تو انہوں نے سوچا کہ شیر مجھے لے گیا ہے۔ ان کے چلانے کی آوازیں سن کر میں نے انہیں آواز دی۔ میرے کپڑوں پر خون دیکھ کر پھر ان کی ہمت پست ہو گئی۔ پھر میں نے انہیں بتایا کہ یہ خون شیر کا ہے میرا نہیں۔پھر انہوں نے ایک چھوٹا درخت کاٹا اور اس پر شیر کو لاد کر خوشی سے ناچتے گاتے گاؤں کی طرف روانہ ہوئے۔
ان دور دراز علاقوں میں جہاں آدم خور طویل عرصے سے سرگرم ہو، بعض اوقات بہادری کے نایاب نمونے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ واقعات ان دیہاتیوں کے لئے معمولی بات ہوتے ہیں اور بیرونی دنیا ان کے بارے کبھی بھی نہیں جان پاتی۔ اسی طرح کا ایک واقعہ جو کانڈا کے آدم خور سے متعلق ہے، میں بیان کرتا ہوں۔ یہ اس آدم خور کے آخری انسانی شکارسے متعلق ہے۔ میں اس جگہ واقعے کے رونما ہونے کے کچھ ہی دیر بعد پہنچا تھا۔ مجھے کچھ معلومات گاؤں والوں سے اور کچھ معلومات جائے وقوعہ کے بغور معائینے سے ملی تھیں۔ یہ کہانی کچھ اس طرح سے تھی۔
جہاں میں نے کانڈا کے آدم خور کو ہلاک کیا، اس کے پاس ہی ایک گاؤں میں ایک بوڑھا شخص اپنے نوجوان بیٹے کے ساتھ رہتا تھا۔ ۱۹۱۴ سے ۱۹۱۸ کے دوران تک باپ نے رائل گڑھوال رائفلز میں خدمات سر انجام دی تھیں۔ ان دنوں یہ کام اتنا آسان نہیں تھا اور نہ ہی آج کل کی طرح چند ملازمتیں اور بے شمار امیدوار۔ باپ کا خیال تھا کہ وہ بیٹے کو اسی فوج میں بھرتی کرائے۔ لڑکے اٹھارہ سال کا ہوتے ہی لانس ڈاؤن کی ایک جماعت ادھر سے گذری۔ لڑکا ان کے ساتھ ہو لیا اور سیدھا بھرتی دفتر پہنچ کر پیش ہو گیا۔ اس کے باپ نے بیٹے کو فوجی انداز میں سلام کرنا اور افسر کے سامنے پیش ہونے کے سارے آداب سکھا دیئے تھے۔ اس لئے بغیر کسی دقت کے وہ فوراً ہی منتخب ہو گیا۔ نام لکھے جانے کے بعد اسے اجازت دی گئی کہ وہ گھر جا کر اپنے کام وغیرہ نمٹا لے۔
لڑکا اس روز دوپہر کو گھر پہنچا۔ اسے گئے ہوئے پانچ دن ہو گئے تھے۔ اسے دوستوں نے فوراً گھیر لیا اور اسے بتایا کہ اس کا باپ کھیت میں ہل چلا رہا ہے اور مغرب سے قبل نہ لوٹے گا۔ (یہ وہی کھیت تھا جہاں میں نے شیر کے نشانات دیکھے تھے اور اسی دن کنگ کوبرا مارا تھا)۔
لڑکے نےمویشیوں کو چارہ وغیرہ ڈالا اور دوپہر کا کھانا ہمسائے کے گھر سے کھا کر دیگر بیس افراد کے ساتھ پتے جمع کرنے نکل کھڑا ہوا۔
جیسا کہ میں نے پہلےبتایا، یہ گاؤں چٹانی سرے پر بنا ہوا ہے اور اس کے ہر طرف جنگل ہی جنگل ہیں۔ انہی جنگلوں میں حالیہ واقعات میں دو عورتیں ماری گئی تھیں اور کئی ماہ سے مویشیوں کو پتے وغیرہ کھلا کر گذارا کیا جا رہا تھا۔ ہر روز عورتوں کو زیادہ دور جا کر پتے لانا پڑتے تھے۔ اس روز اکیس بندے مزروعہ زمین کو عبو رکر کے ایک گہری کھائی میں چوتھائی میل اندر گئے۔ یہ وادی شرقاً غرباً آٹھ میل تک پھیلی ہوئی ہے اور تاریک جنگلوں سے گذرتی ہے۔ ڈھکالہ جا کر یہ رام گنگا دریا سے جا ملتی ہے۔
وادی کا سرا کم و بیش متوازی زمین ہے اور ہر طرف گھنی گھاس اور بڑے درختوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔ ہر شخص یہاں الگ ہو کر اپنی مرضی کے درخت پر چڑھ گیا اور مطلوبہ مقدار میں پتے توڑ کر اور رسیوں سے ڈھیریاں بنا کر گاؤں کی طرف دو دو یا تین تین کی ٹولیوں میں چلا جاتا۔
آنے اور جانے کے وقت یہ تمام افراد زور زور سے چلاتے اور شور کرتے رہے تاکہ ان کے حوصلے بلند رہیں اور شیر کو پاس آنے کا موقع نہ ملے۔ اسی طرح درختوں پر چڑھے ہوئے بھی وہ برابر شور کرتے رہے۔ معلوم نہیں کس وقت ان کے شور سے خبردار ہو کر ہو کر شیر بیدار ہوا جو اس وقت یہاں سے نصف میل دور جنگل میں سو رہا تھا۔ یہاں سے جہاں اس نے چار روز قبل ایک سانبھر ہلاک کر کے کھایا تھا، نکلا اور ندی عبور کر کے پگڈنڈی پر چلتا ہوا ان لوگوں کی طرف آیا۔ (شیر کے پچھلے اور اگلے پنجوں سے بننے والے پگوں کے بغور مشاہدے سے اس کی رفتار کا جائزہ لیا جا سکتا ہے)
اس مذکورہ لڑکے نے بیری کے ایک درخت کا انتحاب کیا تھا۔ یہ درخت اس پگڈنڈی سے بیس گز دور تھا اور اس کی اوپری شاخیں ایک کھڈ میں جھکی ہوئی تھیں جہاں دو بڑے پتھر موجود تھے۔ اس پگڈنڈی کے ایک موڑ سے شیر نے اس لڑکے کو دیکھا۔ شیر چند منٹ تک اس لڑکے کا جائزہ لیتا رہا پھر پگڈنڈی سے ہٹ کرکھڈ سے تیس گز دور ایک اور گرے ہوئے درخت کے پیچھے چھپ گیا۔ لڑکے نے پتے توڑے اور انہیں اکٹھا کر کے باندھنے لگا۔ اس جگہ وہ بالکل محفوظ تھا۔ اچانک اس کی نظر ان دو شاخوں پر پڑی جو کھڈ میں گر گئی تھیں۔ وہ کھڈ میں داخل ہوا اور اس طرح اس نے اپنی قسمت پر خود ہی مہر لگا دی۔ جونہی وہ شیر کی نظروں سے اوجھل ہوا، شیر نے اپنی جگہ چھوڑی اور رینگتا ہوا کھڈ میں پہنچا۔ جونہی لڑکا شاخیں اٹھانے جھکا، شیر نے جست لگائی اور اسے ہلاک کر ڈالا۔ یہ بتانا ممکن نہیں کہ شیر کے حملے کے وقت دیگر افراد ادھر درختوں پر موجود تھے یا گاؤں چلے گئے تھے۔
سورج غروب ہوتے وقت باپ گاؤں پہنچا۔ اسے لوگوں نے گھیر لیا اور یہ خوش خبری سنائی کہ کس طرح اس کا بیٹا فوج کے لئے منتخب ہو چکا ہے اور یہ بھی کہ اسے مختصر چھٹی ملی ہے اور وہ گھر آیا ہوا ہے۔ باپ نے پوچھا کہ لڑکا کہاں ہے تو جواب ملا کہ وہ دیگر افراد کے ہمراہ مویشیوں کے لئے پتے توڑنے گیا ہوا تھا۔ لوگوں نے الٹا حیرت سے سوال کیا کہ کیا اسے بیٹا گھر پر نہیں ملا؟ اس نے باری باری ان تمام لوگوں سے پوچھا جو لڑکے کے ساتھ جنگل میں گئے تھے۔ سب نے ایک ہی جواب دیا کہ وادی کے سرے پر سب ایک دوسرے سے الگ الگ ہو گئے تھے۔ کسی کو بھی یاد نہیں کہ اس کے بعد لڑکا کہاں گیا۔
باپ مزروعہ زمین عبور کر کے کنارے پر گیا اور بار بار لڑکے کو آواز دی۔ لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔
اندھیرا چھانا شروع ہو چکا تھا۔ بیچارہ باپ گھر لوٹا اور چھوٹا سا لالٹین جلا کر باہر نکلا۔ لالٹین دھوئیں کے باعث بالکل دھندلا چکا تھا۔ لوگوں نے پوچھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے تو اس نے بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کی تلاش میں جا رہا ہے۔ گاؤں والے سکتے میں آ گئے اور اسے یاد دلایا کہ آدم خور آس پاس ہی کہیں موجود ہوگا۔ اس نے جواب دیا کہ آدم خور کے ادھر ہونے کے سبب اسے ڈر لگ رہا ہے کہ اسے بیٹے کی تلاش کے لئے نکلنا چاہیئے۔ شاید وہ درخت سے گر کر زخمی ہو گیا ہو اور آدم خور کے ڈر سے کوئی آواز نہ نکال رہا ہو۔
نہ اس نے کسی سے ساتھ چلنے کو کہا اور نہ ہی کسی نے خود سے حامی بھری۔ یاد رہے کہ یہ وہی وادی ہے جہاں آدم خور کے ظہور کے بعد سے کوئی شخص قدم رکھنے کی بھی جرأت نہیں کرتا تھا۔ میں نے اس کے قدموں کے نشان سے دیکھا کہ اس رات چار مرتبہ وہ بیچارہ مویشیوں کی پگڈنڈی پر چلتے ہوئے اس جگہ سے دس فٹ دور گذرا جہاں شیر اس کے بیٹے کو کھا رہا تھا۔
کانپتے ہوئے اور کمزور دل کے ساتھ وہ دو چٹانوں پر چڑھا۔ روشنی ہونا شروع ہو گئی تھی۔ وہ کچھ دیر کے لئے دم لینے کو رکا۔ اس جگہ سے کھڈ کے اندر تک صاف دکھائی دے رہا تھا۔ سورج نکلنے پر اس نے کھڈ میں پتھروں کے درمیان خون دیکھا۔ بھاگتا ہوا نیچے اترا تو اس نے اپنے بیٹے کی باقیات دیکھیں۔ اس نے انہیں احتیاط سے جمع کیا اور گھر لایا۔ لوگ جمع ہو گئے اور انہوں نے اس کی مدد کی۔ انہوں نے باقیات کو دریائے منڈل کے کنارے شمشان گھاٹ میں جلا دیا۔
میرا اندازہ ہے کہ یہ سمجھنا درست نہیں ہوگا کہ یہ اشخاص ان خطرات سے واقف نہیں ہوتے جو انہیں لاحق ہوں۔ یہ لوگ بہت حساس ہوتے ہیں اور ہر پہاڑی موڑ، ہر چٹان، غار وغیرہ کو انہوں نے کسی نہ کسی بدروح سے منسوب کیا ہوتا ہے۔ یہ ان کی توہم پرستی ہے۔ یہ تمام بدروحیں شیطانی اور اندھیرے کی پیداوار سمجھی جاتی ہیں۔ اس طرح کے ماحول میں پلا بڑھا شخص جو آدم خور کی موجودگی سے سالوں سے خوف زدہ ہو، اکیلا اور نہتا ان جگہوں سے گذرے، رات بھر گھومتا رہے جہاں پر قدم قدم سے آدم خور سے مڈبھیڑ ہونے کا امکان ہو، میرے نزدیک اتنا نڈر شخص لاکھوں میں ایک ہی ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے بیٹے کی تلاش میں ساری رات گھنے اور تاریک جنگل میں گھومتے رہنا ذرا سا بھی بہادری کا کارنامہ نہ لگا۔ جب میں نے اسے آدم خور کی لاش کے پاس بیٹھ کر تصویر کھینچوانے کا کہا تو اس نے مضبوط لہجے اور پر سکون آواز میں کہا "میں اب مطمئن ہوں۔ صاحب آپ نے میرے بیٹے کا بدلہ لے لیا ہے۔"
کماؤں کی ضلعی کانفرنس میں میں نے جن تین آدم خوروں کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا، اس آدم خور کی ہلاکت کے ساتھ پورا ہوا۔

٭٭٭

پیپل پانی کا شیر
یہ شیر گہری کھائی میں پیدا ہونے والے تین شیروں میں سے ایک تھا، سے زیادہ میں اس کے بارے کچھ نہیں جانتا۔
جب یہ شیر ایک سال کا ہوا تو چیتل کی آواز سن کر میں اس کے پگوں کی طرف متوجہ ہوا۔ یہ پگ ریتلی ندی میں ثبت تھے اور یہ ندی مقامی سطح پر پیپل پانی کہلاتی تھی۔ پہلے پہل تو میں یہ سمجھا کہ شاید یہ شیر اپنی ماں سے بچھڑ گیا ہے تاہم جب ہفتوں پر ہفتے گذرتے گئے اور اس کے پگ مجھے باقاعدگی سے دکھائی دیتے رہے تو میں نے اندازہ لگا لیا کہ ملاپ کا موسم نزدیک ہونے کی وجہ سے اس کی ماں نے اسے دور ہٹا دیا ہے۔ قدرت کا عجیب قانون ہے کہ ایک دن ماں اپنے اسی بچے کی حفا ظت کے لئے جان تک دے سکتی ہے اور اگلے دن اس سے اس طرح اجنبی ہو جائے گی۔ تاہم اس طرح قدرت والدین اور بچوں کے مابین افزائش نسل روکتی ہے۔
ان سردیوں میں اس شیر کا گذارا مور، کاکڑ، چھوٹے موٹے سور اور اکا دکا چیتل پر تھا۔ اس کی رہائش ایک بہت بڑے درخت کے گرے ہوئے کھوکھلے تنے میں تھی جو بظاہر کسی وجہ کے بغیر ہی گر گیا تھا۔ اسے کھوکھلا کرنے کا کام وقت اور سیہہ نے سرانجام دیا تھا۔ اپنے زیادہ تر شکار وہ یہیں لاتا تھا اور سرد دنوں میں یہیں وہ دھوپ سینکتا تھا۔ اس سے پہلے یہی کام اسی جگہ بہت سارے تیندوے بھی کر چکے تھے۔
جنوری کے اواخر میں میں نے اس شیر کو پہلی بار قریب سے دیکھا۔ ایک شام میں بغیر کسی خاص مقصد کے سیر پر نکلا ہوا تھا کہ میں نے ایک جگہ ایک کوے کو زمین سے اڑ کر درخت پر بیٹھتے اور پھر اپنی چونچ صاف کرتے ہوئے دیکھا۔ کوے، گدھ اور نیل کنٹھ ایسے پرندے ہیں جو ہندوستان اور افریقہ میں ہمیشہ درندوں کے شکار کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس بار کوے نے میری نشان دہی گذشتہ رات کے واقعے کی طرف مبذول کرائی۔ ایک چیتل کو شکار کیا گیا تھا اور شیر نے اسے کھایا بھی تھا۔ میری ہی طرح کچھ اور راہگیر بھی اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے کیونکہ سڑک یہاں سے پچاس گز ہی دور تھی۔ انہوں نے باقی بچے چیتل سے گوشت کاٹ لیا تھا۔ اب یہاں محض چند ہڈیاں اور جمے ہوئے خون کے کچھ لوتھڑے ہی باقی بچے تھے۔ انہی سے کوا اپنا پیٹ بھر رہا تھا۔ چونکہ یہ چیتل سڑک سے اتنا نزدیک اور کھلے میدان میں موجود تھا، مجھے یقین تھا کہ شیر نے ان لوگوں کو گوشت کاٹتے نہیں دیکھا اور جلد ہی آتا ہوگا۔اس لئے میں آلو بخارے کے درخت پر چڑھ کر ہر ممکن طریقے سے آرام سے بیٹھ گیا۔
اگر آپ قارئین شکار کئے گئے جانوروں پرچھپ کر بیٹھنے کے سلسلے میں مجھ سے اتفاق نہ کریں تو مجھے کوئی شکایت نہیں۔ تاہم میری یاداشت میں موجود شکار کی چند بہترین یادیں اسی سے وابستہ ہیں۔ ان کی ابتداء تب ہوئی تھی جب میرے پاس مزل لوڈر بندوق تھی جس کے کندے اور ٹوٹی ہوئی نالی کو تانبے کی تاروں سے باندھا گیا تھا اور میں شیر کے شکار کردہ لنگور کے پاس موجود درخت پر چھپ کر بیٹھا تھا اور اب سے چند دن قبل جدید ترین رائفل ہاتھ میں لئےمیں نے شیرنی اور اس کے دو جوان بچوں کو شکار کردہ سانبھر کھاتے دیکھا۔ مجھے ہر بار ایک جتنی خوشی ہوئی۔
یہ سچ ہے کہ اس بار میرے سامنے نیچے کوئی شکار کردہ جانور نہیں تھا تاہم موجودہ حالات کی روشنی میں میرے لئے شیر پر گولی چلانے کا مناسب موقع تھا۔ جنگلی جانوروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے یہاں کافی مقدار میں خون مٹی میں جذب ہو چکا تھا۔ اس کا تجربہ بھی فوراً ہی ہو گیا کہ ایک بوڑھا سور جو کچھ فاصلے پر جھاڑیوں میں آرام سے چل رہا تھا، اچانک ہی ہوا کے رخ بدلنے سے خون کی بو سونگھ کر اپنی جگہ رک گیا تھا۔ تھوتنی اوپر اٹھائے خون کی بو سونگھ رہا تھا۔ اسی طرح چلتے ہوئے وہ ہر چند گز بعد دائیں یا بائیں مڑتا اور پھر ہوا کے رخ پر آ جاتا۔ زمین پر پگ نہ ہونے کی وجہ سے سور مجھ سے کہیں زیادہ آسانی سے تحقیق کر رہا تھا۔ اس نے آسانی سے معلوم کر لیا کہ شیر نے چیتل کو مارا تھا۔ ایک بار پھر اس نے تسلی کی کہ کھانے کو کچھ نہیں بچا، سور بھاگ کر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ مخملی سینگوں والے دو چیتل ہوا کے مخالف رخ سے سیدھے اسی جگہ پہنچے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے رات کو شیر کو شکار کرتے دیکھا تھا۔ باری باری زمین کو سونگھنے کے بعد جب ان کی تسلی ہو گئی تو واپس لوٹ گئے۔
تجسس محض انسانی فطرت نہیں بلکہ بہت سارے جانور محض تجسس کی بدولت اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ برآمدے میں موجود کتا کسی سائے پر بھونکتا ہے، ہرن اپنے جھنڈ سے الگ ہو کر ایسی گھاس کو دیکھنے بڑھتا ہے جو ہوا چلنے کے باوجود نہیں ہل رہی اور شکار کی تلاش میں بیٹھا ہوا تیندوا موقعے سے فائدہ اٹھا لیتا ہے۔
سرمائی سورج ابھی غروب ہونے کے قریب تھا کہ سامنے دائیں جانب کسی حرکت سے میں متوجہ ہوا۔ دو جھاڑیوں کےد رمیان سے ہوتا ہوا کوئی جانور تیس گز دور سیدھا میرے درخت کی سمت چلتا آیا۔ پھر میرے نزدیک موجود جھاڑیاں الگ ہوئیں اور ان سے شیر اتنی لاپرواہی سے نکلا کہ اس نے دائیں بائیں دیکھنے کی زحمت تک نہ کی۔ وہ سیدھا اسی جگہ پہنچا جہاں اس کا شکار تھا۔ جونہی اسے احساس ہوا کہ اس کا اتنی محنت سے مارا ہوا شکار غائب ہو چکا ہے، اس کی مایوسی قابل دید تھی۔ اس چیتل کو شاید اس نے گھنٹوں کی محنت کے بعد مارا ہو۔ چیتل کی بچی کھچی ہڈیوں اور خون سے ہٹ کر اس کی توجہ اب درخت کے اس تنے کی جانب مبذول ہو گئی جہاں دیہاتیوں نے چیتل کو رکھ کر کاٹا تھا۔اس پر گوشت کے چند ریزے لٹک رہے تھے۔ میں اکیلا آدمی نہیں تھا جو ان جنگلوں میں بھرے ہوئے ہتھیار لئے پھرتا تھا اور اگر اس شیر نے جوان ہو کر بڑا شیر بننا تھا تو اسے دن کی روشنی میں بغیر مناسب دیکھ بھال کئے کھلے میں نکلنے کے خطرے سے آگاہ کرنا لازم تھا۔ عام طور پر بندوق سے چلائے گئے چھوٹے چھروں سے یہ کام بخوبی ہو جاتا تاہم اب یہی کام میری رائفل کو سر انجام دینا تھا۔ جونہی اس نے سر اٹھا کر ان ریشوں کو سونگھنا شروع کیا، میری رائفل کی گولی اس کی ناک سے ایک انچ دور لکڑی میں دھنس گئی۔ ساری زندگی میں ایک بار مزید اس شیر نے یہ غلطی دہرائی۔
اگلی سردیوں میں میں نے اس شیر کو کئی بار دیکھا۔ اب اس کے کان اتنے بڑے نہیں دکھائی دیتے تھے اور اس کی کھال اب جوان شیر کی کھال میں بدل چکی تھی۔ اس نے اپنی رہائش گاہ بدل دی تھی اور تیندوے اس کی پرانی رہائش گاہ میں آ چکے تھے۔ یہ شیر اب پہاڑ کے دامن میں موجود گھنی پٹی میں رہنے لگا تھا اور کم عمر سانبھر اس کا شکار بننے لگے تھے۔
ہر سال کی طرح اس بار بھی جب ہم سردیوں میں پہاڑ سے نیچے اترے تو اس کے پگ مجھے کہیں دکھائی نہ دیئے۔ کئی ہفتوں تک تو مجھے یہ خیال رہا کہ شاید یہ شیر اب کہیں اور چلا گیا ہے۔ تاہم ایک دن ایسا ہوا کہ اس کے پگوں دوبارہ دکھائی دینے لگے اور اس کے ساتھ ہی ایک شیرنی کے پگ بھی موجود تھے۔ شاید اسی ساتھی کی تلاش میں شیر نکلا ہوا ہوگا۔ ایک بار میں نے ان شیروں کو اکٹھے بھی دیکھا۔ اس دن میں سورج نکلنے سے پہلے سے ایک سراء گائے کی تلاش میں نکلا ہوا تھا جو پہاڑ کے دامن میں رہتی تھی۔ واپسی کے راستے پر میں نے ایک گدھ دیکھا جو سال کے درخت پر بیٹھا ہوا تھا۔
اس گدھ کی پشت میری جانب تھی اور اس کا رخ سامنے موجود گھاس کے چھوٹے قطعے کی جانب تھا جس کے پیچھے گھنا جنگل شروع ہو جاتا تھا۔ جنگل میں ابھی تک شبنم موجود تھی اور بغیر کسی آواز کے میں درخت تک پہنچا اور تنے کی اوٹ سے دوسری جانب دیکھنے لگا۔ چھوٹی جھاڑیوں سے ایک نر سانبھرکی لاش دکھائی دی۔ لاش اس لئے کہ کوئی بھی زندہ سانبھر اس طرح نہیں لیٹ سکتا۔ پاس موجود کائی سے ڈھکے ایک پتھر پر چڑھ کر میں نے پورا سانبھر دیکھا۔ اس کی پچھلی ٹانگیں کھائی جا چکی تھیں اور اس کے دونوں اطراف دونوں شیر لیٹے ہوئے تھے۔ نر شیر دوسری جانب تھا جہاں اسے اس کی صرف ٹانگیں دکھائی دے رہی تھیں۔ دونوں ہی شیر سو رہے تھے اور ان کا درمیانی فاصلہ محض دس فٹ رہا ہوگا۔ یہاں سے دس فٹ آگے اور تیس فٹ بائیں جانب جا کر میں شیر کی گردن پر گولی چلا سکتا تھا۔ تاہم یہ منصوبہ بناتے وقت میں گدھ کو بھول گیا۔ جہاں میں کھڑا تھا وہاں سے گدھ مجھے نہیں دیکھ سکتا تھا تاہم جونہی دس فٹ آگے بڑھا، اس نے مجھے دیکھ لیا۔ اتنے قریب دیکھ کر اس نے چیخ ماری اور اڑا۔ تاہم اس کے اوپر ایک بیل موجود تھی جس سے ٹکرا کر شور مچاتا ہوا گدھ زمین پر گرا۔ ایک لمحے کے اندر ہی شیرنی بیدار ہو کر غائب ہو گئی تھی جبکہ شیربھاگنے میں کچھ سُست تھا۔بعجلت گولی چلانا ممکن تو تھا لیکن آگے موجود گھنے جنگل میں زخمی جانور کو تلاش کرنا بے کار ہوتا۔ آپ میں سے وہ افراد جنہوں نے شیروں اور تیندوؤں کے شکار کردہ جانور پر گھات لگا کر ان کا شکار کرنے کی کوشش نہیں کی، میں انہیں مشورہ دیتا ہوں کہ ایک بار آزمائیں۔ شکار کا بہترین طریقہ ہے۔ تاہم گولی چلاتے ہوئے پوری احتیاط کرنی ہوگی کہ یا تو جانور مارا جائے یا پھر شدید زخمی ہو کہ حرکت کے قابل نہ رہے، ورنہ انجام بہت خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔
ایک ہفتے بعد شیر نے دوبارہ سے اکیلا رہنا شروع کر دیا۔ اب تک اس نے اپنے شکار کردہ جانوروں پر میری آمد کا برا نہیں منایا تھا تاہم جونہی اس کی ساتھی الگ ہوئی، اس نے مجھ پر واضح کر دیا کہ اب کے بعد وہ مجھے اپنے شکار پر برداشت نہیں کرے گا۔ نزدیک موجود شیر کی غصیلی غراہٹ سے زیادہ خطرناک آواز جنگل میں نہیں ہوتی۔
اگلے مارچ میں اس شیر نے پہلی بار پوری طرح جوان ایک بھینس ماری۔ اس شام میں پہاڑ کے دامن کے پاس ہی تھا جب میں نے بھینس اور شیر کی کشمکش کی آوازیں سنیں۔ میں نےا ندازہ لگایا کہ یہ آوازیں چھ سو گز دور کھائی سے آ رہی ہیں۔ راستہ بہت دشوار تھا اور زیادہ تر جگہوں پر پتھر اور کانٹے دار جھاڑیاں موجود تھیں۔ جب میں اس جگہ پہنچا جہاں سے کھائی کا نظارہ ممکن تھا تو بھینس کی کشمکش دم توڑ چکی تھی تاہم شیر کہیں دکھائی نہ دیا۔ ایک گھنٹے تک میں رائفل کی لبلبی پر انگلی رکھے لیٹا رہا تاہم شیر نہ دکھائی دیا۔ اگلی صبح پو پھٹنے پر میں جب اسی جگہ لوٹا تو بھینس اسی طرح پڑی تھی جیسا کہ میں چھوڑ کر گیا تھا۔ نرم زمین پر کھروں اور پنجوں کے نشانات تھے جس سے پچھلی شام کی کشمکش کی شدت کا اندازہ ہو سکتا تھا۔ جب تک شیر نے بھینس کی ٹانگوں کے پٹھے نہیں کاٹ دیئے، اسے گرانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ یہ کشمکش دس سے پندرہ منٹ تک جاری رہی ہوگی۔ شیر کے پگوں پر چلتے ہوئے میں نے کچھ دور ایک پتھر پر خون کے دھبے دیکھے۔ سو گز آگے جا کر گرے ہوئے ایک درخت پر خون کے مزید نشانات دکھائی دئیے۔ بظاہر شیر کو یہ زخم بھینس کے سینگوں سے سر پر لگا تھا۔ یہ زخم اتنا کاری تھا شیر اب بھینس کو بھلا کر چل پڑا تھا اور دوبارہ واپس نہ لوٹا۔
میرے دیئے ہوئے سبق کو تین سال بعد شیر نے بھلاتے ہوئے ایک بار اپنے شکار کردہ جانور پر بے احتیاطی سے لوٹا۔ شاید اس کے پاس یہ بہانہ ہو کہ شیر کے شکار کا موسم ختم ہو چکا تھا۔ اس بار اس کا سامنا کرنے ایک مقامی زمیندار اپنے مزارعوں کے ہمراہ درخت پر موجود تھا۔ زمیندار کی گولی شیر کے شانے میں لگی اور شانے کی ہڈی توڑ گئی۔اس کا پیچھا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی اور ۳۶ گھنٹے بعد اس شیر کے شانے پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں جب یہ انسپکشن بنگلے کے احاطے سے ہوتا ہوا پل عبور کر کے نوکروں کے کوارٹروں سے ہوتا ہوا خالی گودام کی چار دیواری میں جا بیٹھا۔ ان کوارٹروں کے سب مکینوں نے اسے گذرتے ہوئے دیکھا۔ چوبیس گھنٹوں بعد آس پاس کے دیہاتوں سے جمع ہونے والے لوگوں کے شور سے گھبرا کر یہ شیر وہاں سے نکلا اور ہمارے گیٹ سے ہوتا ہوا ہمارے گاؤں کے زیریں حصے کو چل دیا۔ گذشتہ روز ہمارے مزارعوں میں سے کسی کا ایک بیل مر گیا تھا جسے لوگوں نے گھسیٹ کر وہاں جھاڑیوں میں ڈال دیا تھا۔ شیر نے اسے دیکھ لیا اور اگلے چند روز اس نے اسی بیل کو کھا کر گذارا کیا۔ پینے کے لئے پاس موجود آبپاشی کی نالی اس کے کام آئی۔
دو ماہ بعد جب ہم پہاڑ سے نیچے اترے تو یہ شیر بچھڑوں، بھیڑوں اور بکریوں وغیرہ پر زندہ تھا جو وہ گاؤں کے کناروں سے پکڑ لیتا تھا۔ مارچ تک اس کا زخم بھر گیا تھا تاہم اس کا پنجہ اندر کی جانب مڑ گیا تھا۔ جس جنگل میں وہ زخمی ہوا تھا، وہاں واپس پہنچ کر شیر نے دیہات کے مویشیوں سے بھاری خراج وصول کرنا شروع کر دیا۔ تاہم اس بار اپنی حفاظت کے خیال سے یہ شیر ہر شکار سے محض ایک بار ہی کھاتا۔ اس طرح اس کی ہلاکت خیزی پانچ گنا بڑھ گئی تھی۔ جس زمیندار نے اسے زخمی کیا تھا، کے پاس سب سے زیادہ مویشی تھے اور شیر سے سب سے زیادہ نقصان بھی اسے ہی پہنچ رہا تھا۔ اس کے پاس تقریباً چار سو گائیں اور بیل تھے۔
آنے والے برسوں میں شیر کی شہرت اور اس کی جسامت یکساں انداز میں بڑھتے چلے گئے۔ کئی شکاریوں اور مقامی افراد نے اسے ہلاک کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔
ایک بار نومبر کی شام کو ایک دیہاتی جو ایک نالی بندوق مزل لوڈر بندوق لے کر سور مارنے کی نیت سے بیس گز چوڑی نالی میں موجود اکیلی جھاڑی میں چھپ کر بیٹھا۔ یہاں زمین مستطیل شکل کی تھی اور لمبے کناروں پر کھیت جبکہ چھوٹے کناروں میں سے ایک پر سڑک جبکہ دوسرے پر آبپاشی کی ایک نالی گذرتی تھی۔ اس کے پیچھے گھنی جھاڑیاں اور سامنے چار فٹ بلند پگڈنڈی تھی جہاں سے مویشی وغیرہ گذرتے تھے۔ ۸ بجے رات کو اس پگڈنڈی پر ایک جانور نمودار ہوا۔ ہر ممکن نشانہ لے کر اس نے گولی چلائی اور وہ جانور الٹ کر دوسری جانب گرا۔ یہ آدمی فوراً ہی اپنا کمبل پھینک کر دو سو گز دور اپنے گاؤں چلا گیا۔ وہاں لوگ جمع ہوئے اور جب انہوں نے شکاری کی کہانی سنی تو افسوس ظاہر کیا کہ اگر اس سور کو فوراً نہ لیا گیا تو گیدڑ اور لگڑ بگڑ کھا جائیں گے۔ لالٹین جلا کر یہ چھ افراد سور کو اٹھانے چل پڑے۔ میرے ایک مزارع نے تجویز پیش کی کہ وہ لوگ کم از کم ایک بندوق ساتھ لے جائیں۔ بعد ازاں اس نے مجھے بتایا کہ اسے بھی شامل ہونے کو کہا گیا تھا لیکن گھنی جھاڑیوں میں زخمی سور کو تلاش کرنے کی ہمت اس میں نہیں تھی۔
تاہم اس کی تجویز کے مطابق بندوق میں ڈھیر سارا بارود ڈالتےو قت لکڑی کی سلاخ ٹوٹ گئی۔ بظاہر اس حادثے نے ان چھ افراد کی جان بچا لی۔ آخر کار لکڑی کو نکال کر چھرے وغیرہ ڈال کر بندوق بھری گئی اور یہ لوگ چل پڑے۔
موقع پر پہنچ کر انہوں نے سور کی تلاش شروع کی تو انہیں خون دکھائی دیا۔ تاہم پورا علاقہ چھان مارنے کے بعد انہیں اپنی کوششیں ترک کرنی پڑیں۔ اگلی صبح وہ لوگ پھر لوٹے۔ اس بار میرا متذکرہ بالا مزارع بھی ان کے ساتھ تھا۔یہ بندہ جنگل کے بارے دیگر افراد کی نسبت زیادہ معلومات رکھتا تھا اور جہاں انہوں نے ڈھیر سارا خون دیکھا، وہاں سے اس نے خون سے سنے ہوئے کچھ بال بھی اٹھائے اور میرے سامنے پیش کئے۔ بال دیکھتے ہی میں پہچان گیا کہ یہ شیر کے بال ہیں۔ اس وقت میرے ساتھ ایک اور شکاری بھی تھا چنانچہ ہم دونوں اس طرف چل پڑے۔
زمین پرموجود نشانات کی مدد سے جنگل میں وقوع پذیر ہوئے کسی واقعے کی تفصیلات جاننا میرے لئے ہمیشہ سے دلچسپی کا باعث رہا ہے۔ بے شک کئی بار لگائے جانےو الے اندازے غلط بھی ہوتے ہیں تاہم کئی بار وہ درست بھی نکلتے ہیں۔اس بار میں نے درست اندازہ لگایا کہ شیر کو زخم دائیں اگلی ٹانگ کی اندورنی جانب لگا ہے۔ تاہم میرا یہ اندازہ کہ اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے اور یہ شیر اس علاقے میں اجنبی ہے، غلط تھے۔
جہاں سے بال ملے تھے، سے آگے خون کے نشانات یکسر ختم ہو گئے تھے۔ زمین اس نوعیت کی تھی کہ اس پر نشانات کو تلاش کرنا کارے وارد تھا۔ اس لئے میں نے ندی عبور کر کے مویشیوں کی ایک پگڈنڈی کا رخ کیا جو ریتلے نالے سے گذرتی تھی۔ یہاں پگوں سے میں نے اندازہ لگایا کہ یہ شیر نوعمر نہیں بلکہ میرا پرانا دوست پیپل پانی کا شیر ہے۔ یہ شیر گاؤں سے ہو کر گذرنے کے چکر میں تھا کہ اس شکاری نے اندھیرے میں اسے سور سمجھ کر اس پر گولی چلا دی۔
پہلی بار زخمی ہونے کے بعد وہ آبادی میں انسانوں اور جانوروں کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر گذرا تھا تاہم اب یہ شیر اب بڑا ہو چکا تھا اور اگر تکلیف یا بھوک نے اسے مجبور کیا تو بہت نقصان پہنچائے گا۔ اگر ایسا ہوتا تو بہت ہی نقصان ہو جاتا کیونکہ یہ علاقہ گنجان آباد تھا۔ مجھے ایک ہفتے کے اندر اندر ایک انتہائی ضروری کام کے لئے جانا پڑتا جو ملتوی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
تین دن تک میں نے ندی اور پہاڑی کے دامن تک جنگل میں ایک ایک انچ چھان مارا۔ یہ علاقہ چار مربع میل بنتا تھا۔ تاہم شیر کہیں دکھائی نہ دیا۔ چوتھے روز دوپہر کو جب میں دوبارہ تلاش شروع کر ہی رہا تھا تو مجھے ایک بوڑھی عورت اور اس کا بیٹا جنگل سے بعجلت نکلتے دکھائی دیئے۔ انہوں نے بتایا کہ پہاڑ کے دامن میں ایک شیر بول رہا تھا اور جنگل میں موجود سارے مویشی گھبرائے ہوئے تھے۔ رائفل ساتھ ہو تو میں اکیلا جنگل میں جانا پسند کرتا ہوں۔ اکیلا بندہ جنگل میں زیادہ خاموشی سے پھر سکتا ہے اور دوسرا کسی بھی دشواری میں اکیلا بندہ زیادہ آسانی سے نکل سکتا ہے۔ تاہم اس بار یہ لڑکا مجھے وہ جگہ دکھانے کے لئے بے قرار ہو رہا تھا جہاں اس نے شیر کو بولتے سنا تھا۔
پہاڑی کے دامن میں پہنچ کر لڑکے نے گھنی جھاڑیوں کی طرف اشارہ کیا جو آگ سے بچاؤ والے راستے کے دوسری جانب پیپل پانی ندی کے پاس تھا۔ ندی سے سو گز دور اور اس کے متوازی ایک بیس فٹ لمبا نشیب تھا جو میری جانب تقریباً خالی جبکہ دوسری جانب گھنی جھاڑیوں سے گھرا ہوا تھا۔ ایک پگڈنڈی اس نشیب سے زاویہ قائمہ بناتے ہوئے گذرتی تھی۔ اگر شیر اس طرف آتا تو مجھے پوری طرح یقین تھا کہ وہ جھاڑیوں سے نکل کر رکے گا جہاں اس پر گولی چلائی جا سکے گی۔ میں نے یہیں کھڑے ہونے کا سوچا اور لڑکے کو ایک درخت پر اس طرح بٹھا دیا کہ اس کے پیر میرے شانوں کو لگ رہے تھے۔ اسے میں نے ہدایت کی کہ جونہی وہ بلندی سے شیر کو دیکھے تو پیر کی حرکت سے مجھے آگاہ کرے۔ پھر میں نے درخت سے پشت لگائی اور شیر کی آوا زنکالی۔
آپ میں سے وہ لوگ جو جنگل میں بہت عرصہ گذار چکے ہیں، کو جوڑے کی تلاش میں نکلی شیرنی کی آواز کے بارے بتانا فضول ہے۔ تاہم جو افراد نہیں جانتے، انہیں صرف اتنا کہوں گا کہ یہ آواز سمجھنے کے لئے بہت بار قریب سے سننا پڑتی ہے اور اس کی نقالی کرنے کے لئے بہترین گلے کا ہونا ضروری ہے، تاہم الفاظ میں یہ آواز بیان نہیں کی جا سکتی۔
مجھے انتہائی سکون ملا جب میں نے فوراً ہی شیر کی طرف سے جوابی آواز سنی کیونکہ تین روز سے میں مسلسل جنگل میں ہر جگہ اسے تلاش کر رہا تھا۔شیر کی آواز تقریباً ۵۰۰ گز دور سے آئی تھی اور تقریباً نصف گھنٹے تک ہم دونوں میں آوازوں کا تبادلہ ہوتا رہا۔ ایک طرف تو جنگل کا بادشاہ اپنی ملکہ کو فوری طور پر حاضر ہونے کا کہہ رہا تھا اور دوسری جانب شیرنی اسے اپنی طرف بلا رہی تھی۔ دو بار لڑکے نے مجھے اشارہ کیا تاہم مجھے شیر دکھائی نہیں دیا۔تاہم جب ڈھلتے سورج کی کرنیں جنگل پر پڑیں تو شیر اچانک نکل کر سامنے آ گیا۔ تاہم جھاڑیوں سے نکلتے وقت اس نے کوئی دھیان نہیں دیا اور تیزی سے سیدھا چلا آیا۔ جب وہ نشیب کے وسط میں تھا تو میں نے رائفل اٹھائی اور اسی وقت اس نے رخ بدلا اور سیدھا ہماری طرف آنے لگا۔
جگہ کا انتخاب کرتے وقت مجھے شیر سے اس حرکت کی توقع نہیں تھی جس کے باعث وہ میرے اندازے سے زیادہ نزدیک پہنچ گیا۔ اس طرح کم فاصلے سے مجھے اس کے سر پر گولی چلانی تھی جس کے لئے میں تیار نہیں تھا۔ تاہم ایک پرانے نسخے کو آمانے پر شیر بغیر کسی پریشانی کے رک گیا۔ ایک پاؤں اٹھائے ہوئے اس نے آہستگی سے اپنا سر اٹھایا۔ اس طرح اس کا گلا اور سینہ سامنے آ گئے۔ بھاری گولی کھاتے ہی وہ لڑکھڑاتے ہوئے جنگل میں بھاگا۔ جہاں پہلی بار میں نومبر میں نے چیتل کی آواز سن کر اس کے پگ دیکھے تھے، اس جگہ سے چند گز کے فاصلے پر وہ گرا اور دم توڑ دیا۔
تاہم اس کے بعد ہی مجھے علم ہو اکہ میں نے اسے غلط فہمی میں ہلاک کیا ہے۔ اس کی ٹانگ کا زخم جس کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ خطرناک ہوگا، وہ تقریباً بھر چکا تھا اور یہ زخم ایک چھرے سے لگا تھا جس سے اگلی دائیں ٹانگ کی ایک چھوٹی رگ کٹ گئی تھی۔
۱۰ فٹ اور ۳ انچ لمبے شیر جس کی کھال بہترین حالت میں تھی، کا شکار میرے لئے خوشی کے ساتھ ساتھ دکھ کا باعث بھی تھا کیونکہ اب جنگل کے جانور اور میں اس کی آواز دوبارہ نہ سن پائیں گے اور نہ ہی اس کے پگ مجھے دوبارہ ان راہوں پر دکھائی دیں گے جو میں اور یہ شیر گذشتہ پندرہ سالوں سے استعمال کر رہے تھے۔

٭٭٭

ٹھاک کا آدم خور
(۱)
لدھیا وادی میں سکون بحال ہوئے کئی ماہ گذر چکے تھے کہ اچانک ستمبر ۱۹۳۸ء کے ایک دن نینی تال میں اطلاع پہنچی کہ شیر نے کوٹ کندری میں ایک بارہ سالہ لڑکی کو ہلاک کر دیا ہے۔ یہ اطلاع مجھے فارسٹ ڈیپارٹمنٹ کے ڈونلڈ سٹیورٹ سے ملی جو اس بارے مزید کچھ تفصیل نہ بتا سکے۔ چند ہفتے بعد جب میں اس گاؤں پہنچا تو میں نے اس بارے حقائق جمع کئے۔ بظاہر دن دوپہر کا وقت تھا اور لڑکی گاؤں کے بالکل سامنے ایک آم کے درخت کے نیچے گرے ہوئے آم جمع کر رہی تھی جب اچانک شیر نمودار ہوا۔ قبل اس کے کہ نزدیکی کھیتوں میں کام کرنے والے افراد اس کی کوئی مدد کر سکیں، شیر اسے اٹھا لے گیا۔ شیر کے پیچھا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور میری آمد سے بہت پہلے ہی خون اور دیگر نشانات ختم ہو چکے تھے۔ اس لئے میں باقیات تلاش کرنے سے معذور تھا۔
کوٹ کندی چکا سے چار میل جنوب مغرب میں ہے اور ٹھاک سے مغرب کی طرف تین میل دور۔ یہ جگہ کوٹ کندری اور ٹھاک کے درمیان اس جگہ وادی میں تھی جہاں گذشتہ اپریل چکہ کا آدم خور مارا گیا تھا۔
۱۹۳۸ء کی گرمیوں میں محکمہ جنگلات نے اس علاقے کے تمام درختوں کو گرانے کے لئے نشان لگا دیئے۔ اندیشہ تھا کہ اگر نومبر سے پہلے پہلے آدم خور کا قصہ پاک نہ کیا گیا تو ٹھیکے دارمزدوروں کو اکٹھا نہ کر سکیں گے اور اس طرح انہیں دوبارہ ٹھیکے کی رقم ادا کرنی ہوگی۔ نومبر میں کٹائی شروع ہونی تھی۔ ڈونلڈ سٹیورٹ نے مجھے اسی وجہ سے لڑکی کے مار جانے کے فوراً بعد اطلاع بھجوائی تھی۔ جب میں نے کوٹ کندری جانے کا ان سے وعدہ کیا تو مجھے یہ بتانے میں کوئی تامل نہیں محسوس ہوتا کہ میری روانگی کا مقصد ٹھیکے داروں کو نقصان سے بچانے سے زیادہ علاقے کے لوگوں کو آدم خور سے بچانا تھا۔
کوٹ کندری تک جانے کا براہ راست راستہ ٹرین سے بذریعہ تنگ پور تھاجہاں سے ہم پیدل کل ڈھنگہ اور چکا سے ہو کر جاتے۔ تاہم اس راستے پر چلتے ہوئے اگرچہ میں سو میل کا پیدل سفر بچا لیتا لیکن مجھے شمالی ہندوستان میں ملیریا کی مہلک پٹی سے گذرنا پڑتا۔ اس سے بچنے کی خاطر میں نے مورنالہ کی پہاڑیوں کے ذریعے جانے کا سوچا۔ یہاں سے ہم متروک شدہ شیرنگ روڈ پر چلتے جس کا اختتام کوٹ کندری پر ہوتا۔
ابھی اس لمبے سفر کے لئے میں تیاریاں کر ہی رہا تھا کہ سیم میں دوسری ہلاکت کی اطلاع بھی نینی تال آ ملی۔ سیم لدھیا کے دائیں کنارے پر چھوٹا سا گاؤں تھا اور چکا سے نصف میل دور۔
اس بار متوفیہ ایک ادھیڑ عمر کی خاتون اور سیم کے نمبردار کی ماں تھی۔یہ بدقسمت عورت دو کھیتوں کی درمیانی انتہائی ڈھلوان منڈیر سے لکڑیاں کاٹنے گئی تھی۔ اس نے پچاس گز لمبی منڈیر کے پرلے سرے سے کام شروع کیا۔ لکڑیاں کاٹتے کاٹتے وہ اپنے جھونپڑے سے گز بھر دور رہ گئی تھی کہ اوپر والے کھیت سے شیر نے اس پر جست لگائی۔ یہ حملہ اتنا اچانک تھا کہ متوفیہ صرف ایک چیخ مار سکی اور شیر نے اسے ہلاک کر دیا تھا۔ پھر اسے لے کر شیر بارہ فٹ اونچے کنارے پر چڑھا اور اوپر والے کھیت کو عبور کر کے اس کے پار جنگل میں گم ہو گیا۔ اس کا بیٹا جو بیس سال کا تھا، اس جگہ سے چند گز دور ایک اور کھیت میں کام کر رہا تھا۔ اس نے یہ سارا واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ اتنا خوفزدہ ہو چکا تھا کہ مدد نہ کر سکا۔ لڑکے کی درخواست پر پٹواری دو دن بعد سیم پہنچا۔ وہ اپنے ساتھ اسی افراد اکٹھے کر کے لایا تھا۔ شیر کی روانگی کی طرف تلاش شروع کرتے ہوئے انہوں نے متوفیہ کے کپڑے اور ہڈیوں کے چند ریزے ہی پائے۔ یہ ہلاکت دن دیہاڑے دو بجے ہوئی تھی اور شیر نے متوفیہ کو اس کے گھر سے ساٹھ گز دور بیٹھ کر کھایا تھا۔
دوسری ہلاکت کی اطلاع ملنے پر میں نے ایبٹسن کے ساتھ مل کر صلاح مشورہ کیا۔ ایبٹسن الموڑہ، نینی تال اور گڑھوال کے تین اضلاع کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ اس صلاح مشورے کے بعد ایبٹسن جو کہ تبت کی سرحد کے نزدیک زمین کے کسی تنازعے کا فیصلہ کرنے جا رہے تھے، نے اپنا پروگرام بدلا۔ وہ باگاشور کی بجائے میرے ساتھ سیم چلتے اور پھر وہاں سے اسکوٹ۔
جو راستہ میں نے چنا تھا، چڑھائیوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہم نے آخر کار یہ فیصلہ کیا کہ ہم پہلے نندھور وادی جا کر نندھور اور لدھیا کے درمیان دریا کو عبور کریں اور پھر لدھیا دریا کے ساتھ ساتھ اتر کر سیم پہنچیں۔ ایبٹسن بارہ اکتوبر کو نینی تال سے روانہ ہوئے۔ اس سے اگلے دن میں انہیں چار گلیا میں جا ملا۔
نندھور دریا کے ساتھ ساتھ اوپر جاتے اور مچھلیاں پکڑتے ہوئے گئے۔ ہمارا ایک دن کا ریکارڈ ایک سو بیس مچھلیاں تھا۔ پانچویں دن ہم درگا پیپل پہنچے۔ یہاں ہم دریا سے الگ ہو کر اور ایک انتہائی سخت چڑھائی کے بعد رات کو دریا کے کنارے جا رکے۔ اگلے دن جلدی روانہ ہو کر ہم نے اپنا کیمپ لدھیا کے بائیں کنارے لگایا جو چلتی سے بارہ میل دور تھا۔
مون سون اس بار قبل از وقت ہی ختم ہو گئی تھیں۔ یہ ہمارے لئے اچھا تھا۔ بلند چوٹیوں سے نیچے بہتا ہوا دریا ہر چوتھائی میل پر عبور کرنا پڑتا تھا۔ انہیں میں سے ایک جگہ میرا پانچ فٹ کا باورچی بہہ گیا اور ایک آدمی جو میرے کھانے کی ٹوکری لے کر جا رہا تھا، نے اسے بچایا۔
چراگلیا سے روانہ ہونے کے دسویں دن ہم نے سیم کے ایک بنجر کھیت میں کیمپ لگایا۔ یہاں سے آدم خور کی پہلی شکار والا جھونپڑا دو سو گز دور تھا اور یہ جگہ لدھیا اور سردا دریاؤں کے سنگم سے سو گز دور تھی۔
محکمہ پولیس کے گل وڈل سے ہماری ملاقات آتے ہوئے ہوئی جب وہ واپس جا رہے تھے۔ انہوں نے سیم میں کئی دن کیمپ لگایا اور محکمہ جنگلات کے میک ڈونلڈ کی طرف سے دیئے گئے بھینسے بھی باندھے۔ انہوں نے از راہ کرم ہمیں وہ تمام بھینسے دے دیئے۔ اگرچہ وڈل کے قیام کے دوران آدم خور نے کئی بار ان کے باندھے ہوئے بھینسوں کی طرف چکر لگایا لیکن انہیں ہلاک نہیں کیا۔
ہماری آمد کے اگلے دن جب ایبٹسن پٹواریوں، فارسٹ گارڈوں اور نمبرداروں سے سوال جواب کر رہے تھے، میں پگ دیکھنے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ کیمپ اور سنگم کے درمیان اور لدھیا دریا کے دونوں کناروں پر نرم ریت موجود تھی۔ اس ریت پر میں نے ایک شیرنی، ایک نوجوان تیندوے اور ایک نوعمر نر شیر کے پگ دیکھے۔ شاید یہ انہی میں سے ایک بچہ تھا جو پچھلے اپریل میں نے دیکھا تھا۔ شیرنی نے دریا کو گذشتہ دنوں کئی بار عبور کیا تھا اور پچھلی رات بھی ہمارے خیموں کے سامنے سے گذری تھی۔ اسی شیرنی کو گاؤں والے آدم خور کے شبہے میں دیکھتے تھے۔ نمبردار کی ماں کی ہلاکت کے بعد سے یہی شیرنی مسلسل سیم کا چکر لگا رہی تھی، میرا خیال تھا کہ کسی حد تک وہ ایسا سمجھنے میں حق بجانب ہیں۔
اس شیرنی کے پگوں کا بغور جائزہ لینے سے پتہ چلا کہ درمیانی جسامت کی حامل شیرنی اور بھرپور جوان ہے۔ اس نے آدم خوری کا کیوں چناؤ کیا، اس کا جواب تو وقت ہی دیتا۔ لیکن ایک ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس نے چکا کے آدم خور کے ساتھ پچھلے ملاپ کے موسم میں رہتے ہوئے انسانی گوشت کو چکھا ہو۔ اب چونکہ اس کا ساتھی زندہ نہ تھا، اسے خود آدم خور بننا پڑا۔ اگرچہ یہ صرف ایک اندازہ تھا اور بعد ازاں غلط نکلا۔
نینی تال سے روانہ ہونے سے قبل میں نے تنک پور کے تحصیلدار کو خط لکھا تھا کہ وہ میرے لئے چار نو عمر بھینسے خرید کر سیم بھجوا دے۔ ان میں سے ایک راستے میں مر گیا جبکہ باقی کے تین چوبیس تاریخ کو پہنچ گئے۔ ہم نے انہیں میک ڈونلڈ کے دیئے ہوئے ایک بھینسے کے ساتھ باندھا۔ اگلی صبح ان بھینسوں کے جائزے کے لئے جب میں نکلا تو دیکھا کہ چکا کے باشندے بہت پرجوش ہیں۔ گاؤں کے گرد کھیتوں میں تازہ ہل چلے ہوئے تھے اور گذشتہ رات شیرنی ان تین خاندانوں کے پاس سے گذری جو اپنے مویشیوں کے ساتھ کھیت کے باہر سو رہے تھے۔ خوش قسمتی سے ہر خاندان کے مویشیوں نے شیرنی کی آمد کو محسوس کر کے اپنے مالکان کو بروقت خبردار کر دیا۔ ان کھیتوں سے نکل کر شیرنی کوٹ کندری کی طرف گئی اور ہمارے دو بھینسوں کے پاس سے انہیں کچھ بغیر گذری۔
پٹواری، فارسٹ گارڈ اور دیہاتیوں نے ہمارے پہنچنے پر ہمیں بتایا تھا کہ بھینسے باندھنا محض وقت کا ضیاع ہوگا کیونکہ آدم خور انہیں ہلاک نہیں کرے گی۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ اس طریقے سے کئی شکاریوں نے آدم خور کو مارنے کی کوشش کی تھی اور ہر شکاری کی ناکامی کے بعد اگر شیرنی بھینسے کھانا چاہتی تو وہ جنگلوں میں چرتے ہوئے مویشی بھی مار سکتی تھی۔ اس نصیحت کے باوجود میں نے بھینسے بندھوانا جاری رکھا اور اگلی دو راتوں میں شیرنی ان میں سے کسی نہ کسی کے پاس سے گذری لیکن انہیں کچھ کہا نہیں۔
۲۷کی صبح جب ہم نے ناشتہ ختم کیا ہی تھا کہ ٹھاک کے نمبردار کا بھائی تیواری ہمارے کیمپ کئی دیگر افراد کے ساتھ پہنچا اور اطلاع دی کہ ان کے گاؤں کا ایک آدمی گم ہو گیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ آدمی دوپہر کے وقت بیوی کو یہ بتا کر گاؤں سے نکلا کہ وہ اپنے مویشیوں کو واپس لانے جا رہا ہے تاکہ وہ بھٹک کر گاؤں کے باہر نہ نکل جائیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ مویشیوں کو واپس نہ لایا تو ہو سکتا ہے کہ آدم خور انہیں کھا جائے۔
جلدی جلدی ہم تیار ہو گئے اور دس بجے ایبٹسن اور میں ٹھاک کے لئے روانہ ہو گئے۔ ہمارے ساتھ تیواری اور اس کے دیگر ہمراہی بھی تھے۔ فاصلہ اگرچہ دس میل ہی تھا لیکن چڑھائی بہت زیادہ تھی۔ چونکہ ہم وقت نہ ضائع کرنا چاہتے تھے، ٹھاک کے قریب جب ہم پہنچے تو ہمارے سانس بے قابو اور پسینے میں شرابور بھی تھے۔
جونہی ہم جھاڑ جھنکار سے نکل کر قدرے صاف جگہ پہنچے، ہم نے ایک عورت کے بین کی آواز سنی۔ اس جگہ کے بارے میں آگے چل کر مزید بتاؤں گا۔ ہندوستانی عورت کے اپنے مرے ہوئے شوہر کے لئے بین کی آواز ایسی نہیں کہ پہچانی نہ جا سکے۔ ہم جنگل سے نکل کر اس غم زدہ عورت تک پہنچے جو کہ گم شدہ بندے کی بیوی تھی، کوئی دس یا پندرہ افراد بھی اس کے ساتھ موجود تھے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ ان کے گھروں کے اوپر کی جانب انہوں نے سفید رنگ کی کوئی چیز دیکھی ہے۔ یہ چیز بظاہر مرحوم آدمی کے کپڑے کا کوئی حصہ لگتا تھا۔ جہاں ہم کھڑے تھے، سے یہ جگہ تیس گز دور گھنی جھاڑی میں تھی۔ ایبٹسن، تیواری اور میں اس سفید چیز کو دیکھنے چل پڑے جبکہ مسز ایبٹسن نے اس خاتون کو ساتھ لیا اور دیگر افراد کے ساتھ گاؤں کو چل دیں۔
یہ کھیت جو کئی سال سے غیر آباد تھا، مختلف قسم کی کانٹے دار جھاڑیوں سے بھرا ہوا تھا اور جب تک ہم اس سفید چیز کے بالکل نزدیک نہ پہنچ گئے، تیواری اسے نہ پہچان پایا کہ یہ گم شدہ فرد کی دھوتی تھی۔ اس کے پاس ہی اس کی ٹوپی بھی پڑی ملی۔ اس جگہ کچھ جد و جہد کے آثار تھے لیکن خون کا کوئی قطرہ نہ دکھائی دیا۔ حملے کی جگہ اور اس سے کچھ دور تک خون کے نشانات کا نہ ملنا اس بات کو ظاہر کرتا تھا کہ شیرنی نے اپنی پہلی گرفت نہیں بدلی۔ اس طرح کی صورتحال میں جب تک جانور اپنی پہلی گرفت نہ تبدیل کرے، خون نہیں نکلتا۔
ہمارے اوپر پہاڑی پر تیس گز دور جھاڑیوں کا گچھا سا تھا جس پر کچھ بیلوں نے گھنا سایہ کیا ہوا تھا۔ گھسیٹنے کے نشانات کا پیچھا کرنے سے قبل اس جگہ کو دیکھ لینا بہتر رہتا ورنہ ہو سکتا تھا کہ شیرنی ہمارے پیچھے ہوتی۔ اس جگہ نرم مٹی میں شیرنی کے بیٹھے اور پھر حملے کے لئے گھات لگانے کے نشانات تھے۔
نکتہ آغاز پر پہنچ کر ہم نے یہ منصوبہ تیار کیا۔ ہماری پہلی ترجیح گھات لگا کر شیرنی کو اس کے شکار کے پاس ہی ہلاک کرنے کی کوشش تھا۔ اس لئے میں نے ان نشانات کا پیچھا کرنے اور سامنے کی نگرانی کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ تیواری مجھ سے ایک گز پیچھے اور نہتا دائیں بائیں دیکھتا چلتا اور ایبٹسن اس سے مزید ایک گز پیچھے اور عقب کا دھیان رکھتے ہوئے چلتے۔ ہم نے طے کیا کہ اگر ایبٹسن کو یا مجھے شیرنی کا بال بھی نظر آ جاتا تو ہم گولی چلا دیتے۔
ایک دن قبل اس جگہ سے مویشی چر کر گئے تھے اور انہوں نے زمین پر موجود نشانات کو مٹا دیا تھا۔ اب شیرنی کے گذرنے کے راستے پر کوئی خون نہیں تھا اور محض الٹا ہوا پتا، کچلی ہوئی گھاس ہی اس کی نشان دہی کرتی تھی۔ اس آدمی کو دو سو گز دور لے جانے کے بعد شیرنی نے اسے نیچے ڈالا اور ہلاک کر کے چلی گئی۔ کئی گھنٹے بعد وہ واپس آئی اور اسے اٹھا کر چل دی۔ مارنے کے فوراً بعد ہی وہ متوفی کو کیوں اٹھا کر نہ لے گئی، شاید اس کی وجہ مویشی ہوں جنہوں نے اسے آدمی کو ہلاک کرتا دیکھا اور اسے بھگا دیا ہو۔
اس جگہ خون کا بڑا سا تالاب بنا ہوا تھا جہاں اس نے متوفی کو ڈالا تھا۔ چونکہ اب اس کے جسم سے خون بہنا بند ہو چکا تھا، شیرنی اسے دوبارہ اٹھا کر لے گئی۔ اس بار اس نے متوفی کو کمر سے پکڑا ہوا تھا۔ پہلے اس نے گلے سے متوفی کو اٹھایا ہوا تھا۔ اب پیچھا کرنا مزید مشکل ہو گیا تھا۔ شیرنی نے پہاڑی کے متوازی حرکت جاری رکھی اور چونکہ اس جگہ گھاس وغیرہ بہت گھنی تھی اور چند گز سے زیادہ دور دکھائی نہ دیتا تھا، ہماری پیش قدمی بہت سست ہو گئی۔ دو گھنٹوں میں ہم بمشکل نصف میل چل پائے اور اس کنارے پر پہنچے جہاں موجود وادی مین چھ ماہ قبل ہم نے چکا کے آدم خور کا پیچھا کر کے اسے ہلاک کیا تھا۔ اس جگہ پتھر کی بہت بڑی سلیب تھی جو ہمارے سمت سے اوپر کو اٹھی ہوئی تھی۔ شیرنی کے نشانات اسی طرف گئے اور مجھے یقین تھا کہ شیرنی اسی کے نیچے یا پھر اس کے آس پاس ہی کہیں موجود ہوگی۔
ایبٹسن اور میرے پیروں میں ہلکے ربر سول کے جوتے تھے جبکہ تیواری ننگے پاؤں گا اور ہم چٹان تک بغیر کسی آواز کے پہنچ گئے۔ دونوں ساتھیوں کو اشارے سے بتاتے ہوئے کہ وہ خاموشی سے ارد گرد کڑی نظر رکھیں، میں نے چٹان پر پیر رکھا اور انچ بہ انچ آگے بڑھا۔ چٹان کی دوسری طرف تھوڑی سی مسطح زمین تھی اور جونہی زیادہ حصہ میرے سامنے آتا گیا، شیرنی کے اس چٹان کے نیچے موجود ہونے کا شبہ مزید تقویت پکڑتا گیا۔ ابھی مجھے مزید ایک یا دو فٹ اور اوپر جانا تھا کہ میں نے بائیں جانب حرکت محسوس کی۔ ایک سنہرا سپرنگ جیسے دب کر کھلا ہو اور دوسرے لمحے جھاڑیوں کے پیچھے ہلکی سی حرکت دکھائی دی اور جھاڑیوں کے دوسرے سرے پر ایک بندر بولا۔
شیرنی نے بلاشبہ اپنے سونے کے لئے بہت عمدہ جگہ چنی تھی۔ ہماری بدقسمتی کہ شیرنی ابھی سوئی نہ تھی۔ چونکہ میں نے ہیٹ اتارا ہوا تھا تو جونہی شیرنی نے میرے سر کا اوپری حصہ ابھرتا دیکھا، اس نے ایک طرف ہٹتے ہوئے جست لگائی اور بلیک بیری کی جھاڑی میں گھس گئی۔ اگر وہ اس کے علاوہ کسی اور جگہ ہوتی جہاں وہ ابھی تھی، میرے گولی چلانے سے قبل اس کا فرار ہونا ناممکن ہوتا۔ ہماری اتنی محنت سے کی گئی کوشش عین آخری لمحے میں بےکار ہوگئی اور اب ہمارے پاس لاش کو تلاش کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ اگر لاش میں کچھ گوشت باقی بچا ہوا ہوتا تو ہم اس پر مچان باندھ سکتے تھے۔ اس جھاڑی کے پیچھے شیرنی کا پیچھا کرنا بے کار ہوتا اور بعد میں اس پر گولی چلانا بھی دشوار تر ہو جاتا۔
شیرنی جہاں لیٹی تھی، کے نزدیک ہی لاش کو کھایا تھا۔ یہ کھلی جگہ تھی اور گدھوں سے بچانے کے لئے شیرنی نے اسے اٹھایا اور ایسی جگہ چھپا دیا جہاں گدھ اسے نہ دیکھ پاتے۔ اب خون کے نشانات موجود تھے اور لاش کو تلاش کرنا مشکل نہ تھا۔ اس لکیر کی مدد سے چلتے ہوئے پچاس گز دور ہم نے لاش کو پا لیا۔
میں اس لاش کی تفصیل بتا کر آپ کے جذبات مجروح نہیں کروں گا کیونکہ متوفی کے کپڑے لیر لیر اور اس کا جسم کھایا جا چکا تھا۔ چند گھنٹے قبل یہ شخص دو بچوں کا باپ اور خاندان کا کفیل تھا۔ اب اس کی بیوی کی قسمت میں ہندوستانی بیوہ کہلایا جانا تھا۔ میں نے اس سے ملتی جلتی بے شمار لاشیں دیکھیں ہیں۔ میں بتیس سال سے آدم خوروں کا پیچھا اور ان سے مقابلہ کر رہا ہوں اور ہر بار جب میں کسی لاش پر پہنچتا ہوں تو میرا پہلا رد عمل یہی ہوتا ہے کہ لاش کو آدم خور کے لئے ہی چھوڑ دیا جائے تو بہتر ہے۔ یہ ادھ کھائی لاش ایک ڈراؤنے خواب کی طرح لواحقین کے اعصاب پر سوار رہتی ہے۔ خون کا بدلہ خون اور بدلے کی آگ جلتی رہتی ہے۔ اس قاتل آدم خور سے جان چھڑانے کے لئے بے تابی بڑھتی جاتی ہے۔ تاہم ہر بار یہ موہوم سی امید ہوتی ہے کہ شاید متوفی ابھی زندہ ہو اور اسے کسی مدد کی ضرورت ہو۔
کسی ایسے جانور، جو کہ پہلے ہی اسی طرح کی صورتحال میں زخم کھا کر آدم خور بنا ہو، اس کے بعد ہونے والی ہر ناکام کوشش، چاہے اس کی وجہ کچھ ہی کیوں نہ ہو، جانور کو مزید سے مزید محتاط اور ہوشیار کرتے جاتے ہیں۔ حتٰی کہ ایک وقت آتا ہے کہ وہ جانور یا تو شکار لاش پر لوٹنا ہی چھوڑ دیتا ہے یا پھر اتنی خاموشی سے آتا ہے کہ جیسے وہ نظر نہ آنے والی پرچھائیں ہو، ہر پتے، ہر جھاڑی کو اچھی طرح چھان پھٹک کر گذرتا ہے کہ نہ جانے کہاں اس کا قاتل چھپا بیٹھا ہو، کی تلاش میں اس کے کئے گئے شکار پر بیٹھ کر گولی چلانے کے امکانات چاہے لاکھوں یا کروڑوں میں ایک ہی کیوں نہ ہو، ہم میں سے کون ہے جو پھر بھی اپنی قسمت نہ آزمانا چاہے گا۔
یہ جھاڑی جہاں شیرنی چھپی ہوئی تھی، قریب چالیس مربع گز کی تھی اور شیرنی دوسرے سرے پر بیٹھے بندر کو خبردار کئے بغیر اس جھاڑی سے نہ نکل سکتی تھی۔ ہم پشت سے پشت ملا کربیٹھ گئے اور سیگرٹ پینے اور جنگل میں موجود کسی بھی آواز کو سننے اور اپنی اگلی حرکت کے بارے سوچنے لگے۔
مچان بنانے کے لئے لازمی تھا کہ ہم گاؤں جاتے اور ہماری غیر موجودگی میں شیرنی شکار کو لازماً اٹھا کر کہیں اور لے جاتی۔ جب وہ پورے انسان کو لے کر جا رہی تھی تو اس کا پیچھا کرنا اتنا مشکل تھا تو جب لاش کافی حد تک کھائی جا چکی تھی اور شیرنی محتاط بھی ہو چکی ہو، پیچھا کرنا کتنا مشکل ہو جاتا۔ شیرنی لاش کو میلوں دور لے جاتی اور ہم اسے کبھی دوبارہ نہ پا سکتے۔ ہم میں سے ایک ادھر ہی رکتا اور دوسرے دو افراد گاؤں جا کر رسیاں وغیرہ لاتے۔
ایبٹسن نے حسب معمول خطرے کو اہمیت دیئے بغیر واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ جب وہ اور تیواری یہاں سے براہ راست نیچے اترے تاکہ مشکل راستے سے بچ سکیں، میں ایک چھوٹے درخت پر چڑھ گیا جو لاش کے پاس ہی تھا۔ زمین سے چار فٹ اوپر جا کر یہ درخت دو شاخہ ہو جاتا تھا اور ایک شاخ پر کمر اور دوسرے پر پیر ٹکا کر میں جم گیا۔ اس جگہ سے میں شیرنی کی حرکات کو دور سے دیکھ سکتا تھا چاہے وہ لاش پر آتی چاہے وہ مجھ پر حملہ کرتی۔ میں اسے نزدیک پہنچنے سے قبل ہی دیکھ لیتا۔
ایبٹسن کو گئے پندرہ یا بیس منٹ گذرے ہوں گے کہ میں نے ایک چٹان کے اوپر اٹھنے اور پھر نیچے گرنے کی آواز سنی۔ بظاہر یہ چٹان ایسی جگہ تھی جہاں ہلکا سا وزن بھی اسے متحرک کر دیتا۔ شیرنی نے جب اس پر اپنا پیر رکھا تو یہ اٹھ گئی۔ اسے اٹھتا محسوس کر کے شیرنی نے فوراً پیر ہٹا لیا اور چٹان واپس بیٹھ گئی۔ آواز میرے سامنے بائیں جانب بیس گز دور سے آئی تھی۔ یہ واحد سمت تھی جہاں میں گولی چلاتے وقت درخت سے نہ گرتا۔
منٹ گذرتے گئے اور میری امیدیں اوپر نیچے ہوتی رہیں۔ جب میرے اعصاب پر دباؤ اور ہاتھوں پر رائفل کا بوجھ ناقابل برداشت ہونے لگا تو میں نے اس جھاڑی کے اوپری سرے پر ہلکی سی آواز سنی جیسے کوئی خشک لکڑی چٹخی ہو۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شیر جنگل میں کتنی خاموشی سے چلتے ہیں۔ جس لمحے شیرنی نے چٹان پر پیر رکھ کر آواز پیدا کی، مجھے اس کے بالکل درست مقام کا علم ہو گیا۔ میں نے اس طرف اپنی نگاہیں جما دیں اور پھر بھی شیرنی نہ صرف آئی، چند لمحے رک کر مجھے دیکھا اور پھر واپس بھی چل دی اور مجھے ایک تنکا یا گھاس کا پتہ تک نہ حرکت کرتا دکھائی دیا۔
جب اعصابی تناؤ دور ہو اور تھکے ہوئے پٹھے فوری آرام مانگتے ہیں۔ ابھی مجھے صرف ہاتھ نیچے کر کے رائفل کو گھٹنوں پر رکھنا تھا، لیکن میں بتا نہیں سکتا کہ اس معمولی سی حرکت سے میرے پورے جسم کو کتنا سکون ملا۔ اس کے بعد شیرنی کی کوئی آواز نہ آئی۔ ایک یا دو گھنٹے بعد میں نے ایبٹسن کی آمد کی آواز سنی۔
میں نے جتنے بھی افراد کے ساتھ شکار کھیلا ہے، ایبٹسن ان میں سے سب سے الگ اور نمایاں ہیں۔ نہ صرف وہ شیر کا کلیجہ رکھتے ہیں بلکہ انہیں ہر چیز کا بھی خیال رہتا ہے۔ شاید وہ سب سے زیادہ مخلص شکاری ہیں۔ ابھی گئے تو وہ مچان کے لئے رسیاں لانے تھے لیکن واپسی پر ان کے پاس کمبل، تکیئے اور گرم چائے بھی تھی اور گرم کھانا بھی۔ جب میں شکار سے ہٹ کر اس طرح بیٹھا کہ اس سے اٹھنے والی بو مجھے تنگ نہ کرے، ایبٹسن نے ایک آدمی کو چالیس گز دور ایک درخت پر چڑھا دیا تاکہ وہ شیرنی کی توجہ اپنی جانب مبذول رکھے، خود وہ درخت پر چڑھ کر مچان باندھنے لگے۔
جب مچان تیار ہو گئی تو ایبٹسن نے لاش کو گھسیٹ کر چند فٹ دور کر دیا اور اسے ایک نو عمر درخت کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا تاکہ شیرنی اسے نہ لے جا سکے۔ چاند سورج ڈوبنے کے کم از کم دو گھنٹے بعد نکلتا۔ آخری کش لگا کر میں مچان پر چڑھا اور جب آرام سے بیٹھ گیا تو ایبٹسن نے دوسرے آدمی کو درخت سے اتارا اور ٹھاک روانہ ہو گئے تاکہ مسز ایبٹسن کو لے کر سیم میں کیمپ کو جا سکیں۔
ابھی یہ لوگ بمشکل نظروں سے اوجھل ہوئے تھے لیکن ان کی آوازیں آ رہی تھیں کہ میں نے کسی بھاری جسامت والے جانور کو پتوں پر چلتے سنا۔ اسی وقت جھاڑیوں کے پرلے سرے سے بندر بھی چیخا جو اس سارے وقت خاموش بیٹھا ہوا تھا۔ ہمیں توقع سے زیادہ کامیابی ہوئی تھی۔ دوسرے درخت پر ایک بندے کو چڑھا دینے سے شیرنی کی توجہ یقیناً اس کی طرف مبذول ہو گئی تھی۔ ایسا ایک بار پہلے بھی ہو چکا تھا۔ تناؤ بھرا ایک منٹ گذرا، پھر دوسرا اور پھر تیسرا۔ اس کے بعد ایک کاکڑ دیوانہ وار بھونکتا ہوا اس جانب سے آیا جہاں میں اس بڑی پتھر کی سلیب پر چڑھا تھا۔ شیرنی شکار پر آنے کی بجائے ایبٹسن کا پیچھا کر رہی تھی۔ اب مجھے شدت سے ان لوگوں کی فکر ہو گئی کیونکہ بظاہر اب شیرنی پہلے شکار کو بھول کر نئے شکار کی تلاش میں جا رہی تھی۔
روانگی سے قبل ایبٹسن نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہر ممکن احتیاط کریں گے۔ تاہم میری طرف سے بھونکتے کاکڑ کی آواز سن کر قدرتی طور پر وہ کچھ غیر محتاط ہو جاتے کہ شیرنی لاش پر جا رہی ہے تو شیرنی کو موقع مل سکتا تھا۔ دس منٹ بہت مشکل سے گذرے کہ ایک کاکڑ کی آواز ٹھاک کی جانب سے آئی۔ یقیناً شیرنی ابھی تک پیچھا کر رہی تھی لیکن اس جگہ زمین کچھ صاف تھی اور شیرنی کے حملے کے امکانات کم ہی تھے۔ تاہم ایبٹسن وغیرہ کو لاحق خطرہ ابھی دور نہیں ہوا تھا کیونکہ انہیں ابھی دو میل مزید گھنے جنگل سے ہو کر کیمپ تک جانا تھا۔ اسی طرح اگر وہ سورج ڈوبنے تک گولی کی آواز کا انتظار کرنے ٹھاک میں رک جاتے، جیسا کہ مجھے خطرہ تھا اور انہوں نے ایسا کیا بھی، انہیں واپسی کے راستے پر بہت بڑے خطرے کا سامنا کرنا پڑتا۔ تاہم خوش قسمتی سے ایبٹسن کو خطرے کا احساس ہو گیا تھا اور انہوں نے ہر ممکن احتیاط جاری رکھی۔ اگلے دن پگ دیکھنے سے پتہ چلا کہ شیرنی نے پورا راستہ ان کا پیچھا جاری رکھا تاہم وہ لوگ کیمپ تک بخیریت پہنچ گئے۔
کاکڑ اور سانبھر کی آوازوں سے مجھے شیرنی کی حرکات کا بخوبی اندازہ ہوتا رہا۔ سورج غروب ہونے کے ایک گھنٹے بعد شیرنی دو میل دور وادی کے نچلے سرے پر تھی۔ ابھی پوری رات پڑی تھی کہ وہ اپنے شکار پر واپس لوٹ سکتی تھی اور اگرچہ اس کی واپسی لاکھوں میں ایک امکان ہی رکھتی تھی۔ میں نے اس امکان کو بھی ضائع نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ نہایت سرد رات تھی اور اپنے گرد کمبل لپیٹ کر میں ایسی آرام دہ حالت میں بیٹھ گیا کہ گھنٹوں تک حرکت کی ضرورت نہ پڑتی۔
میں مچان پر چار بجے شام کو بیٹھا اور دس بجے رات کو میں نے دو جانوروں کو آتے سنا۔ درختوں کے نیچے اتنی گہری تاریکی تھی کہ مجھے کچھ نہ دکھائی دیا۔ جب وہ نزدیک پہنچے تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ سیہی ہیں۔ کانٹوں کی حرکت سے پیدا ہونے والی آواز اتنی منفرد ہے کہ کوئی اور جانور یہ آواز نہیں نکال سکتا۔ وہ لاش تک پہنچے اور اس کے گرد کئی چکر لگا کر اپنی راہ چل دیئے۔ ایک گھنٹہ بعد، جب چاند نکلے کچھ وقت ہو چلا تھا، میں نے نیچے وادی میں کسی جانور کی آواز سنی۔ یہ کی حرکت مشرق سے مغرب کی جانب تھی اور جب وہ شکار سے ہو کر گذرتی ہوا کے راستے میں پہنچا، یہ جانور کافی دیر تک رکا رہا اور پھر احتیاط سے لاش کی طرف بڑھا۔ ابھی یہ کچھ دور تھا کہ میں نے اس کے سونگھنے کی آواز سنی، مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ ریچھ ہے۔ خون کی بو اسے بلا رہی تھی اور انسانی بو اسے دور بھاگنے پر مجبور کر رہی تھی اس لئے وہ بہت محتاط ہو کر بڑھ رہا تھا۔ ریچھ کی سونگھنے کی طاقت جنگل کے جانوروں میں سب سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ ابھی وہ وادی میں ہی تھا کہ اسے علم ہو گیا کہ یہ شکار شیر کا ہے۔ ہمالیہ کے ریچھ کسی سے نہیں ڈرتے اور میں نے بہت بار انہیں شیر کو اس کے شکار سے بھگاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اسے شیر کی بو سے نہیں بلکہ انسان، خون اور شیر کی بوؤں کی وجہ سے جھجھک ہو رہی تھی۔
مسطح زمین پر پہنچ کر وہ پچھلے پیروں پر لاش سے چند گز دور ہو کر بیٹھا اور جب اس نے محسوس کیا کہ انسان کی بو سے اسے کوئی خطرہ نہیں، وہ پچھلے پیروں پر کھڑا ہوا اور اس نے ایک لمبی چیخ ماری۔ میں نے یہ خیال کیا کہ یہ چیخ اس نے اپنے ساتھی کو بلانے کے لئے ماری ہے۔ یہ آواز وادی میں گونجتی رہی۔ پھر وہ بغیر کسی جھجھک کے لاش تک پہنچا اور جب وہ اسے سونگھ رہا تھا، میں نے رائفل سے اس کا نشانہ لے لیا۔ مجھے صرف ایک واقعہ معلوم ہے جب کسی ہمالیائی ریچھ نے انسانی گوشت کھایا تھا۔ یہ ایک عورت کی لاش تھی جو اونچی چوٹی پر گھاس کاٹتے ہوئے پیر پھسلنے سے گری اور مر گئی۔ اس کی لاش کو ریچھ اٹھا کر لے گیا اور اسے کھا گیا۔ میں نے اس ریچھ کے شانے کا نشانہ لیا ہوا تھا، تاہم ریچھ لاش کو چکھے بغیر واپس اپنے راستے پر مغرب کو چل دیا۔ جب اس کے جانے کی آوازیں ختم ہو گئیں تو صبح تک میں نے کوئی آواز نہ سنی۔ سورج نکلنے کے کچھ دیر بعد ایبٹسن پہنچے۔
ایبٹسن کے ساتھ متوفی کا بھائی اور دیگر رشتہ دار بھی آن پہنچے۔ انہوں نے ادھ کھائی لاش کو صاف سفید کپڑے میں لپیٹا اور دو درختوں کو کاٹ کر انہوں نے سٹریچر بنایا اور اس پر رکھ کر ساردا دریا کے کنارے یہ کہتے ہوئے چل دیئے "رام نام ست ہے" جواب میں یہ سنائی دیتا تھا "ستے بول گت ہے"۔
اس سخت سرد رات کا مجھ پر گہرا اثر ہوا تھا لیکن ایبٹسن کی لائی ہوئی گرم گرم چائے اور کھانے نے رات کا تائثر زائل کر دیا۔

(۲)
ستائیس کی رات کو ایبٹسن کا چکا تک پیچھا کرنے کے بعد شیرنی رات کو کسی وقت لدھیا کو عبور کر کے ہمارے کیمپ کے پیچھے موجود جنگل میں گھس گئی۔ اگرچہ اس جنگل میں باقاعدہ راستہ موجود تھا جسے دیہاتی استعمال کرتے تھے، تاہم آدم خور کے ظہور کے بعد سے یہ راستہ ویران تھا اور اسے خطرناک شمار کیا جاتا تھا۔
اٹھائیس کو دو ہرکارے ایبٹسن کی ڈاک لے کر تنگ پور تاخیر سے روانہ ہوئے۔ وقت بچانے کے لئے انہوں نے اس جنگل سے گذرنے کا فیصلہ کیا۔ خوش قسمتی سے جو ہرکارہ آگے چل رہا تھا، بہت ہوشیار تھا اور اس نے شیرنی کو راستے میں چھپ کر بیٹھتے دیکھ لیا۔
ایبٹسن اور میں اسی وقت ٹھاک سے واپس آئے تھے کہ یہ دونوں افراد پہنچ گئے۔ رائفلیں ساتھ لئے ہم جائزہ لینے دوڑے۔ ہم نے پگوں کو دیکھا کہ شیرنی نے ان دونوں کا کچھ دور تک پیچھا بھی کیا تھا۔ تاہم جنگل بہت گھنا تھا اور ہم کچھ نہ دیکھ پائے اور ایک جگہ کسی جانور کے بھاگنے کی آواز سنی۔
انتیس کی صبح کو ٹھاک سے ایک گروہ آیا کہ ان کا ایک بیل گذشتہ رات باڑے میں واپس نہ لوٹا تھا۔ تلاش کرنے پر جہاں اسے آخری بار دیکھا گیا تھا، خون ملا۔دو بجے ایبٹسن اور میں اس جگہ پر تھے اور ایک نظر دیکھنے سے پتہ چل گیا کہ شیر نے بیل کو مارا اور پھر اٹھا کر دوسری جگہ منتقل کیا ہے۔ بعجلت دوپہر کا کھانا کھا کر ایبٹسن اور میں بمع دو آدمیوں کے گھیسٹنے کے نشانات کے پیچھے چلے۔ یہ دو آدمی مچان کے لئے رسیاں لا رہے تھے۔ سو گز تک یہ نشانات سیدھا پہاڑ کے درمیان متوازی چلے۔ یہ نشانات سیدھے اسی کھائی میں جا رہے تھے جہاں گذشتہ اپریل میں نے ایک بڑے شیر پر نشانہ خطا کیا تھا۔ چند سو گز بعد یہ بیل جو کہ بہت بڑی جسامت کا تھا، دو چٹانوں کے درمیان پھنس گیا۔ شیر جب اسے اٹھا کر آگے نہ لے جا سکا تو وہیں کچھ حصہ کھا کر اسے چھوڑ گیا۔ شیر کے پنچے اس بیل کے وزن سے اتنے پھیل گئے تھے کہ فرق کرنا مشکل تھا کہ آیا یہ عام شیر ہے یا آدم خور شیرنی۔ تاہم چونکہ ہم نے اس علاقے کے ہر شیر کو آدم خور سمجھ کر اس کا پیچھا کرنا تھا، میں نے یہاں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں لاش سے مناسب فاصلے پر ایک ہی درخت تھا اور جونہی آدمی مچان کے لئے رسیاں باندھنے اوپر چڑھے، نیچے وادی میں شیر نے بولنا شروع کر دیا۔ عجلت میں چند الٹی سیدھی رسیاں باندھ کر ایبٹسن نگرانی کو کھڑے ہوئے جبکہ میں مچان پر چڑھ گیا۔ یہ مچان جس پر میں اگلے چودہ گھنٹے بیٹھا رہا، میری زندگی کی سب سے بری اور سب سے خطرناک مچان تھی۔ درخت پہاڑی کے مخالف سمت جھکا ہوا تھا اور تین غیر متناسب رسیوں سے بنی ہوئی مچان پر میں بیٹھے ہوئے کھائی کے بالکل اوپر سو فٹ اوپر تھا۔
جب میں درخت پر چڑھ رہا تھا تو شیر نے کئی بار آوازیں نکالیں اور لمبے وقفے کے بعد شام کو دوبارہ بولا اور اس کی آخری آواز چٹان کے سرے سے نصف میل دور سے آئی۔ بظاہر یہ لگ رہا تھا کہ شیر شکار کے قریب ہی لیٹا ہوا تھا اور اس نے ہمیں آتا اور پھر آدمیوں کو درخت پر چڑھتے دیکھا۔ سابقہ تجربے سے اسے معلوم تھا کہ اس کا کیا مطلب ہوگا، اس نے دور جا مداخلت پر ناراضگی ظاہر کی۔ چودہ گھنٹے بعد جب اگلے دن صبح کو ایبٹسن آئے، میں نے نہ تو کچھ دیکھا اور نہ ہی کچھ سنا۔
چونکہ یہ کھائی گہری اور درختوں سے ڈھکی تھی، گدھ لاش کو کبھی بھی نہ دیکھ پاتے۔ بیل اتنا بڑا تھا کہ شیر کے لئے کئی بار خوراک فراہم کر سکتا تھا، ہم نے فیصلہ کیا کہ اس پر تب تک دوبارہ نہ بیٹھیں جب تک کہ شیر اسے مزید کھا کر ہلکا نہ کر دے۔ جب شیر اسے یہاں سے منتقل کرے تو نئی جگہ گولی چلانے کے لئے بہتر موقع مل سکے گا۔ ہماری قسمت کہ شیر دوبارہ لاش پر واپس نہ آیا۔
دو راتوں کے بعد وہ بھینسا مارا گیا جو ہمارے کیمپ کے پیچھے سیم میں بندھا ہوا تھا۔ چونکہ میرا دل اس وقت جانے کو نہیں چاہ رہا تھا، آدم خور کو مارنے کا ایک سنہری موقع ہاتھ سے نکل گیا۔
جو آدمی بھینسے کو دیکھنے گئے تھے، نے بتایا کہ رسی ٹوٹی ہوئی تھی اور شیرنی شکار کو اسی کھائی میں نیچے لے گئی ہے جہاں وہ بندھا ہوا تھا۔ یہ وہی کھائی تھی جہاں میک ڈونلڈ اور میں نے اپریل میں شیرنی کا پیچھا کیا تھا اور اس وقت شیرنی اپنے شکار کو لے کر کھائی میں کچھ دور گئی تھی۔ اس بار نہایت بے وقوفی سے میں نے فرض کر لیا کہ اس بار بھی شیرنی شکار کو وہیں لے جائے گی۔
ناشتے کے بعد ایبٹسن اور میں بھینسے کی لاش کو ڈھونڈنے نکلے تاکہ اس پر مچان باندھنے کے امکانات کا جائزہ لیا جا سکے۔
جس گہری کھائی میں بھینسا مارا گیا تھا، پچاس گز چوڑی اور سیدھی پہاڑ کے دامن تک چلی جاتی تھی۔ دو سو گز تک یہ کھائی سیدھی جاتی ہے اور پھر بائیں مڑتی ہے۔ موڑ کے فوراً بعد بائیں جانب نو عمر درختوں کا ایک جھنڈ ہے اور اس کے پیچھے سو فٹ چٹان ہے جس پر گھنی گھاس اگی ہوئی ہے۔ کھائی میں ان درختوں کے قریب پانی کا ایک چھوٹا سا تالاب ہے۔ میں اپریل میں اس جگہ سے کئی بار گذرا تھا لیکن اندازہ نہ لگا سکا کہ یہ درخت کسی شیر کے لیٹنے کے لئے مناسب جگہ بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لئے مڑتے وقت میں نے کوئی احتیاط نہیں کی۔ نتیجتاً شیرنی جو اس تالاب سے پانی پی رہی تھی، نے ہمیں پہلے دیکھا۔ اس کے پاس فرار کا ایک ہی راستہ تھا جو اس نے استعمال کیا۔ یہ راستہ درختوں کے پیچھے چٹان پر چڑھ کر سرے کو عبور کر کے پیچھے گھنے سال کا جنگل تھا۔
پہاڑی ہمارے لئے ناقابل عبور تھی، سو ہم نے کھائی میں اوپر کی طرف سفر جاری رکھا جہاں ہمیں سانبھروں کی گذرگاہ ملی۔ اس راستے سے ہم سرے تک پہنچ گئے۔ شیرنی اب اس تکون جگہ میں تھی جس کا ایک سرا یہ کنارہ، دوسرا لدھیا اور تیسرا وہ چوٹی تھی جہاں سے کوئی جانور نہ گذر پاتا۔ یہ علاقہ زیادہ بڑا نہ تھا اور اس میں بہت سارے ہرن چر رہے تھے۔ وقتاً فوقتاً ان کی آوازوں سے ہمیں شیرنی کی حرکت کا اندازہ ہوتا رہا لیکن بدقسمتی سے اس جگہ بہت ساری گہری کھائیاں بھی تھیں اور شیرنی انہی میں سے ایک میں گم ہو گئی۔
ابھی ہم نے بھینسے کو نہیں دیکھا تھا اس لئے دوبارہ سانبھروں کا راستہ لے کر کھائی میں پہنچے اور انہی نوعمر درختوں کے جھنڈ میں لاش پوشیدہ تھی۔ یہ درخت چھ انچ سے لے کر فٹ تک موٹے تنے والے تھے اور مچان کا بوجھ نہ سہار پاتے۔ اس لئے ہم نے مچان کا خیال دل سے نکال دیا۔ دھاتی سلاخ کی مدد سے ہم کسی بڑے پتھر کو اس کی جگہ سے نکال کر بیٹھ سکتے تھے لیکن آدم خور کے لئے یہ طریقہ خطرناک ہوتا۔
گولی چلانے کے امکانی موقع کو ضائع نہ کرنے کے خیال سے ہم نے سوچا کہ خود کو بھینسے کی لاش کے پاس گھاس میں چھپا دیں تاکہ اگر شیرنی اندھیرا ہونے سے قبل آئی اور ہم اسے پہلے دیکھ سکے تو اسے گولی مار سکیں گے۔ اس میں دو خامیاں تھیں۔
۱۔ اگر ہمیں گولی چلانے کا موقع نہ ملا اور شیرنی نے ہمیں دیکھ لیا تو باقی دو مواقع کی طرح اس بار بھی لاش پر دوبارہ نہیں آئے گی۔
۲۔ لاش اور کیمپ کے درمیان کا راستہ گھنے جنگلات سے بھرا ہوا تھا۔ اگر ہم تاریکی چھانے کے بعد واپس ہوتے تو شیرنی کے رحم و کرم پر ہوتے۔
اس لئے ہم نے بہت ہچکچاہٹ کے ساتھ اس رات لاش کو شیرنی کے لئے چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا اور اگلے دن کے لئے بہتری کی امید رکھی۔
اگلے دن واپس آئے تو ہم نے دیکھا کہ شیرنی لاش کو لے گئی ہے۔ تین سو گز تک وہ کھائی کی تہہ میں پتھروں پر پھدکتی بڑھتی چلی گئی اور کوئی گھسیٹنے کا نشان نہ چھوڑا۔ جہاں سے اس نے لاش کو اٹھایا تھا، سے تین سو گز دور اس جگہ ہم دھوکہ کھا گئے۔ یہاں گیلی زمین پر بہت سارے پگ تھے لیکن کوئی بھی پگ ایسا نہیں تھا کہ جو لاش کو اٹھائے ہوئے بنا ہوتا۔ آخر کار دائروں میں تلاش کرتے ہوئے ہم نے وہ جگہ تلاش کی جہاں وہ کھائی سے نکل کر بائیں جانب کی پہاڑی پر چڑھی تھی۔
یہ پہاڑی جس پر شیرنی اپنے شکار کو لے کر چڑھی تھی، اس پر فرن اور گولڈن راڈ بکثرت اگی ہوئی تھی اور کھوج لگانا مشکل نہ تھا۔ تاہم چڑھائی بہت سخت تھی اور کئی جگہوں پر ہمیں لمبا چکر کاٹ کر دوبارہ کھوج جاری رکھنی پڑی۔ ہزار فٹ کی سخت چڑھائی کے بعد ہم ایک چھوٹے سے میدان تک آ پہنچے جس کے بائیں جانب ایک میل چوڑی چوٹی تھی۔ اس چوٹی کے نزدیک یہ میدان سیم کا شکار اور کٹا پھٹا تھا اور ان کٹی پھٹی جگہوں پر دو سے چھ فٹ اونچے سال کے بہت زیادہ درخت اگے ہوئے تھے۔ شیرنی اپنے شکار کو لے کر سیدھا اسی گھنے ذخیرے میں آئی تھی۔ یہ ذخیرہ اتنا گھنا تھا کہ جب تک ہم بھینسے کی لاش پر نہ پہنچ گئے، ہم اسے نہ دیکھ پائے۔
ابھی ہم یہ دیکھنے کو رکے ہی تھے کہ بھینسے کی لاش میں کتنا کچھ بچا ہوا ہے، ہمارے دائیں جانب سے ہلکی سی غراہٹ سنائی دی۔ رائفلیں اس طرف اٹھائے ہم نے منٹ بھر توقف کیا اور پھر جہاں سے آواز آئی تھی، سے ذرا آگے ہم نے حرکت کی آواز سنی۔ ہم ابھی ان گھنے درختوں میں دس گز ہی آگے بڑھے ہوں گے کہ ایک نسبتاً خالی قطعہ دکھائی دیا جہاں نرم گھاس پر شیرنی لیٹی ہوئی تھی۔ اس گھاس کے دوسرے سرے پر پہاڑی بیس گز بلند ہو کر ایک دوسرے میدان پر ختم ہوتی تھی۔ یہ آواز اسی میدان کی جانب سے آئی تھی جو ہم نے کچھ دیر قبل سنی تھی۔ اس چڑھائی پر ہر ممکن احتیاط اور خاموشی سے چڑھتے ہوئے ہم اوپر والے میدان تک پہنچے جو پچاس گز لمبا تھا۔ اسی وقت شیرنی اس میدان کے دوسرے سرے سے نیچے کھائی میں اتری اور چند کالے تیتر اور کاکڑ بولے۔ اس کا مزید پیچھا کرنا بے سود ہوتا۔ اس لئے ہم واپس شکار پر پہنچے اور دیکھا کہ ابھی بھی اس میں کافی گوشت باقی تھا۔ بیٹھنے کے لئے دو درخت چن کر ہم کیمپ کو واپس لوٹے۔
قبل از وقت دوپہر کا کھانا کھا کر ہم دونوں اس جگہ واپس لوٹے اور رائفلوں سمیت بمشکل تمام اپنے منتخب کردہ درختوں پر چڑھے۔ پانچ گھنٹے تک ہم نے انتظار کیا تاہم شیرنی نہ لوٹی۔ دھندلکے کے وقت ہم نیچے اترے اور کٹی پھٹی اور ناہموار زمین سے ہوتے ہوئے جب ہم کھائی میں پہنچے تو تاریکی گہری ہو چکی تھی۔ ہم دونوں کو ہی احساس تھا کہ ہمارا تعاقب کیا جا رہا ہے تاہم ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ہم بغیر کسی حادثے کے کیمپ رات کو نو بجے پہنچ گئے۔
ایبٹسن اس سے زیادہ سیم میں نہ رک سکتے تھے اور اگلی صبح وہ لوگ بارہ روزہ پیدل سفر پر ایسکوٹ کو روانہ ہو گئے۔ جانے سے قبل ایبٹسن نے مجھ سے وعدہ لیا کہ میں آدم خوروں کے تعاقب میں مزید اکیلا نہیں جاؤں گا اور سیم میں ایک یا دو روز سے رک کر اپنی زندگی کو خطرے میں نہیں ڈالوں گا۔
ایبٹسن اور ان کے پچاس ہمراہیوں کی روانگی کے بعد گھنے جنگل سے گھرے اس کیمپ میں میں اور میرے دو ملازم باقی بچ گئے۔ میرے قلی پہلے سے ہی نمبردار کے گھر رہ رہے تھے۔ سارا دن ہم لوگوں نے مل کر خشک لکڑیاں جمع کرنے پر لگا دیا۔ ساری رات آگ جلائے رکھنے کے لئے موسم کا سرد ہونا ہی کافی بہانہ تھا۔
شام کے وقت جب میرے آدمی بحفاظت کیمپ واپس لوٹ آئے تو میں نے رائفل اٹھائی اور لدھیا کی جانب چل پڑا تاکہ اگر شیرنی نے دریا عبور کیا ہو تو اس کے نشانات مل جائیں۔ ریت پر مجھے بہت سارے پگ دکھائی دئیے تاہم ان میں سے کوئی بھی تازہ نہیں تھا۔ دھندلکے کے وقت میں واپس لوٹا اور مجھے یقین تھا کہ شیرنی ہماری والی طرف ہی موجود ہے۔ گھنٹے بعد جب تاریکی پوری طرح چھا چکی تھی تو ہمارے کیمپ کے پیچھے ایک کاکڑ مسلسل نصف گھنٹے تک بولتا رہا۔
میرے ساتھیوں کے ذمے بھینسوں کو باندھنے کا کام لگ گیا تھا جو اب تک ایبٹسن کے ساتھی ہی کرتے آئے تھے۔ اگلی صبح جب وہ بھینسے واپس لانے گئے تو میں ان کے ساتھ تھا۔ اگرچہ ہم کئی میل چلے تاہم ہمیں کہیں بھی شیرنی کا نشان نہ ملا۔ ناشتے کے بعد میں نے بنسی اٹھائی اور دریا کے سنگم کو چل دیا۔ اس دن میں نے اپنی زندگی بھر میں مچھلی کا بہترین شکار کیا۔ اس جگہ بڑی مچھلیاں بے شمار تھیں اور میری بنسی بہت مرتبہ ٹوٹی تاہم میں نے اتنی مچھلیاں شکار کر لیں جو پورے کیمپ کے لئے کافی تھیں۔
ایک بار پھر گذشتہ شام کی مانند میں نے لدھیا کو عبور کیا تاکہ راستے پر جھکی ہوئی چٹان پر لیٹ کر شیرنی کو دریا عبور کرتے ہوئے دیکھ سکوں۔ جونہی میں دریا عبور کر کے پانی کے شور سے دور ہوا تو میں نے بائیں جانب پہاڑی سے سانبھر اور بندر کے بولنے کی آوازیں سنیں۔ جونہی میں اس چٹان کے قریب پہنچا تو میں نے شیرنی کے تازہ پگ دیکھے۔ ان پر چلتا ہوا میں جب دریا کی جانب گیا تو دیکھا کہ جن پتھروں پر شیرنی چل کر آئی تھی، وہ ابھی تک گیلے تھے۔ کیمپ میں چند منٹ زیادہ رک کر ڈوری کو خشک کرنے اور چائے کا کپ پینے کے سبب ایک آدمی کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا اور کئی ہزار افراد کے لئے کئی ہفتوں تک اضافی پریشانیاں، میرے لئے کئی دن کی اضافی تکلیف اس پر مستزاد تھیں۔ اگرچہ میں مزید تین دن رکا تاہم شیرنی کو ہلاک کرنے کا دوسرا موقع نہیں مل سکا۔
۷ تاریخ کی صبح کو جب میں کیمپ کو ختم کر کے اور تنک پور کو بیس میل کے پیدل سفر کو تیار ہو رہا تھا تو آس پاس کے تمام دیہاتوں سے بے شمار افراد جمع ہو کر میرے پاس آئے اور درخواست کی کہ میں انہیں شیرنی کے رحم و کرم پر چھوڑ کر نہ جاؤں۔ انہیں ہرممکن احتیاط کا بتا کر میں نے وعدہ کیا جتنا جلد ممکن ہوا، واپس لوٹوں گا۔
اگلی صبح میں نے تنک پور سے ٹرین پکڑی اور ۹ نومبر کو نینی تال واپس پہنچا۔ اس بار میں تقریباً ایک ماہ گھر سے دور رہا تھا۔

(۳)
۷ نومبر کو میں سیم سے چلا تھا اور ۱۲ کو شیرنی نے ٹھاک میں ایک بندہ ہلاک کیا۔ اس ہلاکت کی خبر مجھے ہلدوانی کے ڈویژنل فارسٹ آفیسر سے اس وقت ملی جب ہم لوگ اپنے سرمائی گھر کو منتقل ہو چکے تھے۔ ہر ممکن تیزی سے چلتے ہوئے ہم ۲۴ تاریخ کو سورج نکلنے کے کچھ دیر بعد چکہ پہنچے۔
میرا ارادہ تھا کہ چکہ میں ناشتہ کر کے ٹھاک کو اپنا روانہ ہو جاؤں اور اسے اپنا مستقر بناؤں تاہم ٹھاک کے نمبردار نے جو کہ خود بھی چکہ منتقل ہو چکا تھا، بتایا کہ ۱۲ تاریخ والی ہلاکت کے بعد ٹھاک سے تمام مرد و عورتیں نکل چکے ہیں۔ اس نے مزید بتایا کہ اگر میں ٹھاک میں رکنے کا ارادہ رکھتا ہوں تو شاید میں اپنا تحفظ تو کر سکوں لیکن اپنے ساتھیوں کی جان بچانا میرے لئے ممکن نہیں ہوگا۔ اس کے دلائل میں کافی وزن تھا۔ جتنی دیر میں میرے ساتھی وہاں پہنچتے، نمبردار کی مدد سے میں نے چکہ میں کیمپ لگانے کے لئے جگہ چن لی۔ یہاں میں میرے ساتھی شیرنی سے محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ ان ہزاروں افراد سے کچھ الگ تھلگ رہ سکتے جو جنگلات کی کٹائی کے لئے پہنچ رہے تھے۔
ڈویژنل فارسٹ آفیسر کا تار ملتے ہی میں نے تنک پور کے تحصیل دار کو تار بھیج دیا تھا کہ وہ میرے لئے تین کم عمر نر بھینسے چکہ بھیج دے۔ اس نے میری درخواست پر فوری طور پر عمل کیا اور پچھلے دن شام کو تین بھینسے چکہ پہنچ چکے تھے۔
ناشتے کے بعد میں نے ایک بھینسا منتخب کیا اور اسے ساتھ لے کر ٹھاک کو چل دیا۔ میرا ارادہ تھا کہ اس بھینسے کو اس جگہ باندھوں جہاں ۱۲ تاریخ کو شیرنی نے آخری انسانی شکار کیا تھا۔ نمبردار نے مجھے اس دن کے واقعے کے بارے بہت تفصیل سے بتایا تھا بلکہ اس دن وہ خود شیرنی کا لقمہ بنتے بنتے بچا تھا۔ بظاہر دوپہر کے لگ بھگ نمبردار اپنی ۱۰ سالہ پوتی کے ہمراہ گھر سے ۶۰ گز دور کھیت میں ادرک اکھاڑنے گیا تھا۔ یہ کھیت نصف ایکڑ رقبے کا تھا اور اس کے تین اطراف میں گھنا جنگل پھیلا ہوا تھا۔ چونکہ یہ کھیت ڈھلوان پہاڑی پر واقع تھا، اس لئے گھر سے کھیت کو دیکھا جا سکتا تھا۔ جب نمبردار اور اس کی پوتی کو ادرکیں اکھاڑتے ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ اس کی بیوی جو کہ چاول چھٹک رہی تھی، نے چلا کر نمبردار کو خبردار کیا کہ کیا وہ بہرہ ہو گیا ہے؟ کیا اسے تیتروں اور دیگر پرندوں کی آوازیں نہیں سنائی دے رہیں جو اس کے بالکل پیچھے جنگل میں شور و غل مچا رہے ہیں؟ خوش قسمتی نے اس نے فوراً ہی درانتی پھینکی اور پوتی کا ہاتھ پکڑ کر گھر کی طرف بھاگا۔ اس کی بیوی نے اسے خبردار کیا کہ کھیت کے دوسرے کنارے کی جھاڑیوں میں اسے سرخ رنگ کا کوئی جانور دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے نصف گھنٹے بعد شیرنی نے نمبردار کے گھر سے ۳۰۰ گز دور ایک شخص کو ہلاک کیا جو اس وقت درخت سے شاخیں کاٹ رہا تھا۔
نمبردار کی بیان کردہ تفصیل سے مجھے اس درخت کو تلاش کرنے میں کوئی دقت نہ ہوئی۔ یہ ایک چھوٹا سا درخت تھا جو دو کھیتوں کے درمیان واقع تین فٹ بلند منڈیر پر اگا ہوا تھا۔ ہر سال اس درخت سے مویشیوں کے چارے کے لئے شاخیں کاٹی جاتی تھیں۔ وہ آدمی اس وقت تنے پر کھڑا ایک شاخ پکڑے دوسری کو کاٹ رہا تھا کہ شیرنی نے عقب سے حملہ کیا۔ شیرنی اس آدمی کو گھسیٹ کر ہلاک کیا اور پھر کھیتوں کے کنارے موجود گھنی جھاڑیوں میں گھس گئی۔
ٹھاک کا گاؤں چاند راجاؤں کا عطا کردہ تحفہ تھا۔ چاند راجا سینکڑوں سالوں سے گورکھوں سے قبل کماؤں پر حکومت کرتے آئے تھے۔ انہوں نے ٹھاک کے موجودہ باشندوں کے آباؤ اجداد کو پناگری کے مندروں میں ان کی خدمات کے عوض یہ زمین تحفہ دی تھی۔ (چاند راجاؤں نے ٹھاک اور اس سے ملحقہ دو دیہاتوں کو ہمیشہ کے لئے خراج سے مستثنٰی قرار دے دیا تھا۔ اس وعدے کی پاسداری انگریز حکمرانوں نے ایک سو سال تک کی۔) گھاس پھونس سے بنے چند جھونپڑوں نے وقت کے ساتھ ساتھ علاقے کے انتہائی متمول آبادی کا درجہ اختیار کر لیا جہاں سلیٹ کی چھتوں والی پختہ عمارات نے لے لی تھی۔ نہ صرف یہاں کی زمین انتہائی زرخیز تھی بلکہ مندروں سے بھی بے پناہ چڑھاوے آتے تھے۔
کماؤں کے دیگر دیہاتوں کی مانند ٹھاک بھی ان سینکڑوں سالوں میں کئی بار اجڑا تاہم جیسا اجاڑ اب آیا تھا، ویسا اجاڑ پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ پچھلی بار جب میں یہاں آیا تھا تو یہ جگہ ایک طرح سے صنعتی مرکز تھی۔ تاہم اب جب میں بھینسا یہاں باندھنے آیا تو اس دوپہر پورے گاؤں پر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ پورے گاؤں کے سو سے زیادہ رہائشی اپنے مال مویشیوں کے ہمراہ یہاں سے جا چکے تھے۔ پورے دیہات میں مجھے صرف ایک بلی دکھائی دی جو میری آمد سے کافی خوش دکھائی دے رہی تھی۔ آبادی کا انخلاء درحقیقت اتنی عجلت میں ہوا تھا کہ گھروں کے دروازے تک کھلے ہوئے تھے۔ صحنوں اور گلیوں میں ہر جگہ مٹی پر مجھے شیرنی کے پگ دکھائی دیئے۔ ہر کھلا دروازہ ایک خطرہ تھا جس کے پیچھے شیرنی کی صورت میں موت چھپی ہو سکتی تھی۔
گاؤں سے ۳۰ گز اوپر مویشیوں کے لئے چھپر بنے ہوئے تھے۔ ان چھپروں کے آس پاس میں نے اتنے تیتر، فیزنٹ، بلبل، جنگلی مرغیاں اور دیگر پرندے دیکھے جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ جس اعتماد کے ساتھ ان پرندوں نے مجھے اپنے درمیان سے گذرنے دیا وہ اس بات کا مظہر تھا کہ ٹھاک کے باشندے اپنے مذہبی رحجان کے باعث کسی کی جان لینے سے احتراز کرتے تھے۔
ان چھپروں کے اوپر موجود کھیتوں سے پورے گاؤں کا طائرانہ منظر دکھائی دیتا تھا۔ یہاں سے نمبردار کی بتائی ہوئی تفصیل سے وہ درخت تلاش کرنا مشکل نہ تھا جہاں شیرنی نے آخری انسانی شکار کیا تھا۔ درخت کے نیچے نرم مٹی پر شیرنی اور اس کے شکار کے درمیان ہونے والی جدوجہد کے آثار ابھی تک موجود تھے۔ یہاں جمے ہوئے خون کے چند خشک لوتھڑے بھی دکھائی دیئے۔ یہاں سے شیرنی اسے اٹھا کر تازہ ہل چلے ۱۰۰ گز کھیت سے ہوتی ہوئی کنارے والی جھاڑیوں میں لے گئی۔ گاؤں سے لے کر درخت تک قدموں کے نشانات سے ظاہر ہوتا تھا کہ پوری آبادی یہاں تک آئی تھی۔ لیکن درخت سے آگے صرف شیرنی کے نشانات تھے جہاں وہ اپنے شکار کو لے کر گئی تھی۔ اس آدمی کی لاش کو تلاش کرنے اور واپس لانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی تھی۔
اس درخت کے نیچے کچھ مٹی کھود کر میں نے درخت کی ایک جڑ نکالی اور بھینسا باندھ دیا اور پاس موجود بھوسے کے ڈھیر سے اس کے سامنے ڈھیر سارا چارہ ڈال دیا۔
گاؤں پہاڑی کے شمالی سرے پر تھا اور اب یہاں چھاؤں آ چکی تھی۔ اگر میں ابھی روانہ ہو جاتا تو اندھیرا ہونے سے قبل کیمپ پہنچ جاتا۔ کھلے دروازوں سے بچتے ہوئے اور گاؤں کے کنارے سے چکر کاٹ کر میں گاؤں کے نیچے راستے پر پہنچا۔
گاؤں سے نکل کر یہ راستہ آم کے ایک بہت بڑے درخت کے نیچے سے گذرتا تھا۔ اس درخت کی جڑوں سے ٹھنڈے اور شفاف پانی کا ایک چشمہ پھوٹتا تھا۔ آگے جا کر یہ چشمہ پتھر کی سلیب سے گذرتا ہوا ایک گڑھے میں گرتا تھا۔ یہاں سے پانی گڑھے کے کناروں سے نکل کر آس پاس کی زمین کو گیلا کرتا تھا۔ آتے وقت میں نے یہاں سے پانی پیا تھا اور اس کیچڑ میں میرے قدموں کے نشانات بن گئے تھے۔ واپسی پر میں دوبارہ پانی پینے رکا تو دیکھا کہ شیرنی کے پگ میرے قدموں کے نشانات کے اوپر لگے ہوئے تھے۔ اپنی پیاس بجھانے کے بعد شیرنی نے عام راستہ چھوڑ کر ایک ڈھلوان کنارے پر چھلانگ لگائی تھی۔ اس جگہ کانٹے دار جھاڑیاں بکثرت تھیں۔ یہاں سے ہو کر شیرنی گاؤں پہنچی اور شاید کسی گھر میں چھپی مجھے دیکھتی رہی جب میں بھینسا باندھ رہا تھا۔ شاید اسے امید ہو کہ میں عام راستے سے واپس لوٹوں گا۔ شکر ہے کہ میں نے کھلے دروازوں کے سامنے سے دوبارہ گذرنے کے خطرے کا بروقت احساس کر لیا اور لمبا راستہ اختیار کر کے اپنی جان بچا لی۔
چکہ واپس لوٹتے وقت میں نے ہر ممکن احتیاط اختیار کی تھی اور اچھا ہی ہوا کہ میں پوری طرح محتاط رہا۔ اب واپس ٹھاک جاتے ہوئے میں نے دیکھا کہ شیرنی نے میرا تعاقب ٹھاک سے لے کر چکہ کی مزروعہ زمین تک کیا تھا۔
میرے ساتھ جو روشنی کا انتظام تھا، اس کے ساتھ کچھ پڑھنا ممکن نہیں تھا۔ اس لئے رات کا کھانا کھا کر میں آگ کے پاس بیٹھ گیا۔ اس کی حرارت بہت اچھی لگ رہی تھی اور ساتھ ہی حفاظت کا احساس بھی ہو رہا تھا۔ میں نے ساری صورتحال کا جائزہ لیا اور منصوبے بنایا کہ شیرنی کو کیسے ہلاک کیا جائے۔
۲۲ تاریخ کو گھر سے نکلتے وقت میں نے وعدہ کیا تھا کہ میں دس دن میں واپس لوٹ جاؤں گا اور یہ بھی کہ آدم خور شیروں کے تعاقب کے سلسلے میں یہ میری آخری مہم ہوگی۔ سالہا سال تک آدم خور شیروں کے تعاقب اور گھر سے میری غیر حاضری بالخصوص چوگڑھ کی شیرنیوں اور ردر پریاگ کے آدم خور تیندوے کے تعاقب میں گذرے مہینوں نے جتنا برا اثر میرے گھر والوں پر ڈالا تھا اس سے کہیں زیادہ میں متائثر ہوا تھا۔ اگر اب میں ۳۰ نومبر تک شیرنی کو ہلاک نہ کر سکا تو میں واپس چلا جاؤں گا اور کسی اور کو میری جگہ لینی ہوگی۔
اب ۲۴ تاریخ کی رات تھی اور میرے پاس پورے چھ دن باقی تھے۔ شیرنی کے رویے سے ظاہر تھا کہ وہ اس وقت شکار کے لئے بے چین ہو رہی ہے اور ان چھ دنوں میں میرے لئے مشکل نہ تھا کہ شیرنی کو پا لیتا۔ اس سلسلے میں میرے پاس بہت ساری طریقے تھے اور ہر طریقہ باری باری استعمال ہو سکتا تھا۔ پہاڑی علاقوں میں شیر کے شکار کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ شیرکے مارے ہوئے جانور پر مچان پر بیٹھا جائے۔ اگر شیرنی نے ٹھاک والے بھینسے کو نہ مارا تو میں ہر رات بقیہ دو بھینسے ان جگہوں پر باندھنے کا منصوبہ بنا چکا تھا جو میں نے اس مقصد کے لئے پہلے سے ہی منتخب کی ہوئی تھیں۔ مجھے امید تھی کہ پہلے کی طرح جب شیرنی انسانی شکار نہ کر پائے گی تو بھینسے پر توجہ لازمی دے گی۔ اپریل میں جب ایبٹسن اور میں شیرنی کا پیچھا کر رہے تھے تو شیرنی نے ایسے ہی کیا تھا۔ آگ میں اتنی لکڑیاں ڈالنے کے بعد جو کہ پوری رات جلتی رہیں، میں خیمے کے پیچھے کاکڑ کے بھونکنے کی آواز سنتے سنتے سو گیا۔
ابھی ناشتہ تیار ہو ہی رہا تھا کہ میں نے رائفل اٹھائی اور دریا کے دائیں کنارے کی نرم ریت پر شیرنی کے پگ تلاش کرنے نکل گیا۔ یہ جگہ چکہ اور سیم کے درمیان واقع ہے۔ مزروعہ زمین سے نکل کر راستہ کچھ فاصلے تک چھدرے جنگل سے گذرتا ہے اور یہاں مجھے ایک نر تیندوے پگ دکھائی دیئے۔ شاید اسی تیندوے کو دیکھ کر کاکڑ رات بھونکتا رہا تھا۔ پچھلے ہفتے کے دوران ایک چھوٹے نر شیر نے لدھیا کو بار بار عبور کیا تھا۔ میری آمد سے ذرا قبل ایک بڑا ریچھ بھی یہاں سے گذرا تھا۔ جب میں کیمپ واپس پہنچا تو ٹھیکداروں نے میرا استقبال کیا اور بتایا کہ آج کام کی تقسیم کے دوران ایک بڑا ریچھ دکھائی دیا جس نے بہت جارحانہ انداز اخیتار کیا۔ نتیجتاً مزدوروں نے اس علاقے میں کام کرنے سے یکسر انکار کر دیا جہاں ریچھ دکھائی دیا تھا۔
کئی ہزار مزدور جو ٹھیکداروں کے مطابق ۵۰۰۰ سے زیادہ تھے، اب چکہ اور کمایا چک کے درمیان جمع ہو گئے تھے تاکہ جنگل کو کاٹ کر اس کی لکڑی کو نیچے بننےو الی نئی سڑک تک پہنچائیں۔ سارا وقت جب یہ افراد کام کرتے تھے تو ساتھ ہی ساتھ پوری طاقت سے شور و غل کرتے رہتے تھے تاکہ حوصلے بلند رہیں۔ وادی میں کلہاڑوں اور آریوں کا شور، بڑے درختوں کا ڈھلوان پر گرنا، وزنی ہتھوڑوں سے پتھروں کا توڑا جانا اور ان ہزاروں افراد کا شور و غل کیسا محسوس ہوتا ہوگا، یہ آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں جب افراد گھبرائے ہوئے ہوں تو فطری بات ہے کہ پتہ بھی کھڑکے تو وہ بھڑک جاتے تھے۔ اگلے چند روز میں اسی طرح کے مسائل سے دوچار ہو کر وقت ضائع کرتا رہا۔ کئی بار لوگوں نے بتایا کہ شیرنی ان کے کسی ساتھی کو ہلاک کر گئی ہے۔ تاہم تحقیق پر یہ خبر غلط نکلتی۔ یہ سارا علاقہ لدھیا کی وادی، سردا، کالا ڈھنگا سے لے کر کھائی تک تقریباً پچاس مربع میل بنتا تھا۔ اس علاقے میں ۱۰۰۰۰ مزید افراد بھی کام کر رہے تھے۔
کس طرح ایک جانور نے اتنے بڑی تعداد میں نہ صرف مزدوروں بلکہ علاقے کے رہنے والے عام افراد کو متائثر کیا ہوا تھا۔ ان عام افراد میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو مزدروں کے لئے کھانا لاتے، پہاڑی پھل اور میوے جیسا کہ سنگترے (بارہ آنے کے سو عدد)، اخروٹ اور مرچیں تنک پور لے جاتے تھے۔ اگر اس کا باقاعدہ سرکاری اندراج نہ ہوتا تو یہ یقین کرنا دشوار ہو جاتا کہ یہ شیرنی ساؤ کے آدم خوروں کے برابر دہشت پھیلائے ہوئے تھی۔ ساؤ کے دو نر آدم خور شیروں نے یوگنڈا کی ریلوے لائن کی تعمیر کو لمبے عرصوں تک روکے رکھی۔
اب کہانی کی طرف واپس آتے ہیں۔ ۲۵ کی صبح کو ناشتے کے بعد میں نے دوسرا بھینسا لیا اور تھاک کو چل پڑا۔ چکہ کی مزروعہ زمین سے نکل کر راستہ پہاڑی کے دامن سے ہوتا ہوا نصف میل بعد دو شاخوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ ایک شاخ سیدھا پہاڑی پر چڑھتی ہوئی ٹھاک کو جاتی تھی اور دوسری شاخ دامن سے ہوئی نصف میل بعد کمایا چک اور کوٹ کنڈری کو جاتی تھی۔
اس دو شاخے پر میں نے شیرنی کے پگ دیکھے جو ان کا پیچھا کرتے ہوئے ٹھاک تک پہنچا۔ گذشتہ رات جب وہ میرے پیچھے آئی تھی تو یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اس نے بھینسا ہلاک نہیں کیا۔ اگرچہ یہ حقیقت بہت دل شکن تھی تاہم شیروں کے سلسلے میں ایسی اچھنبھے کی بات نہیں۔ بعض اوقات شیر گارے کا چکر کئی راتوں تک لگاتے رہتے ہیں پھر جا کر اسے ہلاک کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیر صرف اس وقت شکار کرتا ہے جب اسے واقعی بھوک لگی ہو۔
دوسرے بھینسے کو آم کے درخت کے نیچے باندھا۔ اس جگہ کافی سبز گھاس موجود تھی۔ پھر میں نے گھروں کے گرد چکر لگایا اور دیکھا کا پہلا بھینسا رت جگے اور پھر پیٹ بھرنے کے بعد اب سو رہا تھا۔ پگوں سے پتہ چلا کہ شیرنی گاؤں کی جانب سے آئی اور بھینسے سے چند فٹ کے فاصلے پر رکی۔ پھر الٹے قدموں واپس ہو گئی۔ بھینسے کو کھول کر میں چشمے کے پاس لایا تاکہ ایک یا دو گھنٹے تک وہ گھاس چرے اور پانی بھی پی لے۔ اس کے بعد میں نے اسے واپس لے جا کر وہیں باندھ دیا۔
دوسرا بھینسا میں نے آم کے درخت سے پچاس گز دور اس جگہ باندھا جہاں بین کرتی ہوئی عورت اور دیہاتی ہمیں ملے تھے اور جہاں سے ایبٹسن اور میں شیرنی کے اس انسانی شکار کو تلاش کرنے گئے تھے۔ یہاں چند فٹ گہری نالی راستے سے گذرتی ہے۔ اس نالی کے ایک کنارے پر خشک درخت جبکہ دوسرے پر بادام کا درخت تھا جہاں مچان باندھی جا سکتی تھی۔ دوسرا بھینسا میں نے اسی جگہ باندھا اور اس کے سامنے اتنا بھوسہ ڈال دیا جو کئی دن کے لئے کافی ہوتا۔ اب چونکہ ٹھاک میں میرا کام ختم ہو گیا تھا، میں کیمپ کو لوٹا اور تیسرا بھینسا لے کر لدھیا کو عبور کیا اور اس کو سیم کے پیچھے اس کھائی میں باندھ دیا جہاں اپریل میں شیرنی نے ہمارے ایک بھینسے کو ہلاک کیا تھا۔
میری درخواست پر تنک پور کے تحصیلدار نے تین فربہہ ترین کم عمر اور نر بھینسے منتخب کئے تھے۔ اب یہ تینوں بھینسے ان جگہوں پر بندھے تھے جہاں سے شیرنی عموماً گذرتی تھی۔ ۲۶ کی صبح کو جب میں ان بھینسوں کو دیکھنے نکلا تو مجھے یقین تھا کہ شیرنی نے ایک بھینسا لازماً ہلاک کیا ہوگا اور مجھے اس طرح شیرنی پر گولی چلانے کا موقع مل جائے گا۔ سب سے پہلے میں نے سیم کے عقب والے بھینسے سے شروع کیا اور باری باری سب کو زندہ پایا۔ گذشتہ روز کی طرح آج بھی شیرنی کے پگ ٹھاک جانے والے راستے پر دکھائی دیئے تاہم اس بار دو مختلف پگ تھے۔ ایک بار آنے کے اور ایک بار جانے کے۔ دونوں بار ہی شیرنی راستے سے ہوتے ہوئے بادام کے درخت کے نزدیک والے بھینسے سے چند فٹ کے فاصلے سے گذری۔
جب میں چکہ پہنچا تو ٹھاک کے دیہاتیوں کا ایک گروہ نمبردار کے ساتھ میرے خیمے کے پاس موجود تھا۔ انہوں نے درخواست کی کہ میں ان کے ساتھ ٹھاک تک چلوں تاکہ وہ اپنے لئے خوراک وغیرہ لے سکیں۔ دوپہر کے وقت میں نمبردار اور اس کے مزارعوں کے ساتھ نکلا ۔ ہمارے ساتھ میرے چار ساتھی بھی تھے جنہوں نے میری مچان کے لئے رسیاں اور میری خوراک اٹھائی ہوئی تھی۔ جتنی دیر یہ لوگ اپنا سامان وغیرہ اکٹھا کرتے رہے، میں رائفل لئے نگران رہا۔
دونوں بھینسوں کو پانی پلانے کے بعد میں نے دوسرا بھینسا اسی جگہ دوبارہ باندھا اور پہلے بھینسے کو نصف میل نیچے لے جا کر راستے کے کنارے باندھ دیا۔ ہمراہیوں کو چکہ واپس پہنچا کر میں دوبارہ واپس آیا اور جتنی دیر میں میرے ساتھی مچان باندھتے، میں نے تھوڑا بہت کھانا کھایا۔
بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ شیرنی کو میرے بھینسوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ تین دنوں میں ٹھاک کے راستے پر شیرنی کے پانچ مرتبہ پگ دکھائی دیئے تھے۔ اس لئے میں نے سوچا کہ اس راستے پر بیٹھ کر شیرنی کی آمد کا انتظار کروں۔ شاید مجھے اس پر گولی چلانے کا موقع مل جائے۔ شیرنی کی آمد کو جاننے کے لئے میں نے ایک بکری باندھی جس کے گلے میں گھنٹی لٹکی ہوئی تھی۔ ۴ بجے میں درخت پر چڑھا۔ اپنے ساتھیوں کو میں نے کہہ دیا کہ وہ اب صبح ۸ بجے ہی آئیں۔ اس طرح رت جگا شروع ہو گیا۔
سورج ڈوبتے ہی سرد ہوا چلنے لگی اور ابھی میں اپنا کوٹ پہن ہی رہا تھا کہ ایک جانب کی رسیاں پھسل گئیں۔ میری نشست انتہائی تکلیف دہ ہو گئی۔ گھنٹے بعد طوفان آیا اور اگرچہ زیادہ دیر تک بارش نہیں ہوئی، پھر بھی میں پوری طرح بھیگ گیا۔ اس طرح میری بے آرامی مزید تکلیف دہ ہو گئی۔ ان ۱۶ گھنٹوں میں میں نے نہ تو کچھ دیکھا اور نہ ہی کچھ سنا۔ میرے آدمی ۸ بجے واپس آئے۔ میں کیمپ واپس لوٹا اور گرم غسل اور ناشتے کے بعد پھر ۶ ساتھیوں کے ہمراہ ٹھاک کو چل پڑا۔
رات کی بارش سے راستے پر موجود تمام پرانے پگ دھل گئے تھے۔ جہاں میں رات بیٹھا تھا، اس سے ۲۰۰ گز اوپر کی جانب شیرنی کے تازہ پگ دکھائی دئیے۔ یہاں شیرنی جنگل سے نکل کر ٹھاک کے راستے پر آئی۔ انتہائی محتاط انداز میں میں پہلے بھینسے تک پہنچا تاہم وہ سو رہا تھا۔ شیرنی اس کے پاس سے راستہ چھوڑ کر گذری تھی اور چند گز آگے دوبارہ راستے پر آ گئی۔ ان پگوں کا پیچھا کرتے کرتے میں دوسرے بھینسے تک پہنچا۔ جونہی میں نزدیک پہنچا تو دیکھا کہ دو نیل کنٹھ زمین سے اڑے اور شور مچاتے دامن کی جانب اڑ گئے۔
ان پرندوں کی موجودگی سے مجھے یقین ہوا کہ: الف) بھینسا مر چکا ہے، ب) اسے شیرنی نے وہیں جزوی طور پر کھایا ہے، تاہم وہیں چھوڑ گئی ہے، ج) شیرنی نزدیک موجود نہیں۔
اس جگہ پہنچ کر میں نے دیکھا کہ شیرنی نے بھینسے کو گھسیٹ کر راستے سے اتار دیا تھا اور جزوی طور پر کھایا بھی تھا۔ معائینہ کرنے پر پتہ چلا کہ اسے شیرنی نے نہیں مارا۔ شاید کسی سانپ کے ڈسنے سے مرا ہو۔ یہاں کنگ کوبرا بکثرت تھے۔ جب شیرنی نے اسے راستے پر مرا ہوا دیکھا تو اسے کھایا اور پھر اٹھا لے جانے کی کوشش کی۔ تاہم جب رسی نہ ٹوٹی تو شیرنی نے اسے گھاس پھونس سے کچھ ڈھکا اور پھر ٹھاک کو چل دی۔
عام طور پر شیر مردار نہیں کھاتے تاہم بعض اوقات دوسروں کے مارے ہوئے جانور کو کھا لیتے ہیں۔ مثلاً ایک بار میں نے ایک تیندوا شکار کیا اور اس کی کھال اتار کر لاش کو کھلی زمین پر چھوڑ گیا۔ اگلی صبح میں جب اپنا گمشدہ چاقو تلاش کرنے آیا تو دیکھا کہ شیر نے لاش کو ۱۰۰ گز دور لے جا کر اس کا دو تہائی حصہ کھا لیا تھا۔
چکہ سے آتے ہوئے میں نے مچان اتار لی تھی۔ چونکہ بادام کا درخت ابھی کم عمر تھا، اس پر مچان باندھنا ممکن نہیں تھی۔ دو آدمی اس پر میرے لئے ہلکی پھلکی نشت بنانے لگے اور بقیہ چار افراد چشمے سے پانی لا کر میرے لئے چائے بنانے لگے۔ ۴ بجے بسکٹ اور چائے سے پیٹ بھرنے کے بعد میں نے اپنے آدمیوں کو واپس کیمپ بھیج دیا۔ انہوں نے درخواست کی کہ میں انہیں ٹھاک میں ہی کسی گھر میں رکنے کی اجازت دوں لیکن میں نے سختی سے انکار کیا۔ ٹھاک میں رکنے کی نسبت کیمپ واپس جانے میں کہیں کم خطرہ تھا۔
اس بار میری نشست کئی رسیوں پر مشتمل تھی جو دو سیدھی شاخوں پر باندھی گئی تھیں۔ دو رسیاں نیچے بھی موجود تھیں جہاں میں اپنے پیر رکھ سکتا۔ جب میں آرام سے بیٹھ گیا تو میں نے سامنے والی شاخیں رسی کی مدد سے اس طرح باندھیں کہ دیکھنے اور گولی چلانے کے لئے ایک چھوٹا سا سوراخ باقی بچ گیا۔ جلد ہی اس کا امتحان بھی ہو گیا کہ میری نشست کتنی "خفیہ" ہے۔ آدمیوں کے جاتے ہی دونوں نیل کنٹھ واپس لوٹ آئے اور تھوڑی ہی دیر میں وہاں ۹ نیل کنٹھ جمع ہو گئے اور اندھیرا چھانے تک پیٹ بھرتے رہے۔ ان پرندوں کی موجودگی کی وجہ سے مجھے کچھ دیر سونے کا موقع مل گیا۔ اگر شیرنی اس دوران آتی تو ان پرندوں کے شور سے میں جاگ جاتا۔ تاہم ان کے جاتے ہی میرا رت جگا شروع ہو گیا۔
ابھی اتنی روشنی باقی تھی کہ میں گولی چلا سکتا کہ میری عقبی جانب سے نیپال کی پہاڑیوں سے ۱۳ویں کا چاند نمودار ہوا اور پوری وادی میں اس کی روشنی پھیل گئی۔ گذشتہ رات کی بارش سے گرد و غبار اور دھواں وغیرہ دھل گئے تھے اور ابھی چاند نکلے چند ہی منٹ ہوئے ہوں گے کہ روشنی اتنی ہو گئی کہ میں ۴۵۰ گز دور گندم کے کھیت میں چرتی مادہ سانبھر اور اس کے بچے کو بخوبی دیکھ سکتا تھا۔
مردہ بھینسا میرے بالکل سامنے اور بیس گز دور تھا۔ جس راستے سے شیرنی کی آمد متوقع تھی، وہ دو یا تین گز نزدیک تر تھا۔ اگر شیرنی اس راستے سے گذرتی تو اس پر گولی چلانے کا انتہائی آسان موقع ملتا۔ اتنے نزدیک سے نشانے کا خطا جانا ناممکن امر تھا۔ بظاہر ایسی کوئی وجہ نہیں تھی کہ شیرنی نہ آتی۔
چاند نکلے دو گھنٹے ہو گئے تھے اور مادہ سانبھر اور اس کا بچہ چرتے چرتے میرے درخت سے ۵۰ گز دور آ چکے تھے کہ گاؤں کے اوپر سے ایک کاکڑ بھونکنے لگا۔ کاکڑ کو بولتے ہوئے چند ہی منٹ ہوئے ہوں گے اچانک گاؤں کی جانب سے ایک طویل انسانی چیخ سنائی دی۔ یہ چیخ اتنی غیر متوقع تھی کہ میں اپنی نشست پر کھڑا ہوگیا تاکہ درخت سے چھلانگ لگا کر گاؤں کو بھاگوں۔ پہلی سوچ یہی تھی کہ شیرنی میرے کسی ساتھی کو ہلاک کر رہی تھی۔ تاہم فوراً ہی میں نے سوچا کہ میں نے اپنے تمام ساتھیوں کو کیمپ واپس جاتے گنا تھا اور جہاں تک راستہ دکھائی دیتا تھا، وہ اکٹھے ہو کر کیمپ ہی واپس جا رہے تھے۔
یہ چیخ ایسی ہی تھی جیسا کہ کوئی شخص انتہائی تکلیف دہ انداز میں مر رہا ہو۔ میری عقل نے فوراً ہی سوال کیا کہ غیر آباد گاؤں سے ایسی چیخ کیسے آ سکتی ہے؟ یہ چیخ میرے تخیل کی پیداوار نہیں تھی کیونکہ اسے سنتے ہی کاکڑ نے بولنا بند کر دیا تھا اور سانبھر اپنے بچے کے ساتھ فوراً ہی بھاگ گئی تھی۔ دو روز قبل جب دیہاتیوں کے ساتھ میں ٹھاک آیا تو میں نے برسبیل تذکرہ کہا تھا کہ وہ لوگ اپنے سامان کی حفاظت کے سلسلے میں کتنے پراعتماد تھے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، ان کے گھروں کے دروازے تک کھلے ہوئے تھے۔ نمبردار نے فوراً ہی جواب دیا تھا کہ اگر ان کا گاؤں سالوں بھی غیر آباد رہے تو بھی کوئی ان کے سامان کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھے گا۔ وہ لوگ پناگری کے پنڈت ہیں اور کوئی انہیں لوٹنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ مزید برآں جب تک شیرنی زندہ ہے، وہ سو چوکیداروں سے زیادہ ان کے سامان کی حفاظت کرے گی۔ آس پاس کا کوئی بھی بندہ گھنے جنگلوں سے گھری اس بستی میں بغیر معقول حفاظت کے نہیں جا سکتا۔
دوبارہ چیخ نہیں سنائی دی اور بظاہر سب ٹھیک ہی تھا، میں دوبارہ بیٹھ گیا۔ ۱۰ بجے کم عمر گندم کے کھیت میں چرتا ہوا کاکڑ اچانک بھونکتا ہوا بھاگا۔ اس کے ایک منٹ بعد شیرنی دو بار بولی۔ شیرنی گاؤں سے نکل کر اب کہیں جا رہی تھی۔ اگر شیرنی کا پیٹ بھرا ہو اور وہ ابھی بھینسے پر واپس نہ بھی آتی تو بھی اسے اسی راستے سے گذرنا تھا۔ گذشتہ چند دنوں سے شیرنی ہر روز دو بار اسی راستے سے گذرتی تھی۔ رائفل کی لبلبی پر انگلی رکھے اور آنکھوں پر زور دیتے میں گھنٹوں راستے کو تکتا رہا حتٰی کہ چاندنی کی جگہ سورج کی روشنی نے لے لی لیکن شیرنی نہ آئی۔ سورج نکلے گھنٹہ ہو چلا تھا کہ میرے آدمی پہنچ گئے۔ میرے لئے وہ خشک لکڑیوں کا گٹھا ساتھ لائے تھے اور چند ہی منٹوں میں چائے تیار تھی۔ ہوسکتا ہے کہ شیرنی کہیں نزدیک جھاڑی سے ہمیں دیکھ رہی ہو یا پھر ہم سے میلوں دور ہو، کوئی نہیں جانتا تھا۔ دس بجے کے بعد سے جنگل بالکل خاموش تھا۔
جب میں کیمپ واپس لوٹا تو میرے خیمے کے پاس کئی آدمی بیٹھے تھے۔ ان میں کچھ تو یہ جاننے آئے تھے کہ رات کیسی گذری اور کچھ لوگ یہ بتانے آئے تھے کہ شیرنی نصف رات سے سورج طلوع ہونے سے ذرا قبل تک پہاڑی کے دامن میں بولتی رہی تھی۔ جنگل میں موجود مزدور اور سڑک بنانے والے مزدور بھی اب انتہائی خوفزدہ ہو چکے تھے اور کام پر نہیں جانا چاہتے تھے۔ اپنے آدمیوں سے میں شیرنی کے بارے پہلے ہی جان چکا تھا۔ میرے آدمی اور دیگر ہزاروں مزدوروں نے رات جاگ کر گذاری تاکہ الاؤ روشن رکھے جا سکیں۔
خیمے کے پاس موجود افراد میں ٹھاک کا نمبردار بھی شامل تھا۔ جب دیگر افراد چلے گئے تو میں نے اس سے پوچھا کہ ۱۲ تاریخ شیرنی نے جب انسانی شکار کیا تو وہ کیسے بال بال بچا تھا۔
ایک بار پھر سے نمبردار نے مجھے انتہائی باریکی سے بتایا کہ کیسے وہ اپنی پوتی کے ہمراہ اپنے کھیتوں سے ادرک اکھاڑنے گیا تھا اور کس طرح اس نے سنا کہ اس کی بیوی اسے بعجلت بلا رہی تھی کہ وہ اپنے کان کھلے کیوں نہیں رکھتا اور اپنی اور اپنی پوتی کی جان خطرے میں ڈال رہا ہے اور کس طرح وہ بھاگم بھاگ اپنی پوتی کے ہمراہ گھر واپس پہنچا اور اس کے چند ہی منٹ بعد شیرنی نے اس کے گھر کے اوپری جانب کھیت میں درخت سے شاخیں کاٹتا ہوا ایک بندہ ہلاک کیا تھا۔
نمبردار کی کہانی کا یہ حصہ میں پہلے بھی سن چکا تھا اور اب میں نے اس سے پوچھا کہ کیا اس نے شیرنی کو شکار کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا تو اس نے جواب دیا کہ نہیں، اس نے سنا تھا۔ مزید سوالوں کے جواب میں نے بتایا کہ مقتول نے مدد کے لئے نہیں پکارا تھا بلکہ صرف چیخا تھا۔ جب میں نے پوچھا کہ کیا ایک بار چیخ سنائی دی تھی تو اس نے بتایا کہ نہیں، تین بار چیخ سنائی تھی۔ میری درخواست پر اس نے اس چیخ کی نقل کرنے کی کوشش کی۔ یہ چیخ بالکل ویسی ہی تھی جیسی میں نے گذشتہ رات سنی تھی تاہم فرق صرف آواز کا تھا۔
پھر میں نے اسے بتایا کہ رات کو میں نے کیا سنا تھا اور پوچھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ رات کو کئی بندہ اتفاقیہ طور پر ادھر نکل آیا ہو؟ اس کا جواب فوری طور پر منفی میں تھا۔ ٹھاک کو جانے کے دو ہی راستے تھےاور ان راستوں پر بسنے والے دیہاتوں کا بچہ بچہ جانتا تھا کہ ٹھاک اب اجڑ چکا ہے اور کی وجہ بھی جانتا تھا۔ پورے ضلع میں مشہور ہو چکا تھا کہ ٹھاک میں دن کو جانا بھی خطرے سے خالی نہیں کجا کوئی بندہ رات کو آٹھ بجے ادھر کا رخ کرے۔
جب میں نے اس سے پوچھا کہ کیا اس کے ذہن میں ان چیخوں سے متعلق کوئی توجیہہ آتی ہے تو اس نے کہا کہ نہیں۔ میں نے سوچا کہ بہتر ہے کہ میں نے اس رات کچھ نہیں سنا اور نہ ہی کاکڑ نے اور نہ ہی مادہ سانبھر اور اس کے بچے نے کچھ سنا تھا۔

(۴)
جب میرے تمام مہمان بشمول نمبردار چلے گئے اور میں ناشتہ کر رہا تھا کہ میرے ملازم نے بتایا کہ سیم کا نمبردار پچھلی شام کو آیا تھا اور میرے پیغام چھوڑ گیا ہے کہ اس کی بیوی نے اپنے گھر کے پاس گھاس کاٹتے ہوئے خون کی لکیر دیکھی تھی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں اس کی ماں ماری گئی تھی۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ آج صبح دریا کے کنارے وہ میرا انتظار کرے گا۔ ناشتے کے بعد میں اس جانب چل پڑا۔
جب میں دریا عبور کر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ چار آدمی میری طرف بھاگم بھاگ آ رہے ہیں۔ جونہی میں کنارے پر پہنچا تو انہوں نے بتایا کہ وہ سیم کے اوپر والی پہاڑی سے اتر رہے تھے کہ انہوں نے شیر کی آواز سنی ہے۔ یہ آواز چکہ اور ٹھاک کے درمیان موجود پہاڑی کے دامن سے آ رہی تھی۔ انہیں بتا کر کہ میں ابھی سیم جا رہا ہوں اور جلد ہی چکہ واپس لوٹوں گا، آگے بڑھ گیا۔
نمبردار اپنے گھر کے پاس میرا انتظار کر رہا تھا۔ اس کی بیوی مجھے اس جگہ لے گئی جہاں اس نے گذشتہ شام خون کی لکیر دیکھی تھی۔ کھیتوں سے ہو کر یہ لکیر بڑے بڑے پتھروں سے گذری تھی جہاں میں نے کاکڑ کے بال ایک پتھر پر لگے دیکھے۔ آگے چل کر مجھے تیندوے کے پگ دکھائی دیئے۔ ابھی میں انہیں دیکھ ہی رہا تھا کہ میں نے شیر کی آواز سنی۔ انہیں خاموشی سے وہی رکنے کا کہہ کر میں نے شیر کی آواز پر توجہ دی تاکہ اس کے محل وقوع کا اندازہ لگاؤں۔ فوراً ہی میں نے یہ آواز دوبارہ سنی اور دو دو منٹ کے وقفے وقفے سے یہ آواز آتی رہی۔
یہ شیرنی کی آواز تھی اور میرا اندازہ تھا کہ یہ شیرنی اس وقت یہاں سے ۵۰۰ گز دور ٹھاک کے نیچے اور گہری کھائی میں ہے۔ یہ کھائی آم کے درخت سے شروع ہو کر راستے کے متوازی چلتی ہے۔ آگے جا کر جہاں یہ راستہ کمایا چک کے راستے سے ملتا ہے، وہاں یہ کھائی راستے کو کاٹتی گذرتی ہے۔
نمبردار کو یہ بتا کر کہ تیندوے کو ابھی مرنے کی ضرورت نہیں، میں کیمپ کی طرف ہر ممکن تیزی سے چل پڑا۔ راستے میں ان چار افراد کو بھی ساتھ لیتا گیا۔
کیمپ پہنچ کر میں نے دیکھا کہ میرے خیمے کے آس پاس ہجوم جمع ہے جن میں اکثریت دہلی سے آئے ہوئے لکڑہاروں کی ہے۔ تاہم ان میں کلرک، کارندے، چھوٹے ٹھیکے دار، چوکیدار اور گینگ مین بھی شامل تھے۔ یہ سارے افراد میرے قیام کے بارے بات کرنے آئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ بہت مقامی افراد کام چھوڑ کر گھروں کو جا چکے ہیں اور جیسا کہ انہوں نے سنا ہے کہ میں یکم دسمبر کو واپس جا رہا ہوں تو یہ سارے مزدور وغیرہ میرے ساتھ ہی کام چھوڑ کر واپس چلے جائیں گے۔ یہ افراد اتنے ڈرے ہوئے تھے کہ سونا یا کھانا پینا تک چھوٹ چکا تھا۔ ابھی ۲۹ نومبر کی صبح تھی اور میں نے انہیں بتایا کہ ابھی میرے پاس دو دن اور دو راتیں مزید موجود ہیں۔ اس دوران بہت کچھ ممکن ہے۔ تاہم اس کے بعد میرے یہاں مزید رکنا بالکل بھی ممکن نہیں۔
اس وقت تک شیرنی چپ ہو گئی تھی اور جب میرے ملازم میرے لئے کھانے کو کچھ لائے تو اسے کھا کر میں ٹھاک کو چل پڑا۔ میرا ارادہ تھا کہ اگر شیرنی اس دوران بولی تو میں اس کے مقام کا اندازہ لگا کر اس پر گھات لگاؤں گا ارو اگر وہ دوبارہ نہ بولی تو پھر بھینسے کی لاش پر بیٹھوں گا۔ راستے پر میں نے اس کے پگ دیکھے اور وہ جگہ بھی جہاں وہ راستے سے ہٹ کر کھائی میں داخل ہوئی تھی۔ اگرچہ میں جگہ جگہ رکتا رہا تاہم مجھے شیرنی کی آواز دوبارہ نہ سنائی دی۔ سورج غروب ہونے سے ذرا قبل میں نے ہمراہ لائے ہوئے بسکٹ کھا کر چائے پی اور درخت پر چڑھ کر رسیوں سے بنی اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔ چونکہ اس بار نیل کنٹھ غائب تھے، میرے لئے سونا ممکن نہیں تھا۔
اگر شکار کردہ جانور پر شیر پہلی رات نہ لوٹے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ شکار پر کبھی نہیں لوٹے گا۔ ایک بار میں نے ایک ایسے ہی شکار پر شیر کو دسویں دن لوٹتے دیکھا۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دس دن بعد شکار کا گوشت کتنا "تازہ" ہوگا۔ تاہم اس بار یہ شکار شیرنی کا اپنا شکار کردہ جانور نہیں تھا بلکہ اس بھینسے کو مردہ پا کر شیرنی نے اس سے کچھ گوشت کھایا تھا۔ اگر یہ شیرنی آدم خور نہ ہوتی تو مجھے قطعاً یہ رات درخت پر گذارنے کی ضرورت نہ محسوس ہوتی۔ اگرچہ اب سورج ڈوبنے سے سورج نکلنے تک شیرنی کے لوٹنے کے امکانات کم ہی تھے اور میں گذشتہ رات کی نسبت کم وقت اپنی نشست پر بیٹھا تاہم اس بار مجھے بہت زیادہ تکلیف ہوئی۔ رسیاں میرے جسم کو کاٹ رہی تھیں اور چاند نکلنے کے بعد سرد ہوا چلنا شروع ہوئی اور ساری رات چلتی رہی۔ اس ہوا سے میری ہڈیوں کا گودا تک جم گیا۔ اس بار مجھے کسی قسم کی آواز نہ سنائی دی اور نہ ہی مادہ سانبھر اور اس کا بچہ دکھائی دیئے۔ ابھی سورج نکل ہی رہا تھا کہ میں نے کافی فاصلے سے آواز سنی جو شیرنی کی لگ رہی تھی۔ تاہم یہ اندازہ کرنا ممکن نہ تھا کہ یہ آواز کس جانب سے آئی ہے اور آیا کیا یہ واقعی شیرنی کی ہی آواز تھی۔
جب میں کیمپ لوٹا تو میرے ملازم نے میرے لئے چائے اور گرم غسل تیار کر رکھا تھا۔ تاہم قبل اس کے کہ میں غسل کر سکوں، مجھے ان لوگوں سے پیچھا چھڑانا تھا جو گذشتہ رات کے بارے بتانے آئے تھے۔ چاند طلوع ہونے کے فوراً بعد سے ہی شیرنی نے چکہ کے پاس سے بولنا شروع کیا اور دو گھنٹے تک بولنے کے بعد مزدوروں کے کیمپ کی طرف چل دی۔ مزدوروں نے اسے آتے سنا تو شور مچا کر اسے بھگانے کی کوشش کی تاہم اس سے شیرنی کا غصہ مزید بڑھ گیا۔ جب تک یہ مزدور چپ نہ ہوئے، شیرنی کیمپ کے بالکل سامنے شور کرتی رہی۔ اس کے بعد شیرنی چکہ اور مزدوروں کے کیمپ کے درمیان رہی۔ صبح ہونے کے بعد شیرنی ٹھاک کو چل دی۔ ان لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ میں نے شیرنی کو نہیں دیکھا۔
آدم خوروں کے شکار کے سلسلے میں یہ میرا آخری دن تھا۔ اگرچہ مجھے اس وقت نیند اور تھکن نے بے حال کر رکھا تھا تاہم میں نے فیصلہ کیا کہ شیرنی کے تعاقب کی آخری بار کوشش کروں۔
چکہ اور سیم کے لوگ بلکہ آس پاس کے دیہاتوں کے لوگ بشمول تلہ دیس (جہاں کئی سال قبل میں نے تین آدم خور شیر مارےتھے)، نے مجھے مشورہ دیا کہ میں زندہ بکری باندھ کر اس پر مچان باندھ کر بیٹھوں۔ ان کا خیال تھا کہ چونکہ سارے پہاڑی شیر بکریاں کھاتے ہیں اور چونکہ آدم خور شیرنی بھینسے نہیں کھا رہی تو بکری پر قسمت آزمائی میں کیا حرج ہے؟ حقیقتاً کسی کامیابی کی توقع کے بغیر انہیں خوش کرنے کے لئے میں نے ہاں کہہ دی۔ اس مقصد کے لئے میں نے دو بکریاں پہلے سے ہی خریدی ہوئی تھیں۔
مجھےپورا یقین تھا کہ شیرنی رات بھر چاہے جہاں بھی ہو، دن کو وہ آرام کرنے ٹھاک چلی جاتی ہے۔ دوپہر کے وقت میں دونوں بکریوں اور چار آدمیوں کو ساتھ لے کر تھاک کے لئے چل پڑا۔
چکہ سے ٹھاک کا راستہ جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں، ایک انتہائی ڈھلوان پہاڑی سے گذرتا ہے۔ ٹھاک سے چوتھائی میل پہلے یہ راستہ پہاڑی سے ہٹ کر تقریباً مسطح زمین سے گذرتا ہے جو آم کے درخت تک پھیلا ہوا ہے۔ تاہم یہ سارا حصہ گھنی جھاڑ جھنکار سے بھرا ہوا ہے۔ درمیان میں دو تنگ سی کھائیاں بھی اسے عبور کرتی ہیں۔ دونوں کھائیوں کے درمیان اور جہاں میں دو راتیں قبل بیٹھا تھا، سے ۱۰۰ گز دور بادام کا ایک بہت بڑا درخت تھا۔ کیمپ سے نکلتے وقت میرے ذہن میں یہی درخت تھا۔ یہاں راستہ سیدھا درخت سے نیچے سے گذرتا ہے اور میں نے سوچا کہ اگر میں اس درخت پر آدھی بلندی تک چڑھ کر بیٹھ جاؤں تو نہ صرف دونوں بکریوں بلکہ مردہ بھینسے کی لاش کو بھی دیکھ سکوں گا۔ پہلی بکری کو بڑی کھائی اور دوسری کو دائیں جانب کی پہاڑی کے دامن میں باندھا جانا تھا۔ یہ تینوں نقطے میری موجودہ نشست سے کچھ فاصلے پر تھے اس لئے میں اپنے ہمراہ اعشاریہ ۲۷۵ کی رائفل لایا تھا جس کا نشانہ بہترین تھا۔ ساتھ ہی کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے میرے پاس ۴۵۰/۴۰۰ بور کی رائفل بھی تھی۔
اس آخری دن چکہ کی چڑھائی میرے لئے بے حد تھکا دینے والی تھی اور ابھی میں اس جگہ پہنچا ہی تھا جہاں راستہ پہاڑی سے اتر کر مسطح زمین کو جاتا تھا کہ میرے بائیں جانب ڈیڑھ سو گز دور سے شیرنی بولی۔ یہاں زمین پر ہر جگہ گھنی جھاڑیوں اور خود رو پودوں کی بھرمار تھی اور جگہ جگہ بڑے بڑے پتھر بھی موجود تھے۔ آدم خور کے شکار کے لئے یہ جگہ انتہائی ناموزوں تھی۔ تاہم کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل یہ جاننا ضروری تھا کہ آیا شیرنی لیٹی ہوئی ہے کیونکہ ابھی دن کے ۱ بج رہے تھے یا کہ حرکت میں ہے؟ اگر شیرنی چل رہی ہے تو کس جانب جا رہی ہے۔ اپنے ہمراہیوں کو میں نے خاموش ہو کر بیٹھے رہنے کا کہا اور شیرنی کی آواز سننے لگا۔ بظاہر شیرنی کی اگلی آواز پچاس گز مزید دور سے آئی۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے شیرنی ٹھاک کو جانے والی کھائی سے اوپر کو جا رہی ہے۔
میرے حوصلے بلند ہو گئے۔ جو درخت میں نے چنا تھا وہ کھائی سے ۵۰ گز دور تھا۔ ساتھیوں کو ہدایت کرتے ہوئے کہ خاموشی سے میرے پیچھے پیچھے چلے آئیں، میں راستے پر آگے چل پڑا۔ ہمیں مزید ۲۰۰ گز جانا تھا اور ابھی ہم نے نصف فاصلہ ہی طے کیا ہوگا کہ ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں دونوں اطراف گھنی جھاڑیاں تھیں۔ یہاں سے اچانک کالے تیتروں کا جھنڈ شور مچاتا ہوا اڑا۔ فوراً ہی میں گھٹنوں کے بل جھک گیا اور چند منٹ تک اسی طرح جھکا رہا۔ تاہم کچھ تبدیلی نہ ہوئی۔ ہم لوگ احتیاط سے چلتے ہوئے درخت تک پہنچ گئے۔ ہر ممکن خاموشی سے ہم نے بکری کو کھائی کے کنارے جبکہ دوسری کو دائیں جانب کی پہاڑی کے دامن میں باندھ دیا۔ پھر میں اپنے ساتھیوں کو مزروعہ زمین کے کنارے تک لے گیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ لوگ نمبردار کے گھر کے بالائی برآمدے میں رک کر میرا انتظار کریں۔ پھر میں واپس درخت کی جانب دوڑا۔ درخت پر میں تقریباً ۴۰ فٹ چڑھا اور پھر ڈوری کی مدد سے رائفلیں اوپر کھینچ لیں۔ نہ صرف دونوں بکریاں اب مجھے دکھائی دے رہی تھیں بلکہ مردہ بھینسے کا کچھ حصہ بھی مجھے دکھائی دے رہا تھا۔ ایک بکری مجھ سے ۶۰ جبکہ دوسری ۷۰ گز دور تھی۔ چونکہ میرے پاس اعشاریہ ۲۷۵ بور کی رائفل بھی تھی، مجھے پورا یقین تھا کہ اگر شیرنی میرے دائرہ نگاہ میں کہیں بھی دکھائی دی تو اس کی ہلاکت یقینی ہے۔
جب سے یہ دونوں بکریاں خریدی گئی تھیں، دونوں ایک ساتھ رہ رہی تھیں۔ اب دونوں بکریاں ایک دوسرے سے الگ باندھی گئی تھیں تو انہوں نے بہت زور زور سے ایک دوسرے کو بلانا شروع کر دیا۔ عام حالات میں بکری کی آواز ۴۰۰ گز تک سنائی دیتی ہے تاہم اس وقت حالات عام نہیں تھے کیونکہ بکریوں کو پہاڑی کی ایک جانب باندھا گیا تھا اور تیز ہوا چل رہی تھی۔ اگر شیرنی اس جگہ کو چھوڑ بھی چکی ہو جہاں اس کی آخری آواز سنائی دی تھی تب بھی شیرنی انہیں لازماً سنتی۔ اگر شیرنی بھوکی ہوتی، جیسا کہ مجھے پورا یقین تھا، مجھے اس پر گولی چلانے کا بہت عمدہ موقع مل سکتا تھا۔
ابھی مجھے درخت پر بیٹھے ہوئے دس منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ اس جگہ کے پاس سے کاکڑ بولنے لگا جہاں سے کالے تیتر اڑے تھے۔ ایک یا دو منٹ تک تو میری امیدیں آسمان کو چھوتی رہیں تاہم جب کاکڑ صرف تین بار بول کر چپ ہو گیا تو مجھے پتہ چل گیا کاکڑ اور تیتروں نے کسی سانپ کو دیکھا ہے۔
چونکہ میری نشست کافی آرام دہ تھی اور سورج کی روشنی بھی حدت پہنچا رہی تھی، میں اگلے تین گھنٹے تک آرام سے بیٹھا رہا۔ ۴ بجے جب سورج ٹھاک کے پیچھے والے بڑے پہاڑ کی اوٹ ہوا تو اچانک ٹھنڈی ہوا چلنے لگی۔ اگلا ایک گھنٹہ میں نے انتہائی بے آرامی سے گذارا۔ پھر جب سردی سے مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی تو میں نے سوچا کہ اب اگر شیرنی آئی بھی تو اس پر گولی چلانا ممکن نہیں ہوگا۔ ڈوری سے رائفلیں باندھ کر میں نے نیچے اترا اور اپنے آدمیوں کو واپس لانے چل پڑا۔

(۵)
میرا خیال ہے کہ شاید معدودے چند ہی ایسے بندے ہوں گے جو کسی اہم کام کی تکمیل میں ناکامی پر مایوسی کا شکار نہ ہوتے ہوں۔ جب ایک شکاری دن بھر کے شکار کے بعد چکوروں سے بھرا ہوا تھیلا لے کر کیمپ واپس جا رہا ہو اور دوسرا شکاری سارا دن پتھروں سے سر ٹکرانے کے بعد خالی ہاتھ جا رہا ہو تو اس کی ناامیدی کا آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ تاہم یہ محض چکوروں کے شکار کی بات تھی۔ تاہم میری ناکامی صرف ایک دن پر محیط نہ تھی اور نہ ہی میری ناکامی کا اثر صرف مجھ تک محدود رہتا۔ آدمیوں کو واپس لا کر بکریوں کو کھولنے کے بعد جب کیمپ کو واپسی کے دو میل کے سفر پر روانہ ہوئے تو میری مایوسی انتہا پر تھی۔
سفر میں گذرے دنوں کے علاوہ ۲۳ اکتوبر سے لے کر ۷ نومبر تک اور پھر ۲۴ سے ۳۰ نومبر تک میں شیرنی کی تلاش میں سرگرداں رہا تھا۔ آپ میں سے وہ لوگ جو آدم خوروں کے شکار کا تجربہ رکھتے ہیں، بخوبی جانتے ہیں کہ آدم خور کی سلطنت میں اٹھنے والا ہر قدم آخری بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اس خطرے کا اثر مجھ سے زیادہ میرے گھر والوں پر ہوتا رہا تھا۔ اس مہم میں ناکامی بہت مایوس کن تھی۔
دوسرا میرا مقصد آدم خور شیرنی کا شکار تھا اور میری ناکامی سے نہ صرف یہاں موجود مزدوروں کو پریشانی ہوتی بلکہ وہ تمام لوگ بھی متائثر ہوتے جن کے گھر اس علاقے میں تھے۔ پہلے ہی جنگل میں کام مکمل طور پر رک چکا تھا اور ضلعے کے سب سے بڑے دیہات کی آبادی اپنے گھروں کو چھوڑ چکی تھی۔ صورتحال بہت خراب تھی لیکن اگر شیرنی کو نہ مارا گیا تو ہر روز یہ بد سے بدتر ہوتی چلی جائی گی۔ سارے کے سارے مزدور ہمیشہ کے لئے کام چھوڑ کر نہیں رہ سکتے تھے اور نہ ہی آس پاس کے تمام دیہاتوں کے لوگوں کے لئے اپنے گھروں اور اپنی فصلوں کو چھوڑنا ممکن تھا۔
چونکہ شیرنی کے دل سے انسانی خوف دور ہو چکا تھا۔ شیرنی پاس کام کرتے کئی آدمیوں کی موجودگی کے باوجود آم چنتی ایک لڑکی کو اٹھا لے جانا، ایک عورت کو اس کے گھر کی دہلیز پر ہلاک کرنا، گاؤں کے عین وسط میں ایک آدمی کو درخت سے گھیسٹ کر لے جانا اور پچھلی رات ہزاروں آدمیوں کو خاموش کرا دینا اس بات کے بین ثبوت تھے۔ دوسری طرف مجھے پوری طرح علم تھا کہ شیرنی کی موجودگی سے علاقے کے مستقل اور عارضی باشندوں اور یہاں سے گذرنے والے افراد پر کیا بیتے گی۔ کیمپ سے نکلتے وقت میں میں نےسب کو بتا دیا تھا کہ آدم خوروں کے تعاقب میں یہ میرا آخری دن ہے۔ یہ ناکامی زندگی بھر میرے دل میں تازہ رہتی۔ اگر کوئی مجھ سے آدم خوروں کے شکار کی ساری کامیابیاں واپس لے کر مجھے اس شیرنی پر اطمینان سے صرف ایک گولی چلانے کا موقع فراہم کر دیتا تو مجھ سے زیادہ خوش اور کوئی نہ ہوتا۔
میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ اس دوران میں نے شیرنی کی ہلاکت کے لئے کیا کیا جتن کئے۔ تاہم ان کے علاوہ بھی میں نے ہر وہ طریقہ اپنایا جو میں نے آدم خوروں کے تعاقب میں سیکھا تھا۔ ہر بار جب میں کیمپ سے نکل کر ٹھاک کو جاتا اور واپس آتا تو مجھے بخوبی احساس تھا کہ شیرنی مجھے دیکھ رہی ہے۔ تاہم مجھے ایک اطمینان تھا کہ میں نے اپنی سے پوری کوشش کی ہے اور کوئی جتن ایسا نہیں جو میں نے شیرنی کی ہلاکت کے لئے نہ کیا ہو۔

(۶)
جب میرے آدمی میرے ساتھ روانہ ہوئے تو انہوں نے بتایا کہ کاکڑ کے بولنے کے ایک گھنٹے بعد انہوں نے شیرنی کی آواز سنی تاہم وہ سمت کا اندازہ لگانے میں ناکام رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ شیرنی کو میرے بھینسوں اور میری بکریوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ تاہم یہ بات میری سمجھ سے باہر تھی کہ اپنی کمین گاہ کو چھوڑ کر شیرنی اس وقت کہیں اور کیوں چل دی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس نے کوئی ایسی آواز سنی ہو جو میں نہ سن پایا ہوں؟ خیر وجہ جو کچھ بھی ہو، شیرنی یہاں سے جا چکی تھی اور ہم کیمپ کو روانہ ہو گئے۔
جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ ٹھاک سے چوتھائی میل بعد راستہ پہاڑی سے ہوتا ہوا گذرتا ہے اور جب میں واپسی کے سفر پر یہاں پہنچا جہاں راستہ محض چند فٹ چوڑا تھا اور جہاں سے دونوں کھائیوں کا نظارہ ممکن تھا، میں نے بائیں جناب وادی کے سرے سے شیرنی کی آواز دو بار سنی۔میرا اندازہ تھا کہ شیرنی کمایا چک کی بالائی اور بائیں جانب ہے۔ یہ جگہ کوٹ کنڈری سے کی پہاڑی سے چند سو گز اوپر ہے جہاں اس علاقے میں کام کرنے والے مزدوروں نے اپنے لئے گھاس کے چھپر بنائے ہوئے تھے۔
میرے لئے ایک اور موقع پیدا ہو گیا۔ تاہم یہ موقع چاہے جتنا ہی امکانی کیوں نہ ہو، اس آدم خور شیرنی کو مارنے کے سلسلے میں میرا آخری موقع ہوتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ میں اس موقعے سے فائدہ اٹھاؤں یا نہیں۔
جب میں درخت سے نیچے اترا تو میرے پاس ایک گھنٹہ باقی بچا تھا جس میں ہمیں کیمپ واپس پہنچنا تھا۔ آدمیوں کو واپس لانے، ان کی بات سننے، بکریوں کو کھولنے اور پھر واپسی کا سفر، سب مل ملا کر نصف گھنٹہ بنتا تھا۔ سورج کے موجودہ مقام اور نیپال کے پہاڑوں کی چوٹیوں پر بنتے رنگوں سے میں نے اندازہ لگایا کہ ہمارے پاس محض نصف گھنٹہ روشنی باقی ہے۔ یہ وقت یا یوں کہہ لیں کہ یہ روشنی سب سے اہم تھی۔ اگر میں شیرنی کے شکار کے اس آخری موقعے سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں تو ہم پانچ افراد کی جانیں اس نصف گھنٹے سے جڑی ہوئی ہیں۔
شیرنی ہم سے ایک میل دور تھی اور ہمارے درمیان موجود فاصلہ کٹی پھٹی زمین، گھنی جھاڑیوں اور ڈھیروں گہرے نالوں سے اٹا ہوا تھا۔ تاہم اگر شیرنی چاہے تو یہ فاصلہ نصف گھنٹے میں طے ہو سکتا تھا۔ مجھے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کیا میں شیرنی کو اپنی طرف بلاؤں یا نہیں؟ اگر میں شیرنی کو بلاؤں اور وہ میری طرف آئے اور جب وہ یہاں پہنچے تو ابھی روشنی باقی ہو اور میں اس پر گولی چلاؤں تو سب ٹھیک ہے۔ تاہم اگر شیرنی آئے تو سہی پر مجھے اس پر گولی چلانے کا موقع نہ ملا تو ہم میں سے ایک یا شاید کئی افراد کیمپ واپس کبھی بھی نہ پہنچ پاتے۔ یہاں سے کیمپ کا فاصلہ تقریباً دو میل تھا اور سارا کا سارا راستہ گھنے جنگلوں سے ہو کر گذرتا تھا جہاں بعض جگہوں پر بڑے بڑے پتھر بھی موجود تھے۔ اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرنا بے کار تھا کیونکہ یہ سب کے سب پہلی بار جنگل میں کسی مہم پر آئے تھے۔ جو بھی فیصلہ ہو، مجھے ہی کرنا تھا۔
میں نے شیرنی کو بلانے کا فیصلہ کیا۔
ایک ساتھی کو رائفل پکڑاتے ہوئے میں نے انتظار کیا کہ شیرنی کی دوبارہ آواز سنائی دے۔ جب شیرنی دوبارہ بولی تو میں نے ہاتھوں سے بھونپو سا بنایا اور پھیپھڑوں کی پوری طاقت سے میں نے شیر کی آواز نکالی۔ فوراً ہی شیرنی کا جواب آیا۔ کئی منٹ تک ہمارے درمیان آوازوں کا تبادلہ ہوتا رہا۔ شیرنی کو آنا ہی تھا اور درحقیقت وہ ہماری طرف چل پڑی تھی۔ اب اگر شیرنی روشنی ختم ہونے سے قبل پہنچ جاتی تو بازی ہمارے ہاتھ رہتی کیونکہ میرے پاس مناسب جگہ کے انتخاب کے لئے وقت تھا۔ عام طور پر نومبر میں شیروں کے ملاپ کا وقت ہوتا ہے اور بظاہر شیرنی پچھلے دو روز سے نر کی تلاش میں نکلی ہوئی تھی۔ اب چونکہ اس نے نر کی آواز سنی تو مزید وقت ضائع کرنا اس کے لئے ممکن نہ رہا۔
جہاں راستہ پہاڑی سے نیچے اترتا ہے، وہاں سے ۴۰۰ گز دور راستہ ۵۰ گز جتنا فاصلہ مسطح زمین سے گذرتا ہے۔ اس مسطح قطعے کے انتہائی دائیں جانب راستہ ایک بڑے پتھر کے پاس سے ہو کر اچانک نیچے جاتا ہے۔ یہاں سے آگے بہت سارے موڑ آتے ہیں۔ اسی بڑے پتھر پر میں نے شیرنی کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس پتھر تک جاتے ہوئے بھی میں بار بار آوازیں نکالتا رہا تاکہ ایک تو مجھے شیرنی کی موجودہ حرکات کا اندازہ ہوتا رہے تو دوسرا شیرنی بھی میرے موجودہ مقام سے آگاہ ہو جائے۔
اب میں آپ کو تفصیل سے بتاتا ہوں تاکہ آپ اپنے ذہن میں اس جگہ کی تصویر بنا سکیں اور پیش آنے والے واقعات کو بہتر سمجھ سکیں۔ فرض کریں کہ چالیس گز لمبا اور اسی گز چوڑا ایک مستطیل قطعہ جس کے سرے پر عمودی چٹان کھڑی ہے۔ ٹھاک سے آنے والا راستہ اس قطعے کے چھوٹے یعنی جنوبی سرے سے اس میں داخل ہوتا ہے اور ۲۵ گز تک سیدھا جانے کے بعد دائیں مڑ کر اس قطعے کے مشرقی سرے سے باہر نکل جاتا ہے۔ اس جگہ چار فٹ بلند پتھر موجود ہے۔ جہاں یہ راستہ دائیں مڑتا ہے، سے تین فٹ بلند چٹانی چھجا شروع ہوتا ہے جو قطعے کے شمالی سرے تک چلا جاتا ہے۔ چھجے کے راستے والی طرف گھنی جھاڑیاں موجود ہیں جو اس چار فٹ بلند پتھر سے دس فٹ دور ہیں۔ اس قطعے کا باقی حصہ درختوں، اکا دکا جھاڑیوں اور چھوٹی گھاس سے ڈھکا ہوا ہے۔
میرا ارادہ تھا کہ اسی چٹان کے پاس راستے کے ساتھ میں لیٹ جاؤں اور جونہی شیرنی وہاں پہنچے، اسے گولی کا نشانہ بنا سکوں۔ تاہم جب میں یہاں پہنچ کر لیٹا تو پتہ چلا کہ یہاں سے شیرنی تب تک نہیں دکھائی دے گی جب تک کہ وہ محض دو یا تین گز دور نہ ہو۔ دوسرا اگر شیرنی اس چٹان کے عقب یا پھر اطراف کی جھاڑیوں سے آتی تو میں اسے بالکل بھی نہ دیکھ پاتا۔ اس چٹان کے کنارے جہاں سے شیرنی کی آمد متوقع تھی، ایک چھوٹا سا چھجا سا تھا۔ اگر میں اس پر ترچھا ہو کر بیٹھتا اور اگر بائیاں ہاتھ پھیلا کر اس گول پتھر پر رکھتا اور دائیں ٹانگ کو پھیلا کر پنچے کو زمین پر رکھتا تو میں اس جگہ رہ سکتا تھا۔ اپنے ساتھیوں اور بکریوں کو میں نے اپنے پیچھے دس یا بارہ فٹ نیچے چھپا دیا۔
شیرنی کے استقبال کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ اس دوران شیرنی اب ۳۰۰ گز کے فاصلے پر پہنچ چکی تھی۔ اپنے محل وقوع سے آگاہ کرنے کے لئے میں نے آخری آواز نکالی اور مڑ کر دیکھا کہ سب ٹھیک ہے۔
کسی بھی دوسرے موقع پر میرے ساتھی جس طرح بیٹھے تھے، انتہائی مزاحیہ ہوتا۔ تاہم اس وقت یہ انتہائی افسوس ناک تھا۔ بکریاں درمیان میں لئے ہوئے چاروں افراد ایک تنگ سے دائرے میں اپنے سر گھٹنوں میں دبائے بیٹھے تھے۔ ان کے چہروں پر موجود آثار ایسے ہی تھے جیسے تماشائی کسی توپ کے چلنے کا انتظار کر رہے ہوں۔ چھجے پر شیرنی کی پہلی بار آواز سننے کے بعد سے میرے ساتھی اور بکریاں بالکل خاموش تھے۔ ایک بار ان میں سے ایک ہلکا سا کھانسا تھا۔ شاید خوف نے انہیں جکڑ دیا ہو، پھر بھی میں ان کی جرأت کو سلام کرتا ہوں۔ اگر میں ان کی جگہ ہوتا تو کبھی بھی ایسا نہ کرتا۔ سات دن تک وہ شیرنی کے بارے لرزہ خیز داستانیں سنتے رہے تھے اور دو راتوں سے شیرنی نے انہیں سونے نہ دیا تھا اور اب تاریکی چھا رہی تھی اور لمحہ بہ لمحہ شیرنی ہمارے قریب ہوتی جا رہی تھی۔ جہاں وہ بیٹھے تھے وہاں سے وہ شیرنی کو دیکھ نہ سکتے تھے لیکن ہر وقت شیرنی کی قریب ہوتی ہوئی آواز سن رہے تھے۔ اس سے زیادہ اعتقاد اور اس سے زیادہ حوصلہ شاید کوئی اور نہ دکھا سکے۔
حقیقت یہ تھی کہ میں اپنی اعشاریہ ۴۵۰/۴۰۰ بور کی دو نالی رائفل کو بائیں ہاتھ سے نہیں پکڑ سکتا تھا کیونکہ اس ہاتھ سے میں نے ایک پتھر کو پکڑا ہوا تھا۔ میں نے اپنا رومال تہہ کر کے اس گول پتھر پر رکھ دیا تھا تاکہ رائفل پھسل نہ جائے۔ مجھے قطعی اندازہ نہیں تھا کہ اس صورتحال میں ایک ہاتھ سے بھاری رائفل چلانے پر کتنے زور سے دھکا لگے گا۔ رائفل کا رخ اس جانب تھا جہاں راستے میں ایک ابھار تھا۔ میرا ارادہ تھا کہ جونہی شیرنی کا سر اس ابھار سے دکھائی دے، میں گولی چلا دوں گا۔ یہ جگہ چٹان سے بیس فٹ دور تھی۔
تاہم شیرنی نے آتے ہوئے اپنا راستہ بدل دیا۔ اگر وہ سیدھی آتی تو راستہ اسی ابھار تک پہنچتا تھا جہاں میں نے رائفل سے نشانہ لیا ہوا تھا۔ شیرنی نے ایک کھائی عبور کر کے براہ راست اس جانب کا رخ کیا جہاں اس نے میری آواز سنی تھی۔ یہ جگہ ہلکی سی دائیں جانب تھی۔ اس طرح ہمارے درمیان ایک چھوٹی سی چٹان آ گئی اور میں شیرنی کو نہ دیکھ سکا۔ میری آواز سے شیرنی نے میری سمت کا بالکل درست اندازہ لگایا تھا تاہم فاصلے کے بارے اس نے کچھ غلطی کی تھی۔ اب جب اس نے متوقع جگہ پر نر کو نہ دیکھا تو غصے سے پاگل ہو گئی۔ اب میں آپ کو یہاں ایک مثال سناتا ہوں کہ ساتھی کی تلاش میں نکلی ہوئی شیرنی جب غصے میں ہو تو کیا کر سکتی ہے۔ ایک بار ہمارے گھر سے چند میل دور شیرنی نے ایک بار ایک سڑک کو ہفتے بھر کے لئے بند کر دیا تھا۔ جو کوئی بھی بشمول اونٹوں کی قطار کے سڑک سے گذرتی، شیرنی اس پر حملہ کر دیتی۔ جب تک شیرنی کو نر نہ ملا، اس نے سڑک بند رکھی۔
دکھائی نہ دینے والے نزدیک موجود شیر کی آواز سے زیادہ انسانی حوصلے کو پست کر دینے والی اور کوئی آواز نہیں۔ مجھے یہ سوچتے ہوئے بھی ڈر لگ رہا تھا کہ اس آواز کا میرے ہمراہیوں پر کیا اثر ہو رہا ہوگا کیونکہ میرا اپنا دل چاہ رہا تھا کہ جیسے میں خود بھی چیخ رہا ہوں۔ حالانکہ میرے پاس بہترین اور طاقتور رائفل بھی تھی۔
تاہم اس آواز سے زیادہ دہشتناک ایک اور چیز بھی تھی اور وہ تھی کم ہوتی ہوئی روشنی۔ چند اور سیکنڈ، زیادہ سے زیادہ ۱۰ یا ۱۵ سیکنڈ اور پھر اتنی تاریکی ہو جاتی کہ میں رائفل کے دیدبان بھی نہ دیکھ سکتا۔ اس کے بعد ہم آدم خور شیرنی اور نر کی تلاش میں نکلی ہوئی شیرنی کے رحم و کرم پر ہوتے۔ فوری طور پر مجھے کچھ نہ کچھ کرنا تھا ورنہ ہمارا عبرتناک حشر ہوتا۔ اس صورتحال میں میرے پاس سوائے شیر کی آواز نکالنے کے اور کوئی چارہ نہ تھا۔
شیرنی اب اتنی نزدیک تھی کہ جب وہ دھاڑنے کے لئے سانس لیتی تو وہ بھی صاف سنائی دیتا تھا۔ جونہی اس نے دوبارہ سانس بھرا تو میں نے بھی اس کے ساتھ ہی سانس بھرا۔ پھر ہم دونوں ایک ہی وقت بولے۔ اس کا فوری اثر ہوا۔ ایک لحظے کی تاخیر کے بناء شیرنی سوکھے پتوں پر تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی سیدھی میری جانب آئی۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ شیرنی سیدھی میرے سر پر آ رہی ہے کہ شیرنی رک گئی۔ اگلے ہی لمحے اس کی دھاڑ اور سانس سیدھی میرے منہ پر آئی۔ اگر میرے سر پر ہیٹ ہوتا تو وہ اڑ جاتا۔ ایک سیکنڈ رکنے کے بعد شیرنی دوبارہ چلی اور میں نے دو جھاڑیوں کے درمیان اس کی جھلک حرکت کرتے دکھائی دی۔ پھر شیرنی جھاڑیوں سے نکل کر سیدھا میرے منہ کو دیکھی ہوئی رک گئی۔
میری خوش قسمتی کہ شیرنی نے آخری چھ قدم جو اٹھائے تھے وہ اسے سیدھا میری رائفل کے سامنے لے آئے۔ اگر وہ آخری آواز کے بعد سے اپنا رخ نہ بدلتی تو اگر میں کبھی یہ کہانی لکھتا بھی تو بہت مختلف کہانی ہوتی کیونکہ موجودہ حالت میں میرے لئے رائفل کو حرکت دینا ناممکن تھا۔ شیرنی کے قریب ہونے اور مدھم ہوتی ہوئی روشنی کی وجہ سے مجھے شیرنی کا صرف سر دکھائی دے رہا تھا۔ میری پہلی گولی اسے دائیں آنکھ کے نیچے لگی اور دوسری گولی جو ارادے کی بجائے غلطی سے چلی، اس کے گلے میں لگی۔ شیرنی سیدھا چٹان سے ٹک کر رک گئی۔ دائیں نال سے چلنے والی گولی کے دھکے سے رائفل پر میری گرفت کمزور پڑ گئی تھی پیچھے سیدھا اسی جگہ گرا جہاں میرے ہمراہی بیٹھے ہوئے تھے۔ دوسری گولی اس وقت چلی جب میں ابھی فضاء میں ہی تھا اور رائفل کا کندہ میرے جبڑے پر لگا اور سر کے بل اپنے ساتھیوں پر جا گرا۔ ایک بار پھر میں اپنے ساتھیوں کی ہمت کو سلام پیش کرتا ہوں کہ یہ دیکھے بغیر کہ کیا شیرنی بھی میرے پیچھے ان پر چھلانگ تو نہیں لگا رہی، انہوں نے مجھے پکڑ کر سیدھا کھڑا کر دیا۔ اس طرح میں چوٹ اور رائفل کسی بھی نقصان سے بچ گئی۔
جب میں ان کی گرفت سے آزاد ہوا تو میں نے اپنے ساتھی سے اپنی اعشاریہ ۲۷۵ بور کی رائفل لے کر اس میں میگزین چڑھایا اور وادی کے اوپر نیپال کی جانب پانچ گولیاں چلائیں۔ وادی میں موجود ہزاروں افراد کے لئے دو گولیاں کوئی بھی معنی پیش کر سکتی تھیں جو بے چینی سے گولی کی آواز سننے کے لئے تیار تھے۔ تاہم ان دو گولیوں کے بعد پانچ گولیاں جو پانچ پانچ سیکنڈ کے وقفوں سے چلائی گئی تھیں، کا ایک ہی مطلب تھا کہ آدم خور شیرنی اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے۔
چٹان پر جب میں نے شیرنی کی آواز سنی تو اس وقت سے اب تک میں نے اپنے ساتھیوں سے بات نہیں کی تھی۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ شیرنی مر چکی ہے اور ہمیں اب اس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں تو انہیں اس پر یقین نہیں آیا۔ میں انہیں کہا کہ اوپر جا کر خود اپنی آنکھون سے شیرنی کو مرا ہوا دیکھ لیں اور میں نے سیگرٹ جلا لیا۔ انتہائی احتیاط سے میرے ہمراہی چٹان پر چڑھے۔ جیسا کہ میں نے انہیں بتایا تھا، انہیں شیرنی کو دیکھنے کے لئے زیادہ دور نہیں جانا پڑا۔ چٹان کے دوسرے سرے پر شیرنی مردہ حالت میں پڑی تھی۔ رات کو کیمپ میں آگ کے گرد بیٹھے ہوئے جب میرے ساتھی ہماری مہم کی تفصیلات بتا رہے تھے تو اپنی بات کا اختتام اس بات پر کرتے تھے کہ شیرنی جس کے ڈر سے ہمارے پتے پانی ہو چکے تھے، نے جب ہمارے صاحب پر حملہ کیا تو اس نے صاحب کے منہ پر ٹکر ماری جس سے صاحب ہمارے اوپر آن گرے۔ اگر آپ کو یقین نہیں تو جا کر صاحب کا چہرہ دیکھ لیں۔ عموماً کیمپ میں آئینہ رکھنا بدشگونی سمجھا جاتا ہے تاہم اگر آئینہ ہوتا بھی تو میرا چہرہ اتنا سوجا ہوا نہ دکھائی دیتا جتنا مجھے تکلیف ہو رہی تھی۔
جتنی دیر میں درخت کاٹے جاتے، لدھیا وادی اور اس کے آس پاس کے دیہاتوں میں روشنیاں جلنے لگی تھیں۔ میرے چاروں ہمراہی اس فکر میں تھے کہ وہ اکیلے ہی شیرنی کو کیمپ تک لے جائیں۔ ان کے نزدیک یہ بہت بڑا اعزاز ہوتا۔ تاہم یہ کام ان کے بس سے باہر تھا۔ اس لئے میں کیمپ سے ان کے لئے مدد لانے کو چل پڑا۔
پچھلے آٹھ ماہ کے دوران چکہ میں میں نے اس راستے کو صرف دن کی روشنی میں ان گنت بار عبور کیا تھا اور ہر بار بھری ہوئی رائفل میرے ہاتھوں میں ہوتی تھی۔ اب اندھیرے نہتے اسی راستے پر چلتے ہوئے میرے ذہن میں صرف ایک ہی فکر تھی کہ کہیں ٹھوکر کھا کر گر نہ جاؤں۔ اگر کسی شدید درد سے ملنے والی نجات کسی انسان کے لئے سب سے بڑی خوشی ہو تو دوسری بڑی خوشی کسی بہت بڑے خوف اور ڈر سے اچانک ملنے والی نجات ہے۔ محض ایک گھنٹہ قبل مقامی لوگوں کو ان کے گھروں سے نکالنے کے لئے کسی بہت بڑی بلا کی مدد لینا پڑتی اور اب وہی افراد گاتے بجاتے اور ناچتے ہوئے ایک ایک یا دو دو کی صورت میں گھروں سے نکل کر ٹھاک والے راستے کو جا رہے تھے۔ یہ لوگ اب ایک بڑے گروہ کی صورت میں جمع ہو رہے تھے۔ ان میں کچھ افراد راستے پر آگے جا کر شیرنی کو کیمپ لانے کے کام میں مدد دینے کے لئے روانہ ہو گئے جبکہ بقیہ افراد میرے ساتھ کیمپ کو چل پڑے۔ اگر میں نے انہیں اجازت دی ہوتی تو وہ مجھے اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے۔ چونکہ پیش قدمی کافی سست تھی اور ہمیں بار بار راستے میں نئے آنے والے افراد کے لئے رکنا پڑتا جو اپنی عقیدت اور تشکر پیش کرنا چاہتے تھے۔ اس سے شیرنی کو لانے والے افراد کو اتنا وقت مل گیا کہ وہ بھی ہمیں کیمپ سے قبل آن ملے۔ گاؤں میں ہم سب اکٹھے داخل ہوئے۔ چونکہ میری زندگی کا بڑا حصہ جنگلوں میں گذرا ہے اس لئے میں لفظوں سے تصویر کشی نہیں کر سکتا کہ چکہ میں مجھے کتنی گرم جوشی سے خوش آمدید کہا گیا۔ تاہم اس کی تفصیل مرتے دم تک میرے دل میں تازہ رہے گی۔
فوری طور پر بھوسے کا ایک گٹھڑ کھول کر پھیلانے کے بعد شیرنی کو اس پر رکھ دیا گیا۔ اس کے بعد آس پاس سے خشک لکڑیاں جمع کر کے بہت بڑا الاؤ روشن کر دیا گیا کیونکہ رات بہت تاریک تھی اور شمال سے چلنے والی یخ بستہ ہوا اسے مزید تاریک اور سرد بنا رہی تھی۔نصف شب کے قریب میرے ملازم نے ٹھاک کے نمبردار اور کنور سنگھ کی مدد سے مجمع کو گھروں لوٹ جانے کو کہا اور بتایا کہ اگلی صبح ان کے پاس شیرنی کو دیکھنے کا بہتر موقع ہوگا۔ روانہ ہونے سے قبل ٹھاک کے نمبردار نے مجھے بتایا کہ صبح کو وہ ٹھاک کے تمام باشندوں کو بلا بھیجے گا کہ ٹھاک اب محفوظ ہے۔ اس نے اپنی بات پر عمل بھی کیا اور دو دن ہی میں ٹھاک کی ساری آبادی واپس لوٹ گئی۔
نصف رات کو کھانا کھانے کے بعد میں نے کنور سنگھ کو بلا کر بتایا کہ اپنے گھر والوں سے کیے گئے وعدے کے مطابق مجھے چند گھنٹوں میں روانہ ہونا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ وہ صبح کو لوگوں کو بتا دے کہ میں علی الصبح کیوں چلا گیا تھا۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ ایسا ہی کرے گا۔ پھر میں نے شیرنی کی کھال اتارنا شروع کی۔ جیبی چاقو سے شیر کی کھال اتارنا بہت طویل اور کٹھن کام ہے تاہم اس سے مردہ جانور کے بارے ایسی تفاصیل دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے جو کسی اور طرح ممکن نہیں۔ یہ بات آدم خور جانور کے بارے بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اس سے یہ پتہ چلتا ہے یہ جانور آدم خور کیوں بنا۔
یہ شیرنی نسبتاً نوعمر تھی اور ہر طرح سے تندرست تھی۔ اس کی کھال کے رنگ شوخ اور بے داغ تھی۔ اگرچہ شیرنی نے میرے باندھے ہوئے بھینسوں کو کھانےسے انکار کر دیا تھا تاہم اس کی کھال کے نیچے بہت چربی تھی۔ شیرنی کے جسم پر دو جگہوں پر بندوقوں کے زخم تھے جو کھال کے نیچے چھپے ہوئے تھے۔ پہلا زخم اس کے بائیں شانے پر تھا جہاں گھر میں تیار کئے گئے چھرے لگے ہوئے تھے۔ یہ زخم خراب ہو کر پھر ٹھیک ہوا تھا۔ یہ زخم شیرنی کی حرکات و سکنات پر کس حد تک اثر انداز ہوا تھا، یہ کہنا مشکل ہے۔ تاہم اس کو بھرنے میں بہت وقت لگا ہوگا۔ شاید اسی کی وجہ سےشیرنی نے آدم خوری شروع کر دی ہو۔ دوسرا زخم اس کے دائیں شانے پر تھا اور یہ بھی دیسی چھروں سے لگا تھا۔ تاہم یہ زخم بغیر خراب ہوئے بھر گیا تھا۔ یہ دونوں زخم شیرنی کو اس کے شکار کردہ جانور پر مچان سے لگے تھے۔ یہ زخم شیرنی کی آدم خوری کی عادت سے قبل لگے تھے اور اسی وجہ سے شیرنی دوبارہ اپنے شکار کردہ جانور پر واپس نہ آئی تھی۔
شیرنی کی کھال اتارنے کے بعد میں نے غسل کیا اور کپڑے تبدیل کئےٍ۔ اگرچہ میرا چہرہ سوجا ہوا تھا اور تکلیف بھی ہو رہی تھی تاہم میرے سامنے ۲۰ میل کا دشوار سفر تھا اور جب چکہ اور آس پاس ہزاروں افراد سکون کی نیند سو رہے تھے تو میں روانہ ہوا۔
جنگل اور اس سے متعلق کہانیاں جو میں نے اس کتاب میں آپ کو بتانی تھیں، اب ختم ہو گئی ہیں اور اس کے ساتھ ہی میرا آدم خوروں کے شکار کا سلسلہ بھی ختم ہوا۔
میں ٹھاک اور علاقے میں بہت دن رہا اور میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ دیگر افراد کی طرح میں یہاں سے کھاٹ پر سوار ہو کر نہیں نکلا۔
بہت بار ایسا ہوا ہے کہ جب زندگی کی ڈوری کٹتے کٹتے بچی ہے اور کئی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ مسلسل دباؤ کے سبب پیدا ہونے والی بیماریاں اور ان کے علاج کے لئے مناسب رقم کا نہ ہونا زندگی دشوار بنا دیتا ہے تاہم اگر میرے شکاروں سے ایک بھی انسان کی جان بچ گئی ہے تو میں اس کے لئے خود کو پوری طرح تیار پاتا ہوں۔

٭٭٭
 
صرف شیر
میرا خیال ہے کہ ہر وہ شکاری جو شیروں کے شکار اور ان کی تصویر کھینچنے کے مشغلے آزما چکا ہے وہ یہی کہے گا کہ دونوں مشغلوں میں بہت فرق ہے۔ یہ فرق ایسا ہی ہے کہ جیسا ہلکی بنسی کی مدد سے کسی برفیلی ندی میں ٹراؤٹ کا شکار کرنا اور کسی تالاب کے کنارے چلچلاتی ہوئی دھوپ میں مچھلی پکڑنا۔
قیمت کے علاوہ بھی تصویر بنانے اور گولی چلانے میں یہ فرق ہے کہ تیزی سے کم ہوتی ہوئی شیروں کی آبادی کو مد نظر رکھتے ہوئے شیروں کی کھال سے زیادہ ان کی تصویر اہم ہے۔ کھال صرف اس بندے کے لئے دلچسپی کا سبب ہے جو اس جانور کو مارتا ہے جبکہ تصویر سے ہر کوئی لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر فریڈ چیمپئن کو لے لیں۔ انہوں نے بہت سالوں سے رائفل کو چھوڑ کر کیمرے سے شیروں کا "شکار" کر رہے ہیں۔ اگر انہوں نے رائفل سے شکار جاری رکھا ہوتا تو ان کے شکار کردہ جانوروں کی تقریباً تمام ہی کھالیں وقت کے ساتھ ساتھ خراب ہو کر پھینک دی جاتیں جبکہ اب ان کے کھینچی ہوئی تصاویر پوری دنیا کے لئے دلچسپی کا سبب ہیں۔
انہی کی کھینچی ہوئی تصاویر کو ان کی کتاب "ود کیمرہ ان ٹائیگر لینڈ" میں دیکھ رہا تھا کہ میرے دل میں بھی شیروں کی تصویر کھینچنے کا شوق پیدا ہوا۔ ان کی کھینچی ہوئی تصاویر عام کیمرے سے فلیش کی مدد سے لی گئی تھیں۔ میرا ارادہ یہ ہوا کہ میں شیروں کی متحرک تصاویر یعنی فلمیں سورج کی روشنی میں بناؤں۔ میرے ایک بہت سخی دوست نے مجھے بیل اینڈ ہاول کمپنی کا بنا ہوا ۱۶ ملی میٹر کا وڈیو کیمرہ دیا تھا۔ یہ کیمرہ میری ضروریات کے لئے بالکل بہترین تھا۔ حکومت کی جانب سے مجھے کھلی اجازت تھی کہ میں ہتھیاروں کے ساتھ کسی بھی جنگل میں جا سکتا تھا اور کیمرے کی مدد سے میرے لئے نئے جہاں کھل گئے تھے۔ دس سال تک میں ان شیروں کے جنگلوں میں سینکڑوں کلومیٹر پھرتا رہا۔ کئی بار مجھے شیروں نے اپنے شکار کردہ جانوروں کے پاس جانے سے روکا اور شیرنی نے اپنے بچوں سے دور رکھنے کے لئے مجھے جنگل سے نکالا۔ اس عرصے میں میں نے شیروں اور ان کی عادات کے بارے تھوڑا بہت جانا۔ اگرچہ میں نے کم از کم ۲۰۰ مرتبہ شیروں کو نزدیک سے دیکھا تاہم ایک بار بھی میں تسلی بخش فلم نہ بنا سکا۔ بہت بار میں نے فلم بنانے کی کوشش کی لیکن نتائج خوشگوار نہ نکلے۔ کئی بار فلم میں روشنی کی مقدار بہت کم یا بہت زیادہ ہو جاتی اور کئی بار شیشوں پر گھاس پھونس یا مکڑی کے جالے لگنے کی وجہ سے فلم درست نہ بن پاتی۔ ایک بار فلم دھوتے وقت فلم جل کر پگھل گئی۔
۱۹۳۸ء میں بالآخر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ پوری سردیوں میں کم از کم ایک اچھی فلم بنانی ہے۔ اپنے سابقہ تجربات کی روشنی سے میں نے یہ جان لیا تھا کہ چلتے چلتے کہیں بھی شیروں کی فلم بنانا ممکن نہیں۔ اس لئے میں نے پہلے ایک عمدہ جگہ چنی۔ یہ ایک ۵۰ گز چوڑی کھائی تھی جہاں ایک چھوٹی سی ندی درمیان سے گذرتی تھی اور دونوں اطراف گھنے درخت اور گھاس وغیرہ تھیں۔ کم فاصلے سے فلم بنانے کے دوران کیمرے کی آواز کو چھپانے کے لئے میں نے چند انچ اونچائی کی بہت ساری آبشاریں بنائیں۔ پھر میں نے شیروں کو گھوم پھر کر تلاش کیا اور ہر روز انہیں اپنے جنگلی سٹوڈیو کی طرف مائل کرنا شروع کیا۔ چونکہ اس علاقے میں شیروں کا شکار زوروں پر تھا اس لئے شیروں کو نظروں سے اوجھل رکھتے ہوئے میں انہیں مطلوبہ مقام تک لانے میں کامیاب ہو گیا۔ بعض نامعلوم وجوہات کی بناء پر ایک شیرنی اگلے ہی دن چلی گئی تاہم باقی کے چھ شیر ایک ساتھ رہے اور میں نے تقریباً ایک ہزار فٹ جتنی فلم بنائی۔ تاہم اس بار موسم سرما میں بہت بارشیں ہوئی تھیں اور کئی سو فٹ جتنی فلم بیکار گئی۔ پھر بھی کم از کم چھ سو فٹ جتنی فلم میں نے بنائی جس پر مجھے فخر ہے۔ اس میں چار نر شیر اور دو مادہ شیرنیاں جنگل میں اپنی فطری حرکات و سکنات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے دو نر شیر دس فٹ سے زیادہ لمبے تھے۔ا یک شیرنی سفید رنگ کی تھی۔ ان شیروں سے میرا فاصلہ ۱۰ فٹ سے ۶۰ فٹ تک رہا تھا۔
یہ سارا کام ساڑھے چار ماہ میں پورا ہوا اور اس دوران اپنی آبشاروں کے کنارے سے میں نے یہ فلم بنائی اور ایک بار بھی کسی شیر نے مجھے نہیں دیکھا۔
دن کی روشنی میں چھ شیروں کی نظروں سے بچ کر ان سے چند فٹ کے فاصلے پر آ کر چھپنا ممکن نہیں۔ا س لئے میں صبح روشنی ہونے سے قبل ہی آ کر چھپ جاتا تھا۔ سردیوں کی شبنم کی وجہ سے میری حرکات سے آواز نہیں پیدا ہوتی تھی اور جب بھی روشنی مناسب ہوتی میں فلم بنانا شروع کر دیتا تھا۔
۱۶ ملی میٹر کی فلم چاہے کتنی ہی صاف نہ دکھائی دے، ان سے تصاویر کو بڑا نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم ساتھ موجود تصاویر سے آپ کو اس کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ میرا جنگلی سٹوڈیو کس نوعیت کا تھا۔
 
٭٭٭

Popular Posts