ہفتہ، 6 اپریل، 2013

تنزانیہ کے جنگلوں میں ۵ دن
صبا شفیق
ڈیانا کیا تم اس جنگلی بھینسے کو دیکھ رہی ہو۔۔۔؟ پیٹر نے آنکھوں سے دوربین ہٹائے بغیر مجھ سے پوچھا: ’’بالکل۔۔۔ وہ سب سے منفرد بڑا نظر آتا ہے۔‘‘
میں گھاس کے آخری سرے پر کھڑے اس بھینسے کو دیکھتے ہوئے بولی: ’’میں نے اتنا شاندار جنگلی بھینسا آج تک نہیں دیکھا تھا۔‘‘ اس کے تیز، نوکیلے خم دار سینگ دھوپ میں چمک رہے تھے۔ سینہ چوڑا اور جسم خوب بھرا ہوا تھا۔ میدان میں کھڑے باقی بھینسوں سے بلاشبہ وہ منفرد تھا۔ ہم اپنی شکاری جیپ میں ان سے کوئی ۵۰ گز دور کھڑے تھے۔ بھینسوں نے ہمیں دیکھ لیا تھا مگر وہ خوفزدہ ہو کر بھاگے نہیں اور آرام سے گھاس چرنے میں مگن تھے۔ شاید وہ تھک گئے تھے کیونکہ گزشتہ ایک گھنٹے سے ہم مامبو کے جنگلوں سے ان کا پیچھا کرتے ہوئے گھاس کے اس میدان تک آئے تھے۔
ہم بھی اب مزید قریب جا کر انھیں ہراساں کر کے بھگانا نہیں چاہتے تھے۔ سو وہیں سے نشانہ باندھنے لگے۔ میں نے بھی اپنی ۳۷۵ بور کی رائفل سیدھی کی اور اس شاندار بھینسے کے سینے کا نشانہ باندھ لیا۔ جیپ میں سب دم سادھے بیٹھے اپنی اپنی دوربینوں سے دیکھ رہے تھے۔ ’’میراخیال ہے کہ سینے کے بجائے تم پہلو کا نشانہ لو۔‘‘ پیٹر نے مجھ سے کہا۔
پیٹر ایک ماہر شکاری تھا۔ جانتا تھا کہ سینے کا نشانہ خطا ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ میں نے سر ہلا دیا۔ میں اچھی طرح جانتی تھی کہ ریوڑ کسی بھی وقت دوبارہ بھاگ سکتا ہے مگر مجھے یہ بھی علم تھا کہ ۴۵ انچ چوڑے سینگوں والا بھینسا نشانہ خطا ہونے پر ہمارے اوپر چڑھ سکتا ہے۔ ویسے اس بات کا قوی امکان تھا کہ ایک طرف کی گھاس کھانے کے بعد بھینسا رخ بدلے گا۔ تب مجھے پہلو کا نشانہ لینے کا موقع مل جاتا۔ سو ہم انتظار کرنے لگے۔ میں گہرے سانس لے کر خود کو پُرسکون کرنے لگی۔ میں نے بھینسوں کے شکار کے متعلق کافی پڑھا تھا۔ پیٹر نے بھی میری معلومات میں گراںقدر اضافہ کیا تھا مگر عملی طور پر بھینسے کا یہ میرا پہلا شکار تھا۔
پیٹر نے مجھے بتایا تھا کہ جنگلی بھینسا اگر نشانہ خطا ہونے پر زخمی ہو جائے تو وہ افریقہ کے خطرناک ترین جانوروں میں سے ایک ہوتا ہے۔ اس لیے کسی قسم کی غلطی مجھ سمیت میری پوری ٹیم کی جان کو خطرے میں ڈال سکتی تھی۔ اچانک بھینسا مڑا اور میں نے اس کے پہلو کا نشانہ باندھ لیا۔ جیپ میں باقی ۷ لوگ دم سادھے بیٹھے تھے۔ میں نے ایک گہرا سانس لیا اور آنکھیں بھینسے پر جماتے ہوئے لبلبی دبا دی۔ رائفل نے شعلہ اُگلا اور بھینسا چند قدم بھاگ کر ڈھیر ہو گیا۔ باقی ریوڑ بھاگ اٹھا۔ ہم بھینسے کے پاس پہنچے۔ پیٹر نے بھینسے کے ساتھ میری ڈھیر ساری تصویریں بنائیں۔
اس صبح ہم نے ناشتے اور کافی کے بعد ساڑھے ۶ بجے اپنی مہم کا آغاز کیا تھا۔ ہماری ٹیم میں میرا شوہر سکاٹ، رینجر سام، گائیڈ مارٹن اور فلکر، مقامی کومبو اور زمبابوے سے آئے ہوئے ۲ ماہر شکاری پیٹر اور مشاک شامل تھے۔ میں بہت خوش تھی۔ آج ہماری سفاری کا پہلا دن تھا اور میں نے شاندار بھینسا شکار کر لیا۔ اس رات ہم نے آگ کے گرد بیٹھ کر بھینسے کے لذیذ تکے کھائے اور ارادہ کیا کہ اپنی مہم کے دوران ہرروز ایک بھینسا شکار کریں گے۔
سفاری کے دوسرے روز ہم نے بھینسوں کے کھُروں کے نشانات کا پیچھا کیا اور ایک بڑے ریوڑ کے قریب پہنچ گئے۔ سکاٹ نے ۳۷۵ گز کے فاصلے سے ایک بھینسے کا نشانہ لیا مگر اس کا کندھا ہل گیا اور بھینسا زخمی ہو کربھاگ اٹھا۔ ہم نے اس کا پیچھا کیا۔ سکاٹ کی مزید تین گولیوں سے وہ ڈھیر ہو گیا۔ یہ ہماری مہم کا تیسرا دن تھا۔ اب ہم مقامی زبان کے لفظوں سے بھی کچھ مانوس ہو گئے۔ خصوصاً بھینسے کا نام مجھے بہت دلچسپ لگا۔ وہ اسے ’’نیاتی‘‘ اور ’’مبوگو‘‘ کہتے تھے۔
تیسرے دن کی صبح بہت خوبصورت تھی۔ سورج نکل رہا تھا اور شفق کی لالی پھیل رہی تھی۔ آسمان پر رنگ برنگے پرندے اُڑ رہے تھے۔ ان کی چہچہاہٹ اور سریلے گیتوں نے فضا کو معطر کردیا۔ ہم نے جس جگہ خیمے لگائے، وہ ۵ ہزار فٹ بلند پہاڑیوں سے گھری ہوئی خوبصورت وادی تھی۔ آگے جنگل اور گھاس کے بڑے بڑے میدان تھے۔ کومبو نے ہمارے لیے لذیذ ناشتہ تیار کیا تھا۔ وہ کھایا اور جیپ میں بیٹھ کر اپنے سفر پر روانہ ہو گئے۔ ۲ گھنٹے تک جیپ چلتی رہی پھر ہمیں بھینسوں کا تازہ گوبر نظر آیا۔ ہم نے جیپ روک دی اور پیدل ان کا پیچھا کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ کھُروں کے نشانات چھوٹی ڈھلوانوں اور چٹانوں کی طرف جا رہے تھے۔
مجھے کچھ عجیب بھی لگا کہ بھینسے چٹانوں پر کیونکر چڑھیں گے۔۔۔؟ مگر پیٹر کا کہنا تھا کہ ہمیں آگے ایک شاندار ریوڑ ملنے والا ہے۔ کچھ دیر چٹانوں پر چلنے کے بعد پیٹر کی بات واقعی سچ ہو گئی۔ ہمارے سامنے ایک بڑا میدان تھا مگر وہاں بھینسے نہیں تھے اور میدان بھی گھاس سے تقریباً خالی تھا۔ ایک اور چٹانی ڈھلوان تھی اور اس سے آگے ایک اور بڑا میدان جہاں بھینسوں کا ایک ریوڑ چر رہا تھا۔ ہم مسلسل گھنٹے بھر سے چڑھائی کر رہے تھے اس لیے بری طرح تھک گئے۔ ہم سب نے رائفلیں، کیمرے اور دیگر سامان چٹان پر رکھا اور گہرے سانس لینے لگے۔
کچھ فاصلے پر دیمک نے مٹی کی ایک بڑی ڈھلوان کھڑی کر رکھی تھی۔ پیٹر پیٹ کے بل رینگتا ہوا اس ڈھلوان تک پہنچا۔ پھر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ڈھلوان کے پیچھے سے بذریعہ دوربین بھینسوں کا جائزہ لینے لگا۔ کچھ دیر جائزہ لینے کے بعد پیٹر نے ہمیں اشارہ کیا۔ ہم بھی پیٹ کے بل رینگتے ہوئے پیٹر تک پہنچے۔ پیٹر نے کہا: ’’ریوڑ میں دو تین شاندار بھینسے ہیں مگر ایک اچھا نشانہ باندھنے کے لیے ہمیں قریب جانا پڑے گا۔ ہم سب کھڑے ہوئے تو بھینسے بھاگ جائیں گے۔ اس لیے ہمیں تقریباً ۱۰۰ گز تک گھاس میں رینگتے ہوئے بھینسوں کے قریب پہنچنا ہے۔‘‘
میں ذرا گھبرائی مگر سکاٹ نے میری ہمت بندھائی۔ پھر ہم سب قطار میں رینگتے ہوئے پیٹر کے پیچھے پیچھے بڑھنے لگے۔ جب پیٹر نے ہمیں رکنے اور گھٹنوں کے بل بیٹھنے کا اشارہ کیا تو ہم سب آہنگی سے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔ سامنے جو منظر تھا، اسے دیکھ کر لمحہ بھر کو تو میری سانس رک گئی۔ ہم گھاس چرتے ہوئے کئی بڑے بڑے بھینسوں کے انتہائی قریب تھے۔ عین اسی لمحے ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا۔ ہوا چونکہ ہماری طرف سے بھینسوں کی سمت جا رہی تھی، سو انھوں نے بدقسمتی سے ہماری بو پا لی اور ریوڑ بھاگ اٹھا۔ ہم بھی ان کا پیچھا کرنے لگے۔ ریوڑ ایک جگہ رکا۔ ہم بھی رک کر نشانہ باندھنے لگے۔ مگر بدقسمتی سے بھینسوں نے پھر دوڑ لگا دی مجبوراً ہمیں بھی ان کے پیچھے بھاگنا پڑا۔
ہم نے درختوں اور دیمک کی ڈھلوانوں کے پیچھے چھپتے چھپاتے ان کا تعاقب جاری رکھا۔ اس دوران بھینسے دوبار مزید رکے مگر جیسے ہی ہم نشانہ باندھنے لگتے، وہ بھاگ اٹھتے۔ پھر وہ ایک بڑے گھاس کے میدان میں پہنچ کر بکھر گئے اور ادھر ادھر چرنے لگے۔ شاید وہ اب تھک گئے تھے۔ ہم بھی رک کر ایک چھوٹے جھنڈ کے پیچھے چھپ گئے جو گھاس والے میدان کے سرے پر واقع تھا۔ اب پیٹر پھردوربین سے بھینسوں کا جائزہ لینے لگا۔
ہم بھی اپنی اپنی دوربینوں سے ریوڑ میں کوئی بڑا بھینسا ڈھونڈنے لگے۔ پیٹر نے ایک بھینسے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’دیکھو۔۔۔ سب دیکھو! کیا شاندار چیز ہے؟‘‘ ہم سب نے اس سمت دیکھا اور ہمارے منہ سے بے ساختہ واہ نکلا۔ وہ واقعی انتہائی شاندار، جوان اور طاقتور بھینسا تھا۔ میں نے ایسا بھینسا پہلے صرف تصویروں میں یا ٹی وی پر ہی دیکھا تھا۔ مجھ میں عجیب جوش اُمڈ آیا۔ میں نے پیٹر سے کہا: ’’اس کو میں شکار کروں گی۔‘‘ پیٹر اور سکاٹ مسکرانے لگے اور پھر سکاٹ نے شرارت سے میرے کان میں کہا: ’’جی!جی! مادام آپ ہی لگا لیں۔آپ کا نشانہ ویسے بھی کبھی خطا نہیں ہوا۔ ہم بھی تو آپ کے تیرِ نظر کا شکار ہوئے تھے۔‘‘
میں مسکرا کر اس بھینسے کا نشانہ باندھنے لگی۔ مجھے پیٹر کی پہلو کا نشانہ لینے والی ہدایت اچھی طرح یاد تھی۔ سو میں نے ۱۰ منٹ تک انتظار کیا اور پھر وہ لمحہ آ ہی گیا جب بھینسے کے پہلو کا نشانہ باندھ کر میں نے لبلبی دبا دی۔ ریوڑ بھاگنے لگا۔ کھُروں کے شور میں لمحہ بھر کو مجھے لگا کہ میرا نشانہ خطا گیا، میں مایوس ہو گئی مگر پھر پیٹر اور سکاٹ کی مسکراہٹ سے مجھے پتا لگا کہ میرا نشانہ خطا نہیں ہوا تھا۔ پیٹر نے ہمیں اشارہ کیا اور ہم درختوں کے پیچھے سے نکل کر ریوڑ کی طرف بھاگے۔ بھینسے یک دم رک کر ہمیں دیکھنے لگے۔ ہم بھی رک گئے اور اپنی رائفلیں سیدھی کر لیں۔ لمحہ بھر کو ہمیں لگا کہ بھینسوں کا ریوڑ ہم پر چڑھ دوڑے گا اور ہمیں نیست ونابود کر دے گا۔
وہ ایک لمحہ یوں تھا جیسے صدیوں پر محیط ہو اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھینسے مڑے اور اپنی دُمیں اوپر اٹھائے بھاگنے لگے۔ ہم ساکت کھڑے تھے۔ ہماری انگلیاں رائفلوں کی لبلبیوں پر تھیں۔ جب ریوڑ آگے چلا گیا تو ہماری نظر زمین پر لیٹے اس شاندار بھینسے پر پڑی جو میری گولی کا شکار ہوا تھا۔ وہ اتنا جاندار تھا کہ اس کی ٹانگیں ابھی تک ہل رہی تھیں۔ ہم بڑے محتاط انداز میں اس کے قریب پہنچے۔ پیٹر نے مجھے اشارہ کیا، ایک بار پھر رائفل کی لبلبی دبا کر اسے ٹھنڈا کر دیا گیا۔
قریب سے دیکھنے پر اس کے سینگ اور بھی خوبصورت وشاندار لگ رہے تھے۔ ہم سب سینگوں پر ہاتھ پھیر کر ان کی خوبصورتی سراہنے لگے۔ ہم بھینسے کو جیپ میںڈال کر خیموں تک لے آئے۔ اس رات ہم نے بھینسے کا بھنا ہوا لذیذ گوشت کھاتے وقت اگلے دن کی مہم پر بات چیت کی۔ تین بھینسے شکار کرنے کے بعد ہمارے حوصلے کافی بلند ہو چکے تھے۔ سکاٹ نے پیٹر سے کہا کہ وہ اب تیندوے کا شکار کرنا چاہتا ہے۔ پیٹر نے کہا: ’’ٹھیک ہے، پھر ہم اس بھینسے کا کچھ گوشت چارے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘ پیٹر ہمیں تیندوے کے شکار کے متعلق بنیادی ہدایات دینے لگا۔
اس نے بتایا کہ تیندوے کا شکار بعض اوقات شیر کے شکار سے بھی مشکل ثابت ہوتا ہے کیونکہ ایک تو وہ درختوں پر چڑھ کر چھپنے کی صلاحیت رکھتا ہے یوں شکاری پراچانک حملہ کر سکتا ہے۔ دوسرا وہ اپنی جسمانی لچک کے باعث تنگ جگہوں میں بھی جا چھپتا ہے۔ تیسرا اگر اسے پتا لگ جائے کہ کوئی انسان اس کے پیچھے ہے تو مڑ کر اتنی تیزی سے حملہ کرتا ہے کہ شکاری سنبھل بھی نہیں پاتا۔ دن کے وقت غاروں، گھاٹیوں اور درختوں کی گھنی شاخوں میں آرام کرتا اور رات کو شکار کے لیے نکلتا ہے۔
ہم نے بھینسوں کا تعاقب کرنے کے دوران دو تین مقامات پر تیندوے کے پنجوں کے نشانات دیکھے تھے۔
تیندوے اکثر اپنا شکار درختوں پر لے جا کر کھاتے ہیں تاکہ کوئی چھین نہ سکے۔ سو پیٹر نے فیصلہ کیا کہ کل ہم دو درختوں پر بطور چارہ بھینسے کی لذیذ رانیں رکھیں گے اور اس سے تقریباً ۳۵ گز دور اپنی جیپ میں بیٹھ کر ہی تیندوے کا انتظار کریں گے۔ رات کے وقت پیدل تیندوے کا انتظار جان لیوا بھی ہو سکتا تھا۔ اگلے دن ہم صبح کچھ دیر بعد بیدار ہوئے۔ تقریباً ساڑھے آٹھ بجے خیمے سے نکل کر پوری تیاری اور سازوسامان کے ساتھ جیپ میں جنگل کی طرف روانہ ہوئے۔
ہماری جدید شکاری جیپ دراصل پوری ویگن تھی۔ اس میں کھانا پکانے، لیٹنے اور بہت سا سامان رکھنے کی سہولت موجود تھی۔ چھت ضرورت کے مطابق کھولی اور بند کی جا سکتی تھی۔ فوجی بنکروں کی طرح اس پہ دو مقامات پر رائفلیں نصب کر کے نشانہ باندھنے کی سہولت بھی موجود تھی۔ آج رات ہمیں اسی سہولت سے فائدہ اٹھانا تھا۔ ہم ان مقامات کی سمت بڑھے جہاں تیندوے ملنے کے قوی امکانات تھے۔ ہمارے گائیڈ مارٹن اور فلکر علاقے سے پوری طرح آگاہ تھے۔ پیٹر بھی پہلے کئی شکاری سفاریوں کے ساتھ یہاں آ چکا تھا۔ میں اور سکاٹ پہلی بار شکار کے لیے تنزانیہ آئے تھے۔ سکاٹ اس سے پہلے کئی ملکوں میں شکاری مہموں پر جا چکا تھا جب کہ میری یہ دوسری شکاری مہم تھی۔
خیر ہم مختلف راستوں سے گزرتے ہوئے بڑھے۔ راستے میں ہاتھیوں کا ایک ریوڑ دیکھا۔ ان میں سے دو ہاتھیوں کے لمبے لمبے ہاتھی دانت دیکھ کر میرے اور سکاٹ کے منہ میں پانی بھر آیا۔ پیٹر ہمیں دیکھ کر مسکرایا اور کہنے لگا: ’’دوستو! پہلے تیندوا تو شکار کر لو۔ پھر دوسرے جانوروں کو بھی نشانہ بنا لینا۔‘‘ ہم نے راستے میں زیبرا اور زرافے بھی دیکھے، یہ افریقہ تھا، جہاں کے جنگل اور میدان شکاریوں کے لیے بہترین تحفہ ہیں۔ یہاں آنے والا شکاری اگر ایک جانور کے شکار کی نیت سے آیا ہو تو باقی جانور دیکھ کر خودبخود اس کا دل للچانے لگتا ہے۔ ایسی ہی حالت اس وقت میری ہو رہی تھی۔ شکار کا لطف گہرا ہوتا جا رہا تھا۔میرا دل کبھی ہاتھی کے شکار کو مچلتا تو کبھی دھاری دار زیبروں کو دیکھ کر۔ میں نے پیٹر سے کہا: ’’کیوں نہ بونس میں ایک زیبرا شکار کر لیا جائے آج۔۔۔؟‘‘
پیٹر نے مسکراتے ہوئے کہا ’’پہلے ہم تیندوے کے لیے چارہ ڈال آئیں پھر وقت بچا تو زیبرے پر قسمت آزمائی کر لینا۔‘‘ کچھ دور جانے کے بعد پیٹر نے جیپ رکوا دی۔ وہاں درختوں کے چھوٹے چھوٹے جھنڈ ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر تھے۔ جھاڑیاں بھی خاصی تعداد میں تھیں۔ اردگرد کا جائزہ لینے کے بعد پیٹر نے بھینسے کی ران ایک درخت پر بندھوائی اور دوسری پچاس گز دور ایک دوسرے درخت پر۔۔۔ جیپ کھڑی کرنے کے لیے اس نے جھاڑیوں کے ایک جھنڈ کا انتخاب کیا جو دونوں درختوں کے درمیان تھا۔ تا کہ جیپ چھپی رہے اور ہمیں جیپ سے دونوں درخت بآسانی نظر آ ئیں اور ہم نشانہ باندھ سکیں۔
پھر پیٹر نے مجھے اور سکاٹ سے کہا کہ ہم دوربین سے دیکھیں ہمیں دونوں چارے ٹھیک سے نظر آ رہے ہیں؟ پھر پیٹر نے ہمیں جیپ میں کھڑے ہو کر نشانہ باندھنے اور لگانے کی مشق کرائی۔ وہ ایک بہت اچھا استاد ثابت ہو رہا تھا۔ ایسا استاد جو اپنے شاگردوں کو ہر کوشش میں کامیاب دیکھنا چاہتا ہے۔ شام ہو چکی تھی اس لیے واپس جا کر زیبرے کا شکار کرنا اب ممکن نہیں تھا سو ہم جیپ میں ہی کھانا کھا کر رات ہونے اور تیندوے کا انتظار کرنے لگے۔ چاند نکل آیا، رات گہری ہو رہی تھی۔ ہم سب وقتاً فوقتاً دور بین سے دونوں درختوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ یہ تقریباً رات ایک بجے کا وقت تھا جب پیٹر کو درخت میں ہلچل محسوس ہوئی۔
ہم نے ساتھ لائی ہوئی سپاٹ لائٹ کو بھی درخت پر فوکس کر رکھا تھا۔ پیٹر دور بین سے دیکھنے لگا اور پھر اس نے سکاٹ کو اشارہ کیا کہ اس کے نشانہ باندھنے کا وقت آ چکا ہے۔ اس نے سکاٹ کے کان میں مزید سرگوشی کی ’’تم خوش قسمت ہو کہ تمھیں پہلی بار چارہ ڈالنے پر ہی تیندوے کو شکار کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ اب یہ تم پر ہے کہ تم کتنی مہارت اور پھُرتی سے نشانہ لگاتے ہو۔ میں سپاٹ لائٹ چلائوں گا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی روشنی پڑتے ہی تیندوا بھاگ جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ گوشت کی دعوت اڑاتا رہے۔ سو تم نشانہ باندھ کر لبلبی دبانے میں پھرتی دکھانا۔‘‘
پیٹر نے سکاٹ کو تیار رہنے کااشارہ کیا اور سپاٹ لائٹ چلا دی۔ اب ہم تیندوے کو واضح طور پر دیکھ سکتے تھے۔ یہ ایک نوجوان نر تیندوا تھا۔ وہ ایک دم روشنی جلنے پر کچھ حیران پریشان سا ہو گیا اور اپنی چمکدار آنکھوں سے جیپ کی طرف دیکھنے لگا۔ سکاٹ نشانہ باندھ چکا تھا۔ اسے لگا کہ تیندوا بس بھاگنے کو ہے سو اس نے گولی چلا دی۔ گولی تیندوے کے پیٹ پر لگی۔ وہ دھڑام سے درخت سے نیچے گرا۔ اس نے اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی مگر چند قدم دور جا کر گر گیا۔ ہم نے جیپ سٹارٹ کی اور تیندوے کے قریب لے آئے۔ سکاٹ کی گولی بالکل نشانے پر لگی تھی۔ ہمارے وہاں پہنچنے تک تیندوا ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ سکاٹ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ یہ اس کا دوسرا تیندوا تھا۔ پہلا تیندوا اس نے دو سال قبل زمبابوے میں شکار کیا تھا۔
میں نے سکاٹ کے نشانے کی داد دی۔ پیٹر اسے سکاٹ کی خوشی قسمتی قرار دے رہا تھا کہ اس نے پہلی ہی رات میں شکار مار لیا۔ ہم نے تیندوے کے ساتھ جی بھر کر تصویریں بنائیں اور پھر اسے جیپ میں ڈال کر اپنے خیمے کی طرف لوٹ آئے۔ کیونکہ رات جنگل میںاس جگہ گزارنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ ہمیں لگڑبھگوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اس سے لگتا تھا کہ شیر بھی کہیں قریب ہی ہے۔ ہم نے آہستہ سے جیپ چلاتے ہوئے اپنے خیموں میں جا کر ہی رات گزارنے میں عافیت جانی کیونکہ وہ ایک محفوظ جگہ پر تھا۔ اس کے اردگرد خار دار تاروں کی باڑ بھی بنی ہوئی تھی۔
ہم حکومت کی طرف سے شکار کا باقاعدہ پرمٹ لے کر آئے تھے۔ یہ حفاظتی انتظامات بھی حکومت کی طرف سے کیے گئے تھے کیونکہ اکثر سفاری اور شکاری ٹیمیں اسی جگہ پرخیمے لگاتی تھیں۔ رات کے ۳۰:۳ بج رہے تھے جب ہم خیمے میں پہنچے۔ سکاٹ کو تو خوشی کے مارے نیند نہیں آ رہی تھی مگر باقی سب تھکے ہوئے تھے سو اپنے اپنے خیموں میں جا کر سو گئے۔
اگلے دن صبح میرا اٹھنے کو بالکل دل نہیں چاہ رہا تھا مگر سکاٹ نے مجھے زبردستی اٹھا دیا کیونکہ آج ہماری سفاری کا آخری دن تھا۔ وہ مجھے چھیڑتا ’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے، تم سوئی رہو۔۔۔ میں تو آج وہ خوبصورت زیبرا شکار کروں گا جسے دیکھ کر کل تمھارا جی للچاتا تھا۔۔۔ میری مہم کا آج آخری دن ہے، تم اسے سو کر ضائع کر لو، میں نہیں کروں گا۔‘‘ باہر سے آنے والی آوازیں بتاتی تھیں کہ سب اٹھ گئے ہیں اور ناشتہ بھی تیار ہے۔ ’’باقی کی نیند گھر جا کر پوری کر لینا۔‘‘ سکاٹ نے جب مصنوعی ناراضگی سے کہا تو ناچار مجھے اٹھتے ہی بنی۔ میں نے سکاٹ سے کہا کہ وہ جا کر ناشتہ کرے، میں ۲ منٹ میں تیار ہو کر پہنچتی ہوں۔ جب میں تیار ہو کر پہنچی تو واقعی سب تیار اورناشتہ کر رہے تھے۔ میں بھی منہ ہاتھ دھو کرجلدی سے ناشتہ کرنے بیٹھ گئی۔
پیٹر کہنے لگا: ’’آج آپ کی مہم کا آخری دن ہے۔ میں پوری کوشش کروں گا کہ اسے آپ کے لیے گزشتہ دنوں سے زیادہ بھرپور اور یادگار بنا دوں۔‘‘ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور سکاٹ سے پوچھا کہ کیا واقعی وہ آج زیبرے کے شکار کا ارادہ رکھتا ہے؟ سکاٹ نے اثبات میں گردن ہلا دی۔
ہمارا قلی اور باورچی کومبو کھال اتارنے سے لے کرشکاری گوشت کو لذیذ اور مزیدار بنانے میں بے حد ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ کافی بھی بہترین بناتا تھا۔ ناشتے کے بعد اس کی بنائی لذیذ کافی پیتے ہوئے میں نے اس سے کہا ’’کومبو! میں تمھاری کافی کا ذائقہ گھر جا کربھی نہیں بھلا پائوں گی۔‘‘ وہ تو جیسے بے انتہا خوش ہو گیا اور بولا: ’’مادام میں بھی آپ لوگوںکا ساتھ کبھی نہیں بھولوں گا۔‘‘
ناشتے کے بعد ہم اپنا سامان سمیٹ کر جیپ میں بیٹھے اور اس جگہ روانہ ہوئے جہاں گزشتہ روز زیبرے دیکھے تھے۔ وہاں سے کچھ دور ایک ندی تھی۔ پیٹر جانتا تھا کہ زیبرے روزانہ اس جگہ سے مختلف اوقات میں گزرتے ہیں۔ سو ہم نے ندی کے قریب جھاڑیوں میں بیٹھ کر زیبرے کے انتظارکا فیصلہ کیا۔ صبح سے دوپہر ہو گئی مگر کوئی زیبرا نہیں آیا تو پیٹر خود ہی کہنے لگا ’’اس طرح تو آپ کا دن ضائع ہو جائے گا۔ ایسا کرتے ہیں جیپ میں گھومتے ہیں۔ مجھے امید ہے ہمیںجلد ہی زیبرے مل جائیں گے۔ سب نے اس بات سے اتفاق کیا۔ ہمارے گائیڈ مارٹن اور فلکر ہمیں ان میدانوں کی طرف رہنمائی کرنے لگے جہاں زیبرا ملنے کے قوی امکانات تھے۔ دوپہر کے ۳ بج رہے تھے جب ہمیں زیبروں کا ایک ریوڑ نظر آیا۔ ہم ان سے تقریباً سو گز دور تھے ۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ جیپ کا شور انھیں ہراساں کر دے۔
سو اتر آئے اور پیدل چلتے ہوئے ان کے قریب ہونے لگے۔ گروہ میں نر، مادہ اور چھوٹے زیبرے بھی موجود تھے۔ اب ہم زیبروں سے تقریباً ۳۵ گز دور تھے۔ وہ مگن چر رہے تھے۔ انھوں نے شاید ہماری موجودگی کو ابھی تک محسوس نہیں کیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ ہم دبے پائوں جھاڑیوں میں چھپتے چھپاتے آگے بڑھ رہے تھے اور ہوا کا رخ ان کی جانب سے ہماری طرف تھا۔
میں اور سکاٹ دونوں نشانہ باندھنے لگے تو پیٹر ہنسنے لگا اور بولا: ’’مسٹر سکاٹ کیا خیال ہے، پہلے موقع مادام کو نہ دیا جائے؟ کیونکہ اگر آپ دونوں نے ایک ساتھ گولی نہ چلائی تو یا تو مادام شکار سے محروم رہیں گی یا پھر آپ۔۔۔‘‘ سکاٹ نے مسکراتے ہوئے کہا’’ٹھیک ہے ڈیانا، مہم کا آخری دن تمھارے نام کرتے ہیں۔‘‘ اس پر پیٹر بولا: ’’سکاٹ! میں کوشش کروں گا کہ آپ بھی زیبرے کی خوبصورت کھال اپنے ساتھ لے جا سکیں۔۔۔ہم ان کا پیچھا کریں گے۔ کچھ دور جا کر آپ بھی ایک زیبرا شکار کر سکتے ہیں۔‘‘
سکاٹ مسکرانے لگا۔ اس دوران میں نشانہ باندھ چکی تھی۔ میں نے لبلبی دبا دی۔ گولی سیدھی زیبرے کی گردن میں لگی اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔
باقی ریوڑ بھاگ اٹھا۔ ہم نے شکار شدہ زیبرا جیپ میں ڈالا اور ریوڑ کا پیچھا کرنے لگے۔ ہم نے درمیان میں خاصا فاصلہ رکھا تاکہ ہم پہلے کی طرح بے خبری میں انھیں جا لیں۔ گھنٹہ بھر بھاگنے کے بعد ریوڑ ایک جگہ رک گیا، ہم نے بھی جیپ روک دی اور زمین پر رینگتے ہوئے ریوڑ کی طرف بڑھنے لگے۔ قریب پہنچ کر ایک جھاڑی کے پیچھے چھپ کر سکاٹ نشانہ باندھنے لگا۔ پیٹر اس کی ہمت بڑھا رہا تھا۔ سکاٹ نے نشانہ باندھ کر لبلبی دبا دی۔ گولی زیبرے کی آنتوں کو چیرتی ہوئی اسے وہیں ڈھیر کر گئی۔ باقی ریوڑ ایک بار پھر خوفزدہ ہو کر بھاگ اٹھا۔
ہم نے دونوں زیبروں کے ساتھ جی بھر کر تصویریں بنائیں۔ ۶ بج رہے تھے، شام ہو رہی تھی۔ ہم نے دونوں زیبروں کو جیپ میں ڈالا اور واپس شہر کی طرف روانہ ہو گئے۔ تنزانیہ میں ہماری شکاری سفاری توقع سے زیادہ کامیاب، دلچسپ اور تفریح سے بھرپور رہی۔ ہم نے ہر دن ایک شاندار شکار کیا اور آخری دن تو دو شاندار شکار کر ڈالے۔ پیٹر نے ٹھیک کہا تھا ، اس نے آخری دن ہمارے لیے دگنا یادگار بنایا۔ ہم نے پیٹر، مشاک، کومبو، فلکر اور مارٹن کا شکریہ ادا کیا۔ وہ لوگ اگر اس قدر خلوص اور محنت سے ہمارا قدم قدم پر ساتھ نہ دیتے تو شاید ہم ۵ دنوں میں ایک بھی شکار نہیں کر پاتے۔ ۵ دنوں میں یہ ۶ شکار مجھے ہمیشہ یاد رہیں گے۔ سکاٹ تو اس قدر خوش اور پُر جوش ہے کہ ابھی سے اگلے سال اسی ٹیم کے ساتھ تنزانیہ کے جنگلوں میں ۵ نہیں بلکہ ۱۵ دن گزارنے کا پروگرام بنا رہا ہے۔
٭٭٭
بشکریہ اردو ڈائجسٹ

Popular Posts