بدھ، 3 اپریل، 2013

خونخوار درندوں سے دو دو ہاتھ
الحاج خان بہادر حکیم الدین
حصولِ رزق کے سلسلے میں انسان جہاں کسی سرکاری یا غیرسرکاری ملازمت کا راستہ اختیار کرتا ہے وہاں یہ لازم نہیں کہ وہ ملازمت اس کے طبعی رجحانات سے بھی کوئی مناسبت یا مطابقت رکھتی ہو، ورنہ گلے میں پڑا ہوا یہ ڈھول بہرحال تمام عمر بجانا پڑتا ہے۔ تاہم انڈین فارسٹ سروس کے گُلِ سرسبد، برصغیر پاک و ہند کے ممتاز مسلمان شکاری اور میرے مشفق الحاج خان بہادر حکیم الدین ریٹائرڈ ڈویژنل فارسٹ آفیسر (یو۔پی) اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ وہ جس سرکاری عہدے پر فائز ہوئے اُس کی ذمہ داریوں سے پوری طرح مطمئن تھے۔ چنانچہ فرماتے تھے کہ اگر ہندوؤں کا مسئلہ تنا سخ (آواگون) صحیح ہوتا تو میری خواہش یہی ہوتی کہ مجھے آئندہ زندگی میں بھی ڈویژنل فارسٹ آفیسر ہی کا عہدہ ملے۔
الحاج خان بہادر حکیم الدین ۱۸۸۶ء میں قصبہ سنگاہی ضلع کھیڑی لکھیم پور (یو۔پی) میں پیدا ہوئے جو نیپال کی سرحد کے بالکل قریب واقع ہے۔ اس خطے میں سالانہ بارش پچاس انچ کے قریب ہوتی ہے۔ جاڑوں میں سخت جاڑا پڑتا ہے لیکن گرمیوں میں ٹمپریچر ایک سو بارہ ڈگری تک پہنچتا ہے۔ لُو ہلکی اور چند ہی دن چلتی ہے۔ راتیں گرمیوں میں کافی ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ زمین ہموار ہے لیکن ندی، نالے اور جھیلیں بہ کثرت موجود ہیں۔ آب و ہوا مرطوب ہے اس لیے علاقے کا بیشتر حصہ سرسبزوشاداب اور گنجان جنگلوں پر مشتمل ہے جن میں ہر قسم کے پرندے اور جنگلی جانور پائے جاتے ہیں۔ سردی کے موسم میں مرغابیاں، قاز اور کلنگ ہزاروں کی تعداد میں شمال کے انتہائی سردملکوں سے اُڑ کر اِدھر کا رُخ کرتے ہیں اور اکتوبر سے مارچ کے آخر تک ان جنگلات میں رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ ان پرندوں کے علاوہ مور، مرغ، تیتر اور بٹیر بھی ہر موسم میںملتے ہیں۔ جنگلی جانوروں میں ہرن، چیتل، کانکڑا، پاڑھے، سانبھر، نیل گائے، سور، جنگلی کُتے، گھڑیال، ریچھ، گلدار اور شیر بھی کافی تعداد میں دستیاب ہوتے ہیں۔ غرض اس علاقے میں ہر قسم کا چھوٹا بڑا شکار سال کے ہر موسم میں ملتا رہتا ہے اور شکاری کبھی بھی وہاں سے مایوس نہیںلوٹتا۔ اس لحاظ سے یہ خطّہ شکاری کی جنت تصور کیا جاتا ہے۔
دورِ حاضر میں انسانی آبادی میں گونا گوں اضافوں اور جنگلوں کو زرعی اراضی میں تبدیل کرنے کی مسلسل مہمات کی وجہ سے اب شکار کی وہ کثرت نہیں رہی وگرنہ ان کے بچپن کے زمانے میں ان جنگلوں میں سوسو، دو دوسواور تین تین سو ہرنوں کے غول کے غول ہر وقت منڈلاتے پھرتے تھے اور کسی ایسے شخص کے لیے جس کو بندوق چلانے پر ذرا بھی قدرت حاصل ہوتی دوچار ہرنوں کو مار کرلے آنا معمولی بات تھی۔
خان بہادر صاحب کو بچپن ہی سے شکار کا شوق تھا۔ وہ تیر کمان یا غلیل لے کر جنگل میں نکل جاتے اور وہاں چڑیوں اور اسی قسم کے چھوٹے چھوٹے پرندوں پر طبع آزمائی کرتے۔ عمر کے ساتھ ساتھ اُن کا یہ شوقِ شکار بھی جوان ہوتا گیا۔ اُن کے والد صاحب کے پاس بندوق موجود تھی۔ انہوں نے جلد ہی اس کا استعمال بھی سیکھ لیا اور اب ہرن، چیتل اور پاڑھے اُن کی بندوق کا نشانہ بننے لگے۔ شکار سے اُن کی دلچسپی اس قدر بڑھی کہ جب انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کرلیا تو ملازمت کے لیے محکمۂ جنگلات کا انتخاب کیا اورمبلغ پچیس روپے ماہوار تنخواہ پر اس محکمے میں رینجربھرتی ہوگئے۔
ملازمت اختیار کرنے کے بعد پہلادن جو انہوں نے جنگل میں گزارا وہ اُن کے لیے بڑی مسرت اور انبساط کا دن تھا۔ وہ لکھتے ہیں "مجھے جنگلوں سے عشق تھا۔ میں نے کبھی ایسے لق و دق، گھنے اور شاداب جنگل اب سے پیشتر نہیں دیکھے تھے۔ اُن میں طرح طرح کے پرندے اور جانور موجود تھے۔ میں اُن کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ پہلی ہی رات میں نے پرندوں کی بولیاں اور جنگلی جانوروں کی آوازیں سنیں جو پہلے کبھی سننے میں نہ آئی تھیں۔ میں روزبروز اُن کی معمولی اور خطرے کی آوازوں کا فرق سمجھنے لگا اور شیر، گلدار، ریچھ، جنگلی کتوں، سانبھر، اور بارہ سنگوں کے پیروں کے نشانات بھی سڑکوں اور ندی نالوں اور جھیلوں کے کناروں پر دیکھنے اور پہچاننے لگا۔ چھوٹے چھوٹے اہل کار عام طور پر جنگلوں میں تیز کلہاڑی یا ہلکا بھالا رکھتے ہیں۔ میں نے بھی ایک ہلکی سی تیز کلہاڑی خریدلی اور اُس کے بل پر تمام دن جنگلوں میں جہاں چاہتا گھومتا پھرتا اور جنگلوں کے مناظر اور پرندوں اور جانوروں کی صحبت سے لطف اندوز ہوتا۔
اس زمانے ۱۹۰۷ء میں سب چیزیں بے حد سستی تھیں۔ گیہوں روپے کے بیس سیر، چاول سولہ سیر، گھی دو سیر، گوشت ڈھائی آنے سیر، دودھ ایک آنے سیر، مرغی دو آنے کی اور انڈے تین درجن ملتے تھے جب کہ بکری ایک روپے کی، گائے پانچ روپے کی اور بھینس بیس روپے کی آتی تھی۔ مزدور دو آنے روزانہ مزدوری لیتا تھا۔ غرض زندگی بڑے عیش و آرام سے گزر رہی تھی۔"
اگلے تین چارمہینوں میں انہوں نے کفایت شعاری کرکے پچیس روپے بچالیے اور اُن سے انہوں نے ایک رائفل خریدلی۔ جی ہاں! نہ صرف یہ نئی ولایتی رائفل تھی بلکہ اس کے ہمراہ پانچ سو کار توس بھی اُن کو صرف پچیس روپے میں ملے تھے۔ اللہ اللہ کیا مبارک زمانہ تھا جس میں عمدہ سے عمدہ چیزیں بھی کس قدر ارزاں سے ارزاں تھیں۔ اور یوں خان بہادرصاحب اب پورے شکاری بن گئے۔
خان بہادرصاحب کی شکاری زندگی پچاس برسوں سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ اس طویل دور میں انہوں نے ایک آدم خور شیر، ایک مست خونخوار ہاتھی، چار ریچھ، اکیس شیر اور پینسٹھ گلدار مارے۔ اُن کے دوست واحباب اُن سے ازراہِ مذاق کہا کرتے تھے کہ اگر تم امین آباد پارک (لکھنؤ) میں بھی بکری اور مچان باندھ کر بیٹھو تو امید ہے کہ وہاں بھی کوئی نہ کوئی شیر یا گلدار آکودے گا چاہے وہ چڑیا گھر ہی کا کیوں نہ ہو۔
خان بہادرصاحب اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ گولی لگنے پر اگر جانور فوراً نہ گرے تو آواز دے کر اپنی ناک کی سیدھ میں بھاگتا ہے۔ اُس وقت کوئی اُس کے سامنے آجائے تو ضرور حملہ کرتا ہے۔ اگر ہلکی چوٹ لگی ہو تو میلوں دوڑتا چلا جاتا ہے لیکن زیادہ چوٹ لگی ہو تو نزدیکی گھاس یا جھاڑی میں چھپ جاتا ہے۔ شیر اور گلدار کے سریا گردن کی ہڈی میں اگر گولی لگے تو فوراً مرجاتا ہے۔ اگر دل میں لگے تو سو پچاس قدم کے اندر گر کر مرجاتا ہے۔بغل میں لگتی ہے تب بھی جلد مرجاتا ہے۔ کمر ٹوٹ جاتی ہے تو بہت شور مچاتا ہے، تڑپتا ہے اور بہت دیر میں مرتا ہے۔ پھیپھڑوں میں گولی لگے تو میل دو میل جاکر گھنٹے دو گھنٹے میں مرجاتا ہے مگر پیٹ، ٹانگ وغیرہ میں گولی لگنے سے ہفتوں زندہ رہتا ہے اور اُس وقت اُس کے پاس جانا بہت خطرناک ثابت ہوتا ہے، البتہ جب شیرنی بچوں کے ساتھ ہوتی ہے تو اُس وقت وہ بھی بہت خوں خوار ہوتی ہے۔
شیرجس وقت آدم خور ہوجاتا ہے تو انسان کا قدرتی خوف اُس کے دل سے نکل جاتا ہے ورنہ عام حالات میںوہ انسان سے اتنا ہی ڈرتا ہے جتنا انسان خود اُس سے خوف زدہ ہوتا ہے۔ آدم خور ہونے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں مثلاً بڑھاپا، کمزوری یا کچے شکاری جب ہاتھ، پاؤں یا دانت بے تکی گولی چلا کر توڑ ڈالتے ہیں تب وہ غصے یا بھوک کی حالت میں اچانک کسی آدمی کے گھاس یا لکڑیوں کی تلاش میں پاس آجانے سے اُس کے اوپر حملہ کردیتا ہے اور جب اُسے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ آدمی جس سے وہ اب تک اتنا ڈرتا تھا، کامارنا جانوروں کے مارنے سے کتنا آسان ہے تو اُس کی ہمت اور بڑھ جاتی ہے۔ میرا یہ بھی ذاتی تجربہ ہے کہ آدم خور شیر یا شیرنی کے بچوں میں دودھ اور خون کے ذریعے سے بھی یہ اثر ضرور آجاتا ہے اور اُس کی نسل سے کوئی نہ کوئی آدم خور ضرور پیدا ہوتا ہے۔ شیر اور گلدار اپنے شکار کو دوڑ کر نہیں پکڑتے بلکہ وہ اپنے شکار کے قریب آہستہ آہستہ چھپ کر پہنچتے ہیں اور جب وہ دوچار قدم رہ جاتا ہے تو اچانک اُس کو دبوچ لیتے ہیں بالکل بلی کی طرح جب وہ چوہے کو پکڑتی ہے۔ اُن کی یہ بھی عادت ہے کہ جب وہ کہیں اپنے شکار کی گھات میں چھپے بیٹھے ہوں اور ان کو یہ خیال ہوجائے کہ اُن کو کسی نے نہیں دیکھا ہے تو وہ آدمیوں یا گاڑیوں کی بالکل پروا نہیں کرتے چاہے وہ اُن کے کتنے ہی قریب سے کیوں نہ گزر جائیں۔ نہ وہ حملہ کرتے ہیں اور نہ دوسرے جنگلی جانوروں کی طرح بھاگتے ہیں بلکہ دبکے ہوئے چھپے رہتے ہیں۔ شکاری کو جنگل کے مختلف جانوروں اور چڑیوں کی خطرے کی آوازوں کو جانتا بے حدضروری ہے، اس سے اُس کو شکار کی تلاش میں بڑی مدد ملتی ہے۔ یہ آوازیں اُن کی روزمرہ کی آوازوں سے بالکل مختلف ہوتی ہیں۔ اور اُن کے دشمنوں کا جو عموماً شیر، گلدار، ریچھ، لگڑبگڑ اور جنگلی کتّے ہوتے ہیں بخوبی پتہ لگ جاتا ہے۔ یہ آوازیں مختلف چڑیاں، کوّے، چیتل، سانبھر، کانکڑا، نیل گائے، بارہ سنگے اور بندر وغیرہ سب ہی جانور دیتے ہیں۔
شکاری کو شیر، گلدار، ریچھ وغیرہ پر گولی پچاس قدم یا اُس سے کم فاصلے سے چلانا چاہیے تاکہ نشانے پر ٹھیک لگے اور کارگر ثابت ہو،وگرنہ دوسرے حالات میں گولی کا نہ چلانا ہی بہتر ہے۔ گولی منہ میں، گردن میں یا کمر کی ہڈی پر مارنا چاہیے۔ باقی کسی اورجگہ گولی مارنا مصیبت مول لینے والی بات ہے۔ جانوروں کے زخمی ہونے کے بعد فوراً پیچھا کرنا یا تلاش کرنا جب اُن کا غصہ اور بدلہ لینے کا خیال تازہ ہو اور وہ کافی کمزور اور مجبور نہ ہوگئے ہوں، بہت بڑی غلطی ہے۔ لہٰذا بہتر یہ ہوتا ہے کہ اُن کو بارہ گھنٹے بعد یا دوسرے دن تلاش کیا جائے جب وہ یا تو مرے ہوئے ملتے ہیں یا وہاں سے دور چلے جاتے ہیں اور خطرہ کم ہوجاتا ہے۔
الحاج خان بہادرحکیم الدین صاحب کی شکاری مہمات کی داستانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اُن کے متحمل یہ مختصر اوراق نہیں ہوسکتے تاہم قارئین کی تفریحِ طبع کے لیے مختصر طور پرچند ایک واقعات یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔
خان بہادر صاحب رقم طراز ہیں کہ ایک روز ایک گوالا دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میری ایک گائے کو چیت سانپ نے پکڑرکھا ہے، آپ چل کر اُس کو مار دیجئے۔ میں نے واقعہ دریافت کیا اور اُس کے ہمراہ چل پڑا۔ کوئی ڈیڑھ میل چلنے کے بعد وہ مجھے قریبی پہاڑ کی ڈھلوان پر لے گیا جہاں ایک جگہ کافی سبزگھاس اور تھوڑا سا پانی تھا جس میں گائیں اور بھینسیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ پاس ہی سفید رنگ کی ایک تندرست گائے کو چیت سانپ نے اس قدر زور سے جکڑا ہوا تھا کہ اُس کے پیٹ سے بچہ نکل پڑا تھا اور ناک کان اور منہ سے خون بہہ رہا تھا۔ اُس کے چاروں پاؤں اور پسلیاں، معلوم ہوتا تھا، کہ کسی نے توڑ کر رکھ دی ہیں۔
چرواہے نے بتایا کہ میں وہاں سامنے ایک درخت کے نیچے بیٹھا ہوا آرام کررہا تھا اور گائیں یہاں چررہی تھیں کہ یکایک میں نے ایک گائے کو بُری طرح ڈکراتے ہوئے سنا۔ میں دوڑ کر جب اُس کے نزدیک آیا تو دیکھا کہ گائے زمین پر پڑی ہوئی ہاتھ پاؤں مار رہی ہے اور یہ چیت سانپ اُس کے گرد لپٹا ہوا ہے۔ میں نے اس کو پتھر مارے، شور مچایا مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ پھر میں دوڑ کر آپ کے پاس چلا آیا تاکہ آپ سے کچھ مدد حاصل کروں۔ میں نے کہا کہ اب تمہاری گائے تو مرہی گئی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ چیت سانپ کے مارنے سے مصیبت آتی ہے۔ بہتر ہوگا کہ آگ جلا کر جلتی ہوئی لکڑی سے اس کو داغ دیا جائے تاکہ وہ عمر بھریاد رکھے اور پھر کسی کی گائے کو نہ مارے۔ چنانچہ ہم نے آگ جلائی اور جلتی ہوئی لکڑی سے اس کو کئی جگہ سے خوب داغا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سانپ نے گرفت ڈھیلی کردی اور وہ گائے کوچھوڑ کر چلا گیا۔ یہ سانپ کافی بڑا اور موٹا تھا۔ مگر اس گائے کو نگلنے کے قابل نہ تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کس لیے اس کم بخت نے اتنے بڑے جانور کو بلاوجہ مار ڈالا۔ چیت سانپ صرف نگلتا ہے جانور کو کاٹ کر نہیں کھاتا۔ لیکن گوالا کہنے لگا کہ وہ گائے کو ضرور نگل جاتا اور پھر اس جگہ پر ہفتوں بلکہ مہینے بھر اُسے ہضم کرنے کے لیے پڑا رہتا۔
ہمارا چمڑے کا ٹھیکیدار جو ہندوچمار تھا کئی روز سے اصرار کررہا تھا کہ میں اُس کے لیے ایک سور ماردوں۔ چنانچہ ایک شام کو ہم دونوں پانچ سوبور دونالی رائفل لے کر اپنے کیمپ کے جنوب میں گھاس کے رقبے میں گئے جس میں بے شمار بیروں کی جھاڑیاں لگی ہوئی تھیں اور وہاں صبح و شام درجنوں سور بیر کھانے کے لیے آتے رہتے تھے۔ ہم ایک میل کے قریب چل کر پکی سڑک پر آگئے۔ ہم نے سڑک کے بائیں طرف بیروں کی گٹھلیوں کے ٹوٹنے کی آوازیں سنیں۔ یہ سور تھے جو بیر کھانے کے شغل میں مصروف تھے۔ میں نے ٹھیکیدار کو وہیں کھڑا رہنے کے لیے کہا۔ میں خود پنجوں کے بل آگے بڑھا اور آہستہ آہستہ سوروں کے غول سے چالیس قدم کے فاصلے پر پہنچ گیا۔ میں ایک جھاڑی کے پیچھے چھپا کھڑا تھا اور موقع کی تلاش میں تھا کہ کوئی موٹا تازہ نرسُور دکھائی دے تو فائر کروں لیکن پوزیشن ایسی تھی کہ میں دوچار کی پیٹھ کے سوا اور کچھ نہ دیکھ رہا تھا۔ چنانچہ میں تھوڑا سا اور آگے بڑھا۔ میرا آگے بڑھنا تھا کہ اُن کو میری موجودگی کا شک ہوگیا۔ انہوں نے سر اٹھا کر دیکھا تو اُن کی نظریں مجھ پر پڑیں۔ انہوں نے بیرکھانا چھوڑ دیا اور تیزی سے میری طرف بڑھنے لگے۔ گننے کا موقع کہاں تھا البتہ دس بارہ ضرور ہوں گے۔ یہ صورتِ حال سخت خطرناک تھی لیکن میں نے حوصلہ قائم رکھا اور ایک بڑے سُور کا نشانہ لے کر اُس پر فائر کردیا۔ گولی لگتے ہی وہ گرپڑا اور باقی سُور اِدھراُدھر بھاگ گئے۔ میں جھاڑی سے نکل کر کھلے میدان میں آگیا اور ٹھیکیدار کو آواز دی۔ میری آواز سنتے ہی سور کھڑا ہوگیا اور مجھ پر حملہ کرنے کے لیے میری طرف دوڑا۔ میری رائفل کی دوسری نالی میں گولی تھی مگر گھبراہٹ میں فائر نہ کرسکا۔ میں نے کسی سے سُنا تھا کہ سور حملہ کرتے وقت مڑتا نہیں ہے بلکہ سیدھا دوڑتا ہے چنانچہ میں اِدھر اُدھر بھاگنے کی بجائے وہیں کھڑا ہوگیا اور جب تھوڑا سا فاصلہ رہ گیا تو میں ایک طرف کو مُڑگیا اور سُور سیدھا بھاگتا ہوا چلا گیا۔ بھاگتے ہوئے وہ اتفاقاً ٹھیکیدار کے پاس سے گزرا جس نے شور مچادیا اور اپنا لمبا بانس زور زور سے زمین پر مارا۔ سُور تھوڑی دور جاکر گرپڑا اور مرگیا۔ میں نے جاکر دیکھا گولی اُس کی پسلیوں میں لگی تھی اور دوسری طرف بڑا سا سوراخ کرکے نکل گئی تھی اور اس جگہ جہاں وہ پہلے گرا تھا پھیپھڑے کے ٹکڑے نکل کر گھاس اور جھاڑی پر بکھرے ہوئے تھے۔ جنگلی سُور کی طاقت کا کیا ٹھکانہ، شیر کے مقابلے میں خم ٹھونک کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ تب ہی یہ سور اتنا کاری زخم کھانے کے باوجود اُٹھ کھڑا ہوا اور مجھ پر حملہ آور ہونے کے لیے تیزی سے دوڑا۔ تاہم یہ دوسری بات ہے کہ خدا نے ابھی میری زندگی رکھی ہوئی تھی اور وہ کامیاب نہ ہوسکا۔
لینسڈون فارسٹ ڈویژن میں جنگلی ہاتھیوں کا شمار اُس زمانے میں ڈیڑھ سو کے قریب کیا جاتا تھا اور وہ ہر دوار سے کوٹ دوار تک کوئی تین سو مربع میل کے رقبے میں پھیلے ہوئے تھے۔ یہ ہاتھی عموماً آبادیوں سے دور رہتے تھے لیکن اُن میں سے چند ایک ہاتھیوں کو آبادی کے نزدیک کھیتوں میں فصلیں اور چارہ کھانے کی عادت پڑگئی تھی، یہی نہیں بلکہ وہ مستی میں آکر جنگل کے ٹھیکیداروں اور گوجروں کے چھپر بھی گرادیتے تھے اور اجناسِ خوردنی، گڑ اور نمک وغیرہ پرپل پڑتے تھے۔ کبھی کبھی وہ اتنا طیش میں آتے کہ جانوروں اور آدمیوں کو بھی مارڈالنے سے گریز نہ کرتے تھے۔
ایک روز میں نے سُنا کہ ہمارے کیمپ سے کوئی چار میل کے فاصلے پر ہاتھیوں کے ایک ایسے ہی ٹولے نے ایک گوجر کے چھپر توڑ ڈالے اور ایک عورت اور اس کے بچے کو مار ڈالا۔ چنانچہ دوسرے دن میں اپنے رینجر، فارسٹ گارڈ اور اردلی کو ہمراہ لے کر وہ جگہ دیکھنے کے لیے گیاجہاں یہ واقعہ ظہور پذیر ہوا تھا۔ ہم نے وہاں دیکھا کہ دو چھپر ٹوٹے پڑے ہیں اور تانبے اورمٹی کے برتن اور کچھ گھریلوسامان اِدھراُدھر بکھرا ہوا پڑا ہے اور چند آدمی نئے سرے سے چھپر بنارہے ہیں۔ واقعے کی تفصیل دریافت کرنے پر وہ لوگ رونے لگے۔ پھر وہ ہمیں ساتھ لے کر چھپروں سے چالیس پچاس قدم کے فاصلے پر برگد کا وہ درخت دکھانے لیے گئے جس کے پاس ہاتھیوں نے ایک عورت اور اُس کے ننھے سے بچے کو مارا تھا۔ وہاں اُن کاخون بھی ابھی تک جما ہوا تھا۔ یہ منظر بڑا درد ناک تھا اور اس لحاظ سے بے حد متاثر کن تھا کہ ماں کس حد تک اپنے بچے کے لیے اپنے آپ کو قربان کرسکتی ہے۔
ان لوگوں نے ہمیں بتایا کہ کل صبح ہمارے دومرد اور دو عورتیں اپنے ایک بیمار رشتے دار کو جو یہاں سے تین میل کے فاصلے پر ایک گاؤں میں ہے، دیکھنے کے لیے چلے گئے اور باقی جانوروں کو چرانے کے لیے جنگل میں نکل گئے۔ یہاں صرف ایک عورت اور اُس کے دو بچے رہ گئے۔ عورت چھپر کے اندر کھانا پکانے کے لیے سامان ٹھیک کررہی تھی اور اُس کی نوبرس کی لڑکی اور تین برس کا لڑکا باہر چھپروں کے سامنے کھیل رہے تھے اور بھینسوں کے پانچ کٹے بھی کچھ فاصلے پر بندھے ہوئے تھے۔ یکایک انہوں نے کچھ ہاتھیوں کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا کہ ہاتھیوں نے بھینس کے پڈوں کو گھیر رکھا ہے چنانچہ وہ جلدی سے ایک ٹین لائی اور اس کو لکڑی سے بجانے اور شور کرنے لگی مگر ہاتھیوں نے کوئی پروا نہیں کی۔ جب عورت نے دیکھا کہ ہاتھی پڈوں کو ماررہے ہیں تو اُس نے گھبراہٹ اور غصے میں خالی ٹین کو ایک طرف پھینک دیا۔ اس پر ایک ہاتھی عورت کی طرف دوڑا لیکن اُس نے تیزی سے بھاگ کر اُس برگدکے درخت کے اوپر چڑھ کر اپنی جان بچائی۔ ہاتھی لوٹ گیا تو عورت نے وہیں سے پکار کر بچوں سے کہا کہ وہ چھپر کے اندر کسی کونے میں چھپ جائیں۔ ہاتھیوں نے ایک ایک کرکے تمام پڈوں کو مار دیا اور پھر اُنہیں کچل ڈالا۔ پڈوں کو ختم کرنے کے بعد ہاتھیوں نے چھپروں کا رُخ کیا اور ایک چھپر کو گرا کر سامان توڑنا پھوڑنا اور اجناس خوردنی کو کھانا شروع کردیا۔ ماں ڈرنے لگی کہ کہیں وہ دوسرے چھپّر کو بھی نہ گرادیں جس میں اُس کے بچے چھپے ہوئے تھے۔ اُس کا خیال واقعی درست تھا۔ ہاتھیوں نے اب دوسرے چھپّر کی طرف رُخ کیا تو ماں نے بیٹی کو آواز دی کہ کونے میں ٹٹی کو پھاڑ کر چھپّر کے پیچھے سے بھائی کو لے کر جنگل میں بھاگ جاؤ اور کسی جھاڑی میں چھپ جاؤ۔ لڑکی نے بڑی مشکل سے ٹٹی کو پھاڑا اور بھائی کو لے کر جنگل کی طرف بھاگی مگر بدقسمتی کہ لڑکا روتا ہوا ماں کی طرف دوڑا اور برگد کے سامنے کھڑا ہوکر رونے لگا۔ بے کس ماں کا بچے کو خطرے میں دیکھ کر درخت سے اترنا تھا کہ ہاتھیوں نے اُسے آلیا اور اُسے اور اُس کے بچے کو آنِ واحد میں کچل کر مارڈالا۔ یہ دردناک واقعہ اُس معصوم لڑکی نے رورو کر ہچکیاں لیتے ہوئے اس طرح بیان کیا کہ ہم سب کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے لیکن سوائے تسلی اور تشفی کے اور کیا کرسکتے تھے کہ اتنی بڑی تعداد میں ہاتھیوں سے نمٹنا کوئی آسان کام نہ تھا۔
ایک روز میرے کیمپ کے قریب سے ایک عورت روتی ہوئی گزر رہی تھی۔ میں نے اردلی سے کہا "دیکھو یہ عورت کون ہے اور کیوں رو رہی ہے؟"
اردلی باہر نکلا اور اُس عورت کو بلا کر میرے پاس لے آیا۔ یہ ایک بوڑھی عورت تھی۔ میں نے اُس سے دریافت کیا کہ مائی کیا معاملہ ہے تم کیوں رو رہی ہو؟ اُس نے جواب دیا کہ میں ایک بیوہ ہوں اور اپنی گزر بسر کے لیے گاؤں والوں کی گائیں چراتی ہوں جن میں میری اپنی بھی تین گائیں شامل ہیں۔ میری ایک گائے تھوڑا سا دودھ دیتی تھی۔ آج اُسی گائے کو گلدارنے مار ڈالا ہے۔ یہ کہہ کر وہ پھر رونے لگی۔ میں نے اُسے بمشکل چپ کرایا اور پوچھا کہ وہ جگہ یہاں سے کتنی دور ہے۔ اُس نے جواب دیا کہ بالکل نزدیک ہے۔ چنانچہ میں نے اپنے اردلی اور ایک خلاصی کو اُس عورت کے ہمراہ جائے واردات کی طرف روانہ کردیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ قریبی درخت پر مچان باندھ دیں۔ میں اُن کی واپسی پر اُن کے ساتھ چلوں گا۔ جب اردلی لوٹ کر آیاتو شام کے چار بج چکے تھے اور میں چائے سے فارغ ہوکر اُس کا انتظار کررہا تھا۔ اردلی نے بتایا کہ جب ہم لوگ وہاں پہنچے تو گلدار موجود تھا اور گائے کی لاش کو کھارہا تھا لیکن ہمارے پہنچتے ہی وہ قریبی سوکھے نالے میں اُترگیا۔ نالے کے دونوں طرف گھنی جھاڑیاں تھیں۔ لیکن مچان باندھنے کے لیے وہاں کوئی مناسب درخت نہیں تھا۔ بہرحال میں اردلی کو ساتھ لے کر وہاں پہنچ گیا۔ خلاصی نے مجھے بتایا کہ چیتا نالے میں موجود ہے اور اُس نے لاش کو ابھی پیٹ بھر کر نہیں کھایا ہے اس لیے امید ہے کہ وہ گائے کی لاش پر ضرور آئے گا۔ چنانچہ میں نے سب آدمیوں کو وہاں سے دور ہٹادیا اور گائے کی لاش سے کوئی پچیس قدم کے فاصلے پر کروندے کی ایک گھنی جھاڑی کا انتخاب کرکے اُس کے اندر چھپ کر بیٹھ گیا۔ مجھے یہاں بیٹھے ہوئے کوئی بیس منٹ گزرے ہوں گے کہ میں نے سوکھے ہوئے پتوں پر کسی جانور کے چلنے کی آہٹ سُنی۔ میں مقابلے کے لیے تیارہوگیا۔ میں نے آہستہ آہستہ اپنی ۳۶۶بور مازر رائفل آنے والے جانور کی تواضع کے لیے سیدھی کرلی لیکن افسوس میرے ارمانوں پر اوس پرگئی جب میں نے دیکھا کہ دو مریل سے خارش زدہ گیدڑ چوروں کی طرح اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے دم لٹکائے میرے سامنے آکر کھڑے ہوگئے۔ جب وہ چاروں طرف دیکھ رہے تھے تو میں جھاڑی میں دبک گیا تاکہ وہ مجھے دیکھ کر نہ بھاگیں اور کچھ پیٹ پوجا کرلیں کیونکہ دوسرے جانور کی لاش پر موجودگی سے اصل قاتل رشک اور غصے کی وجہ سے ایک دم اندھا ہوکر دوڑ پڑتا ہے۔ دوسرے اس کو لائن کلیر بھی مل جاتی ہے کہ کوئی خطرہ نہیں ہے چنانچہ دونوں گیدڑ آگے بڑھ کر آزادی سے گائے کی لاش کو کھانے لگے۔۔۔۔۔۔ ابھی انہوں نے کھانا شروع ہی کیا تھا کہ ایک گیدڑ نے خطرہ محسوس کیا۔ اُس نے سر اُٹھا کر سامنے کی طرف دیکھا اور پھر چیخ مار کر بھاگنے لگا دوسرے گیدڑ نے بھی وہاں ٹھیرنا مناسب نہ سمجھا اور وہ بھی اُس کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ میں نے سمجھا کہ گلدار کی آمد آمد ہے مگر بجائے گلدار کے ایک پورے قد کا لگڑبگڑ آتا دکھائی دیا۔ وہ گائے کی لاش سے قریب بیس قدم کے فاصلے پر ٹھیرگیا اور چاروں طرف دیکھتا اور ہوا کو اپنی چوڑی ناک سے سونگھتا رہا۔ پھر لاش کے پاس آکر بجائے کھانے کے اُس نے فوراً گائے کی گردن پکڑی اور اُسے شمال کی طرف کھینچنا شروع کردیا۔ میں نے سیٹی بجائی، وہ ذرا رکا، چاروں طرف دیکھا اور گھسیٹنے لگا۔ میں نے جیب سے رومال نکال کر ہلایا اور سیٹی بجائی۔ اس نے میری طرف غور سے دیکھا اور بھاگ گیا مگر تھوڑی دیر میں پھر آگیا۔ دوسری دفعہ جب وہ آیا تو باوجود میرے سیٹی بجانے کے اور رومال ہلانے کے وہ لاش کو میرے سامنے سے گھسیٹ کر لے گیا۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ لگڑبگڑ میں بھی اس قدر طاقت ہوتی ہے۔ میں آخرکار جھاڑی سے نکلا اور اپنے دونوں آدمیوں کو بلا لیا۔ ہم نے لگڑبگڑ کو ڈرا دھمکا کر دور بھگا دیا اور تینوں نے مل کر بڑی مشکل سے گائے کی لاش کو کھینچ کر اُسے اُس کی اصل جگہ پر ایک جھاڑی سے باندھ دیا۔ میں پھر جھاڑی میں بیٹھ گیا اور اپنے آدمیوں کو واپس کردیا۔ اتنی گڑ بڑ اور شور شرابے کے بعد گلدار کے آنے کی اُمید بہت کم رہ گئی تھی لیکن میں نے شام تک بیٹھنے کا ارادہ کرلیا۔ سورج ڈوبنے کے قریب لگڑبگڑ پھر آگیا اور گائے کو کھینچنے کے لیے جھٹکے دینے لگا مگر رسی کو نہ توڑ سکا۔ پھر چاروں طرف دیکھ کر بیٹھ گیا اور لاش کو کھانے لگا۔ اب اندھیرا ہونے لگا تھا اور میں مایوس ہوکر اُٹھنے کا ارادہ کررہا تھا کہ یکایک لگڑبگڑ اُچھلا اور بھاگا۔ میں اس کے یکدم بھاگنے کی وجہ سے چاروں طرف دیکھنے لگا تھا کہ اُسی وقت نالے میں پتوں پر کھڑبڑ سنائی دی۔ میں نے غور سے دیکھا تو مجھے نالے کے کنارے کسی جانور کا سر، آنکھیں اور ناک کی طرح کچھ دکھائی دیا مگر صحیح طور پر معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کیا ہے۔ چنانچہ میں نے امیدو بیم کی حالت میں اللہ کا نام لے کر اُس سر کی طرح کی چیز پرنشانہ باندھ کر فائر کردیا۔ فائر کے فوراً بعد ایسا معلوم ہوا کہ جیسے کوئی جانور لڑھک کر نالے میں گرا ہے۔ ساتھ ہی سوکھے پتوں پر اُس کے دم مارنے کی دوچار دفعہ آواز بھی آئی اور پھر خاموشی چھاگئی۔ میں اُٹھا اور وہاں سے سیدھا کیمپ چلا آیا کہ صبح دیکھیں گے۔ جب میں کیمپ میں پہنچا تو بڑھیا بیٹھی ہوئی تھی، اُس نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا میں نے اُس کے دشمن کو مارڈالا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ کل صبح آؤ اُس وقت پتہ چلے گا۔دوسرے دن صبح ہم بڑھیاکو ساتھ لے کر وہاں گئے تو دیکھا کہ گیڈر اور گدھ گائے کی لاش کے چاروں طرف بیٹھے ہوئے تھے اور جناب لگڑبگڑ صاحب جنگل کے قانون "جس کی لاٹھی اُس کی بھینس" کے مطابق بے فکری سے گائے کی لاش کو کھارہے تھے۔ ہم لوگوں کو آتے دیکھ کر سب ایک ایک کرکے غائب ہوگئے۔ میں نے نالے کے کنارے جہاں فائر کیا تھا جاکر دیکھا تو نیچے نالے میں ایک نہایت عمدہ تندرست نرگلدار مرا ہوا پڑا تھا اور اُس کی دونوں آنکھوں کے بیچوں بیچ میری ۳۶۶بور مازر رائفل کی گولی کا سوراخ تھا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو بڑھیا اپنی گائے کو دیکھ کر آنسو بہارہی تھی۔میں نے اُس سے کہا "لوبڑی بی! اب خوش ہوجاؤ، تمہارا دشمن یہ پڑا ہوا ہے۔"
بڑھیا یہ سنتے ہی جھٹ نالے میں اُتر پڑی اور مرے ہوئے گلدار کو گالیاں دینے اور اپنی لکڑی سے پیٹنے لگی۔ اُس نے مردہ گلدار کو اتنا مارا کہ آخر کار اُس کی لکڑی ٹوٹ گئی۔ گلدار کو پھر ہم لوگ اُٹھا کر اپنے کیمپ میں لے آئے اور جب اُسے ناپا گیا تو وہ پونے آٹھ فٹ نکلا۔ مجھے اتنے اچھے گلدار کے شکار سے بڑی خوشی ہوئی اور میں نے اس خوشی میں پانچ روپے بڑھیا کی نذر کیے، جو مجھے دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہوگئی۔
٭٭٭

Popular Posts