اتوار، 31 مارچ، 2013

ابتدائیہ
کینتھ اینڈرسن
درخت کے تنے سے ٹیک لگائے ایک آدمی بیٹھا ہے۔ سامنے جلتی ہوئی لکڑیوں کی آگ کبھی بھڑک کر اردگرد کے ماحول کو روشن کرتے ہوئے اسے فرحت بخشتی ہے تو اگلے ہی لمحے ماند پڑ کے اس کے اردگرد کو تاریکی اور پراسراریت میں دھکیل دیتی ہے۔ اسی درخت کے تنے کے ساتھ اعشاریہ چارسو پانچ کی ایک پُرانی ونچسٹر رائفل ٹیک لگا ئے کھڑی کی ہوئی ہے۔
جب کبھی آگ میں تازہ لکڑی ڈلتی ہے تو لپکنے والے شعلے کیمپ پر چھترائے ہوئے درخت کی شاخوں کو روشن کردیتے ہیں۔ اس ایک لمحہ میں اس شخص کی ہیئت بھی واضح نظر آتی ہے۔ ایک چھوٹی داڑھی اور مونچھوں والا چہرہ جس کے ہونٹوں کے ایک کونے میں ایک پرانا پائپ دبا ہوا ہے جو مدت ہوئی بجھ چکا ہے۔ اس کے سر پر ایک پُرانا گورکھا ہیٹ جس کے بائیں کنارے اوپری جانب کو اُٹھے ہوئے ہیں ایسے جیسے ٹنگا ہوا ہے۔
یہ آدمی بول رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی داستان سُنا رہا ہے اور اس میں وہ اس قدر محو ہے کہ اپنے پائپ اور اردگرد کے ماحول سے قطعاً لاتعلق ہو چکا ہے۔ شعلے مدھم پڑتے ہیں اور پھر بھڑک اٹھتے ہیں اور اسی لمحے اس کی خوابناک آنکھیں ایسے دکھتی ہیں جیسے کہ وہ پھر سے ان دنوں کو بیتا رہا ہے جن کی وہ کہانی سُنا رہا ہے۔ یاد ماضی نے اسے اس طرح اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے کہ اسے آگ کے گرد اکڑوں بیٹھے، حلقہ جمائے اپنے ان ساتھیوں کی بھی کوئی خبر نہیں ہے جو اس کے ہر لفظ کو دھیان سے سُن رہے ہیں۔
لپکتے شعلے اوپر کو اْٹھتے ہیں، مدھم پڑتے ہیں اور پھر اس اُٹھتے دھوئیں کے ان مرغولوں میں گم ہوجاتے ہیں جو اوپر درختوں کی چھتریوں کی اندھیریوں میں گم ہوکر جنگل کی رات کو مزید تاریک بنارہے ہیں۔
لکڑیوں کے چٹخنے اور اس آدمی کی آواز کے خمار کے سوا جنگل میں سناٹا طاری ہے۔ ایک ایسا بوجھل اور غیر حقیقی سناٹا کہ اس کا عنقریب اختتام یقینی لگتا ہے۔ اچانک اندھیرے کو چیرتی ہوئی شیر کی دھاڑ اور اس کے جواب میں ایک مشتعل ہاتھی کی چنگھاڑ سنائی دیتی ہیں۔ "آآ۔اوونہہ---اوونہ ---اوونہہ---اوونہہ" کی رعب دار آواز جو اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ شیر جنگل کی پگڈنڈیوں پر محو خرام ہے جب کہ دور ہاتھی کی "ٹری آآں۔۔۔ ۔۔۔ ٹری آآآں" اعلان کرتی ہے کہ اسے شیر کی دھاڑ کی کوئی پرواہ نہیں۔
لیکن اس آدمی پر بظاہر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ بدستور اس کہانی میں گُم ہے جو وہ بیان کر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ بھی جنگل کا ہی ایک حصہ ہے۔ جیسے یہی جنگل اس کا گھر ہیں، یہیں وہ پیدا ہوا اور یہیں مرنا چاہے گا کہ یہی اس کی جنت ہیں۔ اس لئے آئیں اس کی باتوں کو دھیان سے سُنیں۔ ان کہانیوں کو جن میں جنگل کی پراسراریت، حوادث و واقعات اور اس کے اپنے ماضی کی پرچھائیاں موجود ہیں۔ ہمارے توجہ دینے پر وہ خوش ہوتا ہے اور اس کی باتوں میں ایک جوش سا پیدا ہوجاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ جنگل اور اس کے باشندوں کے عشق میں مبتلا ہے۔
اس بات کو مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ میں ہی تو وہ آدمی ہوں۔

٭٭٭
کتاب: ہندوستانی جنگلوں کی کہانیاں
مترجم: خرم از ریاست ہائے متحدہ

Popular Posts