اتوار، 31 مارچ، 2013

تلہ دیس کا آدم خور
جم کاربٹ
(۱)
بندو کھیڑا میں جوبن پر آئے ہوئے گل مور کے درختوں کے نیچے لگائے گئے کیمپ سے زیادہ بہتر کیمپ پورے کوہ ہمالیہ میں کہیں نہیں ہو سکتا۔ اب آپ خود ذرا تصور کریں کہ سفید خیمے اور ان پر مالٹائی رنگ
کے پھولوں کی بہار جن پر مختلف النسل پرندے چہچہا رہے ہوں اور ٹہنیوں پر پھدک رہے ہوں اور ان کی حرکتوں سے نیچے گرنے والے پھول خیموں کے ارد گرد مالٹائی رنگ کے قالین کی مانند دکھائی دیں اور اس کے پیچھے گھنے درختوں سے بھری پہاڑی ڈھلوانیں ہوں اور تہہ در تہہ ہمالیہ کے پہاڑ دکھائی دے رہے ہوں جو بلند ہوتے ہوتے سفید برف سے مستقل ڈھکی چوٹیوں پر مشتمل ہوں تو آپ کو ہمارے اس کیمپ کا کچھ تصور ہو سکے گا جو ہم نے فروری ۱۹۲۹ء میں یہاں لگایا۔
بندو کھیڑا اس بارہ میل لمبے اور دس میل چوڑے گھاس کے مسطح میدان کے ایک سرے پر موجود کیمپ کی جگہ کا نام تھا۔ جب سر ہنری رمسے کماؤں پر حکمرانی کرتے تھے تو یہ سارا علاقہ کھیتوں سے بھرا ہوا تھا لیکن جس وقت کی میں بات کر رہا ہوں اس وقت یہاں محض تین چھوٹے گاؤں ہی تھے اور ہر گاؤں کے پاس چند ایکڑ جتنے کھیت جو ندی کے کنارے تھے۔ میری آمد سے کچھ ہفتے قبل یہاں کی گھاس کو جلایا گیا تھا اور نم جگہوں پر گھاس جلنے سے محفوظ رہی تھی اور ایسی جگہیں بہت تھیں۔ ہم لوگ اسی طرح کی جگہوں پر ہفتے بھر شکار کا پروگرام بنا کر آئے تھے۔ اس جگہ میں دس سال سے شکار کھیل رہا تھا اور اس کے چپے چپے سے واقف تھا۔ اس لئے شکار کے لئے رہنمائی میرے ذمے تھی۔
اچھے سدھے ہوئے ہاتھی کی پشت سے ترائی کے گھاس کے میدانوں میں شکار کرنا شکار کی انتہائی بہترین اقسام میں سے ایک ہے۔ چاہے کتنا ہی طویل دن کیوں نہ ہو، اس کا ہر لمحہ تجسس اور جوش سے بھرا ہوتا ہے کیونکہ یہاں بہت ساری اقسام کے جانور اور پرندے ملتے ہیں۔ ایک دن ہم نے اٹھارہ مختلف اقسام کے جانور اور پرندے شکار کئے جن میں بٹیر اور سنائیپ اور تیندوے اور ہرن بھی شامل تھے۔ اگر یہاں پیدل چلا جائے تو بہت ساری اقسام کے پرندے بھی ملتے ہیں۔
اس بار ہمارے ساتھ ۹ شکاری اور ۵ تماشائی تھے جب ہم اس صبح شکار پر نکلے۔ ناشتہ کر کے ہم لوگ ہاتھیوں پر سوار ہو کر روانہ ہوئے اور قطار کی صورت میں اس طرح روانہ ہوئے کہ ہر دو شکاریوں کے ہاتھیوں کے درمیان ایک تماشائی کا ہاتھی بھی تھا۔ قطار کے عین وسط میں میں نے اپنی جگہ سنبھالی اور میرے دونوں جانب چار شکاری اور چار تماشائی تھے۔ یہاں سے ہم نے جنوب کا رخ کیا۔ دائیں جانب والا آخری شکاری قطار سے پچاس گز آگے تھا تاکہ پرندے اور جانور جو بھی شکاریوں سے بچ کر دائیں جانب جنگل کو بھاگیں تو وہ انہیں سنبھال سکے۔ اگر آپ رائفل اور بندوق دونوں کے اچھے شکاری ہوں اور آپ کو اس طرح کے ملے جلے شکار میں حصہ لینے کا موقع ملے تو کوشش کریں کہ دائیں یا بائیں کنارے پر رہیں کیونکہ جو بھی جانور یا پرندہ ہاتھیوں سے ڈر کر بھاگتا ہے وہ دائیں یا بائیں کنارے کا رخ کرے گا۔ اس کے علاوہ جو پرندہ یا جانور دیگر شکاریوں سے بچ کر آیا ہو اس کا شکار زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔
صبح سویرے جب ہلکی ہوا چل رہی ہو اور پھولوں کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہو تو انسان کو مخمور کر دیتی ہے۔ یہی اثر جانوروں اور پرندوں پر بھی ہوتا ہے۔ جلد باز شکاری اور جنگلی پرندے جب اکٹھے ہوں تو زیادہ شکار ہاتھ نہیں آتا۔ اس لئے شکار کے شروع میں عموما نشانہ خطا جاتا ہے اور شکار کے آخر پر بھی جب ہاتھ اور آنکھیں تھکی ہوتی ہیں۔ جب تھوڑی سی مشق کے بعد شکاریوں کے ہاتھ جم گئے اور نشانے بہتر ہونے لگے تو پہلے چکر پر ہم نے پانچ مور، تین سرخ جنگلی مرغ، دس کالے تیتر، چار بھورے تیتر، دو بٹیر اور تین خرگوش مارے۔ ایک اچھا سانبھر بھی نکلا لیکن جب تک رائفلیں چھتیائی جاتیں، وہ جنگل میں گم ہو گیا۔
جس جگہ جنگل ایک تنگ سے سرے کی مانند کئی سو گز تک میدان میں چلا گیا تھا میں نے ہاتھی روکے۔ یہ جگہ مور اور جنگلی مرغ کے لئے مشہور تھی۔ تاہم یہاں بہت سارے گہرے نالے تھے جن کی وجہ سے قطار کو سیدھا رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ ہمارے ساتھ ایک نیا شکاری بھی تھا جو آج پہلی بار ہاتھی کی پشت سے شکار کر رہا تھا اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ یہاں سے ہم پیدل آگے جائیں۔ کئی سال پہلے جب میں ونڈہم کے ساتھ شیر تلاش کر رہا تھا تو میں نے پہلی بار کارڈینل چمگادڑ دیکھی۔ یہ خوبصورت چمگادڑیں جب اڑتی ہیں تو تتلی جیسی دکھائی دیتی ہیں اور جہاں تک مجھے علم ہے ، محض ایلیفنٹ گراس نامی گھاس میں ہی ملتی ہیں۔
یہاں رکنے کے بعد میں نے ہاتھیوں کو مشرق کی طرف قطار میں جانے کو کہا۔ جب وہ اس قطعے سے باہر نکلے جہاں سے ہم ابھی ہو کر آئے تھے تو میں نے انہیں شمال کو مڑنے کا کہا۔ اب کوہ ہمالیہ ہمارے سامنے تھا اور ہمارے اوپر موجود سفید بادل اتنے گہرے تھے کہ حقیقتا ان پر فرشے چل سکتے تھے۔
سترہ ہاتھیوں کی قطار کی لمبائی موقع کی مناسب سے گھٹتی بڑھتی ہے۔ جہاں گھاس گھنی تھی تو میں نے قطار کی لمبائی سو گز رکھی اور جب گھاس ہلکی ہوئی تو میں نے اسے لمبا کر کے دو سو گز پر پھیلا دیا۔ اسی طرح شمال کو چلتے ہوئے ہم ایک میل گئے اور اس دوران تیس پرندے اور ایک تیندوا شکار ہوا۔ اچانک ہمارے سامنے سے زمینی الو اڑا۔ فورا ہی اس پر کئی بندوقیں اٹھیں لیکن جب شکاریوں کو الو دکھائی دیا تو انہوں نے بندوقیں نیچے کر لیں۔ زمینی الو عموما دیگر جانوروں کی بلوں میں رہتے ہیں اور ان کی ٹانگیں دیگر الوؤں کی نسبت زیادہ لمبی ہوتی ہیں۔ یہ تیتر سے دو گنا بڑے اور ان کے پروں کے کنارے سفید ہوتے ہیں۔جب ہاتھیوں کی قطار کے سامنے یہ اڑیں تو پچاس سے سو گز تک نیچی پرواز کرتے ہیں اور پھر اوپر اٹھتے ہیں۔ شاید اس طرح وہ اپنی بلوں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم یہ الو پچاس یا ساٹھ گز کے بعد اچانک ہی چھوٹے چھوٹے دائروں میں اونچا ہونے لگا۔ جلد ہی اس کی وجہ بھی معلوم ہو گئی کیونکہ جنگل سے ایک باز اس کے پیچھے تیزی سے اڑتا ہوا دکھائی دیا۔ چونکہ الو اپنی بل کو واپس نہ جا سکتا تھا اس لئے اس نے ہر ممکن کوشش کی کہ باز کے اوپر ہی رہے۔ تیزی سے پر پھڑپھڑاتے ہوئے الو اٹھتا جا رہا تھا اور باز بھی اپنی پوری طاقت سے الو سے اوپر جانے میں کوشاں تھا۔ سارے شکاری اور مہاوت بھی اس تماشے میں اتنے محو تھے کہ میں نے قطار کو روک دیا۔
جب بلندی کا تقابل کرنے کے لئے کوئی چیز موجود نہ ہو تو بلندی کے بارے کچھ یقین سے کہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میرے اندازے کے مطابق یہ دونوں پرندے ہزار فٹ اوپر پہنچ گئے ہوں گے اور پھر الو دائروں میں گھومتا ہوا اس بڑے سفید بادل کو جانے لگا۔ باز نے بھی الو کے مقصد کو فورا ہی بھانپ لیا اور اسی جانب لپکا۔ کیا الو بادل تک پہنچ پائے گا یا باز کو قریب پا کر ہمت ہار جائے گا اور زمین پر واپسی کا سوچے گا؟ جن کی نظر کمزور تھی انہوں نے دوربینیں نکال لیں۔ واضح طور پر دو مختلف آراء تھیں۔ کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ الو بادل تک نہیں پہنچ پائے گا جبکہ دوسرے کہہ رہے تھے کہ پہنچ سکتا ہے۔ فاصلہ بہت کم رہ گیا ہے۔
اچانک ایک پرندہ بادل کے سامنے رہ گیا۔ شاباش شاباش کے نعرے لگنے لگے۔ جتنی دیر میں میرے ساتھی تالیاں بجاتے، باز انتہائی وقار کے ساتھ سیمل کے اسی درخت پر آن کر بیٹھ گیا جہاں سے اس نے اڑان بھری تھی۔
ایک ہی واقعے پر ہر انسان کا رد عمل مختلف ہوتا ہے۔ابھی تک ہم نے کل چون پرندے اور چار جانور مارے تھے اور کسی نے ایک لفظ بھی نہیں بولا تھا اور اب نہ صرف شکاری اور تماشائی بلکہ مہاوت بھی الو کے بحفاظت باز سے بچ نکلنے پر خوش ہو رہے تھے۔
اس قطعے کے شمالی سرے پر پہنچ کر میں نے قطار کو جنوب کی سمت موڑا اور اس بار ہم آب پاشی والی نالی کے دائیں کنارے سے ہو کر جانے لگے۔ اس جگہ زمین نم تھی اور گھاس بھی کافی لمبی تھی۔ یہاں ہرن اور پاڑے بکثرت ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور تیندوا بھی ہاتھ لگنے کی امید تھی۔
ندی کے کنارے ہم ایک میل تک گئے۔ اس دوران پانچ مور، چار نر تلور (مادائیں جان بوجھ کر چھوڑ دی گئی تھیں)، تین سنائپ اور ایک پاڑہ جس کے سینگ بہت بڑے تھے، مارے۔ اچانک میرے پیچھے بیٹھے ایک تماشائی نے غلطی سے ہائی ولاسٹی رائفل چلا دی (منکر نکیر سے معذرت)۔ اس رائفل کے دھماکے سے میرے بائیں کان کا پردہ پھٹ گیا اور میرے کان بند ہو گئے۔ باقی کا سارا دن میرے لئے اذیت ناک تھا۔ ساری رات جاگنے کے بعد میں نے بہانہ کیا کہ مجھے ایک ضروری کام یاد آ گیا ہے (منکر نکیر سے ایک اور معذرت) اور جب سب سو رہے تھے تو پو پھٹتے ہی میں پچیس میل کے سفر پر کالا ڈھنگی گھر کو روانہ ہو گیا۔
کالا ڈھنگی میں ایک نوجوان ڈاکٹر تھا جو طبی تعلیم پوری کر کے کچھ عرصہ قبل ہی آیا تھا۔ اس نے میرے خدشات کی تصدیق کی کہ میرے کان کا پردہ پھٹ چکا ہے۔ ایک ماہ بعد جب ہم اپنے گرمائی گھر نینی تال منتقل ہوئے تو میں نے ریمسے ہسپتال کا چکر لگایا اور نینی تال کے سول سرجن کرنل باربر نے بھی اس کی تصدیق کر دی۔ دن گذرتے گئے اور یہ بات صاف ظاہر ہونے لگی کہ میرے سر کے اندر پھوڑے بننے لگے ہیں جو میرے اور میرے بہنوں کے لئے انتہائی تشویش کا سبب تھے۔ چونکہ ہسپتال والے میری تکلیف رفع کرنے سے قاصر تھے اس لئے میں نے کرنل باربر اور اپنی بہنوں کی مرضی کے خلاف ہسپتال سے رخصت لی اور چل پڑا۔
اس حادثے کے بارے میں نے اس لئے نہیں بتایا کہ آپ کی ہمدریاں سمیٹ سکوں بلکہ اس لئے کہ تلہ دیس کے آدم خور کے شکار کے متعلق اس کی الگ اہمیت ہے جو میں بتانے لگا ہوں۔

(۲)
۱۹۲۹ء میں بل بائنس الموڑا اور ہم ویوان نینی تال کے ڈپٹی کمشنر تھے اور دونوں کے اضلاع میں آدم خور تباہی مچا رہے تھے۔ الموڑا میں تلہ دیس جبکہ نینی تال میں چوگڑھ کی آدم خور شیرنی سرگرم تھی۔
میں نے ویوان سے وعدہ کیا تھا کہ میں تلہ دیس والے آدم خور کو میں پہلے شکار کروں گا تاہم سردیوں میں چونکہ یہ آدم خور اتنا سرگرم نہیں رہ گیا تھا اس لئے ویوان کی مرضی سے میں نے بینس کی مدد کے لئے تلہ دیس کے آدم خور کا پیچھا کرنے کی ٹھانی۔ مجھے امید تھی کہ اس آدم خور کے پیچھے سرگرم رہنے سے میں نہ صرف اپنی تکلیف پر قابو پا لوں گا بلکہ اپنی اس معذوری کا بھی عادی ہو جاؤں گا۔اس لئے میں نے تلہ دیس کا رخ کیا۔
تلہ دیس کے آدم خور کی کہانی میں نے تب تک بیان نہیں کی جب تک کہ میں نے جنگل لور نامی دوسری کتاب نہیں لکھ لی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک قارئین کو یہ علم نہ ہو جائے کہ بچپن میں اور پھر بڑے ہو کر میں نے جنگل میں گھومنا اور رائفل سے شکار کرنا کیسے سیکھے تھے، اس کہانی کو لکھنا فضول تھا۔ وہ افراد جو کماؤں میں نہیں رہے، انہیں میری بات سمجھنے میں بہت دقت ہوتی۔ چونکہ میری دیگر کہانیاں من و عن قبول ہو چکی تھیں، اس لئے اس کہانی کے سلسلے میں کسی قسم کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا۔
میری تیاریاں جلد ہی مکمل ہو گئیں اور ۴ اپریل کو میں نینی تال سے نکلا تو میرے ساتھ چھ گڑھوالی جن میں مادھو سنگھ اور رام سنگھ، الٰہی نامی باورچی اور ایک برہمن جس کا نام گنگا رام تھا اور جو چھوٹے موٹے کام کرتا تھا اور میرے ساتھ جانے کے لئے ہمیشہ تیار ہوتا تھا، شامل تھے۔ ۱۴ میل اترائی کے بعد ہم کاٹھ گودام پہنچے جہاں سے ہم نے شام کی ٹرین پکڑی اور بریلی اور پلی بھٹ سے ہوتے ہوئے اگلے دن دوپہر کو تنک پور پہنچے۔ یہاں میری ملاقات پیش کار سے ہوئی جس نے مجھے بتایا کہ گذشہ روز آدم خور نے ایک لڑکے کو ہلاک کیا ہے۔ بینس کے احکامات پر اس نے میرے لئے دو نوعمر بھینسے بھی خرید لئے تھے اور چمپاوت کے راستے تلہ دیس بھجوا دیئے تھے۔ یہ بھینسے شیر کے لئے گارے کا کام دیتے۔ جتنی دیر میں میرے آدمی ناشتہ تیار کر کے کھاتے، میں نے ڈاک بنگلے میں ناشتہ کیا اور ہم کالا ڈھنگا کے چوبیس میل کے سفر پر چل پڑے۔
پہلے بارہ میل تک سڑک برمادیو سے ہوتی ہوئی پرناگری کے مقدس پہاڑوں کے دامن تک جاتی ہے۔ تقریبا یہ سارا فاصلہ ہی گھنے جنگلات سے گھرا ہوا ہے۔جہاں یہ سڑک ختم ہوتی ہے، وہاں سے کالا ڈھنگا کو دو راستے جاتے ہیں۔ لمبا راستہ پرناگری کے مندروں والی جانب سے پہاڑ سے بائیں جانب سے ہو کر گذرتا ہے جو انتہائی ڈھلوان ہیں اور پھر نیچے اتر کر کالا ڈھنگا پہنچتا ہے۔ دوسرا راستہ کولئیر کی ٹرام وے کی لائن کا تھا جو انہوں نے دس لاکھ مکعب فٹ سال کی لکڑی لانے کے لئے بنائی تھی اور اس کے بارے میں پہلے بھی بتا چکا ہوں۔ کولئیر کی ٹرام لائن جہاں چار میل جتنا دریائے سردا کی کھائی سے ہو کر گذرتی ہے، انتہائی سخت چڑھائی پر مشتمل ہے۔ یہاں راستہ بہت عرصہ ہوا مٹ چکا ہے اور اس تقریبا عمودی پہاڑ پر کہیں کہیں راستہ باقی بچا ہوا ہے۔ چونکہ میرے ساتھیوں پر بھاری سامان لدا ہوا تھا اس لئے پیش رفت کافی سست تھی۔ ابھی ہم نے اس کھائی کا نصف راستہ طے کیا ہوگا کہ رات ہونے لگی۔ شب بسری کے لئے کیمپ کی مناسب جگہ تلاش کرنا اتنا آسان نہیں تھا اور کئی جگہیں محض اس وجہ سے چھوڑنی پڑیں کہ اوپر سے پتھر گرنے کا خطرہ تھا۔ آخر کار ہم نے ایک ایسی جگہ تلاش کر لی جہاں اوپر چٹان سائبان کی شکل میں موجود تھی اور اگر کوئی پتھر گرتے تو یہ چٹان ہمیں بچاتی۔ ہم نے رات یہیں گذارے کا فیصلہ کیا۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد میں نے کپڑے بدلے اور کیمپ کے بستر پر لیٹ گیا۔ اتنی دیر میں میرے ساتھی دریا سے لکڑیاں لا کر اپنے لئے کھانا بنانے لگے۔ میرے پاس چالیس پاؤنڈ وزنی خیمہ، ایک واش بیسن اور ایک بستر تھا۔
چونکہ دن کافی گرم تھا اور تنک پور سے یہاں تک فاصلہ سولہ میل بنتا تھا اس لئے میں کافی تھکا ہوا تھا اور کھانے کے بعد سگریٹ پی رہا تھا کہ اچانک دریا کی دوسری جانب پہاڑ پر مجھے تین روشنیاں دکھائی دیں۔ نیپال کی جانب والے جنگلات کو ہر سال آگ لگائی جاتی تھی اور آگ لگانے کا کام اپریل میں شروع ہوتا تھا ۔یہ روشنیاں دیکھتے ہی میں نے سوچا کہ شاید چند انگارے ہوں گے جنہیں نیچے آنے والی ہوا اپنے ساتھ لا رہی ہے۔ میں بے کار بیٹھا ان روشنیوں کو دیکھتا رہا کہ اچانک ان تین روشنیوں سے کچھ اوپر دو اور روشنیاں نمودار ہوئیں۔ اچانک ان نئی دو روشنیوں میں سے بائیں جانب والی نے حرکت کی اور پہلی تین روشنیوں میں سے درمیان والی تک پہنچ کر اس میں ضم ہو گئی۔ اب مجھے معلوم ہوا کہ یہ آگ نہیں بلکہ یکساں حجم والی روشنیاں ہیں جن کا قطر دو فٹ رہا ہوگا۔ یہ روشنیاں یکساں رفتار سے جل رہی تھیں اور ان سے دھواں بھی نہیں اٹھ رہا تھا۔
پھر اچانک بائیں جانب اور پھر کافی اوپر بھی کئی روشنیاں نمودار ہو گئیں۔ اسی وقت مجھے خیال آیا کہ عین ممکن ہے کہ اس پہاڑ پر کسی شکاری کا کچھ قیمتی سامان کھو گیا ہوگا اور اس نے اپنے ساتھیوں کو لالٹین اور ہتھیار دے کر تلاش کرنے بھیجا ہوگا۔ اگرچہ یہ توجیح بذات خود کافی عجیب تھی لیکن ان علاقوں میں اس طرح کی باتیں عام ہیں۔
میرے ساتھی بھی ان روشنیوں کو میری طرح توجہ سے دیکھ رہے تھے۔ چونکہ دریا انتہائی سکون اور خاموشی سے بہہ رہا تھا تو میں نے ساتھیوں سےپوچھا کہ کیا انہیں کوئی آوازیں بھی سنائی دےر ہی ہیں؟ ہمارا درمیانی فاصلہ کوئی ڈیڑھ سو گز رہا ہوگا۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ انہیں کچھ سنائی نہیں دیا۔ چونکہ اس صورتحال پر مزید قیاس آرائیاں کرنا بے کار تھا اور سارے دن کے تھکے ہوئے ہونے کی وجہ سے ہم جلد ہی سو گئے۔ رات کو ہمارے اوپر والی چٹان پر پہلے گڑھل اور پھر کچھ دیر بعد تیندوا بولا۔
چونکہ اب ہمارے سامنے طویل سفر اور مشکل چڑھائی تھی اس لئے میں نے اپنے ساتھیوں کو پہلے سے بتا دیا تھا کہ ہم علی الصبح روانہ ہو جائیں گے۔ مشرق میں افق پر روشنی نمودار ہو رہی تھی کہ میرے باورچی نے مجھے چائے کا کپ تھما دیا۔ کیمپ کو ختم کرتے وقت ہمیں محض چند برتن اکٹھے کرنے تھے اور بستر کو دوبارہ ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا کام جلد ہی مکمل ہو گیا۔ میرا باورچی اور گڑھوالی سامان اٹھا کر پہاڑی بکریوں کے راستے پر نیچے جانے لگے۔ کولئیر کے وقت میں یہاں آہنی پل بنایا گیا تھا۔ اسی دوران میں نے ان روشنیوں والے پہاڑ کو اوپر سے نیچے اور پھر نیچے سے اوپر تک غور سے دیکھا۔ پھر میں نے دوربین سے یہی عمل دہرایا۔ روشنی اتنی ہو گئی تھی کہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ تاہم اس پہاڑ پر مجھے انسان کی موجودگی کے کوئی آثار نہیں دکھائی دیئے۔ اب میں نے آگ والی بات پھر سے سوچی۔ لیکن پورے پہاڑ کا سبزہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے آگ سے محفوظ تھا اور اکا دکا درخت اور جھاڑیاں دراڑوں میں اگی ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ جہاں روشنیاں نمودار ہوئی تھیں وہ جگہ بالکل عمودی تھی اور ماسوائے اوپر سے لٹک کر نیچے آنے کے، اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
۹ روز بعد جب میرا کام مکمل ہو گیا تو میں نے کالا ڈھنگا میں رات بسر کی۔ اگر آپ کو مناظر فطرت سے عشق ہو یا آپ کو مچھلی کے شکار کا جنون ہو تو کالا ڈھنگا سے زیادہ بہتر جگہ پورے کماؤں میں شاید ہی ملے۔ کولئیر کے بنائے ہوئے بنگلے سے زمین آہستہ آہستہ نیچی ہوتی ہوئی دریائے سردا تک چلی جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بہت بڑی بڑی بنچیں رکھی ہوئی ہوں۔ انہی بنچوں پر جہاں کبھی کاشتکاری ہوتی تھی اب گھاس بکثرت اگ آئی تھی۔
صبح اور شام کو یہاں بنگلے سے بیٹھ کر سانبھر اور چیتل چرتے ہوئے عام دکھائی دیتے تھے۔ بنگلے کے پیچھے جنگلوں میں شیر اور تیندوے بھی عام ملتے تھے۔ اس کے علاوہ پرندے بشمول مور، جنگلی مرغ وغیرہ بھی بکثرت تھے۔ یہاں کے تالابوں اور دریائے سردا میں مچھلی کا بہترین شکار ہو سکتا تھا۔
اگلے دن پو پھٹتے ہی ہم کالا ڈھنگا سے نکلے تو گنگا رام نے پہاڑی راستے سے پرناگری سے ہو کر جانا تھا اور ہم باقی افراد دریائے سردا کی کھائی کے راستے گئے۔ گنگا رام کا سفر دس میل زیادہ لمبا تھا اور اس کا مقصد پرناگری کے مندر پر ہماری طرف سے بھینٹ چڑھانا تھی۔ روانگی سے قبل میں نے اسے ہدایت کی کہ ہر ممکن طریقے سے وہ مندر کے پجاریوں سے ان روشنیوں کے بارے پوچھے۔ جب شام کو وہ تنک پور ہمارے پاس پہنچا تو اس نے ہمیں مندرجہ ذیل کہانی سنائی جو اس نے پجاریوں اور اپنے مشاہدے سے نوٹ کی تھی:
پرناگری بھاگ بتی دیوی کی پوجا کی جگہ تھی اور ہر سال یہاں ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند آتے تھے۔ یہاں تک آنے کے دو راستے تھے۔ ایک راستہ برمادیو سے ہوتا ہوا جبکہ دوسرا کالا ڈھنگا سے گذر کر آتا تھا۔ دونوں راستے پہاڑ کی چوٹی سے ذرا نیچے شمالی جانب آن ملتے تھے۔ اسی سنگم پر پرناگری کا چھوٹا مندر واقع تھا۔ زیادہ مقدس اور بڑا مندر پہاڑ کے اوپر بائیں جانب تھا۔ بڑے مندر تک جانے کا راستہ انتہائی دشوار تھا اور تقریبا عمودی چٹان پر موجود پتلی سی دراڑ سے ہو کر گذرتا تھا۔کمزور دل والے افراد، بچے اور بوڑھوں کو ٹوکری میں لاد کر پہاڑی افراد اوپر لے جاتے تھے۔ دیوی کے پسندیدہ افراد ہی بڑے مندر جا سکتے تھے۔ باقی افراد سب کچھ بھول بھال کر نچلے مندر پر ہی بھینٹ چڑھا کر لوٹ جاتے تھے۔
بڑے مندر میں پوجا سورج نکلتے ہی شروع ہوتی تھی اور دوپہر کو ختم ہو جاتی تھی جس کے بعد زیریں مندر سے کسی کو اوپر جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ بڑے مندر کے ساتھ ہی ایک جگہ سو فٹ اونچی چٹانیں موجود تھیں جن پر چڑھنے پر دیوی کی طرف سے پابندی تھی۔ تاہم بہت عرصہ قبل ایک سادھو نے سوچا کہ وہ اس چٹان پر جا کر دیوی سے ہم کلام ہو۔ اس کی اس جرات پر ناراض ہو کر دیوی نے اسے اچھال کر دریا کی دوسری جانب کے پہاڑ پر پھینک دیا۔ اس سادھو کو اب پرناگری آنے کی اجازت نہیں اور وہ اب مندر سے دو ہزار فٹ اوپر رہ کر عبادت کرتا ہے اور روشنیاں جلاتا ہے۔ یہ روشنیاں صرف خاص مواقع پر ہی ظاہر ہوتی ہیں (اس بار پانچ اپریل کو ظاہر ہوئی تھیں) اور صرف دیوی کے انتہائی پسندیدہ افراد ہی انہیں دیکھ سکتے ہیں۔ چونکہ میں اور میرے ساتھی دیوی کے زیر اثر علاقے کو آدم خور کے وبال سے چھڑانے آئے تھے اس لئے یہ روشنیاں ہمیں دکھائی دیں۔
پرناگری سے واپسی پر گنگا رام نے یہ توجیہہ پیش کی اور پھر ہم وہیں رک کر تنک پور کی ٹرین کا انتظار کرنے لگے۔ کچھ ہفتے بعد پرناگری کا سب سے بڑا پنڈت یا راول مجھے ملنے آیا۔ چونکہ میں نے مقامی اخبار میں ان روشنیوں کے بارے ایک مضمون لکھا تھا اور اس کا شکریہ ادا کرنے اور یہ بتانے کے لئے یہ پنڈت آیا تھا کہ میں واحد یورپی ہوں جس نے یہ روشنیاں دیکھی تھیں۔ اپنے مضمون میں ان روشنیوں کے بارے میں نے وہی کچھ لکھا تھا جو میں نے اوپر بیان کیا۔ اس کے علاوہ میں نےیہ بھی لکھا کہ اگر قارئین کو کسی وجہ سے اس پر یقین نہ ہو اور وہ خود سے تحقیقات کرنا چاہیں تو درج ذیل باتیں ذہن میں رکھیں:
روشنیاں ایک ساتھ جلنا شروع نہیں ہوئی تھیں
ان سب کا ایک ہی حجم تھا جو دو فٹ کے برابر ہوگا
ہوا سے ان پر کوئی اثر نہیں پڑا
ایک جگہ سے دوسری جگہ وہ آسانی سے منتقل ہوتی رہیں
اس پنڈت نے اس بات پر کافی زور دیا کہ یہ روشنیاں ایک حقیقت ہیں اور مجھے اس بات سے اتفاق تھا کیونکہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی تھیں۔ اس کے علاوہ پنڈت کی توجیہہ کے علاوہ میرے پاس کوئی دوسری توجیہہ نہیں جسے میں قبول کر سکوں۔
اگلے سال میں سر میلکم (اب لارڈ) ہیلی کے ساتھ مچھلی کے شکار پر دریائے سردا گیا جو اس وقت صوبجات متحدہ کے گورنر تھے۔ سرمیلکم نے میرا مضمون پڑھا تھا اور انہوں نے کہا کہ میں انہیں وہ جگہ دکھاؤں۔ اس وقت ہمارے ساتھ چار ملاح تھے جو ہوا بھری ہوئی کھالوں سے بنی کشتی میں ہمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے تھے۔ یہ افراد بیس افراد کی اس جماعت میں شامل تھے جو کماؤں کے بلند علاقوں سے چیل کے درخت کاٹ کر دریا کے راستے نیچے بھیجتے تھے۔ یہ کام بہت مشکل ، طویل اور پر خطر تھا اور اس کےلئے نہ صرف بلند حوصلہ بلکہ اس سے وابستہ خطرات کے پورے طرح آگہی ہونا بھی لازمی تھی۔
جس جگہ کولئیر نے پہاڑ کو ڈائنامائیٹ سے اڑایا تھا اس کے نیچے وہ چٹان تھی جس کے سائے میں ہم نے رات گذاری تھی اور روشنیاں دیکھی تھیں۔ اس جگہ دریا کے کنارے میرے کہنے پرملاحوں نے یہ "کشتیاں" روکیں اور ہم نیچے اتر کردریا کے کنارے پر گئے۔ یہاں سے میں نے وہ جگہیں دکھائیں جہاں روشنیاں تھیں اور ان کی حرکات کے بارے بھی بتایا۔ سر مالکم نے کہا کہ عین ممکن ہے کہ یہ ملاح اس پر کچھ روشنی ڈال سکیں۔ انہیں نہ صرف ہندوستان کے مقامی افراد سے بات پوچھنے کا گر معلوم تھا بلکہ انہیں مقامی زبان پر پوری طرح عبور بھی تھا۔ انہوں نے یہ معلومات حاصل کیں۔ ان افراد کے گھر کنگرا وادی میں تھے جہاں وہ معمولی کھیتی باڑی کرتے تھے جو ان کی کفالت کے لئے ناکافی تھی اور انہیں لکڑی کو دریا کے راستے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل بھی کرنا پڑتا تھا جس سے معقول آمدنی ہو جاتی تھی۔ یہ افراد برما دیو تک دریا کے چپے چپے سے واقف تھے اور بے شمار مرتبہ دریا کے اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر تک سفر کر چکے تھے۔ اس کھائی سے وہ بخوبی واقف تھے کیونکہ لکڑی یہاں کے پانی میں اکثر پھنس جاتی تھی اور انہیں بہت مشکل پیش آتی تھی۔ انہوں نے اس جگہ دریا کے کنارے آج تک نہ تو وہ روشنیاں اور نہ ہی کوئی اور غیر معمولی بات نہیں دیکھی تھی۔
جونہی وہ میری جانب مڑے، میں نے انہیں کہا کہ ان افراد سے ایک اور سوال پوچھیں۔ سوال یہ تھا کہ آیا ان برسوں میں کبھی انہوں نے اس جگہ رات گذاری تھی؟ انہوں نے ایک زبان ہو کر جواب دیا کہ نہیں۔ وجہ پوچھنے پر پتہ چلا کہ ان کے نزدیک یہ جگہ آسیب زدہ تھی اور انہوں نے کبھی کسی کو یہاں رات گذارتے نہیں دیکھا تھا۔
دو ہزار فٹ اوپر ایک تنگ دراڑ سی تھی جو نسل در نسل عقیدت مندوں کے یہاں سے گذرنے کے سبب شیشے کی طرح پھسلوان بن گئی تھی۔ یہ راستہ سا پچاس گز لمبا تھا اور نیچے والے مندر کو اوپر والے مندر سے ملاتا تھا۔ اس جگہ کہیں بھی ہاتھ جمانے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ مقامی پنڈتوں کی تمام تر احتیاط کے باوجود یہاں سے گذرنے والوں کی شرح اموات بہت بلند تھی۔ تاہم چند سال قبل میسور کے راجہ نے یہاں زیریں مندر سے بالائی مندر تک سٹیل کی ایک موٹی تار لگوانے کی رقم مہیا کر دی تھی۔
اس لئے اگر یہاں روحیں تھیں بھی تو ان میں سے کوئی بھی بدروح نہیں تھی۔

(۳)
اب اصل کہانی کی طرف واپس چلتے ہیں۔
گنگا رام جو پہاڑوں پر کماؤں بھر کے افراد سے زیادہ تیز چل سکتا تھا، میرے ساتھ پیچھے رہا اور میرا کیمرہ اٹھانا اس کی ذمہ داری تھی۔ شب بسری کی جگہ سے دو میل کے فاصلے پر ہم اپنے دیگر ساتھیوں سے آن ملے۔ اگلے چھ گھنٹے ہم نے مسلسل سفر جاری رکھا۔ اس دوران ہم گھنے جنگلوں سے اور کئی بار دریائے سردا کے عین کنارے پر چلتے رہے۔ ہمارا راستہ کالا ڈھنگا اور چکہ سے ہو کر پہاڑ کے دامن تک جاتا تھا۔ اس پہاڑ کے دوسری جانب ہماری منزل تھی جہاں تلہ دیس کے آدم خور نے تباہی مچا رہی تھی۔ پہاڑ کے دامن میں ہم رکے اور دو گھنٹے کے لئے آرام کیا اور کھانا وغیرہ پکا کر کھایا۔ اس کے بعد ہمارے سامنے ۴۰۰۰ فٹ کی سخت چڑھائی تھی۔
سہہ پہر کو جب اپریل کا گرم سورج ہماری پشتیں جلا رہا تھا اور راستے میں ایک بھی سایہ دار درخت نہیں تھا۔ یہ چڑھائی میری زندگی کی سب سے سخت چڑھائیوں میں سے ایک تھی۔ برائے نام سڑک تھی جو دراصل ایک پگڈنڈی تھی۔ یہ راستہ سیدھا پہاڑ کے دامن سے چوٹی تک چلا جاتا تھا اور کہیں بھی موڑ نہیں تھے کہ چڑھائی آسان ہو جاتی۔ بار بار رکتے ہوئے اور آرام کرتے ہوئے ہم لوگ ایک چھوٹی سی وادی میں پہنچے جو چوٹی سے ۱۰۰۰ فٹ نیچے تھی۔ اب سورج ڈوب رہا تھا۔ چکا میں ہمیں اس وادی سے ہوشیار رہنے کے لئے کہا گیا تھا کیونکہ پہاڑ کے جنوبی سرے پر یہ واحد انسانی آبادی تھی جس کی وجہ سے آدم خور یہاں باقاعدگی سے چکر لگاتا تھا۔ تاہم چاہے آدم خور ہو یا کچھ اور، ہم میں مزید اوپر چڑھنے کی ہمت نہیں تھی۔ یہ بستی راستے سے چند سو گز ہٹ کر تھی جہاں ہم پہنچے۔ اس وادی میں رہنے والے دونوں خاندان کے لوگ ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ آرام کرنے اور کھانا کھانے کے بعد میرے آدمی تو مقامی افراد کی طرف سے مہیا کئے گئے کمرے میں بند دروازے کے پیچھے محفوظ ہو گئے اور میں نے درخت کے نیچے اس جگہ اپنا سفری بسترا بچھایا جہاں چشمے سے یہ لوگ پانی بھرتے تھے۔ میرے ساتھ میری رائفل اور لالٹین بھی تھی۔
اس رات بستر پر لیٹ کر میں نے پوری صورتحال کا اچھی طرح جائزہ لیا۔ بل بینس نے مقامی نمبرداروں کو حکم دیا تھا کہ میری آمد تک کسی بھی انسانی یا مویشی کی لاش کو اس کی جگہ سے نہ ہٹایا جائے۔ تنک پور کے پیشکار نے مجھے جس لڑکے کے بارے بتایا تھا وہ چار تاریخ کو ہلاک ہوا تھا اور اب چھ تاریخ کی رات تھی۔ تنک پور کے ریلوے سٹیشن پر اترنے کے بعد ہم نے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ جائے وقوعہ پر ہر ممکن جلدی پہنچا جا سکے۔ مجھے اچھی طرح علم تھا کہ میری آمد سے قبل ہی شیر نے لاش کو صاف کر دیا ہوگا اور اگر اسے کسی مداخلت کا شبہ نہ ہوا تو وہ ابھی کچھ دیر مزید بھی اسی علاقے مںق رکے گا۔ صبح کیمپ سے روانہ ہوتے ہوئے مجھے امید تھی کہ ہم سورج غروب ہونے سے قبل ہی منزل پر پہنچ جائیں گے اور میرے پاس اتنا وقت ہوگا کہ کم از کم ایک بھینسا تو ضرور مطلوبہ جگہ پر باندھ دوں گا۔ تاہم دریائے سردا سے اوپر والی چڑھائی نے ہمارا کچومر نکال دیا تھا۔ اس پر جتنا بھی افسوس ہوتا کم تھا لیکن ایک دن تو ضائع ہو ہی گیا تھا۔ اب امید یہی تھی کہ اگر شیر اس جگہ سے ہٹا بھی ہوگا تو شاید زیادہ دور نہیں گیا ہوگا۔ اس بات پر غور کرنا فضول تھا کہ کماؤں کا یہ علاقہ میرے لئے بالکل انجان تھا۔ اس علاقے میں آٹھ سال کے دوران آدم خور نے کم از کم ڈیڑھ سو انسانی شکار کئے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ شیر کافی بڑے علاقے میں وارداتیں کر رہا تھا۔ اگر ایک بار اس کا نشان ہاتھ سے نکل جاتا تو پھر کئی ہفتوں تک اس کی خبر نہ ملتی۔ تاہم اس بات پر غور کرنا کہ شیر نے کیا کیا یا کیا کرے گا اس وقت فضول تھا اس لئے میں سو گیا۔
چونکہ ہمیں صبح بہت جلدی روانہ ہونا تھا اس لئے ابھی کافی اندھیرا تھا کہ گنگا رام نے آ کر لالٹین جلایا جو رات گئے شاید بجھ گیا تھا۔ جتنی دیر ناشتہ تیار ہوتا میں نے چشمے پر غسل کیا اور تیار ہو گیا۔ نیپال والے پہاڑ کے اوپر سے سورج نکلنے ہی والا تھا کہ میں نے اپنی اعشاریہ ۲۷۵ بور کی رگبی ماؤزر رائفل کو صاف کر کے تیل دیا اور اس کے میگزین میں پانچ گولیاں ڈالیں اور روانگی کے لئے تیار ہو گیا۔ آدم خور کی وجہ سے ان دیہاتوں کا آپس میں رابطہ منقطع تھا اس لئے یہ لوگ آدم خور کے آخری شکار سے بے خبر تھے اور اس لئے ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہمیں کس سمت اور کتنا دور جانا ہوگا۔ اس اس لئے مجھے نہیں علم تھا کہ اگلی بار کھانا ہم کہاں اور کب کھائیں گے، میں نے اپنے ساتھیوں کو اچھی طرح پیٹ بھرنے کر اپنے پیچھے آنے کو کہا۔ انہیں یہ بھی میں نے ہدایت کی کہ اکٹھے چلتے ہوئے وہ جب آرام کرنے کے لئے بیٹھیں تو صرف ہر طرف سے کھلی جگہ کا انتخاب کریں۔
واپسی اسی راستے پر پہنچ کر کہ جس سے ہم آئے تھے، میں وادی کا جائزہ لینے کے لئے رک گیا۔ میرے نیچے دریائے سردا کی وادی تھی جس سے چل کر ہم آئے تھے۔ وادی پر ابھی تک سورج کی روشنی نہیں پڑی تھی اور گھوم پھر کر یہ دریا کافی آگے تنک پور پہنچتا تھا۔ تنک پور سے آگے دریا چمکیلی پٹی کی صورت میں افق تک جاتا دکھائی دیتا تھا۔ چکا بھی ابھی سائے میں تھا اور جزوی طور پر دھند میں چھپا ہوا تھا۔ تاہم مجھے ٹھاک کو جانے والا راستہ بخوبی دکھائی دے رہا تھا جس کے چپے چپے سے دس سال قبل ٹھاک کے آدم خور کا پیچھا کرتے ہوئے میں واقف ہوا تھا۔ ٹھاک کا گاؤں کئی سو سال قبل کماؤں کے حکمران چند راجاؤں کی جانب سے پرناگری کے مندروں کے پجاریوں کو تحفتا دیا گیا تھا۔
اس منظر کو دیکھے ہوئے مجھے پچیس برس پورے ہو گئے ہیں۔ یہ عرصہ بہت لمبا ہے اور اس دوران کیا کچھ نہیں ہو گیا۔ لیکن جو یادیں دماغ میں انمٹ نقوش چھوڑ گئی ہوں، وہ ہمیشہ تازہ رہتی ہیں۔ تلہ دیس کے آدم خور کے پیچھے پانچ دن کا عرصہ میرے ذہن میں آج بھی اسی طرح تازہ ہے جیسے پچیس سال قبل تھا۔
پہاڑ کی دوسری جانب جا کر یہ راستہ اچھی خاصی سڑک پر چڑھتا تھا جو چھ فٹ چوڑی تھی اور شرقا غربا پھیلی ہوئی تھی۔ یہاں میرے سامنے ایک عجیب مسئلہ آن کھڑا ہوا۔ چونکہ مجھے دائیں یا بائیں کوئی گاؤں دکھائی نہیں دے رہے تھے اس لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کس جانب رخ کروں۔ پھر میں نے سوچا کہ بائیں سڑک زیادہ سے زیادہ دریائے سردا تک لے جائے گی، میں نے اس کو اختیار کیا۔
اگر مجھے چہل قدمی کے لئے جگہ اور وقت کا انتخاب دیا جائے تو میرے نزدیک اپریل کے اوائل میں ہمالیہ کی کسی بھی اچھی سرسبز پہاڑی کی شمالی جانب کی چہل قدمی بہترین ہے۔ اس وقت پورے ماحول پر بہار آئی ہوئی ہوتی ہے۔ پت جھڑ کے شکار درختوں پر نئے پتے نکل رہے ہوتے ہیں اور رنگا رنگ پھول کھلے ہوتے ہیں اور بے شمار اقسام کے پرندے چہچہا رہے ہوتے ہیں جو سردیوں میں نیچے وادی میں چلے گئے ہوتے ہیں۔ ان کے گھونسلے یہاں ہوتے ہیں اور ملاپ کے لئے ہنسی خوشی چہچہاتے ہیں۔ ایسے علاقے میں جہاں چہل قدمی کے دوران کوئی خطرہ لاحق نہ ہو تو بندہ محض ان پرندوں کو سنتا اور ان درختوں اور پھولوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ تاہم جب آدم خور کا خطرہ سر پر ہو تو بندہ ان جگہوں پر چلتے ہوئے بے فکر نہیں رہ سکتا۔
ہر قسم کے کھیل میں خطرے کا عنصر اسے زیادہ دلچسپ بنا دیتا ہے۔ اس کے علاوہ شکاری ہو یا کھلاڑی، اس کی صلاحیتوں کو جلا بخشتا ہے اور آنکھ اور کان انتہائی ذمہ داری سے جنگل میں اپنا فرض نبھاتے ہیں۔ تاہم ایسا خطرہ جس سے آپ بخوبی واقف ہوں اور اس کے لئے تیار بھی ہوں تو پھر وہ خطرہ آپ کو فطرت سے لطف اندوز ہونے سے نہیں روک سکتا۔ چاہے ان پھولوں کی کنج کے پیچھے بھوکا آدم خور ہی کیوں چھپا ہو، اس کنج کے رنگ پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح درخت کی چوٹی پر چہچہاتی چڑیا کی آواز اس وجہ سے بری نہیں ہو جاتی کہ اسی درخت کی نچلی شاخوں پر ایک اور پرندہ جنگل کے باسیوں کو شیر کی آمد سے خبردار کر رہا ہوتا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ چند خوش نصیب ایسے ہوں کہ انہیں ڈر نہ لگتا ہو لیکن میں ان میں سے نہیں۔ زندگی جنگل میں گذارنے کے باوجود مجھے شیر کے دانتوں اور پنجوں سے اسی طرح ڈر لگتا ہے جس طرح کہ بچپن میں میگگ اور مجھے شیر نے ڈرا کر بھگایا تھا۔ تاہم اس خطرے کا سامنا کرنے اور اس کو حواس پر طاری نہ کر لینے کی وجہ سے اب میں اس بچے سے بہت مختلف ہوں جو اس دن میگگ کے ساتھ جنگل میں شیر کا سامنا ہونے کے بعد ڈر کر بھاگا تھا۔ اس وقت مجھے ہر طرف سے ڈر لگتا تھا اور ہر آواز مجھے ڈراتی تھی لیکن اب مجھے علم تھا کہ خطرہ کن جگہوں سے ہو سکتا ہے اور کون سی آواز ایسی ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں اور کس آواز کو پوری توجہ سے سننا ہے۔ اس کے علاوہ ان دنوں کے برعکس کہ جب مجھے گولی چلانے پر یقین نہیں ہوتا تھا کہ گولی نشانے پر لگے گی بھی یا نہیں، اب مجھے علم تھا کہ میں جہاں چاہوں گولی وہیں لگے گی۔ تجربے سے اعتماد بڑھتا ہے اور یہ دونوں اکیلے اور پیدل آدم خور کے شکار کے دوران قیمتی اثاثہ بن جاتے ہیں۔ ان کے بغیر جنگل میں پیدل آدم خور کے شکار پر نکلنا خود کشی کا انتہائی احمقانہ اور دردناک طریقہ ہے۔
جس راستے پر میں چل رہا تھا وہ آدم خور کی سلطنت سے گذرتا تھا۔ جگہ جگہ ناخن کھرچنے کے نشانات اس بات کی واضح نشانی تھے کہ آدم یہاں بکثرت آتا رہتا ہے۔ تاہم یہ نشان کافی پرانے تھے اور ان سے آدم خور کی پہچان ناممکن تھی۔ ان کے علاوہ تیندوے، سانبھر، ریچھ، کاکڑ اور سؤر کے بھی پگ موجود تھے۔ پرندوں اور پھولوں کی بے شمار اقسام یہاں موجود تھیں۔ اس کے علاوہ پورے درختوں یا ان کی شاخوں پر پھولدار بیلیں چڑھی ہوئی تھیں۔ یہاں ایک پھولدار درخت پر میں نے ہمالیائی ریچھ کا بنایا ہوا انتہائی خوبصورت گھونسلہ دیکھا تھا۔ زمین سے چالیس فٹ کی بلندی پر بلوط کا یہ درخت شاید برف کے وزن یا پھر کسی طوفان سے ٹوٹ گیا تھا۔ جس جگہ تنا ٹوٹا تھا، وہاں سے بہت ساری شاخیں نکل آئی تھیں جن کی موٹائی انسانی بازو کے برابر رہی ہوگی۔ اس جگہ کافی کائی اگی ہوئی تھی اور اسی کائی پر پھول اگ آئے تھے۔ اسی تنے پر شاخوں کو توڑ موڑ کر ریچھ نے اپنا گھونسلہ بنایا تھا۔ اپنے گھونسلے کے لئے ریچھ جن درختوں کا انتخاب کرتے ہیں ان کی شاخیں لچکدار ہوتی ہیں اور موڑے جانے پر ٹوٹتی نہیں۔ تاہم ان گھونسلوں کا افزائش نسل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور عموما ۲۰۰۰ سے ۸۰۰۰ فٹ کی بلندی تک ملتے ہیں۔ اس سے کم بلندی پر جب ریچھ جاتے ہیں تو ان کا کام جنگلی آلو بخارے اور شہد کی تلاش ہوتا ہے۔ یہاں گھونسلوں میں ریچھ چیونٹیوں اور مکھیوں سے بچے رہتے ہیں۔ زیدہ بلندی پر بنے ہوئے گھونسلوں میں ریچھ دیگر جانوروں کی مداخلت سے بچ کر دھوپ سینکتے ہیں۔
جب کوئی راستہ دلچسپ ہو تو اس کی لمبائی کا احساس نہیں ہوتا۔ میں اندازا ایک گھنٹہ چلا ہوں گا کہ گھاس سے ڈھکی ایک چٹان سامنے آئی جس کے نیچے ایک گاؤں تھا۔ جب میں وہاں پہنچا تو پورا گاؤں میرے استقبال کے لئے نکل آیا۔ میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ کیا دنیا کے کسی دوسرے کونے میں اگر کوئی انجان مسافر کسی دیہات میں اچانک جا پہنچے تو کیا اس کا استقبال اتنے والہانہ انداز میں کیا جائے گا جتنا کہ کماؤں کے علاقے کے ہر گاؤں میں ہوتا ہے؟ مجھے یقین ہے کہ پیدل اور اکیلا آنے والا میں یہاں پہلا سفید فام بندہ تھا لیکن میرے پہنچنے تک نہ صرف قالین بچھ گیا تھا بلکہ میرے لئے ایک موڑھا بھی لا کر رکھ دیا گیا تھا۔ ابھی میں اس پر بیٹھا ہی تھا کہ میرے ہاتھ میں دودھ سے بھرا جست کا گلاس تھما دیا گیا۔ چونکہ میں ساری زندگی کماؤں کے علاقے میں رہا ہوں اس لئے ان علاقوں کے مختلف لہجوں سے بخوبی واقف ہوں اور ان کی بات سمجھ سکتا ہوں۔ میرے ہاتھ میں رائفل سے تو انہیں پتہ چل گیا تھا کہ میں آدم خور سے ان کا پیچھا چھڑانے آیا ہوں لیکن یہ بات ان کی سمجھ سے باہر تھی کہ میں اتنی صبح سویرے یہاں کیسے پہنچا جبکہ نزدیک ترین ڈاک بنگلہ بھی ۳۰ میل دور تھا۔
جتنی دیر میں دودھ پیتا، سگریٹ تقیسم ہو گئے۔ جھجھک بھی کم ہوئی اور جب میں نے ان کے سارے سوالوں کے اطمینان بخش جوابات دے دیئے تو میں نے ان سے کچھ سوالات پوچھے۔ اس گاؤں کا نام تملی تھا۔ اس گاؤں سے آدم خور اکثر خراج وصول کرتا رہتا تھا۔ کچھ لوگوں کے مطابق آٹھ سال جبکہ دیگر کے خیال میں دس سال سے آدم خور سرگرم تھا۔ تاہم اس بات پر سبھی متفق تھے کہ آدم خور اسی سال نمودار ہوا جب بچی سنگھ نے لکڑیاں کاٹتے کاٹتے اپنا پیر کاٹ لیا تھا اور دان سنگھ کا کالا بیل جو اس نے ۳۰ روپے خرچ کر کے خریدا تھا، پہاڑی سے نیچے گر کر مر گیا تھا۔ آدم خور کا آخری شکار کندن کی ماں تھی جو مارچ کی بیس تاریخ کو ماری گئی۔ وہ بے چاری دیگر خواتین کے ساتھ کھیت میں کام کر رہی تھی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ آدم خور نر ہے یا مادہ۔ انہیں صرف اتنا علم تھا کہ آدم خور بہت بڑا جانور ہے اور اس کے خوف سے کھیتی باڑی بند ہو گئی تھی اور کسی کی ہمت نہیں تھی کہ تنک پور جا کر گاؤں والوں کے لئے خورد و نوش کا سامان لا سکے۔ آدم خور اس گاؤں سے کبھی بھی زیادہ دن غائب نہیں رہا تھا اور اگر میں ان کی درخواست کو قبول کر کے یہیں رہ جاتا تو پورے تلہ دیس میں یہ جگہ بہترین ثابت ہوتی۔
جب لوگوں کو آپ پر اندھا اعتقاد ہو تو انہیں آدم خور کے رحم و کرم پر چھوڑ کرجانا اتنا سہل کام نہیں۔ لیکن انہوں نے آرام سے میری توجیہہ مان لی اور پھر یہ وعدہ کر کے کہ جونہی موقع ملا میں ان کے پاس ضرور آؤں گا، میں واپس چل پڑا۔
جس جگہ یہ راستہ جنگل والے راستے سے ملتا ہے، میں نے وہ نشان ہٹایا جو میں نے آتے وقت رکھا تھا اور دوسری جانب وہی نشان رکھ دیا۔ مزید احتیاط کے پیش نظر میں نے دوسری جانب سڑک پر وہ نشان رکھ دیا جس سے سڑک بند دکھائی دیتی۔ یہ دو نشان کماؤں میں ہر کوئی جانتا ہے اور اگرچہ میں نے اپنے ساتھیوں کو اس کے بارے پہلے سے نہیں بتایا تھا لیکن مجھے علم تھا کہ وہ نشان دیکھتے ہی میرا مقصد سمجھ جائیں گے۔ پہلا نشان دراصل ایک چھوٹی سی شاخ تھی جو سڑک کے درمیان کسی پتھر یا لکڑی کے نیچے دبا دی جاتی ہے اور اس کے پتوں کا رخ اسی جانب ہوتا ہے جس جانب بندہ جاتا ہے۔ دوسرا نشان دو شاخوں پر مشتمل ہوتا ہے جو کانٹے کی شکل میں رکھی جاتی ہیں۔
مغرب کی جانب جانے والی یہ سڑک تقریبا ہموار تھی اور بلوط کے اونچے اونچے درختوں سے بھرے جنگل سے ہو کر گذرتی تھی۔ راستے پر گھٹنوں تک اونچی اگی ہوئی گھاس وغیرہ تھی۔ تاہم جس جگہ بھی ذرا سا جنگل چھدرا ہوتا، وہاں سے برف سے ڈھکی چوٹیوں والی پہاڑیاں دکھائی دیتیں جو تاحد نگاہ مشرق کو جاتی دکھائی دیتیں۔

(۴)
چار میل مغرب کی سمت جا کر یہ سڑک پھر شمال کو مڑتی ہے اور وادی کے سرے سے گذرتی ہے۔ وادی میں ایک صاف شفاف پانی کا چشمہ بہہ رہا تھا جو میرے بائیں جانب موجود پہاڑ کے بلوط کے جنگل سے نکلتا تھا۔ پتھروں پر چلتے ہوئے میں نے یہ چشمہ پار کیا اور ہلکی سی چڑھائی کے بعد کھلے میدان تک پہنچ گیا جس کے دوسرے سرے پر گاؤں تھا۔ چشمے سے پانی بھرنے کے لئے آنے والی کئی لڑکیوں نے مجھے دیکھ لیا تھا اور جب میں اس کھلے میدان پر پہنچا تو مجھے ان کی پرجوش آواز سنائی دی کہ "صاحب آ گئے ہیں۔ صاحب آ گئے ہیں۔" جتنی دیر تک میں اس کھلے میدان کو عبور کرتا، پورا گاؤں گھروں سے نکل آیا تھا اور میرے وہاں پہنچنے پر انہوں نے مجھے گھیرے میں لے لیا۔ میرے چاروں طرف مرد، عورتیں اور بچے جمع تھے۔
نمبردار نے مجھے بتایا کہ اس گاؤں کا نام تلہ کوٹ ہے اور دو دن قبل یعنی پانچ اپریل کو پٹواری چمپاوت سے آیا تھا تاکہ مجھ سے ملے اور لوگوں کو یہ بتانے آیا تھا کہ نینی تال سے ایک صاحب آدم خور کو مارنے کے لئے روانہ ہو گئے ہیں۔ پٹواری کی آمد کے کچھ ہی دیر بعد گاؤں کی ایک عورت کو آدم خور نے ہلاک کر دیا۔ الموڑا کے ڈپٹی کمشنر کے احکامات کی روشنی میں انہوں نے لاش کو بالکل نہیں چھیڑا۔ اب میری آمد کے انتطار میں انہوں نے صبح سویرے کچھ بندے بھیجے تھے جو جا کر اس عورت کی لاش تلاش کرتے اور اگر لاش کاکچھ حصہ باقی ہوتا تو اس پر مچان باندھتے۔ جتنی دیر میں نمبردار نے مجھے یہ باتیں بتائیں، ۳۰ بندوں کی ایک جماعت آ گئی۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اس جگہ کو اچھی طرح دیکھا تھا اور انہیں اس عورت کے محض چند دانت ہی ملے تھے۔ حتٰی کہ اس عورت کے کپڑے بھی غائب تھے۔ جب میں نے پوچھا کہ یہ واردات کہاں ہوئی تھی تو سترہ سالہ ایک لڑکا سامنے آیا اور بولا کہ اگر میں اس کے ساتھ گاؤں کی دوسری جانب چلوں تو وہ مجھے وہ جگہ دکھائے گا جہاں اس کی ماں کو آدم خور نے ہلاک کیا تھا۔اب یہ لڑکا آگے آگے اور اس کے پیچھے میں اور میرے پیچھے پورا گاؤں چل پڑا۔ ہمارا راستہ گاؤں سے ہو کر دو پہاڑوں کو ملانے والی پتلی سی پچاس گز لمبی ایک منڈیر نما جگہ تک پہنچا۔ یہ جگہ دراصل دو وادیوں کے ملاپ کی جگہ تھی۔ بائیں جانب یعنی مغرب کی سمت دریائے لدھیا کی وادی تھی۔ دائیں جانب والی وادی انتہائی ڈھلوان تھی اور دس یا پندرہ میل آگے چل کر دریائے کالی کو جاتی تھی۔ اسی جگہ رک کر اس لڑکے نے دائیں جانب والی وادی کی طرف منہ موڑا۔ بائیں جانب والی یعنی شمالی سمت کی وادی میں چھوٹی چھوٹی گھاس اگی ہوئی تھی اور اکا دکا جھاڑیاں بھی تھیں۔ دائیں جانب والی وادی میں گھنا جنگل اور لمبی گھاس اگی ہوئی تھی۔ بائیں جانب والی وادی کی میں آٹھ سو سے ہزار گز دور اور ہزار یا ڈیڑھ ہزار فٹ نیچے کے ایک مقام کی طرف اشارہ کر کے اس بتایا کہ وہاں اس کی ماں دیگر عورتوں کے ساتھ گھاس کاٹ رہی تھی کہ آدم خور نے اسے ہلاک کیا۔ پھر اس نے ایک کھائی میں اگے بلوط کے درخت کو اشارہ کر کے بتایا کہ اس درخت کے نیچے اس کی ماں کی باقیات ملی تھیں۔ اس درخت کی کئی شاخیں لنگوروں نے توڑ دی تھیں۔ تاہم اس نے یا اس کے ساتھیوں نے شیر کو نہیں دیکھا تاہم انہوں نے بتایا کہ وادی میں نیچے اترتے وقت انہوں نے پہلے ایک گڑھل اور پھر لنگور کی آوازیں سنی تھیں۔
گڑھل اور لنگور کی آوازیں۔ گڑھل بعض اوقات انسان کو دیکھ کر بولتے ہیں لیکن لنگور انسان کو دیکھ کر کبھی نہیں بولتے۔ البتہ دونوں جانور شیر کو دیکھتے ہی لازمی بولتے ہیں۔ کیا یہ ممکن تھا کہ شیر وہیں کہیں چھپا ہوا لیٹا ہو اور ان بندوں کی آمد سے خبردار ہو کر اپنی جگہ سے نکلا ہو اور پھر اسے پہلے گڑھل اور پھر لنگور نے دیکھ لیا ہو؟ ابھی میں اس بات پر غور کر ہی رہا تھا کہ پٹواری آن پہنچا۔ جب میں یہاں پہنچا تو پٹواری کھانا کھا رہا تھا۔ اس سے میں نے پوچھا کہ بینس والے دو بھینسے کہاں ہیں؟ اس نے بتایا کہ چمپاوت سے بھینسوں کو ساتھ لے کر وہ نکلا تھا اور یہاں سے دس میل دور اس نے بھینسے اس گاؤں میں چھوڑ دیئے تھے جہاں ۴ اپریل کو آدم خور نے گاؤں کے کنارے ایک لڑکے کو ہلاک کیا تھا۔ چونکہ اس گاؤں میں آدم خور کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں تھا اس لئے انہوں نے لڑکے کی لاش کو ہٹا کر اس کی اطلاع چمپاوت بھیج دی تھی جو میری طرف تنک پور بھیج دی گئی تھی۔ پھر اس نے لڑکے کی لاش کو جلانے کا حکم دے دیا۔
ابھی میرے ساتھی نہیں پہنچے تھے اس لئے پٹواری کو یہ بتا کر کہ وہ میرا خیمہ چشمے کے کنارے کھلی جگہ پر لگوائے، میں جا کر ذرا اس جگہ کا جائزہ لے آؤں جہاں آدم خور نے اس عورت کو ہڑپ کیا تھا۔ میرا ارادہ تھا کہ اگر اس جگہ پگ دکھائی دیں تو پتہ چل سکے کہ آیا شیر نر ہے یا مادہ اور اگر مادہ ہے تو کیا اس کے بچے بھی ساتھ ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، کماؤں کا یہ علاقہ میرے لئے انجان تھا۔ جب میں نے نمبردار سے پوچھا کہ اس جگہ تک جانے کے لئے کون سا راستہ بہتر رہے گا تو وہی لڑکا پھر سامنے آیا کہ اگر میں اس کے ساتھ نیچے چلوں تو وہ مجھے راستہ دکھائے گا۔
آدم خور کے علاقے میں رہنے والے لوگوں کا اعتماد اور ان کا وہ یقین جو وہ کسی بھی اجنبی پر رکھتے ہیں، انتہائی کمال کی چیز ہے۔ یہ لڑکا جس کا نام بعد میں مجھے ڈنگر سنگھ بتایا گیا، اس کی ایک واضح مثال تھا۔ سالہا سال سے ڈنگر سنگھ آدم خور کے علاقے میں رہ رہا تھا اور ابھی گھنٹہ بھر پہلے ہی وہ اپنی ماں کی لاش کی باقیات لے کر واپس لوٹا تھا۔ اکیلا اور غیر مسلح ہونے کے باوجود اب ڈنگر سنگھ ایک ایسے مکمل اجنبی بندے کے ساتھ اس جگہ جانے کو تیار تھا جہاں اس نے گڑھل اور لنگور کی آواز سن کر آدم خور کی موجودگی کا یقین کر لیا تھا اور یہ وہی آدم خور تھا جس نے اس کی ماں کو ہلاک کر کے پیٹ بھرا تھا۔ یہ سچ ہے کہ کچھ دیر قبل وہ اسی جگہ سے لوٹا تھا لیکن اس وقت اس کے ساتھ ۳۰ افراد بھی تھے اور بڑی جماعت ہمیشہ ہی محفوظ ہوتی ہے۔
اس کھائی میں اس جگہ سے اترنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ڈنگر سنگھ مجھے گاؤں سے گذار کر اس جگہ لے گیا جہاں سے بکریوں کی پگڈنڈی شروع ہوتی تھی۔ اس جگہ جب ہم جھاڑیوں کے درمیان سے گذرے تو میں نے اسے بتایا کہ میری قوت سماعت کافی کمزور ہے اور اگر وہ مجھے کوئی خاص چیز دکھانا چاہے تو رک کر اس کی طرف اشارہ کرے۔ اگر اسے کوئی بات کہنی ہو تو قریب آ کر میرے دائیں کان میں سرگوشی کر کے بتائے۔ ابھی ہم ۴۰۰ گز گئے ہوں گے کہ ڈنگر سنگھ اچانک رکا اور مڑ کر پیچھے دیکھنے لگا۔ میں نے بھی پیچھے مڑ کر دیکھا تو پٹواری اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ آتا دکھائی دیا۔ اس کے ساتھی کے پاس بندوق تھی۔ ان کی تیز رفتاری سے مجھے شک ہوا کہ شاید وہ کوئی خاص بات بتانے آ رہے ہیں۔ تاہم جب وہ نزدیک آئے تو یہ جان کر مجھے بہت مایوسی ہوئی کہ وہ محض میرے ساتھ جانا چاہتے تھے۔ میں نے انتہائی بے دلی سے اجازت دی۔ دونوں کے پیروں میں بھاری بوٹ تھے اور جنگل میں چلتے وقت اچھا خاصا شور کرتے تھے۔
ابھی ہم گھنی گھاس سے مزید چار سو گز آگے گئے ہوں گے کہ ہمارے سامنے چند مربع گز جتنی صاف زمین آئی۔ اس جگہ سے بکریوں کی پگڈنڈی دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی تھی۔ ایک شاخ بائیں جانب کافی گہری کھائی کو جبکہ دوسری دائیں جانب پہاڑی کو گھوم کر جاتی تھی۔ اس جگہ ڈنگر سنگھ نے رک کر کھائی کی جانب اشارہ کیا اور پھر میرے کان میں سرگوشی کر کے بولا کہ اس کھائی میں اس کی ماں کو آدم خور نے کھایا تھا۔ چونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ اس جگہ کی زمین پر بوٹوں کے نشانات شیر کے پگوں کو خراب کریں، میں نے ڈنگر سنگھ سے کہا کہ وہ ان دونوں بندوں کے ساتھ وہیں رکے اور میں نیچے جا کر کھائی میں دیکھتا ہوں۔ ابھی میں نے اپنی بات پوری کی تھی کہ اچانک ڈنگر سنگھ مڑا اور پہاڑی کے اوپر کی جانب دیکھنے لگا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہاں سارا گاؤں اس جگہ جمع تھا جہاں سے کچھ دیر قبل میں روانہ ہوا تھا۔ ایک ہاتھ پھیلا کر ڈنگر سنگھ نے ہمیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور دوسرا ہاتھ کان پر رکھ کر وہ کچھ سنتا اور سر ہلاتا رہا۔ پھر آخری بار سر ہلا کر وہ مڑا اور میرے کان میں سرگوشی کر کے بولا "میرے بھائی نے کہا ہے کہ نیچے والے ویران کھیت میں انہیں کوئی سرخ رنگ کی چیز دھوپ میں لیٹی دکھائی دے رہی ہے۔"
ویران کھیت سے مراد ایسا کھیت تھا جس میں کاشتکاری بند کر دی گئی تھی اور اس میں کوئی سرخ رنگ کی چیز لیٹے دھوپ سینک رہی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سرخ رنگ کی چیز کئی جھاڑی یا شاخ ہو یا پھر کاکڑ یا سانبھر تاہم عین ممکن تھا کہ وہ شیر ہوتا۔ کچھ بھی ہو، میں اس موقعے کو ہاتھ سے نہیں گنوانا چاہتا تھا۔ اس لئے میں نے اپنی رائفل ڈنگر سنگھ کو تھمائی اور پٹواری اور اس کے ساتھی کو بازو سے پکڑ کر نزدیک موجود ایک درخت تک لے گیا۔ اس جگہ میں نے پٹواری کی بندوق خالی کر کے نیچے موجود جھاڑی میں چھپا دی اور انہیں ہدایت کی کہ درخت پر چڑھ جائیں اور میری واپسی تک خاموشی سے وہیں رہیں۔ جتنی خوشی سے وہ لوگ درخت پر چڑھ کر بلند ترین شاخوں پر براجمان ہو گئے اس سے مجھے یقین ہو گیا کہ گاؤں سے نکلتے وقت اور اب ان کے ارادوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔
دائیں جانب والی بکریوں کی پگڈنڈی اسی ویران کھیت تک جاتی تھی اور اس جگہ کافی بڑی گھاس اگی ہوئی تھی۔ یہ کھیت سو گز لمبا اور میرے پاس اس کھیت کی چوڑائی دس فٹ جبکہ دوسرے سرے پر تیس فٹ تھی۔ دوسرے سرے پر اس کا اختتام چھجے پر ہوتا تھا۔ پچاس گز تک سیدھا جانے کے بعد یہ کھیت بائیں مڑ جاتا تھا۔ جب ڈنگر سنگھ نے مجھے اس جانب دیکھتے پایا تو اس نے بتایا کہ دوسرے سرے سے ہمیں ویران کھیت کی وہ جگہ دکھائی دے گی جہاں اس کے بھائی نے وہ سرخ چیز دیکھی تھی۔ کھیت کے اندرونی کنارے کے ساتھ جھک کر گھٹنوں اور کہنیوں کے بل رینگتے ہوئے ہم اس کھیت کے کنارے تک پہنچے اور ہاتھوں سے گھاس کو ہٹا کر سامنے دیکھا۔
ہمارے سامنے نیچے چھوٹی سی وادی تھی جس کے دوسرے سرے پر گھاس سے بھری ڈھلوان تھی جس کا دوسرا سرا بلوط کے چھوٹے درختوں سے بھرا ہوا تھا۔ ان درختوں کے پیچھے گہری کھائی تھی جس میں آدم خور نے ڈنگر سنگھ کی ماں کو کھایا تھا۔ یہ گھاس والی ڈھلوان تیس گز چوڑی ہوگی اور اس کے نیچے ایک چوٹی تھی جس کے نیچے اگے درختوں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ یہ چوٹی اسی سے سو فٹ اونچی ہوگی۔ اس ڈھلوان پر ہماری جانب والے سرے پر ایک کھیت تھا جو سو گز لمبا اور دس گز چوڑا ہوگا۔ یہ کھیت جو ہمارے سامنے بالکل سیدھا تھا، پر ہماری جانب والے کنارے پر گھاس اگی ہوئی تھی۔ باقی حصے پر خوشبودار جڑی بوٹی تھی جو عموما ۴۰۰۰ سے ۵۰۰۰ فٹ کی بلندی پر عام ملتی ہے۔ گھاس کے اس قطعے پر سورج کی روشنی میں ایک دوسرے سے دس فٹ کے فاصلے پر دو شیر لیٹے ہوئے تھے۔
نزدیکی شیر کی کمر ہماری جانب اور سر پہاڑی کی جانب تھا۔ دوسرے شیر کا پیٹ ہماری جانب جبکہ اس کی دم پہاڑی کی جانب تھی۔ دونوں ہی بے خبر سو رہے تھے۔ نزدیکی شیر پر گولی چلانا زیادہ آسان تھا لیکن مجھے خطرہ ہوا کہ گولی کے دھماکے سے دوسرا شیر بیدار ہوتے ہی سیدھا پہاڑی سے نیچے اتر جائے گا جہاں کافی گھنی جھاڑیاں وغیرہ تھیں۔ اس کا سر اسی جانب تھا۔ تاہم اگر میں دوسرے شیر پر پہلے گولی چلاؤں تو گولی کے دھماکے کے علاوہ اس کے دھکے کو سن کر دوسرا شیر یا تو سیدھا پہاڑی کی جانب بھاگے گا جہاں جھاڑیاں اتنی گھنی نہیں تھی یا پھر وہ سیدھا میری جانب آئے گا۔ اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ دور والے شیر پر پہلے گولی چلاؤں۔ درمیانی فاصلہ تقریبا ۱۲۰ گز ہوگا اور چونکہ شیر بالکل سامنے ہی تھا اس لئے گولی کو اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ عموما ہمالیہ کے پہاڑی علاقے میں شکار کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ کھیت کے کنارے پر میں نے رائفل کو رکھا اور ہر ممکن احتیاط سے اس جگہ کا نشانہ لے کر جہاں میرے خیال میں اس شیر کا دل ہوگا، میں نے آہستگی سے لبلبی دبا دی۔ اس شیر نے رواں تک نہ ہلایا جبکہ دوسرا شیر ایک لمحے میں بیدار ہو کر چھلانگ لگا کر پانچ فٹ اونچے کنارے پر چڑھا جو کھیت اور برساتی نالے کے درمیان منڈیر کا کام دیتا تھا۔ اس جگہ دوسرا شیر میرے سامنے آڑا کھڑا ہو کر گردن موڑ کر اپنے ساتھی کو دیکھ رہا تھا۔ گولی لگتے ہی یہ شیر اچھلا اور سیدھا برساتی نالے میں گر کر میری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ دوسری گولی چلتے ہی میں نے پہلے شیر کے پاس موجود گھاس میں حرکت دیکھی۔ کوئی بڑا جانور سیدھا کھیت میں دوڑ رہا تھا۔ دیگر دو شیروں کے اتنے قریب سے بھاگنے والا جانور صرف ایک اور شیر ہی ہو سکتا تھا۔ مجھے وہ جانور تو دکھائی نہیں دیا لیکن اس کی حرکت سے ہلنے والی جھاڑیوں سے مجھے اس کا پتہ چلتا رہا۔ ۲۰۰ گز کی پتی اٹھا کر میں نے انتظار کیا کہ وہ جانور کب جھاڑیوں سے نکلتا ہے۔ اچانک ہی ڈھلوان پر مجھے شیر بھاگتا دکھائی دیا۔ اس جگہ میں نے محسوس کیا کہ ڈھلوان دائیں جانب کو مڑ رہی تھی۔ میں جس سرے پر تھا وہ بائیں جانب مڑتا تھا۔ اس لئے شیر میرے سامنے تقریبا آڑا تھا جب میں نے اس پر گولی چلائی۔
میں نے گولی کھاتے ہی جانوروں کو گرتے دیکھا ہے اور گولی کھا کر انہیں گول گیند کی شکل میں تبدیل ہوتے بھی دیکھا ہے لیکن جس طرح بظاہر یہ شیر مرا، وہ ناقابل یقین تھا۔ چند لمحے تک یہ شیر وہیں پڑا رہا اور پھر نیچے کو پھسلنے لگا۔ اس کے پیر آگے تھے اور پھسلنے کے ساتھ ساتھ اس کی رفتار بھی بڑھتی گئی۔ اس کے عین نیچے چٹان کے کنارے سے چند فٹ پر بلوط کا ایک درخت تھا جو دس یا بارہ انچ موٹا ہوگا۔ شیر کا پیٹ اس درخت سے جا ٹکرایا اور اگلی ٹانگیں ایک جانب جبکہ دم اور دیگر دو ٹانگیں دوسری جانب لٹک گئیں۔ رائفل کو کندھے سے اور انگلی کو لبلبی پر رکھے میں منتظر رہا لیکن شیر نے کوئی حرکت نہ کی۔ اٹھ کر میں نے پٹواری اور اس کے ساتھی کو نیچے اترنے کا اشارہ کیا۔ جہاں وہ بیٹھے تھے، وہاں سے انہیں سارا منظر بخوبی دکھائی دے رہا تھا۔ ڈنگر سنگھ جو میرے ساتھ ہی لیٹا تھا، اب خوشی اور جوش کے مارے ناچ رہا تھا۔ جس طرح وہ اوپر موجود دیہاتیوں اور پھر شیروں کو دیکھ رہا تھا اس سے صاف لگ رہا تھا کہ اس کے پاس انہیں سنانے کے لئے اچھی خاصی کہانی ہے۔
جب میں نے دو شیروں کو ایک دوسرے کے نزدیک سویا ہوا دیکھا تو میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ آدم خور نے اپنا ساتھی تلاش کر لیا ہے۔ لیکن جب میری تیسری گولی پر تیسرا شیر بھی گرا تو مجھے یقین ہو گیا کہ میرا مقابلہ آدم خور شیرنی اور اس کے دو بچوں سے ہے۔ ان تینوں میں سے ماں کون سی تھی اور بچے کون سے، یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ رائفل سے نشانہ لیتے وقت تینوں ہی شیر ایک جیسی جسامت کے حامل دکھائی دیئے تھے۔ ان تینوں میں سے ایک تلہ دیس کا آدم خور تھا اس میں کوئی شک نہیں۔ ان پہاڑی علاقوں میں شیر خال خال دکھائی دیتے یہں اور یہ تین شیر اس جگہ کے اتنے نزدیک تھے جہاں آدم خور نے آخری شکار کیا تھا۔ بچوں کو ماں کے گناہوں کی سزا بھگتنی پڑی تھی۔ بے شک دودھ چھوڑنے کے بعد سے انہوں نے ماں کے ساتھ مل کر انسانی گوشت کھایا تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب وہ اپنی ماں سے الگ ہوتے تو آدم خوری کی عادت جاری رکھتے۔ اگرچہ "کماؤں کے آدم خور" نامی میری کتاب چھپنے کے بعد سے اس موضوع پر بہت کچھ کہا گیا ہے لیکن میں ابھی بھی اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ آدم خور شیروں کے بچے ہندوستان کے اس علاقے میں جس کے بارے میں لکھ رہا ہوں، محض اس وجہ سے آدم خور نہیں بن جاتے کہ انہوں نے بچپن میں انسانی گوشت کھایا تھا۔
کھیت کے کنارے بیٹھ کر ٹانگیں جھلاتے ہوئے میں نے رائفل کو اپنے گھٹنوں پر رکھا اور اپنے ساتھیوں کو سگریٹ دیئے۔ میں نے انہیں مطلع کیا کہ سگریٹ ختم ہونے پر میں نیچے جا کر برساتی نالے میں گرے شیر کو دیکھوں گا۔ مجھے اس بات کا پورا یقین تھا کہ وہ شیر مر چکا ہے لیکن چند منٹ بیٹھ کر اپنی اس کامیابی پر خوشی منانے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ تلہ دیس آمد کے ایک گھنٹے کے اندر اندر اتفاق سے میں نے نہ صرف چند سیکنڈ کے وقفے سے اس آدم خور شیرنی کو ہلاک کر دیا تھا جس نے کئی سو مربع میل کے علاقے میں آٹھ سال سے دہشت پھیلا رکھی تھی بلکہ اس کے دو بچے بھی شکار کر لیئے تھے۔ ہر شکاری جب وہ شکار پر نکلتا ہے تو انتہائی جوش کی حالت میں چلائی ہوئی گولیاں نشانے پر لگیں تو اسے بہت خوشی ہوتی ہے اور یہ خوشی اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب اسے علم ہو جائے کہ اسے کسی زخمی شیر کا پیچھا نہیں کرنا اور زخمی شیر کے پیچھے جانے کے نتائج کی فکر نہیں کرنی۔
تاہم میرے ساتھیوں نے میری کامیابی کو قسمت سے نہیں جوڑا۔ انہوں نے کسی بھی ناکامی سے بچنے کے لئے نینی تال سے نکلتے وقت وہاں کے بوڑھے پنڈت سے سفر کے آغاز کے لئے مبارک گھڑی معلوم کی تھی اور تلہ دیس پہنچنے تک کسی بھی برے شگن سے سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ اسی طرح اگر میں ناکام رہتا تو بھی اس میں میری بدقسمتی نہیں تھی کیونکہ چاہے جتنی بھی احتیاط اور نشانے سے گولی چلائی جائے، جس جانور کی موت کا وقت نہیں آیا، وہ نہیں مر سکتا۔ شکار پر میرے ساتھ جو افراد ہوتے ہیں ان کے اعتقادات میرے لئے کافی دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں۔ میں اپنا سفر کبھی جمعے کے دن شروع نہیں کرتا۔ اس لئے میں پہاڑیوں کے ان اعتقادات پر نہیں ہنس سکتا جن کے مطابق منگل اور بدھ کو شمال کی جانب، جمعرات کو جنوب کی جانب، مشرق کو پیر اور ہفتے کے دن جبکہ اتوار یا جمعہ کو مغرب کی سمت سفر کرنے سے گریز کرنا چاہیئے۔ اگرچہ کسی بھی خطرناک سفر کے آغاز کے دن کا انتخاب اپنے ہمراہیوں پر چھوڑنا معمولی سی بات ہے لیکن اس سے بہت بڑا فرق پیدا ہو سکتا ہے۔ اجازت نہ دینے کی صورت میں سارا سفر کسی انجان حادثے کی فکر میں ضائع ہو جاتا ہے جبکہ اجازت دینے کی صورت میں وہی سفر انتہائی خوشگوار ماحول میں طے ہوتا ہے۔
ہم چاروں افراد کھیت کے کنارے بیٹھے سگریٹ ختم کرنے ہی والے تھے کہ اچانک تیسرا شیر جو بلوط کے تنے سے ٹکا ہوا تھا، اچانک ہلنے لگا۔ بظاہر اس کے جسم کا خون اس کے سر کی جانب جمع ہونے لگا تھا جس کی وجہ سے اگلا حصہ زیادہ بھاری ہوا اور شیر نیچے کی جانب سر کے بل پھسلنے لگا۔ جب وہ تنے سے ہٹا تو نیچے ڈھلوان پر گرتے ہوئے کنارے کو بڑھا۔ کنارے سے پھسل کر ہوا میں ہوتا ہوا شیر نیچے گر رہا تھا کہ میں نے رائفل اٹھائی اور اس پر گولی چلا دی۔ مجھے یہ کہتے ہوئے شرمندگی ہو رہی ہے کہ میرے ذہن میں یہ تھا کہ اتنے خوش نصیب دن میں اگر میں ہوا میں گرتے ہوئے شیر پر بھی گولی چلاؤں تو میرا نشانہ خطا نہیں ہوگا۔ اگلے لمحے شیر نیچے گرا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا اور نیچے ہلکی سی تھڈ کی آواز آئی۔ شیر کو ہوا میں گرتے ہوئے میں نے جو گولی چلائی تھی وہ اسے لگی یا نہیں، اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ اصل بات یہ تھی کہ اب گاؤں والوں کو شیر کی لاش زیادہ دور سے اٹھانی پڑتی۔
سگریٹ ختم ہو گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ وہیں رکیں اور میں نیچے جا کر برساتی نالے میں گرے شیر کا جائزہ لے کر آتا ہوں۔ اس جگہ پہاڑی انتہائی ڈھلوان تھی اور ابھی میں بمشکل پچاس فٹ گیا ہوں گا کہ ڈنگر سنگھ نے مجھے پکارا۔ "صاحب وہ دیکھیں۔ شیر جا رہا ہے۔" میں نے سوچا کہ میرے نیچے برساتی نالے والا شیر بھاگ رہا ہے اور میں نے بیٹھ کر رائفل اٹھائی اور اپنے خیال میں سامنے سے آنے والے شیر پر گولی چلانے کو تیار ہو گیا۔ یہ دیکھتے ہی ڈنگر سنگھ پھر چیخا کہ "اس طرف نہیں صاحب بلکہ دوسری طرف۔" فوری خطرے کی فکر سے آزاد ہو کر میں نے سر موڑا اور ڈنگر سنگھ کو دیکھا تو وہ اس جانب اشارہ کر رہا تھا جہاں اس کی ماں کو آدم خور نے کھایا تھا۔ پہلے تو مجھے کچھ نہ دکھائی دیا پھر اچانک میں نے ترچھے پہاڑ کے اوپر کی جانب جاتے ہوئے شیر کو دیکھا۔ شیر انتہائی لنگڑا کر چل رہا تھا اور ایک وقت میں بمشکل تین یا چار قدم اٹھاتا اور پھر رک جاتا۔ اس کے دائیں شانے پر بڑا سا خون کا دھبہ تھا۔ شانے کے دھبے سے مجھے علم ہوا کہ یہ وہ شیر ہے جو بلوط کے تنے سے اٹک گیا تھا اور پھر نیچے گرا تھا۔ برساتی نالے میں گرے شیر کے بائیں کندھے پر میں نے گولی چلائی تھی۔
پہاڑی پر میرے نزدیک صنوبر کا ایک چھوٹا سا درخت اگا ہوا تھا۔ تین سو گز کی پتی چڑھا کر میں نے درخت کو بائیں ہاتھ سے پکڑا اور رائفل کی نال کو اپنی کلائی پر رکھ کر آرام سے نشانہ لیا۔ شیر میری نسبت کچھ زیادہ بلندی پر تھا اور میں نے تھوڑا سا اوپر کی طرف نشانہ لے کر شیر کے رکنے کا انتظار کیا۔ جونہی شیر رکا، میں نے گولی چلا دی۔ گولی نے اس فاصلے کو طے کرنے میں بہت زیادہ وقت لیا۔ بالاخر میں نے شیر کے پاس مٹی اڑتی دیکھی اور اسی وقت شیر آگے جھکا اور آہستگی سے آگے بڑھا۔ میں نے ہلکا سا نشانہ غلط لیا تھا۔ تاہم اب مجھے بالکل درست اندازہ ہو گیا اور شیر کی ہلاکت کے لئے محض ایک گولی درکار تھی۔ وہ گولی جو میں اس کے ہوا میں گرتے وقت اس پر ضائع کر دی تھی۔ خالی رائفل ہاتھ میں لئے میں نے شیر کو آہستگی اور تکلیف سے پہاڑ پر چڑھتے دیکھا۔ چند لمحے کے تذبذب کے بعد شیر دوسری جانب غائب ہو گیا۔
ہمالیہ میں جن شکاریوں نے شکار نہیں کیا، وہ اسے میری حماقت سمجھیں گے کہ میرے پاس اعشاریہ ۲۷۵ کی ہلکی رائفل تھی اور محض پانچ گولیاں۔ اس کی وجہ کچھ یوں ہے:
۱) اس رائفل کو میں گذشتہ ۲۰ سال سے استعمال کر رہا تھا اور میں اس سے اچھی طرح واقف تھا۔
۲) یہ رائفل ہلکی لیکن نشانے میں بلا کی سچی اور ۳۰۰ گز پر آزمائی ہوئی تھی۔
۳) کرنل باربر نے مجھے بھاری رائفل کے استعمال سے منع کیا تھا اور یہ بھی کہ ہلکی رائفل سے بھی بلا ضرورت فائر نہ کروں۔
جہاں تک پانچ گولیوں کی بات ہے تو اس وقت میں شیروں کے شکار پر نہیں بلکہ اس نیت سے نکلا تھا اس گاؤں کو تلاش کر سکوں جہاں آدم خور نے آخری شکار کیا تھا اور اگر وقت ملتا تو اس مقام پر بھینسا باندھتا۔ ہلکی رائفل اور پانچ گولیاں پھر بھی کافی ہوتیں اگر میں نے وہ ایک اہم ترین گولی غلط نہ چلائی ہوتی۔
اتنی دیر میں میرے ساتھی گاؤں پہنچ چکے تھے اور سارا منظر انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ انہیں علم تھا کہ میرے پاس محض پانچ گولیاں تھیں اور پانچویں گولی چلنے کے بعد بھی جب انہوں نے شیر کو آگے بڑھتے اور پہاڑ کی دوسری جانب غائب ہوتے دیکھا تو مادھو سنگھ انتہائی عجلت سے بھاگتے ہوئے میرے پاس مزید گولیاں لے کر آیا۔
گھاس کے قطعے اور برساتی نالے والے شیر عین اسی جگہ مرے پڑے تھے جہاں وہ گرے تھے۔ دونوں ہی تقریبا پوری طرح جوان بچے تھے۔ اس لئے جو شیر زخمی ہو کر فرار ہوا تھا وہ ان کی ماں تھی اور وہ ہی تلہ دیس کی آدم خور تھی۔ مادھو سنگھ اور ڈنگر سنگھ کو وہیں چھوڑا تاکہ وہ ان شیروں کو گاؤں لے جانے کا بندوبست کریں اور میں زخمی شیرنی کو تلاش کرنے کی نیت سے نکل کھڑا ہوا۔ جس جگہ وہ پہلے گری تھی وہاں سے میں نے خون کی ہلکی دھار دیکھی جو اس جگہ تک گئی تھی جہاں میں نے اس پر آخری گولی چلائی تھی۔ اس جگہ میری گولی سے اس کی پشت کے کچھ بال کٹ گئے تھے اور جب اس نے اپنے اوپر میری گولی کی آواز سنی اور آگے جھکی تو مزید کچھ خون بھی گرا۔ اس جگہ سے پہاڑی تک اکا دکا خون کے قطرے تھے اور کنارے کے بعد کی گھاس پر میں نے خون کے نشانات نہیں دیکھے۔ میرے پاس ہی سو گز چوڑا اور تین سو گز لمبا جھاڑیوں کا قطعہ تھا۔ میرا خیال تھا کہ شیرنی نے اسی قطعے میں ہی پناہ لی ہے۔ لیکن رات ہو رہی تھی اور درست نشانے کے لئے روشنی ناکافی تھی اس لئے میں نے گاؤں واپس لوٹ کر اگلے دن شیرنی کی تلاش کا سوچا۔

(۵)
اگلی صبح میں نے دونوں شیروں کی کھال اتارنے اور پھر انہیں چھ انچ لمبے کیلوں کی مدد سے پھیلانے پر صرف کی۔ یہ کیل میں نینی تال سے اپنے ساتھ لایا تھا۔ جتنی دیر میں اس کام سے فارغ ہوتا، میرے خیمے کے نزدیک والے درختوں پر سینکڑوں گدھ جمع ہو گئے۔ انہی گدھوں کی وجہ سے ہمیں آدم خور کے آخری شکار کے کپڑوں کا سراغ ملا۔ ان دونوں شیروں نے خون آلود کپڑے پھاڑ کر کھا لیئے تھے۔
گاؤں کے افراد میرے گرد جمع تھے اور کھال اتارتے ہوئے میں نے انہیں بتایا کہ میری خواہش ہے کہ وہ میرے گڑھوالی ساتھیوں کے ہمراہ زخمی شیرنی کو گھاس کے اس قطعے سے نکالنے کے لئے ہانکہ کریں۔ انہوں نے بخوشی حامی بھر لی۔ دوپہر کے وقت ہم لوگ نکلے اور گاؤں کے درمیان سے ہوتے ہوئے پہاڑ کے عین اوپر اس جگہ کے پاس پہنچ گئے جہاں شیرنی نے پناہ لی تھی۔ بکریوں والی پگڈنڈی سے میں نیچے اترا اور اسی جگہ گیا جہاں میں نے گذشتہ شام کو شیرنی کا پیچھا کیا تھا۔ اسی نچلے کنارے پر ایک بہت بڑا پتھر تھا جس پر کھڑا ہو کر میں پہاڑی کی چوٹی پر موجود ان افراد کو دکھائی دے سکتا تھا۔ میں نے ہاتھ ہلا کر انہیں ہانکہ شروع کرنے کا کہا۔ شیرنی کے ہاتھوں زخمی ہونے کے خطرے کے پیش نظر میں نے ان افراد سے کہا تھا کہ وہ پہاڑ کے اوپر ہی موجود رہ کر تالیں بجاتے اور شور کرتے رہیں اور مطلوبہ جگہ پر پتھر لڑھکاتے رہیں۔ تاہم محض ایک کاکڑ اور چند مرغ زریں یعنی فیزنٹ نکلے۔ جب پتھروں نے پورے قطعے کو چھان لیا تو میں نے ہاتھ ہلا کر ہانکہ روکنے اور گاؤں واپس جانے کا اشارہ کیا۔
جب سارے افراد گاؤں چلے گئے تو میں نے شیرنی کی عدم موجودگی کے امکانات کے باوجود اس قطعے کی تلاشی لینے کا فیصلہ کیا۔ جب میں نے شیرنی کو پہاڑ پر شام کو چلتے دیکھا تو صاف لگ رہا تھا کہ شیرنی کو بہت تکلیف دہ زخم لگا ہے لیکن جس جگہ شیرنی آگے کو جھکی، وہاں موجود خون کے نشان سے صاف پتہ چلا کہ زخم گہرا نہیں بلکہ سطحی ہے۔ پھر شیرنی میری گولی لگتے ہی ایسے کیوں گری جیسے پتھر گرا ہو۔ اس کے علاوہ بلوط کے درخت کے تنے پر شیرنی دس سے پندرہ منٹ تک رکی رہی اور کیوں اس نے حرکت نہیں کی؟ اس وقت میرے پاس ان سوالوں کے جواب نہیں تھے اور نہ ہی اب میرے پاس اس کا کوئی واضح جواب ہے۔ بعد میں میں نے دیکھا کہ میری نرم سرے اور نکل کے خول والی گولی شیرنی کے کندھے کے جوڑ میں پھنس گئی تھی۔ جب تیز رفتار یعنی ہائی ولاسٹی والی گولی اچانک کسی ہڈی سے ٹکراتی ہے تو اس سے پہنچنے والا صدمہ بہت شدید ہوتا ہے۔ پھر بھی شیر جیسا بھاری جانور جو اتنا طاقتور ہوتا ہے، اعشاریہ ۲۷۵ جیسی ہلکی گولی کھاتے ہی دس یا پندرہ منٹ کے لئے بے ہوش ہو جائے، میری سمجھ سے باہر ہے۔ سرے پر لوٹ کر میں کھڑا ہوا اور علاقے کا جائزہ لیا۔ یہ سرا کئی میل لمبا تھا اور دو وادیاں اس سے گذرتی تھیں۔ بائیں جانب والی وادی کے اوپری سرے پر یہ گھاس کا قطعہ تھا اور اس کے بعد گھاس چھدری ہوتی جاتی تھی۔ دائیں جانب والی وادی کا اوپری سرا جہاں شیروں نے اس عورت کو کھایا تھا، گھنے جنگل سے دائیں طرف بھرا ہوا تھا اور بائیں جانب گہری ڈھلوان تھی۔
اس پتھر پر بیٹھ کر میں نے خاموشی سے سگریٹ پیا اور گذشتہ شام کے واقعات پر غور کیا اور درج ذیل نتائج اخذ کئے:
۱) شیرنی گولی کھانے سے لے کر نیچے گرنے تک کے عرصے میں بالکل بے ہوش تھی۔
۲) جب وہ جھاڑ جھنکار وغیرہ پر گری تو اس کے ہوش بحال ہو گئے لیکن پھر بھی وہ تقریبا نیم بے ہوش تھی۔
۳) اسی نیم بے ہوشی کی حالت میں اس نے محض ناک کی سیدھ میں سفر جاری رکھا اور پہاڑ پر چڑھی اور یہ جانے بغیر کہ کہاں جا رہی ہے، بڑھتی رہی۔
اب میرے سامنے یہ سوال تھا کہ شیرنی کس سمت اور کتنی دور گئی ہوگی۔ زخمی ٹانگ کے ساتھ پہاڑ پر چڑھنے کی نسبت اترنا زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ جونہی شیرنی کی حواس جمع ہوئے تو اس نے نیچے کے سفر کو چھوڑ کر وہیں کہیں لیٹ کر اپنے زخم کی دیکھ بھال کی ہوگی۔ اس پناہ گاہ تک پہنچنے کے لئے اس نے پہاڑ کے سرے کو عبور کیا اور اس کا بات کا یقین کرنے کے لئے اس کے پگ دیکھنے کی ضرورت تھی۔ کئی میل لمبے پہاڑ کے سنگلاخ سرے پر شیر جیسے نرم پیروں والے جانور کے پگ تلاش کرنا کارے وارد ہوتا اگر یہ سرا خنجر کی دھار کی طرح تیز نہ ہوتا۔ عین سرے کے نیچے جنگلی جانوروں کی پگڈنڈی سی تھی اور اس پر بہت سارے جانوروں کے پگ صاف دکھائی دے رہے تھے۔ اس پگڈنڈی کے بائیں جانب گھاس والی ڈھلوان تھی اور دائیں جانب بھربھری مٹی والی ڈھلوان تھی جس کے سرے پر کافی گہری کھائی تھی۔
سگریٹ ختم کر کے میں اٹھا اور اسی پگڈنڈی کو دیکھتا ہوا چل پڑا۔ اس پر گڑھل، سراؤ، سانبھر، لنگور، سیہہ اور ایک نر تیندوے کے پگ موجود تھے۔ جتنا میں آگے بڑھتا گیا اتنا ہی مجھے شک ہوتا گیا کہ اگر شیرنی کے پگ دکھائی نہ دیئے تو پھر اس کی تلاش پر کافی وقت ضائع ہوتا۔ ایک میل تک میں چلتا گیا اور اس دوران میری آمد سے گھبرا کر دو گڑھل بھاگے۔ آخر کار میں نے شیرنی کے پگ تلاش کر لئے اور خون کا ایک خشک دھبہ بھی موجود تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ پہاڑ کے دوسری جانب جانے کے بعد شیرنی اسی گھاس والی ڈھلوان پر چلتی رہی حتٰی کہ اس کے حواس بحال ہوئے اور اس نے نیچے جانے کی بجائے پہاڑ کے متوازی چلنا شروع کر دیا۔ اس طرح وہ اس پگڈنڈی تک پہنچی۔ نصف میل تک پیچھا کرتے ہوئے میں اس جگہ پہنچا جہاں یہ ڈھلوان پندرہ گز چوڑی رہ گئی تھی۔ یہاں سے نیچے اترنے میں شاید شیرنی کی یہ خواہش ہوگی کہ وہ نیچے جا کر کھائی کی دوسری جانب والے گھنے جنگل میں چھپ جائے۔ اترتے ہوئے اس کی ٹانگ دغا دے گئی یا پھر اس کے حواس مختل ہو گئے، لیکن شیرنی پھسل گئی اور چند گز نیچے گرنے کے بعد اس نے ٹانگیں پھیلا کر خود کو روکنے کی کوشش کی کیونکہ اگر وہ زیادہ نیچے جاتی تو گہری کھائی میں گر جاتی۔ اگرچہ میں پہاڑی بکریوں کی طرح پہاڑ پر چڑھ سکتا ہوں لیکن یہ ڈھلوان میرے بس سے باہر تھی۔ اسی راستے پر چند سو گز آگے جا کر میں پہاڑ کے ایک شگاف میں پہنچا اور اس کے ذریعے کھائی میں اترا۔
جب میں اس تیس گز چوڑی کھائی میں داخل ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ اوپر موجود چوٹی ساٹھ سے اسی فٹ اونچی ہے اور اگر کوئی جانور وہاں سے نیچے گرتا تو لازما پتھروں سے ٹکرا کر مر جاتا۔ جب میں اس جگہ پہنچا جہاں شیرنی گری تھی تو وہاں کسی بڑے جانور کا سفید پیٹ دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ لیکن میری خوشی جلد ہی غائب ہو گئی کیونکہ یہ لاش شیرنی کی بجائے سراؤ کی تھی۔ بظاہر سراؤ اوپر کسی جگہ سو رہا تھا اور شیرنی کی آواز سن کر یا اس کی بو پا کر اچانک بیدار ہوا اور پریشانی میں نیچے چھلانگ لگا کر اپنی گردن تڑوا بیٹھا۔ سراؤ کے قریب ہی ریت کا ایک مختصر ٹکڑا تھا جہاں شیرنی گری تھی۔ گرنے کے ساتھ ہی اس کے شانے کا زخم کھل گیا تھا اور شیرنی اگرچہ سراؤ کی لاش سے ایک گز کے فاصلے سے گذری لیکن اس پر توجہ دیئے بغیر چلتی رہی اور اس کے پیچھے خون کی لکیر جاری تھی۔ یہاں کھائی کا دائیاں کنارہ چند فٹ اونچا تھا اور شیرنی نے اس پر کئی بار چڑھنے کی ناکام کوشش کی۔ ظاہر ہے کہ اب پہلی جھاڑی میں ہی شیرنی موجود ہوتی۔ لیکن میری قسمت نے میرا ساتھ نہیں دیا کیونکہ کچھ وقت سے آسمان پر گہرے بادل جمع ہو رہے تھے۔ جتنی دیر میں میں کھائی سے شیرنی کے خون کا پیچھا کرتے ہوئے نکلتا، بارش آ گئی اور سارا خون صاف کر گئی۔چونکہ شام گہری ہو رہی تھی اور میرا واپسی کا سفر کافی مشکل تھا، اس لئے میں واپس مڑا اور کیمپ کو چل دیا۔
ہر طرح کے شکار میں قسمت بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ابھی تک شیرنی کی قسمت اس کا ساتھ دے رہی تھی۔ پہلے تو یہ کہ شیرنی اپنے بچوں کے ساتھ سونے کی بجائے الگ ہو کر گھنی گھاس میں سو رہی تھی۔ اگر وہ کھلے میں ہوتی تو میں اسے دیکھتے ہی فورا پہچان لیتا۔ پھر میری گولی اس کے جسم کی اس واحد ہڈی میں لگی کہ گولی سے اسے کوئی گہرا زخم نہیں پہنچا۔ پھر دو بار شیرنی پہاڑ سے گری۔ پہلی بار جھاڑ جھنکار اور دوسری بار اگر ریت کا چھوٹا سا ٹکڑا اس کے آڑے نہ آتا تو شیرنی لازما ہلاک ہو جاتی۔ آخر میں جب میں اس جگہ سے محض سو گز دور تھا جہاں شیرنی لیٹی تھی، بارش نے اس کے خون کے نشانات مٹا دیئے۔ تاہم میری قسمت بھی کسی حد تک مہربان تھی کیونکہ مجھے جو خطرہ تھا کہ اگر شیرنی گھاس والی ڈھلوان سے نکل کر گم ہو جائے گی، غلط نکلا۔ اس کے علاوہ اب مجھے اچھی طرح علم تھا کہ اسے کس جگہ تلاش کرنا ہے۔

(۶)
اگلی صبح میں کھائی کو لوٹا تو میرے ساتھ میرے چھ گڑھوالی بھی تھے۔ پورے کماؤں میں سراؤ کا گوشت بہت لذیذ سمجھا جاتا ہے۔ یہ سراؤ جس کی گردن ٹوٹی ہوئی تھی، نوعمر اور خوب پلا ہوا تھا اور میرے ساتھیوں کو گوشت کی ضرورت بھی تھی۔ جتنی دیر میرے ساتھی سراؤ کی کھال اتارتے، میں نے سوچا کہ آگے بڑھ کر اس جگہ کا جائزہ لوں جہاں سے کل شام میں واپس لوٹا تھا۔ اس جگہ پہاڑ کے دائیں جانب جاتی ہوئی دو کھائیاں دکھائی دیں۔ چونکہ عین ممکن تھا کہ ان میں سے کسی کھائی سے ہو کر شیرنی گئی ہو، اس لئے میں نے باری باری دونوں کو دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے میں نے نزدیک والی میں جا کر دیکھا۔ چند سو گز آگے جا کر اس کھائی کا اختتام ۳۰ فٹ گہرے کھڈ میں ہوا تھا جبکہ کھائی کے کنارے اتنے ڈھلوان تھے کہ شیرنی اس پر نہ چڑھ سکتی۔ واپس لوٹ کر میں نے پچاس گز دور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میرے لئے آگ جلا کر چائے کی کتیلی تیار کریں۔ پھر میں دوسری کھائی میں جونہی داخل ہوا تو یہاں جنگلی جانوروں کی عام گذرگاہ دکھائی دی۔ اس جگہ میں نے شیرنی کے پگ دیکھے جو گذشتہ شام کی بارش سے کچھ مٹ گئے تھے۔ جہاں میں کھڑا تھا اس کے پاس ہی بڑا سا پتھر تھا۔ اس پتھر کی دوسری جانب نشیب سا تھا اور وہاں پتے جمع تھے جن پر شیرنی لیٹی تھی اور خون کا بڑا سا دھبہ بھی موجود تھا۔ چالیس گھنٹے قبل جب شیرنی پہاڑ سے نیچے گری اور یہاں آ کر لیٹ گئی۔ جب میں نے اپنے ساتھیوں کو چائے بنانے کا کہا تو میری آواز سن کر وہ اس جگہ کو چھوڑ کر آگے گئی تھی۔
چونکہ ہر شیر ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اس لئے یہ کہنا کہ فلاں شیر زخمی ہونے پر کس طرح پیدل شکاری کا سامنا کرے گا یا یہ کہ کتنے عرصے کے لئے زخمی شیر کو خطرناک تصور کرنا چاہیئے، ممکن نہیں یعنی اگر اسے تنگ کیا جائے تو وہ حملہ کر دے گا۔ ایک بار میں نے ایک شیر کو دیکھا جسے بھاگتے ہوئے پچھلے پیر کے تلے میں ایک انچ لمبا زخم لگا تو اس نے زخمی ہونے کے پانچ منٹ بعد سو گز کے فاصلے سے حملہ کر دیا تھا۔ اسی طرح ایک زخمی شیر جس کا جبڑہ بری طرح زخمی تھا، نے کئی گھنٹے بعد شکاری کو چند فٹ قریب تک آنے دیا اور حملہ نہیں کیا۔ تاہم جب زخمی شیر کی صورت میں آدم خور سے سامنا ہو تو بات کچھ پیچیدہ ہو جاتی ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ قریب پہنچنے پر یہ زخمی شیر حملہ کر سکتا ہے بلکہ یہ بھی کہ اگر اسے کاری زخم نہ لگا ہو تو عین ممکن ہے کہ وہ پیٹ کی آگ بھی ایک ساتھ بجھانا چاہے گا۔ عام طور پر جب شیر زخمی یا آدم خور نہ ہو تو بہت اچھا جانور ہوتا ہے۔ اگر شیر شریف جانور نہ ہوتا تو ہر روز ہزاروں افراد جنگلوں میں مختلف کاموں کے لئے جاتے ہیں یا جنگل سے گذرتے ہیں کبھی زندہ واپس نہ لوٹ سکیں۔ تاہم اگر کوئی بندہ اس کے بچوں کے بہت قریب پہنچ جائے یا اس کے شکار کردہ جانور کی لاش پر پہنچ جائے اور شیر نزدیک موجود ہو تو شیر تنبیہ کرتا ہے۔ اگر تنبیہ یعنی غراہٹ بھی نظر انداز کر دی جائے تو پھر شیر چھوٹی چھوٹی دوڑ لگا کر خوب زور سے دھاڑتا ہے۔ اگر اس کا کوئی اثر نہ ہو تو پھر شیر کے حملے کی ذمہ داری انسان پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ایک مثال پیش ہے۔ کچھ عرصہ قبل میں اور میری چھوٹی بہن میگی دریائے بور پر مچھلی کا شکار کر رہے تھے۔ یہ جگہ کالا ڈھنگی میں ہمارے گھر سے تین میل دور تھی۔ میں نے دو چھؤٹی مہاشیر پکڑی تھیں اور بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا کہ جیف ہوپکنز اپنے ہاتھی پر سوار آ گئے۔ بعد میں جیف اتر پردیش کے جنگلات کے کنزرویٹر بن گئے تھے۔ چونکہ وہ میرے گہرے دوستوں میں سے ایک تھے اور ان کے پاس گوشت ختم ہو رہا تھا اس لئے وہ اعشاریہ ۲۴۰ بور کی رائفل لے کر مور یا کاکڑ کے شکار کی نیت سے نکلے۔ چونکہ میں اپنی ضرورت کی مچھلی پکڑ چکا تھا اس لئے میں نے جیف کی تجویز مان لی کہ ہم مل کر شکار کو جاتے ہیں۔ ہاتھی پر سوار ہو کر ہم نے دریا عبور کیا اور میں نے مہاوت کو جنگل کے اس حصے کی طرف مڑنے کو کہا جہاں کاکڑ اور مور بکثرت تھے۔ ابھی ہم چھوٹی گھاس اور آلو بخارے کے جنگل سے گذر رہے تھے کہ میری نظر ایک مردہ چیتل پر پڑی جو درخت کے نیچے پڑا تھا۔ ہاتھی کو وہیں روک کر میں نیچے اترا اور یہ دیکھنے کے لئے آگے بڑھا کہ چیتل کو کس جانور نے ہلاک کیا ہے۔ یہ مادہ چیتل کافی بوڑھی تھی اور اسے مرے کم از کم چوبیس گھنٹے گذر چکے تھے اور چونکہ اس کے جسم پر زخم کا کوئی نشان نہ تھا اس لئے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ اسے سانپ نے کاٹا ہوگا۔ جونہی میں ہاتھی کی طرف جانے کے لئے مڑا تو مجھے تازہ خون کا ایک قطرہ پتے پر دکھائی دیا۔ اس قطرے سے پتہ چلا کہ یہ جانور اس مردہ چیتل کی مخالف سمت جا رہا تھا۔ اس طرف رخ کیا تو کچھ دور ایک اور دھبہ دکھائی دیا۔ ان تازہ دھبوں نے مجھے الجھن میں ڈال دیا اس لئے میں نے ہاتھی کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور اس سمت چل پڑا۔ ساٹھ یا ستر گز تک مختصر جسامت کی گھاس کے گذر کر خون کے نشانات پانچ فٹ اونچی جھاڑیوں کو جانے لگے۔ جب ان جھاڑیوں کے قریب پہنچا تو یہ نشانات غائب ہو گئے۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے جھاڑیاں ہٹائیں اور میرے ہاتھوں کے عین نیچے ایک نر چیتل جس کے سینگ ابھی مخمل سے پوشیدہ تھے، مرا پڑا تھا اور میرے سامنے میری جانب رخ کئے شیر اسے کھا رہا تھا۔ جونہی میں نے جھاڑیاں ہٹائیں تو شیر نے سر اٹھا کر میری جانب دیکھا اور زبان حال سے کہا "لعنت ہو"۔ بالکل یہی الفاظ میرے ذہن میں بھی تھے۔ خوش قسمتی سے میں اتنا حیران ہوا کہ حرکت نہ کر سکا۔ شاید میرا دل بھی اس وقت تھم گیا ہوگا۔ ایک لمحہ مجھے دیکھنے کے بعد شیر اٹھا اور مڑ کر وقار کے ساتھ جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔ اس وقت شیر میرے اتنا قریب تھا کہ اگر وہ اپنا پنجہ بڑھاتا تو میرے سر پر چپت لگا سکتا تھا۔ ظاہر ہے کہ ہماری آمد سے ذرا قبل شیر نے چیتل کو مارا اور اسے اٹھا کر ان جھاڑیوں میں لے آیا۔ اس دوران میں نے خون کے نشانات دیکھے تو پیچھا کیا اور وہیں آن پہنچا۔ جب تک شیر میرے سامنے سے غائب نہ ہو گیا میرے ساتھیوں نے اسے نہیں دیکھا۔ تاہم اسے دیکھتے ہی مہاوت نے چلا کر کہا "خبردار صاحب۔ شیر ہے۔" وہ مجھے شیر کی موجودگی کا بتا رہا تھا۔
واپس اپنے ساتھیوں کے پاس لوٹ کر میں نے دیکھا کہ انہوں نے کھال اتار کر سراؤ کو مناسب ٹکڑوں میں کاٹ دیا تھا اور اٹھائے روانگی کو تیار تھے۔ انہیں ساتھ لے کر میں واپس لوٹا۔ یہ چھ کے چھ بندے میرے ساتھ شکار کی مختلف مہمات پر جاتے رہے تھے۔ خون کے نشانات دیکھ کر انہوں نے کہا کہ شیرنی کو کاری زخم لگا ہے اور چند گھنٹوں کی مہمان ہے۔ تاہم میں بخوبی جانتا تھا کہ شیرنی کا زخم سطحی ہے اور کچھ وقت بعد مندمل ہو جائے گا۔ جتنا وقت وہ زندہ رہے گی، اتنا ہی اس سے مڈبھیڑ کے امکانات کم ہوتے جائیں گے۔
اگر آپ تصور کریں کہ تنگ اور گہری کھائی میں آپ موجود ہوں جو پہاڑ کے اوپر کی سمت جا رہی ہو اور دائیں کنارہ کھائی کی جانب ڈھلوان کی شکل میں ہو اور اس پر درخت اگے ہوں لیکن جھاڑ جھنکار سے پاک ہو اور بائیں جانب کھائی کا کنارہ بلند ہو رہا ہو اور اس پر پہاڑی بانس اور دیگر اقسام کے درخت اور جھاڑیاں موجود ہوں تو آپ کو اس علاقے کا کچھ اندازہ ہوگا جہاں اس دن ہم نے شیرنی کو تلاش کیا۔
میرا ارادہ تھا کہ اپنے ساتھیوں کو دائیں جانب کنارے پر چڑھاتا جہاں وہ اونچے درختوں پر بیٹھ کر مجھے دیکھتے رہے اور اگر انہیں میری توجہ مبذول کرانے کی ضرورت پڑتی تو سیٹی بجاتے۔ پہاڑوں کے باشندے آسانی سے سیٹی بجا سکتے ہیں۔ اس جانب انہیں کوئی خطرہ نہیں تھا کیونکہ یہاں جھاڑیاں نہیں تھیں اور شیرنی کھائی کی دوسری جانب والے کنارے سے پہاڑ کو گئی تھی۔ اس کے علاوہ یہ سب افراد درخت پر چڑھنے کے ماہر تھے۔ پھر میں نے اسی پہاڑ پر شیرنی کا پیچھا شروع کیا۔
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا کہ جنگل کی زبان کوئی علم نہیں جسے آپ کتب پڑھ کر سیکھ سکیں۔ تاہم یہ فن ہے جسے قطرہ قطرہ کر کے جذب کیا جا سکتا ہے۔ یہ عمل ساری زندگی جاری رہتا ہے۔ یہی مثال ٹریکنگ یعنی پیروں کے نشانات کی مدد سے پیچھا کرنے پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ اس میں بے انتہا تبدیلیاں ہو سکتی ہیں اور میرے نزدیک یہ شکار کی بہترین اقسام میں سے ایک ہے اور بعض اوقات یہ انتہائی دلچسپ بھی ہو سکتی ہے۔ عام طور پر اس طرح کھوج لگانے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ پہلے طریقے میں ایسے نشانات کا پیچھا کرنا جہاں خون کے نشانات بھی موجود ہوں اور دوسری قسم جس میں خون شامل نہیں ہوتا۔ تاہم ان دو طریقوں کے علاوہ بھی میں نے کئی بار مردہ جانوروں کو مکھیوں یا گوشت خور پرندوں کا تعاقب کر کے تلاش کیا ہے۔ ان دو طریقوں میں سے خون کے نشانات سے زخمی جانور کو زیادہ آسانی سے تلاش کیا جا سکتا ہے۔ لیکن عموما ہر زخم سے مسلسل خون نہیں بہتا اس لیے زخمی جانوروں کا پیچھا کرنے کے لئے ان کے پگوں یا ان کی گذرگاہ پر کچلی یا ہٹی ہوئی گھاس وغیرہ کو دیکھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔ پیچھا کرنے کا عمل زمین کی مناسبت سے آسان یا مشکل ہو سکتا ہے اور اس کے علاوہ اس بات پر بھی کہ آیا جانور کھر دار ہے یا نرم پنچوں والا۔ چونکہ میری آواز سن کر شیرنی جب آگے بڑھی تو اس کے زخم سے خون بہنا بند ہو گیا تھا لیکن اس کے زخم میں پیپ پڑنے لگی تھی جس سے کوئی خاص مدد نہیں ملی۔ اس لئے میں نے گھاس پھونس وغیرہ کو دیکھ کر شیرنی کا پیچھا کرنے کا ارادہ کیا۔ اس طرح کی زمین پر اس طریقے سے پیچھا کرنا مشکل نہیں تھا لیکن اس پر کافی وقت لگتا۔ جتنا زیادہ وقت لگتا، تعاقب اتنا ہی لمبا ہوتا اور شیرنی کے بچ نکلنے کے امکانات بڑھتے جاتے۔ گذشتہ کئی دنوں کی محنت میرے اعصاب پر سوار ہونے لگی تھی۔
پہلے سو گز تک میں نے گھٹنوں تک اونچی گھاس میں تعاقب کیا جو کافی آسان تھا اور شیرنی نے تقریبا سیدھا حرکت جاری رکھی تھی۔ اس کے بعد بانس کے گھنے جھنڈ اور فرن وغیرہ شروع ہو گئے تھے۔ مجھے یقین تھا کہ شیرنی انہی جھنڈوں میں لیٹی ہوگی۔ تاہم جب تک شیرنی حملہ نہ کرتی، میں اس پر گولی نہ چلا سکتا کیونکہ جھنڈ بہت گھنا تھا اور چلتے ہوئے کافی شور ہوتا تھا۔ جب میں جھنڈ کے وسط میں پہنچا تو کاکڑ بولنے لگا۔ شیرنی پھر چل پڑی تھی اور اس بار سیدھا پہاڑ پر چڑھنے کی بجائے وہ بائیں مڑ کر کھلے میدان سے گذری تو کاکڑ نے اسے دیکھ لیا۔ کاکڑ ابھی تک اپنی جگہ رکے بھونک رہا تھا۔ بائیں مڑ کر میں آگے بڑھا تو کھلی جگہ کوئی نہیں دکھائی دی اور نہ ہی کاکڑ کی آواز قریب محسوس ہوئی۔ تاہم چند لمحے بعد کاکڑ نے بھونکنا بند کیا اور پھر کئی مرغ زریں بولنے لگے۔ شیرنی ابھی تک چل رہی تھی لیکن میں جتنا بھی سر موڑتا مجھے آواز سنائی نہ دیتی۔
پن پوائنٹنگ یعنی ہر سنی ہوئی آواز کی سمت اور اس کے فاصلے کا بالکل درست اندازہ لگانا دراصل میری ایک ایسی کامیابی تھی جس پر مجھے بہت فخر ہے۔ تاہم اب مجھ پر یہ بھیانک انکشاف ہوا کہ اوپر بیان کئے گئے حادثے کی وجہ سے اب اپنی حفاظت کے لئے اپنی سماعت پر اعتبار نہیں کر سکتا۔ اسی طرح اب میں جنگل کے جانوروں اور پرندوں کی آواز سے نہیں لطف اندوز ہو سکتا حالانکہ اس فن کو سیکھنے میں مجھے برسوں لگے تھے۔
اگر میرا دوسرا کان درست ہوتا تو بھی مجھے کوئی فکر نہ ہوتی لیکن کئی سال قبل دوسرا کان بھی اسی طرح ایک "حادثے" کا شکار ہوا تھا۔ چونکہ اب اس بارے کچھ اور کرنا ممکن نہیں تھا اس لئے مجھے اپنی اس معذوری کو قبول کرتے ہوئے ہر ممکن دیگر طریقے سے شیرنی کا پیچھا جاری رکھنا تھا۔ ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے اور ہماری جسمانی حالتیں ایک دوسرے سے زیادہ بہتر نہیں تھیں۔
واپس فرن تک پہنچ کر میں نے شیرنی کو اپنی آنکھوں کی مدد سے تلاش کرنا شروع کیا۔ جنگل میں ہر قسم کے جانور اور پرندے موجود تھے۔ میں نے بار بار سانبھر، کاکڑ اور لنگوروں کی تنبیہی آوازیں سنیں اور ایک سے زیادہ مرتبہ پرندوں کی آوازیں بھی سنیں۔ ان آوازوں پر میں نے کوئی توجہ نہیں دی حالانکہ عام حالات میں میں ان آوازوں کو پوری توجہ سے سنتا۔ قدم بقدم میں نے شیرنی کا پیچھا جاری رکھا جو بار بار رکتی ہوئی پہاڑ کے اوپر کی جانب جا رہی تھی۔ کئی بار وہ خط مستقیم میں اور کئی بار اس نے ایک آڑ سے دوسری آڑ تک آڑا ترچھا سفر بھی کیا۔ چوٹی کے قریب ہی چھدری گھاس کا ایک قطعہ تھا جو سو گز لمبا ہوگا۔ اس کے بعد جھاڑیوں کے دو گھنے جھنڈ تھے جن کے درمیان سے ایک راستہ گذرتا تھا۔ شیرنی جانتی تھی کہ اس کا تعاقب ہو رہا ہے اس لئے وہ ہر ممکن طریقے سے خود کو چھپاتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی۔ دائیں جانب والا قطعہ بائیں قطعے کی نسبت تیس گز قریب تھا اس لئے میں نے پہلے اسے دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ابھی میں اس سے ایک یا دو گز دور ہوں گا کہ میں نے بھاری پنجے کے نیچے خشک ٹہنی چٹخنے کی آواز سنی۔ مجھے پورا یقین تھا کہ یہ آواز میرے بائیں جانب سے آئی ہے۔ یہ اس روز میری دوسری غلطی تھی۔ پہلی غلطی وہ تھی جب میں نے اپنے ساتھیوں کو چائے بنانے کے لئے کہا تھا۔ بعد میں مجھے میرے ساتھیوں نے بتایا کہ اس کھلے قطعے سے گذرتے وقت میں شیرنی کے عین پیچھے تھا اور جب میں بائیں جانب مڑ کر چلنے لگا تو شیرنی چند گز آگے کھلے قطعے میں لیٹی میری منتظر تھی۔
جب بائیں جانب والی جھاڑیوں میں مجھے شیرنی کا کوئی سراغ نہ ملا تو میں واپس کھلی جگہ آیا اور مجھے اپنے ساتھیوں کی سیٹی سنائی دی تو میں نے ان کی جانب مڑ کر دیکھا۔ وہ مجھ سے کئی سو گز دور بہت اونچے درخت کی چوٹیوں پر بیٹھے تھے۔ جب میں نے ہاتھ اٹھا کر انہیں اشارہ کیا کہ میں نے انہیں دیکھ لیا ہے تو انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اوپر اوپر اوپر اور پھر نیچے نیچے نیچے کا اشارہ کیا۔ وہ مجھے بتا رہے تھے کہ شیرنی پہاڑ کی چوٹی سے ہو کر دوسری جانب اتر گئی ہے۔ جتنا تیز ممکن ہوا چلتے ہوئے میں دونوں قطعوں کے درمیانی راستے سے گذرا اور چوٹی پر پہنچ کر دیکھا تو اس جانب کافی کھلی جگہ تھی۔ اس جگہ حال ہی میں گھاس جلائی گئی تھی اور راکھ گذشتہ روز کی بارش سے ابھی تک نم تھی۔ اس راکھ پر میں نے شیرنی کے پگ دیکھے۔ یہاں سے پہاڑ ہلکی ڈھلوان کی شکل میں نیچے جاتا ہوا اس ندی پر ختم ہوتا تھا جو میں نے تلہ کوٹ آمد پر راستے میں عبور کی تھی۔ یہاں لیٹ کر پیاس بجھانے کے بعد شیرنی اسے عبور کر کے دوسری طرف کے گھنے جنگل میں غائب ہو گئی تھی۔ چونکہ اب کافی دیر ہو رہی تھی اس لئے میں واپس مڑا اور اپنے ساتھیوں کو بلایا۔
جس بڑے پتھر پر چڑھ کر میں نے شیرنی کے پگ دیکھے تھے وہاں سے ندی تک کا فاصلہ چار میل ہوگا۔ لیکن یہ چار میل میں نے سات گھنٹوں میں طے کئے تھے۔ اگرچہ یہ تعاقب ناکامی پر منتج ہوا تھا لیکن بہت دلچسپ تھا۔ یہ دلچسپی نہ صرف میرے لئے تھی کیونکہ میں نے نہ صرف تعاقب کرنا تھا بلکہ شیرنی کے اچانک حملے سے بھی بچنا تھا بلکہ میرے ساتھی جو درختوں پر چڑھے تھے وہ مجھے اور شیرنی کو بخوبی دیکھ رہے تھے۔ اس کے علاوہ سارا دن ہم نے مصروف گذارا کیونکہ ہم صبح طلوع آفتاب کے وقت نکلے تھے اور رات کو آٹھ بجے کیمپ واپس پہنچے۔

(۷)
اگلی صبح جب میرے ساتھی کھانا کھا رہے تھے تو میں نے شیروں کی کھالوں کی دیکھ بھال میں کچھ وقت گذارا۔ میں نے انہیں دوسری جگہ منتقل کر کے ان کے گیلے حصوں پر راکھ وغیرہ ملی۔ شیروں کی کھال انتہائی نازک ہوتی ہے اور اس کی دیکھ بھال میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر چربی کو پوری طرح صاف نہ کیا جائے اور ہونٹوں، کانوں اور تلوؤں کو اچھی طرح نہ صاف کیا جائے تو بال جھڑنے لگتے ہیں اور کھال برباد ہو جاتی ہے۔ دوپہر سے ذرا قبل میں تیار تھا اور چار ساتھیوں کے ساتھ نکل کھڑا ہوا۔ دو بندے میں نے کیمپ میں اس نیت سے چھوڑ دیئے کہ وہ سراؤ کی کھال کی دیکھ بھال کریں گے۔ ہمارا رخ اسی جانب تھا جہاں گذشتہ شام میں نے شیرنی کا پیچھا چھوڑا تھا۔
یہ وادی جس سے ندی گذرتی تھی، کافی چوڑی اور نسبتا مسطح تھی۔ اس کا رخ مغرب سے مشرق کو تھا۔ بائیں جانب پر وادی کے دوسرے سرے پر ایک پہاڑی تھی جس پر میں نے گذشتہ روز شیرنی کا پیچھا کیا تھا اور دائیں جناب وہ پہاڑی تھی جس سے گذر کر سڑک تنک پور کو جاتی تھی۔ آدم خور کے ظہور سے قبل ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان وادی میں تلہ کوٹ سے بکثرت مویشی چرنے کے لئے آتے تھے جس کے نتیجے میں آڑی ترچھی پگڈنڈیاں سی بن گئی تھیں اور جگہ جگہ برساتی نالوں نے بھی وادی کو کاٹ ڈالا تھا۔ وادی میں جگہ جگہ مختلف جسامت کے درختوں اور جھاڑیوں کے جھنڈ تھے۔ اس جگہ سانبھر، کاکڑ اور ریچھ کا بہترین شکار ہو سکتا تھا لیکن آدم خور کے شکار کے لئے بدترین جگہ تھی۔ بائیں جانب والی پہاڑی سے وادی کا پورا منظر دیکھا جا سکتا تھا اور یہاں میں نے اپنے ساتھیوں کو دو دو سو گز کے فاصلوں سے چوٹی پر موجود درختوں پر بٹھا دیا تاکہ وہ نہ صرف میری نگرانی کر سکیں بلکہ اگر ضرورت پڑے تو میری مدد کو پہنچ بھی سکیں۔ پھر میں نیچے اتر کر اس جگہ پہنچا جہاں گذشتہ شام میں نے شیرنی کا تعاقب چھوڑا تھا۔
۷ اپریل کو میں نے شیرنی کو زخمی کیا تھا اور اب ۱۰ اپریل تھی۔ عام طور پر شیر ۲۴ گھنٹے کے بعد خطرناک نہیں رہتے کہ بندہ دیکھتے ہی اس پر حملہ کر دیں۔ تاہم زخم کی نوعیت اور شیر کی فطرت کے مطابق یہ دورانیہ فرق ہو سکتا ہے۔ اگر شیر کو کہیں گوشت میں زخم ہو تو ۲۴ گھنٹے بعد بندے کو دیکھ کر وہ اس جگہ سے دور ہو جاتے ہیں۔ تاہم اگر جسم پر کسی جگہ کاری زخم لگا ہو تو شیر کئی دن تک خطرناک رہ سکتے ہیں۔ مجھے علم نہیں تھا کہ شیرنی کے زخم کی نوعیت کیا ہے اور چونکہ گذشتہ روز اس نے حملہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی اس لئے میں نے یہ تصور کر لیا تھا کہ اب میرا مقابلہ عام آدم خور شیرنی سے ہے جو زخمی نہیں لیکن بہت زیادہ بھوکی ہے کیونکہ اس عورت کو مارنے اور بچوں کے ساتھ کھانے کے بعد سے شیرنی نے کوئی شکار نہیں کیا تھا۔
جس جگہ شیرنی نے ندی کو عبور کیا تھا، وہاں دراڑ سی تھی جو تین فٹ چوڑی اور دو فٹ گہری تھی۔ شاید بارش کے پانی کے بہاؤ سے بنی ہوگی۔ اس دراڑ کے دوسرے سرے پر کافی گھنی جھاڑیاں تھیں جس کی طرف شیرنی گئی تھی۔ اس کے پگوں کا پیچھا کرتے ہوئے میں ایک پگڈنڈی پر پہنچا۔ اس جگہ شیرنی دراڑ سے نکل کر پگڈنڈی پر دائیں جانب گئی تھی۔ ۳۰۰ گز کے بعد اس راستے پر ایک گھنا درخت آتا تھا جس کے نیچے شیرنی نے رات بسر کی تھی۔اس کا زخم کافی تکلیف دہ تھا کیونکہ ابھی بھی چلتے ہوئے وہ لنگڑاتی تھی لیکن جس جگہ وہ پتوں پر لیٹی تھی وہاں نہ تو خون کے نشانات تھے اور نہ ہی پیپ کے۔ یہاں سے آگے شیرنی کے پگ کافی تازہ تھے۔ ہر ممکن احتیاط سے مبادا کہ شیرنی گھات نہ لگائے بیٹھی ہو، میں آگے بڑھا۔ سارا دن پگڈنڈیوں اور جنگلی جانوروں کی گذرگاہوں سے ہو کر گذرتا رہا لیکن شیرنی دکھائی نہ دی۔ سورج ڈوبنے پر میں نے اپنے ساتھی اکٹھے کئے اور کیمپ کو چل دیا۔ واپسی کے سفر پر انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے شیرنی کی آمد و رفت کا اندازہ پرندوں اور جانوروں کی آوازوں سے لگایا لیکن انہیں بھی شیرنی دکھائی نہیں دی۔
جب کسی عام آدم خور کا پیچھا کیا جا رہا ہو تو ہوا کا رخ بہت اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ یعنی اگر ہوا کی مخالف سمت میں حرکت کی جا رہی ہو تو خطرہ عقب سے یا پھر کسی حد تک دائیں یا بائیں جانب سے ہوتا ہے۔ اگر ہوا پیچھے سے آگے کی طرف چل رہی ہو تو خطرہ دائیں یا بائیں جانب منتقل ہو جاتا ہے اور اگر ہوا دائیں جانب سے ہو تو خطرہ بائیں یا عقب کی جانب سے اور اگر ہوا بائیں جانب سے چل رہی ہو تو خطرہ دائیں اور عقب کی جانب ہو سکتا ہے۔ تاہم کسی بھی صورت میں عموما شیر چاہے وہ آدم خور ہوں یا نہیں، سیدھا سامنے سے حملہ نہیں کرتے۔ عام حالات میں آدم خور کے حملے کا فاصلہ اتنا ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی جست میں اپنے شکار کو دبوچ لے۔ اسی وجہ سے عام شیر کے مقابلے زخمی شیر کا مقابلہ کرنا آسان ہوتا ہے جو شاید سو گز کےفاصلے سے بھی حملہ کر سکتے ہیں۔ یعنی عام شیر کے حملے کی صورت میں چشم زدن کا وقفہ ہوتا ہے اور زخمی شیر کی صورت میں بندہ آرام سے رائفل کو اٹھا کر نشانہ لے کر گولی چلا سکتا ہے۔ دونوں ہی صورت میں تیزی سے گولی چلانا اور یہ دعا کرنا لازمی ہوتی ہے کہ ایک یا دو اونس کا سیسہ کئی سو پاؤنڈ وزنی پٹھوں اور ہڈیوں سے بنے جانور کو روکنے میں کامیاب ہو جائے۔
جس شیرنی کا میں شکار کر رہا تھا اس کے زخم کی نوعیت ایسی تھی کہ وہ زیادہ بڑی جست نہیں لگا سکتی تھی۔ اگر میں اس کی ممکنہ جست سے دور رہتا تو میں بالکل محفوظ ہوتا۔ تاہم اسے زخمی ہوئے چار دن گذر گئے تھے اس لئے اس کا زخم کافی حد تک ٹھیک ہو گیا ہوگا جسے ذہن میں رکھنا لازمی تھا۔ ۱۱ اپریل کو جب صبح میں اکیلا شیرنی کے تعاقب میں نکلا تو میں نے طے کر لیا تھا کہ ہر جھاڑی، چٹان، پتھر، درخت یا کسی بھی قسم کی ایسی رکاوٹ سے دور سے گذروں گا جس کے پیچھے شیرنی کی موجودگی کا امکان ہوگا۔
گذشتہ شام تک شیرنی تنک پور والی سڑک کی سمت گھومتی رہی تھی۔ ایک بار پھر میں نے وہ جگہ تلاش کر لی جہاں شیرنی نے پچھلی رات بسر کی تھی۔ اس جگہ سے میں نے اس کے تازہ پگوں کا پیچھا شروع کیا۔ گھنی جھاڑیوں سے بچ کر کہ شاید وہ ان سے خاموشی سے نہیں گذر سکتی تھی، شیرنی ندی نالوں کے قریب حرکت کرتی رہی۔ اس کی یہ نقل و حرکت فضول نہیں تھی بلکہ وہ خوراک کی تلاش میں نکلی ہوئی تھی۔ ایک ندی میں اس نے چند ہفتے کی عمر کا کاکڑ کا ایک بچہ کھایا تھا۔ شاید یہ بچہ اس جگہ سو رہا تھا کہ شیرنی پہنچ گئی۔ شیرنی نے اس کے ننھے منے سم چھوڑ کر باقی سارا جسم کھا لیا تھا۔ اب میں شیرنی سے ایک یا دو منٹ پیچھے تھا۔ مجھے یقین تھا کہ کاکڑ کے بچے سے اس کا پیٹ نہیں بھرا ہوگا الٹا اس کی بھوک اور زیادہ چمک اٹھی ہوگی۔ کئی جگہوں پر شیرنی کے پگ بل کھاتے ہوئے نالوں سے ایسی جگہوں سے گذرے جہاں گھنے درخت اور جھاڑیوں موجود ہوتے تھے۔ اگر میری قوت سماعت ٹھیک ہوتی تو میں کب کا شیرنی کے قریب پہنچ چکا ہوتا۔ لیکن میری قوت سماعت بہت متائثر ہوئی تھی۔ میرے سر، چہرے اور گردن پر سوجن اتنی بڑھ چکی تھی کہ میں سر کو اوپر نیچے یا دائیں بائیں نہیں گھما سکتا تھا اور میری بائیں آنکھ بند ہو چکی تھی۔ تاہم میری دائیں آنکھ ابھی تک کام کر رہی تھی جسے میں گولی چلانے کے لئے استعمال کرتا اور مجھے کسی حد تک سنائی بھی دیتا تھا۔
سارا دن میں شیرنی کا پیچھا کرتا رہا لیکن اسے دیکھ نہ پایا۔ مجھے یقین ہے کہ شیرنی نے بھی مجھے نہیں دیکھا۔ جب بھی شیرنی کے پگ کسی گھنی جھاڑی کا جھنڈ سے گذرتے تو میں لمبا چکر کاٹ کر دوسری جانب سے اس کے پگوں کا پیچھا کرتا۔ اس علاقے سے میری ناواقفیت بہت بڑی رکاوٹ تھی کیونکہ مجھے ضرورت سے کہیں زیادہ چلنا پڑ رہا تھا۔ اس کے علاوہ شیرنی کی حرکات و سکنات کی پیش بندی کرنا بھی میرے لئے ممکن نہیں تھی۔ جب میں نے شام گئے شیرنی کا تعاقب ختم کیا تو شیرنی کا رخ پہاڑ کے اوپر اور گاؤں کی سمت تھا۔
جب میں کیمپ واپس پہنچا تو مجھے علم ہو چکا تھا کہ میرا برا وقت جس کے بارے میں پہلے سے جان چکا تھا اور جس سے مجھے انتہائی خوف آتا تھا، قریب آ چکا ہے۔ سر کے اندر کے پھوڑوں میں بجلی کے جھٹکے لگ رہے تھے اور ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے میرے سر پر ہتھوڑے چل رہے ہوں۔ مسلسل رت جگا اور خوراک کے نام پر محض چائے کی وجہ سے میں ہمت ہار چکا تھا۔ اب ایک اور رات اپنے بستر پر بیٹھ کر درد کی اذیت برداشت کرتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی جسمانی تکلیف کے بارے کیا کیا نہ سوچنا میرے لئے ممکن نہیں تھا۔ میں تلہ دیس اس نیت سے آیا تھا کہ یہاں کے لوگوں کو آدم خور کے پنجے سے بچاؤں اور اگر ممکن ہو تو اپنا برا وقت بھی گذاروں۔ اب تک میں نے ان کے مسائل میں محض اضافہ ہی کیا تھا۔ آٹھ سال کے عرصے میں شیرنی نے ڈیڑھ سو افراد کو شکار کیا تھا۔ اب چونکہ زخمی ہونے کے بعد سے اس کے شکار کی صلاحیت متائثر ہوئی تھی اس لئے اب وہ محض انسانوں پر ہی گذارا کرے گی جو اس کے لئے آسان ترین شکار ہوں گے۔ اس لئے میرے اور اس شیرنی کے بیچ ایک قضیہ تھا جس کا تصفیہ ہونا باقی تھا۔ اس تصفیئے کے لئے آج کی رات بھی انتہائی مناسب تھی۔
اپنے ساتھیوں سے میں نے چائے کا کپ مانگا جو پہاڑی رواج کے مطابق دودھ سے بنائی گئی تھی جسے میں نے چاندنی میں کھڑے ہو کر پیا۔ پھر میں نے اپنے تمام ساتھیوں کو جمع کیا اور انہیں کہا کہ وہ اگلے دن شام تک میرا انتظار کریں۔ اگر میں اس وقت تک واپس نہ آؤں تو میرا سامان اکٹھا کر کے اس سے اگلی صبح نینی تال روانہ ہو جائیں۔ پھر میں نے اپنے بستر سے رائفل اٹھائی اور سیدھا وادی میں اتر گیا۔ میرے ساتھی میرے ساتھ برسوں سے تھے اور انہوں نے مجھے روکنے یا یہ پوچھنے کی کوشش تک نہیں کی کہ میں کہاں جا رہا ہوں۔ وہ بس اکٹھے کھڑے مجھے تکتے رہے۔ شاید ان کے گالوں پر جو چمکدار لکیریں تھیں وہ چاندنی کا عکس ہوں یا شاید میرا تصور ہوں۔ خیر جب میں نے مڑ کر دیکھا تو کسی نے اپنی جگہ سے حرکت نہیں کی تھی۔ وہ اسی جگہ ویسے ہی کھڑے تھے جیسا میں نے انہیں چھوڑا تھا۔

(۸)
میرے لڑکپن کی بہترین یادوں میں سے اہم ترین وہ تھیں جب چاندنی رات کو جنگل میں ہم دس بارہ ساتھی سردیوں کی رات کو نکلتے تھے اور پھر گھر لوٹ کر ہم خوب چائے پیتے تھے۔ انہی چہل قدمیوں نے میرے دل سے رات کو جنگل سے وابسہ انسانی خوف دور کئے تھے۔ اس کے علاوہ ہم جنگل میں رات سے متعلق آوازوں سے بھی روشناس ہوئے تھے۔ بعد میں سالہا سال کے تجربات سے میرے علم اور میرے اعتماد میں اضافہ ہوا تھا۔ اس لئے جب ۱۱ اپریل کی رات کو میں کیمپ سے نکلا تو چاندنی جوبن پر تھی۔ میری نیت تلہ دیس کی آدم خور سے حساب برابر کرنے کی تھی۔ تاہم میں خود کشی کی نیت سے نہیں بلکہ شیرنی سے برابری کی سطح پر مقابلہ کرنے نکلا تھا۔
مجھے بچپن سے شیروں سے دلچسپی رہی ہے اور میری زندگی اسی علاقوں میں بسر ہوئی ہے جہاں میں شیروں کا بخوبی اور بغور مشاہدہ کر سکتا تھا۔ بچپن میں میری سب سے بڑی خواہش شیر کو صرف دیکھنے تک محدود تھی۔ بعد میں میری خواہش تھی کہ ایک شیر کو شکار کروں۔ میری یہ خواہش تب پوری ہوئی جب میں نے زمین پر کھڑے ہو کر پرانی فوجی رائفل کی مدد سے شیر کو شکار کیا تھا۔ یہ رائفل میں نے پچاس روپے کے عوض اس بندے سے خریدی تھی جو سمندر پار جا رہا تھا۔ اب میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ یہ رائفل اس نے چوری کر کے شکاری رائفل کے طور پر بیچی تھی۔ بعد میں میری سب سے بڑی خواہش شیر کی تصویر کھینچنا تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ میری یہ تینوں خواہشیں پوری ہو چکی تھیں۔ شیروں کی تصویر کھینچنے کے دوران ہی میں نے شیروں کی عادات کے بارے کچھ جانا۔ حکومت کی جانب سے مجھے جنگلات میں آزاد پھرنے کی اجازت تھی جو پورے ہندوستان میں محض ایک اور شکاری کو حاصل تھی۔ اس لئے پورے ہندوستان کے جنگلات میں میں آرام سے پورا سال گھوم سکتا تھا اور ان دنوں شیر بھی بکثرت ہوتے تھے۔ دنوں یا ہفتوں تک شیروں کا مطالعہ کرتے رہنا اور ایک بار تو میں نے ساڑھے چار ماہ صرف کر کے شیروں کا مطالعہ کیا۔ اس طرح میں نے شیروں کی عادات اور شکار پر گھات لگانے اور شکار کو مارنے کے طریقے دیکھے۔ شیر اپنے شکار کے پیچھے دوڑ کر اسے ہلاک نہیں کرتا۔ اس کی بجائے شیر یا تو شکار کے راستے میں لیٹ کر یا پھر گھات لگا کر شکار کرتا ہے۔ دونوں صورتوں میں شیر یا تو جست لگا کر یا پھر چند گز جتنا دوڑ کر اور پھر جست لگا کر شکار کے اوپر ہوتا ہے۔اس طرح اگر کوئی جانور شیر سے اس سے زیادہ فاصلے سے گذرے تو شیر اس پر گھات نہیں لگا سکتا اور اگر وہ جانور شیر کو دیکھ کر یا اس کی آہٹ سن کر یا اس کی بو پا کر دوڑ لگا دے تو مجھے پورا یقین ہے کہ وہ جانور اپنی قدرتی موت مرے گا۔ تہذیب کی وجہ سے انسان سے اس کی قوت شامہ یعنی سونگھنے کی حس اور قوت سماعت چھین لی ہیں۔ اس لئے جب آدم خور شیر حملہ کرے تو انسان کے لئے اپنے بچاؤ کے لئے محض اس کی آنکھیں ہی ہوتی ہیں۔ درد اور بے چینی کی وجہ سے جب میں اس رات کو کیمپ سے باہر نکلا تو میری صرف ایک آنکھ کام کر رہی تھی۔ تاہم اس معذوری کے برعکس میرے پاس یہ علم تھا کہ اگر میں شیرنی کے بہت قریب نہ پہنچا تو شیرنی مجھے نہیں مار سکے گی لیکن اگر میں نے شیرنی کو دور سے دیکھ لیا تو میں دور رہتے ہوئے بھی اسے مار سکوں گا۔ اس لئے جب میں نے اپنے ساتھیوں کو اگلی شام تک انتظار کے بعد نینی تال واپس لوٹ جانے کو کہا تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ میں شیرنی کے مقابلے کے قابل نہیں تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر میں اپنی تکلیف کے سبب ہوش گنوا بیٹھا تو اپنی حفاظت کے قابل نہیں رہوں گا۔
ذہن میں نقشے بنانے کی عادت میرے لئے بہت مددگار ثابت ہوتی ہے۔ میں کسی بھی مخصوص جگہ پر دوبارہ بغیر کسی دقت کے جا سکتا ہوں۔ اس لئے شیرنی کے پگ میں نے جہاں چھوڑے تھے، وہیں سے جا کر میں نے پیچھا شروع کیا۔ تاہم اب پگوں کا پیچھا محض پگڈنڈیوں پر ہی ممکن تھا اور خوش قسمتی سے شیرنی انہی راستوں پر چل رہی تھی۔ سانبھر اور کاکڑ اب گھنے جنگل سے نکل کر کھلی جگہوں پر آ گئے تھے۔ کچھ کا مقصد پیٹ پوجا کرنا تھا اور باقی اپنے بچاؤ کے لئے آئے تھے۔ ان کی وقتا فوقتا بولیوں سے مجھے شیرنی کی سمت کا اندازہ ہوتا رہا لیکن بالکل درستگی سے میں شیرنی کی موجودگی کے مقام کا اندازہ نہیں لگا سکا۔
اس تنگ راستے پر چلتے ہوئے میں ایک جگہ گھنی جھاڑیوں کے قطعے کے پاس پہنچا۔ جب میں نے اس کے گرد چکر کاٹ کر دوسری طرف جانے کی کوشش کی تو وہ توقع سے زیادہ طویل نکلا۔ جب میں دوسرے سرے پر پہنچا تو یہاں زمین نسبتا کھلی اور اکا دکا بلوط کے بڑے درخت موجود تھے۔ یہاں ایک بڑے درخت کے نیچے میں آن رکا۔ اچانک درخت کے سائے میں حرکت ہوئی اور مجھے علم ہوا کہ اس درخت پر لنگور موجود ہیں۔ پچھلے ۱۸ گھنٹوں کے دوران میں نے بہت سفر کیا تھا اور اب کچھ دیر آرام کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا کیونکہ اگر شیرنی نزدیک آتی تو لنگور شور مچا دیتے۔ درخت کے تنے سے ٹیک لگائے اور ان جھاڑیوں کی طرف منہ کئے میں بیٹھ گیا۔ ابھی میں آدھا گھنٹہ بیٹھا ہوں گا کہ اچانک لنگور بولا اور شیرنی اسی وقت جھاڑیوں سے نکلی۔ لنگور نے شیرنی کو جھاڑیوں سے نکلتے ہی دیکھ لیا تھا۔ جب شیرنی لیٹنے لگی تو میں نے بھی اسے دیکھ لیا۔
شیرنی مجھ سے تقریبا سو گز اور جھاڑیوں سے دس گز دور اور میرے سامنے آڑی لیٹی ہوئی تھی۔ پہلو کے بل لیٹی شیرنی سر اٹھائے لنگور کو دیکھ رہی تھی۔
رات کے وقت شکار کا مجھے بہت وسیع تجربہ تھا کیونکہ کالا ڈھنگی میں سردیوں میں میں اپنے مزارعوں کی فصلوں کو سور اور ہرنوں وغیرہ سے بچانے میں ان کی مدد کرتا تھا۔ جب مطلع صاف ہو اور چاندنی رات ہو تو میں ایک سو گز کے فاصلے سے تقریبا سو فیصد یقین کے ساتھ جانور کو ہلاک کر سکتا ہوں۔ اکثر لوگوں کی طرح میں نے بھی گولی چلاتے ہوئے دونوں آنکھیں کھلی رکھنے کی عادت ڈالی ہوئی ہے۔ ایک آنکھ سے نشانہ لینے اور دوسری سے جانور کو نگاہ میں رکھتا ہوں۔ اگر کوئی اور موقع ہوتا تو میں شیرنی کے اٹھنے کا انتظار کرتا اور پھر گولی چلاتا۔ لیکن چونکہ میری ایک آنکھ ورم کے سبب بند تھی اس لئے میں سو گز کے فاصلے سے ایک آنکھ کی مدد سے گولی چلانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔ پچھلی دو راتوں میں شیرنی نے لیٹ کر اور اسی جگہ سو کر کافی وقت گذارا تھا۔ مجھے امید تھی کہ وہ اب بھی وہیں سو جائے گی۔ اس وقت شیرنی پیٹ کے بل لیٹی تھی اور اس کا سر اٹھا ہوا تھا۔ اگر وہ پہلو کے بل لیٹتی تو میں دوبارہ ان جھاڑیوں کی دوسری طرف سے جا کر شیرنی کا پیچھا کرتا اور اس کے دس گز کے فاصلے تک پہنچ کر اس پر گولی چلا سکتا تھا۔ دوسری صورت میں میں یہاں سے سیدھا شیرنی تک رینگ کر جاتا اور جب وہ قریب ہوتی تو اس پر گولی چلا دیتا۔ تاہم جتنی دیر شیرنی یہ سوچتی کہ اسے کیا کرنا ہے، میرے پاس بالکل بے حس و حرکت بیٹھنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔
بہت دیر تک، شاید نصف گھنٹہ یا اس سے بھی زیادہ وقت شیرنی اسی حالت میں رہی۔ تاہم وہ کبھی کبھار اپنا سر دائیں اور بائیں موڑتی اور لنگور کو دیکھتی جو نیند سے بھرائی ہوئی آواز میں بول رہا تھا۔ آخر کار وہ اٹھی اور بہت آہستگی اور تکلیف سے چلتے ہوئے میرے دائیں جانب جانے لگی۔ اس کی حرکت کی سیدھ میں ایک گہری کھائی تھی جو دس سے پندرہ فٹ گہری اور بیس یا پچیس گز چوڑی ہوگی۔ اسی کھائی کے نچلے سرے کو میں نے یہاں آتے ہوئے عبور کیا تھا۔ جب شیرنی مجھ سے ڈیڑھ سو گز دور ہو گئی ہوگی تو میں نے بھی حرکت کی اور درختوں کی اوٹ لیتے ہوئے اس کا پیچھا اس سے ذرا زیادہ تیزی سے کرنا شروع کر دیا۔ جب شیرنی کھائی کے کنارے پہنچی تو ہمارا درمیانی فاصلہ پچاس گز رہ گیا تھا۔ اس فاصلے سے گولی چلانا آسان تھا لیکن شیرنی سائے میں کھڑی تھی اور محض اس کی دم دکھائی دے رہی تھی۔ کچھ دیر رکنے کے بعد اس نے اچانک کھائی کو عبور کرنے کا فیصلہ کیا اور آہستگی سے کنارے سے نیچے چل پڑی۔
جونہی شیرنی نگاہوں سے اوجھل ہوئی تو میں جھکا اور اس کے پیچھے دبے قدموں دوڑا۔ سر کو نیچے جھکا کر دوڑنا بہت بڑی حماقت تھی۔ چند گز بعد مجھے چکر آنے لگے۔ میرے پاس ہی بلوط کے دو نوعمر درخت تھے جو ایک دوسرے سے چند فٹ دور اور ان کی شاخیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی تھیں۔ رائفل کو زمین پر رکھ کر میں دس یا بارہ فٹ بلندی تک درختوں پر چڑھا۔ یہاں میں نے ایک شاخ دیکھی جس پر بیٹھنا ممکن تھا اور دوسری شاخ جس پر میں اپنے پیر رکھ سکتا تھا اور ایک اور شاخ جس سے میں ٹیک لگا سکتا تھا۔ اپنے سامنے والی شاخوں پر میں نے اپنے ہاتھ آڑے کر کے رکھے اور ان پر سر رکھ دیا۔ اسی لمحے میرے سر کے اندر موجود پھوڑا پھٹ گیا۔ خدا کا شکر ہے کہ میرے خدشات کے برعکس پھوڑا دماغ کی جانب نہیں بلکہ بائیں کان اور ناک کے راستے بہنا شروع ہو گیا۔
کسی بندے نے کیا خوب کہا تھا کہ کسی بھی شدید درد کے اچانک ختم ہونے سے زیادہ خوشی بندے کو نہیں مل سکتی۔ جو بندے کسی شدید ترین اذیت سے اچانک ہی چھٹکارا پا چکے ہوں، وہ اس کی قدر جانتے ہیں۔ جب میرا پھوڑا پھٹا تو اس وقت نصف شب ہو رہی ہوگی۔ جب میں نے اپنے بازوؤں سے سر اٹھایا تو پو پھٹ رہی تھی۔ چار گھنٹے ایک پتلی سی شاخ پر بیٹھنے سے میری ٹانگیں اکڑ گئی تھیں جس کے درد سے میں بیدار ہوا تھا۔ پہلے پہل تو مجھے یاد نہ رہا کہ میں کہاں ہوں یا مجھے کیا ہوا ہے۔ لیکن فورا ہی مجھے صورتحال کا ادراک ہو گیا۔ میرے سر، گردن اور چہرے کی سوجن غائب تھی اور درد بھی ختم ہو چکا تھا۔ اب میں اپنے سر کو آسانی سے ہر جانب گھما سکتا تھا اور میری بائیں آنکھ کھلی تھی۔ تھوک نگلنے میں بھی مجھے کوئی دقت نہیں ہو رہی تھی۔ شیرنی کو گولی مارنے کا ایک نادر موقع ہاتھ سے نکل گیا تھا لیکن اس سے کیا فرق پڑتا؟ میرا برا وقت ختم ہو چکا تھا اور اب چاہے شیرنی جتنی دور یا جس سمت میں بھی ہو، میں جلد یا بدیر اس کے سر پر پہنچ جاتا۔
جب میں نے شیرنی کو آخری بار دیکھا تو وہ گاؤں کی جانب جا رہی تھی۔ درخت سے آسانی سے اتر کر میں نے رائفل اٹھائی اور اسی جانب چل پڑا۔ رات کو اس درخت پر چڑھنے میں مجھے بے حد دقت ہوئی تھی۔ ندی پر رک کر میں نے اپنے آپ کو اور کپڑوں کو دھویا اور صاف کیا۔ میرے ساتھیوں نے میری ہدایت کے برعکس رات گاؤں کی بجائے کیمپ میں گذاری تھی اور ساری رات انہوں نے چائے کے لئے پانی کی کیتلی تیار رکھی تھی۔ پانی سے شرابور جونہی انہوں نے مجھے آتے دیکھا تو وہ اچانک کھڑے ہو کر وہ خوشی سے چلائے "صاحب آپ واپس آ گئے ہیں اور اب آپ ٹھیک ہو گئے ہیں۔" میں نے جواب دیا "ہاں میں لوٹ آیا ہوں اور میں ٹھیک ہو گیا ہوں۔"جب ہندوستانی بندہ کسی سے اپنی وفاداری دکھاتا ہے تو وہ اس کی قدر یا قیمت کی پروا نہیں کرتا۔ جب ہم تلہ کوٹ آئے تو نمبردار نے میرے ساتھیوں کے لئے دو کمرے مختص کر دیئے تھے کیونکہ بند دروازہ ہی رات کو شیرنی سے بچنے کی واحد صورت تھی۔ تاہم گذشتہ رات جب میں کیمپ سے نکلا تو وہ خطرے سے پوری طرح آگاہ ہونے کے باوجود وہیں کیمپ میں رکے رہے کہ شاید مجھے ان کی مدد کی ضرورت ہو اور میرے لئے چائے کا پانی گرم تیار رکھا شاید کہ میں واپس لوٹ آؤں۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے چائے پی یا نہیں لیکن انہوں نے میرے جوتے اتارے اور جب میں بستر پر لیٹا تو انہوں نے میرے گرد کمبل لپیٹ دیا۔
پرسکون نیند، گھنٹوں پر گھنٹے گذرتے گئے۔ پھر اچانک ایک خواب دکھائی دیا۔ کوئی بندہ مجھے بعجلت بلا رہا ہے اور دوسرا بندہ اسے روک رہا ہے کہ مجھے نہ جگایا جائے۔ بار بار جب یہ خواب تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ دہرایا گیا حتٰی کہ میں نیند سے بیدار ہوا اور خواب حقیقت بن گیا۔ "آپ انہیں جگائیں ورنہ وہ بہت ناراض ہوں گے۔" ایک بندے نے کہا۔ "وہ بہت تھکے ہیں اور ہم انہیں بیدار نہیں کریں گے۔" گنگا رام کی آواز سنائی دی۔ میں نے گنگا رام کو آواز دی کہ اس بندے کو اندر بھیج دے۔ فورا ہی میرے خیمہ میں لڑکوں اور مردوں کا مجمع لگ گیا۔ انہوں نے بتایا کہ گاؤں کی دوسری جانب آدم خور نے چھ بکریاں مار ڈالی ہیں۔ جوتے پہنتے ہوئے میں نے اس مجمع پر نگاہ ڈالی تو ڈنگر سنگھ دکھائی دیا جو اس وقت بھی میرے ساتھ تھا جب میں نے شیرنی کے بچے مارے تھے۔ میں نے ڈنگر سنگھ سے پوچھا کہ کیا اسے اس جگہ کا علم ہے جہاں بکریاں ماری گئی تھیں اور کیا وہ مجھے وہاں تک لے جائے گا؟ "ہاں صاحب۔ بالکل لے جاؤں۔ مجھے علم ہے کہ بکریاں کہاں ماری گئی ہیں۔" اس نے فورا ہی جواب دیا۔ نمبردار سے کہہ کر کہ وہ ہجوم کو وہیں رکھے، میں نے اعشاریہ ۲۷۵ کی رائفل اٹھائی اور ڈنگر سنگھ کے ساتھ گاؤں کے راستے چل پڑا۔
میری نیند نے ساری تھکن اتار دی تھی اور چونکہ اب مجھے آرام سے قدم رکھنے کی ضرورت نہیں کہ سر کو جھٹکے نہ لگیں، میں کئی ہفتوں بعد پہلی بار بغیر دقت یا تکلیف کے چلنے کے قابل ہوا۔

(۹)
جس دن میں تلہ کوٹ پہنچا تو یہی لڑکا ڈنگر سنگھ مجھے گاؤں سے گذار کر اس جگہ لے گیا تھا جہاں ایک بلند جگہ تھی اور جہاں سے دو وادیوں کا پورا منظر دکھائی دیتا تھا۔ دائیں جانب والی وادی بہت گہری اور ڈھلوان تھی اور دریائے کالی کی سمت جاتی تھی۔ اسی وادی کے بالائی سرے پر میں نے شیرنی کے دو بچے ہلاک کئے تھے اور شیرنی کو بھی زخمی کیا تھا۔ دوسری وادی میرے بائیں جانب تھی اور نسبتا کم ڈھلوان تھی۔ اس پر سے بکریوں کی ایک گذرگاہ تھی۔ اسی وادی میں بکریاں ماری گئی تھیں۔ اس راستے پر ڈنگر سنگھ اب بھاگنے لگا اور میں اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ پانچ یا چھ سو گز تک کٹی پھٹی زمین پر بھاگنے کے بعد راستے سے ندی گذرتی تھی اور پھر وادی اس ندی کے بائیں کنارے پر چلی جاتی تھی۔ جس جگہ راستہ ندی سے گذرتا تھا، وہاں نسبتا مسطح زمین کا کھلا قطعہ تھا۔ اس پر دائیں بائیں چٹانیں سی تھیں اور ان کی دوسری جانب ایک کھڈ سا تھا۔ اسی کھڈ میں بکریاں ماری گئی تھیں۔
راستے میں ڈنگر سنگھ نے مجھے بتایا تھا کہ اسی وادی میں نیچے دوپہر کے وقت ڈھیر ساری بکریوں کو دس یا پندرہ لڑکے چرا رہے تھے کہ اچانک شیرنی نمودار ہوئی۔ ان کا خیال تھا کہ یہ آدم خور شیرنی ہے۔ شیرنی نے اچانک ہی حملہ کر کے چھ بکریاں گرا لیں۔ شیرنی کو دیکھتے ہی لڑکوں نے شور مچا دیا اور ساتھ ہی لکڑیاں جمع کرتے کچھ بندے بھی شور میں شامل ہو گئے۔ شور اور بکریوں کی بھگڈر کی وجہ سے شیرنی واپس چلی گئی لیکن کسی نے توجہ نہ کی کہ شیرنی کس سمت گئی ہے۔ تین بکریوں کی کمر ٹوٹ گئی تھی۔ باقی تین بکریوں کو اٹھائے یہ افراد سیدھا میرے پاس اطلاع دینے پہنچ گئے۔ تینوں زخمی بکریاں اسی جگہ موجود تھی۔
بکریوں کی قاتل آدم خور ہی تھی اس میں کوئی شک نہیں تھا۔ گذشتہ رات میں نے شیرنی کو گاؤں کی سمت جاتے دیکھا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے میرے ساتھیوں نے بتایا تھا کہ میری آمد سے ایک گھنٹہ قبل کاکڑ ندی کے قریب سے بولا تھا جو ان سے سو گز دور تھی۔ وہ یہ سمجھے کہ کاکڑ مجھے دیکھ کر بھونک رہا ہے اس لئے انہوں نے آگ جلا لی۔ ان کی قسمت کہ انہوں نے آگ جلا لی کیونکہ بعد میں میں نے شیرنی کے پگ دیکھے جو آگ سے کترا کر گاؤں کی سمت چلے گئے تھے۔ ظاہر ہے کہ شیرنی کسی انسان کو شکار کرنے کے ارادے سے گئی تھی۔ چونکہ اسے کوئی انسان نہ مل سکا تو وہ گاؤں کے نزدیک ہی کہیں چھپ گئی۔ جب اسے موقع ملا تو اس نے چند لمحوں میں چھ بکریاں مار لیں۔ لیکن وہ اپنے زخم کی وجہ سے بری طرح لنگڑا رہی تھی۔
میں اس جگہ سے اچھی طرح واقف نہیں تھا اس لئے میں نے ڈنگر سنگھ سے پوچھا کہ اس کے خیال میں شیرنی کس سمت گئی ہوگی۔ اس نے وادی کے نیچے کی جانب اشارہ کر کے بتایا کہ شیرنی شاید اس طرف گئی ہو کیونکہ اس طرف گھنا جنگل تھا۔ ابھی میں اس سے جنگل کے متعلق سوال کر رہا تھا کہ میں شیرنی کا پیچھا کرتا کہ اچانک مرغ زریں بولنے لگے۔ ان کی آواز سنتے ہی ڈنگر سنگھ مڑا اور پہاڑی کے اوپر کی جانب دیکھنے لگا۔ میں نے اندازہ لگا یا کہ شاید یہ پرندے اس طرف سے بول رہے ہوں گے۔ ہمارے بائیں جانب کی پہاڑی بہت ڈھلوان تھی اور اس پر چند جھاڑیاں اور چند ٹنڈ منڈ سے درخت اگے ہوئے تھے۔ مجھے علم تھا کہ شیرنی کبھی بھی اس طرح کی چڑھائی کو پسند نہیں کرے گی۔ جب ڈنگر سنگھ نے مجھے پہاڑی کے اوپر کی جانب دیکھتے پایا تو اس نے مجھے بتایا کہ یہ پرندے پہاڑی کی کنارے ایک کھائی سے بول رہے ہیں۔ چونکہ پرندے ہماری نظروں سے اوجھل تھے اس لئے وہ صرف اور صرف شیرنی کو دیکھ کر ہی بول رہے تھے۔ ڈنگر سنگھ سے میں نے کہا کہ وہ فورا گاؤں کی سمت بھاگ کھڑا ہو۔ پھر میں نے رائفل سے اسے کور کیے رکھا حتٰی کہ وہ خطرے سے دور ہو گیا۔ پھر میں نے اپنے چھپنے کے لے جگہ تلاش کرنا شروع کی۔
وادی میں صرف صنوبر کے دیو قامت درخت موجود تھے جن پر تیس سے چالیس فٹ کی بلندی تک کوئی شاخیں نہیں تھیں۔ اس لئے ان پر چڑھنے کی کوشش کرنا کارے وارد تھا۔ اب مجھے زمین پر ہی کہیں بیٹھنے کی جگہ تلاش کرنی تھی۔ دن کی روشنی میں تو میں کہیں بھی بیٹھ سکتا تھا لیکن اگر شیرنی رات تک واپس نہ آئی اور اسے بکری کی بجائے انسان کے گوشت کی تلاش ہوئی تو مجھے ابتدائی ایک یا دو گھنٹے قسمت پر بھروسہ کرنا ہوگا کیونکہ چاند سورج غروب ہونے کے ایک یا دو گھنٹے بعد نکلتا۔
کھائی کے ہماری جانب پر ایک کم بلند چٹانی سلسلہ سا تھا جس کے اختتام پر ایک بڑی مسطح چٹان تھی۔ اس کے پاس ایک اور نسبتا چھوٹی چٹان اور اس کے ساتھ ایک اور۔ چھوٹی چٹان پر بیٹھ کر میں نے دیکھا کہ میں بڑی چٹان کے پیچھے اس طرح چھپ گیا تھا کہ میرا سر دکھائی دے رہا تھا۔ شیرنی کے اسی جانب سے آنے کے امکانات تھے۔ میں نے یہیں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ میرے سامنے چالیس گز چوڑی کھائی اور اس کا بیس فٹ بلند کنارہ دوسری جانب تھا۔ اس کنارے پر دس سے بیس گز تک مسطح زمین تھی جو دائیں جانب ڈھلوان کی شکل میں تھی۔ اس کے بعد پہاڑی اوپر کو اٹھتی ہوئی بہت ڈھلوان ہو گئی تھی۔ جب یہ لوگ بھاگے تو کھائی میں پڑی تینوں بکریاں زندہ تھیں جو اب مر چکی تھیں۔ شیرنی نے جب ان پر حملہ کیا تو ان کی کمر پر سے کھال نوچ لی تھی۔
مرغ زریں اب خاموش ہو گئے تھے۔ میں یہ اندازہ لگا رہا تھا کہ جب میں یہاں پہنچا تو مرغ زریں شیرنی کو آتے دیکھ کر بولے تھے یا جاتے دیکھ کر۔ پہلی صورت میں انتظار کافی مختصر اور دوسری صورت میں بہت لمبا ہوتا۔ میں اس جگہ دو بجے بیٹھا تھا اور نصف گھنٹے بعد دو ہمالیائی کوے اڑتے ہوئے آئے۔ یہ خوبصورت پرندے افزائش نسل کے موسم میں دیگر چھوٹے پرندوں کے گھونسلوں اور انڈوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ جنگل میں موجود کسی بھی مردہ جانور کو تلاش کرنے میں کمال رکھتے ہیں۔مجھے ان کی آمد کا بہت پہلے علم ہو گیا تھا کیونکہ یہ پرندے بہت شور کرتے ہیں۔ جونہی ان کی نگاہ بکریوں پر پڑی تو وہ اچانک چپ ہو گئے اور آہستگی سے بکریوں کی جانب بڑھے۔ کافی دیر تک شش و پنج کے بعد آخر کار وہ اس بکری کی لاش پر اترے جس کی پشت سے کھال اتر گئی تھی اور کھانا شروع کر دیا۔ کافی دیر سے ایک بڑا گدھ اس مقام کے چکر لگا رہا تھا اور اب اس نے کوؤں کو دیکھا تو فورا ہی نیچے آ کر صنوبر کے درخت کی ایک خشک شاخ پر بیٹھ گیا۔ یہ گدھ شاہی گدھ کہلاتا ہے اور اس کے سینے پر سفید پر ہوتے ہیں جبکہ باقی کھال سیاہ اور سر اور ٹانگیں سرخ ہوتی ہیں۔ تمام گدھوں سے پہلے یہ گدھ مردہ جانور پر پہنچتے ہیں۔ چونکہ ان کی جسامت مختصر ہوتی ہے اس لئے جب دیگر نسلوں کے گدھ آ جائیں تو انہیں ہٹنا پڑتا ہے۔
گدھ کی آمد پر مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ گدھ سے مجھے کافی اہم معلومات مل سکتی تھیں کیونکہ وہ کافی اونچی شاخ پر بیٹھا تھا۔ اگر گدھ نیچے اتر کر کھانا شروع کر دیتا تو اس کا مطلب تھا کہ شیرنی جا چکی ہے لیکن اگر وہ اپنی جگہ پر ہی رہتا تو اس کا مطلب تھا کہ شیرنی کہیں نزدیک ہی موجود ہے۔ اگلے نصف گھنٹے تک کوے لاش کھاتے رہے جبکہ گدھ اسی شاخ پر براجمان رہا۔ پھر اچانک سورج کے سامنے گہرے بادل چھا گئے۔ کچھ دیر بعد مرغ زریں پھر بولنے لگے اور کوے بھی شور مچاتے نیچے وادی کو اڑ گئے۔ شیرنی آ رہی تھی اور اس کی آمد میری توقع سے زیادہ جلدی ہوئی تھی۔ اب مجھے اس سے اپنا کل رات والا حساب برابر کرنے کا موقع ملنا تھا۔ پچھلی رات جب مجھے چکر آئے تو میں پیچھا جاری نہ رکھ سکا تھا۔
پہاڑی کے کنارے پر چند چھدری جھاڑیاں کھائی کے سامنے اگی ہوئی تھیں اور صاف دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اب ان جھاڑیوں کے پیچھے میں نے شیرنی کو دیکھا۔ انتہائی آہستگی سے چلتی ہوئی شیرنی کھائی کے دوسرے بلند کنارے تک پہنچی اور اس دوران اس کا رخ مسلسل میری جانب تھا۔ چونکہ میرا صرف سر دکھائی دے رہا تھا اور ہیٹ میری آنکھوں تک جھکا ہوا تھا اس لئے جب تک میں کوئی حرکت نہ کرتا، شیرنی مجھے نہ دیکھ پاتی۔ اس لئے رائفل کو اس چٹان پر رکھے میں بے حس و حرکت بیٹھا رہا۔ میرے عین سامنے آ کر شیرنی اس طرح بیٹھی کہ ایک بڑے صنوبر کا تنا ہمارے درمیان تھا۔ مجھے درخت کے ایک جانب شیرنی کا سر اور دوسری جانب اس کی دم اور پچھلی ٹانگیں دکھائی دے رہی تھیں۔ اس جگہ وہ کئی منٹ تک بیٹھی اپنے زخموں پر بھنبھنانے والی مکھیوں کو اڑاتی رہی۔

(۱۰)
آٹھ سال قبل جب شیرنی نوجوان تھی تو سیہہ کے ساتھ مقابلے میں اسے کافی زخم لگے تھے۔ جب وہ زخمی ہوئی تو شاید اس وقت اس کے بچے بھی اس کے ساتھ تھے۔ جب وہ اپنا قدرتی شکار کرنے کے قابل نہ رہی تو اس نے انسان کو شکار کرنا شروع کیا۔ اس طرح اگرچہ اس نے قانون فطرت کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی کیونکہ وہ گوشت خور درندہ تھی اور گوشت چاہے انسانی ہو یا حیوانی، اس کی بھوک مٹانے کا واحد ذریعہ تھا۔ حالات سے مجبور ہو کر انسان ہو یا حیوان، ایسی خوراک کھانے پر تیار ہو جاتا ہے جسے وہ عام حالات میں پسند نہیں کرتا۔ آٹھ سال کے دوران شیرنی نے کل ڈیڑھ سو انسان ہلاک کئے تھے۔ یعنی ایک سال میں بیس افراد۔ میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ جب شیرنی کے ساتھ بچے ہوتے تھے اور وہ اپنی قدرتی خوراک حاصل نہ کر پاتی تو انسانوں کو خوراک بناتی تھی تاکہ خود کو اور اپنے بچوں کو پال سکے۔
تلہ دیس کے لوگ شیرنی کے ہاتھوں عاجز تھے تاہم شیرنی کو اب اپنے کئے کی سزا بھگتنی تھی۔ اس کی تکلیف کو ختم کرنے کے لئے میں نے کئی بار رائفل سے اس کے سر کا نشانہ لیا لیکن چونکہ گہرے بادلوں کی وجہ سے ساٹھ گز دور شیرنی کے سر کا نشانہ اتنا یقینی نہیں تھا، اس لئے میں رک گیا۔
بالاخر شیرنی اپنی جگہ سے اٹھی اور تین قدم چل کر میرے سامنے آڑی ہو کر رکی۔ اس کا رخ بکریوں کی جانب تھا۔ اپنی کہنیاں چٹان پر رکھ کر میں نے آرام سے اس جگہ کا نشانہ لیا جہاں میرے خیال میں شیرنی کا دل تھا، اورلبلبی دبا دی۔ گولی چلتے ہی میں نے شیرنی کی دوسری جانب پہاڑی سے مٹی اڑتے دیکھی۔ مٹی اڑتے دیکھتے ہی مجھے خیال آیا کہ شاید میری گولی خطا گئی ہے۔ تاہم اتنی احتیاط سے نشانہ لینے کے بعد غلطی کا امکان نہیں تھا۔ شاید میری گولی شیرنی کے جسم سے آر پار ہو گئی تھی۔ گولی کھاتے ہی ڈری ہوئی شیرنی نے تیزی سے دوڑ لگائی اور قبل اس کے کہ میں دوسری گولی چلاؤں، نظروں سے غائب ہو گئی۔
شیرنی نے مجھے گولی چلانے کا اتنا عمدہ موقع دیا تھا اور میں نے گنوا دیا۔ مجھے خود پر بے انتہا غصہ آ رہا تھا۔ لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ شیرنی بچ کر نہیں جائے گی۔ چٹان سے کود کر اترا اور اس طرف کو بھاگا جہاں شیرنی غائب ہوئی تھی۔ اس جگہ چالیس فٹ گہری ڈھلوان تھی جس پر سے شیرنی جست لگاتی اتری تھی۔ موچ کے خطرے کے پیش نظر میں بیٹھ کر پھسلتے ہوئے اس سے نیچے اترا۔ نیچے ایک اچھی خاصی پگڈنڈی تھی اور مجھے یقین تھا کہ شیرنی اسی پر گئی ہوگی۔ لیکن زمین کافی سخت تھی اور شیرنی کے پگ دکھائی نہیں دیئے۔ راستے کے دائیں جانب پتھروں سے بھری ہوئی ایک ندی تھی۔ یہ وہی ندی تھی جو ڈنگر سنگھ اور میں نے کافی اوپر کی سمت عبور کی تھی۔ بائیں جانب پہاڑی تھی جس پر اکا دکا صنوبر کے درخت اگے ہوئے تھے۔ کچھ فاصلے تک یہ راستہ بالکل سیدھا تھا اور جب میں پچاس گز دور گیا ہوں گا کہ میں نے گڑھل کی چھینک سنی۔ گڑھل کی موجودگی صرف دائیں جانب کی پہاڑی پر ہو سکتی تھی اور میں نے سوچا کہ شاید شیرنی ندی عبور کر کے پہاڑی پر چڑھی ہو۔ میں رکا تاکہ شیرنی کو دیکھ سکوں تو مجھے محسوس ہوا کہ جیسے کئی بندے چلا رہے ہوں۔ مڑ کر دیکھا تو گاؤں کے کنارے پر بہت سارے بندے کھڑے تھے۔ جب انہوں نے مجھے متوجہ پایا تو ہاتھ ہلا کر مجھے سیدھا آگے بڑھنے کو کہا۔ اگلے لمحے میں پھر دوڑ رہا تھا۔ ایک موڑ مڑتے ہی میں نے راستے پر تازہ تازہ خون کے نشان دیکھے۔
جانوروں کی کھال کافی ڈھیلی ہوتی ہے۔ جب جانور کھڑا ہو اور اسے گولی لگے تو وہ پوری رفتار سے بھاگتا ہے۔ کھال پر بنا سوراخ گوشت پر موجود سوراخ کی سیدھ میں نہیں آتا اس لئے جتنی دیر تک جانور تیزی سے بھاگتا رہے، یا تو خون نہیں بہتا یا پھر بہت کم بہتا ہے۔ تاہم جب جانور کی رفتار سست پڑتی ہے تو کھال اور جسم کے سوراخ سیدھ میں آنے لگتے ہیں اور خون زیادہ تیزی سے بہنے لگتا ہے۔ جانور کی رفتار جتنی کم ہوتی جائے گی خون اتنا تیزی سے بہتا جائے گا۔ جب آپ کو گولی لگنے کا یقین نہ ہو تو عین اسی جگہ پر جائیں جہاں گولی چلاتے وقت جانور موجود تھا اور دیکھیں کہ وہاں کھال سے کٹے ہوئے کچھ بال تو نہیں پڑے۔ اگر بال موجود ہوں تو گولی لگی ہے اور اگر بال موجود نہیں تو گولی نہیں لگی۔
موڑ مڑنے کے بعد شیرنی کی رفتار سست ہو گئی تھی لیکن وہ ابھی بھی بھاگ رہی تھی۔ تاہم خون کے نشانات بڑھتے جا رہے تھے۔ اسے جا لینے کے خیال سے میں نے رفتار تیز کر دی۔ تاہم تھوڑی ہی دور اچانک بائیں جانب ایک ابھار سا آیا۔ اس ابھار کے بعد راستہ انتہائی تنگ موڑ مڑتا تھا۔ چونکہ میری رفتار بہت تیز تھی اور میں خود کو روک نہ سکا، اس لئے سیدھا نیچے گرا۔ دس یا پندرہ فٹ بعد خوش قسمتی سے ایک جنگلی جھاڑی اگی ہوئی تھی جو میں نے آسانی سے دائیں بغل میں دبا لی۔ مزید خوش قسمتی یہ کہ یہ جھاڑی مڑی تو سہی لیکن اپنی جگہ سے نہ اکھڑی۔ اس سے نیچے کافی گہری کھائی تھی جس میں تیز رفتار ندی گذرتی تھی۔ اس جگہ ندی مڑتی تھی جس کی وجہ سے ندی نے پہاڑی کو بری طرح کاٹ دیا تھا۔ پھر میں نے انتہائی احتیاط سے پیروں کے لئے پہاڑ پر جگہ بنانا شروع کر دی جہاں فرن بکثرت اگے ہوئے تھے۔
شیرنی کو جا لینے کا موقع تو ہاتھ سے نکل گیا تھا لیکن میرے سامنے اب خون کے نشانات تھے جن کا پیچھا کرنا بہت آسان تھا۔ اس لئے اب مجھے جلدی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہ راستے پہلے شمال کے رخ جاتا تھا پھر مڑ کر پہاڑی کی شمالی جانب سے مغرب کو جانے لگا۔ پہاڑ کا یہ شمالی سرا کافی ڈھلوان اور گھنے جنگل سے بھرا تھا۔ مزید دو سو گز جانے کے بعد مسطح جگہ آئی۔ جسم میں گولی لگنے کے بعد میرے خیال میں شیرنی اس سے زیادہ دور نہ جا پاتی۔ اس لئے اس جگہ جہاں فرن وغیرہ اور جھاڑیاں بکثرت تھیں، میں بہت احتیاط سے پہنچا۔
جب زخمی شیر اپنے زخم کا بدلہ لینے پر تیار ہو تو ہندوستانی جنگل میں اس سے زیادہ خطرناک کوئی اور جانور نہیں ہوتا۔ شیرنی کچھ دیر قبل زخمی ہوئی تھی اور بکریوں کی ہلاکت اور پھر اب گولی لگنے کے بعد اس کی جست اور دوڑ سے ظاہر ہوتا تھا کہ پانچ دن قبل والا گولی کا زخم اس کے لئے کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ مجھے علم تھا کہ جونہی شیرنی کو اپنے تعاقب کا پتہ چلا، وہ فورا چھپ کر میرا انتظار کرے گی اور موقع ملتے ہی جست لگا کر بدلہ لے گی جس کا سامنا کرنے کے لئے شاید میرے پاس ایک ہی گولی ہو۔ رائفل کی نالی سے گولی کو نکال کر میں نے اچھی طرح دیکھا۔ یہ گولیاں کلکتہ سے مینٹن نے مجھے تازہ تازہ بھجوائی تھیں۔ گولی کو میں نے پھر چیمبر میں ڈال کر بولٹ چڑھایا اور سیفٹی کیچ اتار دیا۔
راستہ فرن سے بھرا ہوا تھا جو کمر تک بلند تھا اور فرن راستے کے اوپر ملے ہوئے تھے۔ خون کے نشانات اسی راستے سے گذرتے تھے۔ شیرنی راستے پر ہی یا دائیں یا بائیں جانب لیٹی میری منتظر ہوتی۔ اس لئے میں انتہائی آہستگی سے اور پوری احتیاط سے چلتے ہوئے فرنوں تک پہنچا۔ میں نے پوری توجہ سامنے رکھی کیونکہ ایسے مواقع پر دائیں بائیں دیکھنا خطرناک ہوتا ہے۔ ابھی میں تین گز دور ہوں گا کہ میں راستے کے دائیں جانب ایک گز کے فاصلے پر کوئی حرکت دیکھی۔ شیرنی جست لگانے کے لئے تیار ہو رہی تھی۔ بھوکی اور زخمی ہونے کے باوجود شیرنی مقابلے کے لئے پوری طرح تیار تھی۔ تاہم وہ جست نہ لگا سکی۔ اس سے پہلے ہی میری ایک گولی اس کے آر پار ہوئی اور دوسری گولی سے اس کی گردن ٹوٹ گئی۔
بہت دنوں تک تکلیف اور پریشانی کے ساتھ ساتھ خالی پیٹ کی وجہ سے اب میں بری طرح کانپ رہا تھا اور اس مقام تک پہنچنے میں مجھے بہت مشکل ہوئی جہاں میں نیچے گرا تھا۔ اگر اس جگہ اس جھاڑی کا ایک بیج ہوا کے ساتھ اڑ کر نہ پہنچا ہوتا تو میں نیچے گر کر اپنی جان گنوا چکا ہوتا۔
پورا گاؤں پہاڑ کے سرے پر جمع تھا اور جب میں نے ہیٹ کو ہلانے کی نیت سے اتارا تو وہ سارے کے سارے خوشی سے چلاتے ہوئے نیچے بھاگے۔ میرے چھ ساتھی سب سے آگے تھے۔ مبارکبادوں کے بعد شیرنی کو ایک درخت سے باندھ کر پورے کماؤں میں سب سے زیادہ مغرور چھ گڑھوالی تلہ دیس کی آدم خور شیرنی کو لے کر گاؤں روانہ ہوئے۔ گاؤں میں انہوں نے شیرنی کو بھوسے کے ڈھیر پر رکھا تاکہ عورتیں اور بچے اسے دیکھ سکیں۔ میں اپنے خیمے کی طرف روانہ ہوا تاکہ کئی ہفتے بعد پہلی بار کوئی ٹھوس غذا کھا سکوں۔ ایک گھنٹے بعد ہجوم کے درمیان بیٹھ کر میں نے شیرنی کی کھال اتاری۔
اعشاریہ ۲۷۵ کی نرم سرے والی گولی جس کا خول نکل کا تھا، سات اپریل کو اسے لگی اور شانے کے جوڑ میں گڑ گئی تھی۔ جب وہ ہوا میں گر رہی تھی اور جب پہاڑ پر چڑھتے ہوئے اس پر میں نے دوسری اور تیسری گولی چلائیں تو وہ خالی گئی تھیں۔ چوتھی گولی ۱۲ اپریل کو چلائی گئی تھی اور اس کے جسم سے ہڈیوں سے ٹکرائے بغیر گذر گئی تھی۔ پانچویں اور چھٹی گولی سے شیرنی ہلاک ہوئی تھی۔ شیرنی کی اگلی دائیں ٹانگ اور شانے سے میں نے سیہہ کے دو انچ سے چھ انچ لمبے ۲۰ کانٹے نکالے جو اس کے پٹھوں میں بری طرح پیوست تھے۔ انہی کانٹوں کی وجہ سے شیرنی آدم خور بنی تھی۔
اگلا دن میں شیرنی کی کھال خشک کرتے گذارا اور تین دن بعد میں اپنے گھر بحفاظت واپس لوٹ آیا تھا اور میرا برا وقت بھی ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گیا تھا۔ بینس نے کمال مہربانی سے ڈنگر سنگھ اور اس کے بھائی کو الموڑا میں ایک عوامی اجتماع میں بلا کر ان کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے آدم خور کی ہلاکت کے سلسلے میں میری مدد کی تھی اور انہیں شکریے کے طور پر انعام بھی دیا۔
نینی تال واپسی کے ایک ہفتے بعد سر میلکم ہیلی نے کانوں کے ماہر ڈاکٹر کرنل ڈک کے نام ایک تعارفی رقعہ دیا جنہوں نے مجھے لاہور میں تین ماہ اپنے ہسپتال میں داخل رکھا اور جب میں وہاں سے فارغ ہوا تو اس قابل ہو چکا تھا کہ دیگر افراد کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کوئی جھجھک محسوس نہ کرتا اور جنگلی پرندوں کی آوازوں سے لطف اندوز ہونے کے قابل ہو چکا تھا۔

٭٭٭
 مترجم: محمد منصور قیصرانی

Popular Posts