منگل، 26 مارچ، 2013

سنگم کا آدم خور چیتا
ایس۔ کے۔ جیفری
اُن دنوں میں بنگلور میں تعینات تھا جب مجھے اطلاع ملی کہ ستر میل دور جنوب میں سنگم کے مقام پر ایک چیتا آدم خور بن گیا ہے اور اب تک بیسیوں انسانوں اور مویشیوں کو نوالہ بنا چکا ہے۔ جن دنوں اس چیتے نے اپنی وارداتوں کاآغاز کیا‘ میں اپنے فرائضِ منصبی میں اس قدر الجھا ہوا تھا کہ فی الفور اُس طرف دھیان نہ دے سکا۔ اس دوران چند معروف شکاریوں نے اس چیتے کی بیخ کنی کی اپنی سی کوششیں کر ڈالیں مگر ناکامی اُن کا مقدر ٹھہری۔ کوئی بھی درندہ آدم خور بن جانے کی بعد زیادہ دیر زندہ نہیں رہ پاتا اور جلد یا بدیر حضرت انسان کا شکار ہو جاتا ہے مگر مذکورہ چیتے نے محاورۃً نہیں بلکہ حقیقتاً شکاریوں کو تگنی کا ناچ نچا دیا۔آدم خور کی وارداتوں کے قصے سُن سُن کر میں تنگ آ گیا۔ بالآخر میں نے محکمے کو طویل المعیاد چھٹی کی درخواست دی اور راجو کے ہمراہ چیتے کی تلاش میںنکل کھڑا ہوا۔ اگرچہ میں اپنی شکاری زندگی میں کئی مردم آزار درندوں کو موت سے ہمکنار کر چکا ہوں‘ مگر یہ تسلیم کرنے میں مجھے عار نہیں کہ سنگم کے علاقے سے اپنی وارداتوں کا آغاز کرنے والا چیتا کسی اور ہی مٹی کا بنا ہوا تھا۔ اس نے جس انداز میں اپنا بچائو کیا اور انسانوں کو ہلاک کرنے کے ساتھ ساتھ میرے تعاقب میں بھی لگا رہا‘ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی حسیات عام چیتوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ تیز تھیں۔
عام چیتے کی فطرت ہے کہ وہ کسی منصوبے کے تحت انسانوں یا جانوروں پر حملہ نہیں کرتا مگر وہ چیتا اپنے شکار پر حملہ کرنے سے قبل نہ صرف باقاعدہ منصوبے باندھتا بلکہ پیش آنے والے واقعات کا اندازہ کرکے اپنی حفاظت کا بندوبست بھی کر لیتا۔ اسی وجہ سے وہ شکاریوں سے محفوظ چلا آ رہا تھا۔ میںاکثر یہ سوچ کر حیران ہو جاتا کہ اس میں یہ نادر حس آخر کیونکر بیدار ہوئی۔ جیسے ہی میں نے اپنے مخصوص انداز میں اس کی تلاش کا آغاز کیا‘ ایسے ایسے انکشافات ہوئے کہ میں انگشتِ بدنداں رہ گیا۔ مجھے یقین ہے میری شکاری زندگی کا یہ باب پڑھنے کے بعد آپ بھی حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے۔
٭٭٭
میں نے سب سے پہلے راجو کے ہمراہ اُن تمام مقامات کادورہ کیا جہاں آدم خور گھومتا پھرتا دیکھا گیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ کہیں نہ کہیں ہمارا آمنا سامنا ہو جائے گا مگر ایسا نہ ہو سکا۔ آس پاس کی بستیوں اور چندشکاریوں سے ملنے والی معلومات سے پتا چلا کہ چیتا دن کے وقت عموماً مغرب کی جانب کوئی پندرہ میل دور ایک ویران بستی میں آرام کرتا ہے۔ اس بستی میں پندرہ بیس گھر اور چند جھونپڑے تھے۔ چیتے نے ساٹھ ستر نفوس پر مشتمل اس بستی کے بیشتر مکینوں کو اپنا لقمہ بنا ڈالا تھا۔ بقیہ اپنی جانیں بچا کر دوسری بستیوں کا رخ کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اب تک تین گھاگ شکاری چیتے کی تلاش میں اس بستی کارخ کرچکے تھے مگر اُن میں سے ایک بھی واپس نہ لوٹا۔
ہم اپنی مہم کے دوسرے روز ڈھل پران نامی بستی پہنچ گئے جو چیتے کی آماجگاہ سے دس میل دور واقع تھی۔ یہ ایک بڑی بستی تھی۔ اس میں گرد و نواح کی کئی چھوٹی بستیوں کے سہمے ہوئے مکین بھی پناہ لے چکے تھے۔ ہر خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد آدم خور کا نوالہ بن چکا تھا۔ سبھی لوگ ہمیں اپنی اپنی کہانیاں سنانے کے لیے بے چین تھے۔ ان میں سے سب سے اہم اس زمیندار کا بیان تھا جس کے ملازم لڑکے کو آدم خور چار دن پہلے مویشیوں کے باڑے سے اٹھا لے گیا تھا۔
زمیندار نے بتایا کہ اس نے ایک اٹھارہ سالہ یتیم لڑکا مویشیوں کی دیکھ بھال کے لیے رکھا ہوا تھا۔ وہ چونکہ ہندوئوں کی کمتر ذات سے تعلق رکھتا تھا‘ اسی لیے زمیندار کے گھر اس کا آنا جانا ممنوع تھا۔ اس کی رہائش مویشیوں کے باڑے ہی میں تھی جہاں وہ ایک کونے میں چارپائی پر رات بسر کر لیتا۔ عام حالات میں باڑے کا دروازہ باہر سے زنجیر چڑھا کر بند کر دیا جاتا مگر جب سے چیتا علاقے میں وارد ہوا تھا‘ زمیندار حفاظت کی پیشِ نظر کُنڈی میں لکڑی پھنسا دیتا۔
لڑکا اندر سے خاصا وزنی پتھر دروازے کے ساتھ رکھ کر کھلنے کے امکانات ختم کر دیتا۔ ان تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود چیتا اپنی واردات اس صفائی سے کر گیا کہ گائوں کے توہم پرست مکین پورے وثوق سے کہنے لگے کہ آدم خور درحقیقت ایک بھوت ہے جو بند دروازے کھول کر گھروں میں گھسنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ بعدازاں میں نے راجو کے ساتھ باڑے کا معاینہ کیا تو دروازے اور چوکھٹ پر درندے کے پنجوں کے نشان نمایاں نظر آئے۔ میں نے اندازہ لگایا کہ کنڈی میںپھنسا لکڑی کا ٹکڑا چیتے کی جدوجہد کے دوران نکل گیا جس کے بعد اس کے لیے زنجیر گرا کر دروازہ کھولنا مشکل نہ رہا۔ مویشیوں کاکمرا اندر سے دیکھنے کے بعد ہم دونوں حیرت زدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے‘ کمرا اتنا بڑا نہیں تھا کہ مویشیوں کے درمیان چیتے کو آزادانہ گھومنے پھرنے کی جگہ مل پاتی۔ لڑکے تک پہنچنے کے لیے اس نے درمیانی فاصلہ یقینا مویشیوں کی ٹانگوں کے نیچے سے رینگ کر طے کیا ہو گا۔ اس دوران مویشی ڈکرائے ضرور ہوں گے‘ مگر لڑکے نے توجہ اس لیے نہ دی کہ مویشی یوں بھی رات بھر ڈکراتے رہتے ہیں۔ وہ یقینا اس امر کا عادی ہو چکا تھا۔
بہر حال اس بات پر ہم دونوں حیرت زدہ تھے کہ دروازہ کھولنے کی جدوجہد کے دوران لڑکا بدستور نیند میں کیونکر مگن رہا؟اگرچہ یہ بات بھی بظاہر ناقابل یقین لگتی ہے مگر میں اور راجو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے کہ گیارہ گائے بھینسوں میں سے کسی کو چیتے کے پنجوں سے خراش تک نہ آئی۔
وہ زمیندار پھر ہمیں اپنے گھر لے گیا جہاں اس نے ہماری خاطر تواضع کی۔ اس کا تعلق برہمن ذات سے تھا۔ اس نے ہمارے رہنے کا انتظام بھی کردیا۔ ہمارا ارادہ اگلی صبح آدم خور کی تلاش میں نکلنے کا تھا۔ میرا ذاتی خیال تھا کہ جس بستی کو چیتے نے ٹھکانہ بنا رکھا ہے وہاں ہماری کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔
اس بستی کوایک طرف سے ندی تو دوسری طرف سے گھنے جنگل نے گھیر رکھا تھا۔ شمال میں وہ بستی تھی جہاں ہم مقیم تھے۔ جنوب میں جنگل سے ذرا ہٹ کر ایک چھوٹی سی جاگیر تھی جس کا نام بھگت پور تھا۔ اگلی صبح راجو نے تجویز پیش کی کہ آدم خور والی بستی کا معاینہ کرنے سے قبل جنگل کا چکر لگا لیا جائے۔ میں نے اس کی رائے سے اتفاق کیا اور ہم ضروری ساز و سامان سے لیس ہو کر جنگل کی سمت روانہ ہو گئے۔ جنگل کافی گھنا تھا اور اس میں تناور برگد‘ پیپل‘ مہوہ اور املی کے درخت جابجا نظر آئے۔ اس روز ہمارا ارادہ صرف علاقے کا جائزہ لیناتھا۔ یوں بھی مجھے آدم خور سے مڈبھیڑ کی کوئی امید نہ تھی۔ میں آدم خور درندوں کی فطرت سے بخوبی واقف ہوں‘ کسی مخصوص علاقے میں اوپر تلے وارداتیں کرنا آدم خور کی خصلت کے خلاف ہے۔ پھر ہمارا پالا تو ایک ایسے درندے سے پڑا تھا جو اپنی عیاری اور مکاری کے واضح ثبوت فراہم کر چکاتھا۔
ہماری نگاہیں اطراف کا بغور جائزہ لے رہی تھیں۔ جنگل کے قریب پہنچ کر ہم مزید محتاط ہو گئے۔ ہماری رفتار قدرے نرم اور سست ہو گئی۔ راستہ ہر آن دشوار اور خطرناک ہوتا جا رہا تھا۔ بے پناہ نشیب و فراز تھے پھر جابجا خاردار جھاڑیاں راہ میں حائل ہو کر مزید مشکلات پیدا کر رہی تھیں۔ ایک میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہم ایک پگڈنڈی نما راستے تک پہنچ کر رک گئے۔ وہ راستہ جنگل کے وسط سے شرقاً غرباً گزرتا تھا۔
میں نے اس مقام پر زمین کاجائزہ لیا‘ تو ایک نر چیتے کے نقوش پا بکثرت نظر آئے۔ نشانات دیکھ کرمیں نے اندازہ لگایا کہ چیتا یہ راستہ باقاعدہ طور پر استعمال کرتا ہے۔ راجو نے مجھ سے اتفاق کیا۔ ہم نے باڑے کے آس پاس جو نشانات دیکھے تھے وہ اِن نقوش سے گہری مماثلت رکھتے تھے۔ اب میری ڈھارس بندھی اور مجھے یقین ہو گیا کہ وہ راستہ آدم خور ہی کے زیر استعمال تھا۔
"اگر اس مقام پر گھات لگائی جائے تو بآسانی آدم خور کو جہنم واصل کیا جا سکتا ہے۔" راجو نے رائے دی۔
"لیکن میرے خیال میں ایسا قدم اٹھانے سے قبل ہمیں وہ بستی بھی ایک نظر دیکھ لینی چاہیے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ چیتے نے وہاں اپنا ٹھکانہ بنا رکھا ہے۔" میں نے دھیرے سے کہا "مجھے یقین ہے یہ نقوش پا اسی بستی تک جا رہے ہیں۔"
میرا اندازہ درست تھا۔ ایک گھنٹے بعد ہم ان کا تعاقب کرتے ہوئے اس بستی کی حدود میں داخل ہو گئے۔ دورسے دیکھنے پر ہی وہ ویران دکھائی دیتی تھی۔ گھاس پھونس سے بنی تیس چالیس جھونپڑیوں کے بارے میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ چیتے کی آمدسے قبل وہاں لکڑہاروں کی رہائش تھی۔ آدم خور نے اپنی وارداتوں کا آغاز بھی اسی بستی سے کیا تھا۔ گھاس پھونس کی دیواریں توڑ کر شکار کرنے میں اسے یقینا کوئی دقت نہ ہوئی ہو گی۔ تین چار وارداتوں کے بعد لکڑہاروں نے وہ مقام غیرمحفوظ تصور کرتے ہوئے چھوڑ دیا۔ اُدھر چیتے کو اس بستی کی شکل میں ایک محفوظ ٹھکانہ مل گیا۔
جیسے جیسے ہم آگے بڑھے بستی کی ویرانی ہمارے دل و دماغ پر مسلط ہونے لگی۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا جیسے آدم خور ہمارے ساتھ اسی بستی میں موجود ہے۔ وسط میں پہنچ کر ہم رک گئے۔ وہاں دو انسانی پنجر اس حال میں پڑے تھے کہ ایک نظر ڈالتے ہی دل کانپ گیا۔ لباس کے چیتھڑوں سے ہم نے اندازہ لگایا کہ وہ دونوں آدم خور کا لقمہ بننے والے بدنصیب شکاری تھے۔
"آدم خور یقینا بستی اور جنگل کے درمیان آزادانہ گھومتا پھرتا ہے۔" میں نے محتاط نگاہیں چار سو پھراتے ہوئے کہا۔
"اس کا مطلب ہے صاحب! ہمیں اِن دونوں مقامات کی نگرانی کرنی ہو گی۔" راجو نے تائیدی انداز میں سر ہلا کر تجویز دی۔
"اس کے سوا کوئی چارہ نہیں راجو۔" میں نے جواب دیا۔ "ہمارا پالا نہایت ہی مکار درندے سے پڑا ہے۔ اگر ہم اکٹھے رہے تو بعید نہیں کہ ہماری توجہ آدم خور سے زیادہ ایک دوسرے پر مرکوز رہے اور ہم اسے شکار کرنے کے بجائے خود شکار ہو جائیں۔لہذامیں بستی میں رکتا ہوں۔" میں نے فیصلہ کن انداز میں جواب دیا "تم جنگل میں نگرانی کرو۔ زمین کی نسبت تم کسی مضبوط درخت کی بلندی پر محفوظ بھی رہو گے۔" راجو نے سر کو اثبات میں جنبش دی اور اپنا ساز و سامان سنبھال کر اس پگڈنڈی پر ہو لیا جو جنگل کی طرف جا تی تھی۔ تھوڑی ہی دیر بعد رات ہونے والی تھی۔ اگر راجو کے بجائے کوئی اور میرے ساتھ ہوتا تو میں اسے یوں تنہا جنگل میں کبھی نہ بھیجتا۔ لیکن راجو کی بات دوسری تھی‘ مجھے اس کی حسیات اور نشانے پر بھرپور اعتماد تھا۔
راجو کو روانہ کرنے کے بعد میں نے ایسی جھونپڑی کا انتخاب کیا جو بستی کے وسط میں واقع اور نسبتاً مضبوط تھی۔ اس کی تعمیر میں گھاس پھونس کے ساتھ ساتھ لکڑی کے تختے بھی استعمال کیے گئے تھے۔ جھونپڑی کا محل وقوع کچھ ایسا تھا کہ اگر کوئی اس کی طرف بڑھتا تو میں فوراً اسے نشانے پر لے سکتا تھا۔ پھر میں نے جس کمرے کومسکن بنایا اس کی دیواروں پر بنی درزوں سے میں باہر کا منظر بھی بخوبی دیکھ سکتا تھا۔
جھونپڑی کا دروازہ اندر سے بند کر کیمیں کمرے میں نہیں بٹھابلکہ وقفوں وقفوں سے کھانس کر اور کبھی سیٹی بجا کراپنی وہاں موجودگی کا احساس دلاتا رہا۔ جھونپڑی کے باہر چوہے اور گیدڑ حرکت کر رہے تھے۔ تین گھنٹے بعد چاند کی روشنی اس حد تک پھیل گئی کہ درزوں میں سے چاندنی چھن چھن کر اندر آنے لگی۔ مجھے یقین تھا کہ اگر چیتا کہیں آس پاس موجود ہوا‘ تو میری بو پا کر جھونپڑے کا رخ ضرور کرے گا۔ مزید تین گھنٹے یوں ہی گزر گئے مگر چیتے کی آمد کے آثار پیدا نہ ہوئے۔ چیتا جب رات کو شکار کے لیے نکلے تو ایک میل کا فاصلہ تقریباً ایک گھنٹے میں طے کرتا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ اور نہایت استقلال کے ساتھ قدم آگے بڑھاتا اور ذرا سی آہٹ پر چوکنا ہو کررک جاتا ہے۔ وہ جہاں جہاں سے گزرے دوسرے جانور محتاط انداز میں چیختے ہوئے اس کی آمد کی خبر دینے لگتے ہیں۔ میں نے درزوں میں سے باہر جھانکا‘ چاند کی روشنی اس حد تک پھیل چکی تھی کہ چالیس پچاس فٹ دور پھیلی جھاڑیاں اور دوسرے جھونپڑے صاف نظر آ رہے تھے۔ وقت چیونٹی کی رفتار سے رینگ رہا تھا۔ آخر میں اس خود ساختہ قید سے اکتا گیا‘ جی میں آیا کہ دروازہ کھول کر باہر نکل جائوں۔
ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ دور سے بندروں کے خوخیانے کی آوازیں سنائی دیں۔ تھوڑی دیر بعد بستی کے باہر گیدڑ زور زور سے چلانے لگے۔میں رائفل ہاتھ میں تھامے بے اختیار اٹھ کھڑا ہوا۔ گیدڑ مسلسل چلّااور خبردار کر رہا تھا کہ "ہوشیار! دشمن آ پہنچا۔" میں کمرے سے نکلا‘ جھونپڑی کے چھوٹے سے صحن کے وسط میں کھڑا ہوا اور زور زور سے کھانسنے لگا۔ جھونپڑی کی جس دیوار میں دروازہ نصب تھا‘ وہ تختوں سے بنائی گئی تھی اور میرا رخ اسی جانب تھا۔ جانے کیوں مجھے یقین تھا کہ چیتا اسی طرف سے حملہ آور ہو گا۔ دفعتہ فضا پر ہیبت ناک سکوت طاری ہو گیا۔ گیدڑوں کے چلّانے کی آوازیںبھی اب کہیں دور سے سنائی دے رہی تھیں۔ میں اپنی جگہ پتھر کے بت کی طرح کھڑا تھا کہ اچانک درندے نے جھونپڑی کے دروازے کو زور سے ٹکر ماری اور پوری جھونپڑی لرز گئی۔ دہشت سے میرا بدن پتھر ہو گیا۔ پُرشور آواز کے ساتھ دونوں پٹ وا ہوئے اور چیتا میرے عین سامنے آن کودا۔
میں نے زندگی میںبیسیوں درندے شکار کیے ہیں مگر میں دعوے سے کہہ سکتا تھا کہ اس سے زیادہ عجیب و غریب درندہ میں نے آج تک اپنی زندگی میں دوبارہ نہ دیکھا۔ وہ تھا تو قدآور نر چیتا لیکن اس کا رنگ ڈھنگ ہی نرالا تھا. منقّش کمر بند‘ کلائی بند اور سر پر چمڑے کی جڑائو ٹوپی۔سچ پوچھو تو وہ اس قدر خوبصورت حیوان کی شکل میں میرے سامنے کھڑا تھا کہ ہزار کوشش کے باوجود میںرائفل سیدھی کر کے اس پرگولی نہ چلا سکا۔
اگلے ہی لمحے میری پلک جھپکی اور چیتا وہاں موجود نہ تھا۔ میں نے فوراً باہر نکل کر اِدھر اُدھر دیکھا مگر چیتے کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔
یہ میری خوش قسمتی ہی تھی کہ اس وقت میں زندہ سلامت اپنی جگہ پر کھڑا تھا ورنہ میری بے خودی سے فائدہ اٹھا کر وہ درندہ پل بھر میں میری تکابوٹی بھی کرسکتا تھا۔ مجھ سے قبل آنے والے بدقسمت شکاریوں کے ساتھ شاید ملتا جلتا حادثہ رونما ہوا تھا۔ میرے زندہ بچ جانے کی ایک ہیتوجیہ پیش کی جا سکتی ہے اور وہ یہ کہ ابھی میری زندگی کے دن باقی تھے۔ بہرحال ایک خطرناک درندہ میرے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ میںنے جھونپڑیکیکنڈی چڑھا کرپائپ سلگا یا‘ اور برآمدے میں بیٹھ گیا۔
چند ثانیے قبل میں نے جس درندے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ کوئی معمولی درندہ نہیں بلکہ کسی کا سدھایا ہوا نہایت قیمتی شکاری چیتا تھا۔ میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ ہندوستان میں شکاری چیتے سدھانے کا رواج مغل شہنشاہ اکبر اعظم نے ڈالا تھا۔ اس کے بعد آنے والے بادشاہوں اور والیان ریاست نے بھی اپنے اپنے دور میں چیتے پالے۔ انگریز دور حکومت میں بھی ہندوستان کی بعض ریاستوں میں شکاری چیتے خاص طور سے پالے جاتے تھے۔ ان کی نگہداشت و پرورش کے لیے باقاعدہ تنخواہ دار ملازم مقرر ہوتے۔
شکاری چیتے کی تربیت انہی خطوط پر ہوتی جن پر دوسرے شکاری جانوروں مثلاً کتوں یا باز وغیرہ کی تربیت کی جاتی ہے۔ مگر یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ چیتا ایک بار سدھا لیا جائے تو وہ انسان سے بہت مانوس ہو جاتا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ اس سے بہترین اور تیزرفتار شکاری جانور شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ راجے مہاراجوں کے ہاں پالے جانے والے شکاری چیتوں کا مقصد بھی خالصتاً شکار کھیلنا ہی ہوتا تھا۔ جب کبھی والی ریاست یا کوئی اہم سرکاری ملازم اس مخصوص شکاری مہم کا لطف اٹھانا چاہتا تو شکاری چیتوں کو مع ان کے رکھوالوں کے طلب کر لیا جاتا۔ ان چیتوں سے عام طور پر ہرن اور تیز رفتار چیتل کے علاوہ کبھی کبھی خرگوش کا شکار بھی کھیلا جاتا۔ محافظ چیتوں کو ان کے مخصوص لکڑی کے پنجروں سمیت بیل گاڑیوں پر لاد کر میدان میں لے آتے۔
شکار نظر آتا تو چیتے کی آنکھوں سے پٹی کھول کر اسے دکھایا جاتا۔ چیتا چپکے سے گاڑی سے اترتا اور جھاڑیوں میں چھپتا چھپاتا اپنے شکار کے سر پر پہنچ جاتا۔ یہ طریقہ عام طور پر ہرنوں اور بارہ سنگھوں کے شکار کے لیے مخصوص تھا۔ شکار زیر ہونے کے کچھ دیر بعد تیزرفتار گھوڑوں پر سوار نگران بھی وہاں پہنچ جاتے اور چیتے کو بہلا کر ہرن اس سے لے لیتے۔ ہرن کو ذبح کر کے اس کی ایک ران چیتے کو بطور انعام پیش کی جاتی۔
برصغیر میں شکاری چیتے پالنے اور ان کے ذریعے شکار کرنے کا رواج تو خیر عام تھا‘ بعد میں وہ انگلستان بھی پہنچ گیا۔ سرنگا پٹم کی فتح کے بعد مارکوئلس ویلزلی نے ٹیپو سلطان شہید کے تین شکاری چیتے شاہ جارج سوم کی خدمت میں روانہ کیے تھے۔ ان چیتوں کے ساتھ ان کے خدمتگار اوربیل گاڑیوں کے علاوہ تربیت یافتہ بیل اور عربی النسل گھوڑے بھی تھے۔مگر شاہ جارج سوم نے اِن چیتوں کا فن دیکھنے کی کبھی کوشش نہ کی اور انھیں اپنی باقی زندگی شاہی چڑیا گھر میں گزارنی پڑی۔
سنگم کا وہ آدم خور چیتا بھی شکاری چیتوں کے قبیل سے تعلق رکھتا تھا۔ اب میری سمجھ میں یہ آیاکہ اب تک کوئی شکاری آدم خور کو کیوں شکار نہ کر پایا۔ عام چیتے کو زیر کرنا تو جان جوکھوں کا کام ہے ہی مگر ایک شکاری چیتے کے خلاف نبرد آزما ہونا بالکل ایسا ہے جیسے انسان خودکشی کرنے نکل کھڑا ہو۔
میرا ذہن انہی بھول بھلیوں میں بھٹک رہا تھا کہ صبح ہو گئی۔ اجالا پھیلتے ہی راجو بھی مجھے ڈھونڈتے ہوئے وہاں آ گیا۔ ساری رات آنکھوں میںکاٹ دینے کے باوجود اس کا چیتے سے آمنا سامنا نہیں ہوا تھا۔ جب اسے میرے ساتھ پیش آنے والے واقعے اور چیتے کی حقیقت کا علم ہوا‘ تو وہ بھی ہراساں نظر آنے لگا۔
"آپ کی قسمت اچھی ہے صاحب کہ زندہ بچ گئے۔" وہ خوفزدہ لہجے میں گویا ہوا۔
"ہاں راجو۔" میں نے ہنکارا بھر کر جواب دیا۔"مگر افسوس کہ اس آدم خور چیتے کی قسمت مجھ سے بھی زیادہ اچھی ہے‘ میں نے اسے مارنے کا سنہرا موقع کھو دیا۔ خدا جانے اب وہ دوبارہ ہاتھ آئے گا بھی یا نہیں۔" میں نے حسرت بھرے لہجے میں جواب دیا۔
ہم دل برداشتہ واپس گائوں پہنچے۔ مگرہم نے اپنی ناکامی کی خبر گائوں والوںکو نہیں سنائی ورنہ وہ مزید خوفزدہ ہو جاتے۔ ہم ناشتہ کرنے کے بعد رت جگے کے باعث کسل مندی کا شکار ہو گئے۔ زمیندار کے مشورے پر ہم نے نیند پوری کرنا مناسب جانا۔
اگر دوپہر کے وقت شور و غل سے میری آنکھ نہ کھلتی‘ تو خد امعلوم میں کب تک یونہی پڑاسویا رہتا۔ شور سن کر راجو بھی جاگ گیا تھا۔ہم نے باہر نکل کر دیکھا تو لوگوں کا جم غفیر جمع تھا۔ جوآہ و زاری کر رہے تھے۔ پتا چلا کہ چیتا ابھی ابھی ایک چھ سالہ بچے کواُٹھاکر لے گیا ہے مگر کسی کو خبر نہ تھی کہ وہ کس طرف گیا۔
ہم دونوں فوراً جائے وقوعہ پہنچے جہاں بچے کے والدین گریہ و زاری کر رہے تھے۔ مکان کے باہر ہم نے نشانات کا کھوج لگانا چاہا مگر کوئی ایسا نشان نہ ملا جس سے معلوم ہوتا کہ درندہ شکار لے کرکس سمت گیا ہے۔ دراصل وقوعہ کے بعد وہاں کئی لوگ جمع ہو گئے‘ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے قدموں سے چیتے کے نقوش مٹ گئے۔
میں نے لوگوں کو تاکید کی کہ ہمارے علاہ کوئی گائوں کی حدود سے باہر نہ جائے اور پھر میں راجو کو ساتھ لے کر گائوں کے گرد چکر لگانے لگا کہ شاید کہیں نشانات کا سراغ مل جائے۔ ہم گھومتے ہوئے گائوں کے مغربی حصے پہنچے تو زمین پر گھسیٹے جانے کے واضح نشانات نظر آئے۔ کچھ دور چل کر وہ نشانات غائب ہو گئے او رفقط چیتے کے نقوش پا رہ گئے۔ وہاں سے چیتے نے یقینا اپنا شکار پیٹھ پر لاد لیا تھا۔ ان نشانات اور خون کے قطروں کا رخ اسی جنگل کی طرف تھا جہاں ہم نے گزشتہ روز چیتے کی جستجو کی تھی۔
جوں جوں ہم آگے بڑھے بچے کے کپڑوں کے چیتھڑے اور ایسے ہی دوسرے نشانات ملنے لگے۔ جنگل کے باہر پیپل کا ایک خاصا پھیلا ہوا پرانا درخت تھا۔ جیسے ہی ہم نے اس درخت کو پیچھے چھوڑا نشانات یکدم غائب ہو گئے۔ اسی لمحے میری چھٹی حس چیخ چیخ کر نادیدہ خطرے کا اعلان کرنے لگی۔ میں نے راجو سے پیٹھ جوڑ کر چاروں طرف نظریں دوڑائیں مگر وہاں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں آدم خور چھپ سکتا ہو۔ معاً میرا دھیان اس درخت کی طرف گیا۔
اب جو میں نے نظریں اٹھائیں تو میری نگاہیں درخت کے اس حصے پر جم کر رہ گئیں جہاں شاخوں میں سے بچے کا ایک خون آلود ہاتھ جھانک رہا تھا۔ درخت بلندی پر جا کر خاصا پھیل گیا تھا اور وہاں کئی ایسی شاخیں تھیں جن پر چیتا بآسانی خود کوپتوں میں چھپا سکتا تھا۔
میں نے راجو کوخاموشی کااشارہ کیا اور ہم دونوں الٹے قدموں درخت سے دور ہوتے گئے۔ ہماری نگاہیں اور رائفلوں کے دہانے درخت پر مرکوز تھے۔ دس قدم دور ہم رک گئے۔ درخت کے آس پاس زمین پر نگاہیں دوڑانے کے بعد میرے ذہن میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں۔
"جناب چیتا اسی درخت پرچھپا بیٹھاہے۔" راجو نے میرے کان میںسرگوشی کی مگر میں کچھ اور ہی سوچ رہا تھا ۔
"نہیں راجو۔" میں نے سر کو نفی میں جنبش دیتے ہوئے کہا "اگر یہ عام آدم خور ہوتا تو شاید تمہاری بات درست ہوتی مگر یہاں معاملہ دوسرا ہے۔ ہمارا پالا ایسے شاطر درندے سے پڑا ہے جسے شکار کی تربیت خود انسان نے دی ہے۔" راجو کبھی مجھے اور کبھی اس درخت کو دیکھتا جس پر سے میں نے اپنی رائفل کادہانہ ہٹا لیاتھا۔
"آپ کامطلب ہے چیتا درخت پرموجود نہیں۔" وہ متوحش انداز میںبولا "اس نے ہمیں دھوکا دینے کے لیے لاش درخت پر چھپائی ہے ‘مگر یہ ثابت کیسے ہو گا۔"
"ایسے۔ میں نے درخت کے دامن میں نظر آنے والے پنجوں کے نشانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
اب راجو بھی اس طرف متوجہ ہو گیا۔ پنجوں کے نشانات جنگل کی سمت جا رہے تھے۔ راجو کے منہ سے ایک طویل سانس خارج ہو گئی۔
"وہ ہمیں غُچہ دینا چاہتا ہے۔" میں نے کہا ۔ "تاکہ ہم اس امر کا انتظار کریں کہ وہ کب اپنا شکار کھانے واپس آئے اور اس دوران وہ یہاں سے دور نکل جائے۔ لیکن میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔" یہ کہہ کر میں نے اسے اپنے پیچھے آنے کااشارہ کیا اور جنگل کی سمت بڑھ گیا۔ چیتا ذرا گھوم کر مشرق کی طرف سے جنگل میںداخل ہوا تھا۔جنگل نے اپنی پوری رعنائی‘ دہشت اور پرشور آوازوں کے ساتھ ہمارا استقبال کیا۔ درخت ہوا کے جھونکوں سے ہل رہے تھے اور چاروں طرف عجیب بھیانک آوازیں گونج رہی تھیں۔ہم دونوں خاموش اور یوں چل رہے تھے کہ نہ قدموں کی آہٹ بلندہو اور نہ خشک پتوں کے پیروں تلے روندے جانے کی چرچراہٹ۔
آدم خور کے شکار میںکامیابی اور حفاظت کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ شکاری ممکنہ خاموشی سے پیش قدمی کرے۔ میری نظریں اطراف کا بغور جائزہ لے رہی تھیں۔ رفتہ رفتہ جنگل گھنا ہوتا گیا۔ زمین پر پھیلے خشک پتوں اور دوسرے جانداروں کے نقوش پا کے درمیان چیتے کے نقش پا نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ قریب ہی درختوں پر سرخ منہ والے بندروں کا ایک غول چیخ رہا تھا۔کچھ خرانٹ قسم کے بندر ہماری طرف متوجہ بھی ہوئے لیکن اگلے ہی لمحے ہم آگے بڑھ گئے۔ ابھی ہم نے جنگل کے اندر نصف فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ پیچھے جھاڑیوں میں سر سراہٹ سن کر ہمارے قدم جہاں تھے وہیں منجمد ہو گئے۔
ہم نے پلٹ کر ادھر دیکھا جہاں آواز سنائی دی تھی مگر ہمارے رکتے ہی وہ آواز بھی بند ہو گئی۔ معاً بائیں طرف ایک درخت پر بیٹھے پرندے زور سے چیخے اور فضا میں پرواز کر گئے۔ خطرے کا احساس ہوتے ہی میرے اندر کا شکاری چوکنا ہو گیا۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے پیٹھ جوڑے‘ جنگل کے تاریک گوشوں کو گھور گھور کر دیکھنے لگے۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کہیں کسی گوشے میں چھپا بیٹھا کوئی ہماری حرکات و سکنات کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔
میں نے راجو کو مخصوص انداز میں ٹہوکا دیا اور رائفل کے ٹریگر پر ہاتھ رکھے آگے بڑھا۔ بارہا مجھے اپنے پیچھے کسی جانور کے قدموں کی چاپ محسوس ہوئی لیکن یہ فیصلہ کرنا میرے لیے مشکل ہو گیا کہ وہ کسی کھردار جانور کی قدموں تلے روندے جانے والے پتوں کی آواز تھی یا گدی دار پیر والے چیتے کی۔ میں نے چند قدم پیچھے ہٹ کر رائفل کادہانہ اسی طرف گھما دیا۔
اچانک ہمارے سامنے قدِّآدم درختوںکے نیچے کوئی جانور تیزی سے گزرا۔ اس سے قبل کہ ہم اس کا نشانہ لیتے‘ وہ اونچی گھاس میںکہیں گم ہو گیا۔ میں اسے دیکھتے ہی پہچان گیا‘ یہ وہی مکار شکاری چیتا تھا جو ہمارے ساتھ ساتھ جھاڑیوں میں چھپتا چھپاتا چل رہا تھا۔ درندوں میں چیتا سب سے زیادہ مکار اور ہوشیار جانور ہے۔ وہ شیر کی طرح نہ تو گرج کر حملہ کرتا ہے اور نہ ہی دوسرے درندوں کی طرح اپنی موجودگی کااحساس دلاتا ہے۔ وہ بلی کی طرح دبے قدموں شکار کا تعاقب کرتا اور موقع ملتے ہی اسے نیچے گرا لیتا ہے۔ معاً ہمارے سامنے قدآدم گھاس میں جنبش ہوئی اور مجھے چیتے کی دم کا بالائی حصہ نظر آیا جو سانپ کے پھن کی طرح دھیرے دھیرے لہرا رہا تھا۔ اگر دم نظر نہ آتی‘ تو میں کبھی اندازہ نہ لگا پاتا کہ وہ کہاں چھپاہوا ہے۔
میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میںراجو کو ساکت رہنے کا اشارہ کیا‘ آہستہ بہت آہستہ سے رائفل اوپر اٹھائی اور پھر ہاتھوں کی ہلکی اور نرم جنبش سے اس مقام کا نشانہ لیا جہاں میرے اندازے کے مطابق چیتے کا دھڑتھا۔
ابھی میری انگلیاں بمشکل لبلبی تک ہی پہنچی تھیں کہ چیتے نے سر اٹھا کر یکلخت مجھے دیکھا اور پھر ایک چنگھاڑ کے ساتھ میری جانب چھلانگ لگا دی۔ اس کے اور میرے درمیان ابھی چند گز کا فاصلہ تھا کہ میرے فائر کی آواز گونجی اور دوسرے ہی لمحے چیتا اپنی پوری طاقت اور وزن کے ساتھ میرے اوپرآ گرا۔یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ میں کچھ سمجھ نہ سکا اور رائفل ہاتھوں سے چھوٹ گئی۔
چیتے کا ایک پنجہ زور سے میرے کندھے پر لگا اور میں لڑھکتا ہوا گھاس میں جا گرا۔ چیتے نے چھلانگ لگائی اور غرا کر میرے کندھے میں دانت گاڑ دیے۔ وہ لمحہ میں زندگی بھر فراموش نہیںکرسکتا‘ حددرجہ تکلیف کے ساتھ ہی موت کے احساس نے پل بھر کے لیے میرے اعصاب جکڑ لیے۔ میںاچھی طرح جانتا تھا کہ ایسے موقع پر راجو کبھی گولی نہیں چلائے گا۔ اب جو بھی کرنا ہے مجھے ہی کرنا تھا۔ گھٹنوں کے بل اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے میں نے اپنے شکاری خنجر کے دستے پر ہاتھ جمایا اور اسے میان سے باہر نکالنے کی کوشش کرنے لگا۔ اسی لمحے چیتے نے غرا کر میرے کندھا چھوڑا‘ تو ایک جھٹکے کے ساتھ خنجر میرے ہاتھ میں آ گیا۔ اس دوران چیتے کی تیز سانسیں مجھے اپنی گردن اور کان پر محسوس ہو رہی تھیں۔ میں نے دیکھے بغیر خنجر اپنے پیچھے کھڑے چیتے کے جسم میں پیوست کر دیا۔ چیتا خون آشام غراہٹ کے ساتھ تلملایا اور میری پیٹھ سے اتر کر ایک طرف بھاگ گیا۔
راجو شاید اسی لمحے کا منتظر تھا‘ اس نے آن واحد میں کئی گولیاں فرار ہوتے چیتے پر داغ دیں مگر وہ تو پلک جھپکتے میں غائب ہو گیا تھا۔
راجو نے فوراً آگے بڑھ کر مجھے اٹھایا‘ میرے زخمی کندھے سے ابلتا خون سارے جسم کو تر کر رہا تھا۔ اس نے مجھے کندھے پر اٹھایا اور جنگل سے باہر دوڑ لگا دی۔ اس دوران میں درد کی شدت سے بے ہوش ہو گیا۔
٭٭٭
جب مجھے ہوش آیا تو میں زمیندارکی حویلی کے صحن میں ایک چارپائی پر پڑا تھا۔ میری قمیص اتار کرزخموں کی مرہم پٹی شاید راجو نے خود کی تھی کیونکہ وہ ادویہ کابکس اٹھائے میرے سرہانے ہی کھڑا تھا۔ صحن میں گائوں والوں کا ہجوم تھا‘سب میری طرف پرتشویش نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
اس موذی نے مجھے اس قدر پریشان کر دیا تھا کہ اس کا ہیولا ذہن میں آتے ہی اپنے زخم کی تکلیف فراموش کر کے میں راجو کی مدد سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اب میں ہر قیمت پر اس چیتے کو موت کے گھاٹ اتارنا چاہتا تھا۔ میں نے گائوں والوں کو اکٹھا کیا اور ان سے کہا کہ وہ ہمارے ہمراہ زخمی چیتے کو تلاش کریں‘ کہیں نہ کہیں ضرور اس کا سراغ مل جائے گا۔ دراصل زخمی حالت میں اس کے فرار کے بعد میں خاصا پُرامید ہو گیا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ چند روز تک وہ اپنے زخم چاٹے گا اور اس جنگل سے نکل کر کہیں اور نہیں جائے گا۔
اگر میں زخمی نہ ہوتا تو گائوں والوں کی مدد کے بغیر ہی راجوکے ہمراہ آدم خور کے تعاقب میںنکل کھڑا ہوتا مگر میرے زخمی ہونے کے بعد صورت حال بدل چکی تھی۔ ایسی حالت میں آدم خور کا تنہا تعاقب سیدھی سادی خودکشی تھی‘ لیکن گائوں والوں کے دلوں پر چیتے کی ہیبت اس قدر طاری تھی کہ انھوں نے ہانکاکرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اتنے دنوں کی مشقت اور صعوبتیں اٹھانے کے بعد جب منزل قریب آنے کے آثار پیدا ہوئے تو گائوں والوں کی بزدلی نے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔
میری گردن‘ گھٹنے اور انگلیوں پر بھی گہری خراشیں آئی تھیں۔ ایک ہفتہ شدید تکلیف کے عالم میں بسر ہوا۔ اس دوران راجو کے علاوہ قریبی قصبے سے ایک ناتجربہ کار ڈاکٹر میرے زخموں کی دیکھ بھال کرتا رہا مگر تکلیف روز بروز بڑھتی گئی۔ بخار بھی رہنے لگا۔ میری ذاتی رائے تھی کہ چیتے کے دانتوں اور پنجوں کا زہر میرے خون میں سرایت کر چکا ہے۔ بالآخر میری حالت کی خبر ڈپٹی کمشنر کے کانوں میںپڑی‘ تو انھوںنے اگلے ہی روز مجھے بنگلور کے سول ہسپتال میں داخل کرنے کے احکامات صادر کر ڈالے۔
بنگلور ہسپتال میں پڑے پڑے مجھے دو ماہ ہوگئے۔ اس دوران راجو نے میری خدمت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ وہ صحیح معنوں میں میرا رفیق ثابت ہوا۔ مجھے آدم خور کی سرگرمیوں کے بارے میں بھی تفصیلی خبریں ملتی رہیں۔ وہ اتنا نڈر ہو چکا تھا کہ لنگادھالی‘ تدک‘ سنتاویری‘ ہوگر خان اور ہوگرالی میں دن دیہاڑے کسی نہ کسی کو پکڑ کر لے جاتا۔ ایک مرتبہ اس نے ہوگر خان کے ریلوے اسٹیشن پر نمودار ہو کر سنسنی پھیلا دی۔ اس کے بعد متضاد خبریں آنے لگیں۔ کبھی معلوم ہوتا کہ آدم خور مارا گیا اور کبھی پتا چلتا کہ نہیںمرا۔ حکومت کی طرف سے بھیجے گئے فوجی افسروں نے آدم خور کے مغالطے میں کئی جنگلی درندوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ راجو بڑی بے قراری سے میری صحت یابی کی دعائیں مانگا کرتا تھا۔ خود میری طبیعت ہسپتال میں پڑے پڑے بیزار ہو چکی تھی‘ میں چاہتا تھا کہ جتنی جلد ہو سکے اس کمرے سے نکلوں اور آدم خور سے بدلہ لے کر حساب چکتا کروں‘ مگر ڈاکٹروں نے میری ایک نہ چلنے دی۔
خدا خدا کر کے ڈھائی ماہ بعد مجھے ہسپتال سے رخصت ملی‘ تومیں راجو کے ہمراہ سیدھا ہوگرخان پہنچ گیا۔ اسٹیشن کے باہر سرکاری اہلکاروں نے اونچی اونچی بلیاں باندھ کرلوہے کی باڑ نصب کر رکھی تھی۔ ہر طرف مہیب سناٹا اور دہشت کی فضا چھائی ہوئی تھی۔
آدم خور کے تعاقب میں مجھے دن کا چین تھا نہ رات کا ہوش‘ بس میرے دل و دماغ پر یہی دھن سوار تھی کہ کسی طرح اسے جہنم واصل کر دوں۔ راجو سائے کی طرح میرے ساتھ تھا۔ وہ نہایت نڈر اور بہادر آدمی تھا ‘ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اگر وہ میرا ساتھ نہ دیتا تو شاید میں کبھی آدم خور کو جہنم واصل کرنے میںکامیاب نہ ہوتا۔
اس دوران ہمیں آدم خور کی پچھلی زندگی کے بارے میںخاطر خواہ معلومات مل چکی تھیں۔ وہ مہاراجہ گوالیار کے ذاتی چڑیاگھر کا سدھایا ہوا شکاری چیتا تھا جو مہاراجہ نے اپنے ایک انگریز فوجی افسر دوست کو تحفتاً دیا تھا۔ بنگلورمیں تعیناتی کے دوران اس انگریز افسر کی لاپرواہی کے نتیجے میں چیتا آزاد ہو گیا اور یوں اس المناک داستان کی ابتدا ہوئی۔ میری صحت یابی تک وہ منحوس درندہ ڈیڑھ سو افراد کو اپنا لقمہ بنا چکا تھا۔
تین دن بعد بھرن پاڑ سے یہ خبر ملی کہ وہاںایک چودہ سالہ لڑکے کو آدم خور اٹھا لے گیا۔ یہ حادثہ بھرن پاڑ کی پہاڑی ڈھلوانوں کے قریب پیش آیا تھا جو چیتل ورگ کے جنوب میں واقع ہیں اور وہاں صدیوں پرانے قلعے کے کھنڈر بھی موجود تھے۔
ہم نے اسی وقت گھوڑے سنبھالے اور چیتل ورگ روانہ ہو گئے۔ ہمیں وہ جھونپڑی دکھائی گئی جہاں چیتے نے واردات کی تھی۔ وہ شکار منہ میں دبائے پہاڑی کی طرف بھاگ گیا تھا۔ لوگوں کے بیانات سے میں نے اندازہ لگایا کہ آدم خور لاش کو قلعے کے کھنڈر میں لے گیا تھا اور شاید اب تک وہیں ہو۔ کسی نے چیتے کا تعاقب کرنے کی جرأت نہ کی۔
اس جگہ مسلمانوں کی آبادی خاصی زیادہ تھی۔ شکار ہونے والا لڑکا بھی مسلمان ہی تھا۔ سمجھانے بجھانے پر ہمارے ہمراہ آٹھ نوجوان کھنڈروں تک جانے کے لیے راضی ہو گئے۔ اگرچہ سورج غروب ہونے میں زیادہ دیر نہیں تھی لیکن میں آج ہی کھنڈرجاناچاہتا تھا۔ راستہ انتہائی دشوار اور خطرناک تھا۔ جوں جوں ہم آگے بڑھے ہمارے ساتھ آنے والے نوجوان سراسیمگی کا شکار نظر آنے لگے۔ جب مجھے احساس ہوا کہ وہ آگے بڑھنے سے کترا رہے ہیں‘ تو میں نے مزید وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور انھیں وہیں رکنے کی ہدایت دے کر راجو کے ہمراہ پتھروں کو پھلانگتا خاردار جھاڑیوں کی پروا کیے بغیر کھنڈروں تک پہنچنے میںکامیاب ہو گیا۔
میں نے برسوں پہلے اپنی ملازمت کے ابتدائی دنوں میں وہ کھنڈر دیکھے تھے۔ ان کی حالت اب بھی ویسی ہی تھی۔ غروب ہوتے سورج کی سنہری کرنوں میں کھنڈر عجب ڈرائونا منظر پیش کر رہے تھے۔
قلعے میں داخل ہوتے ہی میری چھٹی حس خطرے کا اعلان کرنے لگی۔ میں نے راجو کو اشارہ کیا اور لبلبی پر انگلی جمائے چاروں طرف نظریں دوڑانے لگا۔ دائیں جانب واقع جھاڑیوں میں ہلکی سی کھڑکھڑاہٹ سن کر میں نے اپنی سماعت اسی جانب مرکوز کر دی۔ مجھے اپنی قوت سماعت پر کامل بھروسا تھا۔ جھاڑیاں مجھ سے تیس گز دور تھیں۔ میں عجلت کا مظاہرہ کر کے بنا بنایا کام بگاڑنا نہیں چاہتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ آدم خور اپنی فطرت کے مطابق مجھے بے خبری میں دبوچ لینا چاہتا ہے۔
دفعتہ آدم خور کی سانسوں کی آواز ابھری اور میں برقی سرعت سے اس جانب گھوم گیا۔ اسے لمحے جھاڑیوں میں دبکے ہوئے آدم خور نے اپنا سر اٹھایا اور اس کی آبگینوں کے مانند دمکتی ہوئی آنکھیں جیسے میرے وجود میں سوراخ کرنے لگیں۔ آدم خور کی اس تنویمی قوت کا ماضی قریب میں مجھے خاصا تلخ تجربہ ہو چکا تھا۔ اس سے قبل کہ وہ جست لگا کر میرے سر پر پہنچتا میری گولی اس کاداہنا شانہ توڑتی ہوئی نکل گئی۔ زخمی ہونے کے باوجود چیتا دل دہلا دینے والی غراہٹ کے ساتھ میری جانب جھپٹا۔ میں نے فوراً زمین پر لوٹ لگائی اور سیدھا ہوتے ہی دوسری گولی داغ دی جو اس کی گردن میںسوراخ کرتی نکل گئی۔ اس دوران راجو بھی یکے بعد دیگرے تین فائر داغ چکاتھا۔ چیتا فضا میں اچھل کر قلعے کی دیوار سے جا ٹکرایا اور وہیں گر کر ذبح شدہ جانور کی طرح تڑپنے لگا۔ تڑپتے تڑپتے وہ ایک بار پھر فضا میں اچھلا لیکن فوراً ہی میری گولی اس کی کھوپڑی میں پیوست ہو گئی اور وہ دوبارہ نہ اٹھ سکا۔
اس طرح بہت بڑے رقبے پر تباہی پھیلانے والا انسان ہی کا سدھایا ہوا ایک درندہ اپنے انجام کو پہنچا۔جب راجو اور میں چیتے کی پیمائش اور معاینہ کر چکے تو اسے ایک درخت کے سائے میں ڈال دیا گیا۔ اگلے روز صبح سے شام تک سینکڑوں مرد اور عورتیں اسے دیکھنے آتے رہے۔
اس لمحے ہم دونوں نے خود کو دنیا کے مسرور ترین انسانوں میں شامل محسوس کیاکیونکہ ہم اب حکومت اور آس پاس کے دیہہ میں بسنے والوں کو بتا سکتے تھے کہ تین سال سے ان کی زندگی کو عذاب بنادینے والا موذی ٹھکانے لگ چکا تھا۔
٭٭٭
مترجم: محمد اقبال قریشی

Popular Posts