اتوار، 31 مارچ، 2013

پانار کا آدم خور
جم کاربٹ
(۱)
جب میں ۱۹۰۷ء میں چمپاوت کی آدم خور شیرنی کے شکار میں سر گرداں تھا تو مجھے اس آدم خور تیندوے کا پتہ چلا جس نے الموڑا ضلع کے مشرقی سرے میں دہشت پھیلائی ہوئی تھی۔ یہ تیندوا جس کے بارے ہاؤس آف کامنز میں بھی سوال پوچھے گئے، کئی ناموں سے مشہور تھا۔ اس کے ذمے کم از کم ۴۰۰ مصدقہ ہلاکتیں تھیں۔ چونکہ میں اس تیندوے کو پانار کے آدم خور تیندوے کے نام سے جانتا ہوں اس لئے میں اسے اس کہانی میں اسی نام سے ہی پکاروں گا۔
سرکاری کاغذات میں ۱۹۰۵ء تک کسی آدم خور کا تذکرہ نہیں ملتا۔ ۱۹۰۵ء میں پہلی بار یہاں چمپاوت کی آدم خور شیرنی اور پھر پانار کے آدم خور تیندوے کا ظہور ہوا۔ اس سے قبل کماؤں میں آدم خور کا کبھی نہیں سنا گیا تھا۔ ان دونوں جانوروں نے کل ۸۳۶ انسان ہلاک کئے تھے۔ جب یہ درندے نمودار ہوئے تو حکومت ان کے سامنے لاچار تھی کیونکہ حکومت کے پاس اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے کوئی بھی ذریعہ نہیں تھا۔ تاہم سرکاری افسران نے اپنے دوست احباب اور شکاریوں سے ذاتی طور پر درخواستیں کیں کہ وہ ان جانوروں کو ٹھکانے لگائیں۔ تاہم چند ہی شکاریوں نے اس دعوت پر لبیک کہا کیونکہ آدم خور جانور کا پیچھا کر کے شکار کرنا بالکل اسی طرح انتہائی خطرناک امر سمجھا جاتا تھا جیسا چند سال بعد ولسن کی جانب سے ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کی واحد کوشش تھی۔ جتنا ولسن کو ایورسٹ سے ناواقفیت تھی اتنا ہی میں آدم خور جانوروں سے لاعلم تھا۔ تاہم جب میں اس کوشش میں کامیاب ہوا اور ولسن اپنی کوشش میں ناکام ، تو اس کی ذمہ داری محض قسمت پر ہی ہے۔
جب چمپاوت کی آدم خور شیرنی کی ہلاکت کے بعد میں نینی تال گھر پہنچا تو حکومت نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں پانار کے آدم خور تیندوے کا شکار کرنا چاہوں گا؟ اس وقت مجھے ملازمت کے سلسلے میں انتہائی مشکلات درپیش تھیں اور کئی ہفتے گذرنے کے بعد مجھے اتنا وقت مل سکا کہ میں اس تیندوے پر توجہ دوں۔ تاہم جب میں روانہ ہونے ہی والا تھا تو مجھے نینی تال کے ڈپٹی کمشنر کی درخواست ملی جس میں انہوں نے مکتسر کی آدم خور شیرنی کے بارے بتایا کہ اس شیرنی نے بہت دہشت پھیلا رکھی ہے اور اسے ہلاک کیا جانا بہت ضروری ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا ہے، مکتسر کی شیرنی کی ہلاکت کے بعد میں پانار کے تیندوے کی جانب لوٹا۔
چونکہ میں تیندوے کے علاقے میں پہلے کبھی نہیں آیا تھا اس لئے میں الموڑا سے ہو کر گذرا تاکہ الموڑا کے ڈپٹی کمشنر سے تیندوے کے بارے ہر ممکن معلومات لے سکوں۔ انہوں نے مجھے نہ صرف ناشتہ کھلایا بلکہ مجھے نقشے وغیرہ بھی مہیا کیے۔ تاہم میرے روانہ ہوتے وقت انہوں نے یہ کہہ کر مجھے اچھا خاصا جھٹکا پہنچایا کہ کیا میں تیندوے کے تعاقب سے متعلق تمام خطرات سے آگاہ ہوں اور انہی خطرات کے پیش نظر کیا میں نے اپنی وصیت مرتب کر لی ہے؟
ان نقشوں کے مطابق متائثرہ علاقے تک پہنچنے کے دو راستے تھے۔ ایک راستہ پان ونولہ سے بذریعہ پتھور گڑھ روڈ جاتا تھا اور دوسرا لام گرا سے بذریعہ دیبی دھورا روڈ۔ میں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا اور دوپہر کا کھانا کھانے اور وصیت کے تذکرے کے باوجود خوش دلی سے روانہ ہوا۔ میرے ساتھ ایک ملازم اور چار دیگر افراد تھے جو میرا سامان اٹھائے ہوئے تھے۔ میں اور میرے ساتھی پہلے ہی ۱۴ میل کا سفر طے کر چکے تھے لیکن چونکہ ہم نوجوان اور مضبوط تھے اس لئے ہم نے سوچا کہ مزید کچھ آگے جا کر رکیں گے۔
چودہویں کا چاند طلوع ہو ہی رہا تھا کہ ہم ایک چھوٹی سی علیحدہ واقع عمارت تک پہنچے۔ اس کی چھوٹی دیوار اور پھیلے ہوئے کاغذوں سے ہم نے یہ اندازہ لگایا کہ یہ عمارت بطور سکول استعمال ہوتی ہوگی۔ چونکہ میرے پاس کوئی خیمہ نہیں تھا اور عمارت مقفل تھی تو میں نے فیصلہ کیا کہ رات ہم صحن ہی میں گذارتے ہیں۔ چونکہ ہم ابھی آدم خور کے علاقے سے کئی میل دور تھے اس لئے یہاں شب بسری محفوظ تھی۔ صحن ۲۰ مربع فٹ تھا اور اس کے ایک طرف سڑک اور دوسری جانب سکول کی عمارت تھی۔ باقی دو اطراف دو فٹ اونچی دیوار تھی۔
چونکہ سکول کی عمارت کے پیچھے جنگل میں آگ جلانے کے لئے لکڑیاں بے شمار تھیں اس لئے میرے ساتھیوں نے جلد ہی صحن کے ایک کونے میں آگ جلا لی۔ میرے ملازم نے میرے لئے کھانا تیار کیا۔ اس وقت سکول کے مقفل دروازے سے ٹیک لگائے میں سگریٹ پی رہا تھا۔ میرے ملازم نے میرے لئے بکرے کی بھنی ہوئی ٹانگ کو کاغذ پر منتقل کر کے دیوار پر رکھا اور مڑ کر آگ کریدنے لگا۔ اسی دوران اس کے پیچھے دیوار کی دوسری جانب سے تیندوے کا سر نمودار ہوا۔ حیرت کے مارے میں اپنی جگہ بیٹھا رہا۔ جب میرا ملازم چند فٹ مزید دور ہوا تو تیندوے نے بکرے کی ران دبوچی اور یہ جا وہ جا۔ چونکہ کاغذ ابھی تک ران سے چمٹا ہوا تھا تو اس کی آواز سن کر میرا ملازم یہ سمجھا کہ کوئی کتا اسے اٹھائے جا رہا ہے۔ بے چارہ فورا اس کے پیچھے لپکا لیکن جونہی اسے احساس ہوا کہ یہ کتا نہیں بلکہ تیندوا ہے تو وہ تیزی سے میری طرف پلٹا۔ یورپی لوگوں کو مشرق میں تھوڑا سا دیوانہ سمجھا جاتا ہے۔ جب میرا ملازم واپس لوٹا تو میں ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔ اس بے چارے نے یہی سمجھا ہوگا کہ میں کچھ زیادہ دیوانہ ہو گیا ہوں کیونکہ سارا دن ہم چلچلاتی ہوئی گرمی میں چلتے رہے تھے۔ اس نے بتایا کہ بکرے کی ران ہی وہ چیز تھی جو وہ میرے لئے کھانے کے طور پر لا رہا تھا۔ تاہم کچھ دیر بعد اس نے کچھ اور کھانا تیار کیا اور میرے سامنے لا کر رکھ دیا۔ اس کھانے سے میں نے اور تیندوے نے بکرے کی بھنی ران سے یکساں انصاف کیا۔
اگلی صبح جلدی روانہ ہوتے ہوئے ہم لوگ لام گرا دوپہر کا کھانا کھانے رکے۔ شام کو ہم لوگ ڈول ڈک کے بنگلے پر پہنچے۔ یہاں سے آدم خور کی سلطنت شروع ہوتی تھی۔ اگلی صبح اپنے ساتھیوں کو بنگلے چھوڑ کر میں اس نیت سے نکلا کہ جا کر آدم خور کے بارے کچھ سن گن لوں۔ ایک گاؤں سے دوسرے تک اور راستے پر تیندوے کے پگوں کی تلاش کرتے ہوئے میں شام گئے ایک علیحدہ بنے ہوئے ایک مکان تک پہنچا۔ یہ مکان پتھروں سے بنا ہوا تھا جس پر سلیٹ کی چھت تھی۔ اس کے پاس چند ایکڑ جتنے کھیت موجود تھے اور ان کے پیچھے جنگل ہی جنگل۔ اس گھر کو جانے والی پگڈنڈی پر میں نے ایک بڑے نر تیندوے کے پگ دیکھے۔
جب میں اس مکان کے نزدیک پہنچا تو اس کا دروازہ کھلا اور ایک بندہ اس سے باہر نکلا۔ بالکنی سے ہوتا ہوا وہ سیڑھیاں اترا اور مجھے ملنے آیا۔ اس کی عمر بائیس سال ہوگی اور بہت پریشان دکھائی دیتا تھا۔ یہ بندہ اپنی بیوی کے ساتھ گذشتہ رات فرش پر سو رہا تھا اور دروازہ کھلا تھا کیونکہ اپریل کا مہینہ تھا اور گرمی کافی سخت تھی۔ آدم خور تیندوا بالکونی پر چڑھ کر اندر داخل ہوا اور اس کی بیوی کو گلے سے پکڑ کر کھینچنے لگا۔ اس عورت نے گھٹی گھٹی سی چیخ ماری اور اپنے شوہر کو پکڑ لیا۔ اس بندے نے فورا ہی صورتحال کو جان لیا اور دروازے کو پکڑ کر بیوی کو جھٹکے سے تیندوے سے چھڑایا اور لپک کر دروازہ بند کر لیا۔ بقیہ رات میاں بیوی کمرے کے ایک کونے میں دبکے لرزتے رہے اور تیندوا بار بار دروازہ توڑنے کی کوشش کرتا رہا۔ انتہائی گرم اور حبس زدہ کمرے میں اس عورت کے زخموں میں پیپ پڑنا شروع ہو گئی تھی۔ شکر ہے کہ وہ صبح سے اپنے زخموں اور درد کے باعث نیم بے ہوش تھی۔
سارا دن یہ بندہ اپنی بیوی کے پاس رہا اور اسے ڈر تھا کہ آدم خور کسی بھی وقت واپس آ سکتا ہے۔ اس کا نزدیکی ہمسایہ ایک میل دور رہتا تھا اور راستہ گھنے جنگل سے گذرتا تھا۔ اب یہ بندہ بے چارہ دہشت سے بھری ایک اور رات کا منتظر تھا کہ اس نے مجھے آتے دیکھا۔ جب میں نے اس کی کہانی سنی تو مجھے بالکل حیرت نہ رہی کہ مجھے دیکھتے ہی وہ کیوں بھاگ کر میرے قدموں میں گر کر رونے لگا تھا۔
صورتحال کافی مشکل تھی۔ اس وقت تک میں نے حکومت کو آدم خور کے علاقے میں جراثیم کش ادویات اور ابتدائی طبی امداد کا سامان پہنچنانے کا نہیں کہا تھا اور اس وقت نزدیک ترین ہسپتال بائیس میل دور الموڑا میں تھا۔ اس عورت کی مدد کے لئے اگر میں ادویات لانے جاتا تو یہ اس بندے کو پاگل کر دینے کے لئے کافی تھا۔ ایک اور رات اس گرم کمرے میں یہ جانتے ہوئے گذارنا کہ آدم خور کسی بھی وقت واپس آ کر دروازہ توڑنے کی کوشش کر سکتا ہے، اس بندے کو پاگل کر دینے کے لئے کافی ہوتی۔ پہلے ہی ایک رات اس نے جیسے تیسے گذاری تھی۔
اس کی بیوی اٹھارہ سال کی لڑکی تھی اور پشت کے بل لیٹی ہوئی تھی۔ آدم خور کے دانتوں نے اس کے گلے میں سوراخ کر دیئے تھے اور جب اس کے شوہر نے اسے تیندوے سے چھڑانے کی کوشش کی تو اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے تیندوے نے اس کی چھاتی پر پنجہ گاڑ دیا تھا۔ اس طرح جب یہ عورت آدم خور کی گرفت سے نکلی تو اس کی چھاتی پر چار گہرے زخم بن گئے۔ اس کمرے میں جہاں صرف گرمی ہی گرمی تھی کیونکہ یہاں کوئی کھڑکی نہیں تھی اور مکھیوں کے جم غفیر اس کے زخموں پر جمع تھے۔ زخم اب سڑنے لگ گئے تھے اور چاہے اسے طبی امداد ملتی یا نہیں، اس کے زندہ بچنے کے امکانات بہت معدوم تھے۔ اس لئے میں نے بجائے اس کے کہ جا کر اس کے لئے طبی امداد لاتا، میں نے رات یہیں گذارنے کا فیصلہ کیا۔ میری یہ دلی دعا ہے کہ آپ میں سے جو بھی اس کہانی کو پڑھ رہے ہوں، انہیں کبھی کسی انسان یا جانور کے ساتھ اس طرح رات نہ گذارنی پڑے کہ شیر یا تیندوے کے دانتوں سے اس کے گلے میں سوراخ ہوں اور ما سوائے رائفل کی گولی کے اسے اس کی اذیت سے نجات دلانے کا کوئی اور طریقہ نہ ہو۔
بالکنی مکان کی لمبائی میں پھیلی ہوئی تھی اور دونوں اطراف سے بند تھی۔ اس کی کل لمبائی پندرہ فٹ اور چوڑائی چار فٹ تھی۔ صنوبر کی لکڑی کے بنے زینے اسے زمین سے ملاتے تھے۔ سیڑھیوں کے عین سامنے مکان کا واحد دروازہ تھا اور اس کے عین نیچے چار فٹ چوڑی اور چار فٹ اونچی جگہ پر جلانے کے لئے لکڑیاں رکھی گئی تھیں۔
اس بندے نے میری منتیں کیں کہ میں اس کے ساتھ کمرے کے اندر رہوں۔ اگرچہ میرا جی آسانی سے مالش نہیں کرتا لیکن اس کمرے کی فضاء اتنی گھٹن آلود تھی کہ میں مزید برداشت نہ کر سکا۔ اس بندے کی مدد سے میں نے سوختنی لکڑیوں کا کچھ حصہ ہٹا دیا اور اتنی جگہ بن گئی جہاں میں دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ سکتا۔ رات کی تاریکی چھانے والی تھی اس لئے نزدیکی چشمے سے غسل کر کے اور پیاس بجھا کر میں اپنی جگہ پر بیٹھ گیا اور اس بندے سے کہا کہ کمرے میں جا کر دروازہ کھلا چھوڑ دے۔ اس نے پوچھا "صاحب اس طرح تو تیندوا لازما آپ کو کھا جائے گا پھر میں کیا کروں گا؟" میں نے جواب دیا "دروازہ بند کر کے صبح کا انتظار کرنا۔"
چاند سولہویں کا تھا اور رات کی تاریکی چھانے کے کچھ دیر بعد نکلتا۔ یہ تاریکی کا مختصر سا وقفہ مجھے پریشان کر رہا تھا۔ جیسا کہ اس بندے نے بتایا تھا کہ تیندوا صبح ہونے تک دروازے کو توڑنے کی کوشش کرتا رہا تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تیندوا زیادہ دور نہیں گیا ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ اب بھی تیندوا جھاڑیوں میں چھپا مجھے دیکھ رہا ہو۔ اسی حالت میں میں نصف گھنٹہ بیٹھا رہا اور آنکھوں پر زور دے کر مسلسل دیکھتا رہا اور چاند کے جلد از جلد نکلنے کی دعا مانگتا رہا۔ اچانک دور سے گیدڑ بولا۔ یہ آواز پوری طاقت سے نکالی گئی تھی اور کافی فاصلے سے آئی تھی۔ اس آواز کو آپ "فیوں فیوں" سے مشابہہ کہہ سکتے ہیں۔ گیدڑ یہ آواز بار بار نکالتا رہا جب تک کہ خطرہ اس کے سامنے سے ہٹ نہ گیا۔ شکار کی تلاش میں نکلے یا پھر شکار کردہ جانور پر آتے وقت تیندوے انتہائی آہستگی سے حرکت کرتے ہیں۔ اگر اس گیدڑ نے آدم خور تیندوے کو دیکھا تھا تو یہ تیندوا نصف میل کا فاصلہ اتنی دیر میں طے کرتا کہ اگر چاند نہ بھی نکلا ہوتا تو بھی اتنی روشنی ہوتی کہ میں آسانی سے گولی چلا سکتا۔ یہ سوچ کر مجھے کافی سکون ملا اور میں آسانی سے سانس لینے کے قابل ہو گیا۔
وقت گذرتا رہا۔ گیدڑ کی آواز بند ہو گئی۔ چاند پہاڑیوں کے اوپر سے نکل آیا اور میرے سامنے کی زمین پر چاندنی اتنی پھیل گئی کہ دور دور تک صاف دکھائی دینے لگا۔تاہم مجھے کسی قسم کی کوئی حرکت نہیں دکھائی دی اور واحد آواز اس بے چاری لڑکی کی تھی جو وہ سانس لینے کی کوشش میں نکال رہی تھی۔ منٹ گھنٹوں میں بدلتے گئے۔ حتٰی کہ چاند نصف النہار پر پہنچ کر زوال پر مائل ہو گیا۔ اب مکان کا سایہ میرے سامنے پڑنے لگا۔ اب پھر خطرہ آ گیا تھا۔ اگر تیندوا مجھے دیکھ چکا ہو تو اب اندھیرے میں اس کی حرکات مجھ سے پوشیدہ رہتیں۔ تیندوا آسانی سے ساری رات ایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے گذار سکتا ہے۔ تاہم رات بخیریت گذری اور صبح کی آمد کے ساتھ میری طویل ترین راتوں میں سے ایک ختم ہوئی۔
گذشتہ رات کے رت جگے کے بعد یہ رات اس بندے نے آسانی سے سو کر گذاری تھی۔ جب میں اپنے کونے سے نکلا اور اپنی دکھتی ہڈیوں کو سہلا رہا تھا تو وہ بندہ سیڑھیوں سے نیچے اترا۔ چند رس بھریوں کے علاوہ میں نے چوبیس گھنٹے میں کچھ نہیں کھایا تھا۔ چونکہ اب یہاں مزید رکنا فضول تھا تو اس بندے سے اجازت لے کر میں اس نیت سے آٹھ میل دور ڈول ڈک کے ڈاک بنگلے کو روانہ ہوا کہ جا کر اس لڑکی کے لئے طبی امداد لاؤں۔ ابھی میں چند ہی میل گیا ہوں گا کہ مجھے میرے ساتھی آتے دکھائی دیئے۔ میری طویل غیر حاضری سے پریشان ہو کر انہوں نے میرا سامان باندھا اور ڈاک بنگلے کے بقایا جات ادا کر کے وہ میری تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ ابھی ہم باتیں کر رہے تھے کہ وہاں سے روڈ اوور سیئر گذرا۔ یہ وہی بندہ تھا جس کے بارے میں نے مندر کا شیر میں بھی لکھا تھا۔ وہ ایک مضبوط خچر پر سوار تھا۔ اسے میں نے ایک خط سٹیف کے نام دیا جو اس نے پہنچانے کا وعدہ کر لیا۔ میرا خط ملتے ہی سٹیف نے فورا طبی امداد کا بندوبست کیا لیکن امداد پہنچنے سے قبل ہی اس لڑکی کی مشکل ختم ہو گئی تھی۔
اسی روڈ اوور سیئر نے مجھے دیبی دھورا میں آدم خور کی واردات کے بارے بتایا تھا جہاں میں اپنی زندگی کے بہترین شکاری تجربات میں سے ایک سے دوچار ہوا تھا۔ جب اس واقعے کے بعد میں نے پنڈت سے پوچھا کہ آیا یہ آدم خور بھی مندر کی حفاظت میں تو نہیں تو اس نے فورا کہا "نہیں صاحب۔ یہ شیطان میرے مندر کے بہت سارے پوجا کرنے والوں کو کھا چکا ہے اور جیسا کہ آپ نے کہا کہ آپ اس کے پیچھے پھر آئیں گے تو میں اس سلسلے میں صبح شام آپ کی کامیابی کے لئے دعائیں کروں گا۔"
(۲)
چاہے آپ کی زندگی کامیابیوں اور مسرتوں سے بھری ہوئی کیوں نہ ہو پھر بھی چند واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ جن پر نظر ڈالنے سے خصوصی خوشی ملتی ہے۔ ایسی ہی ایک مثال ۱۹۱۰ کا سال ہے۔ اس سال میں نے مکتسر کے آدم خور شیر اور پانار کے آدم خور تیندوے کو ہلاک کیا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ محکمہ گھاٹ پر میں نے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ ایک دن میں بغیر کسی مشینی مدد کے میں نے اور میرے آدمیوں نے ۵۵۰۰ ٹن سامان منتقل کیا۔
پانار کے آدم خور تیندوے کے شکار کی میری پہلی کوشش اپریل ۱۹۱۰ء میں تھی لیکن پھر ستمبر تک مجھے دوسری کوشش کا وقت نہ مل سکا۔ مجھے علم نہیں کہ اپریل تا ستمبر کتنے مزید افراد کو تیندوا کھا چکا تھا کیونکہ سرکاری طو رپر ان اعداد و شمار کو شائع نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے بارے ہاؤس آف کامنز میں بھی سوال پوچھے گئے۔ تاہم ہندوستانی پریس میں اس کے بارے کچھ بھی نہیں لکھا گیا۔ پانار کے آدم خور کے کھاتے میں ۴۰۰ انسانی ہلاکتیں لکھی تھیں۔ تاہم ردر پریاگ کے آدم خور تیندوے نے ۱۲۵ انسان ہلاک کیے تھے۔ پھر بھی پانار کے آدم خور کے بارے اتنا کم لوگوں کو معلوم ہے جبکہ ردر پریاگ کا آدم خور ہندوستان کے چپے چپے پر مشہور تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پانار کا آدم خور انتہائی دور دراز علاقے میں سرگرم تھا جبکہ ردر پریاگ کا تیندوا جس علاقے میں شکار کرتا تھا وہاں ہر سال ۶۰۰۰۰ سے زیادہ یاتری ہندوستان کے طول و عرض سے آتے تھے۔ یہ یاتری اور حکومت کی طرف سے جاری ہونے والے اعلامیوں نے ہی ردر پریاگ کے آدم خور تیندوے کو اتنا مشہور بنا دیا تھا جبکہ اس سے ہونے والا نقصان نسبتا کم تھا۔
ایک ملازم اور چار ساتھیوں کے ساتھ میں نینی تال سے ۱۰ ستمبر کو اس تیندوے کے شکار پر دوسری بار نکلا۔ یہ چار ساتھی میرا خیمہ اور دیگر ضروری سامان اٹھائے جا رہے تھے۔ جب صبح چار بجے ہم لوگ گھر سے روانہ ہوئے تو بادل چھائے ہوئے تھے اور ابھی ہم چند ہی میل دور گئے ہوں گے کہ بارش شروع ہو گئی۔ سارا دن بارش ہوتی رہی اور جب ہم الموڑا ۲۸ میل کا سفر کرکے پہنچے تو ہم انتہائی گیلے ہو چکے تھے۔ طے یہ ہوا تھا کہ یہ رات میں سٹیف کے ساتھ گذاروں گا لیکن چونکہ میرے پاس کوئی بھی خشک کپڑے نہیں تھے اس لئے سٹیف سے معذرت کر کے رات ڈاک بنگلے پر گذاری۔ چونکہ ڈاک بنگلے میں کوئی اور مسافر مقیم نہیں تھا اس لئے چوکیدار نے کمال مہربانی سے ہمیں دو کمرے اور کافی بڑی مقدار میں سوختنی لکڑی بھی دی۔ صبح تک ہم اور ہمارا سامان پوری طرح خشک ہو چکا تھا اور ہم روانگی کے لئے تیار تھے۔
میرا ارادہ تھا کہ میں وہی راستہ اپناؤں گا جو اپریل میں میں نے اختیار کیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ جس گھر میں لڑکی تیندوے سے لگے زخموں سے مری تھی، وہیں سے میں اس شکار کا آغاز کروں گا۔ جتنی دیر میں ناشتہ کرتا، پنوا نام کا ایک راج میرے پاس آیا۔ یہ بندہ نینی تال میں ہمارے لئے چھوٹے موٹے کام کرتا تھا اور اس کا گھر وادئی پانار میں تھا۔ جب اس نے میرے ساتھیوں سے یہ سنا کہ ہم وادئی پانار آدم خور کے شکار کے لئے جا رہے ہیں تو اس نے درخواست کی کہ ہم اسے بھی ساتھ لیتے چلیں۔ چونکہ اسے بھی گھر جانا تھا اور خطرے کے پیش نظر وہ اکیلا نہیں جانا چاہتا تھا۔ پنوا اس علاقے سے بخوبی واقف تھا اور اس کے مشورے پر میں نے اپنا سفری پروگرام تبدیل کر لیا۔ اس بار دیبی دھورا براستہ اس سکول سے جانے کی بجائے، جہاں تیندوے نے میرے بکرے کی ران اٹھائی تھی، میں نے پتھورا گڑھ والی سڑک پکڑی۔ رات کو ہم نے پنوا نولا ڈاک بنگلے میں رہے۔ اگلی صبح ہم جلدی روانہ ہوئے اور چند میل کے بعد سڑک سے دائیں جانے والی ایک پگڈنڈی پر ہو لئے۔ اب ہم آدم خور کی سلطنت میں تھے اور ان جگہوں پر آمد و رفت سڑکوں کی بجائے پگڈنڈیوں سے ہوتی ہے۔
ہماری پیش قدمی کافی سست تھی کیونکہ کئی سو مربع میل پر گاؤں پھیلے ہوئے تھے اور آدم خور کے بارے یقینی اطلاع حاصل کرنے کے لئے ہمیں ہر گاؤں جا کر معلومات لینی تھیں۔ سلن اور رنگوٹ کی پٹیوں (پٹی سے مراد دیہاتوں کا ایک مجموعہ ہے) سے ہوتے ہوئے چوتھے روز شام گئے ہم لوگ چکاتی پہنچے۔ یہاں نمبردار نے مجھے بتایا کہ چند دن قبل دریائے پانار کی دوسری جانب تیندوے نے سانولی نامی گاؤں میں ایک بندہ ہلاک کیا تھا۔ چونکہ حالیہ بارشوں کے سبب دریائے پانار خوب چڑھا ہوا تھا اس لئے نمبردار نے ہمیں رات وہیں بسر کرنے کا کہا۔ اس نے وعدہ کیا کہ اگلی صبح وہ مجھے ایک محفوظ جگہ دکھانے کے لئے رہنما ساتھ بھیجے گا۔ دریائے پانار پر اس جگہ کوئی پل نہیں تھا۔
نمبردار سے میری یہ گفتگو گاؤں کے ایک سرے پر واقع دو منزلہ مکانوں کی قطار کے ایک سرے پر ہو رہی تھی۔ جب میں نے اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے رات کو اسی گاؤں میں رہنے کا فیصلہ کیا تو اس نے کہا کہ وہ بالائی منزل پر میرے اور میرے ساتھیوں کے لئے دو کمرے خالی کرا دیتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ نچلی منزل بھی خالی ہی تھی اس لئے میں نے اسے کہا کہ میں اسی کمرےمیں سوؤں گا جبکہ میرے ساتھیوں کے لئے وہ بالائی منزل کا ایک کمرہ خالی کرا دے۔ جس کمرے کا میں نے اپنے لئے انتخاب کیا تھا اس کا دروازہ غائب تھا۔ لیکن چونکہ آدم خور کی پچھلی واردات دریا کے دوسرے کنارے پر ہوئی تھی اور تب سے دریا میں طغیانی آئی ہوئی تھی اس لئے تیندوا لازما دوسری طرف ہی ہوگا۔
کمرے میں کسی قسم کا ساز و سامان نہیں تھا اور جب میرے آدمیوں نے اس کمرے کو اچھی طرح صاف کر کے اس میں پھیلے ہوئے چیتھڑے ہٹائے اور اس غلیظ بندے کو کوستے رہے جو ہم سے قبل یہاں رہ رہا تھا۔ پھر انہوں نے مٹی کے فرش پر صاف چادر بچھائی اور میرا بستر لگا دیا۔ صحن میں میرے باورچی نے میرے لئے کھانا تیار کیا جو میں نے بستر پر بیٹھے ہوئے کھایا۔ اس دن ہم نے کافی طویل سفر کیا تھا اور میں تھکن سے چور تھا۔ اگلی صبح جب سورج نکلنے والا تھا اور کمرے میں اچھی طرح روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ہلکی سی آہٹ سے میری آنکھ کھل گئی۔ میرے بستر کے ساتھ ہی ایک بندہ فرش پر بیٹھا تھا۔ اس کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ ہوگی اور بے چارہ کوڑھ کے موذی مرض کے آخری مراحل سے گذر رہا تھا۔ اس بدقسمت انسان نے جب مجھے بیدار ہوتے دیکھا تو اس نے سلام کیا اور کہا کہ اسے امید ہے کہ میں اس کے کمرے میں اچھی طرح سویا ہوں گا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ دو دن کے لئے نزدیکی گاؤں اپنے دوست کو ملنے گیا ہوا تھا اور جب واپس لوٹا تو اس نے دیکھا کہ میں اس کے کمرے میں سو رہا ہوں۔ اس لئے وہ میرے بیدار ہونے تک میرے قریب بیٹھ گیا۔
کوڑھ کا مرض مشرقی بیماریوں میں سب سے زیادہ خطرناک اور چھوت کا مرض ہے جو کماؤں میں بری طرح پھیلا ہوا ہے۔ ضعیف العقیدہ کے مالک لوگ اس بیماری کو خدا کا قہر سمجھتے ہیں اور بیماری میں مبتلا افراد کو الگ نہیں کرتے۔ اگرچہ نمبردار کو علم تھا کہ اس کمرے میں کئی سال سے کوڑھی رہ رہا ہے لیکن اس نے مجھے اس بارے ایک لفظ بھی نہیں بتایا۔ بعجلت میں نے کپڑے پہنے اور جونہی ہمارا رہنما حاضر ہوا، ہم روانہ ہو گئے۔
کماؤں میں گھومتے وقت مجھے کوڑھ سے انتہائی خوف محسوس ہوتا ہے۔ لیکن پوری رات کوڑھی کے کمرے میں گذارنے کے بعد میں نے خود کو جتنا غلیظ اور گندا تصور کیا، بیان سے باہر ہے۔ پہلی ہی ندی جو راستے میں آئی، پر میں نے سب کو رکنے کا کہا کہ اس دوران میرا ملازم میرے لئے اور دیگر افراد کے لئے کھانا تیار کر لے۔ پھر اپنے آدمیوں کو کہا کہ وہ اس چادر کو اچھی طرح دھوئیں جس پر میرا بستر بچھا تھا۔ اس کے علاوہ میں نے انہیں کہا کہ وہ میرا بستر اچھی طرح دھوپ میں پھیلا دیں۔ میں نے کاربالک صابن اٹھایا اور ندی پر جا کر ایک بڑی چٹان کی اوٹ میں سارے کپڑے اتار کر خود کو صابن کی مدد سے اتنی بار دھویا جب تک کہ میری تسلی نہ ہو گئی۔ بقیہ صابن سے میں نے اپنے کپڑے دھوئے اور انہیں خشک ہونے کے لئے وہیں ایک بڑے پتھر پر ڈال دیا۔ دو گھنٹے بعد جب میرے کپڑے خشک ہو گئے تو میں نے کپڑے پہنے اور خود کو صاف ستھرا محسوس کیا اور میری بھوک بھی لوٹ آئی۔
ہمارا رہنما ساڑھے چار فٹ لمبا ہوگا اور اس کے بہت بڑے سر پر ایک چوٹی لہرا رہی تھی۔ موٹے جسم اور کم گو طبعیت کا حامل تھا۔ جب ہم نے پوچھا کہ کیا راستے میں کوئی سخت چڑھائی آئے گی تو اس نے اپنی ہتھیلی دکھائی اور کہا کہ اس ہتھیلی کی طرح ہموار راستہ ہے۔ یہ کہہ کر وہ ہمیں انتہائی ڈھلوان راستے سے گہری وادی میں اتار لے گیا۔ میرا خیال تھا کہ اس وادی سے وہ دریا کے ساتھ ساتھ آگے بڑھے گا۔ لیکن نہیں۔ بغیر کچھ کہے یا دائیں بائیں دیکھے بنا وہ سیدھا کھلے میدان سے گذرا اور دوسری جانب کی پہاڑی پر چڑھنے لگا۔ یہ پہاڑی نہ صرف انتہائی بلند بلکہ کانٹے دار جھاڑیوں سے بھی بھری ہوئی تھی۔ چونکہ سورج ہمارے سروں پر تھا اس لئے چوٹی تک پہنچتے پہنچتے ہم پسینے میں شرابور ہو چکے تھے۔ ہمارا رہنما بالکل پرسکون تھا جیسے کہ اس کی ٹانگیں محض پہاڑوں پر چڑھنے اترنے کے لئے بنائی گئی ہیں۔
پہاڑی کی چوٹی سے کافی دور دور تک منظر دکھائی دے رہا تھا اور ہمارے رہنما نے اطلاع دی کہ اسی طرح دو اور پہاڑیوں کے بعد دریائے پانار ہمارے سامنے ہوگا۔ پنوا راج کے پاس ایک بڑا گٹھڑ تھا جو وہ اپنے گھر والوں کے لئے تحفے تحائف پر مشتمل تھا۔ اس کے پاس ایک بڑا کوٹ بھی تھا جو بھاری اور کسی گہرے رنگ کے کپڑے سے بنا ہوا تھا۔ پنوا نے یہ کوٹ ہمارے رہنما کو دیا اور کہا کہ چونکہ وہ ہمیں کماؤں کی ساری پہاڑیوں سے گذار کر دریا تک پہنچائے گا اس لئے یہ کوٹ اٹھانا اس کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے رہنما نے اپنی کمر سے بکری کے بالوں سے بنی رسی کھولی اور اس کی مدد سے کوٹ اپنی پشت پر اچھی طرح کس کر باندھ لیا۔ دو اور پہاڑیوں کو عبور کرنے کے بعد ہمارے سامنے دریائے پانار دکھائی دیا۔ سارا راستہ ہم نے کوئی پگڈنڈی نہیں دیکھی نہ ہی کوئی گاؤں ہمارے راستے آیا۔ لیکن یہاں پہنچ کر ہم نے ایک چھوٹا سا راستہ دریا کو جاتے دیکھا۔ جتنا ہم قریب ہوتے گئے اتنا ہی میں دریا سے خائف ہوتا گیا۔ یہ راستہ دریا تک چلا گیا تھا اور پھر ایک جگہ سے دریا کو عبور کر کے دوسری طرف سے پھر شروع ہو گیا تھا۔ تاہم دریا پوری طرح بپھرا ہوا تھا اور اسے عبور کرنا کافی خطرناک تھا۔ تاہم ہمارے رہنما کے بقول دریا کو اس جگہ سے انتہائی آسانی سے عبور کیا جا سکتا تھا۔ جوتے اور جرابیں اتار کر میں نے پنوا کا ہاتھ پکڑا اور پانی میں اتر گیا۔ اس جگہ دریا تقریبا چالیس گز چوڑا تھا اور اس کی ناہموار سطح سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ تہہ میں جگہ جگہ پتھر موجود ہیں۔ چند بار پتھروں پر ٹھوکر کھاتے اور بہہ جانے سے بال بال بچتے ہوئے ہم دوسرے کنارے پر پہنچ گئے۔
ہمارے رہنما نے ہمارے پیچھے دریا میں قدم رکھا لیکن جلد ہی دشواریوں میں پڑ گیا۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ وہ بھی ہماری طرح اپنی پشت دریا کے بہاؤ کی طرف رکھتا اور کیکڑے کی طرح چلتے ہوئے دریا عبور کرتا۔ اس کی حماقت کہ اس نے بہاؤ کی طرف اپنا رخ کر لیا۔ جہاں پانی ہماری رانوں تک آتا تھا، اس کی کمر تک پہنچ گیا۔ جونہی وہ بہاؤ کے درمیان پہنچا تو اس کے پیر اکھڑ گئے۔ میں ننگے پیر نوکیلے پتھروں پر حرکت سے معذور تھا۔ تاہم پنوا کے لے یہ نوکیلے پتھر کوئی مسئلہ نہیں تھے اس لئے اس نے اپنا بنڈل پھینکتے ہوئے دوڑ لگائی اور پچاس گز دور اس پتھریلی چٹان کا رخ کیا جہاں سے دریا بالکل قریب سے گذرتا تھا۔ اس جگہ پہنچ کر پنوا نیچے لیٹا اور جونہی ہمارا رہنما اس کے پاس سے گذرا تو اس نے اسے اس کے لمبے بالوں سے پکڑ لیا اور انتہائی جد و جہد کے بعد اسے پانی سے نکال لیا۔ جب وہ دونوں ہمارے پاس واپس لوٹے تو ہمارا رہنما بھیگے ہوا چوہا دکھائی دے رہا تھا اور جب میں نے پنوا کو اس کی بہادری پر شاباش دی کہ اس نے کتنی بہادری سے اپنی جان پر کھیلتے ہوئے ہمارے رہنما کی جان بچائی ہے ۔ پنوا نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور پھر بولا کہ میں تو اس کی جان نہیں بچا رہا تھا میں تو اپنے نئے کوٹ کو بچانے کی فکر میں تھا۔خیر اس کا مقصد چاہے جو بھی ہو، ایک سانحہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ پھر جب ہمارے دیگر تمام ساتھی ہماری طرح بازوؤں میں بازو ڈال کر دریا عبور کر کے ہماری طرف آ گئے تو ہم نے وہیں ڈیرہ جما لیا اور رات وہیں گذاری۔ پنوا کا گاؤں اس جگہ سے پانچ میل دور تھا اور اس نے رہنما کو ساتھ لیا اور روانہ ہو گیا۔ ہمارا رہنما بے چارہ دریا دوبارہ عبور کرنے سے ڈر گیا تھا۔
(۳)
اگلی صبح ہم لوگ سانولی کو تلاش کرنے نکلے جہاں اطلاعات کے مطابق آدم خور نے آخری شکار کیا تھا۔ شام گئے ہم لوگ ایک کھلی وادی کے ایک سرے پر پہنچے۔ چونکہ کوئی انسانی آبادی نزدیک دکھائی نہیں دے رہی تھی اس لئے ہم نے وادی میں ہی سونے کا فیصلہ کیا۔ اب ہم آدم خور کی سلطنت کے عین وسط میں تھے اور نم اور ٹھنڈی زمین پر کافی بے چین رات گذارنے کے بعد ہم لوگ اگلے دن دوپہر کو سانولی پہنچے۔ اس چھوٹے سے گاؤں کے باشندوں نے بخوشی ہمارے لئے ایک کمرہ خالی کر دیا۔ میں نے اپنے لئے ایک کھلے پلیٹ فارم کا انتخاب کیا جس پر گھاس پھونس کی چھت تھی۔
یہ گاؤں پہاڑی کی ایک جانب تھا اور وادی دکھائی دیتی تھی جہاں تہہ در تہہ کھیت بنے ہوئے تھے اور چاول کی فصل حال ہی میں کاٹی گئی تھی۔ وادی کے دوسرے سرے پر پہاڑی بتدریج بلند ہوتی گئی تھی اور مزروعہ زمین سے سو گز دور گھنی جھاڑیوں کا ایک قطعہ تھا جو تقریبا ۲۰ ایکڑ پر پھیلا ہوا تھا۔ اس قطعے سے اوپر ایک گاؤں اور پہاڑی کے دائیں جانب دوسرا گاؤں تھا۔ کھیتوں کے بائیں جانب وادی کا اختتام ایک انتہائی ڈھلوان پہاڑی پر ہوتا تھا۔ یعنی جھاڑیوں کا یہ قطعہ تین اطراف سے مزروعہ زمین اور چوتھی جانب سے گھاس کے کھلے میدان سے گھرا ہوا تھا۔
جتنی دیر میں ناشتہ تیار ہوتا گاؤں کے لوگ میرے آس پاس بیٹھ گئے۔ پندرہ مارچ سے لے کر پندرہ اپریل تک اس علاقے میں چار آدمی آدم خور کا لقمہ بنے۔ پہلا واقعہ پہاڑی کے سرے پر موجود گاؤں میں پیش آیا۔ دوسرا اور تیسرا واقعہ پہاڑی کی کنارے والے گاؤں میں جبکہ چوتھا سانولی میں پیش آیا۔ چاروں ہی افراد کو رات کو ہلاک کیا گیا تھا اور انہیں اٹھا کر تقریبا پانچ سو گز دور تیندوا انہی جھاڑیوں کے قطعے میں لے گیا اور آرام سے پیٹ بھرا۔ چونکہ مقامی افراد کے پاس آتشیں اسلحہ نہیں تھا اس لئے تینوں دیہاتوں کے باشندوں نے لاشوں کو تلاش کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ آخری واردات چھ دن قبل ہوئی تھی اور دیہاتیوں کا خیال تھا کہ تیندوا ابھی بھی انہی جھاڑیوں میں ہوگا۔
سانولی پہنچنے سے قبل ایک اور گاؤں سے گذرتے ہوئے میں نے دو بکریاں خریدی تھیں اور اب چونکہ شام ہو رہی تھی تو میں نےچھوٹی بکری کو ساتھ لیا اور اسے جھاڑیوں کے جھنڈ کی طرف جانے والے راستے پر باندھ دیا تاکہ دیہاتیوں کی رائے کا جائزہ لے سکوں۔ تاہم اس بکری کے پاس کوئی مناسب درخت نہیں تھا اور بادل بھی چھا رہے تھے اور رات کو بارش ہونے کی توقع تھی۔ اس لئے میں نے بکری پر بیٹھنے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ میں نے جو پلیٹ فارم چنا تھا وہ ہر طرف سے کھلا تھا۔ میں نے دوسری بکری کو اسی پلیٹ فارم کے ساتھ باندھ دیا۔ مجھے امید تھی کہ اگر تیندوا رات کو گاؤں کا چکر لگاتا تو انسانی سخت گوشت کی بجائے بکری کے نرم گوشت کا انتخاب کرتا۔ رات گئے تک میں ان دونوں بکریوں کی آواز سنتا رہا جو وہ ایک دوسرے کو بلانے کے لئے نکال رہی تھیں۔مجھے یقین ہو گیا کہ تیندوا یہاں سے بہت دور ہے۔ تاہم اس بات کا کوئی ثبوت نہیں تھا کہ تیندوا جلد یا بدیر اس علاقے کو واپس نہ آتا اس لئے میں بہتری کی امید لئے سو گیا۔
رات کو ہلکی بارش ہوئی اور صبح سورج جب نکلا تو اس کی روشنی میں ہر پتی اور ہر بوٹا دھلا دھلا سا دکھائی دیا۔ پرندے چہچہا رہے تھے۔ میرے نزدیک والی بکری پاس موجود جھاڑی کو کھا رہی تھی اور وقتا فوقتا بولتی بھی جاتی تھی۔ دوسری بکری البتہ خاموش تھی۔ اپنے ملازم کو ہدایت کر کے کہ میرا ناشتہ گرم رکھے، میں دوسری بکری کی طرف چل پڑا۔ یہاں آ کر پتہ چلا کہ رات کو بارش سے کچھ پہلے تیندوے نے بکری کو مارنے کے بعد رسی توڑی اور بکری کو اٹھا لے گیا۔ بارش کی وجہ سے گھیسٹنے کے نشانات تو مفقود تھے لیکن آس پاس صرف ایک ہی جگہ تھی جہاں تیندوا بکری کو لے جاتا۔ یہ جگہ وہی جھاڑیوں کا جھنڈ تھی۔
تیندوے یا شیر پر اس کے شکار پر گھات لگانا میرے نزدیک شکار کی بہترین اور دلچسپ ترین شکلوں میں سے ایک ہے۔ تاہم اس میں کامیابی کے لئے بہت ساری شرائط لازم ہیں۔ تاہم اس بار معاملہ الٹ تھا کیونکہ جھاڑیاں اتنی گھنی تھیں کہ شور کئے بغیر ان میں حرکت کرنا ممکن نہیں تھا۔ گاؤں واپس لوٹ کر میں نے ناشتہ کیا اور پھر گاؤں والوں کو اکٹھا کر کے میں نے ان سے آس پاس کے علاقے کے بارے پوچھا۔ یہ جاننے کے لئے بکری کی لاش تک پہنچنا لازمی تھا کہ آیا اس میں کچھ باقی بھی ہے یا نہیں تاکہ اس پر بیٹھنے کا فیصلہ کرتا۔ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ اس مداخلت سے ناراض ہو کر جب تیندوا اس جگہ سے بھاگتا تو آیا اسی طرح کا کوئی دوسرا مناسب مقام آس پاس موجود ہے یا نہیں۔ نزدیک ترین مناسب مقام یہاں سے دو میل دور تھا اور وہاں جانے کے لئے تیندوے کو کافی چوڑی مزروعہ زمین سے گذرنا پڑتا۔
دوپہر کو میں ان جھاڑیوں کو لوٹا اور سو گز دور ہی میں نے بکری کی باقیات دیکھیں۔ اس کے کھر، سینگ اور اوجڑای کا کچھ حصہ باقی بچا تھا۔ چونکہ اس وقت مجھے یہ خطرہ نہیں تھا کہ تیندوا دو میل دور جنگل میں جانا پسند کرے گا، میں نے بلبل، مینا اور دیگر پرندوں کی آواز سے تیندوے پر گھات لگائی جو مجھے تیندوے کی ہر حرکت سے آگاہ کرتے رہے۔ عین ممکن ہے کہ کچھ لوگ یہ کہیں کہ میں نے دیہاتیوں کو جمع کر کے ہانکا کیوں نہیں کروایا تھا تاکہ تیندوے کو کھلے میدان میں لا کر اس پر گولی چلاتا۔ اس طرح ہانکے والوں کے لئے انتہائی خطرہ تھا کیونکہ جب تیندوے کو یہ محسوس ہوتا کہ اسے کھلے میدان میں جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے تو وہ الٹا ہانکے والوں پر ہی چڑھائی کرتا اور راستے میں آنے والے ہر بندے پر حملہ کرتا جاتا۔
جب میں ناکام ہو کر گاؤں واپس پہنچا تو ملیریا بخار کا حملہ ہو گیا۔ اگلے چوبیس گھنٹے میں چبوترے پر پڑا بخار میں تپتا رہا۔ اگلی شام کو جا کر بخار اترا۔ اس دوران میرے آدمیوں نے دوسری بکری کو اسی جگہ باندھ دیا تھا جہاں سے پہلی بکری ماری گئی تھی۔ تاہم اس بار تیندوے نے اس پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اب میرے حوصلے بلند تھے کہ تیندوا اب بھوکا ہوگا اور اس پر میں اب پھر گھات لگا سکتا تھا۔
جھاڑیوں کے پاس اور پہلی بکری کے مقام سے سو گز دور ایک پرانا بلوط کا درخت تھا۔ یہ درخت دو کھیتوں کی درمیانی منڈیر پر اگا ہوا تھا جو چھ فٹ اونچی تھی۔ یہ درخت پہاڑی سے مخالف سمت جھکا ہوا تھا اور میں اس پر اپنے ربر سول والے جوتوں کے ساتھ آسانی سے چڑھ گیا۔ نچلے کھیت سے پندرہ فٹ بلند اس درخت کی واحد شاخ تھی جس پر میں بیٹھ سکتا تھا۔ یہ شاخ اگرچہ ایک فٹ موٹی تھی لیکن کھوکھلی ہو چکی تھی اور اس پر بیٹھنا خطرناک تھا۔ تاہم چونکہ کوئی اور درخت کئی سو گز تک نہیں دکھائی دے رہا تھا اس لئے میں نے اسی پرقسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔
جھاڑیوں میں موجود پگ بالکل ویسے ہی تھے جیسے میں نے اپریل میں اس گھر کے باہر دیکھے تھے جہاں لڑکی نے اپنی جان گنوائی تھی یعنی میرا واسطہ پانار کے آدم خور تیندوے سے تھا۔ جب میں آرام سے شاخ پر بیٹھ گیا تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ کانٹے دار جھاڑیوں کو کاٹ کر اس درخت کے تنے سے مضبوط رسی سے باندھ دیں۔ اس ضمن میں میں نے پوری توجہ دی تاکہ کوئی خامی نہ رہ جائے۔ مجھے یقین ہے کہ میری اسی احتیاط سے میری جان بچی۔
آلوبخارے کی کانٹوں سے بھری کئی شاخیں جو دس سے بیس فٹ لمبی تھیں درخت کے تنے کے ارد گرد باندھ دی گئیں۔ چونکہ میرے دائیں یا بائیں درخت کی کوئی شاخ نہیں تھی کہ جس کا میں سہار لے سکتا، انہی شاخوں کو میں نے اپنی دائیں اور بائیں بغل میں دبا لیا۔ پانچ بجے میری تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ میں اس شاخ پر آرام سے بیٹھ چکا تھا اور میرے کوٹ کا کالر میرے گلے پر بندھا ہوا تھا اور میرا نرم ہیٹ میری گدی کو بچانے کے لئے پیچھے موجود تھا۔ میرے سامنے تیس گز دور بکری ایک کھونٹے سے بندھی ہوئی تھی۔ میرے آدمی سامنے والے کھیت میں بیٹھے سگریٹ پیتے اور گپیں ہانکتے رہے۔
اب تک جھاڑیوں میں بالکل خاموشی تھی اور اب اچانک ہی ایک چڑیا نے زور سے بولنا شروع کر دیا۔ ایک یا دو منٹ بعد ایک اور نسل کی چڑیاں بولنے لگیں۔ یہ دونوں پرندے پہاڑی علاقے میں درندے کی موجودگی کے بارے بہترین مخبر کا کام دیتے ہیں۔ انہیں سنتے ہی میں نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ وہ واپس گاؤں کو لوٹ جائیں۔ زور سے بولتے ہوئے خوشی خوشی وہ واپس روانہ ہو گئے اور بکری نے ممیانا شروع کر دیا۔ نصف گھنٹے تک خاموشی رہی پھر جب سورج پہاڑی کے پیچھے چھپنے والا تھا کہ دو مینائیں جو میرے درخت پر بیٹھی تھیں، نیچے اتریں اورمیرے اور جھاڑیوں کے درمیان کسی جانور پر بولنے لگیں۔ بکری جو اب تک گاؤں کی سمت ممیا رہی تھی، نے اب رخ بدلا اور میری جانب دیکھنے لگی۔ بکری اور میناوں کو دیکھتے ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ ان کی توجہ کا مرکز جو جانور ہے وہ تیندوے کے علاوہ اور کوئی نہیں۔
چاند رات دیر گئے نکلتا اس لئے کئی گھنٹے تاریکی میں گذرتے۔ چونکہ میں جانتا تھا کہ شاید تیندوا اندھیرے میں ہی آئے، میں نے بارہ بور کی دو نالی بندوق میں موٹے چھروں والے کارتوس بھرے ہوئے تھے۔ ایک گولی کی نسبت آٹھ موٹے چھروں سے تیندوے کو نشانہ بنانا زیادہ آسان ہوتا کیونکہ اندھیرا کافی گہرا ہوتا۔ ان دنوں ہندوستان میں برقی ٹارچوں اور مصنوعی روشنیوں کا استعمال شروع نہیں ہوا تھا اس لئے میں نے بندوق کی نال پر سفید کپڑا باندھ لیا تھا جو نشانہ لینے میں کسی حد تک مدد کرتا۔
کئی منٹ تک خاموشی رہی اور پھر اچانک ہی میں نے محسوس کیا کہ میری بغل میں دبی شاخوں کو جیسے کسی نے کھینچا ہو۔ ایک بار پھر اپنی دور اندیشی پر مجھے انتہائی خوشی ہوئی کیونکہ جس حالت میں میں بیٹھا تھا اس میں مڑ کر اپنا دفاع کرنا ممکن نہیں تھا اور کوٹ کا کالر اور ہیٹ بہت کمزور دفاع ثابت ہوتے۔ یہ بات یقنی تھی کہ انتہائی نڈر آدم خور تیندوے سے میرا سامنا تھا۔ جب تیندوے نے دیکھا کہ کانٹے دار جھاڑیوں کی موجودگی میں درخت پر چڑھنا ممکن نہیں تو اس نے شاخوں کے سروں کو دانتوں میں دبایا اور انتہائی زور سے جھٹکے دینے شروع کر دیئے۔ ہر جھٹکے پر میں درخت کے تنے سے ٹکراتا۔ اتنی دیر میں روشنی بالکل دم توڑ گئی اور چونکہ تیندوے نے سارے شکار اندھیرے میں ہی کئے تھے اس لئے صورتحال اس کے حق میں تھی اورمیرے لئے گھاٹا ہی گھاٹا تھا کیونکہ تمام جانوروں میں انسان ہی اندھیرے میں سب سے زیادہ بے بس ہو جاتا ہے اور اگر میں اپنی بات کروں تو انسان کا حوصلہ پست ہو جاتا ہے۔ چار سو انسانوں کو رات کے اندھیرے میں ہلاک کرنے کے بعد تیندوے کو مجھ سے کوئی خطرہ نہیں محسوس ہو رہا تھا۔ اس کا ثبوت یہ بھی تھا کہ شاخوں کو کھینچتے وقت وہ بار بار اتنے زور سے غرا رہا تھا کہ گاؤں تک اس کی آواز جا رہی ہوگی۔ بعد میں مجھے میرے آدمیوں نے بتایا کہ تیندوے کی دھاڑ سے ان کے پتے پانی ہوئے جا رہے تھے جبکہ مجھ پر ان غراہٹوں کا الٹا اثر ہو رہا تھا کیونکہ ان سے مجھے پتہ چل رہا تھا کہ تیندوا اب کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے۔ تاہم جب وہ خاموش ہوتا تو مجھے انتہائی خوف لاحق ہو جاتا کہ اب تیندوا کیا کرنے والا ہوگا۔ کئی بار اس نے انتہائی زور سے شاخوں کو کھینچ کر اچانک چھوڑا کہ میں گرتے گرتے بچا۔ چونکہ اندھیرا گہرا تھا اور میرے لئے کوئی سہارا نہیں تھا اس لئے اگر تیندوا مجھ پر حملہ کرنا چاہتا تو مجھے یقین ہے کہ اس کے چھوتے ہی میں گر پڑتا۔
پھر ایک دم تیندوے نے اوپری کنارے سے چھلانگ لگائی اور نیچے بکری کی طرف دوڑا۔ مجھے امید تھی کہ تیندوا دن کی روشنی میں آئے گا اور بکری اس نیت سے ۳۰ گز دور باندھی گئی تھی میں تیندوے کے حملے کے دوران بکری کو بچا سکوں۔ اندھیرے کی وجہ سے مجھے سفید بکری محض ایک دھبے کی شکل میں دکھائی دے رہی تھی۔ جب بکری کی مدافعت ختم ہوئی تو میں نے ہر ممکن طریقے سے اس جگہ کا نشانہ لیا جہاں میرے خیال میں تیندوا ہوتا، اور لبلبی دبا دی۔ کارتوس چلتے ہی تیندوے کی غراہٹ سنائی دی اور جیسے ہی اس نے قلابازی کھائی تو مجھے اس کا سفید پیٹ دکھائی دیا۔ دوڑ کر وہ نچلے کھیت کی اونچی منڈیر کے پیچھے چھپ گیا۔
دس پندرہ منٹ تک میں انتہائی بے صبری سے تیندوے کی مزید آوازیں سننے کی کوشش کرتا رہا اور پھر میرے آدمیوں نے پکار کر پوچھا کہ کیا وہ آ سکتے ہیں؟ اگر وہ بلند زمین پر چلتے ہوئے آتے تو بالکل محفوظ ہوتے۔ میں نے ہدایت کی کہ صنوبر کی مشعلیں جلا کر اور میری اگلی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے آئیں۔ یہ مشعلیں دراصل سبز درخت سے کاٹی جاتی ہیں اور اس میں تیل موجود ہوتا ہے۔ ان کے جلنے سے اچھی خاصی روشنی پیدا ہوتی ہے اور کماؤں کے دور دراز دیہاتوں میں رات کو روشنی کا واحد ذریعہ ہیں۔
کافی بھاگ دوڑ اور شور و غل کے بعد بیس آدمی گاؤں سے روانہ ہوئے اور ہر بندے کے ہاتھ میں ایک مشعل تھی۔ میری ہدایت پر عمل کرتے ہوئے وہ لوگ چکر کاٹ کر میرے درخت کے پیچھے سے آئے۔ کانٹے دار جھاڑیاں جس رسی سے بندھی تھیں، تیندوے کی جہد و جہد کی وجہ سے اس رسی کی گرہیں بہت سخت ہو گئی تھیں۔ رسیوں کو کاٹنے کے بعد چند بندے درخت پر چڑھے اور مجھے اترنے میں مدد دی۔ اس تکلیف دہ نشست پر بیٹھے بیٹھے میری ٹانگیں سن ہو گئی تھیں۔
ان مشعلوں کی روشنی سے تیس گز دور بکری کی لاش صاف دکھائی دے رہی تھی اور پورا کھیت روشن تھا۔ تاہم دوسرا کھیت جہاں تیندوا گیا تھا، ابھی بھی تاریک تھا۔ سب لوگوں کو سگریٹ دے کر میں نے کہا کہ میں نے تیندوے کو زخمی تو کیا ہے لیکن مجھے علم نہیں کہ تیندوا کتنا زخمی ہے۔ انہیں میں نے یہ بھی کہا کہ ہم اب گاؤں واپس جائیں گے اور اگلے دن صبح کو میں تیندوے کو تلاش کرنے آؤں گا۔ اس بات کو سنتے ہی ان سب نے مایوسی ظاہر کی اور کہا کہ اگر تیندوا زخمی ہے تو اب تک مر چکا ہوگا۔ دوسرا ان کے پاس اچھی خاصی روشنی ہے اور میرے پاس بندوق بھی۔ کیوں نہ کھیت کے کنارے تک جا کر ہم یہ دیکھ لیں کہ تیندوے کے خون کی لکیر کہاں جا رہی ہے۔ اچھی خاصی بحث کے بعد اپنی مرضی کے خلاف میں اس بات پر تیار ہو گیا کہ اگلے کھیت کی منڈیر تک جا کر تیندوے کو دیکھ لیتے ہیں۔
ان کی بات ماننے کے بعد میں نے ان افراد سے وعدہ لیا کہ وہ میرے پیچھے قطار میں چلیں گے، ان کی مشعلیں اونچی ہوں گی اور اگر تیندوا حملہ کرے گا تو وہ مجھے اندھیرے میں چھوڑ کر نہیں بھاگیں گے۔ انہوں نے بخوشی وعدہ کیا اور مشعلوں کو دوبارہ تیز کر کے ہم روانہ ہوئے۔ میں سب سے آگے تھے اور یہ لوگ مجھ سے پانچ گز پیچھے قطار میں چل رہے تھے۔
بکری تک تیس گز، پھر مزید بیس گز آگے جا کر کھیت کا کنارہ تھا۔ آہستہ آہستہ اور خاموشی سے چلتے ہوئے ہم آگے بڑھے۔ جب ہم بکری تک پہنچے تو اس کی لاش دیکھنے کا وقت نہیں تھا کیونکہ دوسرے کھیت کا نچلا کنارہ دکھائی دے رہا تھا۔ جتنا ہم کنارے کے قریب ہوتے گئے، دوسرا کھیت اتنا ہی روشن ہوتا گیا۔ جب کھیت کا ایک مختصر سا پٹی کی شکل کا حصہ اندھیرے میں تھا تو اچانک تیندوے نے غراتے ہوئے کنارے پر چھلانگ لگائی اور سامنے آ گیا۔
عجیب بات ہے کہ تیندوے کی غراہٹوں میں کچھ ایسی ہوتی ہے کہ میں نے ان ہاتھیوں کی پوری قطار بھاگتے دیکھی ہے اور ہاتھی بھی وہ جو شیر کے حملے کے وقت اپنی جگہ ڈٹے رہتے تھے۔ مجھے یہ دیکھ کر بالکل حیرت نہیں ہوئی کہ میرے سارے ساتھی جو غیر مسلح تھے، اچانک ہی بھاگ پڑے۔ خوش قسمتی میری کہ وہ ایک دوسرے سے ٹکرائے اور کچھ مشعلیں زمین پر گر گئیں۔ اتنی روشنی کافی تھی اور میں نے تیندوے کے سینے میں دوسرے کارتوس کے چھرے اتار دیئے۔
بندوق کی آواز سنتے ہی سب رکے اور پھر میں نے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ نہیں نہیں۔ صاحب بالکل ناراض نہیں ہوں گے کیونکہ انہیں علم ہے کہ اس شیطان نے ہمارے پتے پانی کر دیئے ہیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ درخت پر بیٹھے ہوئے مجھے علم تھا کہ کیسے آدم خور کا خطرہ بہادر انسان کو بھی بزدل بنا دیتا ہے۔ جہاں تک ان کے بھاگنے کا سوال تھا تو اگر میں نے بھی مشعل اٹھائی ہوئی ہوتی تو میں ان سب سے آگے آگے بھاگتا۔ اس لئے ان پر ناراض ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ ان کو شرمندگی سے بچانے کے لئے میں نے ظاہر کیا کہ میں تیندوے کا جائزہ لے رہا ہوں۔ دو دو اور تین تین کی ٹولیوں میں واپس لوٹے۔ جب وہ سب جمع ہو گئے تو بغیر نظریں اٹھائے میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ بانس اور رسی لائے ہیں تاکہ تیندوے کو گاؤں لے جا سکیں۔ انہوں نے فورا جواب دیا کہ جی ہاں۔ یہ سارا سامان درخت کے نیچے موجود ہے۔ میں نے انہیں ہدایت کی کہ جا کر سامان لے آئیں کیونکہ میں گاؤں جا کر چائے پینا چاہتا ہوں۔ رات کی سرد ہوا چل رہی تھی اور اب جب تیندوے کا مسئلہ ختم ہو گیا تھا تو مجھ پر دوبارہ ملیریا کا حملہ ہوا اور اب میرے لئے کھڑا ہونا دشوار ہو رہا تھا۔
کئی سالوں بعد پہلی بار اس رات سانولی کے لوگ سکھ کی نیند سوئے اور اس وقت سے وہ بے خوف ہو کر آرام سے سوتے ہیں۔
٭٭٭
مترجم: محمد منصور قیصرانی


Popular Posts