جمعرات، 15 فروری، 2018

سیوانی پلی کا سیاہ تیندوا
کینتھ اینڈرسن
مترجم: قیصرانی

تعارف
 اس کتاب کے پہلے پانچ ابواب تیندوں کے بارے ہیں۔ آپ شاید اس بات پر حیران ہوں کہ میں تیندوؤں پر اتنا وقت کیوں صرف کر رہا ہوں جبکہ جنگل کے دیگر بہت سارے جانور بھی توجہ کے لائق ہیں۔ اول تو یہ کہ تیندوے انڈیا میں ابھی بھی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ انہیں تلاش کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔ آج بھی کئی بڑے شہروں سے چند میل کے فاصلے پر دن کی روشنی میں آپ کو تیندوا دکھائی دے سکتا ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ تیندوے کا شکار نسبتاً سستا ہے اور ہر بندہ اسے آسانی سے برداشت کر سکتا ہے۔ تیندوے کے لیے گارے کے طور پر کتا، بکری یا گدھا بھی چلتا ہے جبکہ شیر کے لیے بھینسے یا بیل کی ضرورت پڑتی ہے جو زیادہ مہنگے ہوتے ہیں۔
مچان پر بیٹھنے کی بجائے زمین پر کھڑے رہ کر تیندوے کا شکار کرنا میرے نزدیک شیر کے شکار جتنا دلچسپ اور سنسنی خیز ہے۔
میں نے ایک باب میں شیروں اور دیگر جانوروں کے بارے بھی لکھا ہے اور سانپوں کے بارے بھی مزید معلومات لکھی ہیں۔ سانپوں کو شامل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ شیروں، ہاتھیوں، ببر شیروں اور دنیا کے مختلف حصوں میں پائے جانے والے بڑے جانوروں کے بارے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن سانپوں کے بارے اتنا مواد موجود نہیں۔ لوگ محض اتنا جانتے ہیں کہ سانپوں سے بچنا ضروری ہے۔ مجھے امید ہے کہ میں اس بارے مناسب روشنی ڈالوں گا۔ قاری کو ایک لمحے کے لیے بھی ایسا نہیں سوچنا چاہیے کہ جنگل میں شیر، تیندوے، ریچھ اور ہاتھی ہی خطرناک ہوتے ہیں۔ ان سے کہیں زیادہ سریع، کہیں کم دکھائی دینے والے اور کہیں زیادہ خطرناک زہریلے سانپ ہوتے ہیں جو گھاس میں یا جھاڑیوں میں چھپ سکتے ہیں۔
میں نے ایک انتہائی بہادر جنگلی بھینسے اور شیروں کے دو واقعات بھی لکھے ہیں۔ ان دو واقعات سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ شیروں کا شکار کرتے ہوئے کتنی دقتیں اور پریشانیاں ہوتی ہیں اور یہ بھی کہ آدم خور شیر کے شکار میں کتنی بار محض مایوسی ہی ہاتھ آتی ہے۔ ایک واقعے میں میں پوری طرح ناکام رہا تھا جبکہ دوسرے میں میں محض قسمت کی مدد سے کامیاب ہوا تھا۔ اس کے علاوہ میں نے آخر میں ایک انتہائی عجیب شیر کے بارے بھی کچھ لکھا ہے جو تادم تحریر زندہ ہے اور ایک معمے کی حیثیت رکھتا ہے۔
جب میں ان واقعات کا اندراج کر رہا تھا تو حال کے مناظر اور آوازیں مدھم پڑ گئی تھیں اور ماضی کی یادیں ان کی جگہ سامنے آ رہی تھیں۔ جنگل میں کالی سیاہ رات اور آسمان پر ستاروں کا جھلملانا اور جگنوؤں کا دکھائی دینا جیسے کہ تاریک پتوں میں چھوٹے چھوٹے بونے لالٹینیں لے کر اڑ رہے ہوں۔ ان سے زیادہ دلچسپ شیر، تیندوے یا جنگلی بھینسے کی دہکتی ہوئی آنکھیں ہوں یا پھر گھاس میں بھاگتا ہوا ہرن ہو جس کی آنکھیں میری ٹارچ کی روشنی میں منعکس ہو رہی ہوں اور میں سرگوشیاں کرتے درختوں کے نیچے چل رہا تھا۔
آئیے، میرے ساتھ چلیں۔ چند گھنٹے کے لیے اس کتاب کو پڑھتے ہوئے میرے ساتھ شیر، تیندوے اور ہاتھی کی سلطنت میں داخل ہو جائیں


اجزاء
تیندوے کے طور طریقے
یلاگری کی پہاڑیوں کا آدم خور تیندوا
منو سوامی اور مگادی کا تیندوا
سیوانی پلی کا سیاہ چیتا
سانپ اور جنگل کی دیگر مخلوقات
حیدر آباد کا قاتل
گڈیسل کا بڑا بھینسا
چوردی کا ایال دار شیر
پگی پالیم کا آدم خور

Related Posts:

  • پیگی پلہام کا آدم خور پیگی پلہام کا آدم خور کینتھ اینڈرسن یہ ایک آدم خور شیر کی تباہ کاریوں اور اس کے زوال کی مکمل کہانی نہیں ہے کیونکہ وہ شیر یہ کہانی لکھنے کے وقت تک زندہ ہے۔ سرکاری اطلاع کے مطابق اس نے چودہ آدمی ہلاک کیئے ہیں اگرچہ غیرسرکاری… Read More
  • چوکا کا آدم خور شیر چوکا کا آدم خور شیر جم کاربٹ چوکا۔۔۔۔۔ جس نے لدھیا وادی کے آدم خور شیر کو چوکا کے آدم خور کا نام دیا۔ لدھیا وادی کے قریب دریائے ساروا کے دائیں کنارے پر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ اس گاؤں کے شمال مغربی کنارے سے ایک راستہ ایک چوت… Read More
  • مکتیسر کی آدم خور شیرنی مکتیسر کی آدم خور شیرنی جم کاربٹ نینی تال سے اٹھارہ میل شمال مشرق کی طرف آٹھ ہزار فٹ اونچی اور پندرہ میل لمبی ایک پہاڑی ہے جو مغرب سے مشرق کو پھیلی ہوئی ہے۔ اس پہاڑی کا مغربی کنارا ایک دم اوپر کو اٹھا ہوا ہے اور اس کنارے ک… Read More
  • نردولی کا آدم خور نردولی کا آدم خور بہزاد لکھنوی میرا نام متو خاں شکاری ہے۔ یہ میرے بچپن کے شکار کا واقعہ ہے۔ عجیب و غریب داستان ہے۔ مجھے یہ بیان کرنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ میری ابتداء بے حد غربت کے دور سے ہوئی۔ میں بٹول کا رہنے والا ہوں،… Read More
  • بابو رام اور شیر بابو رام اور شیر انصاری آفاق احمد آزادی سے قبل گرمیوں کی تعطیلات اپریل سے شروع ہوتی تھیں۔ ان چھٹیوں میں بزرگ انڈے بچّے جمع کرکے شکار کے لیے نکل جاتے تھے۔ جتنی دور جائیں، شکار اتنا ہی اچھا ہوتا تھا۔ اور شکار جتنا اچھّا ہو … Read More

Popular Posts