جمعرات، 15 فروری، 2018

تیندوے کے طور طریقے
ہر تیندوا دوسرے سے فرق ہوتا ہے۔ کچھ تیندوے بہت نڈر ہوتے ہیں جبکہ کچھ تیندوے شرمیلے۔ کچھ تیندوے کمینگی کی حد تک چالاک ہوتے ہیں جبکہ دیگر تیندوے احمق۔ میری مڈھ بھیڑ ایسے تیندوؤں سے بھی ہوئی ہے جن میں چھٹی حس پائی جاتی تھی اور ان کے افعال سے ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ اپنے مخالف کی سوچ پڑھ رہے ہوں۔ آخر میں وہ کمیاب تیندوے ہوتے ہیں جو کسی وجہ سے انسانوں پر حملے شروع کر دیتے ہیں۔ تاہم آدم خور تیندوے
انتہائی کم ہوتے ہیں۔
عام طور پر آدم خور تیندوا کسی غیر معمولی وجہ سے انسانوں کو خوراک بنانے لگتا ہے۔ شاید اسے کسی نے زخمی کیا ہو اور وہ اپنے قدرتی شکار کے قابل نہ رہا ہو۔ اس لیے ضرورت سے مجبور ہو کر وہ انسانوں کو خوراک بنانے لگتا ہے کیونکہ انسان کافی آسان شکار ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر کوئی لاش زمین کی سطح کے بالکل نزدیک دفن کی گئی ہو اور اسے گیدڑوں یا ریچھ نے نکال لیا ہو اور اسے کھا کر تیندوا آدم خور بن گیا ہو۔ انسانی گوشت کو چکھتے ہی تیندوا عموماً اسے پسند کرنے لگ جاتا ہے۔ ایک اور صورت بھی ہے کہ آدم خور تیندوا کسی آدم خور کی اولاد ہو اور بچپن سے ہی اسے یہ لت لگ گئی ہو۔
عام طور سے تیندوا انتہائی بے ضرر اور انسانوں سے ڈرنے والا جانور ہے۔ انسان کی جھلک دیکھتے ہی یا آواز سنتے ہی جھاڑیوں میں دبک جاتا ہے۔ تاہم جب تیندوا زخمی ہو چکا ہو تو اس کی ہمت اور بہادری انتہائی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ تاہم ان میں سے بعض اتنے بزدل ہوتے ہیں کہ ان کا پیچھا آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔
اگر کسی پہاڑی کی چوٹی سے آپ ٹھہر کر تیندوے کو شکار پر گھات لگاتے دیکھیں تو آپ کو قابل دید نظارہ دیکھنے کو ملے گا۔ آپ دیکھیں گے کہ کس طرح ہر ممکن آڑ، درختوں کے تنے، ہر جھاڑی اور ہر پتھر کی اوٹ سے تیندوا کیسے گھات لگاتا ہے۔ تیندوا خود کو پھیلا کر زمین سے بہت قریب چپکا لیتا ہے۔ اس کی رنگت گرد و پیش سے اتنی زیادہ مل جاتی ہے کہ عام طور پر دکھائی نہیں دیتا۔ ایک بار میں دوربین سے یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کس طرح تیندوا جنگل کے طور طریقوں کا ماہر تھا۔ پھر ایک آخری دوڑ۔ دو ہی چھلانگوں میں تیندوا بجلی کی سی تیزی سے اپنے شکار کو پہنچ جاتا ہے۔
انتہائی مہارت سے تیندوا سیدھا اپنے شکار کا گلا دبوچتا ہے۔ اس کے طاقتور جبڑے اوپر اور پیچھے سے اس کی گردن کو پکڑتے ہیں تاکہ جب جانور گرے تو تیندوے اس کی مخالف سمت میں ہو اور کھروں یا سموں سے اسے کوئی خطرہ نہ ہو۔ بصورت دیگر مرتے ہوئے جانور کے کھر تیندوے کے لیے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔ تیندوا اپنے شکار کو زمین پر بے بس کر دیتا ہے اور جب تک وہ جانور مر نہ جائے، تیندوا اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کرتا۔ جب جانور مر جاتا ہے تو بھی تیندوا اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کرتا بلکہ اپنے شکار کا خون پیتا رہتا ہے۔
اب آپ ذرا تصور کریں کہ جنگل میں موجود خاموشی اور بے آواز چلتا ہوا تیندوا جب کسی جانور یا گارے کی طرف بڑھتا ہے۔ اگر آپ تیندوے کے شکار کے شائق ہوں تو آپ کو چاہیے کہ ہر جھاڑی، گھاس کے جھنڈ، پتھروں اور چٹانوں کو خوب غور سے دیکھ کر آگے بڑھیں اور کھائیوں اور کھڈوں میں بھی جھانکنا نہ بھولیں کیونکہ تیندوا ان میں سے کسی بھی جگہ چھپا ہوا یا زمین پر موجود کسی گڑھے میں لیٹا ہو سکتا ہے۔ نہ صرف آپ کی کامیابی بلکہ آپ کی زندگی کا بھی دار و مدار آپ کی احتیاط پر ہے کیونکہ آپ نے جنگل کے سب سے چالاک اور سب سے خطرناک قاتل کے مقابلے کی ٹھانی ہوئی ہے۔
مشکل ترین شکاروں میں سے ایک اور بہترین مشغلہ تیندوے کو اس کے اپنے طریقے سے شکار کرنا ہے۔ اس طرح کا شکار سٹل ہنٹنگ کہلاتا ہے۔
اس قسم کے شکار میں آپ کو جنگل کے طور طریقے، بے آواز چلنا، تقریباً تیندوے جیسی سوچ رکھنا لازمی ہیں۔ کیونکہ آپ کا مقابلہ انتہائی مکار جانور سے اس کی سلطنت پر ہے۔ آپ نے زمین پر رہتے ہوئے اسے شکار کرنا ہے اور یاد رہے کہ تیندوا بہترین شکاریوں میں سے ایک ہے۔
پہلی بات تو یہ جاننا ضروری ہے کہ تیندوا کس وقت شکار کی تلاش میں باہر نکلتا ہے۔ عموماً تیندوا شب بیدار جانور ہے اور جنگل میں رات کو پھرتا ہے۔ انسان ہونے کے ناطے آپ کو تاریکی میں مصنوعی روشنی کے بغیر کچھ نہیں دکھائی دے گا۔ لیکن یہ سٹل ہنٹنگ نہیں ہے۔ شام گہری ہونے پر جب تاریکی چھانے والی ہی ہو، اس کا بہترین وقت ہے۔ اس وقت کسی نہ کسی تیندوے سے ملاقات ہو سکتی ہے۔ دن میں پھرنا قطعی بے کار ہے کیونکہ دن کے وقت تیندوے آرام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ تیندوے کو گرم سورج بھی پسند نہیں۔
دوسری بات یہ کہ تیندوے عموماً کس طرح کی جگہوں پر دکھائی دیتے ہیں؟ اس سوال کا جواب جاننے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ عام طور پر جنگل میں تیندوے کن جانوروں کو شکار کرتے ہیں۔ تاہم اس دوسرے سوال کا جواب اگر جان بھی لیا جائے تو کوئی فائدہ نہیں کیونکہ تیندوا عموماً ہر زندہ چیز کو کھاتا ہے ماسوائے ایسے جانور جنہیں وہ مار نہ سکے۔ جنگلی مرغ، مور، خرگوش، بندر، جنگلی سور اور تمام اقسام کے ہرن ماسوائے بہت بڑے سانبھر وغیرہ۔ بستیوں کے قریب رہنے والے تیندوے پالتو سوروں، کتوں، بکریں، بھیڑوں، گدھوں اور مناسب جسامت کے مویشیوں کو لقمہ بناتے ہیں۔ حتٰی کہ آوارہ پھرتی ہوئی بلی بھی اس کے پیٹ میں پہنچ جاتی ہے۔
کچھ دیر کے لیے فرض کریں کہ ہم جنگل میں ہیں جہاں تیندوا شکار کرتا ہے۔ تیندوا کس طرح شکار کرے گا؟ یاد رہے کہ تیندوے کی بصارت اور سماعت انتہائی طاقتور ہوتی ہیں لیکن سونگھنے کی حس تقریباً بے کار۔ اگر آپ تیندوے کی جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟
ظاہر ہے کہ دو ہی ممکنہ صورتیں ہیں۔ پہلی صورت میں آپ انتہائی خاموشی سے ان جگہوں پر پھریں گے جہاں شکار ملتا ہو یا پھر کسی ایسی جگہ کے پاس چھپ جائیں گے جس کے نزدیک سے آپ کی خوراک کے گذرنے کے امکانات ہوں۔ تیندوا بھی یہی کرتا ہے۔
تیندوا جنگل میں انتہائی خاموشی سے اپنے پنجوں کی نرم گدیوں پر چلتا ہے۔ تاہم جھاڑ جھنکار یا خشک پتوں سے تیندوا خاموشی کے ساتھ نہیں گذر سکتا کیونکہ اس سے شور پیدا ہوتا ہے۔
فرض کرتے ہیں کہ آپ تیندوے کی تلاش میں ہیں۔ اگر آپ جنگل میں کسی تالاب یا چاٹن کو دیکھیں تو اس کے پاس ہی کہیں جھاڑیوں میں یا دیمک کی بمیٹھی کے پیچھے چھپ جائیں۔ یہاں آپ کو جنگل کے بے شمار انوکھے واقعات دیکھنے کو ملیں گے۔ اگر آپ کو اپنی طرح کوئی تیندوا یا شیر چھپا ہوا دکھائی دے تو حیران نہ ہوں۔ تاہم اس بات کے امکان کم ہی ہیں کہ یہ جانور چھپ کر گھات لگانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ درندے ان جگہوں پر شوق سے گھات لگاتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں گھاس میں چھپا ایسی ہی ایک چاٹن کو دیکھ رہا تھا جو ایک کھائی کے کنارے پر موجود تھی۔ پہلے میں یہاں بڑی تعداد میں سانبھر اور چیتل یہاں دیکھ چکا تھا۔ اندھیرا چھا رہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے ہلکی سی سرسراہٹ سنائی دی۔ سر موڑ کر دیکھا کہ ایک تیندوا مجھے حیرت سے گھور رہا ہے۔ جب اس نے مجھے اپنی طرف متوجہ پایا تو اٹھا اور مڑ کر چل پڑا۔ اس کے تاثرات قابلِ دید تھے۔
درندے جب اپنے بچوں کے ساتھ ہوتے ہیں تو ان کا مشاہدہ قابلِ دید ہوتا ہے۔ ماں کی فکر دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ جب تک بچے پوری طرح چلنے کے قابل اور شکار کے بارے کچھ بنیادی معلومات نہ جان لیں، ماں انہیں غار سے باہر نہیں نکالتی۔ ابتدا میں انہیں دودھ پر پالا جاتا ہے۔ پھر جب وہ کچھ بڑے ہو جاتے ہیں تو ماں انہیں کچا گوشت کھانے کو دیتی ہے جو وہ خود نیم ہضم کر کے اگلتی ہے۔ پھر جب بچے عام کچا گوشت ہضم کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں تو ماں انہیں جنگلی مرغیاں اور مور لا کر دیتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ چھوٹے جانورجیسا کہ ہرن وغیرہ بھی لانا شروع کر دیتی ہے۔
بچے بہت حریص ہوتے ہیں اور اگر انہیں کھلا چھوڑا جائے تو اتنا کھا لیتے ہیں کہ بیمار پڑ جاتے ہیں۔ میں نے بہت مرتبہ تیندوؤں اور شیروں کے بچے پالے ہیں اور تیندوے کے بچوں کو اکثر قولنج ہو جاتا تھا۔ انہیں کھانے پر روک ٹوک نہ لگائی جائے تو گوشت کے لوتھڑے نگلتے اور خون کے پیالے پیتے جاتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ ہلنے جلنے سے بھی قاصر ہو جاتے ہیں۔
ایک بار قولنج کا حملہ ہو جائے تو پھر ان کے بچنے کے امکانات نہیں رہتے اور تین یا چار دن میں شدید اذیت کے بعد مر جاتے ہیں۔
قولنج کا حملہ عموماً آٹھ ماہ تک کی عمر تک ہو سکتا ہے اور میرے پالتو بہت سارے تیندوے کے بچے اسی طرح مرے ہیں۔
جنگل میں ماں بچوں کو ہمیشہ اتنا کھانے کو دیتی ہے کہ انہیں نقصان نہ پہنچے اور ساتھ دودھ بھی دیتی رہتی ہے۔ جب بچے اتنے بڑے ہو جائیں کہ دودھ پیتے وقت تھنوں کو ناخن مار کر خراشیں ڈالنے لگیں تو پھر ماں دودھ چھڑا دیتی ہے۔
اگر غار میں خطرہ محسوس ہو، جیسے کوئی انسان قریب آن پہنچے یا نر تیندوے کی موجودگی کا شبہ ہو کہ نر تیندوے بچوں کو شوق سے ہڑپ کر جاتے ہیں، تو ماں بچوں کو کسی محفوظ جگہ منتقل کر دیتی ہے۔ اس کے لیے وہ باری باری ہر بچے کو گردن کے پیچھے کھال سے پکڑ کر اٹھا لے جاتی ہے۔
جب بچے چلنے کے قابل ہو جائیں تو ماں انہیں گھات لگانے اور شکار کرنے کی تربیت دینا شروع کرتی ہے۔ یہ کافی طویل عمل ہے۔ ماں پہلے خود شکار کرتی ہے اور بچے گھاس اور جھاڑیوں میں چھپ کر دیکھتے ہیں۔ پھر ماں انہیں مختلف آوازیں نکال کر بلاتی ہے اور انہیں جانور کی لاش پر کھیلنے اور اسے نوچنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس طرح بچے تازہ شکار اور گرم خون کے ذائقے سے واقف ہوتے ہیں۔ جب بچے اس طرح نوچ کھسوٹ رہے ہوتے ہیں تو ان کی آوازیں سننے سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ نہ صرف شکار بلکہ ایک دوسرے اور ماں پر بھی جھپٹنے سے نہیں کتراتے۔
اگلے سبق میں ماں جانور کو ادھ موا کرتی ہے یا پھر اسے ہمسٹرنگ کر کے بھاگنے سے معذور کر دیتی ہے اور پھر بچوں کو اسے ہلاک کرنے کا کام سونپتی ہے۔ اس طرح وہ جانور کے گلے پر حملہ کر کے اور نوچ نوچ کر اسے مار ڈالتے ہیں جو بہت ظالمانہ فعل ہے۔
تیندوے کی نسبت شیر کے بچوں کی تربیت زیادہ طویل ہوتی ہے۔ تیندوے اپنے شکار کا گلا دبوچ کر لٹک جاتے ہیں اور دم گھٹنے سے جانور مر جاتا ہے جبکہ شیروں کو بہت سائنسی انداز سے اپنے شکار کی گردن توڑنی ہوتی ہے۔ اس لیے شیر کے بچوں کی تربیت زیادہ طویل ہوتی ہے اور عام طور پر بچوں کو سکھاتے ہوئے شیرنی چار یا پانچ مویشی ایک ہی وقت میں مار دیتی ہے کیونکہ اگر بچوں پر چھوڑ دیا جائے تو وہ جانور کو ہلاک کرنے کی بجائے محض زخمی کریں گے اور جانور فرار ہو جائے گا۔
میں نے جیسا کہ بتایا ہے کہ شیر سائنسی انداز سے جانور مارتا ہے۔ وہ عموماً اپنے شکار کی کمر پر جست لگاتا ہے اور دوسری جانب سے گلے کو پکڑ کر واپس اترتا ہے اور ساتھ ہی جانور کے شانے پر پنجے سے ضرب لگاتا ہے۔ پھر پیچھے کی طرف کھینچتے ہوئے وہ جانور کو گراتا ہے اور اس دوران شکار کی گردن ٹوٹ جاتی ہے۔
جب شیر یا تیندوے کے بچے اپنی ماں کے ساتھ شکار کی تربیت پر نکلتے ہیں تو وہ اس کے عین پیچھے اس کی نقالی کرتے ہیں۔ جونہی ماں نیچے جھکتی ہے، بچے بھی اسی طرح اسی جگہ جھک جاتے ہیں۔ ایسے مواقع پر قریب جانا خطرناک ہوتا ہے۔ شیرنی ایسے مواقع پر اکثر حملہ کر دیتی ہے۔ تیندوے کی مادہ کے حملے کے کم امکانات ہوتے ہیں، تاہم وہ شور بہت کرتی ہے۔ خیر کوئی بات یقین سے کہنا ممکن نہیں، اس لیے رائفل تیار رکھنی چاہیے۔
یاد رہے انتہائی مجبوری کے سوا کسی حالت میں بھی ماں کو مت ماریے گا، کیونکہ اگر بچے بھاگ گئے تو پھر وہ جنگل میں بھوکے مر جائیں گے اور اگر وہ کچھ بڑے ہوئے تو امکان ہے کہ آدم خور بن جائیں۔ یاد رہے کہ ابھی تک انہوں نے اپنے فطری شکار کو مارنا پوری طرح نہیں سیکھا۔ اگر آپ نے اس مرحلے پر ان کی تربیت کو روک دیا تو عین ممکن ہے کہ وہ بھوک سے مجبور ہو کر انسانوں کو کھانا شروع کر دیں۔ یاد رہے کہ انسان پر گھات لگانا بہت آسان ہے اور اس کا شکار کسی بھی دوسرے بڑے جانور کی نسبت بہت آسان ہے۔
اس طرح کے مشاغل کا بہترین وقت انڈین موسمِ سرما ہے جو نومبر سے جنوری تک پھیلا ہوا ہے اور پھر شیروں اور تیندوؤں کے ملاپ کا موسم ہوتا ہے۔
ظاہر ہے کہ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ یہ درندے زیادہ تر رات کے وقت باہر نکلتے ہیں اور یہ بھی کہ شام یا صبح کے دھندلکے میں بھی دکھائی دے سکتے ہیں۔ اپنے جوڑے کی تلاش میں نکلی شیرنی کی آواز سننا بہت دلچسپ ہوتا ہے اور آپ ان میں طلب کا عنصر آسانی سے محسوس کر سکتے ہیں۔ تاہم یاد رہے کہ اس عرصے میں شیر بہت خطرناک ہو جاتے ہیں خصوصاً جب وہ مادہ کے ساتھ ہوں یا پھر جنسی ملاپ کی حالت میں۔ شیروں کا جنسی ملاپ انتہائی خطرناک ہوتا ہے جس کا اندازہ آپ گھریلو بلیوں کے جنسی ملاپ سے لگا سکتے ہیں۔ بلیوں کی حرکات کو کئی گنا خطرناک بنا دیں تو وہ شیروں پر پورا اترے گا۔ اس دورانیے میں شیرنی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ جنسی ملاپ کی حالت میں اگر کوئی انسان قریب آ جائے تو اس کی قسمت پر مہر لگ جاتی ہے۔ ملاپ کے لیے نر کی تلاش میں نکلی ہوئی شیرنی مسلسل بولتی رہتی ہے اور کئی بار تو بڑے رقبے پر جنگل میں ہونے والے کام اور بیل گاڑیوں کی آمد و رفت بھی روک دیتی ہے۔
تیندوے بھی ایسے ہی ہیں مگر وہ ایسی حالت میں انسان پر حملہ آور کم ہوتے ہیں، مگر دھمکاتے بہت ہیں۔
شیر کی نسبت تیندوا بلی سے زیادہ مشابہہ ہے۔
سڑک یا جنگل کی پگڈنڈی کے کنارے خشک پتوں کا ڈھیر یا کھرچی ہوئی ریت دکھائی دے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تیندوے نے رفع حاجت کے بعد اسے چھپا دیا ہے، جیسا کہ پالتو بلی کرتی ہے۔ تاہم شیر اتنی دقت نہیں اٹھاتا اور جیسے کتے فضلے کو زمین پر چھوڑ جاتے ہیں، ویسے ہی شیر کرتا ہے۔ تاہم دونوں فضلوں میں ان کے پچھلے شکار کے غیر ہضم شدہ بال زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔
لگڑبگڑ مردار خور ہے اور ہڈیاں بھی نگل جاتا ہے۔ اس کے فضلے کی پہچان آسان ہے کہ اس میں نیم ہضم شدہ ہڈیاں صاف دکھائی دیتی ہیں۔ لگڑبگڑ کے پنجوں کے نشان پہچاننا آسان ہے کہ اگلے پنجے پچھلوں کی نسبت کافی بڑے ہوتے ہیں۔
شیروں کی مانند تیندوے بھی چلتے ہوئے اپنے ناخن چھپا کر چلتے ہیں۔ تیندوے اور لگڑبگڑ کے پگ ایک جسامت کے ہوتے ہیں مگر تیندوے کے پگ میں ہتھیلی لگڑبگڑ سے کہیں بڑی ہوتی ہے اور دوسرا ناخن بالکل دکھائی نہیں دیتے۔ لگڑبگڑ اپنے ناخن سکیڑنے کے قابل نہیں ہوتا، سو اس کے پگ پر ناخنوں کے نشان واضح دکھائی دیتے ہیں۔
ماضی میں یہ بحث خاصی دھواں دھار شکل اختیار کر گئی تھی کہ آیا تیندوے اور بور بچے ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں یا دو الگ الگ نسلوں کے جانور ہیں۔ تاہم دورِ جدید میں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ یہ دونوں ایک ہی نسل سے متعلق ہیں۔ ماحول اور خوراک کی وجہ سے کچھ کی جسامت زیادہ بڑی ہو جاتی ہے۔ جنگل میں رہنے والا تیندوا جنگلی جانوروں پر قانع رہتا ہے اور اس کی جسامت دوسروں سے کہیں بڑی ہوتی ہے اور اس کی کھال کا رنگ گہرا اور زیادہ موٹی ہوتی ہے جبکہ گاؤں کے ساتھ رہنے والے بور بچے کتوں اور بکریوں پر گزارا کرتے ہیں اور ان کی کھال کا رنگ ہلکا جبکہ بال چھوٹے اور سخت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ گہرے رنگ کی کھال جنگل میں رہنے والے تیندوے کو اس کے ماحول میں چھپا دیتی ہے تو گاؤں کے پاس چٹانوں میں رہنے والا تیندوا اپنے ہلکے رنگ کی وجہ سے بہ آسانی چھپ جاتا ہے۔
کبھی کبھار اس کے برعکس بھی ہوتا ہے۔ میں نے دیہاتوں کے پاس رہنے والے بہت بڑے اور گہرے رنگ والے تیندوے بھی شکار کیے ہیں اور آبادیوں سے بہت دور گھنے جنگلوں میں چھوٹی جسامت اور ہلکی رنگ والے تیندوے بھی۔
شیروں پر بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ جو شیر مویشی خور یعنی لاگو ہو جائیں، وہ موٹے اور سست ہو جاتے ہیں جبکہ جنگلی جانوروں کا شکار کرنے والے شیر مضبوط جسامت والے اور چربی سے بالکل پاک ہوتے ہی کیونکہ ان کو شکار پر زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ لاگو شیر بغیر کسی محنت کے شکار پا لیتے ہیں۔ سخت مشقت سے چربی گھٹتی ہے اور یہ اصول انسانوں کی طرح شیروں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
تیندوے ہوں یا شیر، ان میں آدم خوری کی عادت استثنائی صورت رکھتی ہے اور اس کی کچھ وجوہات پر میں پہلے ہی روشنی ڈال چکا ہوں۔
تیندوے درختوں پر بخوبی چڑھ سکتے ہیں اور بعض اوقات بندروں کو اپنا کھاجا بنا لیتے ہیں اور جنگلی کتوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے بھی درخت پر چڑھ جاتے ہیں۔
شیر درخت پر نہیں چڑھتے اگرچہ میں نے ایک بار میسور کے چڑیا گھر میں ایک شیر کو درختوں پر چڑھتے اور خصوصی طور پر اس مقصد کے لیے بنائے گئے چبوترے پر آتے جاتے دیکھا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کی مانند شیر بھی مختلف شخصیات کے مالک ہوتے ہیں۔
تیندوے اور شیر، دونوں ہی بندروں کے شکار کا انوکھا طریقہ اپناتے ہیں۔ بندر بہت چوکس ہوتے ہیں اور ہر طرف نگرانی کرتے رہتے ہیں کہ ان پر حملہ نہ ہو۔ اپنے دشمن کو دیکھتے ہی بندر درخت کی سب سے اونچی شاخوں پر چڑھ جاتے ہیں جہاں وہ محفوظ ہوتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے شیر اور تیندوے خوب زور سے گرجتے اور دھاڑتے ہوئے درخت پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
ان دہشت ناک آوازوں سے بندر پریشان ہو جاتے ہیں اور اپنی محفوظ جگہ پر رکنے کی بجائے وہ دوسرے درخت پر چھلانگیں لگانے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر درخت دور ہو تو زمین پر چھلانگیں لگاتے ہیں کہ بھاگ کر دوسرے درخت پر چڑھ سکیں۔ اس عمل میں وہ زخمی یا بیہوش بھی ہو جاتے ہیں اور چالاک شکاری فائدہ اٹھا لیتا ہے۔
انڈین جنگلوں کا ایک بہت ذہین شکاری جانور جنگلی کتا ہے۔ ماضی کے ماہر شکاریوں نے یہ درجہ پہلے جنگلی ہاتھی، شیر اور تیندوے کو دیا ہوا تھا مگر جب آپ جنگلی کتے کا مطالعہ کریں تو آپ ان ماہرین سے اختلاف کریں گے۔ جنگلی کتے جب ہرن کے شکار پر نکلتے ہیں تو ان میں سے کچھ اطراف میں آگے پہنچ کر چھپ جاتے ہیں تاکہ بعد میں حملہ آور ہو سکیں۔ تیس یا زیادہ تعداد میں یہ کتے نڈر شکاری ہوتے ہیں اور گھیر کر حملہ کرتے ہوئے وہ شیر یا تیندوے کو بھی پھاڑ کھاتے ہیں اور اس دوران ان کے اپنے کئی ساتھی مارے جاتے ہیں۔
سابقہ مدراس پریزڈنسی میں واقع ضلع چتوڑ کے جنگلوں میں ان کی شہرت پھیل چکی ہے اور تین واقعات تو میرے ذاتی علم میں ہیں کہ انہوں نے شیر کو گھیر کر خونریز لڑائی کے بعد اسے پھاڑ کھایا اور اس دوران کم از کم پانچ چھ کتے مارے گئے اور بے شمار زخمی بھی ہوئے۔ تاہم میں نے کبھی تیندوے کو اس طرح مرتے نہیں دیکھا کیونکہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ وہ درخت پر چڑھ کر بچ جاتے ہیں۔
شیر پانی میں اتر جاتے ہیں اور بڑا دریا عبور کرنا بھی ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ گرم موسم میں دوپہر کی گرمی کا وقت شیر عموماً کسی ندی یا تالاب کے کنارے سائے میں یا پھر پانی میں اتر کر گزارتا ہے۔ شیر عموماً بارش کے دنوں میں خوب شکار کرتا ہے اور اس کے پگ رات کی بارش کے بعد صبح کے وقت اکثر دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم تیندوے کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ ہر اعتبار سے بلی ہونے کی وجہ سے اسے پانی سے نفرت ہوتی ہے اور بارش بھی اور تیراکی سے بھی اس کا کوئی واسطہ نہیں۔ تاہم اگر ہنگامی ضرورت پڑے تو تیندوا تیر بھی لیتا ہے جیسا کہ جنگلی کتوں کے تعاقب کے وقت۔
انڈیا میں شیر منگولیا کے سرد علاقوں سے ہجرت کر کے آیا تھا۔ اس لیے اسے گرمی کے دوران سرد مقامات درکار ہوتے ہیں۔ تیندوا انڈیا اور استوائی مقامات کا اصل باشندہ ہے۔
شیر کبھی کبھار سانبھر کی آواز نکالتے ہیں جس کا مقصد سانبھر کو متوجہ کرنا اور ان پر گھات لگانا ہوتا ہے۔ تاہم ایسی آوازیں بہت کم ہوتی ہیں اور صرف ان جنگلوں میں سنائی دیتی ہیں جہاں سانبھر بکثرت ہوں۔ تیندوے ایسا نہیں کرتے بلکہ ان کا سارا دارومدار چھپ کر گھات لگانے پر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ زمین کے ساتھ پھیل جاتے ہیں اور انتہائی چھوٹی جگہ پر بھی چھپ سکتے ہیں اور پھر آخر میں تیز دوڑ لگا کر شکار کو گرا لیتے ہیں۔
اکثر شکاری کہتے ہیں کہ شیر ایک ‘شریف‘ جانور ہے تو تیندوا ایک ‘لفنگا‘۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ پرانے شکاری توڑے دار بندوق لے کر زخمی جانوروں کے پیچھے جاتے ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ اتنی قدیم بندوقیں لے کر اتنے خطرناک کام پر نکلنے والے افراد بہت بہادر ہوتے تھے کہ ان کے لباس اُس دور کے مطابق بہت بھاری ہوتے تھے اور بھاری جوتے پہنے، موٹی ٹوپیاں پہنے وہ پیدل زخمی جانوروں کے تعاقب میں نکلتے تھے۔ موجودہ دور کا شکاری ان سے کتنا آگے ہے کہ اپنی گاڑی میں محفوظ بیٹھے ہوئے وہ مصنوعی روشنی سے جانور کو اندھا کر کے اسے بچنے کا کوئی موقع دیے بغیر شکار کر لیتا ہے۔ زخمی شیر کے قریب جائیں تو وہ آواز نکالتا ہے جبکہ تیندوا زخمی ہونے کے بعد خاموشی سے چھپا رہتا ہے اور شکاری کے گزرنے کے بعد اس پر پیچھے سے حملہ کرتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے تیندوے کو لفنگا کہا جاتا ہوگا۔
اصل میں شیر کہیں زیادہ بہادر اور خطرناک ہوتا ہے اور جب وہ حملہ کرتا ہے تو اس کا مقصد اپنے دشمن کو ہلاک کرنا ہوتا ہے جبکہ تیندوا جب تک آدم خور نہ ہو، اپنے دشمن پر حملہ کر کے زخمی کرے گا اور پھر بھاگ جائے گا۔
تیندوے اپنے شکار کی ہڈیاں بھی چچوڑتے ہیں چاہے لاش کتنی ہی سڑ گئی ہو۔ اصولی طور پر شیر اپنے شکار پر دو دن سے زیادہ نہیں جاتے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ بڑی جسامت کی وجہ سے وہ زیادہ کھاتے ہوں اور دو یا تین بار سے زیادہ بچتا ہی نہ ہو۔ اس کے علاوہ شیر صفائی پسند ہیں۔
سڑتا ہوا گوشت دونوں قسم کے درندوں کے ناخنوں کے نیچے پھنس جاتا ہے۔ جس میں خطرناک جراثیم پلتے ہیں اور ان جانوروں سے لگنی والی خراشیں ان کے کاٹنے سے زیادہ انفیکشن پیدا کرتی ہیں۔ شیر ناخنوں میں پھنسی چیزوں سے بہت خار کھاتے ہیں اور صاف کرتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ شیر کو درختوں کی نرم چھال پر پنجے تیز کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ تیندوے ایسا کم ہی کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کے پنجے زیادہ زہریلے ہوتے ہیں۔ درخت پر چھ یا سات فٹ کی بلندی پر لگی ایسی خراشیں شکاری کے لیے اچھی خبر ہوتی ہیں کہ ان کا شکار موجود ہوگا۔
ہر طرح سے شیر صفائی پسند ہے۔
تیندوے اپنے شکار کے پیٹ پھاڑ کر کھانا شروع کرتے ہیں اور جلد ہی اوجھڑی، آنتیں، فضلہ، سبھی کچھ شکار کے گوشت کے ساتھ مل جاتا ہے جبکہ شیر اپنے شکار کے مقعد کے پاس چیرا لگاتے ہیں اور آنتیں، معدہ وغیرہ نکال کر انہیں تقریباً دس فٹ دور پھینک آتے ہیں۔ پھر وہ صفائی سے گوشت کھانا شروع کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کھانا شروع کرنے سے قبل وہ شکار کی دم بھی کتر کر پھینک دیتے ہیں۔ بڑے تیندوے بھی اکثر ایسا کرتے ہیں مگر چھوٹے تیندوے اور بور بچے کھاتے ہوئے معدے، آنتوں اور فضلے سے تعرض نہیں کرتے۔
شیرنی اور اس کے بچوں والی غار ہمیشہ صاف ستھری، ہڈیوں سے پاک اور اچھی حالت میں ہوگی جبکہ تیندوے کی غار میں ہر طرح کی گندگی اور غلاظت ملے گی۔
جنسی ملاپ کے علاوہ دیگر موسموں میں شیر تیندوے کی نسبت زیادہ آوازیں نکال کر اپنی موجودگی کی اطلاع دیتے ہیں۔ انڈیا میں رہنے والے مقامی قبائل اس بات کی تصدیق کریں گے اور آپ کو بتائیں گے کہ عام طور پر ان کے علاقے میں شیر کن راستوں پر چل کر شکار کرتے ہیں۔ شیر کی گہری اور خوبصورت دھاڑ وادیوں، جنگلوں، پہاڑوں سے گونجتی ہوئی جب سنائی دیتی ہے تو رات کو درختوں کے پتوں سے چھن کر آنی والی چاندنی میں کھڑے انسان کے رونگٹے بھی کھڑے ہوتے ہیں اور انسان عجیب سی خوشی بھی محسوس کرتا ہے۔ تیندوے کی آواز سخت مگر کم بلند آواز آرے کی آواز سے مشابہہ ہوتی ہے اور کم سنائی دیتی ہے۔
شیر کی ایک اور مخصوص عادت یہ ہے کہ وہ شکار کے دوران مخصوص راستے پر چلتا ہے۔ یہ راستہ میلوں طویل ہوتا ہے اور بسا اوقات سو میل سے بھی تجاوز کر جاتا ہے مگر شیر ہمیشہ ایک ہی راستے پر چلتا ہے، چاہے وہ کوئی خشک نالہ ہو، وادی سے گزرنی والی ندی ہو یا کوئی پہاڑی۔ جب کسی جنگلی راستے پر آپ شیر کے پگ دیکھیں تو وہی پگ آپ کو بار بار اسی راستے پر دکھائی دیتے رہیں گے چاہے وہ کچھ دنوں یا کچھ ہفتوں کے وقفے سے ہوں یا کچھ ماہ۔ شیر جس راستے سے جاتا ہے، اس سے شاید ہی کبھی واپس آتا ہو۔ مگر وہ دائرے کی شکل میں چلتا ہے اور واپس اسی جگہ لوٹتا ہے جہاں سے وہ گزرا تھا۔
اگر اس راستے پر چلتے ہوئے شیر شکار میں کامیاب ہو تو اس مقام پر قیام کی مدت بڑھ جاتی ہے تاکہ شکار کردہ جانور سے پوری طرح لطف اندوز ہو سکے۔
آدم خور کے تعاقب میں یہ بات بہت مدد کرتی ہے کہ شیر عموماً ایک ہی جگہ ہر مخصوص مدت کے بعد لوٹے گا جس میں چند دن کا فرق ہو سکتا ہے۔ جب آپ نقشے پر شیر کی وارداتوں اور تاریخوں کو رکھیں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ آنے والے وقت میں شیر کب اور کہاں مل سکتا ہے۔
تیندوا ایسے چکروں میں نہیں پڑتا بلکہ وہ ہر وقت اور ہر جگہ ہوتا ہے۔ اس طرح آدم خور تیندوے کی تلاش بہت مشکل ہوتی ہے کہ آپ پیش گوئی نہیں کر سکتے۔ تیندوا کسی ایسی جگہ بھی نمودار ہو کر واردات کر کے پھر غائب ہو جاتا ہے کہ بڑے سے بڑا اور تجربہ کار شکاری بھی اس کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔
اس باب میں میں نے تیندوؤں کے شکار کے بارے کچھ معلومات دی ہیں اور بتایا ہے کہ تیندوے کا قدرتی مسکن کیسا ہوتا ہے اور اس کی عادات اور خصائل کیسے ہوتے ہیں۔ ایسے مواقع پر میں نے ان کے شکار کی بات جان بوجھ کر گول کی ہے کہ اس سے آپ کو کوئی دلچسپی نہیں ہوگی۔ شکار کا اصل مزہ درندے کو اس کے فطری ماحول میں اپنی مہارت، جنگلی ہنر، برداشت اور ذہانت سے شکست دینا ہے۔ میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ ایسے مواقع پر اپنے ساتھ کیمرہ لے جائیں اور مارنے کی بجائے ان خوبصورت ترین جانوروں کی تصاویر ان کے فطری ماحول میں لیں۔ اپنی رائفل ساتھ لے جانا مت بھولیں کہ اس کی کسی وقت بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ تاہم بے فائدہ جانوروں کو ہلاک کرنے سے گریز کر سکیں تو ضرور کریں۔
یاد رہے کہ مناسب مقام پر اچھی طرح سے کھینچی گئی ایک تصویر بھی دیوار پر لٹکتی ٹرافی یا فرش پر بچھی کھال سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے۔ تصویر میں جانور اپنے فطری ماحول میں زندہ اور حقیقی دکھائی دیتا ہے جبکہ بھس بھری کھال وقت کے ساتھ ساتھ کیڑوں وغیرہ کا شکار ہو کر کباڑ میں ڈال دی جاتی ہے۔

Popular Posts