ہوگرالی کا آدم خور
مقبول جہانگیر
مقبول جہانگیر
میری شکاری زندگی کے اکثر لرزہ خیز واقعات کا تعلّق ریاست میسور کے نواحی جنگلوں سے ہے۔ یہ جنگل کتنے بھیانک اور تاریک ہیں؟ اس کے جواب میں سینکڑوں صفحے سیاہ کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن میں صرف یہ کہنے کی اجازت چاہوں گا کہ جو لوگ افریقہ کے جنگلوں کی سیاحت کر چکے ہیں، وہ ذرا ایک مرتبہ میسور کے جنگلوں میں بھی گُھوم آئیں۔ انہیں معلوم ہو جائے گا کہ "جنگل’ کی صحیح تعریف کیا ہے اور جنگلی درندے کِس قسم کے ہوتے ہیں۔
ضلع کھادر میں بیرُور کے ریلوے سٹیشن سے نزدیک ہی اس لائن کے ساتھ ساتھ جو شموگا کی طرف جاتی ہے۔ مغرب کی جانب ایک پہاڑی واقع ہے۔ یہ ہوگر خان کے نام سے مشہور ہے۔ ہوگر خان سے پہاڑیوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ جسے اگر دُور سے دیکھیں، تو ہلال کی سی صورت نظر آتی ہے۔ مقامی باشندے اسی صورت کی وجہ سے ان پہاڑیوں کو "بابا بدان’ کہتے ہیں جس کا مطلب ہے "چاند کی پہاڑیاں’۔ یہ پہاڑیاں اور اس کے گرد و نواح میں سینکڑوں میل تک پھیلے ہوئے جنگل، دریا، ندّی، نالے، دلدلی میدان جتنے خوب صُورت ہیں، اس سے کہیں زیادہ جان لیوا اور دُشوار گزار بھی ہیں۔ چاندنی پہاڑیوں کے بالکل درمیان انگوٹھی میں جڑے ہوئے حسین نگینے کی طرح جاگر وادی نظر آتی ہے، یہ وادی انتہائی موذی جنگلی بھینسوں اور سانبھروں کا مسکن ہونے کے علاوہ حد درجہ خطرناک دلدلی قطعوں سے پُر ہے جن میں طرح طرح کے حشرات الارض کے علاوہ حد درجہ خطرناک اور لاکھوں کی تعداد میں جونکیں پرورش پاتی ہیں۔ کر ان دلدلی قطعوں میں کوئی بڑا آدمی یا جانور پھنس جائے، تو اس کا زندہ بچنا محال ہے، کیونکہ ہزار ہا جونکیں آناً فاناً بدن سے چمٹ کر لہو پی جاتی ہیں اور ہڈیوں کا پنجر ہی باقی رہ جاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد دلدل نگل لیتی ہے۔ جاگر وادی کے اس جنگل میں ایک سال کے اندر اندر سو انچ سے زیادہ بارش ہو جاتی ہے اور اسی لیے یہ جنگل اتنا گھنا، ڈراؤنا، دُشوار گزار اور تاریک ہے کہ خدا کی پناہ! دوپہر کے وقت جاگر وادی کے نیلے آسمان پر سُورج چمکتا ہے اور پہاڑیوں کی چوٹیاں جگمگاتی ہیں، لیکن جنگل کے اندر تاریکی ہی تاریکی نظر آتی ہے، مینڈکوں اور جھینگروں کی چوٹیاں جگمگاتی ہیں، لیکن جنگل کے اندر تاریکی ہی تاریکی نظر آتی ہے، مینڈکوں اور جھینگروں کی آوازوں اور مہلک سانپوں کی پھنکاروں سے فضا گونجتی رہتی ہے۔ یہ شور کسی لمحے نہیں رُکتا۔ دم بدم بڑھتا جاتا ہے اور سُورج غروب ہونے کے بعد تو اس قدر تیز ہو جاتا ہے کہ انسانی کان اُسے آسانی سے برداشت نہیں کر سکتے۔
ہوگر خان، چاند کی پہاڑیوں کے طویل سلسلے کے مشرقی جانب واقع ہے اور اس کے دامن میں پھیلا ہُوا جنگل جاگر وادی کی طرح گھنا، بھیانک اور خوف ناک نہیں، بلکہ کسی قدر کُھلا اور خُوب صورت ہے جہاں سورج کی کرنوں کو درختوں کی شاخوں اور ٹہنیوں میں راہ بنانے کا موقع مل جاتا ہے۔ اور چونکہ سال کے تین مہینوں میں یہاں بھی مسلسل بارشیں ہوتی ہیں، اس لیے بے شمار ندّی نالے اور برسات کے موسم میں بڑے بڑے دریا بھی نمودار ہوتے ہیں جن پر کوئی پُل نہیں ہوتا۔ ہوگر خان کے قدموں میں ایک چھوٹا سا گاؤں آباد ہے جس کا نام ہوگرالی ہے۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ گاؤں کا یہ نام پہاڑیوں کے نام ہی سے نکالا گیا ہے۔ ہوگرالی یوں تو جنگلوں اور پہاڑوں کے اندر جابجا پھیلی ہوئی بے شمار بستیوں کی طرح ایک بستی ہے، لیکن اس کی ایک خصوصیّت جو اُسے دوسری بستیوں سے ممتاز کرتی ہے، وہ سُرخ پتھروں کا بنا ہوا قدیم مندر ہے۔ یہ گالکا کے مغربی کنارے پر واقع ہے اور بہت دُور سے نظر آتا ہے۔ پُوجا کے دنوں میں یہاں بڑی رونق ہوتی ہے۔ نزدیک و دُور کی بستیوں سے عورتیں، مرد، بچّے، بوڑھے اور جوان سبھی آتے ہیں اور ہوگرالی کی رونق میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔
ہوگرالی کے جنوب میں ایک تالاب ہے جس میں بارش کا پانی جمع ہو جاتا ہے اور یہ تالاب سارا سال گاؤں والوں کے لیے پانی مہیا کرتا ہے۔ لوگ یہیں سے پانی بھرتے، اپنے مویشیوں کو نہلاتے دُھلاتے، کپڑے دھوتے اور اشنان کرتے ہیں۔۔۔ جنگل کے اندرونی حصّوں میں کئی تالاب اور ندیاں رواں ہیں جہاں جنگلی جانور اور درندے اپنی پیاس بجھاتے ہیں اور کبھی کبھار کوئی چیتا، شیر یا جنگلی بھینسا گاؤں کے تالاب پر آ نکلتا ہے، مگر ایسا کبھی نہ ہُوا کہ انہوں نے کسی آدمی کو تکلیف دی ہو، جانور اور انسان اچھے پڑوسیوں کی طرح میل ملاپ سے رہتے اور ایک دوسرے کے کاموں میں مداخلت نہ کرتے تھے۔
گاؤں والوں نے آمد و رفت کے لیے دو پگڈنڈیاں بنا رکّھی ہیں: ایک پگڈنڈی تالاب کے قریب سے اور دوسری ہوگر خان پہاڑی کے نیچے سے گزرتی ہے۔ پہاڑی کے اُوپر قہوے کے چند باغ جن میں گاؤں کی عورتیں کام کرتی ہیں اور یہ باغ ایک برطانوی کمپنی کی ملکیت ہیں۔ گاؤں سے تقریباً ساڑھے تین میل دُور ایک اور بڑی جھیل (جس کا نام مدّک تھا) واقع ہے اور دوسری پگڈنڈی اس جھیل کے گرد چکر کاٹتی ہوئی پہاڑیوں کے طویل سلسلے میں گم ہو جاتی ہے۔ چُونکہ اس مہم میں بعض ایسے واقعات پیش آئے جو تقاضا کرتے ہیں کہ پورا محلّ وقُوع بیان کیا جائے، اس لیے میں تفصیل سے سب کچھ لکھ رہا ہوں تاکہ آپ اُن دشواریوں اور صعوبتوں کو سمجھ سکیں، جو اس دوران میں سامنے آئیں۔ نقشے پر ایک نظر ڈالنے سے آپ کو معلوم ہوگا کہ گاؤں کے مغرب میں جاگر وادی، مشرق میں ہوگر خان اور ہلال نما پہاڑی سلسلہ، جنوب میں مدّک جھیل اور شمال میں لنگا دھالی کا وسیع و عریض شرقاً غرباً پچاس اور شمالاً جنوباً تیس میل تک پھیلا ہوا ہے۔ یہیں اس گنجان ترین جنگل اور ہیبت ناک پہاڑیوں کے اندر وہ آدم خور رہتا تھا جو ستّر اسّی افراد کو ہڑپ کرنے کے باوجود دندناتا پھرتا اور اس کی خون آشام اور ہلاکت خیز سرگرمیوں کو روکنے والا کوئی نہ تھا۔
آدم خور کے بارے میں عجیب عجیب باتیں دیہاتیوں میں مشہور تھیں۔ ان کی اکثریت اپنے عقیدے کے مطابق اسے بدروح سمجھتی تھی۔ کوئی کہتا تھا آدم پہلے جاگر وادی میں رہتا تھا اور جب اسے زہریلے سانپوں اور خون پینے والی جونکوں نے ستایا، تو اپنا علاقہ چھوڑ کر پہاڑوں کو پھلانگتا ہُوا گاوں کی کھلی فضا میں آن بسا۔ کسی کا بیان تھا کہ آدم خور دراصل لکھا والی اور لال باغ علاقوں میں رہتا تھا جو ہوگرالی سے بہت دُور واقع ہیں۔ لیکن جب گورنمنٹ نے دریائے بھدرا پر ڈیم بنانا شروع کیا اور ہزار ہا مزدور کام کرنے لگے، تو آدم خور پریشان ہو کر اپنے علاقے سے نکلا اور کسی نئی جگہ کی تلاش میں اِدھر آ گیا۔ بہرحال اس کے آنے یا نہ آنے کی وجوہ کچھ بھی ہوں، یہ حقیقت تھی کہ وہ نڈر، قوی ہیکل اور چالاک درندہ تھا۔ اور کمال کی بات یہ کہ اتنی مُدّت سے وہ انسان کو اٹھا اٹھا کر لے جا رہا تھا، لیکن کسی نے اس وقت تک اپنی آنکھوں سے اسے نہیں دیکھا۔ سب لوگ قیاس آرائیاں کر رہے تھے اور اس کی دلیرانہ وارداتوں اور انسانی لاشوں کے بچے کھچے اجزاء دیکھ کر ہی واقعات کی کڑیاں علاقے کی کوشش کی جاتی تھی۔
ہوگرالی میں نمودار ہونے کے بعد آدم خور کا پہلا لقمہ ایک نوجوان، خوبصورت، نئی نویلی دلہن پوتما تھی جو لمبانی قبیلے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس قبیلے کی اکثر عورتیں قہوے کے باغوں میں محنت مزدوری کرتی تھیں۔ علی الصبّاح گھروں سے نکلتیں اور آپس میں چہلیں کرتی اور ہنستی کھیلتی پہاڑی کے اوپر پہنچ جاتیں۔ دن بھر کام کرتیں شام ڈھلنے سے کچھ پہلے بستی میں اپنے اپنے گھر آ جاتیں۔ پوتّما کا بیاہ ہوئے ابھی دس بارہ دن ہی ہوئے تھے، گاؤں کی نوجوان لڑکیوں میں وہ سب سے زیادہ ہنس مکھ اور حسین تھی، انہیں خوبیوں کے باعث نوجوان اُسے دیکھ کر دو باتیں کرنے کے لیے راستے میں چُھپ کر کھڑے ہو جاتے، مگر پوتما نے کبھی کسی کو حد سے آگے بڑھنے کا موقع نہیں دیا۔۔۔ پھر ایک روز چپ چاپ، اپنے شوہر کے گھر چلی گئی۔
ایک روز ایسا ہُوا کہ پوتّما شام تک گھر نہ لوٹی۔ اس کا خاوند سوچنے لگا کہ شاید وہ کسی ہمجولی کے ہاں چلی گئی ہوگی اور سورج غروب ہونے تک آ جائے گی۔ مگر جب تاریکی چھا گئی اور گاؤں کی جھونپڑیوں میں چربی اور تیل کے چراغ روشن ہونے لگے اور پوتّما نہ آئی، تو اُس کے دل میں طرح طرح کے شبہات جنم لینے لگے، اُسے پہلا خیال یہی آیا کہ وہ گاؤں کے کسی اور نوجوان سے محبت کی پینگیں نہ بڑھا رہی ہو۔ لمبانی قبیلے میں اس قسم کے واقعات عام تھے اور کوئی مرد اپنی بیوی کے چال چلن کے بارے میں کبھی مطمئن نہ ہوتا تھا۔ یہ سوچتے ہی پوتما کا خاوند، جس کا نام رامیا تھا، غصّے سے بَل کھانے لگا اور اس نے تہیہ کرلیا کہ اگر پوتما رات کو گھر نہ لوٹی، تو صبح پہلا کام یہ ہوگا کہ اسے اور اُس کے آشنا قتل کر کے خود بھی خودکشی کرلے گا۔
اسی قسم کے منصوبے باندھنے اور توڑنے میں بے چارا رامیا ایک پل کے لیے نہ سو سکا اور صبح جب وہ اپنی جھونپڑی سے باہر نکلا، تو اس کی دھوتی کی ڈب میں چھ انچ لمبے پھل کا ایک تیز دھار چاقو چھپا ہوا تھا۔ کسی سے بات چیت کیے بغیر وہ سیدھا اس طرف گیا جہاں پوتما کام کرتی تھیں۔ وہاں اسے بتایا گیا کہ پوتّما صبح کام کرنے آئی تھی، لیکن شام کو دوسری عورتوں کے ساتھ واپس نہیں گئی۔
"پھر وہ کہاں گئی؟ گھر تو نہیں پہنچی۔’ رامیا نے دانت پیس کر قہوے کے باغوں کی نگرانی کرنے والے بُڈّھے چوکیدار سے پُوچھا۔
چوکیدار حیرت سے اُس کی طرف دیکھنے لگا، پھر بولا:
"بھائی، مجھے کیا خبر کہاں گئی؟۔۔۔ تمہاری بیوی ہے تم جانو۔’ اُس نے اس لہجے میں جواب دیا جیسے وہ بخوبی جانتا ہے کہ پوتما کہاں گئی ہوگی۔ رامیا کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور وہ اسے گالیاں دینے لگا۔ اتنے میں کام کرنے والی چند لڑکیاں وہاں آ گئیں اور انہوں نے سن لیا کہ معاملہ کیا ہے۔ سب حیرت اور خوف کی مِلی جلی نظروں سے رامیا دیکھنے لگیں۔ پوتّما کے بارے میں انہیں خوب معلوم تھا کہ وہ پاکدامن ہے۔ کیونکہ رامیا سے شادی ہونے کے وہ ہمجولیوں سے اکثر اپنے خاوند کی باتیں کرتی اور کہتی کہ وہ بہت اچّھا آدمی ہے۔ ان میں ایک لڑکی ایسی تھی جو پوتما کی پکی سہیلی تھی۔ رامیا اسے ایک طرف لے گیا اور سچ سچ بتانے پر مجبور کیا۔
"رامیا بھائی، میں کچھ نہیں جانتی کہ پوتما کہاں گئی۔ وہ کل دوپہر تک میرے ساتھ تھی۔ اس کے بعد نہ معلوم کہاں چلی گئی۔’
"مجھے وہ جگہ دکھاؤ جہاں کل تم کام کر رہی تھیں۔’ رامیا نے کہا۔ لڑکی اسے باغ کی مغربی ڈھلوان پر لے گئی اور یہاں پہنچتے ہی سارا مسئلہ حل ہو گیا۔ انہوں نے دیکھا کہ پوتما کی ٹوکری ایک جگہ پڑی ہے کچھ فاصلے پر خشک پتوں اور شاخوں کے ڈھیر میں ایسے نشانات نظر آئے جن سے پتہ چلتا تھا کہ پوتما کچھ دیر اس جگہ لیٹی رہی ہے۔ کیوں کہ اس کے لمبے لمبے بالوں کا ایک نُچا ہوا گچھا وہاں پڑا تھا اور پھر چند قدم آگے پوتما کی ساڑھی کی چند دھجّیاں دکھائی دیں۔ ان پر خون کے بڑے بڑے دھبّے تھے۔
رامیا کا دل ڈوبنے لگا، لیکن اس نے ضبط کیا اور آگے بڑھتا گیا۔ تقریباً آدھ فرلانگ دُور اُسے پوتّما نظر آئی، مگر کس حال میں۔۔۔ اس کی کھوپڑی ایک طرف پڑی تھی اور آدھا دھڑ، ایک ٹانگ اور دونوں بازو غائب تھے۔ اس مقام پر ایک چھوٹا سا نالا بنا ہوا تھا جس کے ذریعے باغ میں پانی پہنچایا جاتا تھا اور نالے کی دونوں طرف اونچی اونچی خاردار جھاڑیاں کھڑی تھیں۔ رامیا نے نالے کا معائنہ کیا، تو اس کے نرم ریتلے کنارے پر شیر کے پنجوں کے نشانات دکھائی دیے۔ ان کے علاوہ کہیں کہیں دو تین لگڑبگڑوں کے نشان بھی موجود تھے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ شیر جب اپنا پیٹ بھر چکا، تو لگڑ بگڑ وہاں آئے اور انہوں نے بھی ضیافت اُڑائی۔
اس حادثے کی خبر آگ کی طرح گاؤں میں پھیل گئی۔ ہر شخص حیران اور فکر مند تھا کہ یہ کیا ہوا۔ ہوگرالی کے علاقے میں یہ پہلا حادثہ تھا کہ شیر نے اس طرح اچانک نمودار ہو کے ایک معصوم لڑکی کو ہڑپ کر لیا۔ لوگوں نے لاٹھیاں، برچھیاں، کلہاڑیاں اور نیزے وغیرہ سنبھالے اور شیر کی تلاش میں نکلے، لیکن اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔ کئی دن تک سنسی سی پھیلی رہی اور گاؤں کی لڑکیاں چپکے چپکے پوتما کی یاد میں آنسو بہاتی رہیں اوررامیا پاگلوں کی طرح جنگلوں اور گھاٹیوں میں مارا مارا پھرتا رہا۔ اپنی نوجوان اور حسین بیوی کی مفارقت نے اسے بے حال کر دیا تھا۔
دو ہفتے گزر گئے، لوگ آہستہ آہستہ اس حادثے کو بُھولنے لگے کہ اچانک پھر ایک لمبانی لڑکی غائب ہو گئی اور اس مرتبہ انہوں نے اس کی لاش کے بچے کھچے اجزا مدّک ندی کے کنارے پڑے پائے۔ شیر نے کھوپڑی، ہاتھوں اور پیروں کے سوا جسم کا سارا گوشت ہڑپ کر لیا تھا۔ اِس حادثے کے بعد سے تو وارداتوں کا جیسے تانتا بندھ گیا اور آدم خور ایک ایک نادیدہ کی بلا کی مانند گاؤں والوں پر مسلّط ہو گیا۔ کبھی ندی پر، کبھی تالاب پر، کبھی جنگل میں، کبھی پہاڑی پر اور کبھی مندر کے پچھواڑے کوئی نہ کوئی عورت، آدمی یا بچّہ اس کے خونیں جبڑوں کا شکار ہوتا رہا۔ پچاس میل لمبے چوڑے رقبے میں آدم خور کا راج تھا، قہوے کے باغ میں کام کرنے والی عورتیں اُدھر کا رستہ چھوڑ چکی تھیں۔ مویشیوں کو جنگل میں چرانے کےلیے جانے والے لڑکے ڈر کے مارے اُدھر نہ جاتے تھے لیکن مصیبت یہ تھی کہ پانی انہیں بہرحال تالاب سے لانا پڑتا تھا، اس لیے اکیلا دُکیلا کوئی نہ جاتا، بلکہ گروہوں کی شکل میں گاؤں کے مرد تالاب پر جاتے اور مویشیوں کو پانی پلانے کے بعد اپنی ضرورت کے مطابق برتن بھانڈوں میں بھر کر لے آتے۔ شام ہوتے ہی گاؤں بھر میں ہیبت ناک سنّاٹا چھا جاتا اور کوئی شخص اپنی جھونپڑی سے باہر نکلنے کا حوصلہ نہ کرتا۔
رفتہ رفتہ آدم خور کی یہ سرگرمیاں ماند پڑنے لگیں اور وارداتیں کم ہوگئیں، پھر ایسا وقت آیا کہ مہینہ گزر گیا اور کوئی حادثہ پیش نہ آیا۔ گاؤں والے جنگل میں آنے جانے اور چلنے پھرنے لگے۔ عورتوں نے ایک بار پھر باغوں میں کام شروع کر دیا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ آدم خور جاگر وادی میں چلا گیا ہے۔ ممکن ہے اس کی شیرنی وہاں رہتی ہو اور شیر یہاں تنہا رہتے رہتے اکتا گیا ہو۔
دو مہینے گزر گئے۔ لوگ اب آدم خور کو بُھول چکے تھے اور اطمینان سے کاروبار زندگی میں مصروف تھے کہ دفعتہً ایک روز گاؤں میں یہ خبر پھیلی کہ مویشی چرانے والا ایک لڑکا جو بیرُور جا رہا تھا، گُم ہے۔ بعد میں اس لڑکے کے خون آلود کپڑے اور بچی کھچی ہڈیاں دستیاب ہوئیں، تو پتا چلا کہ آدم خور دوبارہ آ گیا ہے۔ اور اس کے ساتھ وارداتوں کا سلسلہ تیزی سے شروع ہو گیا۔ نتیجہ یہ کہ گاؤں کی زندگی پھر خوف و ہراس کا شکار ہو کر معطل ہو گئی۔
انہی دنوں ایک جرمن شخص ہندوستان کے جنگلوں میں ایک عجیب مہم پر نکلا ہوا تھا۔ اس شخص کا پیشہ جنگلی درندوں اور مختلف حشرات الارض کو پکڑنا تھا۔ وہ ان جانوروں کو یورپ کے چڑیا گھروں کے لیے گراں قیمت پر فروخت کر دیتا تھا۔ شیر، چیتے، ریچھ، اژدہے، کوبرا سانپ اور بچّھو اور پانی کے بہت سے جانور جن میں مگرمچھ بھی شامل تھے، پکڑنے کے لیے وہ اکثر بہت سے مقامی شکاریوں کی خدمات حاصل کرتا۔ میرے لڑکے ڈونلڈ سے اس کی ملاقات ہوئی تو اُس نے ڈونلڈ سے کہا کہ مگرمچھ کے چند بچّے مہیّا کیے جائیں، تو خاصی بڑی رقم مل سکتی ہے۔ دریائے کاویری مگرمچھوں کا گھر تھا اور یوں بھی اس علاقے کے دریاؤں میں مگرمچھوں کی کثرت تھی جس کے باعث لوگ خاصے پریشان تھے۔ چنانچہ حکومت ان کو مارنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتی تھی۔ مگرمچھ کی کھال اچھی قیمت پر فروخت ہو جاتی تھی، اس لیے اکثر شکاری مگرمچھوں کی تلاش میں پھرتے رہتے تھے، لیکن ان کو بندوق یا رائفل سے ہلاک کرنا خاصا مشکل اور مہارت کا کام تھا۔ چنانچہ شکاریوں نے مگرمچھوں کو مارنے کا ایک آسان اور عمدہ طریقہ سوچا۔۔۔ وہ لوہے کے مڑے ہوئے کانٹے بنواتے اور ان کو لوہے کی ایک لمبی زنجیر میں پھنسا کہ یہ زنجیر ایک مضبوط بانس سے باندھ دیتے۔ کانٹوں کے اندر کسی مُردہ جانور کی کی کھال یا گوشت کا بڑا سا ٹکڑا اٹکا کر، اسے دریا میں ڈال دیتے اور بانس کچھ فاصلے پر یا تو زمین میں گاڑ دیتے یا کسی درخت سے باندھ دیا جاتا اور مگرمچھ جونہی گوشت لالچ میں جبڑا کھول کر اُسے نگلنے کی کوشش کرتا، کانٹے اس کے حلق میں پھنس جاتے۔ مگرمچھ بے چین ہو کر دریا کی تہہ میں اترنے کی کوشش کرتا مگر زنجیر اسے زیادہ نیچے جانے کی اجازت نہ دیتی اور وہ پھر سطح پر نمودار ہوتا۔ بار بار کی اس تگ و دو کے باعث مگرمچھ کا جبڑا اور حلق زخمی ہو کر خون کی بڑی مقدار نکل جاتی اور وہ بے دم ہو کر سطح پر تیرنے لگتا۔ دو تین شکاری ملکر اسے کنارے پر گھسیٹ لیتے اور گولیاں مار کر ہلاک کر دیتے۔
دریائے کاویری کے کنارے ریت کے گڑھوں میں مادہ مگرمچھ انڈے دیتی ہے اور جب ان انڈوں سے بچے نکلنے کا وقت آتا ہے تو ان گڑھوں میں سے بچّوں کے بولنے اور حرکت کرنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ ڈونلڈ کا خیال تھا کہ دریا کے کنارے گھوم پھر کر ایسے انڈوں کا سراغ لگانا چاہیے جن میں سے بچے نکلنے ہی والے ہوں۔ مدّک سے چھ میل مغرب کی طرف ایک اور بڑی جھیل واقع تھی جسے آنکیری کہتے تھے۔ طے پایا کہ اس جھیل کے کناروں کا معائنہ کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ہم نے ایک لمبانی رہبر کو ساتھ لیا اور روانہ ہو گئے۔
ہمارا یہ لمبانی رہبر نہایت باتونی آدمی تھا اور گرد و نواح کے جنگل اور حالات سے بخوبی آگاہ تھا۔ اس نے راستے میں ایک آدم خور کا ذکر کر کے ہمارے شوقِ تجسّس کی آگ بھڑکا دی۔ معلوم ہوا کہ ہوگرالی کے علاقے میں اس آدم خور نے بڑا اودھم مچا رکھا ہے اور اب تک بہت سے آدمی ہڑپ کر چکا ہے۔
"کیا اُس نے اِس جھیل کے کنارے بھی کسی مارا؟’ ڈونلڈ نے سوال کیا۔
"جی نہیں۔۔۔ اس طرف کے لوگ ابھی تو محفوظ ہیں، لیکن بہت جلد ان کی باری بھی آنے والی ہے۔’
"آدم خور شیر ہے یا چیتا؟’ مَیں نے پوچھا۔
"لوگ کہتے ہیں کہ وہ شیر ہے۔ مگر حیرت ہے اسے کسی نے دیکھا نہیں۔ مختلف مقامت پر اس نے جتنے بھی افراد کو ہڑپ کیا ہے اور بعد میں جو لاشیں دیکھی گئی ہیں، ان سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ یہ حرکت شیر کی ہے۔’
آنکیری جھیل کے کنارے گھومتے ہوئے ہم نے لمبانی رہبر سے آدم خور کی سرگرمیوں کے کئی واقعات سنے اور میں نے اندازہ کیا کہ اگر یہ شخص سچ کہہ رہا ہے، تو اس آدم خور سے دو دو ہاتھ کر ہی لینے چاہیئں۔ میں نے ڈونلڈ سے کہا:
"لعنت بھیجو مگرمچھ کے بچُوں پر۔۔۔ انہیں تلاش کرنے کا کام کسی اور کے سپرد کر دیتے ہیں، مدّت کے بعد ایک آدم خور کا ذکر سننے میں آیا ہے، کیُوں نہ اس سے نپٹ لیا جائے۔’
ڈونلڈ نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور بولا:
"جیسی آپ کی مرضی۔۔۔ مگر ہم نے اس جرمن شخص سے جو وعدہ کیا ہے، وہ تو بہرحال پورا ہونا چاہیے۔’
"یہ بھی ٹھیک ہے۔’ میں نے جواب دیا۔ "تم دیکھتے ہو جھیل میں بڑے بڑے مگرمچھ موجود ہیں، مگر اُن کے انڈے تلاش کرلینے کے لیے بڑا وقت اور محنت درکار ہے جبکہ آدم خور کو ہم آسانی سے ڈھونڈ سکتے ہیں۔’
ڈونلڈ بے اختیار ہنسنے لگا اور بولا: "ڈیڈی، اب آپ کا دل یہاں نہیں لگے گا، کیونکہ آدم خور آپ کے ذہن پر سوار ہو گیا ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ مدّک چلا جائے اور آدم خور کے بارے میں وہاں کے لوگوں سے تفصیلی معلومات حاصل کی جائیں۔ مگرمچھ کے بچے چند بعد پکڑ لیں گے۔’
لمبانی یہ سن کر خوف زدہ نظر آنے لگا اور اس نے ہمیں اس ادارے سے باز رکھنے کی کوشش کی، مگر ہمارا جواب یہی تھا کہ ہم اب مدک تک جائے بغیر نہ مانیں گے۔
"جناب، اگر راستے میں آدم خور مل گیا تو؟’
یہی تو ہم چاہتے ہیں۔’ ڈونلڈ نے رائفل ہلاتے ہوئے کہا۔ "چلو ہمیں شام سے پہلے پہلے وہاں پہنچ جانا چاہیے۔’
لمبانی نے آدم خور کی داستانیں جس انداز سے سنائی تھیں، ان سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ درندہ نہایت نڈر اور عیار ہے اور کچھ بعید نہیں کہ وہ موقع پا کر ہم میں سے کسی کو اٹھا کر لے جائے اس لیے ہم نہایت محتاط اور چوکنے ہو کر چل رہے تھے۔ ہمارے لمبانی رہبر کا دہشت سے برا حال تھا۔ اور ذرا سی آہٹ پر بدک کر درخت پر چڑہنے کے لیے لپکتا۔ اس کے چہرے پر خوف کے ساتھ ساتھ خشونت اور غصے کے آثار بھی پھیلے ہوئے تھے اور عجب نہیں کہ دل ہی دل میں ہمیں گالیاں بھی دے رہا ہو۔
مدّک پہنچے، تو جنگل میں مویشیوں کا ایک بہت بڑا باڑہ دکھائی دیا جس کے بیج میں لکڑی کی بنی ہوئی ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں کوئی آدمی سو رہا تھا اور باڑے میں گائے بھینسیں اِدھر اُدھر کھڑی جگالی کر رہی تھیں۔ ہم باڑے کی اونچی دیوار پھاند کر اندر داخل ہوئے، تو گایوں بھینسوں میں ہلچل ہُوئی جس نے سونے والوں کو جگا دیا اور یہ سمجھ کر آدم خور آ گیا ہے، بری طرح چیخنے لگا۔ ہم نے اسے آواز دے کر مطمئن کیا اور باہر آنے کا حکم دیا۔ اس نے تعمیل کی اور ہمارے ہاتھوں میں رائفلیں دیکھ کر سمجھ گیا کہ ہم شکاری ہیں۔ خوشی کی ایک ہلکی سی لہر اس کے چہرے پر نمودار ہوئی اور بھرائی آواز میں بولا:
"جلدی سے اندر آ جائیے جناب، میرے مویشی آپ کو دیکھ کر ڈر رہے ہیں۔’
"اور تم ہمیں دیکھ کر ڈر گئے۔’ ڈونلڈ نے ہنس کر کہا۔ "کیا تمہیں آدم خور کے آنے کا خوف نہیں۔’
"وہ کئی مرتبہ باڑے کے نزدیک آیا جناب، ایک مرتبہ تو اندر بھی آن کودا اور جب میرے جانوروں نے بھاگ دوڑ شروع کی، تو وہ انہیں زخمی کر کے بھاگ گیا۔’
"وہ اب تک کتنے آدمیوں کو کھا چکا ہے؟’ میں نے پوچھا۔
"صحیح تعداد تو کسی کو معلوم نہیں، یہی بیس پچیس آدمی ہوں گے۔ ان میں کئی عورتیں تھیں اور کئی بچّے۔’
"لوگوں نے آدم خور کو مارنے کا کوئی انتظام نہیں کیا؟’
"جناب ماریں تو اس وقت جب وہ دکھائی دے۔ وہ تو چھلاوا ہے چھلاوا۔ اسے آج تک کسی نے نہیں دیکھا۔’
چرواہے نے تین چار قصے سنائے اور بتایا کہ آدم خور کی وجہ سے لوگوں کی زندگی کس طرح اجیرن ہو رہی ہے اور اگر اسے ہلاک نہ کیا گیا، تو ایک روز یہ سارا علاقہ آدمیوں سے خالی ہو جائے گا۔
"اچھا، یہ بتاؤ مُدلی آج کل کہاں ہے؟’ میں نے پوچھا۔ وہ چونک کر میری طرف دیکھنے لگا۔
"آپ اُسے جانتے ہیں؟’
"ہاں، وہ میرا پرانا دوست ہے اور میں نے اُس سے ہوگرالی کے نزدیک ایک ایکڑ زمین بھی خریدی تھی۔’
مُدلی واقعی میرا پرانا دوست تھا اور کہی مہمّوں پر میرا ساتھ دے چکا تھا۔ وہ اپنے گاؤں کا "پٹیل’ ہونے کے علاوہ جتنا محتنی اور ایمان دار آدمی تھا، اُتنا ہی توہّم پرست اور ڈرپوک بھی تھا۔ گاؤں والے اس کی ہر بات مانتے تھے اور شادی غمی کے معاملات اس کی شرکت کے بغیر مکمل نہ ہوتے تھے۔
"میں بھی مُدلی کا ملازم ہوں جناب، یہ گائے بھینسیں اُسی کی ہیں۔ وہ اِس وقت ہوگرالی میں اپنے مکان پر ملے گا۔ اگر وہاں جانا چاہیں، تو صبح جائیے گا، مَیں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا۔’
رات ہم نے اسی جھونپڑی میں کاٹی۔ ڈونلڈ تو مزے سے سو گیا، لیکن اس باتونی چرواہے اور لمبانی شخص نے میری نیند حرام کر دی۔ چرواہے کا تعلّق بھی اسی قبیلے سے تھا اور وہ دونوں گاؤں کی جوان لڑکیوں کے بارے میں نہ جانے کب تک بحث مباحثہ کرتے رہے۔
جب ہم ہوگرالی میں مُدلی کے مکان پر پہچے، تو وہ باہر سائبان تلے کھاٹ پر پڑا بے خبر سو رہا تھا۔ مَیں نے اسے جھنجھوڑا، تو ہڑبڑا کر اٹھا اور مجھے دیکھ کر اس کا مُنہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ چند لمحے اس پر سکتے کی سی کیفیت طاری رہی، پھر چلّایا:
"آپ؟ کب آئے؟ سامان کہاں ہے؟ مَیں تو خود آپ کی طرف جانے والا تھا۔ یہاں ایک۔۔۔؟
"میں سب کچھ سُن چکا ہوں اور اسی لیے آیا ہوں۔’ مَیں نے اس کی بات کاٹنے ہوئے کہا۔ "اب تم ہمارے لیے دوپہر کا کھانا تیار کراؤ اور دو چارپائیاں باہر نکال دو۔ ہم باپ بیٹا ذرا آرام کریں گے۔’
اگرچہ مَیں ہوگرالی میں کئی بار آ چکا تھا اور گاؤں کے اکثر چھوٹے بڑے مجھے بخوبی پہچانتے تھے، لیکن اس بار انہوں نے جس انداز میں ہمارا خیر مقدم کیا اور جیسی خاطر تواضع کی، وہ حد سے زیادہ تھی۔ لوگ ہمیں دیوتا سمجھ رہے تھے اور جب مُدلی نے انہیں بتایا کہ ہم آدم خور کو مارنے آئے ہیں، تو لوگوں کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا اور گاؤں میں چہل پہل شروع ہو گئی، لیکن یہ چہل پہل سورج غروب ہوتے ہی ختم ہو گئی۔ لوگوں نے اپنی اپنی جھونپڑیوں اور کچے مکانوں کے دروازے بند کر لیے اور ہر طرف خاموشی اور تاریکی کا تسلط ہو گیا جسے کبھی کبھی کتوں کے بھونکنے کی آواز توڑ دیتی تھی۔
مُدلی ہماری مدارات کے لیے بچھا جاتا تھا۔ اُس نے دوپہر کا کھانا کھلایا، دو مرتبہ قہوہ پلایا اور پھر رات کے کھانے کی تیّاریاں کرنے لگا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ معذرت خواہ بھی تھا کہ ہمارے "شایانِ شان’ ٹھہرنے کا انتظام نہیں کر پایا۔ رات کو بھنے ہوئے مُرغ، اُبلے ہوئے آلو، گیہوں کی تازہ، مکھن چپڑی ہوئی روٹیاں پیٹ بھر کر کھانے کے بعد جب ہم اپنی اپنی جگہ آرام سے بیٹھے اور تمباکو پینے لگے، تو گفتگو کا رُخ خودبخود آدم خور کی طرف پھر گیا۔ مُدلی نے اس کے بارے میں جو کچھ بتایا وہ ابتداء میں لکھ چکا ہوں۔ مُدلی کا خیال تھا کہ آدم خور چونکہ پندرہ سو مربّع میل کے وسیع علاقے میں سرگرمِ عمل ہے اور اس کے کسی ٹھکانے کا اب تک پتہ نہیں مل سکا، اس لیے اسے ہلاک کرنا خاصا مشکل، بلکہ ناممکن کام ہے۔ کوئی شخص یقین سے دعویٰ نہیں کر سکتا کہ آدم خور کس جگہ اپنا شکار کرے گا اور پھر یہ کہ شکار کے بعد وہ خاصی دیر تک (کبھی دو ہفتے اور کبھی ایک ایک مہینہ) آرام کرتا یا رُوپوش ہو جاتا ہے۔ مقامی شکاریوں نے اسے پھانسنے کے لیے جنگل میں کئی بار ہانکا کیا اور چھوٹے موٹے جانور درختوں سے باندھے، لیکن آدم خور کسی دام میں نہ آیا۔ اس کے علاوہ جنگل میں اور بھی بہت سے شیر چیتے رہتے ہیں، فرض کیجیے اس دوران میں انتہائی جدوجہد کے بعد کوئی شیر مارا جاتا ہے۔ اب کیا ثبوت ہے کہ یہ آدم خور ہی ہوگا۔
مُدلی کی باتیں وزن دار تھیں۔ مَیں اور ڈونلڈ سوچ میں پڑے ہوئے تھے۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ مہم کی ابتداء کہاں اور کس طرح کی جائے۔ آخر مُدلی ہی نے راہنمائی کی:
"میری رائے میں آپ کو فی الحال ہوگرالی ہی میں قیام کرنا چاہیے۔۔۔ میں اپنے پڑوس میں ایک مکان خالی کرائے دیتا ہوں۔’
"مدلی اور گاؤں کے دوسرے لوگوں کے اصرار پر ہمیں وہاں قیام کرنا پڑا۔ جو "مکان’ ہمیں رہنے کے لیے دیا گیا، وہ ایک کچے کمرے اور برآمدے پر مشتمل تھا۔ گرمیوں کے موسم میں سورج آسمان سے آگ برساتا اور رات کو مچّھروں کا ٹڈی دَل ہم پر حملہ کرتا، لیکن بستی والوں کو آدم خور سے نجات دلانے کے لیے ہم نے یہ تمام مصائب برداشت کیے۔ ان "مصیبتوں’ کے ساتھ ساتھ اگر ان "راحتوں’ کا ذکر نہ کیا جائے جو بستی کے لوگوں اور خصوصاً مُدلی نے ہمیں بہم پہنچانے کی کوشش کی، تو صریحاً نا انصافی ہوگی۔ گھی مکھن، دودھ، پنیر، گوشت، انڈے اور قہوہ، صبح، دوپہر، شام کِھلا کِھلا کر ہمارا ناطقہ بند کر دیا گیا۔ مَیں نے کئی بار مُدلی سے کہا، ہمیں مہمان نہ سمجھو اور اپنے اخراجات خود اٹھانے دو، لیکن وہ نہ مانا اور کہنے لگا:
جب تک آپ ہوگرالی میں رہیں گے، میں آپ کو اپنا مہمان سمجھوں گا۔’
اس دوران میں آدم خور کے بارے میں ہمیں کوئی نئی خبر نہ مل سکی کہ وہ کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے۔ قہوے کے باغوں میں کام بند تھا۔ کوئی شخص اکیلا دُکیلا گاؤں سے باہر نہ جاتا اور شام ہوتے ہی گھروں اور جھونپڑیوں کے دروازے بند ہو جاتے۔ گرمیوں کا موسم تھا، اردگرد کے جنگل اور پہاڑوں کی وجہ سے رات کو اتنی گرمی تو نہ پڑتی، مگر گاؤں والے باہر سونے کے عادی تھے، انہیں شیر کے خوف گھروں میں سونا پڑ رہا تھا۔ صرف ہم دو آدمی باہر برآمدے میں سویا کرتے اور طریقہ یہ تھا کہ ایک رات ڈونلڈ سوتا اور مَیں پہرہ دیتا، دوسری رات مَیں سوتا اور ڈونلڈ رائفل لیے گاؤں کی گشت کرتا۔ ہمارا خیال تھا کہ جلد یا بدیر آدم خور ادھر آئے گا اور ہم اس سے نمٹ لیں گے، لیکن ایسا نہ ہوا۔ حتیٰ کہ گاؤں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ آدم خور کا رُعب ہم پر بھی غالب آ گیا ہے اور اسی لیے ہم گاؤں سے باہر نکل کر جنگل میں اُسے تلاش نہیں کرتے۔ لوگ چاہتے کہ آدم خور کا قصّہ پاک ہوتا کہ وہ اپنے کام کاج دوبارہ شروع کر سکیں اور گاؤں کی معطل شدہ زندگی بحال ہو جائے۔ ہمیں ان کی پریشانی اور مصیبت کا بخوبی احساس تھا، لیکن آدم خور جب تک کوئی واردات نہ کرتا، ہمیں بھلا اُس کے ٹھکانے یا کمین گاہ کا علم کیسے ہو سکتا تھا، پندرہ سو مربع میل کے وسیع و عریض گنجان جنگلی علاقے میں اسے ڈھونڈنا ناممکن نہیں، تو امر محال ضرور تھا۔
پانچویں روز ڈونلڈ نے نہایت اکتائے ہوئے لہجے میں مجھ سے کہا:
"ڈیڈی، گاؤں والوں کی چُبھتی ہوئی نظریں اب میرے لیے ناقابل برداشت ہیں۔ اگر ہم شیر کو تلاش نہیں کر سکتے تو یہاں بیٹھ کر روٹیاں توڑنے سے فائدہ؟ ان لوگوں سے صاف کہہ دیجیے کہ آپ کا پروگرام کیا ہے۔’
"تم اپنے اس باپ کا بُزدلی کا طعنہ دے رہے ہو جو اب تک ستّر شیر ہلاک کر چکا ہے۔ ان میں سے پچاس تو یقیناً آدم خور تھے۔" مَیں نے ہنس کر جواب دیا۔ "تم ابھی جوان ہو میرے بچے۔۔۔ تمہاری رگوں میں گرم خُون گردش کرتا ہے اور ابھی تک تمہیں آدم خور سے واسطہ نہیں پڑا، اس لیے یہ کام ذرا آسان سمجھے ہوئے ہو۔ میں جانتا ہوں کہ آدم خور کو تلاش کرنے اور مارنے میں شکاری کو کیسے کیسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور کن کن جان لیوا مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور سچ پوچھو، تو میں صرف تمہاری وجہ سے پریشان ہوں۔’
"میری وجہ سے۔۔۔ وہ کیوں ڈیڈی۔۔۔’ ڈونلڈ نے حیران ہو کر کہا۔
"اس لیے کہ تم نہایت جلد باز اور بے صبر ہو۔۔۔ شیر کے شکار اور خصوصاً آدم خور کے مقابلے میں جس سکون، صبر اور اعصاب شکن استقلال کی ضرورت ہے، وہ تمہارے پاس نہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ اگر تم اس مہم میں تم میرے ساتھ ہوئے، تو کوئی نہ کوئی حادثہ ضرور پیش آئے گا۔’
ڈونلڈ کا چہر سُرخ ہو گیا۔ غالباً یہ پہلا موقع تھا کہ میں ںے کُھل کر ان "خامیوں’ کی نشان دہی کی تھی۔ اس زمانے میں اس کی عمر کا سولہواں برس شروع ہوا تھا، قدوقامت، جسمانی قوت اور جرأت میں وہ کسی بھی تجربے کا پرانے شکاری سے کم نہ تھا۔ جنگلی جانوروں کی نفسیات اور عادات کو جاننے پہچاننے کا ملکہ بھی اس میں بخوبی تھا اور چونکہ اس نے شعور کی آنکھ ہندوستان کے گھنے جنگلوں ہی میں کھولی تھی، اس لیے جنگل سے اس کی دلچسپیاں فطری تھیں۔ وہ اب تک بارہ ریچھوں، بہت سے سانبھروں، ایک جنگلی بھینسے اور دو چھوٹے چیتوں کا مار چکا تھا۔ ایک آدھ مرتبہ میرے ساتھ مختلف مہمّوں پر جانے کا موقع ملا اور میں نے اُس سے شیر پر گولی چلوائی، لیکن اس کا ہاتھ بہک جاتا، شاید اس لیے اس پر شیر کی دہشت غالب آ جاتی تھی۔ اب غور کیجیے اس نا مکمل اور ادھورے تجربہ کے ساتھ ایک منجھے ہوئے آدم خور کے ساتھ مقابلہ حماقت ہی تو تھی اور اسی لیے اُسے ساتھ لے جاتے ہوئے ہچکچاتا تھا۔
"ڈیڈی، اگر آپ مجھے ایسا ہی بزدل اور بیوقوف سمجھتے ہیں، تو مَیں مزید کچھ نہیں کہوں گا۔’ اُس نے دل گرفتہ ہو کر کہا۔
"تم میری بات کا مطلب غلط سمجھے۔۔۔ میرا مقصد تمہارا حوصلہ پست کرنا نہیں، ابھارنا ہے۔ تم بے شک میرے ساتھ چلو، لیکن وعدہ کرو کہ مَیں جو کہوں گا اس پر پورا پورا عمل کرو گے۔’
"وعدہ رہا۔’ ڈونلڈ نے کہا اور مجھ سے لپٹ گیا۔
اس روز رات کا کھانا ہم نے جلدی کھا لیا۔ مُدلی کو اپنا پروگرام بتایا کہ ہم آدم خور کی تلاش میں جا رہے ہیں۔ رات بھر جنگل میں گھومیں پھریں گے۔ ممکن واپسی میں کئی دن لگ جائیں، اس لیے وہ ہمارے بارے میں تشویش نہ کرے اور گاؤں والوں کو بھی آگاہ کر دے کہ ہماری واپسی تک کوئی شخص جنگل میں یا ندی کے کنارے نہ جائے اور اگر آدم خور کوئی واردات کرے، تو لاش وہاں سے اٹھوائی نہ جائے۔
بَیل گاڑی پہلے سے تیّار تھی۔ ہم اس پر سوار ہوئے اور بیرُور کی طرف چلے۔ منصوبہ یہ تھا کہ نہر یا دُوری کے کنارے کنارے چلتے ہوئے جھیل مدّک تک جائیں گے۔ یہ فاصلہ زیادہ سے زیادہ دس میل کا تھا۔ اس کے بعد ایک آدھ گھنٹہ آرام کر کے بیرُور سٹیشن تک صبح کے وقت تک پہنچ جائیں گے۔ جنگل میں خلاف معمولِ ہیبت ناک سنّاٹا طاری تھا۔ جنگل کے جانور اور پرندے سب چپ تھے جیسے کسی اَن جانے حادثے پر سوگ منا رہے ہوں۔ ہماری بیل گاڑی ایک تنگ پگڈنڈی پر چل رہی تھی جس میں جابجا گڑھے اور کھڈ تھے۔ اگرچہ طاقت وَر ٹارچیں ہمارے پاس موجود تھیں، لیکن انہیں روشن کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ رات ٹھیک ساڑھے سات بجے ناریل کے درختوں کے وسیع و عریض جُھنڈ کے پیچھے سے چاند نے اپنا چمکتا ہوا چہرا دکھایا۔ اُس کی روشنی شاخوں اور ٹہنیوں میں سے چھن چھن کر آ رہی تھی۔ جنگل کی یہ رات اتنی حسین اور سحر انگیز تھی کہ ہم اس کے جلوے میں محو ہو گئے اور مجھے تو یوں محسوس ہونے لگا جیسے میں کسی پُراسرار طلسماتی سرزمین پر پہنچ گیا ہوں جہاں تاریکی اور روشنی اور سکون و اطمینان کا راج ہے۔ ایسی سرزمین جس میں کوئی ذی روح نہیں بستا۔ دفعتہً ہماری گاڑی ایک گہرے گڑھے کے اوپر سے گزری اور ایسا جھٹکا لگا کہ ڈونلڈ الٹ کر نیچے جا گرا۔ میں نے فوراً بیل روکے اور ڈونلڈ کو اٹھایا۔ کوئی خاص چوٹ نہ آئی تھی، شرمندہ ہو کر کہنے لگا:
"اس نظارے نے مجھے غافل کر دیا تھا ڈیڈی۔’
یہ کہہ کر وہ کپڑے جھاڑنے لگا اور جب اُس نے جھک کر رائفل اٹھائی، میں نے دیکھا کہ قریب ہی لمبی گھاس کے ساتھ ساتھ کسی جانور کے پنجوں کے نشانات خشک مٹّی پر اُبھرے ہُوتے ہیں مَیں نے ان نشانات پر ٹارچ کی مدد سے روشنی پھینکی، تو معلوم ہوا کہ کچھ دیر پہلے کوئی چیتا ادھر سے گزرا ہے۔ جنگل کا یہ حصّہ خاصا گھنا تھا اور اگر چاند کی روشنی ہماری راہنمائی نہ کرتی، تو چیتے کے پنجوں کے نشانات ہمیں ہرگز دکھائی نہ دیتے۔
"جلدی کرو گاڑی پر بیٹھ جاؤ۔’ مَیں نے کہا۔ "ابھی ابھی ایک قد آور چیتا اس راستے سے گیا ہے اور ممکن ہے وہ کسی قریبی جھاڑی میں دبکا ہوا ہمیں دیکھ رہا ہو۔’
گاڑی میں جتے ہوئے دونوں بَیل سر جھکائے کھڑے تھے جیسے اپنی غلطی پر نادم ہوں۔ ہمارے سوار ہوتے ہی وہ خودبخود چل پڑے۔ مَیں نے احتیاطاً ٹارچ روشن کیے رکھی تاکہ جھاڑیوں میں چھپا ہوا ہو، تو اس کی چمکتی ہوئی آنکھیں ہی اس کا راز اُگل دیں۔ ٹارچ کی روشنی میں چیتے یا شیر کی آنکھیں فوراً دکھائی دے جاتی ہیں جبکہ اندھیرے میں ایسا نہیں ہوتا۔ اور اس عجیب بات پر میں اکثر حیران ہوتا ہوں کہ اس کا کیا سبب ہے۔ چیتے سے ہمارا کوئی جھگڑا نہ تھا، اس لیے میرا ارادہ اسے ڈھونڈنے کا ہرگز نہ تھا، صرف احتیاطاً ٹارچ روشن کر دی تھی تاکہ وہ ہمارا تعاقب نہ کرے۔ چیتا ایسا عیار درندہ ہے کہ میلوں تک دبے پاؤں اپنے شکار کا پیچھا کرتا ہے اور جب اسے یقین ہو جاتا ہے کہ اس کا وار خالی نہ جائے گا تب حملہ کرتا ہے۔
اب ہم یاما دُودی نہر کے بالکل ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ یہاں جنگل بہت گھنا تھا، اس لیے مَیں نے دوسری ٹارچ بھی روشن کر دی، جھاڑیوں اور گھاس کے اوپر ہزار ہا پتنگے ناچ رہے تھے۔ کہیں کہیں جنگلی خرگوش، چوہوں اور گیدڑوں کی چمکتی ہوئی سُرخ سُرخ آنکھیں نظر آئیں جو روشنی پڑتے ہی غائب ہوگئیں۔ ایک مقام پر سانپ کی پھنکار اور گھاس میں سرسرانے کی آواز بھی سنائی دی جس نے بَیلوں کو خوف زدہ کر دیا اور وہ زیادہ تیزی سے دوڑنے لگے۔ اونچی نیچی پگڈنڈی پر گاڑی کے پہیئے بری طرح اچھلنے لگے۔ بَیلوں کی رفتار لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی جا رہی تھی اور خدشہ تھا کہ گاڑی الٹ نہ جائے اور اس سے پہلے کہ میں بیلوں کو روکنے کی کوشش کروں، گاڑی ایک پُرشور آواز کے ساتھ لڑھکتی ہوئی ایک کھڈ میں جا گری۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کسی طاقتور ہاتھ نے فضا میں اچھال دیا ہے۔ میں نے اپنے آپ کو نہر کے گھٹنے گھٹنے گہرے دلدلی پانی میں پڑا پایا۔ ڈونلڈ کا کچھ پتہ نہ تھا کہ اس پر کیا گزری۔ کھڈ زیادہ گہرا نہ تھا، اس لیے بیل تو کوشش کر کے باہر نکل آئے، مگر گاڑی اُس میں پھنس گئی تھی، میں نے ڈونلڈ کو آوازیں دیں، لیکن کوئی جواب نہ مِلا۔ میرے کپڑے پانی اور کیچڑ میں لت پت ہو چکے تھے۔ ٹارچ، تمباکو کی تھیلی اور پائپ نہر میں گر گیا تھا۔ مگر رائفل بدستور میرے ہاتھ میں تھی۔ چند لمحے بعد مَیں نے بائیں جانب سے ڈونلڈ کے کراہنے کی آواز سنی اور اُدھر لپکا۔ اُس کا سر زخمی تھا اور وہ کھڈ کے قریب پڑا اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بیل گاڑی کے ساتھ بندھا ہوا فرسٹ ایڈ کا تھیلا کھول کر مَیں نے اس کی مرہم پٹّی کی اور کپڑوں کے بنڈل سے کپڑے نکال کر اپنا لباس تبدیل کیا۔ میری بائیں کہنی اور گھٹنا بھی درد کر رہا تھا، لیکن میں تکلیف سے بے پروا ڈونلڈ کی دیکھ بھال میں لگا ہوا تھا۔
جب اچھی طرح ہوش آ گیا تو میں نے ڈونلڈ کو نہر سے کچھ فاصلے پر ایک درخت کے نیچے لٹایا۔ گاڑی سے بیل کھول کر الگ کیے اور رات اسی مقام پر بسر کرنے کا ارادہ کیا۔ کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی سلامت تھی اور رات کے ساڑھے دس بجا رہی تھی۔ گویا تین گھنٹوں میں یہ دوسرا حادثہ تھا اور ابھی ہم نے صرف چار میل کا فاصلہ طے کیا تھا۔ تھرماس سے قہوے کے گرم گرم گھونٹ پی کر اور ڈونلڈ کو پلا کر اَوسان بحال ہوئے، تو مَیں نے گردو پیش کا جائزہ لیا۔ اردگرد کے کئی درختوں پر بندر لٹکے ہوئے نظر آئے جو حیرت سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ لیکن سبھی چُپ تھے جیسے خوف زدہ ہوں۔ میری چھٹی حِس جاگ اٹھی۔ کوئی خونخوار درندہ یقیناً قریب تھا۔ شاید وہی چیتا ہوگا یا شیر۔۔۔ بہرحال میں نے رائفل سنبھال لی اور ڈونلڈ کو دلاسا دے کر اردگرد کی جھاڑیوں کا معائنہ کرنے لگا۔ دائیں ہاتھ پر نہر کے پرلے کنارے ایک چھوٹا سا ٹیلا تھا جو ہم سے بمشکل پچاس فٹ کے فاصلے پر ہوگا۔ اور وہ آوازیں اس ٹیلے کے عقب سے آئی تھی۔ پہلے مدھم، پھر تیز اور آخر میں کرب بھری گرج جیسے درندہ سخت تکلیف میں ہے۔
"ڈیڈی۔۔۔ شیر۔۔۔’ ڈونلڈ چِلّایا اور اپنی رائفل اٹھا کر میرے برابر آن کھڑا ہوا۔ مَیں نے اُسے درخت پر چڑھنے کا اشارہ کیا، تو وہ کہنے لگا:
"نہیں ڈیڈی، میں اتنا کمزور نہیں ہوں، شیر پر پہلا فائر مَیں کروں گا۔’
"تم اپنا وعدہ بُھول گئے۔۔۔؟’ میں نے دبی آواز میں اُسے ڈانٹا۔ "شور نہ مچاؤ، ورنہ شیر بھاگ جائے گا۔ میں کہتا ہوں درخت پر چڑھ جاؤ۔’ اس نے بادلِ نخواستہ تعمیل کی۔
اس دوران میں شیر پھر غرّایا اور اس مرتبہ آواز اور قریب سے آئی تھی۔ بیل خوف زدہ ہو کر ایک طرف بھاگ اٹھے اور میں ایک درخت کے تنے کے ساتھ چمٹ گیا اور دو مرتبہ شیرنی کی آواز اپنے حلق سے نکالی۔ میرا خیال تھا کہ شیر اس آواز پر میرے قریب آ جائے گا، لیکن ایسا نہ ہوا اور جنگل میں گہری خاموشی چھا گئی۔ وقت چیونٹی کی رفتار سے گزرنے لگا۔۔۔ مَیں سانس روکے شیر کی آواز سننے کا منتظر تھا۔ مگر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ مصنوعی شیرنی کی آواز سن کو چوکنّا ہو گیا ہے اور ویسے بھی یہ موسم تو شیر شیرنی کے راز و نیاز کا نہ تھا۔ اپنی اس حماقت پر مجھے افسوس ہونے لگا، لیکن کیا ہو سکتا تھا، چاند اس وقت آسمان کے عین وسط میں آ چکا تھا اور اس کی کرنیں ٹھیک میرے اوپر پڑ رہی تھیں۔ اردگرد کا منظر زیادہ صاف اور واضح نظر آنے گا۔
شیرنی کی بولی سُن کر شیر یقیناً چوکنا ہو گیا تھا۔ خشک پتّوں کے چرمُر ہونے اور گھاس کے سرسرانے کی ہلکی ہلکی آوازیں میرے کانوں میں پہنچیں، تو اس شبہے کی تصدیق ہو گئی کہ نر چُپکے چُپکے اپنی مادہ کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں نے اسے مزید پریشانی سے بچانے کے لیے تیسری بار شیرنی کی آواز نکالی اور ابھی بمشکل آدھا منٹ ہی گزرا تھا کہ درخت پر چڑھتے ہوئے ڈونلڈ نے آہستہ سے سیٹی بجائی۔ مَیں نے گھوم کر اس طرف دیکھا۔۔۔ اس درخت سے تقریباً پندرہ فٹ دور جھاڑیوں کے قریب ایک قوی ہیکل اور ہیبت ناک چہرے والا شیر شاہانہ وقار سے کھڑا تھا۔ یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ شیر پہاڑی ٹیلے کے عقب سے نکل کر ایک لمبا چکر کاٹے گا اور میرے پیچھے آ جائے گا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی مقام سے نہر بالکل خشک پڑی ہے اور شیر نے وہیں سے اسے عبور کیا ہے۔ اچھا ہی ہوا کہ ڈونلڈ نے شیر کی آمد کا فوراً نوٹس لے کر مجھے آگاہ کر دیا تھا، ورنہ شیر میری بے خبری سے فائدہ اٹھا کر اچانک حملہ کر دیتا تو میرے بچنے کی کوئی صورت نہ تھی۔
شیر اپنی جگہ سے اسی انداز سے کھڑا میری جانب گھور رہا تھا۔ مَیں بھی پتھر کا بُت بنا اپنی جگہ کھڑا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ شیر کو ہلاک کرنے کا یہ بے نظیر موقع تھا، میں جانتا تھا کہ یہ جنگل شیروں سے بھرا پڑا ہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ مَیں آدم خور کے بجائے کسی اور بے گناہ شیر کو اپنی رائفل کا نشانہ بنا دوں۔ فائر کرنے سے پہلے یہ معلوم کرنا ضروری تھا ہمارا مقابلہ کس سے ہے۔۔۔ عام شیر سے یا آدم خور شیر سے۔۔۔
شیر نے ایک ثانیے کے لیے چاند کی طرف دیکھا اور اور عَین اسی وقت مَیں تنے کی آڑ سے نکل کر شیر کے بالکل سامنے آن کھڑا ہوا۔ میرا خیال تھا اگر وہ آدم خور ہے، تو ضرور میری طرف لپکے گا۔ لیکن ایسا نہ ہُوا، وہ کوئی شریف شیر تھا۔ ایک نرم سی تنبیہہ آمیز غرّاہٹ کے بعد مڑا اور جھاڑیوں کے اندر غائب ہو گیا۔ مَیں نے اطمینان کا سانس لیا اور ڈونلڈ کو آواز دی کہ درخت سے نیچے اُتر آئے۔
"ڈیڈی، کیا آپ کو قطعاً احساس نہ ہوا کہ عقب میں شیر ہے؟ شکر کیجیے وہ آدم خور نہ تھا۔۔۔’
"بھئی، اس وقت تو تم نے کمال کیا۔ بخدا مَیں تصوّر بھی نہیں کر سکتا تھا کہ شیر اس طرح پیچھے سے آجائے گا، بہرحال وہ ناراض ہو رہا تھا کہ ہم نے شیرنی کی بولی بول کر اُسے دھوکا کیوں دیا۔’
"ڈیڈی، اب بَیلوں کو تو ڈھونڈیے۔۔۔ کہیں شیر اُن پر حملہ نہ کر دے۔’
"بَیل زیادہ دُور نہ جائیں گے، کیونکہ شیر آس پاس پھر رہا ہے اور انہوں نے اس کی بُو پالی ہوگی۔’
ابھی ہم باتیں کر ہی رہے تھے کہ ایک طرف سے کسی جانور کے دوڑنے کی آواز آئی۔ جانور وزنی تھا، کیونکہ اس کے قدموں کی دھمک سے زمین ہل رہی تھی۔ یہ یقیناً ہمارے بَیلوں میں سے ایک بَیل تھا۔ میرا خیال صحیح نِکلا۔ وہ زور زور سے ڈکراتا، چھلانگیں لگاتا اور وحشیانہ انداز میں بھاگتا ہوا نہر کے پرلے کنارے پر نمودار ہوا۔ چاند کی روشنی میں ہم نے دیکھا کہ اس کا جسم لہولہان ہے۔ شیر نے ہمیں چھوڑ کر اس پر حملہ کر دیا تھا، مگر فوراً ہی یہ خیال غلط ثابت ہو گیا، کیونکہ نہر کے پَرلی طرف جھاڑیاں چیرتا ہُوا ایک خونخوار اور لمبے قد کا چیتا برآمد ہوا اور بیل کی طرف لپکا۔ ڈونلڈ نے فائر کرنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
"کیا کرتے ہو؟ بیل اب ہمارے کام کا نہیں رہا، اس لیے چپ چاپ چیتے اور بَیل کی لڑائی دیکھو، وہ آسانی سے چیتے کا لقمہ بننے کو تیار نہ ہوگا۔’
چیتے کی پُھرتی اور برق رفتاری کا بیل کیا مقابلہ کرتا، آنِ واحد میں بپھرے ہوئے چیتے نے بیل کا ٹینٹوا جبڑے میں دبا کر نیچے گرا لیا اور اپنے پنجے اس کی پشت میں گاڑ دیے، مگر گاؤں کی فضا میں پَلا ہوا طاقتور بیل ہار ماننے کو تیار نہ تھا۔ اس نے گردن کو اس زور سے جھٹکا دیا کہ چیتا لُڑھکتا ہوا دُور جا گرا۔ اب تو چیتے کے غیظ و غضب اور طیش کی انتہا نہ رہی۔ اپنا بھیانک خون آلود مُنہ کھول کر گرجا اور بجلی کی مانند تڑپ کر دوبارہ بَیل پر جھپٹا۔ بَیل خون میں لت پت بُری طرح تڑپ رہا تھا۔ چیتے نے پنجے اس کے پیٹ پر مارے اور گردن مُنہ میں دبا کر جھاڑیوں کی طرف گھسیٹنے کی کوشش کرنے لگا۔ ڈونلڈ میں صبر کی تاب نہ رہی۔ میرے منع کرنے کے باوجود اس نے فائر کر دیا۔ فائر ہوتے ہی چیتا اُچھلا اور گرجتا ہوا جھاڑیوں میں جا چُھپا۔ اب وہ مسلسل چیخ رہا تھا، اس نے کئی بار جھاڑیوں سے نکل کر اَدھ موئے بَیل کو گھسیٹنا چاہا، مگر ہر بار ڈونلڈ کی رائفل شعلہ اگلتی اور چیتا جھاڑیوں میں روپوش ہو جاتا۔ غالباً وہ اپنے شکار کو چھوڑ کر جانا نہ چاہتا تھا۔ مجھے حیرت تھی کہ کوئی گولی اُسے نہیں لگی۔ ابھی یہ تماشا جاری تھا ک ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ وہی شیر جسے تھوڑی دیر پہلے ہم نے دیکھا تھا، ایک طرف سے نمودار ہوا اور چیتے کی پروا کیے بغیر بَیل کی طرف بڑھا اور اس کے چاروں طرف گھومنے لگا۔ بیل پر جان کنی کا عالم طاری تھا۔۔۔ درندے کو اپنے قریب پا کر اُس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر چیتے کے نوکیلے پنجوں نے اُس کی اوجھڑی باہر نکال دی تھی اور گردن تقریباً کٹ چکی تھی، اس لیے اُٹھ نہ سکا۔ شیر نے دو تین پنجے مارے اور بیل ٹھنڈا ہو گیا۔ اس کام سے فارغ ہو کر اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا جیسے چیتے سے کہہ رہا ہو کہ ہمّت ہے تو آؤ اور مجھ سے اپنا شکار چھین لو۔ لیکن چیتا جھاڑیوں میں چُھپا ہوا مسلسل غراتا رہا اور اسے شیر کا سامنا کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔
شیر اس مرتبہ بھی ہمارے نشانے کی زد میں تھا، مگر میں اُسے مارنا نہ چاہتا تھا، کیونکہ مَیں تو اُن شیروں کا دشمن ہوں جو انسانوں کے لیے مصیبت اور بربادی کا باعث بنتے ہیں اور انہیں سے دو دو ہاتھ کرنے میں لطف آتا ہے۔ ورنہ میں شیر کو جنگل کا بادشاہ سمجھ کر اس کا پورا احترام اور عزت کرتا ہوں اور شوقین مزاج شکاریوں کے برعکس خواہ مخواہ ان کے خُون سے ہاتھ رنگنا پسند نہیں کرتا۔ ہماری نظروں کے سامنے شیر نے بَیل کی لاش میں سے کچھ حصّے کھائے۔ دو تین انگڑائیاں لیں اور ایک طرف کو چلا گیا۔ ہمارا خیال تھا شیر کے جانے کے بعد چیتا لاش پر آئے گا، لیکن ایسا نہ ہوا۔ چونکہ وہ ہمیں دیکھ چکا تھا، اس لیے اپنی فطری احتیاط اور ہوشیاری کے باعث جھاڑیوں میں دبکا ناراضگی کا اظہار کرتا رہا۔
رات کا بقیہ حصّہ درختوں پر بسیرا کرتے ہوئے کاٹا۔ صبح صادقِ کے آثار نمودار ہوتے ہی ہم دوسرے بیل کی تلاش میں روانہ ہوئے۔ وہ ہمیں دو میل دُور خشک نہر کے وسط میں بیٹھا ہوا مل گیا۔ بیل کو ساتھ لے کر واپس آئے۔۔۔ بڑی جدوجہد کے بعد گاڑی کو گڑھے سے باہر نکالا۔ اس کے بعد ہم بیرُور سٹیشن کی طرف روانہ ہوئے۔ دوسرے بیل کی لاش وہیں پڑی رہی اور اسے ہم نے چیتے چرخ اور گیدڑوں کی ضیافتِ طبع کے لیے رہنے دیا۔
دو گھنٹے بعد ہم نارنگیوں کے اس وسیع باغ میں داخل ہوئے جو بیرُور اور جھیل مدّک کے بالکل درمیان نہر کے کنارے واقع تھا۔ یہ باغ بالکل اجاڑ اور سنسان پڑا تھا۔ اس کی دو وجوہ ہو سکتی تھیں۔ ایک تو یہ کہ نارنگیوں کا موسم نہ تھا اور دوسرے یہ کہ آدم خور کے ڈر سے باغ میں کام کرنے والے مالی، قلی اور دوسرے لوگ کام پر نہ آتے تھے۔ یہ باغ ایک انگریز ریٹائرڈ فوجی افسر کرنل جان سائمن کی ملکیت تھا اور وہ مجھے اچھی طرح جانتا تھا۔ باغ کے شمالی حصّے میں بنے ہوئے کچھ کچے اور کچھ پکّے چھوٹے سے بنگلے میں اس کی رہائش تھی۔ ان دنوں وہ عمر کی ستّر منزلیں طے کر چکا تھا۔ جب ہم بَیل گاڑی سے اتر کر بنگلے میں داخل ہوئے، وہ باہر آرام کرسی پر لیٹا کتاب پڑھ رہا تھا۔ ہم پر نظر پڑتے ہی خوشی سے اِس کا جُھرّیوں بھرا چہرہ تمتما اٹھا۔۔۔ ہمیں فوراً اپنے آرام دہ کمرے میں لے گیا۔ اور ایک بڈھے مقامی ملازم کو ناشتا تیار کرنے کا حکم دیا۔
"میں جانتا ہوں تم آدم خور کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہو۔’ وہ مُسکرا کر بولا۔ "بھئی میرے قویٰ مضمحل۔۔۔ نگاہ کمزور۔۔۔ اور نشانہ خطا ہونے لگا ہے، ورنہ مَیں اس کا قصّہ بہت پہلے پاک کر چکا ہوتا۔ اب دیکھ لو میرا باغ ویران پڑا ہے۔ کوئی شخص یہاں آنے کے لیے تیّار نہیں۔ وہ میرے دو آدمیوں کو پکڑ کر لے جا چکا ہے اور کل رات پھر اِدھر سے گزرا تھا۔’
کرنل سائمن آدم خور کے دورے کی تفصیلات سناتا رہا اور ہم ناشتا کرتے رہے۔ یہ پہلا شخص تھا جس نے آدم خور کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کی بعض نشانیاں ذہن نشین کی تھیں۔
"جیسا کہ مَیں نے آپ کو بتایا، وہ ایک رات میرے نیپالی ملازم کو اٹھا کر لے گیا تھا۔’ کرنل سائمن کہنے لگا۔ "یہ نیپالی چند روز قبل ہی ملازم ہوا تھا اور ہرچند کہ مجھے نوکر کی ضرورت نہ تھی، مگر اس کے پاس مزّل لُوڈنگ بندوق دیکھ کر مَیں نے اُسے رکھ لیا۔ یہ ڈیڑھ ماہ پہلے کا ذکر ہے۔ آدم خور کی ہلاکت خیز سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ میرے تمام ملازم اس کی ہیبت سے لرزاں و ترساں تھے، کیونکہ کئی مرتبہ وہ باغ کے نزدیک بھی گھومتا پھرتا دیکھا گیا اور راتوں کو تو اکثر ادھر سے گزرتا تھا۔ اس دوران میں وہ میرے ایک قلی کو موقع پا کر ہڑپ بھی کر گیا اور کئی دن بعد اس کی لاش کے ٹکڑے جھیل مدّک کے کنارے ایک نالے کے قریب پڑے ہوئے پائے۔ بہرحال نیپالی چوکیدار نڈر ہونے کے ساتھ ساتھ حد درجہ احمق بھی ثابت ہوا۔ ایک روز رات کو بندوق چلنے کے دھماکے اور شیر کی گرج سُن کی میری آنکھ کھل گئی۔ یہ چاندنی رات تھی، مَیں نے باہر جھانکا، کیا دیکھتا ہوں کہ نیپالی گورکھا بندوق ہاتھ میں لیے اندھا دُھند دوڑتا ہوا میرے مکان کی طرف آرہا ہے اور ایک قد آور اور انتہائی طاقتور شیر اُس کے تعاقب میں ہے۔ شیر کا جبڑا زخمی تھا اور چہرہ لہولہان۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ نیپالی نے اُسے دیکھ کر اپنی بندوق چلائی، گولی شیر کے جبڑے پر لگی، لیکن وہ گرنے یا بھاگنے کے بجائے نیپالی کو پکڑنے کے لیے دوڑا۔ ممکن ہے وہ بچ جاتا، لیکن ٹھوکر کھا کر ایسا گرا کہ اٹھ نہ سکا، چنانچہ آدم خور نے اُسے چُوہے کی طرح منہ میں دبایا اور چھلانگیں لگاتا ہوا آناً فاناً نظروں سے غائب ہو گیا۔ اس حادثنے کے بعد میرے تمام ملازم رفو چکّر ہو گئے اور انہوں نے ٹھہرنے سے انکار کر دیا۔ اب میں یہاں تنِ تنہا اپنی قسمت کو رو رہا ہوں۔’
"آپ آدم خور کی کوئی خاص نشانی بتا سکتے ہیں؟’ ڈونلڈ نے پُوچھا۔
"نشانی؟ سب سے بڑی نشانی تو یہی ہے کہ اس کا جبڑا ابھی تک زخمی ہے۔ اور غالباً بایاں بڑا دانت بھی ٹوٹا ہوا ہے۔ مَیں نے اسے ایک روز دوپہر کے وقت اسی باغ میں پھرتے دیکھا تھا۔ اُسے معلوم ہے کہ میں یہاں رہتا ہوں اور شاید وہ میری ہی تاک میں ہے۔ جونہی مَیں نے اپنی رائفل اُٹھا کر فائر کرنے کا قصد کیا، وہ غراتا ہوا بھاگ گیا۔’
ہم چونکہ بے حد تھکے ماندے تھے، اس لیے کرنل سے اجازت لے کر ذرا کمر سیدھی کرنے لیٹ گئے۔ میں نے اندازہ کیا ہمارا میزبان آدم خور سے خوف زدہ ہے اور اگر یہ شخص اکیلا یہاں پڑا رہا تو تمام احتیاطوں کے باوجود آدم خور کسی دن اُسے پکڑ کر لے جائے گا۔
اس نے بتایا کہ شیر اس کی تاک میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہُوا کہ بوڑھے کرنل کی زندگی خطرے میں تھی۔ اُس کا مکان بھی اتنا مضبوط نہ تھا کہ آدم خور کو داخل ہونے سے روک سکتا تھا۔ معمولی لکڑی کے بنے ہوئے کمزور دروازے شیر کے ایک ہی دھکّے سے یقیناً ٹوٹ جاتے اور کچی دیواریں ڈھانا بھی اس کے لیے کچھ مشکل نہ تھا۔ آدم خور کی فطرت ہے اگر وہ کسی شخص کو نگاہ میں رکھ لے تو اس وقت تک پیچھا نہیں چھوڑتا جب تک اس کو ہلاک نہ کر لے۔ اکیلے دُکیلے آدمی کی خاص طور پر "نگرانی’ کرتا ہے اور موقع پاتے ہی وار کرنے سے کبھی نہیں چُوکتا۔ کرنل نے ہمیں بتایا کہ آدم خور اکثر رات کے وقت اس باغ اور جھیل مدّک کے درمیانی علاقے میں پھرتا ہے، چنانچہ شام کی چائے پر جمع ہوئے، تو مَیں نے اُس سے کہا:
"آپ نے اپنی حفاظت کا کیا انتظام کیا ہے؟ یہ دیواریں اور یہ دروازے ظاہر ہے آدم خور کو روک نہیں سکتے۔ میں حیران ہوں اُس نے اب تک آپ کا صفایا کیوں نہیں کیا۔’
اِن الفاظ سے کرنل کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے زردی سی چھا گئی اور دم بخود ہو کر میری طر تکنے لگا، پھر بولا:
"پناہ بخدا، یہ بات تو میرے ذہن میں نہ آئی تھی۔ آپ سچ کہتے ہیں، میری خواب گاہ کا دروازہ یقیناً کمزور ہے اور شیر چاہے تو اُسے توڑ سکتا ہے۔ مَیں کل ہی بیرّور سے کسی بڑھئی کو بلوا کر ان دروازوں کے آگے لکڑی کی مضبوط بلّیاں لگواتا ہوں۔ ویسے مَیں نے اپنے بڑے لڑکے کو یہاں پہنچنے کا خط بھی لکھ دیا ہے۔ وہ آج کل بنگلور میں کام کر رہا ہے، بس پہنچنے ہی والا ہوگا۔ وہ خود بھی اچّھا شکاری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس سے خاصی مدد لے سکیں گے۔’
"یہ آپ نے اچھا کیا۔ تاہم آپ اپنی حفاظت کا انتظام ضرور کیجیے۔’
ہم جنگل میں جانے کی تیاری کرنے لگے۔ کرنل نے ہمیں نئی ٹارچیں دیں، ایک بڑے تھرماس میں چائے اور بسکٹوں کا ڈبّا ہمارے حوالے کیا اور باغ کے آخری کنارے تک رخصت کرنے آیا۔
"اچھا، دوستو شب بخیر۔ خدا کرے آپ اس مہم میں کامیاب ہوں تاکہ خلقِ خُدا چَین کی نیند سو سکے۔ میرا خیال ہے کہ آدم خور جھیل مدّک کے قریب واقع ایک گہری کھائی میں رہتا ہے۔ اُس کے مارے ہوئے اکثر آدمیوں کی لاشوں کے بچے کھچے حِصّے وہیں سے ملے ہیں۔ یہ راستہ زیادہ دشوار گزار اور خطرناک ہے اس لیے احتیاط لازمی ہے۔ مجھے اُمید آپ جب واپس آئیں گے، تو میں آپ کی زبان سے کوئی خوش خبری سُن سکوں گا۔ اچّھا، خدا حافظ۔’
کرنل سائمن کے باغ سے نکل کر ہم جھیل مدّک کی طرف چلے۔ جنگل میں تاریکی سُرعت سے پھیل رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا ڈونلڈ پر آدم خور کی خاصی ہیبت بیٹھ چکی ہے اور وہ بار بار چونک دائیں بائیں دیکھنے لگا تھا۔ خود میرے دل پر بھی خوف کا ہلکا سا اثر ہونے کے ساتھ ساتھ حسرت و الم کی نامعلوم کیفیت طاری ہوتی جا رہی تھی۔ برسوں جنگل کی فضا میں رہنے کے باوجود مجھ میں اتنا شعور تو یقیناً پیدا ہو چکا تھا کہ پیش آنے والے خطروں اور حادثوں کے بُو باس سُونگھ لوں، لیکن ڈونلڈ کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا۔
بُڈھے کرنل نے آدم خور کا جو حُلیہ بیان کیا تھا، اُس سے میرے ذہن میں ایک خاص نقشہ تیّار ہو گیا تھا۔ مجھے یقین تھا جونہی حریف سے آمنا سامنا ہوگا، فوراً اُسے پہچان لوں گا۔ ہم دونوں چپ چاپ، آہٹ پیدا کیے جھیل کی طرف بڑھ رہے تھے۔ تنگ راستے کے دونوں جانب جنگل گھنا اور گنجان تھا۔ درخت نہایت اونچے اور ان کی ٹہنیاں اور شاخیں ایک دوسرے سے گتھی ہوئی تھیں۔ بندروں کی اچھل پھاند یا چڑچڑانے کی آوازوں کے سوا جنگل پر ایک ہیبت ناک سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ہم آگے چل کر گُھپ اندھیرے کے بیکراں سمندر میں ڈوب گئے۔ درختوں کی جُھکی ہُوئی شاخیں ہمیں روکنے کی کوشش کر رہی تھیں، لیکن ہم انہیں ہٹانے اور گزرنے کی راہ بناتے ہوئے جھیل کے قریب پہنچ ہی گئے۔ تھوڑی دیر بعد پتہ چلا کہ اندھیرے میں ہم ایک نئے راستے پر نکل آئے ہیں اور اب بالکل نہر کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ یہ نہر کسی زمانے میں جھیل مدّک سے نکالی گئی تھی اور خاصی چوڑی اور گہری تھی۔ آگے چل کر نہر ایک ڈھلان کی طرف مُڑی، تو پانی گرنے کی مدھم سی آواز کانوں میں آنے لگی۔
ہم آدم خور کے علاقے میں داخل ہو چکے تھے، اس لیے مَیں نے ڈونلڈ کو ہوشیار رہنے کی تاکید کرتے ہوئے ٹارچ روشن کر دی۔ کچھ فاصلے پر جھیل مدّک کا بند نظر آیا جو تقریباً پچیس فٹ اُونچا تھا۔ بند تک پہنچنے کے لیے ہمیں انتہائی دشوار گزار اور گنجان ترین حصے سے گزرنا پڑا جہاں ہر لمحے کسی ناگہانی حادثے کا خطہر موجود تھا۔ ایک مقام پر جھاڑیوں سے گزرتے ہوئے کسی مہلک جانور کی موجودگی کا احساس ہوا۔ میں نے ڈونلڈ کو رکنے کی ہدایت کی اور دونوں ٹارچیں روشن کر دیں۔ کیا دیکھتا ہوں ایک سیاہ ناگ پانچ فٹ کے فاصلے پر کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ روشنی ہوتے ہی پھنکارا اور سر اٹھا کر ہماری طرف دیکھنے لگا۔ اس کی ننھی ننھی سرخ آنکھیں کوئلوں کی طرح دہک رہی تھیں۔ ناگ کو دیکھتے ہی ڈونلڈ کے حلق سے ہلکی سی چیخ نِکلی اور اس سے پہلے کہ میں اُسے روکوں، وہ ناگ پر فائر کر چکا تھا۔ ظاہر ہے اس نازک صورتِ حال میں صحیح نشانہ لینا محال تھا، سانپ آناً فاناً گھاس میں سرسراتا ہوا نظروں سے غائب ہو گیا۔ لیکن فائر کے دھماکے سے جنگل کی سوئی ہوئی زندگی بیدار ہو گئی۔ درختوں پر بسیرا کرنے والے کوّے، چیلیں اور ہزار ہا چمگادڑیں ہَوا میں چکّر کاٹنے لگیں اور ان کے پَروں کی ناگوار پھڑپھڑاہٹ سے دیر تک فضا گونجتی رہی۔
"تمہیں اتنی بدحواسی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔’ میں نے ڈونلڈ کو سمجھایا۔ اس کے چہرے پر اب بھی دہشت کے آثار ہویدا تھے۔ دراصل سانپ اُس کی نفسیاتی کمزوری تھی۔ وہ ریچھوں اور چیتوں کے سامنے بے خوفی سے کھڑا ہو جاتا، لیکن کسی معمولی اور بے ضرر سانپ کو دیکھتے ہی اس کی روح فنا ہونے لگتی تھی۔
"ڈیڈی، اگر مَیں گولی نہ چلاتا، تو وہ ہم میں سے ایک کو ضرور ڈس لیتا۔’ ڈونلڈ نے جواب دیا اور پیشانی سے پسینے کے قطرے پونچھنے لگا۔ اتنے میں مشرق کی جانب سے ابھرتے ہوئے چاند کی روشنی آہستہ آہستہ جنگل کو منوّر کرنے کی کوشش کرنے لگی، لیکن درخت اتنے گنجان اور ایک دوسرے سے یوں جڑے ہوئے تھے کہ چاند کی بڑی کرنیں بڑی مشکل سے گزر رہی تھیں۔ تاہم اب اِردگرد کا منظر ہمارے سامنے اتنا واضح ہو گیا تھا کہ ٹارچ روشن کرنے کی حاجت نہ رہی۔
پچّیس فٹ بلند بند پر چڑھنا جتنا آسان نظر آتا تھا، اُتنا ہی دشوار بن گیا، دراصل ہم دونون بُری طرح تھک گئے تھے اورچاہتے تھے کسی جگہ رک کر دم لے لیں اور سب سے زیادہ محفوظ مقام جھیل کا یہ بند تھا۔ بند پر پہچنچ کر کھلی اور روشن فضا نصیب ہوئی اور ہم نے اطمینان کا سانس لیا۔ ٹھنڈی خوشگوار ہَوا چل رہی تھی۔ جھیل مدک کا پانی چاندنی میں چمک رہا تھا۔ لیکن اس کی رفتار بہت سست تھی۔ پاٹ تقریباً سو گز چوڑا تھا اور جس جگہ ہم بیٹھے تھے، وہاں سے تقریباً ایک فرلانگ دور یہ جھیل اچانک دائیں ہاتھ مڑ کر نظروں سے اوجھل ہو جاتی تھی۔
کرنل سائمن نے بتایا تھا کہ آدم خور کا مَسکن جھیل کے نزدیک ایک تاریک کھائی ہے اور مَیں اسی کھائی کا ایک نظر معائنہ کرنا چاہتا تھا، لیکن اس کے لے ضروری تھا کہ ہم جھیل عبور کر کے دوسرے کنارے پر جائیں۔ چنانچہ آدھ گھنٹہ سستانے اور گرم گرم چائے حلق سے اتارنے کے بعد جھیل میں اتر گئے۔ ہم نے گھٹنوں تک اونچے شکاری فُل بوٹ پہن رکھے تھے۔ جھیل کے درمیان پہنچے، تو اندازہ ہوا کہ یہاں پانی گہرا ہے۔ آگے بڑھے، تو پانی کمر تک آگیا۔ غرض یہ کہ جب دوسرے کنارے پر آئے، تو ہمارے کپڑے اچھی طرح تر ہو چکے تھے۔ اب مسئلہ گیلے کپڑے اتار کر سُکھانے کا تھا۔ چنانچہ سوکھی شاخیں جمع کر کے آگ جلائی اور دیر تک کپڑے سکھاتے رہے، اس اثناء میں ڈونلڈ تو وہیں پڑ کر سو گیا اور مَیں بیٹھا پائپ پیتا رہا۔ نہ معلوم کس وقت مجھ پر غنودگی طاری ہوگئی اور آنکھ اس وقت کھلی جب آدم خور کے گرجنے اور کسی آدمی کے چلّانے کی ملی جلی آوازیں سنائی دیں۔ مجھے یوں احساس ہوا جیسے کسی نے آگ میں سُرخ کی ہوئی سُلاخ سینے میں جھونک دی ہے، کیونکہ آنکھ کھلتے ہی اِدھر اُدھر دیکھا، تو ڈونلڈ نظر نہ آیا۔ مَیں یہ سمجھا کہ آدم خور اُسے اٹھا کر لے گیا۔ چند ثانیوں کے اس بھیانک خیال کے زیرِ اثر میری جسمانی اور ذہنی قوت معطل ہو گئی۔ اس ناگہاں صدمے سے مَیں یقیناً بے ہوش ہو جاتا کہ قریب ہی ڈونلڈ کی آواز آئی۔ وہ ایک درخت کے تنے سے لگا کھڑا تھا۔
"ڈونلڈ۔۔۔ ڈونلڈ۔۔۔’ مَیں چِیخا اور اس کی طرف لپکا۔ "خُدا کا شکر ہے کہ تم زندہ ہو، میں تو سمجھا تھا کہ آدم خور تمہیں لے گیا۔ ابھی ابھی مَیں نے کسی آدمی کے چِیخنے اور شیر کے گرجنے کی آواز سُںی تھی۔’
"اسی آواز نے تو مجھے جگایا تھا۔’
یہ کہہ کر وہ میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔ چند منٹ بعد پھر کسی کے چِیخنے چلّانے کی آوازیں آئیں۔ یقیناً کوئی بدنصیب آدمی شیر کے خونیں جبڑوں کا شکار ہو گیا تھا، لیکن سوال یہ تھا کہ رات کے اس سنّاٹے میں کون بیوقوف ہے جو آدم خور کا لقمہ بننے کے لیے ادھر آ نکلا۔ بہرحال یہ وقت سوچنے اور غور کرنے کے بجائے عمل کرنے کا تھا۔ ہم دونوں اپنی اپنی رائفلیں سنبھال کر اُس کی طرف لپکے۔ آدم خور کی پُھرتی اور عیاری کے مقابلے میں ہماری یہ بھاگ دوڑ وقت ضائع کرنے کے مترادف تھی، کیونکہ وہ اتنی دیر میں اپنے شکار کو لے کر کہیں سے کہیں نکل جاتا ہے۔
جھیل کا یہ کنارہ بدبو دار دلدلی قطعوں اور جھاڑ جھنکاڑ سے پٹا پڑا تھا۔ جابجا گہرے گڑھے اور چھوٹی بڑی کھائیاں راہ روکے ہوئے تھیں، لیکن ہم نتائج سے بے پروا ٹارچوں کی روشنی میں اُس طرف بڑھتے گئے جدھر سے آواز آئی تھی۔ یہاں آم کے درختوں کا ایک گھنا جھنڈ تھا اور اسی کے قریب ہم نے شیر کے پنجوں کے نشان اور خون کے قطرے دیکھے۔ جھنڈ کے اندر اتنی تاریکی تھی کہ اس میں داخل ہونے کا حوصلہ نہ ہوا۔ شیر اپنے شکار کو لے کر اسی جھنڈ میں گیا تھا اور ممکن ہے اب بھی کسی جھاڑی یا گھاس کے اندر بیٹھا اپنا پیٹ بھر رہا ہو۔ ہم دیر تک بے حس و حرکت کھڑے کوئی اور آواز سننے کی کوشش کرتے رہے، لیکن بے سُود۔۔۔ ہر طرف ہُو کا عالم طاری تھا۔ جیسے جنگل کا یہ حصّہ برسوں سے ویران اور غیر آباد پڑا ہوا اور جنگلی جانور یہاں نکل کر کسی اور حصّے میں جا بسے ہوں۔
مَیں نے گھڑی پر نگاہ ڈالی، رات کے گیارہ بجے تھے۔ سمجھ میں نہ آیا یہ شخص کون تھا جسے شیر پکڑ کر لے گیا۔ شاید وہ ان آوارہ اور بدمعاش آدمیوں میں سے کوئی ہو جو پولیس کے خوف سے جنگلوں میں چوری چھپے شراب بنایا کرتے ہیں۔ اگر ایسی ہی بات ہے، تو اس شخص کے دوسرے ساتھی بھی یہیں ہونے چاہیئں۔ مَیں نے ڈونلڈ کو ساتھ رہنے کی ہدایت کی اور جھنڈ میں داخل ہو گیا۔ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد پتا چلا کہ جھنڈ کے عین وسط میں خاصی کشادہ جگہ ہے۔ غالباً گزشتہ دنوں یہاں درختوں کی کٹائی کا کام شروع کیا گیا تھا۔ کیونکہ تین چار درختوں کے کٹے ہوئے تنے ایک دوسرے کے اُوپر پڑے ہوئے تھے۔ مَیں نے ٹارچ کی مدد سے ان بدمعاشوں کو کمین گاہ کا سراغ لگانا چاہا، مگر ناکامی ہوئی۔ اس جگہ زمین پر لمبی گھاس کثرت سے اُگی ہوئی تھی، اس لیے شیر کے پنجوں کے نشان اور خون کے دھبّے نظر آنا مشکل تھا۔ لیکن مَیں نے ہمت نہ ہاری، اتنا تو یقین تھا کہ شیر اپنے شکار کو لے کر اسی جھنڈ میں داخل ہوا ہے مگر گیا کدھر، یہی سوال بار بار ذہن میں گردش کر رہا تھا۔
تھوڑی دیر کی جدوجہد اور تلاش کے بعد آخرکار ہم نے اس بدنصیب کو پا ہی لیا۔ اُس جُھنڈ سے کوئی دو فرلانگ دُور نکلنے کے بعد پھر خون کے دھبّے اور شیر کے پنجوں کے نشانات دیکھے گئے۔ ہم تیزی سے آگے بڑھے اور اپنے آپ کو اسی پگڈنڈی پر پایا جو بیرُور کی طرف جاتی تھی۔ لاش ایک دس فٹ اونچی خار دار جھاڑی کے قریب پڑی تھی۔ ایک نظر دیکھتے ہی پتہ چل گیا کہ وہ کوئی انگریز نوجوان ہے۔ اس کی خاکی وردی تار تار ہو چکی تھی اور برہنہ جسم پر جابجا شیر کے پنجوں اور دانتوں کے نشان نمایاں تھے۔ گردن اور سینے پر گہرے گہرے گھاؤ تھے جن پر تازہ خون کے لوتھڑے جمے ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آدم خور کسی وجہ سے پیٹ نہیں بھر سکا اور لاش یہیں چھوڑ گیا ہے۔ ممکن ہے وہ نزدیک ہی کہیں چُھپ گیا ہو۔ مَیں نے ڈونلڈ کو ایک درخت پر چڑھنے کا اشارہ کیا اور چند منٹ ادھر ادھر دیکھنے کے بعد خود بھی درخت پر چڑھ گیا۔ اب لاش عین ہمارے سامنے کوئی بیس تیس گز کے فاصلے پر پڑی تھی۔ اس وقت ایک ایک لمحہ عذاب کی مانند گزر رہا تھا اور میرے اعصاب میں وہی غیر معمولی چُستی عود کر آئی تھی جو اس قسم کے مقابلوں میں میری مدد کرتی تھی۔ لاش دیکھتے ہی میں سمجھ گیا کہ یہ بدنصیب انگریز نوجوان کون تھا۔ کرنل سائمن کا بیٹا جو بنگلور سے اپنے باپ کی حفاطت کے لیے یہاں آیا تھا۔ اور جب کرنل کو پتا چلے گا کہ ولیم سائمن آدم خور کے ہتھے چڑھ گیا، تو نہ معلوم اس کا کیا حال ہوگا۔ اب سوال یہ تھا کہ آدھی رات کو اس سنسان اور خطرناک جنگل میں وہ آدم خور کا شکار کیونکر بنا۔
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ولیم سائمن کسی حادثے کے باعث اپنے باپ کے باغ تک پہنچ نہیں سکا اور راستہ بھول کر اس طرف آ نکلا اور آدم خور کا شکار ہو گیا۔ اس کڑیل جوان کی حسرت ناک موت کا صدمہ میرے دماغ پر ایسا تھا کہ میں اپنے آنسو روک نہ سکا۔ ڈونلڈ کے چہرے پر بھی ایسے ہی تاثرات پھیلے ہوئے تھے۔ آدم خور پیٹ بھرے بغیر ہی لاش کو چھوڑ کر جا چکا تھا۔ اس لیے یقیناً جھلّایا ہوا اِدھر اُدھر پھر رہا ہوگا۔ شاید اس انتظار میں ہو کہ ہم اس مقام سے ٹلیں اور پھر وہ لاش پر آئے، لیکن ضرورت سے زیادہ ہوشیار ثابت ہوا اور اگرچہ میں نے کئی مرتبہ اس کے چلنے پھرنے کی آہٹ بھی سنی۔ تاہم وہ نظر نہ آیا۔ ایک دو بار وہ غصے سے غرّایا بھی تھا۔
صبح کے چار بجے جب کہ مشرق کی طرف سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہَوا کے جھونکے میں تھپکیاں دے دے کر سُلانے کی کوشش کر رہے تھے، آدم خور نے جھاڑیوں میں سے سر نکال کر جائزہ لیا۔ اَب میں نے دیکھا کہ اس کا چہرہ عام شیروں کی نسبت خاصا چوڑا ہے اور جبڑے کا ایک بڑا دانت ٹوٹا ہوا ہے۔ آدم خور نے گردن اٹھا کر اُس درخت کی طرف نگاہ کی جس پر ہم پناہ لیے ہوئے تھے۔ رات بھر کا جاگا ہوا ڈونلڈ بے خبر سو رہا تھا۔ مَیں نے اسے پیر کی حرکت سے جگایا اور آنکھ کے اشارے سے آدم خور کی طرف متوجہ کیا۔ آپ یقین کیجئے میری اس معمولی سی حرکت کا بھی آدم خور کو فوراً پتہ چل گیا اور دوسرے ہی لمحے وہ دوبارہ جھاڑیوں میں غائب ہو چکا تھا۔ اس کے بعد ہم نے اس کی شکل نہیں دیکھی۔
سورج کی چمکیلی دھوپ چاروں طرف پھیل چکی تو ہم دونوں درخت سے نیچے اترے۔ کسی اور کی لاش ہوتی، اسے یہیں پڑا رہنے دیتا، کیونکہ آدم خور کو گھیرنے کا یہی ایک ذریعہ تھا، لیکن ولیم سائمن کی لاش آدم خور کے حوالے کر دینا مجھے پسند نہ تھا۔ چنانچہ ہم نے اسے اپنے فالتو کپڑوں میں لپیٹا اور اٹھا کر لے چلے۔ اب ہم اس پگڈنڈی پر چل رہے تھے جو بیرُور کی طرف جاتی تھی۔ دن کی روشنی میں یہ سرسبز و شاداب علاقہ بے حد خوب صُورت نظر آ رہا تھا، لیکن افسوس یہاں کوئی آدمی نہ تھا۔ ہر طرف ویرانی اور سنّاٹا ہی سنّاٹا۔ راستے میں جنگلی خرگوش اور گیدڑوں کے سوا کوئی ذی رُوح نہ ملا اور ان چھوٹے جانوروں نے بھی ہمیں حیرت سے یوں دیکھا جیسے زبانِ حال سے کہہ رہے ہوں:
"تمہیں اس طرف آنے کی جرأت کیسے ہوئی؟ بے وقوفو، جانتے نہیں اِدھر آدم خور رہتا ہے۔’
ابھی ہم لاش اٹھا کر آدھ میل ہی گئے تھے کہ سامنے سے ایک گھوڑا گاڑی آتی دکھائی دی۔ ہم رُک گئے۔ گاڑی پر پانچ سات آدمی ہاتھوں میں کلہاڑیاں اور مزّل لوڈنگ بندوقیں لیے بیٹھے تھے۔ پھر انہی میں کرنل سائمن کا سکڑا ہوا سُرخ چہرہ نظر آیا جس کی آنکھیں سوجی تھیں۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ ہم نے جلدی سے ولیم سائمن کی لاش گھاس میں رکھ دی اور آنے والوں کا استقبال کرنے کے لیے آگے بڑھے۔
"میرا بیٹا۔۔۔ میرا بیٹا۔۔۔ کہاں ہے وہ؟’ بڈھا کرنل چلّایا۔ گاڑی سے اترنے والوں نے اسے سنبھالا۔ کرنل پر دیوانگی طاری تھی۔ چند لمحوں کے لیے اس نے ہمیں بھی نہ پہچانا۔ کوچبان الگ تھلگ کھڑا تھرتھر کانپ رہا تھا اور اس کی صورت دیکھتے ہی اس حادثے کی تمام تفصیلات خودبخود میرے ذہن میں ترتیب پانے لگیں۔ ولیم کی لاش دیکھ کر کرنل کو سکتہ سا ہو گیا اور اگر مَیں آگے بڑھ کر اسے سنبھال نہ لیتا، تو وہ غش کھا کر زمین پر گر چکا ہوتا۔
ولیم کی لاش گھوڑا گاڑی پر رکھ کر ہم باغ میں پہنچے۔ اس دوران میں کرنل ہوش میں آ چکا تھا۔ مَیں نے اسے بستر پر چپ چاپ لیٹے رہنے کی ہدایت کی اور ساتھ آنے والے آدمیوں سے کہا کہ کوئی شخص یہاں سے میری اجازت کے بغیر نہ جائے۔ نہا دھو کر اور ناشتے سے فارغ ہو کر مَیں نے کوچبان کو بُلوایا۔ یہ ایک ادھیڑ عُمر، دُبلا پتلا اور پوپلے منہ والا ہندو تھا۔ اُس نے اپنا نام لالی بتایا۔
"جناب، اس میں میر کوئی قصور نہیں، صاحب بہادر میرے منع کرنے کے باوجود جنگل کی طرف چلے گئے تھے۔ شام کو سات بجے کی گاڑی سے وہ بیرُور سٹیشن پر اُترے اور میری گاڑی پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے جب مجھے نارنگیوں کے باغ کی طرف چلنے کا حکم دیا، تو مَیں نے کہا: "سرکار، اس وقت جنگل میں نہ جاؤں گا۔ کیوں کہ وہاں آدم خور رہتا ہے اور اس نے بہت سے آدمیوں کو ہڑپ کر لیا ہے۔ لیکن انہوں نے میری ایک نہ سنی، وہ شراب کے نشے میں تھے جناب، میرے انکار پر مجھے بید سے پیٹنا شروع کر دیا۔ دوسرے کوچبانوں نے بھی صاحب کو سمجھانے کی کوشش کی، مگر انہوں نے ان کو بھی مارا۔ میں مجبور ہو گیا۔’ لالی کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں۔ وہ میرے پَیر چُھوتے ہوئے بولا:
"جناب، آپ پولیس کو خبر نہ دیجیے۔۔۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچّے ہیں۔ اگر مجھے جیل ہو گئی تو وہ بھوکوں مر جائیں گے۔’
لالی کے بیان سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ سچ کہہ رہا ہے۔ چنانچہ مَیں نے اُسے دلاسا دیتے ہوئے کہا:
"گھبراؤ نہیں، میں سمجھ گیا ہوں اور اس میں قصور مرنے والے کا ہے۔ شراب ہی نے اس کی جان لی۔ اچّھا، آگے بتاؤ کیا ہُوا؟’
"باغ تک پہنچنے کے لیے مجھے ایک لمبا چکّر کاٹ کر جانا پڑتا تھا۔ اور وہ راستہ محفوظ بھی تھا، لیکن ولیم صاحب نے مجھ سے کہا کہ وہ بند والے راستے سے جانا چاہتے ہیں، کیونکہ یہ راستہ نزدیک ہے۔ یہ سُن کر مَیں نے ایک بار پھر انہیں بتایا کہ آدم خور رہتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ حملہ کر دے۔ میری اس بات پر ولیم صاحب نے پستول نکال لیا اور غصے سے کہنے لگے: "ہم اُس شیر کو مار ڈالے گا اور اگر تم چلنے سے انکار کرتا ہے، تو ہم تمہیں بھی شُوٹ کرے گا۔’ گاڑی جب بند کے نزدیک پہنچی تو چاند نکل رہا تھا۔ آگے راستہ تنگ اور خطرناک تھا، اس لیے گھوڑے کی رفتار ہلکی کرنی پڑی۔ بند کے اوپر سے گزرتے ہوئے یکایک ولیم صاحب نے مجھے گاڑی روکنے کا حکم دیا اور کہنے لگے کہ وہ چاندنی رات میں جھیل کی سیر کرنا چاہتے ہیں۔ وہ گاڑی سے اُتر کر چند ہی قدم چلے تھے کہ جھاڑیوں میں سے ایک شیر نکلا اور اُس نے ولیم صاحب کو دبوچ لیا۔ مَیں نے ولیم صاحب کی چیخیں سنیں، لیکن انہیں کیسے بچاتا۔ شیر کی آواز سُن کر میرا گھوڑا بدک گیا اور سَرپٹ دوڑنے لگا۔ مَیں واپس بیرُور سٹیشن چلا گیا اور دوسرے کوچبانوں کو حادثے کی تفصیلات بتائیں۔ ہم نے طے کیا کہ صبح ہوتے ہی کرنل کو خبر کر دیں گے۔’
مَیں نے لالی کو رخصت کر کے دوسرے آدمیوں کو باری باری بلوایا اور سب کے بیان لیے۔ اس سے ثابت ہوا لالی واقعی بے گناہ ہے۔ نوجوان ولیم سائمن شراب کے نشے میں دُھت تھا اور اس نے کوچبانوں کو بید سے مارا تھا، کیوں ایک شخص کی پیٹھ اور گردن پر اس وقت بھی بید کی ضربوں کے نشانات ابھرے ہوئے تھے۔
بیٹے کی ناگہانی موت نے کرنل سائمن کا دل و دماغ ہلا ڈالا تھا۔ وہ الٹی سیدھی باتیں کرتا اور اپنی کرسی پر بیٹھا دیوار پر لٹکی ہوئی ولیم سائمن کی تصویر کو گھورتا رہتا۔ کئی مرتبہ میں نے اسے رائفل کا معائنہ کرتے اور اس میں کارتوس بھر کر ہوائی فائر کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ اس کے بوڑھے بازوؤں میں نہ جانے کہاں سے قوت آ جاتی کہ ہاتھ کانپے بغیر نشانہ نہ لیتا اور گولی چلا دیتا، لیکن کھانا کھاتے ہوئے بار بار چھری کانٹا ہاتھ سے گِر جاتا تھا۔
"بہتر یہ ہے کہ بڑے میاں کو کسی ہسپتال میں داخل کرا دیا جائے۔’ ڈونلڈ نے مجھ سے کہا۔ "ان کی حالت روز بروز خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ کل جب آپ باہر گئے ہوئے تھے، کرنل نے ایک عجیب حرکت کی۔’
"وہ کیا؟’ میں نے پُوچھا۔
"آپ کو شاید یاد ہو کہ کرنل کے بڑے کمرے میں مٹّی سے بنے ہوئے ایک شیر کا چھوٹا سا مجسّمہ رکھا تھا۔ کرنل پہلے اُسے غور سے دیکھتا رہا، پھر اُس کے لبوں پر پُراسرار مسکراہٹ کھلینے لگی۔ اس وقت مَیں کمرے کی شمالی کھڑکی کے قریب کھڑا یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد کے کرنل قہقہے لگانے لگا اور پِھر ایسے الفاظ میں گیت گانے لگا جو میری سمجھ سے بالاتر تھے۔۔۔ اس نے دیوار پر لٹکا ہوا بڑا سا خنجر اُتارا، اُس کی دھار پر ہاتھ پھیر کر اس کی تیزی کا اندازہ کرنے لگا۔
مَیں ڈرا کہ وہ کہیں اس پاگل پن میں اپنی ہی گردن پر نہ پھیر لے۔ چنانچہ اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے مَیں نے آواز دی۔ مگر اُس نے میری آواز نہ سُنی، بلکہ آگے بڑھ کر خنجر مٹی کے بنے ہوئے شیر کے سینے پر مارا۔ شیر مینٹل پیس سے گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا، لیکن کرنل اس وقت تک خنجر چلاتا رہا جب تک یہ ٹکڑے مٹی کے ننھے ننھے ریزوں میں تبدیل نہ ہو گئے۔ اس کے منہ سے کف جاری تھا اور جسم کا تمام خون چہرے پر سمٹ آیا تھا۔ پھر وہ تیورا کر صوفے پر گر گیا۔ خنجر اس وقت بھی اس کے ہاتھ میں تھا۔’
"یہ صورتِ حال واقعی نازک اور خطرناک ہے۔ بے چارے کا دماغ الٹ گیا ہے۔ صدمہ بھی تو ایسا ناگہانی ہے۔ میرا خیال ہے کرنل آسانی سے ہسپتال جانے کے لیے تیّار نہ ہوگا، وہ ہمیں بھی شبہے کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اسے وہم ہے کہ ولیم سائمن کی ہلاکت میں ہمارا ہاتھ ہے۔’
ابھی ہم یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ کرنل سائمن اندر سے نِکلا اور ہمیں وہاں پا کر چہرے پر خشونت کے آثار پیدا کرتے ہوئے بولا:
"اب کیا مجھے مارنے کی فکر میں ہو؟ تمہی نے میرے بچّے کو ہلاک کیا ہے۔۔۔ تمہی نے۔۔۔ تم قاتل ہو۔۔۔ خونی ہو۔۔۔’ پھر یک بہ یک دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ مَیں اُسے سہارا دے کر کمرے میں لے گیا۔ اور بستر پر لٹا دیا۔ اب وہ لرزتی ہوئی آواز میں بولا:
"مجھے معاف کر دینا مسٹر اینڈرسن، میرے حواس قابو میں نہیں۔ مَیں اب چند روز کا مہمان ہوں اپنے بیٹے سے ملنا چاہتا ہوں۔۔۔ وہ اب تک کیوں نہیں آیا۔۔۔ جاؤ ذرا دیکھو۔۔۔ کہیں وہ راستہ تو نہیں بُھول گیا۔۔۔’
وہ دیر تک ہذیانی کیفیت میں مبتلا رہا اور پھر آہستہ آہستہ اس کی طبیعت پُرسکون ہوئی۔ مجھے اپنے قریب پا کر حیرت سے کہنے گا:
"مسٹر اینڈرسن، کیا مَیں بے ہوش ہو گیا تھا؟’
"جی ہاں میرا خیال ہے آپ کو چند روز ہسپتال میں رہنا چاہیے۔ طبیعت بحال ہو جائے، تو واپس اپنے گھر آ جائیے گا۔’ مَیں نے جواب دیا۔ یہ سنتے ہی کرنل پر پھر پاگل پن کا دَورہ پڑا۔
"کبھی نہیں۔۔۔’ وہ چلاّیا۔ "تم۔۔۔ تم مجھ اب اِس گھر سے بھی نکال دینا چاہتے ہو۔’ وہ بُری طرح ہانپ رہا تھا۔ اُس نے اٹھنے کی کوشش کی، لیکن مَیں نے اسے بستر پر لٹایا اور ڈونلڈ کو اشارہ کیا کہ اُسے پانی پلائے۔ پانی پی کر اُس کے ہوش ٹھکانے آئے اور آنکھوں میں پھیلی ہوئی سُرخی آہستہ آہستہ غائب ہونے لگی۔ چند لمحے بعد وہ ایک معصوم بچّے کی طرح گہری نیند سو رہا تھا۔
اب سوال یہ تھا کرنل سائمن کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا تو اس کے مکان اور باغ کی رکھوالی کون کرے گا؟ لوگ تو بلاشبہہ یہی سمجھتے کہ ہم نے اس کی جائیداد پر قبضہ کرنے کے لیے یہ حرکت کی ہے۔ دوسری طرف یہ خدشہ بھی تھا کہ اگر کرنل کو تنہا چھوڑ دیا گیا، تو وہ آدم خور کے جبڑوں کا شکار نہ ہو جائے۔ آخر ایک تدبیر میرے ذہن میں آئی۔ مَیں نے ضلع کھادر کے ڈپٹی کمشنر کو خط لکھنے کا ارادہ کیا اور اس میں ولیم سائمن کی ہلاکت اور کرنل کی بیماری کے تمام واقعات تفصیلاً بیان کیے۔ مجھے یقین تھا کہ ڈپٹی کمشنر سرکاری طور پر اس مسئلے کو آسانی سے حل کر سکے گا۔ خط لکھ کر ڈونلڈ کے سپرد کیا کہ وہ ابھی جا کر بیرُور سٹیشن سے پوسٹ کر دے اور واپسی میں ایک بیل گاڑی والے کو ساتھ لیتا آئے۔
دن کا بقیہ حصّہ کرنل کی نگرانی اور اس کا دل بہلانے میں کٹا۔ اس کی حالت عجیب تھی۔ صحیح الدماغ آدمی کی طرح باتیں کرتے کرتے اچانک دورہ پڑ جاتا اور ہذیان بکنے لگتا۔ دَورے کی حالت میں ہمیشہ مجھے نظر انداز کر کے اپنے مرنے والے بیٹے کو آوازیں دیتا۔ کبھی اسے سو جانے کی تلقین کرتا، کبھی کھانا کھانے کی، پھر زار زار رونے لگتا، اس حالت کے دُور ہونے کی علامت تھی۔ رو دھو کر وہ اپنی اصلی کیفیت پر آ جاتا۔
سُورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے ڈونلڈ واپس آ گیا۔ وہ اپنے ساتھ بَیل گاڑی کے بجائے ایک لمبے تڑنگے ادھیڑ عمر آدمی کو پکڑ لایا تھا۔ جس کے بارے میں اس نے مجھے بتایا کہ وہ مسلمان ہے اور اس کا نام ہے ابراہیم۔۔۔ اس نے مجھے مسکرا کر سلام کیا اور ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ مَیں نے اس شخص کا اوپر سے نیچے جائزہ لیا۔ چال ڈھال سے وہ فوجی سپاہی نظر آتا تھا اور میرا یہ اندازہ درست ہی نکلا۔
"تم اس علاقے کے رہنے والے معلوم نہیں ہوتے۔’ میں نے کہا۔
"میں پنجاب کا رہنے والا ہوں جناب۔’ اس نے بتایا۔ "پہلی بڑی جنگ میں بھرتی ہوا تھا۔ جنگ ختم ہوئی تو مجھے فوج سے چُھٹی دے دی گئی۔ روزگار کی تلاش میں گھر سے نکلے ہوئے دس سال ہو گئے ہیں۔ بنگال، یو پی، دہلی، اور بمبئی میں گھومتا پھرتا رہا۔ میں نے مشہور شکاری جم کار بٹ کے بھی ساتھ کوماؤں کے جنگلوں میں سفر کیا ہے جناب، وہ مجھ پر بڑا اعتماد کرتے تھے۔ یہ دیکھیے ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا سرٹیفیکیٹ بھی میرے پاس موجود ہے۔ مَیں نے ایک بار اُن کی جان بچائی تھی۔’
اُس نے اپنے کُرتے کی جیب سے ایک پرانا بوسیدہ کاغذ نکالا اور مجھے تھما دیا۔ جم کاربٹ نے واقعی اس شخص کی تعریف کی تھی اور اس سے بڑا سرٹیفیکیٹ اور کیا ہو سکتا تھا۔
"تم بیرور کیسے اور کیونکر آئے؟’
"جناب، میرے یہاں آنے کی اصل وجہ تو آپ ہی ہیں، کیونکہ مدّت سے آپ کا نام سُں رہا ہوں۔ آپ کو دیکھنے کا بڑا اشتیاق تھا۔ گذشتہ چار ماہ سے بنگلور کے ایک تاجر کے ہاں چوکیدار کی حیثیت سے ملازم تھا۔ مسٹر ولیم سائمن اس تاجر کے ہاں آتے جاتے تھے۔ ایک روز مجھے معلوم ہوا کہ ان کے والد کا خط آیا ہے وہ اسے اپنے پاس بُلانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ایک آدم خور اس علاقے میں نمودار ہوا ہے جس نے بہت سے آدمیوں کو ہڑپ کر لیا ہے۔ مسٹر ولیم نے بتایا تھا کہ وہ اس آدم خور کو مارنے کے لیے ضرور جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں بھی ساتھ چلوں۔ میں نے ہامی بھر لی کہ آپ سے مُلاقات ہوجانے کا امکان تھا۔ میں جانتا تھا کہ آدم خور کے بارے میں خبریں آپ تک ضرور پہنچیں گی اور چونکہ اس کی سرگرمیاں بیرُور اور ہوگرالی کے علاقے میں پھیلی ہوئی ہیں، اس لیے آپ ضرور وہاں جائیں گے، چنانچہ میں نے مسٹر ولیم سے کہا کہ وہ بیرُور پہنچیں، مَیں ایک روز بعد آؤں گا۔ یہ اس لیے کہ جس شخص کے ہاں ملازم تھا، وہ مجھے مسٹر سائمن کے ساتھ جانے کی اجازت کبھی نہ دیتا۔ بہرحال آج دوپہر جب میں بیرُور سٹیشن پر اُترا، تو پتا چلا کہ ولیم صاحب آدم خور کھاجا بن چکے ہیں۔ یہ خبر سُن کر میں سخت پریشان ہوا۔ یہاں آنے کے لیے مختلف گاڑی بانوں کی منت سماجت کر ہی رہا تھا کہ مسٹر ڈونلڈ وہاں پہنچ گئے۔ یہ بھی کسی بیل گاڑی کی تلاش میں تھے، مگر ان میں سے کوئی بھی اِدھر آنے کے لیے تیار نہ تھا۔ مسٹر ڈونلڈ کی زبانی معلوم ہوا کہ وہ آپ کے صاحبزادے ہیں اور آپ کرنل سائمن کے باغ میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اسی وقت ان کے ساتھ چل پڑا۔ اب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ مَیں نے بھی یہ سنا ہے کہ کرنل سائمن صاحب کا دماغ الٹ گیا ہے۔’
"ہاں، اور یہی میری پریشانی کا اصل سبب ہے۔’ میں نے کہا۔ "بہرحال کچھ نہ کچھ انتظام ضرور ہو جائے گا۔ تمہارے آنے سے مجھے بے حد خوشی ہوئی ہے۔ تم کتنے دن کی رخصت لے کر آئے ہو؟’
"دس دن کی جناب۔’
"ٹھیک ہے، اب تم یہ کرنا کہ صبح اٹھتے ہی بیرور اور اس کی نواحی بستیوں کی طرف نکل جانا اور تین خچّر یا سستے گھوڑے خرید لانا۔ حالات ایسے ہی ہیں کہ کوئی گاڑی بان ہمارے ساتھ جنگل میں سفر کرنے کو تیار نہ ہوگا اور اس سے پیشتر کہ آدم خور اِن تمام بستیوں کو ویران کر دے، اس کا خاتمہ کر دینا ضروری ہے۔ میں نے کھادر کے ڈپٹی کمشنر کو خط لکھ دیا ہے۔ وہ کرنل سائمن کو ہسپتال پہنچانے کا انتظام کر دیں گے۔ اس اثنا میں تم ہماری غیر حاضری میں ان کی حفاظت کرنا۔ آدم خور کرنل صاحب کی تاک میں ہے۔’
"فکر نہ کیجیے صاحب، مَیں جی جان سے حاضر ہوں۔ ابھی اِن بازوؤں میں اتنی قوت ہے کہ شیر کا گلا چیر سکیں۔’ اُس نے ڈنٹر پُھلاتے ہوئے جواب دیا۔
"میں ہنس پڑا:’ شاباش، مجھے ایسے ہی آدمی کی ضرورت ہے۔ اگر میں نے محسوس کیا کہ تم میرے ساتھ ٹھیک ٹھاک رہے اور کام کے آدمی ثابت ہوئے، تو میں تمہیں اُس تاجر سے زیادہ تنخواہ پر اپنے پاس رکھ لوں گا۔ تمہارا نشانہ کیسا ہے؟’
ان الفاظ سے ابراہیم کے چہرے پر مسرّت کی لہر دوڑ گئی۔
"صاحب، مَیں اس سے زیادہ کچھ نہ کہوں گا کہ آپ ابراہیم کو کسی میدان میں پیچھے ہٹتا نہ پائیں گے۔ اب رہا نشانے کا امتحان۔۔۔ ذرا اپنی رائفل مجھے دیجیے۔’ یہ کہہ کر اس نے رائفل مجھ سے لی اور اِدھر اُدھر دیکھا۔ سامنے کوئی تیس چالیس گز کے فاصلے پر ایک ٹوٹی ہوئی میز پڑی تھی۔
"دیکھیے جناب، مَیں اُس میز کی دائیں ٹانگ کا نشانہ لیتا ہوں۔’ اس نے یہ کہتے ہی لبلبی دبا دی۔ دوسرے لمحے گولی میز کی دائیں ٹانگ پر لگی اور اس کے پرخچے اڑا دیے۔
"خوب، بہت خوب، تم واقعی بہترین نشانچی ہو۔’ ڈونلڈ نے داد دی۔ ابراہیم نے انکسارانہ انداز میں سر جھکایا۔ دفعتہً ہمارے سروں پر دو بڑی چمگادڑیں اُڑتی ہوئی دکھائی دیں۔ ابراہیم نے رائفل سے نشانہ لیا اور دوسرا فائر کیا۔ آناً فاناً ایک چمگادڑ قلابازیاں کھاتی ہوئی زمین پر آ رہی۔
"بس بھائی بس، مجھے معلوم ہو گیا کہ تم نشانے کے بڑے سچّے ہو۔’ مَیں نے اُسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔ "آؤ اب اندر چل کر بیٹھیں۔ معلوم ہوتا ہے تم نے صبح سے کچھ نہیں کھایا پیا۔’
ابراہیم نہایت دلچسپ آدمی ثابت ہوا۔ رات کو کھانے سے فارغ ہو کر جب ہم کافی پینے بیٹھے تو اُس نے پہلی جنگ عظیم کے چشم دید واقعات سنائے، پھر کرنل جم کار بٹ کا ذکر چھڑ گیا۔ ابراہیم کی آنکھوں میں ایک چمک نمودار ہوئی، وہ کہنے لگا:
"صاحب، آپ بھی مانے ہوئے شکاری ہیں اور مجھ سے زیادہ جم کاربٹ صاحب کو جانتے ہوں گے لیکن مَیں نے جو دو ماہ کا عرصہ ان کے ساتھ گزارا ہے، وہ زندگی بھر یاد رہے گا۔’
"اُن سے تمہاری ملاقات کہاں ہوئی تھی؟’ ڈونلڈ نے سوال کیا۔ "کرنل نے اس سرٹیفیکیٹ میں تمہاری بڑی تعریف لکّھی ہے۔ وہ کون سا واقعہ تھا جبکہ تم نے ان ک جان بچائی؟’
"صاحب، مَیں نے کیا، خُدا نے بچائی۔’ ابراہیم نے انگلی سے چھت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ "بس عجیب اتفاق تھا اگر ایک ثانیے کی تاخیر ہو جاتی، تو وہ موذی کاربٹ صاحب کو اٹھا کر لے جاتا، جاتے جاتے مجھے زخمی کر ہی گیا۔ یہ دیکھیے میرے بائیں ہاتھ کی دو انگلیاں غائب ہیں۔’
ابراہیم نے اپان بایاں ہاتھ ہمارے سامنے کر دیا۔ مَیں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ کی آخری دو چھوٹی انگلیاں اُدھڑی ہوئی ہیں۔ کلائی اور کہنی پر بھی گہرے زخموں کے نشان نظر آتے تھے۔
"ذرا تفصیل سے سناؤ یہ حادثہ کیسے ہوا۔’
"کاربٹ صاحب کو میری جو خوبی پسند آئی، وہ یہ تھی کہ مَیں بلند سے بلند اور مشکل سے مشکل درخت پر چڑھنے میں ماہر ہوں۔’ ابراہیم نے کہا۔ " 1928ء کا ذکر ہے۔ ان دنوں کماؤں کے ایک علاقے میں جہاں دریائے کوسی بہتا ہے، جنگل کی کٹائی کا کام زوروں پر تھا۔ مَیں بھی پھرتا پھراتا وہاں جا نِکلا۔ مزدوری خاصی معقول تھی۔ ایک وقت کا کھانا بھی ٹھیکیدار کی طرف سے مِلتا تھا۔ چنانچہ مَیں بھی مزدوروں میں شامل ہو گیا۔ دریائے کوسی کے دائیں کنارے پر ایک گاؤں آباد ہے۔ اس گاؤں کے مرد دن بھر جنگل میں درخت کاٹتے اور ان کی عورتیں پرلے کنارے پر اور جنگل میں اُگی ہوئی گھاس کاٹتی تھیں۔ اس گھاس سے نہایت عمدہ قِسم کا کاغذ اور گتّہ بنایا جاتا تھا۔ جنگل سے کچھ فاصلے پر ایک سرسبز پہاڑی تھی جس پر گاؤں کی عورتیں سیر کے لیے جایا کرتی تھیں۔ نومبر کا مہینہ تھا، ایک روز ایسا ہوا کہ اس پہاڑی پر شیر بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا کہ دو لڑکیاں ہنستی کھیلتی ادھر جا نکلیں اور بے خبری میں شیر کے نزدیک پہنچ گئیں۔ شیر اس مداخلت پر ناراض ہوا کر غرّایا ہی تھا کہ ان لڑکیوں میں سے ایک بدحواس ہو کر بھاگی۔ اس کا پَیر پھسلا اور وہ اُونچی پہاڑی سے لڑھکتی ہوئی کئی سَو فٹ نیچے ایک گہری کھائی میں جا گری، بھیجا پاش پاش ہو گیا اور وہ گرتے ہی مر گئی۔ دوسری لڑکی بھی بھاگی۔ شیر اس کے پیچھے لپکا اور اسے پنجہ مار کر گرا دیا۔ لڑکی زخمی ہو کر بے ہوش ہوگئی، لیکن شیر نے اس کھانے کی کوشش نہ کی۔ کیونکہ اس وقت تک وہ آدم خور نہ بنا تھا یا اُس کا پیٹ بھرا ہوا تھا۔ دونوں لاشیں رات بھر وہیں پڑی رہیں۔ ایک پہاڑی پر دوسری کھائی میں۔۔۔ اگلے روز گاؤں والے جب ان کی تلاش میں نکلے، تو معلوم ہوا کہ ایک لاش کو تو لگڑبگوں اور گیدڑوں نے نوچ نوچ کر کھا لیا ہے اور دوسری پر شیر نے پنجہ آزمائی کی ہے۔ اس حادثے کے تقریباً دو یا تین روز بعد ہی پھر ایک لڑکی غائب ہوگئی۔ اس کی لاش بھی اسی پہاڑی کے دامن میں ایک جگہ گھاس کے اندر پڑی پائی گئی۔ یہ کارستانی بھی شیر ہی کی تھی۔ آہستہ آہستہ ان وارداتوں میں اضافہ ہونے لگا۔ جنگل میں کام کرنے والے مزدوروں میں دہشت پھیلنے لگی اور وہ کام پر جاتے ہوئے ہچکچانے لگے۔ ایک ماہ کے اندر اندر اس آدم خور نے تقریباً 28 افراد کو ہڑپ کر لیا اور ہر طرف ہاہا کار مچ گئی۔ وہ اتنا نڈر اور عیّار تھا کہ دن دہاڑے بستی میں آ کر ایک نہ ایک عورت یا بچے کو اٹھا کر لے جاتا۔ جھونپڑیوں کی کچی دیواریں، گھاس پھونس کی چھتیں اور لکڑی کے بنے ہوئے باڑے اس کے سامنے کوئی حقیقت نہ رکھتے تھے۔
"اِس دوران میں مقامی شکاریوں اور دو بیرونی شکاریوں نے بھی آدم خور کو ہلاک کرنے کی کوشش کی، مگر یکے بعد دیگرے اس کے ہتھے چڑھ گئے۔ حتیٰ کہ ان وہمی دیہاتیوں میں مشہور ہو گیا کہ شیر کے روپ میں کوئی بلا یا بدرُوح ہے جو ان سے ناراض ہو کر انتقام لے رہی ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے اس بلا سے نجات پانے کے لیے پُوجا اور بھینٹ کا انتظام کیا۔ لیکن جس رات گاؤں کے چھوٹے سے مندر میں یہ رسم ادا کی جانے والی تھی، اُسی رات کو مندر کا پجاری غائب ہو گیا۔ بدنصیب شخص رفع حاجت کے لیے مندر سے کچھ فاصلے پر گیا تھا اور جب واپس آ رہا تھا، تو یکایک آدم خور نمودار ہوا اور چشم زدن میں پجاری کو اٹھا کر لے گیا۔ مندر میں جمع ہونے والوں ںے پجاری کی چیخیں بھی سنیں تھیں، لیکن وہ اسے بچانے کے لیے کچھ نہ کر سکے اور رات بھر دروازہ بند کیے بیٹھے رہے۔ صُبح اس مقام پر جہاں شیر نے پجاری پر حملہ کیا تھا، پیتل کی لُٹیا پڑی پائی گئی۔ کہیں کہیں خون کے دھبّے اور نچے ہُوئے کپڑے بھی دکھائی دیے۔
"اِس حادثے کے تین دن بعد کا ذکر ہے، مَیں چار آدمیوں کے ساتھ پانی کے لیے دریا پر جا رہا تھا۔ ہم سب کلہاڑیوں سے مسلح تھے اور بیل گاڑی پر سفر کر رہے تھے۔۔۔ اس پر ہم نے بڑے بڑے گھڑے اور دوسرے برتن بھی لاد رکّھے تھے۔ گاؤں سے دریا کا فاصلہ بمشکل ڈیڑھ پونے دو میل ہوگا۔ چُوں کہ گاؤں کا کوئی شخص تنِ تنہا دریا پر نہ جاتا تھا، اس لیے مویشیوں اور انسانوں کے لیے پانی دریا سے لایا جاتا تھا۔ اس مقصد کے لیے گاؤں کے آدمی باری باری دوپہر کے وقت دریا پر جاتے اور پانی بھر لاتے۔ ابھی ہم دریا تک پہنچے ہی تھے کہ ایک جانب سے شیر کے غرّانے کی آواز سنائی دی۔ مَیں نے فوراً بیلوں کو روکا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شیر کچھ فاصلے پر جھاڑیوں میں آرام کر رہا ہے۔
"بھیّا گاڑی دوڑا کر بھاگ۔’ ایک شخص نے گھبرا کر کہا۔ "اب ہم دریا پر نہ جائیں گے۔’
"اپنی کلہاڑیاں سنھبال لو، اگر شیر نے حملہ کیا تو ہم مل کر اسے ختم کر ڈالیں گے۔’ مَیں نے ساتھیوں کی ہمّت بندھائی اور گاڑی چلا دی، لیکن فوراً ہی شیر پھر غُرّایا اور اس مرتبہ چاروں آدمی گاڑی سے کودے اور لپک کر درختوں پر چڑھ گئے۔ اب تو میں بھی گھبرایا اور درخت پر چڑھنے کے لیے دوڑا، لیکن ایسا معلوم ہوا کہ شیر میرے تعاقب میں ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک لمبا تڑنگا انگریز ہاتھ میں رائفل لیے لمبی گھاس میں کھڑا تھا۔ مَیں حَیران تھا کہ شخص کہاں سے آ گیا اور کیا شیر کی آواز اس کے کانوں تک نہیں پہنچی، اتنا تو میں جان گیا تھا کہ وہ شکاری ہے۔
"صاحب، جلدی سے درخت پر چڑھ جائیے، شیر نزدیک ہی ہے۔’ میں نے پُکار کر کہا اور ہاتھ سے درخت پر چڑھنے کا اشارہ کیا، مگر وہ میری اس حرکت پر بے پروائی سے ہنسا اور قریب آ کر نہایت صاف اُردو لہجے میں بولا:
"ارے، تم اتنا ہٹّا کٹا جوان ہو کر شیر سے ڈرتا ہے؟’
"صاحب وہ آدم خور ہے اور اس نے بہت سے آدمیوں کو ہڑپ کر لیا ہے۔’ مَیں نے جواب دیا۔ اتنے میں انگریزی شکاری نے منہ پھیر کر حلق سے شیر کی آواز نکالی اور قہقہہ مار کر ہنسنے لگا۔ مَیں بہت شرمندہ ہوا اور درخت سے نیچے اُتر آیا۔
"تم لوگ درخت پر بہت تیزی سے چڑہتے ہو۔’ وہ کہنے لگا۔ "اپنے ساتھیوں کو نیچے اُتر آنے کے لیے کہو اور بتاؤ کے وہ آدمخور رہتا کدھر ہے۔ میں اسی کی تلاش میں ہوں۔’
"اور اس طرح جم کاربٹ صاحب سے میری ملاقات ہُوئی جناب، وہ عجیب و غریب آدمی تھے اور شیر کی بولی بولنے میں تو کمال رکھتے تھے۔ انہوں نے بعد میں بتایا کہ شیرنی کی بولی بول کر شیر کو بلانا چاہتے تھے۔ انہیں جنگل کے بہت سے جانوروں کی بولیوں پر عبور حاصل تھا۔’
"تم ٹھیک کہتے ہو، کاربٹ عظیم شکاری ہے اور ایسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے۔’ میں نے کہا۔
"ہاں صاحب، اُن کے دل میں انسانوں کی محبّت اور ہمدردی کا جذبہ قدرت نے کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا۔’ ابراہیم کہنے لگا۔ "کاربٹ صاحب نے بتایا کہ وہ ڈاک بنگلے میں ٹھہرے ہوئے ہیں اور اسی آدم خور سے لوگوں کو نجات دلانے کے لیے آئے ہیں۔ یہ سن کر ہم سب کو خوشی ہوئی۔ وہ ہمیں لے کر دریا پر پہنچے۔ پانی برتنوں میں بھرا اور گاؤں تک ہمارے ساتھ آئے۔ اُن کا نام بچّے بچّے کی زبان پر تھا اور بہت سے لوگ تو انہیں دیوتا سمجھتے تھے۔ کاربٹ صاحب کو دیکھ کر گاؤں والوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ ان کو اپنے درمیان پا کر آدم خور کا خوف اور دہشت دُور ہو چکی تھی۔ دوسروں کی دلی کیفیت کا صحیح اندازہ لگانا، تو میرے بس میں نہ تھا، لیکن خود میرا حال یہ تھا کہ دل ایک عجیب مسرّت انگیز اطمینان محسوس کر رہا تھا۔’
ابراہیم نے سگریٹ کا طویل کش لگایا اور چند لمحوں بعد کہنے لگا:
"آپ چونکہ خود بڑے شکاری ہیں، اس لیے تفصیلات میں جائے بغیر وہ واقعہ عرض کرتا ہوں جس نے مجھے اور جم کاربٹ صاحب کو یکجا کر دیا تھا۔ کاربٹ صاحب روزانہ اپنے بنگلے سے نکلتے اور گاؤں تک آتے۔ ڈاک بنگلے اور گاؤں کا درمیانی فاصلہ آٹھ نو میل سے کم نہ تھا اور راستہ نہایت دشوار گزار اور کٹھن۔ پھر آدم خور کے علاوہ جابجا ریچھوں، چیتوں سے مڈبھیڑ کا خدشہ، لیکن کاربٹ صاحب اس اطمینان اور بے پروائی سے ٹہلتے ہوئے آتے کہ ان کے بے پناہ استقلال اور جرأت پر دل عش عش کر اُٹھتا تھا۔ انہوں نے آدم خور کی تلاش میں علاقے کا چپّہ چپّہ چھان مارا، لیکن اس کا کہیں پتہ نہ تھا۔"
"ایک روز وہ شام کے وقت گاؤں میں نمودار ہوئے۔ ان کا کوٹ پشت پر سے ادھڑا ہوا تھا اور چہرے پر بھی کہیں کہیں خراشیں نظر آرہی تھیں۔ مَیں نے پوچھا تو ہنس کر کہنے لگے: "راستے میں ایک ریچھ مل گیا تھا۔ اس سے زور آزمائی ہوئی۔ مَیں نے کئی مرتبہ ریچھ کے کان میں کہا کہ بھائی میرا تم سے کوئی جھگڑا نہیں، جاؤ اپنی راہ پکڑو۔ مگر وہ کسی طرح ٹلتا ہی نہ تھا۔ مجبوراً مجھے اپنا شکاری چاقو کام میں لانا پڑا۔ اس کی لاش دریا کے پرلے کنارے چھوٹے ٹیلے کے پیچھے پڑی ہے، میرے ساتھ چلو اور اسے اٹھا لاؤ۔ کھال خاصی قیمتی ہے، وہ تم لے لینا۔’ یہ سن کر میرے ہوش اڑ گئے، مگر کاربٹ صاحب کے ساتھ جانے کا شوق کچھ ایسا ذہن پر سوار تھا کہ سوچنے سمجھنے کی مہلت نہ ملی اور مَیں تھوڑی دیر بعد اُن کی رہنمائی میں دریا کی طرف جا رہا تھا۔ وہ میری طرف دیکھ کر آہستہ سےکہنے لگے: "تم نہتے ہو، یہ لو میرا پستول اپنے پاس رکھو۔ اس میں چھ گولیاں ہیں۔۔۔ اب آواز نکالے بغیر میرے آگے آگے چل پڑو، مجھے خطرے کی بُو محسوس ہو رہی ہے۔’
"مغرب کی جانب شام کی سُرخی آہستہ آہستہ گہری ہو رہی تھی اور جنگلی پرندے قطار اندر قطار اپنے گھونسلوں کی طرف آ رہے تھے۔ فضا میں طوطوں کی ٹَیں ٹَیں سے ایک شور برپا تھا اور جنگل کے اندر درختوں پر بسیرا کرنے والی چڑیوں کی چُوں چوں سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ کاربٹ صاحب یک لخت مجھ سے کئی قدم آگے بڑھ کر زمین پر لیٹ گئے۔ میں نے ان کی تقلید کی، لیکن دِل کی دھڑکن میں اضافہ ہو گیا تھا اور جسم کے رونگٹے کھڑے ہونے لگے تھے۔ انہوں نے گردن موڑ کر میری طرف دیکھا، مَیں گھاس میں خرگوش کی مانند دبکا ہوا تھا۔
"خبردار اپنی جگہ سے جنبش نہ کرنا۔’ انہوں نے دھیمے دھیمے لہجے میں کہا۔ پھر رائفل سنبھال کر گھٹنوں کے بل آگے چلنے لگے۔’ ابراہیم نے ماتھے پر آیا ہوا پسینہ پونچھا اور اور نیا سگریٹ سلگایا۔ اگرچہ میں خود سینکڑوں مرتبہ ایسے ہی حادثات اور واقعات سے گزر چکا تھا، لیکن ابراہیم نے جس انداز میں یہ داستان سنائی وہ میرے لیے خاصی سنسنی خیز تھی۔
"صاحب، وہ نازک لمحہ مجھے مرتے دم تک یاد رہے گا۔’ اس نے نتھنوں سے دُھواں خارج کرتے ہوئے کہا۔ "کاربٹ صاحب کی پُشت میری طرف تھی۔ میرا اور ان کا درمیانی فاصلہ بمشکل دس بارہ فٹ ہوگا۔ وہ اوندھے منہ گھاس میں لیٹے تھے اور ان کی نگاہ دائیں جانب کچھ ترچھی ہو کر ان گھنی جھاڑیوں پر جمی ہوئی تھی جن کی اونچائی میرے اندازے کے مطابق 9 فٹ سے زائد تھی۔ میرا خیال تھا کہ کوئی درندہ یا وہی آدم خور ان جھاڑیوں میں چُھپا ہوا ہے۔ کاربٹ صاحب نے اسے دیکھ لیا ہے اور اب اس پر فائر کرنے والے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہوا، بلکہ بائیں ہاتھ پر اُگی ہوئی قدِ آدم گھاس میں سے ایک قوی ہیکل شیر بجلی کی مانند تڑپا اور کاربٹ صاحب کی طرف چھلانگ لگائی۔ میرے حلق سے غیر ارادی طور پر چیخ نِکل گئی اور آفرین کاربٹ صاحب پر کہ اس حقیر ترین وقفے سے انہوں نے پورا فائدہ اٹھایا۔ فوراً ہی قلابازی کھائی اور شیر کا وار خالی دیا۔ مگر اس حرکت سے رائفل ان کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ اب شیر کی توجہ دونوں طرف بٹ گئی تھی۔ اس کی دُؐم تیزی سے گردش کر رہی تھی اور جبڑا خوفناک انداز میں کُھلا ہوا تھا۔
"گولی چلاؤ۔’ کاربٹ صاحب نے چلّا کر مجھ سے کہا اور مَیں نے پستول اونچا ہی کیا تھا کہ شیر نے مجھ پر چھلانگ لگائی۔ اس کا دایاں پنجہ میری انگلیاں اڑاتا ہوا نِکل گیا، پھر مجھے کچھ یاد نہ رہا کہ کیا ہوا۔ ہوش آیا، تو مَیں نے اپنے آپ کو بستی کے اندر پایا۔ کاربٹ صاحب میرے سرہانے کھڑے تھے۔ "کیا شیر مر گیا؟’ مَیں نے اُن سے پوچھا۔
"شیر تو بچ کر نِکل گیا، لیکن تم نے میری جان بچا لی دوست۔ مجھے افسوس ہے کہ اس ظالم نے تمہارا ہاتھ زخمی کر دیا ہے۔’ اس دن کے بعد سے دو ماہ تک مَیں کاربٹ صاحب کے ساتھ اس آدم خور کا تعاقب کرتا رہا اور آخر ایک دن اُسے جہنم واصل کر ہی دیا۔ یہ ہے میری داستان۔’
ڈونلڈ نے گھڑی پر نظر ڈالی، رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ اُس نے کرنل سائمن کے کمرے میں جھانکا، تو بستر خالی پڑا تھا۔
"کرنل کہاں گیا؟’ ڈونلڈ چلّایا۔ "اس کی بندوق بھی غائب ہے۔ اُف خدایا، وہ جنگل میں تو نہیں چلا گیا۔’ ہم تینوں ایک دوسرے کا مُنہ تکنے لگے۔
کرنل سائمن کے یوں یک لخت غائب ہو جانے سے سچ پوچھیے تو میرے ہوش و حواس مختل ہوگئے۔ آدھی رات کے وقت جنگل میں اسے تلاش کرنا بے سود، بلکہ حماقت تھی۔ تاہم میں نے ڈونلڈ کو وہیں رہنے کی تاکید کی اور ابراہیم کو لے کر جھیل مدّک کی طرف روانہ ہوا۔ رات انتہائی تاریک اور بھیانک، ہوا بند اور فضا پر عجیب سی گھٹن طاری تھی۔ ہم ٹارچ کی تیز سفید روشنی میں اِدھر اُدھر دیکھتے بھالتے اور کرنل سائمن کو پکارتے چلے جا رہے تھے۔ جواب میں بندروں اور گیدڑوں کی چیخیں سنائی دیتیں یا جھینگروں اور مینڈکوں کے ٹرّانے کی آوازیں جو جنگل کی خاموش فضا میں ارتعاش پیدا کر رہی تھیں۔
کرنل کی زندگی سے تو میں مایوس ہو چکا تھا، لیکن محض اس خیال سے کہ ضمیر مجھے ہمیشہ ملامت کرے گا، اسے تلاش کرنے نکل کھڑا ہوا۔ یہ ضروری نہ تھا کہ وہ آدم خور کے ہتّھے چڑھا ہو، جنگل میں اور بھی درندے موجود تھے جو کرنل کو اپنا لقمہ بنا سکتے تھے۔ ڈیڑھ دو گھنٹے گھومنے کے بعد بھی سراغ نہ ملا تو مجھے یقین ہو گیا کہ اس کا تیاپانچا ہو چکا۔
"چلیے صاحب، صبح پھر کوشش کریں گے۔’ ابراہیم نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا۔
واپسی پر ہم نہر کے کنارے کنارے چل رہے تھے۔ دفعتہً لمبی گھاس سرسرائی اور چشم زدن میں ایک چیتا ہمارے سامنے یوں آیا جیسے بجلی کوند گئی۔ ابراہیم کے حلق سے بے اختیار چیخ نکل گئی اور میں بدحواس ہو کر پیچھے ہٹ گیا۔ ہم نے اس کی ہلکی سی جھلک ہی دیکھی، کیونکہ اگلے ہی لمحے وہ نظروں سے غائب ہو چکا تھا۔ اس میں شک نہیں قدرت نے ابراہیم کو بال بال بچایا، وہ بے خبری میں چیتے کے اس قدر قریب پہنچ گیا تھا کہ چیتا اگر چاہتا، تو آناً فاناً اس کی تِکّا بوٹی کر ڈالتا۔ اس کے بھاگ جانے کی یہی وجہ سمجھ میں آئی کہ اس میں بیک وقت دو آدمیوں کا سامنا کرنے کی جرأت نہ تھی۔ ممکن ہے ابراہیم یا مَیں اکیلا ہوتا، تو چیتے کو وار کرنے کا موقع مل جاتا۔ مَیں نے اس درندے کی فطرت اور عادتوں کا برسوں گہرا مطالعہ کیا ہے اور اپنے اکثر مضامین میں اس کا ذکر بھی کیا ہے۔ لیکن بار بار یہی الفاظ دہرانے پڑتے ہیں کہ جنگلی جانوروں اور درندوں میں چیتے جیسا مکّار، دغا باز، پھرتیلا اور موذی جانور اور کوئی نہیں۔ اس کی احتیاط اور ہوشیاری کا یہ عالم ہے کہ گویا پُھونک پُھونک کر قدم رکھتا ہے۔ جب تک اسے اپنے بھرپور حملے کا یقین نہ ہو، کبھی آگے نہیں بڑھتا۔ کئی کئی گھنٹے بُھوکا رہنا برداشت کر لیتا ہے، لیکن خطرے کی صُورت میں اپنی کمین گاہ سے باہر نکلنے کی جرأت نہ کرے گا۔
شیر کی طرح سامنے آ کر بے خوفی یا جی داری سے اپنے حریف کا مقابلہ کرنا چیتے کی فطرت کے منافی ہے۔ وہ ہمیشہ عقب سے حریف کی بے خبری سے فائدہ اٹھا کر اچانک آن پڑتا ہے۔ زخمی ہو جانے کے بعد اس کے غیظ و غضب اور فطری کمینہ پن کی انتہا ہو جاتی ہے اور یہی صُورت اس وقت پیش آتی ہے جب چیتا آدم خور ہو جائے۔ شکاری کے لیے اس کا مقابلہ کرنا خاصا مشکل مرحلہ ہے، کیونکہ یہ آسانی سے درختوں پر بھی چڑھ جاتا ہے۔ مچان باندھنے کے منصوبے اکثر اسی وجہ سے ناکام ہو جاتے ہیں۔ شیر کی نسبت اس میں اچھلنے اور دوڑنے کی قوت بھی بہت زیادہ ہے۔ بجلی کی طرح لپکتا ہے اور شکاری کی ذرا سی غفلت پر وار کر جاتا ہے۔
چیتے کا سرِراہ نہر کے کنارے گھاس میں چُھپ کر بیٹھنا خالی از علت نہ تھا۔ مَیں سمجھ گیا کہ وہ ضرور کسی داؤں پر ہے، لیکن وقت ایسا نازک تھا کہ اس طرف جانے کی ہمّت نہ پڑی، اگرچہ ابراہیم نے چیتے کا تعاقب کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا تھا۔ مگر میں نے اُسے روک دیا کہ فی الحال چیتے سے جنگ کرنا ہمارے پروگرام میں شامل نہیں۔ ہمیں تو کرنل سائمن کا سراغ لگانا ہے۔
جب ہم باغ میں واپس پہنچے تو صبح کے آثار نمودار ہو رہے تھے اور درختوں پر چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ ڈونلڈ اندرونی برآمدے میں کرسی پر بیٹھا بے خبر سو رہا تھا اور بندوق کے قدموں میں پڑی تھی۔ مَیں دن چڑھے بیدار ہوا، تو پتا چلا کہ ابراہیم اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر بیرُور سے تین خچّر خرید لایا ہے۔ اس کی مستعدی پر دل خوش ہوا اور ہم تینوں اچھی طرح تیار ہو کر کرنل کی تلاش میں نکلے۔ اس مرتبہ ہم نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ یہ راستہ چکّر کھاتا ہوا جھیل مدّک کی طرف جاتا تھا۔ ایک گھنٹے کے بعد ہم جنگل کے ایسے حصے میں پہنچ گئے جہاں درخت نہایت گنجان اور ایک دوسرے سے گتھے ہوئے تھے اور راستا اتنا تنگ کہ ایک خچر بمشکل چل سکتا تھا۔ مجبوراً ہم ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ ڈونلڈ سب سے آگے تھا اور اسی نے سب سے پہلے خون کے وہ دھبّے دیکھے جو پتّوں کے کئی انچ موٹے نرم فرش پر پھیلے ہوئے تھے۔ ہم نے چند منٹ تک ان دھبوں کا معائنہ کیا اور بہت جلد پتا چل گیا کہ شیر اپنے شکار کو لے کر ادھر سے گزرا ہے۔ خون اگرچہ جم کر سیاہ ہو گیا تھا، لیکن انگلی سے چُھو کر دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ یہ زیادہ پرانا نہیں، آگے چلے تو کرنل سائمن کی بندوق دکھائی دی۔ اس کے قریب ہی اس کا پرانا ہیٹ پڑا تھا۔
"کرنل کا قصّہ تو ختم ہوا ڈیڈی۔’ ڈونلڈ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا اور سسکیاں لینے لگا۔ "اُف خدایا، مجھے اس پر کتنا ترس آ رہا ہے، بے چارہ ہماری غفلت کے باعث مارا گیا۔’
ہر چند میری آنکھوں میں اس المناک حادثے پر آنسو اُمڈ آئے تھے اور کرنل سائمن کا چہرہ بار بار نظروں کے سامنے گھوم رہا تھا، مگر مَیں نے ڈونلڈ کو دلاسا دیا اور کہا کہ جنگل میں رہنے والوں کو اس قسم کے حادثوں سے بہرحال دوچار ہونا ہی پڑتا ہے۔ اَب ہمارا کام یہ ہے کہ اس آدم خور سے خلق خدا کو نجات دلانے کی کوشش کریں۔ کرنل سائمن کی روح کو اسی طرح تسکین پہنچ سکتی ہے۔
شیر کے نقشِ پا اور خون کے دھبّوں میں دیکھتے بھالتے آخرکار ہم اسی نہر کے کنارے جا نکلے جہاں گزشتہ رات گھوم رہے تھے۔ اب معلوم ہوا کہ شیر نے ایک مقام سے نہر کو عبور کیا ہے۔ نرم دلدلی زمین اور کیچڑ میں اس کے پنجوں کے نشان خاصے نمایاں اور صاف تھے۔ اس کے علاوہ نہر کے کنارے اگی ہوئی لمبی گھاس اور پودے بھی جابجا روندے اور کچلے ہُوئے نظر آئے۔ ہم نے اپنے خچروں کو ایک درخت سے باندھا اور پیل آگے بڑھے، کیونکر اس راستے پر خچّروں کا چلنا بھی محال تھا۔ قدم قدم پر خاردار جھاڑیاں راہ روکے کھڑی تھیں۔ نہر کے پرلے کنارے پر پہنچ کر آدم خور چند لمحوں کے لیے سستایا اور اس دوران میں اس نے لاش کو منہ سے نکال کر زمین پر بھی ڈالا تھا، کیونکہ جمے ہوئے خون کے چھوٹے بڑے دھبّے اور کپڑوں کی دھجّیاں خشک کیچڑ میں پھنسی ہوئی تھیں۔ کچھ ایسے نشانات ملے جن سے اندازہ ہوا کہ آدم خور نے لاش کو دوبارہ مُنہ میں داب کر لے جانے کے بجائے اسے زمین پر گھسیٹا اور بانسوں کے گھنے جنگل کی طرف لے گیا۔
"اب ہمیں پوری احتیاط سے کام لینا چاہیے۔’ میں نے ابراہیم اور ڈونلڈ کو ہدایت کی۔
بانس کا جنگل شیر اور خصوصاً آدم خور کی بہترین پناہ گاہ ہے اور میں اپنے تجربے کی بنا پر اچھی طرح جاتا ہوں کہ وہ دن کے وقت اس قسم کی فضا میں آرام کرنا پسند کرتا ہے۔ اگر ہم نے اپنی حماقت سے اسے خبردار کر دیا تو اس کا دوبارہ ہاتھ لگنا محال ہو جائے گا۔ چونکہ آدم خور میں سونگھنے اور سننے کی حِس عام شیروں کی نسبت زیادہ قوی ہوتی ہے اور ہوا کا رُخ بھی جنگل کی طرف ہے، اس لیے ہمیں ادھر سے داخل ہونے کی بجائے چکّر کاٹ کر مخالف سمت سے جانا چاہیے تاکہ وہ ہماری بُو نہ پا سکے۔
جن شکاریوں کو کبھی بانس کے گھنے جنگل میں شکار کھیلنے کا موقع مِلا ہے، وہ ہماری مشکلات کا صحیح اندازہ کر پائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ بانس کا جنگل شکاری کا جانی دشمن ہے، وہ شکاری کو چلنے پھرنے کے لیے زیادہ جگہ نہیں دیتا۔ درندوں کی کھال کا رنگ بانس کے پتّے اس قدر ملتا جلتا ہے کہ چند گز کے فاصلے پر بیٹھا ہوا شیر آسانی سے نظر نہیں آتا۔ ایک اور سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ جنگل میں قالین کی طرح نرم پتّوں کا کئی انچ موٹا فرش ہر وقت بچھا رہتا ہے جس پر شیر، چیتے اور دوسرے جانور تو کُجا، ہاتھی کے نقوشِ پا کا بھی سراغ نہیں لگایا جا سکتا۔ چھوٹے چھوٹے جانور یہاں کثرت سے ملتے ہیں جو اجنبی کی آمد پر فوراً غُل مچا کر شیر کو خبردار کر دیتے ہیں۔
ہم ایک مختصر سا چکّر کاٹ کر شمال کی جانب سے جنگل میں داخل ہوئے اور بہت جلد پتا چل گیا کہ باہر سے یہ جنگل جتنا گھنا اور وسیع نظر آتا ہے، حقیقت میں اس کے برعکس ہے۔ اگرچہ زمین پر پتّوں کا موٹا فرش بچھا ہوا تھا جس پر کسی قسم کے نشانات موجود نہ تھے۔ تاہم مجھے فوراً احساس ہو گیا کہ آدم خور اپنے شکار کو لے کر کس طرف گیا تھا۔ ایک ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر اس جنگل کے شمالاً جنوباً ایک کھائی سی پھیلی ہوئی تھی جس کے آگے گھنی خاردار جھاڑیوں کثرت سے تھیں اور ان جھاڑیوں کو عبور کرنا ہمارے بس کی بات نہ تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شیر بُھوک کے مارے بے تاب ہو چکا تھا اور اب مزید صبر نہ کر سکتا تھا۔ چنانچہ اس نے لاش کو اطمینان سے چیرا پھاڑا اور اپنا پیٹ بھر لیا۔
سب سے پہلے ہمیں کرنل سائمن کی کھوپڑی نظر آئی جو لاش کے بچے کھچے اجزاء، ہڈیوں اور انتڑیوں سے کچھ فاصلے پر پڑی تھی۔ شیر نے اسے نوچ کر جسم سے الگ کیا اور پرے پھنک دیا۔ بدنصیب بڈھے کے چہرے پر دہشت کے آثار اس وقت بھی نمایاں تھے۔ آنکھیں باہر نکلی ہوئی اور مُنہ بھیانک انداز میں کُھلا ہوا تھا جیسے مرنے سے پہلے وہ زور سے چیخا ہو۔ اس کی دونوں ٹانگیں اور ہاتھ بھی ایک طرف پڑے ہوئے تھے۔ آدم خور ان کو کبھی نہیں کھاتا اور ہمیشہ دوسرے جانوروں کی ضیافت کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔
ڈونلڈ اور ابراہیم پلک جھپکائے بغیر ان اجزاء کو دیکھ رہے تھے اور پھر اُن کی آنکھوں سے آنسووں کے قطرے ڈھلکنے لگے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آدم خور قریب ہی موجود ہے۔’ میں نے چُپکے سے کہا، کیونکہ جھاڑیاں بالکل ساکت تھیں اور کھائی کا یہ حصّہ بھی جنگلی جانوروں سے بالکل خالی نظر آتا تھا۔ اس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہ تھی کہ آدم خور کی ہیبت سے یہ جانور بھاگ کر جنگل کے کسی اور حصّے میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔
مَیں نے ابراہیم اور ڈونلڈ کو اشارہ کیا کہ آہٹ بالکل نہ ہونے پائے، چپ چاپ میرے پیچھے چلے آؤ۔ اب میں ذرا ایک نظر اُس کھائی کو دیکھنا چاہتا تھا۔ مجھے پورا یقین تھا کہ ہمارا حریف اسی کے اندر چھپا ہوا ہے، لیکن اس مقصد کے لیے خاردار جھاڑیوں میں سے گزرنا ضروری تھا۔ چنانچہ کپڑے پھٹنے اور زخمی ہونے کی پروا کیے بغیر جھاڑیوں میں سے راستہ بنایا اور آگے بڑھے۔ کھائی تقریباً پندرہ فٹ چوڑی اور دس بارہ فٹ گہری تھی اور اس کے اندر سے انسانی گوشت اور ہڈیوں کی سڑاند اٹھ رہی تھی۔ میں نے ناک پر رومال باندھا اور آہستہ آہستہ اس کے اندر اترنے لگا۔ جابجا جھاڑیوں کے اندر جنگلی جانوروں کے انڈے گھونسلے میں پڑے نظر آئے، مگر کوئی پرندہ ان انڈوں کے قریب دکھائی نہ دیا۔ تھوڑی دیر بعد کے مجھے احساس ہوا کہ کھائی کی گہرائی اور وسعت کے بارے میں میرا اندازہ غلط ثابت ہو رہا ہے۔ جُوں جُوں میں نیچے اُتر رہا تھا۔ ڈھلان عمودی ہوتی جاتی تھی۔ آخر ایک چٹان پر رُک کر مَیں نے دائیں بائیں دیکھا کوئی خاص بات نظر نہ آئی۔ پھر مَیں نے اپنے ساتھیوں کو بھی اترنے کا اشارہ کر کے آگے بڑھا۔ کھائی خشک پڑی تھی، لیکن زمین خاصی نرم اور پھسلوان تھی۔ برسات کے موسم میں یہ یقیناً پانی سے لبریز ہو جاتی ہوگی۔ اس کی دونوں جانب اٹھی ہوئی چٹانیں ہموار اور حد درجہ پھسلواں تھیں۔ چند لمحے بعد ابراہیم اور ڈونلڈ پھسل کر میرے پاس پہنچ گئے۔ یکایک ابراہیم نے چپکے سے کہا۔
"جناب، آپ نے شیر کے ہانپنے کی آواز سنی؟’
مَیں نے نفی میں گردن ہلائی، ابراہیم نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور کھائی کے دوران دائیں جانب ہاتھ اٹھایا: "آواز اس طرف سے آ رہی ہے۔ ذرا غور سے سنیے، آپ یقیناً سُن لیں گے۔’
مَیں نے سانس روک کر اس نامعلوم آواز پر کان لگا دیے۔ ابتدا میں کچھ سنائی نہ دیا، پھر ایسی مدھم آواز کانوں میں آئی جیسے درختوں کے درمیان سے گزرنے والی ہوا کی ہوتی ہے۔
"یہ شیر کی نہیں ہوا چلنے کی آواز ہے۔’
"نہیں جناب، یہ ضرور شیر ہے۔ آپ ایک بار پھر غور سنیے۔’ ابراہیم نے زور دے کر کہا اور اس مرتبہ ڈونلڈ نے بھی اس کی تائید کی۔
"ہاں ڈیڈی، یہ شیر ہی ہے۔ تعجب ہے آپ کی سماعت اَب اتنی کمزور ہو گئی ہے۔’
"تم ٹھیک کہتے ہو۔ مَیں یہ آواز نہیں سُن رہا ہُوں۔ بہرحال یہ عمر کا تقاضا ہے۔ اگر یہ شیر ہے تو اب مزید احتیاط سے کام کرنا ہوگا۔ کہیں وہ ہماری موجودگی سے باخبر تو نہیں ہو گیا۔ آواز برابر سنتے رہو۔’
ڈونلڈ اور ابراہیم کے بیان کے مطابق شیر دس منٹ تک ہانپتا رہا، پھر خاموش ہو گیا۔ کوشش کے باوجود صحیح صحیح اندازہ نہ کیا جا سکا کہ وہ کدھر ہے؟ اس نازک موقع پر سنبھل سنبھل کر اور بڑی ہوشیاری سے قدم اٹھانے کی ضرورت تھی۔ چنانچہ مَیں نے ابراہیم اور ڈونلڈ کو اپنے پچھلے رُخ الگ الگ اس انداز میں کھڑے ہونے کی ہدایت کی کہ شیر اگر عقب سے اچانک نمودار ہو جائے تو فوراً مجھے آگاہ کر سکیں۔ اس طرف وہی ڈھلان تھی جس پر پھسل کر ہم کھائی میں اترے تھے۔ دائیں طرف بیس پچیس فٹ بلند ایک چٹان اور بائیں طرف ساٹھ ستّر فٹ اونچا اور انتہائی دشوار گزار چٹانوں کا کنارہ تھا۔ اگر ہم فوری طور پر بھاگنا چاہتے، تو صرف سامنے کے رخ ہی بھاگ سکتے تھے۔ اسی جانب کچھ فاصلے پر ایک بڑا درخت گرا ہوا نطر آیا جس نے برسات کے موسم میں پانی کے ساتھ بہہ کر آنے والی ریت روک روک کر ایک قدرتی بند باندھ دیا تھا۔ ہماری دائیں جانب واقع چٹانی دیوار پر اس درخت کے قریب پہنچ کر ریت کے اونچے بند میں شامل ہو جاتی تھی اور اس سے پرے کیا ہے؟ یہ نظر نہ آتا تھا۔
معاً مَیں نے شیر کے غرّانے کی آواز سُنی اور یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے شیر کی جائے پناہ کا صحیح اندازہ ہوا۔ وہ موذی اس ریتلے بند کے پیچھے چھپا ہوا تھا اور اس کے غرانے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اس نے ہمیں دیکھ لیا ہے۔ مَیں نے اپنی رائفل چیک کی، ابراہیم اور ڈونلڈ کو چٹان کے ساتھ چپک جانے کی ہدایت کی اور دبے پاؤں درخت کی طرف بڑھنے لگا۔ نزدیک پہنچ کر میں نے غور سے دیکھا بھالا ایک جانب جنگلی جانوروں نے اپنے آنے جانے کے لیے چھوٹا سا راستہ بنا لیا تھا اور شیر بھی غالباً یہی راستہ استعمال کرتا تھا۔ مَیں نے وہاں خشک لید بھی بڑی مقدار میں پڑی دیکھی۔ ریت کے بند کا ایک نظر معائنہ کیا اور معلوم کرلیا کہ اس پر چڑھنا کچھ مشکل نہیں۔ درخت کا تِرچھا تنا اور اس پر لگی ہوئی موٹی موٹی شاخیں مجھے سہارا دینے کے لیے آمادہ تھیں۔ میں نے رائفل گلے میں لٹکائی اور خدا کا نام لے کر بند پر چڑھنے لگا۔ ایک نظر موڑ کر ڈونلڈ اور ابراہیم کی طرف بھی دیکھ لیا، وہ دونوں رائفلیں ہاتھوں میں تھامے پتّھر کے بتوں کی مانند بے حِس و حرکت اپنی اپنی جگہ کھڑے تھے۔
میرا مقابلہ جس آدم خور سے تھا، اس کی عیاری اور چالاکی کو کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی۔ ایک ایک لمحہ انتہائی جان لیوا اور خطرناک تھا۔ ممکن تھا کہ بند پر چڑھنے کے دوران میں آدم خور یک لخت نمودار ہو جاتا، تب میں بالکل بے بس تھا، پھر وہ کیا کرتا؟ یہ سوچتے ہی میرا چہرہ پسینے سے تر ہو گیا۔ یہ موقع ایسا نازک تھا کہ ذرا سی غفلت مجھے آدم خور کے پیٹ میں پہنچا دیتی۔ ایک لحظے کے لیے مجھے خیال آیا کہ ایسا خطرہ مول لینا دانش مندی سے بعید ہے۔ مجھے یہاں سے چلے جانا چاہئے۔ آدم خور کے ٹھکانے کا پتا لگ چکا ہے، کسی بھی روز مناسب موقع ملتے ہی اسے ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے۔ مَیں نے سوچ کر پیچھے ہٹنے کے لیے قدم اٹھایا ہی تھا کہ شیر پھر غرّایا اور اس مرتبہ مجھے اس کی آواز میں اپنے لیے ایک چیلنج سا محسوس ہوا۔
ہرچہ بادا باد کہہ کر مَیں ریت کے قدرتی بند پر چڑھا اور ایک ایک انچ اپنا سر اوپر اٹھاتے ہوئے گرد و پیش کا جائزہ لیا۔ شیر کو دیکھ کر طبیعت خوش ہو گئی۔ ایسا خُوب صورت، قوی ہیکل اور بارُعب دردندہ مَیں نے برسوں بعد دیکھا تھا، اگر یہ آدم خور نہ ہوتا، تو میں اسے ہر قیمت پر زندہ پکڑنے کی کوشش کرتا۔ مجھ سے اس کا فاصلہ بیس تیس فٹ سے زیادہ نہ تھا۔ اور وہ جھاڑیوں کے قریب نہایت اطمینان اور سکون سے آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا جیسے گہری سوچ میں ہے۔ شیر بائیں طرف کوئی دس گز دُور تین چار چرخ جھاڑیوں میں دُبکے نظر آئے۔ جب بھی وہ آگے بڑھتے شیر آنکھیں کھول کر غُراتا اور چرخ ڈر کے مارے دوبارہ جھاڑیوں میں جا چھپتے۔ میں یہ تماشا دیکھنے میں اتنا محو ہوا کہ شیر پر فائر کرنے کا خیال ہی دل سے نکل گیا۔ یکایک شیر نے اُٹھ کر شاہانہ انداز میں میں انگڑائی لی، پورا جبڑا کھول کر ایک زبردست ڈکار لی اِدھر اُدھر دیکھا۔ اِدھر مجھے محسوس ہوا کہ وہ ہاتھ سے نِکلا، فوراً ہی رائفل کی طرف ہاتھ بڑھا، لیکن رائفل میری دائیں جانب سینے کے ساتھ ترچھی لٹکی ہوئی تھی اور شیر کی کھوپڑی کا نشانہ لینے کے لیے مجھے رائفل کی نال کو ایک چکّر تقریباً تین چوتھائی حصّہ گھمانا چاہیے تھا جو موجودہ پوزیشن میں قطعاً ناممکن سی بات تھی۔ مَیں ایک ہاتھ سے ٹیلے کا سہارا لیے ہوئے تھا اور دوسرے ہاتھ سے درخت کی ایک شاخ تھام رکھی تھی۔ اس اثناء میں شیر کی چھٹی حِس نے اسے اپنے سر پر منڈلانے والے خطرے سے آگاہ کر دینا شروع کر دیا۔ مَیں نے دیکھا وہ بے چین اور مضطرب ہے۔ بار بار اٹھتا اور بیٹھتا ہے اور کبھی گردن گھما کر ادھر ادھر دیکھنے لگتا ہے۔ دراصل اُس نے کرنل سائمن کے بازوؤں، ٹخنوں اور کھوپڑی کے سوا سارا جسم ہڑپ کر لیا تھا اور کئی گھنٹے سو کر یہ کھانا ہضم کرنا چاہتا تھا، لیکن لگڑبگڑوں کی شرارت کے باعث اس کی نیند حرام ہو گئی اور پھر اس نے مجھے دیکھ لیا۔
اس کا اٹھا ہوا سر ساکت ہو گیا اور چہرے پر ایسی بھیانک مسکراہٹ نمودار ہوئی کہ میرا خون خشک ہو گیا۔ رونگٹے کھڑے ہو گئے اور مجھے یوں محسوس ہوا کہ کوشش کے باوجود مَیں اپنے ہاتھوں کو حرکت نہیں دے سکتا۔ شاید وہ مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا کہ آیا مَیں کوئی جانور ہوں یا انسان، اس لیے کہ میرا جسم بند کی وجہ سے اس نظروں سے غائب تھا اور وہ صرف میری کھوپڑی ہی دیکھ سکتا تھا۔ میں اپنے عقب میں ابراہیم اور ڈونلڈ کے چپکے چپکے آگے بڑھنے کی مدھم آوازیں بھی سن رہا تھا۔ لیکن گردن ترچھی کر کے انہیں دیکھنے یا کچھ اشارہ کرنے کی ہمّت نہ تھی، پلک جھپکائے بغیر شیر مجھے مسلسل دیکھ رہا تھا۔ پھر اُس کی دُم میں آہستہ آہستہ گردش کرنے لگی، وہ اُٹھ کر کھڑا ہو گیا اور اب زیادہ غور سے میری جانب دیکھنے لگا۔ غالباً ڈونلڈ اور ابراہیم کی جانب سے ہونے والی آہٹ اس کے حساس کانوں تک پہنچ گئی تھی۔ چند لمحے تک وہ اسی طرح ساکت کھڑا رہا۔ موقع ایسا تھا کہ اسے فرار ہو جانا چاہیے تھا۔ مگر پیٹ بھرا ہوا تھا، اس لیے چلنے پھرنے کی ہمّت باقی نہ رہی تھی۔ اس نے جھاڑیوں کا ایک چکّر کاٹا اور دوبارہ وہیں آن کر بیٹھ گیا جہاں پہلے بیٹھا تھا۔
میرا بایاں ہاتھ فوراً حرکت میں آ گیا اور مَیں نے اپنے بدن کا پورا بوجھ دوسرے بازو پر ڈال دیا۔ ایک ہاتھ سے رائفل گھما کر جنبش میں لانے کا تکلیف دہ کام چیونٹی کی رفتار سے شروع ہوا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اگر زور سے حرکت کرتا، تو توازن برقرار نہ رہتا اور عین دھڑام سے نیچے گر جاتا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اس آواز سے آدم خور چوکنا ہو کر اپنی جگہ سے ٹل جاتا اور ہماری سب کوششوں پر آنِ واحد میں پانی پھر جاتا، اس لیے میں اپنی پوری قوتِ ارادی کام میں لا کر رائفل کو چپکے سے اپنے دائیں ہاتھ پر لانا چاہتا تھا۔ ابراہیم اور ڈونلڈ کو آنکھوں کے اشارے سے سمجھایا کہ جہاں کھڑے ہو، وہیں جمے رہنا، ذرا حرکت کی اور کام بگڑا۔
دو منٹ بعد رائفل میرے دائیں ہاتھ میں تھی اور اَب میں نے دونوں پَیر چوڑے کر کے ریت میں اچھی طرح جما دیے اور تن کر کھڑا ہو گیا۔ آدم خور اب جھاڑیوں میں گُھسنے کا ارادہ کر رہا تھا، کیونکہ میں نے دیکھا کہ بے شمار سیاہ مکھیاں اس کے سر اور گردن پر منڈلا رہی ہیں اور وہ انہیں اڑانے کے لیے بار بار گردن کو جھٹکے دے رہا ہے۔ مَیں نے احتیاط سے اس کی کھوپڑی کا نشانہ لیا اور فائر کرنے ہی والا تھا کہ میرے پیروں تلے سے ریت کِھسک گئی، مَیں ڈگمگایا اور توازن برقرار نہ رکھ سکا۔ اسی لمحے لبلبی غیر ارادی طور پر دَب گئی۔ جنگل کی فضا اور گردونواح کی سنگلاخ چٹانیں فائر کے دھماکے اور شیر کی ہولناک گرج سے کانپ اُٹھیں۔۔۔ مَیں لُڑھکنیاں اور قلابازیاں کھاتا ہُوا ابراہیم اور ڈونلڈ کے قدموں میں جا گرا۔ اس کے بعد یوں محسوس ہوا جیسے نظروں کے آگے چمک دار سفید سفید پتنگے یا شرارے سے اڑ رہے ہیں۔ پسلیوں میں ایک ناقابل برداشت ٹیس اُٹھی اور پھر کچھ یاد نہ رہا کہ مجھ پر کیا بیتی۔
ہوش آیا، تو مَیں نے اپنے کو کرنل سائمن کے بنگلے کے ایک کمرے میں بستر پر پڑے پایا۔ ڈونلڈ میرے قریب ایک کرسی پر بیٹھا تھا۔ اس نے بتایا کہ میرے بائیں بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ ابراہیم بیرُور گیا ہے تاکہ وہاں سے کسی ڈاکٹر کو لے آئے۔ اَب میں نے دیکھا کہ میرے بازو پر پٹّی بندھی ہے، گردن، گھٹنے اور انگلیوں پر بھی گہری خراشیں آئی ہیں۔ آدم خور کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ بچ کر بھاگ نِکلا۔
ایک ہفتہ گزر گیا۔ اس دوران میں بیرُور سے دو مرتبہ ایک نوجوان ناتجربہ کار ڈاکٹر آیا اور میرے بازو اور زخموں کی دیکھ بھال کرتا رہا، مگر تکلیف روز بروز بڑھتی جاتی تھی۔ آخر اس نے مجھے بنگلور کے بڑے ہسپتال میں جانے کا مشورہ دیا۔
اتفاق دیکھیے کہ جس روز میں بنگلور جانے کی تیّاری کر رہا تھا، اُسی روز ضلع کھادر کے ڈپٹی کمشنر اپنے لاؤ لشکر لے کر مجھے دیکھنے آ گئے۔ ولیم سائمن اور اُس کے باپ کے مارے جانے کی خبریں ان تک پہنچ چکی تھیں اور یہ مجھے بعد میں پتا چلا کہ ڈپٹی کمشنر کی اِن مرنے والوں سے سے قرابت داری بھی تھی۔ ڈپٹی کمشنر مسٹر نکولس کے ساتھ ایک ہندو ریاست کے دو اعلیٰ عہدے بھی آئے تھے۔ ان کے بارے میں مجھے بتایا گیا کہ دونوں تجربے کار شکاری ہیں۔ اور بہت سے آدم خوروں کو کیفرِ کردار تک پہنچا چکے ہیں ایک کا نام درباری لال اور دوسرے کا سادھو سنگھ تھا۔۔۔۔ ان کے ساتھ چار پانچ پیشہ شکاری بھی تھے۔
میں چونکہ ہندوستان میں عرصے تک رہا ہوں اور کئی والیانِ ریاست اور امرا کے ساتھ شکار پر جانے کا اتفاق ہوا ہے، اس لیے ان لوگوں کی خوبیوں اور کمزوریوں سے بخوبی واقف ہوں۔ یہ لوگ شکار کی ابجد سے بھی واقف نہیں۔۔۔ مگر ڈینگیں اتنی مارتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔۔۔۔ معمولی گیڈر پر فائر کر کے خوش ہوتے ہیں کہ شیر پر گولی چلائی اور مصاحب اور درباری قسم کے لوگ انہیں باور کروا دیتے ہیں کہ سرکار کے نشانے کا جواب نہیں۔ شیر کی بھلا کیا مجال جو آپ کے ہاتھوں بچ کر نکل جائے۔ غرض اسی طرح کی باتیں کر کے اپنے آقاؤں کو اُلّو بناتے اور مال اینٹھتے ہیں۔ چنانچہ درباری لال اور سادھو سنگھ کی ایک جھلک دیکھنے کے بعد ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ حضرات کتنے پانی میں ہیں، بلکہ میرے ذہن میں یہ خدشہ سر اٹھانے لگا کہ آدم خور کہیں ان دونوں کو بھی ہڑپ نہ کر جائے۔
درباری لال کہنے لگا: "صاحب، آپ کو چوٹ لگ گئی ہے، ہسپتال چلے جائیے۔ آدم خور سے ہمارے مہاراجہ صاحب نِمٹ لیں گے۔’
"مہاراجہ صاحب بھی آ رہے ہیں؟’ میں نے حیرت سے پوچھا۔
"جی ہاں، وہ ہمارے ساتھ ہی چلے تھے، مگر راستے میں زکام ہو گیا، اس لیے واپس چلے گئے ایک دو روز بعد طبیعت ٹھیک ہو جائے گی، تب آئیں گے۔’ سادھو سنگھ نے تشریح کی۔
میں مُسکرا کر چُپ ہو رہا۔ ان مہاراجہ صاحب کا مَیں بعض مصلحتوں کی بنا پر نام نہ لوں گا۔ مَیں ان سے اچھی طرح واقف تھا اور ایک مرتبہ ان کی حماقت کے باعث موت کے منہ میں جاتے جاتے بچا بھی تھا۔ واقعہ اگرچہ بہت دلچسپ اور طویل ہے، اس لیے بیان کیے بغیر چارہ نہیں! تاہم مختصر الفاظ میں لکھوں گا۔ اس کی مدد سے آپ ان والیان ریاست کے شکار کھیلنے کے قاعدوں اور اُصولوں سے آگاہ ہو سکیں گے اور معلوم ہوگا کہ یہ لوگ کیسی کیسی مضحکہ خیز حرکتیں کرتے تھے۔
ان دنوں مَیں نے اس ریاست میں جنگل کٹوانے کا ٹھیکہ لے رکّھا تھا۔ نہ جانے مہاراجہ کو میرے شکاری ہونے کا پتا کیسے چلا۔ کاروبار وغیرہ کے سلسلے میں مَیں حتّی الامکان کوشش کرتا ہوں کہ رائفل کا استِعمال کم سے کم کروں اور شکار سے توجّہ ہٹا کر اپنے کام کی طرف دھیان دوں۔ ویسے بھی اس ریاست میں میرے جاننے والے اِکّا دُکّا آدمی تھے جنہیں مَیں نے سمجھا دیا تھا کہ وہ میرے شکاری ہونے کا انکشاف نہ کریں ورنہ مہاراجہ اور ان کے درباریوں سے پیچھا چھڑانا اور مشکل ہو جائے گا۔ ایک ہفتہ بخیر و عافیت گزر گیا۔۔۔۔ جس جنگل میں کٹائی کام ہو رہا تھا، وہاں شیر، تیندوے، چیتے، سانبھر، چیتل اور ریچھ سبھی جانور ملتے ہیں۔ لیکن انہوں نے مزدوروں کے کام میں کبھی مداخلت نہ کی، بلکہ انہیں دیکھ کر گزرگاہ بدل لیا کرتے تھے۔
ایک روز دوپہر کے وقت جب کہ میں گھوڑے پر سوار جنگل میں نگرانی کے لیے جا رہا تھا، ریاست کے دو سپاہی میرے پاس آئے اور انہوں نے بتایا کہ مہاراجہ نے یاد فرمایا ہے اسی وقت اور اسی وقت چلنا ہوگا۔ میں سمجھا کہ شاید ٹھیکے وغیرہ کے معاملے پر پوچھ گچھ کرنا چاہتے ہوں گے، اس لیے چلا گیا۔ مہاراجہ اپنے محل میں آرام فرما رہے تھے، وہیں طلب فرما لیا اور مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے: "مسٹر اینڈرسن، ہم نے سنا ہے آپ بہت اچھے شکاری ہیں۔’ یہ سُن کر میرے پَیروں تلے کی زمین نکل گئی۔ قضا سر پر کھیلنے لگی۔ میں نے دبی زبان سے شکاری ہونے کا اعتراف کیا، لیکن یہ بھی کہہ دیا کہ اب اس مشغلے سے طبیعت اُکتا چکی ہے، قویٰ مضمحل ہو گئے ہیں۔ نشانہ صحیح نہیں رہا۔ ہاتھ کانپ جاتا ہے۔ نگاہ کمزور ہو گئی ہے، اِس لیے میدان چھوڑ چکا ہوں اور صرف کاروبار کی طرف دھیان دیتا ہوں۔ مہاراجہ یہ باتیں سن کر ہنس پڑے اور بیٹھنے کے لیے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔
"مَیں آپ کو تکلیف نہ دیتا مسٹر اینڈرسن، مگر معاملہ نازک ہے، برطانوی افواج کے انگریز کمانڈر انچیف صاحب آ رہے ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ وہ میری ریاست سے شیر کا شکار کیے بغیر واپس جائیں۔ مَیں نے اسی لیے آپ کو بلایا ہے کہ ایک تو آپ اُن کے ہم قوم ہیں اور دوسرے یہ کہ شیر کے شکار کا نہایت وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ آپ کو ان کے ساتھ جانا ہوگا۔ مَیں آپ کو اس خدمت کے لیے معقول معاوضہ ادا کروں گا۔’
"مہاراج، آپ کی خدمت بجا لا کر مجھے خوشی ہو گی، لیکن مَیں پیشہ وَر شکاری نہیں ہوں۔ اس لیے معاوضے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ صرف اتنا کہوں گا کہ آپ کے ہاں شیر کا شکار جس انداز میں کیا جاتا ہے، اُسے میں شکار نہیں سمجھتا، بلکہ میرے نزدیک بے چارے جانور پر ظلم ہے۔’
"وہ کیسے؟’ مہاراجہ مسہری سے اُٹھ کر بیٹھ گئے اور حیرت سے میری طرف دیکھنے لگے۔
"وہ یُوں کہ شیر اکیلا ہوتا ہے اس کے مقابلے میں آپ پُورا لشکر لے جاتے ہیں، سینکڑوں لوگ ہانکا کرنے والے، بہت سے پیشہ ور شکاری اور مسلح فوجی سپاہی چاروں طرف سے ناکہ بندی کر کے اسے گھیر لیتے ہیں اور جب وہ بے بس ہو جاتا ہے، تو مچان پر بیٹھا ہوا کوئی ایک شخص فائر کر کے شیر کو ہلاک کر ڈالتا ہے اور شکاریوں میں اپنا نام لِکھا لیتا ہے۔ بھلا بتائیے، کیا یہی شکار ہے؟’
مہاراج نے قہقہہ لگایا:
"آپ بڑے دلچسپ آدمی ہیں۔۔۔۔ ہم اور ہمارے آباؤ اجداد ہمیشہ اسی طرح شکار کھلیتے ہیں اور مجھے تو اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی، بلکہ شکار کا لطف دوچند ہو جاتا ہے۔ بھلا آپ کس طرح شکار کھیلتے ہیں؟
"مَیں اپنے حریف کو پورا پُورا موقع دیتا ہوں کہ وہ بھی حملہ کرنے کا ارمان نکال لے۔ اُسے بے بس نہیں کرتا اور یہ مچان وغیرہ میرے نزدیک بزدلوں کی ایجاد ہے۔ سچ تو یہ ہے مہاراج کہ حریف کے سامنے ڈٹ کر دو دو ہاتھ کرنے میں مزہ آتا ہے۔’
"خوب، بہت خوب۔’ مہاراج نے میری جانب غور سے دیکھا۔ اُن کی آنکھوں میں اب حیرت کی جگہ تمسخر جھلک رہا تھا جیسے وہ میری باتوں کو مجذُوب کی بڑ سمجھ رہے ہوں۔ ’آپ نے اب تک کتنے شیر مارے ہیں مسٹر اینڈرسن؟’
"صحیح تعداد تو یاد نہیں۔’ مَیں نے بے پروائی سے کہا۔ "کوئی سَو سوا سَو مارے ہوں گے اور یہ سبھی آدم خور تھے۔ مَیں انہی شیروں کا دشمن ہوں جو آدمیوں کے دشمن ہیں۔ بے گناہ شیروں پر میرا ہاتھ دانستہ کبھی نہیں اٹھا۔’
"کمال ہے، کمال ہے۔’ مہاراجہ کے منہ سے دوبارہ یہ جملہ نِکلا۔ پھر چند لمحے سوچنے کے بعد وہ بولے:
"آپ کا کہنا ٹھیک ہے مسٹر اینڈرسن، ہم لوگ واقعی شکار نہیں کھیلتے، شکار کے فن کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ مجھے آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے آپ مستقل طور پر میری ریاست میں قیام کریں؟ بہرحال مَیں چاہتا ہوں کہ آپ اس مہم میں ہمارے ساتھ ضرور شریک ہوں، لیکن شیر پر گولی چلانا یا نہ چلانا آپ کی مرضی پر منحصر ہوگا۔ میں آپ کا اُصول توڑنا نہیں چاہتا۔’
"میں حاضر ہو جاؤں گا۔’ میں نے کہا اور مہاراجہ سے رخصت ہو کر اپنے کیمپ کو چلا آیا۔ ایک ہفتے بعد کمانڈر انچیف صاحب تشریف لائے۔ مہاراجہ نے میرا تعارف کرایا۔ موصوف میرے نام اور کام سے پہلے ہی آگاہ تھے، گرم جوشی سے ملے۔ مَیں نے اُن سے بھی وہی باتیں کیں جو مہاراجہ سے کر چکا تھا۔ کمانڈر انچیف نے بھی انہیں تسلیم کیا، لیکن اپنے اناڑی پن کا بہانہ کر کے بات ختم کر دی۔ پہلے روز خبر ملی کہ شیروں کا ایک جوڑا دریا کے پرلے کنارے پر واقع غاروں میں رہتا ہے اور جنگل میں گھومتا دکھائی دیکھا گیا ہے۔ مہاراجہ فوراً اپنے آدمیوں کے ہمراہ دریا پار جا اترے، خیمے وغیرہ لگ گئے اور خاصی چہل پہل ہونے لگی۔ مَیں یہ انتظام دیکھ کر ہنستا تھا اور لوگ میرے ہنسنے پر ہنستے تھے۔ مَیں ان کو پاگل سمجھتا تھا وہ مجھے دیوانہ کہتے تھے۔
ہانکا شروع ہوا۔ مزدور، سپاہی اور دیہاتی ڈھول بجانے اور گلا پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگانے لگے۔ دریا اُن دنوں تقریباً خشک پڑا تھا۔ اکثر لوگ دریا میں اتر کر کھڑے ہو گئے تاکہ شیر اُدھر سے نکل کر بھاگنے نہ پائے۔ اکثر منچلے سپاہی انعام پانے کے لالچ میں غاروں کے نزدیک چلے گئے اور ان کے اندر پتھر برسانے لگے۔ مہاراجہ اور کمانڈر انچیف صاحب علیحدہ علیحدہ درختوں پر بندھے ہوئے مچانوں پر بیٹھے تھے اور میں دریا کے کنارے ایک درخت کے تنے کے ساتھ لگا کھڑا تھا۔ دفعتہً ایک ہولناک گرج کے ساتھ شیر اور شیرنی غار سے برآمد ہوئے اور ہانکا کرنے والوں میں بھگدڑ مچ گئی میں نے دیکھا کہ ایک دیہاتی کو خون میں نہلا کر زمین پر لٹا دیا اور آدمیوں کا حلقہ چیر کر شیر اور شیرنی آناً فاناً نظروں سے غائب ہو گئے۔ البتہ ان کے دہاڑنے کی آوازیں دیر تک جنگل میں گونجتی رہیں۔
جس شخص کو شیر نے زخمی کیا تھا، چند منٹ بعد طبّی امداد بہم پہنچے بغیر اُس نے دم توڑ دیا۔ کمانڈر انچیف اس حادثے سے سخت بے مزہ ہوئے، لیکن مہاراجہ کی نظروں میں اُن کی رعایا کے ایک معمولی دیہاتی کی جان کوئی قیمت نہ رہی تھی۔ انہوں نے دوبارہ ہانکا کرنے کا حکم دیا۔ معلوم ہوا کہ شیر اور شیرنی کئی فرلانگ دور لمبی لمبی گھاس کے ایک قطے میں چُھپے ہوئے ہیں اور پتھروں کی بارش کے باوجود باہر نہیں نکلتے۔ مہاراجہ نے مجھے کمانڈر انچیف کے ساتھ جیپ میں روانہ کیا اور خود دُوسری جیپ میں بیٹھے۔
گھاس کے وسیع و عریض قطعے کی ایک جانب چند درخت تھے۔ جلدی سے ایک پر کمانڈر انچیف کو چڑھایا گیا اور دوسرے پر مہاراجہ کو، یہ دونوں درخت آمنے سامنے تھے۔ میں مہاراجہ کی ہدایت کے مطابق کمانڈر انچیف کی حفاظت کے لیے درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا۔ ہانکا شروع ہوا۔ شیرنی تو چھلانگ لگا کر ایک طرف گرجتی غرّاتی ہوئی نکل گئی، لیکن شیر بدحواس ہو چکا تھا، وہ سیدھا اس درخت کی طرف بڑھا جس پر کمانڈر انچیف صاحب بیٹھے ہوئے تھے اور تنے کے ساتھ میں لگا کھڑا تھا۔ اصولاً کمانڈر انچیف کو شیر پر گولی چلانی چاہیے تھی، لیکن مہاراجہ نے معزّز مہمان کو موقع دیے بغیر اندھا دُھند فائرنگ شروع کر دی۔ وہ شوق سے ایسا کرتے، لیکن انہیں یہ بھی یاد نہ رہا کہ میں اس درخت کے نیچے موجود ہوں۔ دو گولیاں سائیں سائیں کرتی میرے دائیں بائیں نکل گئیں، تب پتا چلا کہ مہاراجہ کا نشانہ شیر کے بجائے میں خود ہوں۔ موقع ایسا تھا کہ اگر شیر کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تو مہاراجہ کی گولیاں میرے جسم میں پیوست ہوتی ہیں اور اگر ان گولیوں سے بچنا چاہتا ہوں، تو شیر مجھے زخمی کر کے بھاگ جائے گا۔ خیر گزری کہ کمانڈر انچیف نے کوئی فائر نہیں کیا، ورنہ میرا قصّہ اس روز پاک ہو گیا تھا۔ مجبوراً مَیں تنے سے چمٹ گیا اور شیر پر گولی چلائی۔ گولی اس کی گردن میں لگی اور وہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد مہاراجہ صاحب اکڑتے ہوئے نمودار ہوئے اُن کے مصاحب مہاراجہ کے نشانے کی تعریف میں زمین آسمان کے قُلابے ملا رہے تھے۔ جب وہ چُپ ہوئے، تو مَیں نے کہا:
"ذرا شیر کو بھی دیکھ لیجیے کہ گولی کہاں لگی ہے۔’
فرمانے لگے: مَیں نے دو گولیاں اس کی کھوپڑی میں ماریں اور ایک دائیں شانے میں۔’
شیر کا معائنہ کیا گیا، تو اس کی گردن میں صرف ایک گولی پیوست تھی اور یہ وہی تھی جو میری رائفل سے نکلی تھی۔۔ مَیں نے کہا:
"جناب، آپ نے تو آج مجھے ختم ہی کر دیا تھا۔’
مہاراجہ کا چہرہ سُرخ ہو گیا۔ انہوں نے اپنے اے ڈی سی پر غصّہ اتارا اور خوب ڈانٹ ڈپٹ کی۔ اگلے روز میں بیماری کا بہانہ لے کر وہاں سے رفوچکّر ہو گیا اور جان بچ جانے پر خُدا کا شکر ادا کیا۔
بنگلور کے ہسپتال میں پڑے پڑے مجھے پُورا ایک مہینہ ہو گیا۔ اس دوران میں ابراہیم نے میری ایسی خدمت کی کہ بیان سے باہر۔ ڈونلڈ، ڈپٹی کمشنر اور اس کی پارٹی کے ساتھ آدم خور کے تعاقب میں لگا ہوا تھا۔ ہر ہفتے مجھے اُس کی سرگرمیوں کے بارے میں تفصیلی خبریں مل جاتی تھیں۔ معلوم ہوا کہ مہاراجہ صاحب آدم خور کی ہیبت سے اتنے لرزاں ہوئے کہ دو روز بعد ہی اپنی ریاست کو بھاگ لیے۔ البتّہ اُن کے دونوں مصاحب ڈٹے رہے۔ ان میں سے درباری لعل کو مہاراجہ کے رُخصت ہونے اگلے ہی روز آدم خور نے کئی لوگوں کے سامنے مُنہ میں دبایا اور لے گیا۔ سادھو سنگھ ایسے ڈرے کہ ان پر دل کا شدید دَورہ پڑا اور تین دن بیہوش رہنے کے بعد مُلکِ عدم کو سدھارے۔ ڈپٹی کمشنر عقلمند آدمی تھا، اس نے کہا لوگوں کو آدم خور کے رحم و کرم پر چھوڑا نہیں جا سکتا۔ شیر کی ہلاکت خیز سرگرمیوں سے نہ صرف اس علاقے کی زندگی معطل ہو چکی تھی، بلکہ گورنمنٹ کا سارا کاروبار بھی رکا پڑا تھا۔ کیونکہ کوئی شخص اِدھر آنے کی جُرأت نہ کرتا تھا۔
شیر اب اتنا نڈر ہو چکا تھا کہ لنگا دھالی، مدّک، سنتاویری، ہوگر خان، ہوگرالی اور بیرُور میں دن دہاڑے گھروں میں آن کودتا اور کسی نہ کسی عورت یا مرد کو پکڑ لے جاتا۔ ایک مرتبہ اُس نے بیرور کے سٹیشن پر نمودار ہو کر سنسنی پھیلا دی۔ اس وقت گاڑی سٹیشن پر کھڑی تھی۔ شیر کو دیکھ کر مسافروں نے جلدی جلدی دروازے بند کر لیے اور بعض لوگوں نے اسے ڈرانے کے لیے برتن بھانڈے کھڑکائے اور پتھر بھی مارے، مگر شیر نے پرواہ نہ کی۔ بھاگتے ہوئے قلیوں میں سے چند کو زخمی کیا اور پھر ایک کو چوہے کی طرح منہ میں دبا کر جنگل کی طرف نکل گیا۔ اس زمانے کے اخباروں میں اس کے بارے میں ایک آدھ خبر ضرور چھپی تھی۔ اخبار ہی کے ذریعے ایک روز پتہ چلا کہ انگریزی فوج کا ایک دستہ آدم خور کا صفایا کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔
اس کے بعد متضاد خبریں آنی شروع ہوئیں۔ کبھی معلوم ہوتا کہ آدم خور مارا گیا اور کبھی پتا چلتا نہیں مرا۔ میرا خیال تھا کہ اُسے مارنا فوجیوں کے بس کی بات نہیں، یہ لوگ تو میدانِ جنگ میں مورچوں کے اندر بیٹھ کر لڑ سکتے ہیں۔ ایک گھنے جنگل میں پچاس ساٹھ مربع میل کے اندر آدم خور کو تلاش کرکے ٹھکانے لگانا آسان نہیں۔ ابراہیم کے خیالات بھی اسی قسم کے تھے۔ وہ بار بار نہایت بے قراری سے میرے تندرست ہونے کی دُعائیں مانگتا تھا اور خود میری طبیعت بھی ہسپتال میں پڑے پڑے بیزار ہو چکی تھی۔ مَیں چاہتا تھا کہ جتنی جلد ہو سکے، اس قید خانے سے نکلوں اور آدم خور کو جہنّم رسید کروں، مگر ڈاکٹروں کے سامنے کوئی پیش نہ جاتی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہڈی ابھی نہیں جڑی ہے اور اگر احتیاط نہ کی گئی، تو یہ ساری عُمر تکلیف دے گی۔
ایک مہینہ سات دن بعد مجھے ہسپتال سے رخصت ہونے کی اجازت ملی۔ اب میرا بازو ٹھیک ٹھاک تھا اور اچھی طرح حرکت کر سکتا تھا۔ چنانچہ مَیں نے ہوگرالی جانے کی تیّاریاں شروع کر دیں، مگر اسی شام ڈونلڈ اپنی ماں کو لے کر ہسپتال میں آ گیا۔ میری بیوی اس زمانے میں بمبئی میں تھی اور اُسے اس حادثے کا علم نہیں ہوا تھا، میں سمجھ گیا کہ ڈونلڈ نے اسے خبر پہنچا دی ہے اور اب وہ مجھے ہوگرالی کبھی نہ جانے دے گی۔ مَیں نے ابراہیم کو اسی ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کے پاس عارضی طور پر ملازم رکھوا دیا اور بیوی اور ڈونلڈ کے ساتھ بمبئی روانہ ہو گیا۔ میرا خیال تھا کہ پانچ سات دن وہاں رہ کر کسی بہانے چلا آؤں گا۔ لیکن بمبئی جاتے ہی بعض نجی کاموں میں ایسا الجھا کہ تین مہینے گزر گئے۔ اس دوران میں آدم خور کے بارے میں خبر پڑھی کہ وہ مارا گیا ہے۔ یہ سن کر میں نے اطمینان کا سانس لیا اور ہوگرالی جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ انہی دنوں کے سلسلے میں پونا اور حیدرآباد جانا پڑا اور آہستہ آہستہ آدم خور میرے ذہن سے محو ہو گیا۔ دو ماہ بعد جب مَیں بمبئی واپس آیا، تو ایک روز اچانک شام کی ڈاک میں ابراہیم کا خط ملا، اسے دیکھتے ہی تمام پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ اس نے لکّھا تھا کہ آدم خور ابھی تک مارا نہیں گیا، وہ کوئی اور شیر تھا جو اس کے دھوکے میں مارا گیا ہے اس نے بڑی تباہی پھیلا رکھی ہے۔ بستیوں کی بستیاں اور گاؤں اُجاڑ دیے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا انتظام نہ کیا گیا تو ضلع کھادر میں ایک آدمی بھی زندہ نہ بچے گا۔
مَیں نے اس خط کا ذکر اپنی بیوی سے کیا نہ ڈونلڈ سے، چپکے سے اپنا ضروری سامان باندھا اور رات کی گاڑی سے بنگلور روانہ ہو گیا۔ وہاں ہسپتال میں ابراہیم سے ملاقات ہوئی اور اس نے آدم خور کے بارے میں تمام تفصیلات سے آگاہ کیا۔ ہوگرالی جانے سے پہلے میں ڈپٹی کمشنر سے مِلا، جنگل میں جانے اور آدم خور سے مقابلہ کرنے کا خصوصی اجازت نامہ حاصل کیا اور ابراہیم کو لے کر ہوگرالی پہنچا۔ وہاں آدمی نہ تھا نہ آدم زاد، کھیتیاں ویران، چائے کے باغ سوکھے اور اجڑے ہوئے، جھونپڑیاں خالی، ہر طرف ایک مہیب سناٹا اور دہشت کی فضا چھائی ہوئی محسوس ہوئی۔ بیرُور پہنچا۔ سٹیشن کے باہر سرکاری کارندوں نے اونچی اونچی بلّیاں باندھ کر لوہے کے خاردار تار لگا رکھے تھے تاکہ آدم خور اِدھر گھسنے نہ پائے۔ اردگرد کی آبادیوں اور بستیوں کے بے شمار افراد وہاں کیمپ لگائے پڑے تھے اور حکومت انہیں رسید مہیا کر رہی تھی۔
ان لوگوں کے ذہن میں یہ بات جم چکی تھی کہ آدم خور کے بھیس میں کوئی بلا ہے جسے ہلاک کرنا انسان کے بس میں نہیں۔ البتّہ اسے جادو ٹونے کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ یہ لوگ طرح طرح کی حرکتیں کرتے رہتے تھے۔ ایک شخص نے جو کسی زمانے میں ہوگرالی کے مندر کا پجاری تھا اور اپنے مذموم اور شرمناک افعال کی وجہ سے مندر سے نکالا جا چکا تھا، یہ موقع غنیمت جان کر اپنی پارسائی کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا اور کہا کہ وہ مندر میں جا کر کالی دیوی کی پُوجا کرے گا اور کالی کے ذریعے اس بلا کو مروا دے گا۔ بے چارے سادہ لوح دیہاتی اس کے جھانسے میں آ گئے اور اسے سونے اور چاندی کی مطلوبہ مقدار مہیا کر دی۔ یہ شخص چُپکے سے میرے پاس آیا اور کہا کہ اگر مَیں اس آدم خور کو ہلاک کر دوں تو نصف سونا وہ مجھے دے دے گا۔ لیکن لوگوں کو پتا نہیں چلنا چاہیے کہ آدم خور کو مَیں نے مارا ہے۔ اس قِسم کے بے ہُودہ باتیں اس نے کیں اور مَیں سُنتا رہا۔ آخر ضبط نہ ہو سکا۔ مَیں نے اُسے بُری طرح مارا، اس پر جُوتے برساتا ہوا لوگوں کے سامنے لے گیا اور سارا قِصّہ کہہ سنایا۔ پھر لوگوں نے اُس کی خوب مرمّت کی اور جوش انتقام میں بعض نوجوان تو اس قدر اندھے ہوئے کہ پجاری کو رسّیوں سے باندھ کر جنگل میں پھینک آئے اور اگلے روز میں نے اس کی ادھ کھائی لاش نہر کے کنارے کھلے عام پڑی ہوئی پائی۔
آدم خور کا تعاقب کرنے میں میرا دن کا چین اور راتوں کی نیند حرام ہو گئی۔ کھانے کا ہوش رہا نہ پینے کا۔ ہر وقت یہی دُھن تھی کہ کسی نہ کسی طرح اسے ختم کروں تاکہ لوگ سُکھ کا سانس لے سکیں، مگر وہ واقعی چَھلاوہ بن چکا تھا۔ بارہا میرا اس کا آمنا سامنا ہُوا، لیکن ہر بار وہ طرح دے کر نکل جاتا۔ اِتنا مَیں جانتا تھا کہ وہ میری تاک میں ہے اور جب بھی اس کا بس چلا وہ میری ہڈّیاں چبا جائے گا۔ مَیں نے اپنا تجربہ اور سارا فن اس کو جھانسا دینے اور پھانسنے میں صرف کر دیا، حتّیٰ کہ کئی مرتبہ اس کی گزرگاہ میں آنکھیں بند کرکے لیٹ بھی گیا جیسے سو گیا ہوں، مگر وہ سب کچھ سمجھتا تھا، دُور ہی سے دیکھ دیکھ کر غراتا، نزدیک نہ آتا اور جونہی مَیں رائفل سیدھی کرتا وہ جھاڑیوں میں غائب ہو جاتا۔ اگرچہ میں اس کے راستے کا پتھر بن چکا تھا۔ تاہم آدمیوں کو ہڑپ کرنے کا سَواد اس میں اس قدر سما چکا تھا کہ وہ روز حیلے فریب سے کسی نہ کسی آدمی کو ضرور پکڑ لیتا۔ ایک مرتبہ تو وہ بیرُور سٹیشن کے باہر لگے ہوئے تاروں میں سے گھس کر کیمپ میں بھی جا نکلا اور مسلح سپاہیوں کے سامنے فائرنگ کے باوجود ایک عورت کو اٹھا کر بھاگ گیا۔
مَیں کہہ نہیں سکتا کہ اس مُوذی کے انتظار میں کتنی راتیں درختوں پر جاگ کر کاٹیں، کتنے دن پہاڑی ٹیلوں، غاروں اور گھاٹیوں میں ٹھوکریں کھاتا پھرا۔ ابراہیم سائے کی طرح میرے ساتھ تھا، حالانکہ کئی مرتبہ وہ آدم خور کے ہتھے چڑھتے بچا۔ مَیں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی، مگر اس نے ایک نہ سنی۔ حقیقت میں وہ نہایت نڈر اور بہادر آدمی تھا، مجھے اس شخص کی دوستی پر ہمیشہ فخر رہے گا اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اگر وہ میرا ساتھ نہ دیتا، تو شاید مَیں اس آدم خور کو ہلاک کرنے میں کبھی کامیاب نہ ہوتا۔
بعض اوقات وہ کئی کئی ہفتے نظر نہ آتا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی سلطنت کے سرحدی علاقوں میں دورے پر نکل جاتا۔ مثلاً بھدرا ڈیم پر پہنچ گیا اور وہاں موقع پا کر چار پانچ آدمی ہڑپ کر لیے۔ بابا بَدان کے دشوار گذار پہاڑیوں میں نمودار ہوا اور جھونپڑیوں میں سوئے ہوئے مَردوں یا عورتوں کو زخمی کیا اور ایک آدھ کو اٹھا کے لے کر بھاگا۔ اسی طرح لکّھا والی، لال باغ، لنگا دھالی اور سنتاویری کے علاقوں میں گھومتا پھرتا، چونکہ ان علاقوں کے لوگ ابھی تک آزادانہ آمدورفت رکھتے تھے، اس لیے آدم خور کو اپنا شکار حاصل کرنے کا موقع آسانی سے مل جاتا تھا۔ میری جمع کردہ معلومات کے مطابق آدم خور سال کے دس مہینوں میں کم از کم ایک سو بانوے افراد کو ہڑپ کر چکا تھا اور اس کی ہلاکت خیز اور خون ریز سرگرمیوں کا دائرہ وسیع ہورہا تھا۔ وہ جس انداز سے لوگوں کو اپنے پیٹ کا ایندھن بنا رہا تھا، اس سے ظاہر ہوتا تھا، اگر یہی رفتار رہی، تو ایک دن ایسا آئے گا کہ ان تمام علاقوں اور بستیوں میں نسلِ انسانی کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے گا۔
ہمارا قیام کرنل سائمن کے بنگلے میں تھا۔ اگرچہ یہاں رہتے ہوئے دہشت ہوتی تھی، کیونکہ بار بار بُڈھے کی شکل نظروں سے سامنے گھومنے لگتی تھی، لیکن محض اس لیے نارنگیوں کا باغ آدم خور کی عارضی پناہ گاہ بن چکا تھا، میں وہاں ٹھہرا ہوا تھا، لیکن جب میں اس کی تلاش میں نکلتا، تو آوازیں تھم جاتیں۔ نہ معلوم موذی کو کیسے پتا چل جاتا تھا کہ مَیں اس کی تاک میں ہوں۔ کئی مرتبہ دن کی روشنی میں وہ بنگلے کے قریب سے بھی گزرا، لیکن اس سے پہلے کہ مَیں اس کا تعاقب کروں یا رائفل سنبھالوں، وہ رفو چکّر ہو جاتا تھا۔ بارہا اس نے جنگل میں میرا پیچھا کیا، مگر وَار کرنے میں کامیاب نہ ہوا۔
ایک روز مَیں کیمپ کا دَورہ کر کے شام کو واپس آیا، تو ابراہیم کے چہرے پر خوف کی ہلکی ہلکی پرچھائیاں ابھر آئیں۔ معلوم ہوا کہ آدم خور دن بھر بنگلے کے گرد چکر کاٹتا رہا اور ایک دو دفعہ اس نے دروازہ توڑ کر اندر گھسنے کی کوشش بھی کی ہے۔
"صاحب، مَیں نے اس پر دو تین فائر کیے، مگر کوئی گولی اسے نہیں لگی، پھر وہ گرجتا اور غراتا ہُوا بھاگ گیا۔ مَیں ڈر رہا تھا کہ کہیں وہ قریب ہی چُھپا نہ ہو اور آپ پر اچانک حملہ کر دے۔’
"وہ کیسے؟’ ابراہیم نے پوچھا۔
"ذرا ہمّت کرنی پڑے گی۔ اس میں خطرہ ہے، مگر تمہیں مجھ پر اعتماد کرنا چاہیے۔’
"میں ہَر خدمت کے لیے حاضر ہوں۔ آدم خور کو ہلاک کرنے کے لیے آپ کو اگر میری جان کی بھی ضرورت پڑے، تو انکار نہ کروں گا۔ میری جان مخلوقِ خدا کی بھلائی اور بہتری کے لیے کام آئے، تو اس سے بڑھ کر خوش نصیبی اور کیا ہوگی۔ آپ اپنا منصوبہ بتائیے۔’
"منصوبہ صرف اتنا تھا کہ تم آج رات بنگلے کے باغ میں چارپائی بچھا کر لیٹ جاؤ۔ اپنے پاس بھری ہوئی رائفل ضرور رکھ لینا۔ مَیں قریبی درخت پر بیٹھوں گا۔ مجھے یقین ہے وہ ضرور آئے گا اور مَیں اس پر گولی چلا کر مار ڈالوں گا۔ شکاری لوگ شیر کو پھانسنے کے لیے چارے کے طور پر بکری یا گائے بَیل وغیرہ باندھتے ہیں، لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے۔ کیا تم اس قربانی کے لیے تیّار ہو؟’
"مَیں تیار ہوں۔’ ابراہیم نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
سُورج غروب ہونے کے فوراً بعد ہی مَیں رائفل لے کر درخت پر چڑھ گیا۔ ابراہیم کو ہدایت کر دی تھی کہ وہ اُونچی آواز میں گانا گاتا رہے تاکہ آدم خور اس کی آواز پر آئے۔ درخت کے نیچے کچھ فاصلے پر اس نے چارپائی بچھا لی اور اُونچی آواز میں گانے کے بجائے اپنی مقدس کتاب قرآن کی تلاوت شروع کر دی۔
رات آہستہ آہستہ بھیگنے لگی۔ جنگل کے سنّاٹے میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ آدم خور کی ہیبت سے چرند پرند خاموش تھے، حتّیٰ کہ مینڈکوں کا ٹرّانا اور گیدڑوں کی چیخیں بھی تھم چکی تھی۔ ابراہیم دیر تک قرآن کی تلاوت کرتا رہا۔ اس کی آواز میں بے پناہ سوز اور درد تھا اور میرے دل و دماغ پر اس کی آواز اور ان کلمات سے جو میری سمجھ سے بالاتر تھے،ایک عجیب طرح کا لرزہ طاری ہو رہا تھا۔
درخت پر بیٹھے بیٹھے میرے اعصاب سُن ہو گئے، لیکن حرکت کرتے ہوئے ڈرتا تھا کہ آدم خور خبردار ہو جائے گا۔ ڈیڑھ بجا تھا کہ مشرقی افق پر روشنی پھوٹنے لگی، پھر چاند نے اپنا چمکتا ہوا سنہری چہرہ اوپر اٹھایا اور رفتہ رفتہ آسمان پر سفر کرنے لگا۔ چاندنی میں حدِّ نظر تک پھیلا ہوا جنگل دلفریب اور مدہوش کن منظر پیش کر رہا تھا۔ مجھ پر غنودگی سی طاری ہونے لگی جو پائپ پیے بغیر کسی طرح دُور نہ ہو سکتی تھی، لیکن مَیں اپنی جانب سے کوئی معمولی حرکت بھی کرنا چاہتا تھا جس سے آدم خور کو میری موجودگی کا شبہہ ہو جائے۔ ممکن ہے جب میں دیا سلائی جلاؤں، تو وہ اس کا شعلہ دیکھ لے، یک لخت ٹھنڈی ہوا چلنے لگی اور اس نے غنودگی میں اضافہ کر دیا۔ آنکھیں بار بار بند ہوئی جاتی تھیں، لیکن مَیں قوّتِ ارادی سے کام لے کر بیدار اور ہوشیار رہنا چاہتا تھا، کیونکہ میرے سامنے ایک شخص کی زندگی اور موت کا مسئلہ تھا اور ذرا سی غفلت پر اگر آدم خور ابراہیم کو اٹھا کر لے جاتا، تو مَیں اپنے آپ کو کبھی معاف نہ کر سکتا تھا۔
دفعتہً ابراہیم چپ ہو گیا۔ اس کے خاموش ہونے سے مجھے جھٹکا سا لگا اور میں، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس طرف دیکھنے لگا۔ وہ اپنی چارپائی پر سادھوؤں کی طرح آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا۔ غالباً اس پر بھی نیند سوار ہو گئی تھی، لیکن چند لمحے بعد مَیں نے دیکھا کہ اس کی دونوں آنکھیں کھلی ہوئی ہیں اور وہ عین سامنے ٹکٹکی باندھے کچھ دیکھ رہا ہے۔ میں نے گردن گھمائی اور اس طرف نظریں دوڑائیں۔ درختوں اور گھاس کے سوا وہاں کچھ نہ تھا۔ اب مَیں نے چاہا کہ ابراہیم کو آواز دے کر خبردار کروں اور پوچھو کہ کیا معاملہ ہے میں آواز دینے ہی والا تھا کہ اگلے درخت پر بیٹھا ہوا ایک الّو بھیانک آواز میں "ہُو ہُو ہو’ کرتا ہوا اڑا اور میری چھٹی حِس کام کرنے لگی۔ بجلی کی سی تیزی سے رائفل سنبھالی اور اس سے پیشتر کہ گھاس میں دبکا ہوا آدم خور ابراہیم پر حملہ کرے، میں نے یکے بعد دیگرے دو فائر کیے۔ اس کے منہ سے ایک دل ہلا دینے والی گرج بلند ہوئی۔ تھوڑی دیر تک وہ گھاس میں بیٹھا تھا۔ غالباً آدم خور کی دہشت سے اس کا جسم سُن ہو گیا تھا۔
مَیں نے گلا پھاڑ پھاڑ کر اُسے آوازیں دیں، ٹارچ کی روشنی اس کے چہرے پر پھینکی، تب اُسے ہوش آیا۔ مَیں نے کہا کہ بھاگ کر بنگلے کے اندر چلا جائے اور صبح تک باہر نہ آئے۔ اس نے حکم کی تعمیل کی۔ مَیں پو پھٹنے تک درخت پر بیٹھا رہا، کیونکہ اس وقت تک آدم خور کی ہلاکت میں شبہہ تھا۔ سورج کی روشنی جب اچھی طرح پھیل گئی، تو مَیں درخت سے اترا، آدم خور گھاس میں مرا پڑا تھا۔ قریب جا کر معائنہ کیا۔ دونوں گولیاں اس کا بھیجا پھاڑتی ہوئی نکل گئی تھیں۔
دوپہر تک پچاس پچاس میل کے علاقے میں چاروں طرف آدم خور کے مرنے کی خبر آگ کی مانند پھیل چکی تھی۔ لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ ہر شخص اس درندے کو دیکھنے کے لیے بے چین اور مضطرب تھا جس نے دو سو آدمیوں کو اپنے پیٹ کا ایندھن بنا لیا تھا۔ ہر طرف خوشی اور مسرّت کا دَور دورہ تھا اور لوگ اپنے بال بچوں سمیت بستیوں اور گاؤں میں واپس آ رہے تھے۔
ضلع کھادر میں بیرُور کے ریلوے سٹیشن سے نزدیک ہی اس لائن کے ساتھ ساتھ جو شموگا کی طرف جاتی ہے۔ مغرب کی جانب ایک پہاڑی واقع ہے۔ یہ ہوگر خان کے نام سے مشہور ہے۔ ہوگر خان سے پہاڑیوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ جسے اگر دُور سے دیکھیں، تو ہلال کی سی صورت نظر آتی ہے۔ مقامی باشندے اسی صورت کی وجہ سے ان پہاڑیوں کو "بابا بدان’ کہتے ہیں جس کا مطلب ہے "چاند کی پہاڑیاں’۔ یہ پہاڑیاں اور اس کے گرد و نواح میں سینکڑوں میل تک پھیلے ہوئے جنگل، دریا، ندّی، نالے، دلدلی میدان جتنے خوب صُورت ہیں، اس سے کہیں زیادہ جان لیوا اور دُشوار گزار بھی ہیں۔ چاندنی پہاڑیوں کے بالکل درمیان انگوٹھی میں جڑے ہوئے حسین نگینے کی طرح جاگر وادی نظر آتی ہے، یہ وادی انتہائی موذی جنگلی بھینسوں اور سانبھروں کا مسکن ہونے کے علاوہ حد درجہ خطرناک دلدلی قطعوں سے پُر ہے جن میں طرح طرح کے حشرات الارض کے علاوہ حد درجہ خطرناک اور لاکھوں کی تعداد میں جونکیں پرورش پاتی ہیں۔ کر ان دلدلی قطعوں میں کوئی بڑا آدمی یا جانور پھنس جائے، تو اس کا زندہ بچنا محال ہے، کیونکہ ہزار ہا جونکیں آناً فاناً بدن سے چمٹ کر لہو پی جاتی ہیں اور ہڈیوں کا پنجر ہی باقی رہ جاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد دلدل نگل لیتی ہے۔ جاگر وادی کے اس جنگل میں ایک سال کے اندر اندر سو انچ سے زیادہ بارش ہو جاتی ہے اور اسی لیے یہ جنگل اتنا گھنا، ڈراؤنا، دُشوار گزار اور تاریک ہے کہ خدا کی پناہ! دوپہر کے وقت جاگر وادی کے نیلے آسمان پر سُورج چمکتا ہے اور پہاڑیوں کی چوٹیاں جگمگاتی ہیں، لیکن جنگل کے اندر تاریکی ہی تاریکی نظر آتی ہے، مینڈکوں اور جھینگروں کی چوٹیاں جگمگاتی ہیں، لیکن جنگل کے اندر تاریکی ہی تاریکی نظر آتی ہے، مینڈکوں اور جھینگروں کی آوازوں اور مہلک سانپوں کی پھنکاروں سے فضا گونجتی رہتی ہے۔ یہ شور کسی لمحے نہیں رُکتا۔ دم بدم بڑھتا جاتا ہے اور سُورج غروب ہونے کے بعد تو اس قدر تیز ہو جاتا ہے کہ انسانی کان اُسے آسانی سے برداشت نہیں کر سکتے۔
ہوگر خان، چاند کی پہاڑیوں کے طویل سلسلے کے مشرقی جانب واقع ہے اور اس کے دامن میں پھیلا ہُوا جنگل جاگر وادی کی طرح گھنا، بھیانک اور خوف ناک نہیں، بلکہ کسی قدر کُھلا اور خُوب صورت ہے جہاں سورج کی کرنوں کو درختوں کی شاخوں اور ٹہنیوں میں راہ بنانے کا موقع مل جاتا ہے۔ اور چونکہ سال کے تین مہینوں میں یہاں بھی مسلسل بارشیں ہوتی ہیں، اس لیے بے شمار ندّی نالے اور برسات کے موسم میں بڑے بڑے دریا بھی نمودار ہوتے ہیں جن پر کوئی پُل نہیں ہوتا۔ ہوگر خان کے قدموں میں ایک چھوٹا سا گاؤں آباد ہے جس کا نام ہوگرالی ہے۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ گاؤں کا یہ نام پہاڑیوں کے نام ہی سے نکالا گیا ہے۔ ہوگرالی یوں تو جنگلوں اور پہاڑوں کے اندر جابجا پھیلی ہوئی بے شمار بستیوں کی طرح ایک بستی ہے، لیکن اس کی ایک خصوصیّت جو اُسے دوسری بستیوں سے ممتاز کرتی ہے، وہ سُرخ پتھروں کا بنا ہوا قدیم مندر ہے۔ یہ گالکا کے مغربی کنارے پر واقع ہے اور بہت دُور سے نظر آتا ہے۔ پُوجا کے دنوں میں یہاں بڑی رونق ہوتی ہے۔ نزدیک و دُور کی بستیوں سے عورتیں، مرد، بچّے، بوڑھے اور جوان سبھی آتے ہیں اور ہوگرالی کی رونق میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔
ہوگرالی کے جنوب میں ایک تالاب ہے جس میں بارش کا پانی جمع ہو جاتا ہے اور یہ تالاب سارا سال گاؤں والوں کے لیے پانی مہیا کرتا ہے۔ لوگ یہیں سے پانی بھرتے، اپنے مویشیوں کو نہلاتے دُھلاتے، کپڑے دھوتے اور اشنان کرتے ہیں۔۔۔ جنگل کے اندرونی حصّوں میں کئی تالاب اور ندیاں رواں ہیں جہاں جنگلی جانور اور درندے اپنی پیاس بجھاتے ہیں اور کبھی کبھار کوئی چیتا، شیر یا جنگلی بھینسا گاؤں کے تالاب پر آ نکلتا ہے، مگر ایسا کبھی نہ ہُوا کہ انہوں نے کسی آدمی کو تکلیف دی ہو، جانور اور انسان اچھے پڑوسیوں کی طرح میل ملاپ سے رہتے اور ایک دوسرے کے کاموں میں مداخلت نہ کرتے تھے۔
گاؤں والوں نے آمد و رفت کے لیے دو پگڈنڈیاں بنا رکّھی ہیں: ایک پگڈنڈی تالاب کے قریب سے اور دوسری ہوگر خان پہاڑی کے نیچے سے گزرتی ہے۔ پہاڑی کے اُوپر قہوے کے چند باغ جن میں گاؤں کی عورتیں کام کرتی ہیں اور یہ باغ ایک برطانوی کمپنی کی ملکیت ہیں۔ گاؤں سے تقریباً ساڑھے تین میل دُور ایک اور بڑی جھیل (جس کا نام مدّک تھا) واقع ہے اور دوسری پگڈنڈی اس جھیل کے گرد چکر کاٹتی ہوئی پہاڑیوں کے طویل سلسلے میں گم ہو جاتی ہے۔ چُونکہ اس مہم میں بعض ایسے واقعات پیش آئے جو تقاضا کرتے ہیں کہ پورا محلّ وقُوع بیان کیا جائے، اس لیے میں تفصیل سے سب کچھ لکھ رہا ہوں تاکہ آپ اُن دشواریوں اور صعوبتوں کو سمجھ سکیں، جو اس دوران میں سامنے آئیں۔ نقشے پر ایک نظر ڈالنے سے آپ کو معلوم ہوگا کہ گاؤں کے مغرب میں جاگر وادی، مشرق میں ہوگر خان اور ہلال نما پہاڑی سلسلہ، جنوب میں مدّک جھیل اور شمال میں لنگا دھالی کا وسیع و عریض شرقاً غرباً پچاس اور شمالاً جنوباً تیس میل تک پھیلا ہوا ہے۔ یہیں اس گنجان ترین جنگل اور ہیبت ناک پہاڑیوں کے اندر وہ آدم خور رہتا تھا جو ستّر اسّی افراد کو ہڑپ کرنے کے باوجود دندناتا پھرتا اور اس کی خون آشام اور ہلاکت خیز سرگرمیوں کو روکنے والا کوئی نہ تھا۔
آدم خور کے بارے میں عجیب عجیب باتیں دیہاتیوں میں مشہور تھیں۔ ان کی اکثریت اپنے عقیدے کے مطابق اسے بدروح سمجھتی تھی۔ کوئی کہتا تھا آدم پہلے جاگر وادی میں رہتا تھا اور جب اسے زہریلے سانپوں اور خون پینے والی جونکوں نے ستایا، تو اپنا علاقہ چھوڑ کر پہاڑوں کو پھلانگتا ہُوا گاوں کی کھلی فضا میں آن بسا۔ کسی کا بیان تھا کہ آدم خور دراصل لکھا والی اور لال باغ علاقوں میں رہتا تھا جو ہوگرالی سے بہت دُور واقع ہیں۔ لیکن جب گورنمنٹ نے دریائے بھدرا پر ڈیم بنانا شروع کیا اور ہزار ہا مزدور کام کرنے لگے، تو آدم خور پریشان ہو کر اپنے علاقے سے نکلا اور کسی نئی جگہ کی تلاش میں اِدھر آ گیا۔ بہرحال اس کے آنے یا نہ آنے کی وجوہ کچھ بھی ہوں، یہ حقیقت تھی کہ وہ نڈر، قوی ہیکل اور چالاک درندہ تھا۔ اور کمال کی بات یہ کہ اتنی مُدّت سے وہ انسان کو اٹھا اٹھا کر لے جا رہا تھا، لیکن کسی نے اس وقت تک اپنی آنکھوں سے اسے نہیں دیکھا۔ سب لوگ قیاس آرائیاں کر رہے تھے اور اس کی دلیرانہ وارداتوں اور انسانی لاشوں کے بچے کھچے اجزاء دیکھ کر ہی واقعات کی کڑیاں علاقے کی کوشش کی جاتی تھی۔
ہوگرالی میں نمودار ہونے کے بعد آدم خور کا پہلا لقمہ ایک نوجوان، خوبصورت، نئی نویلی دلہن پوتما تھی جو لمبانی قبیلے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس قبیلے کی اکثر عورتیں قہوے کے باغوں میں محنت مزدوری کرتی تھیں۔ علی الصبّاح گھروں سے نکلتیں اور آپس میں چہلیں کرتی اور ہنستی کھیلتی پہاڑی کے اوپر پہنچ جاتیں۔ دن بھر کام کرتیں شام ڈھلنے سے کچھ پہلے بستی میں اپنے اپنے گھر آ جاتیں۔ پوتّما کا بیاہ ہوئے ابھی دس بارہ دن ہی ہوئے تھے، گاؤں کی نوجوان لڑکیوں میں وہ سب سے زیادہ ہنس مکھ اور حسین تھی، انہیں خوبیوں کے باعث نوجوان اُسے دیکھ کر دو باتیں کرنے کے لیے راستے میں چُھپ کر کھڑے ہو جاتے، مگر پوتما نے کبھی کسی کو حد سے آگے بڑھنے کا موقع نہیں دیا۔۔۔ پھر ایک روز چپ چاپ، اپنے شوہر کے گھر چلی گئی۔
ایک روز ایسا ہُوا کہ پوتّما شام تک گھر نہ لوٹی۔ اس کا خاوند سوچنے لگا کہ شاید وہ کسی ہمجولی کے ہاں چلی گئی ہوگی اور سورج غروب ہونے تک آ جائے گی۔ مگر جب تاریکی چھا گئی اور گاؤں کی جھونپڑیوں میں چربی اور تیل کے چراغ روشن ہونے لگے اور پوتّما نہ آئی، تو اُس کے دل میں طرح طرح کے شبہات جنم لینے لگے، اُسے پہلا خیال یہی آیا کہ وہ گاؤں کے کسی اور نوجوان سے محبت کی پینگیں نہ بڑھا رہی ہو۔ لمبانی قبیلے میں اس قسم کے واقعات عام تھے اور کوئی مرد اپنی بیوی کے چال چلن کے بارے میں کبھی مطمئن نہ ہوتا تھا۔ یہ سوچتے ہی پوتما کا خاوند، جس کا نام رامیا تھا، غصّے سے بَل کھانے لگا اور اس نے تہیہ کرلیا کہ اگر پوتما رات کو گھر نہ لوٹی، تو صبح پہلا کام یہ ہوگا کہ اسے اور اُس کے آشنا قتل کر کے خود بھی خودکشی کرلے گا۔
اسی قسم کے منصوبے باندھنے اور توڑنے میں بے چارا رامیا ایک پل کے لیے نہ سو سکا اور صبح جب وہ اپنی جھونپڑی سے باہر نکلا، تو اس کی دھوتی کی ڈب میں چھ انچ لمبے پھل کا ایک تیز دھار چاقو چھپا ہوا تھا۔ کسی سے بات چیت کیے بغیر وہ سیدھا اس طرف گیا جہاں پوتما کام کرتی تھیں۔ وہاں اسے بتایا گیا کہ پوتّما صبح کام کرنے آئی تھی، لیکن شام کو دوسری عورتوں کے ساتھ واپس نہیں گئی۔
"پھر وہ کہاں گئی؟ گھر تو نہیں پہنچی۔’ رامیا نے دانت پیس کر قہوے کے باغوں کی نگرانی کرنے والے بُڈّھے چوکیدار سے پُوچھا۔
چوکیدار حیرت سے اُس کی طرف دیکھنے لگا، پھر بولا:
"بھائی، مجھے کیا خبر کہاں گئی؟۔۔۔ تمہاری بیوی ہے تم جانو۔’ اُس نے اس لہجے میں جواب دیا جیسے وہ بخوبی جانتا ہے کہ پوتما کہاں گئی ہوگی۔ رامیا کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور وہ اسے گالیاں دینے لگا۔ اتنے میں کام کرنے والی چند لڑکیاں وہاں آ گئیں اور انہوں نے سن لیا کہ معاملہ کیا ہے۔ سب حیرت اور خوف کی مِلی جلی نظروں سے رامیا دیکھنے لگیں۔ پوتّما کے بارے میں انہیں خوب معلوم تھا کہ وہ پاکدامن ہے۔ کیونکہ رامیا سے شادی ہونے کے وہ ہمجولیوں سے اکثر اپنے خاوند کی باتیں کرتی اور کہتی کہ وہ بہت اچّھا آدمی ہے۔ ان میں ایک لڑکی ایسی تھی جو پوتما کی پکی سہیلی تھی۔ رامیا اسے ایک طرف لے گیا اور سچ سچ بتانے پر مجبور کیا۔
"رامیا بھائی، میں کچھ نہیں جانتی کہ پوتما کہاں گئی۔ وہ کل دوپہر تک میرے ساتھ تھی۔ اس کے بعد نہ معلوم کہاں چلی گئی۔’
"مجھے وہ جگہ دکھاؤ جہاں کل تم کام کر رہی تھیں۔’ رامیا نے کہا۔ لڑکی اسے باغ کی مغربی ڈھلوان پر لے گئی اور یہاں پہنچتے ہی سارا مسئلہ حل ہو گیا۔ انہوں نے دیکھا کہ پوتما کی ٹوکری ایک جگہ پڑی ہے کچھ فاصلے پر خشک پتوں اور شاخوں کے ڈھیر میں ایسے نشانات نظر آئے جن سے پتہ چلتا تھا کہ پوتما کچھ دیر اس جگہ لیٹی رہی ہے۔ کیوں کہ اس کے لمبے لمبے بالوں کا ایک نُچا ہوا گچھا وہاں پڑا تھا اور پھر چند قدم آگے پوتما کی ساڑھی کی چند دھجّیاں دکھائی دیں۔ ان پر خون کے بڑے بڑے دھبّے تھے۔
رامیا کا دل ڈوبنے لگا، لیکن اس نے ضبط کیا اور آگے بڑھتا گیا۔ تقریباً آدھ فرلانگ دُور اُسے پوتّما نظر آئی، مگر کس حال میں۔۔۔ اس کی کھوپڑی ایک طرف پڑی تھی اور آدھا دھڑ، ایک ٹانگ اور دونوں بازو غائب تھے۔ اس مقام پر ایک چھوٹا سا نالا بنا ہوا تھا جس کے ذریعے باغ میں پانی پہنچایا جاتا تھا اور نالے کی دونوں طرف اونچی اونچی خاردار جھاڑیاں کھڑی تھیں۔ رامیا نے نالے کا معائنہ کیا، تو اس کے نرم ریتلے کنارے پر شیر کے پنجوں کے نشانات دکھائی دیے۔ ان کے علاوہ کہیں کہیں دو تین لگڑبگڑوں کے نشان بھی موجود تھے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ شیر جب اپنا پیٹ بھر چکا، تو لگڑ بگڑ وہاں آئے اور انہوں نے بھی ضیافت اُڑائی۔
اس حادثے کی خبر آگ کی طرح گاؤں میں پھیل گئی۔ ہر شخص حیران اور فکر مند تھا کہ یہ کیا ہوا۔ ہوگرالی کے علاقے میں یہ پہلا حادثہ تھا کہ شیر نے اس طرح اچانک نمودار ہو کے ایک معصوم لڑکی کو ہڑپ کر لیا۔ لوگوں نے لاٹھیاں، برچھیاں، کلہاڑیاں اور نیزے وغیرہ سنبھالے اور شیر کی تلاش میں نکلے، لیکن اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔ کئی دن تک سنسی سی پھیلی رہی اور گاؤں کی لڑکیاں چپکے چپکے پوتما کی یاد میں آنسو بہاتی رہیں اوررامیا پاگلوں کی طرح جنگلوں اور گھاٹیوں میں مارا مارا پھرتا رہا۔ اپنی نوجوان اور حسین بیوی کی مفارقت نے اسے بے حال کر دیا تھا۔
دو ہفتے گزر گئے، لوگ آہستہ آہستہ اس حادثے کو بُھولنے لگے کہ اچانک پھر ایک لمبانی لڑکی غائب ہو گئی اور اس مرتبہ انہوں نے اس کی لاش کے بچے کھچے اجزا مدّک ندی کے کنارے پڑے پائے۔ شیر نے کھوپڑی، ہاتھوں اور پیروں کے سوا جسم کا سارا گوشت ہڑپ کر لیا تھا۔ اِس حادثے کے بعد سے تو وارداتوں کا جیسے تانتا بندھ گیا اور آدم خور ایک ایک نادیدہ کی بلا کی مانند گاؤں والوں پر مسلّط ہو گیا۔ کبھی ندی پر، کبھی تالاب پر، کبھی جنگل میں، کبھی پہاڑی پر اور کبھی مندر کے پچھواڑے کوئی نہ کوئی عورت، آدمی یا بچّہ اس کے خونیں جبڑوں کا شکار ہوتا رہا۔ پچاس میل لمبے چوڑے رقبے میں آدم خور کا راج تھا، قہوے کے باغ میں کام کرنے والی عورتیں اُدھر کا رستہ چھوڑ چکی تھیں۔ مویشیوں کو جنگل میں چرانے کےلیے جانے والے لڑکے ڈر کے مارے اُدھر نہ جاتے تھے لیکن مصیبت یہ تھی کہ پانی انہیں بہرحال تالاب سے لانا پڑتا تھا، اس لیے اکیلا دُکیلا کوئی نہ جاتا، بلکہ گروہوں کی شکل میں گاؤں کے مرد تالاب پر جاتے اور مویشیوں کو پانی پلانے کے بعد اپنی ضرورت کے مطابق برتن بھانڈوں میں بھر کر لے آتے۔ شام ہوتے ہی گاؤں بھر میں ہیبت ناک سنّاٹا چھا جاتا اور کوئی شخص اپنی جھونپڑی سے باہر نکلنے کا حوصلہ نہ کرتا۔
رفتہ رفتہ آدم خور کی یہ سرگرمیاں ماند پڑنے لگیں اور وارداتیں کم ہوگئیں، پھر ایسا وقت آیا کہ مہینہ گزر گیا اور کوئی حادثہ پیش نہ آیا۔ گاؤں والے جنگل میں آنے جانے اور چلنے پھرنے لگے۔ عورتوں نے ایک بار پھر باغوں میں کام شروع کر دیا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ آدم خور جاگر وادی میں چلا گیا ہے۔ ممکن ہے اس کی شیرنی وہاں رہتی ہو اور شیر یہاں تنہا رہتے رہتے اکتا گیا ہو۔
دو مہینے گزر گئے۔ لوگ اب آدم خور کو بُھول چکے تھے اور اطمینان سے کاروبار زندگی میں مصروف تھے کہ دفعتہً ایک روز گاؤں میں یہ خبر پھیلی کہ مویشی چرانے والا ایک لڑکا جو بیرُور جا رہا تھا، گُم ہے۔ بعد میں اس لڑکے کے خون آلود کپڑے اور بچی کھچی ہڈیاں دستیاب ہوئیں، تو پتا چلا کہ آدم خور دوبارہ آ گیا ہے۔ اور اس کے ساتھ وارداتوں کا سلسلہ تیزی سے شروع ہو گیا۔ نتیجہ یہ کہ گاؤں کی زندگی پھر خوف و ہراس کا شکار ہو کر معطل ہو گئی۔
انہی دنوں ایک جرمن شخص ہندوستان کے جنگلوں میں ایک عجیب مہم پر نکلا ہوا تھا۔ اس شخص کا پیشہ جنگلی درندوں اور مختلف حشرات الارض کو پکڑنا تھا۔ وہ ان جانوروں کو یورپ کے چڑیا گھروں کے لیے گراں قیمت پر فروخت کر دیتا تھا۔ شیر، چیتے، ریچھ، اژدہے، کوبرا سانپ اور بچّھو اور پانی کے بہت سے جانور جن میں مگرمچھ بھی شامل تھے، پکڑنے کے لیے وہ اکثر بہت سے مقامی شکاریوں کی خدمات حاصل کرتا۔ میرے لڑکے ڈونلڈ سے اس کی ملاقات ہوئی تو اُس نے ڈونلڈ سے کہا کہ مگرمچھ کے چند بچّے مہیّا کیے جائیں، تو خاصی بڑی رقم مل سکتی ہے۔ دریائے کاویری مگرمچھوں کا گھر تھا اور یوں بھی اس علاقے کے دریاؤں میں مگرمچھوں کی کثرت تھی جس کے باعث لوگ خاصے پریشان تھے۔ چنانچہ حکومت ان کو مارنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتی تھی۔ مگرمچھ کی کھال اچھی قیمت پر فروخت ہو جاتی تھی، اس لیے اکثر شکاری مگرمچھوں کی تلاش میں پھرتے رہتے تھے، لیکن ان کو بندوق یا رائفل سے ہلاک کرنا خاصا مشکل اور مہارت کا کام تھا۔ چنانچہ شکاریوں نے مگرمچھوں کو مارنے کا ایک آسان اور عمدہ طریقہ سوچا۔۔۔ وہ لوہے کے مڑے ہوئے کانٹے بنواتے اور ان کو لوہے کی ایک لمبی زنجیر میں پھنسا کہ یہ زنجیر ایک مضبوط بانس سے باندھ دیتے۔ کانٹوں کے اندر کسی مُردہ جانور کی کی کھال یا گوشت کا بڑا سا ٹکڑا اٹکا کر، اسے دریا میں ڈال دیتے اور بانس کچھ فاصلے پر یا تو زمین میں گاڑ دیتے یا کسی درخت سے باندھ دیا جاتا اور مگرمچھ جونہی گوشت لالچ میں جبڑا کھول کر اُسے نگلنے کی کوشش کرتا، کانٹے اس کے حلق میں پھنس جاتے۔ مگرمچھ بے چین ہو کر دریا کی تہہ میں اترنے کی کوشش کرتا مگر زنجیر اسے زیادہ نیچے جانے کی اجازت نہ دیتی اور وہ پھر سطح پر نمودار ہوتا۔ بار بار کی اس تگ و دو کے باعث مگرمچھ کا جبڑا اور حلق زخمی ہو کر خون کی بڑی مقدار نکل جاتی اور وہ بے دم ہو کر سطح پر تیرنے لگتا۔ دو تین شکاری ملکر اسے کنارے پر گھسیٹ لیتے اور گولیاں مار کر ہلاک کر دیتے۔
دریائے کاویری کے کنارے ریت کے گڑھوں میں مادہ مگرمچھ انڈے دیتی ہے اور جب ان انڈوں سے بچے نکلنے کا وقت آتا ہے تو ان گڑھوں میں سے بچّوں کے بولنے اور حرکت کرنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ ڈونلڈ کا خیال تھا کہ دریا کے کنارے گھوم پھر کر ایسے انڈوں کا سراغ لگانا چاہیے جن میں سے بچے نکلنے ہی والے ہوں۔ مدّک سے چھ میل مغرب کی طرف ایک اور بڑی جھیل واقع تھی جسے آنکیری کہتے تھے۔ طے پایا کہ اس جھیل کے کناروں کا معائنہ کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ہم نے ایک لمبانی رہبر کو ساتھ لیا اور روانہ ہو گئے۔
ہمارا یہ لمبانی رہبر نہایت باتونی آدمی تھا اور گرد و نواح کے جنگل اور حالات سے بخوبی آگاہ تھا۔ اس نے راستے میں ایک آدم خور کا ذکر کر کے ہمارے شوقِ تجسّس کی آگ بھڑکا دی۔ معلوم ہوا کہ ہوگرالی کے علاقے میں اس آدم خور نے بڑا اودھم مچا رکھا ہے اور اب تک بہت سے آدمی ہڑپ کر چکا ہے۔
"کیا اُس نے اِس جھیل کے کنارے بھی کسی مارا؟’ ڈونلڈ نے سوال کیا۔
"جی نہیں۔۔۔ اس طرف کے لوگ ابھی تو محفوظ ہیں، لیکن بہت جلد ان کی باری بھی آنے والی ہے۔’
"آدم خور شیر ہے یا چیتا؟’ مَیں نے پوچھا۔
"لوگ کہتے ہیں کہ وہ شیر ہے۔ مگر حیرت ہے اسے کسی نے دیکھا نہیں۔ مختلف مقامت پر اس نے جتنے بھی افراد کو ہڑپ کیا ہے اور بعد میں جو لاشیں دیکھی گئی ہیں، ان سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ یہ حرکت شیر کی ہے۔’
آنکیری جھیل کے کنارے گھومتے ہوئے ہم نے لمبانی رہبر سے آدم خور کی سرگرمیوں کے کئی واقعات سنے اور میں نے اندازہ کیا کہ اگر یہ شخص سچ کہہ رہا ہے، تو اس آدم خور سے دو دو ہاتھ کر ہی لینے چاہیئں۔ میں نے ڈونلڈ سے کہا:
"لعنت بھیجو مگرمچھ کے بچُوں پر۔۔۔ انہیں تلاش کرنے کا کام کسی اور کے سپرد کر دیتے ہیں، مدّت کے بعد ایک آدم خور کا ذکر سننے میں آیا ہے، کیُوں نہ اس سے نپٹ لیا جائے۔’
ڈونلڈ نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور بولا:
"جیسی آپ کی مرضی۔۔۔ مگر ہم نے اس جرمن شخص سے جو وعدہ کیا ہے، وہ تو بہرحال پورا ہونا چاہیے۔’
"یہ بھی ٹھیک ہے۔’ میں نے جواب دیا۔ "تم دیکھتے ہو جھیل میں بڑے بڑے مگرمچھ موجود ہیں، مگر اُن کے انڈے تلاش کرلینے کے لیے بڑا وقت اور محنت درکار ہے جبکہ آدم خور کو ہم آسانی سے ڈھونڈ سکتے ہیں۔’
ڈونلڈ بے اختیار ہنسنے لگا اور بولا: "ڈیڈی، اب آپ کا دل یہاں نہیں لگے گا، کیونکہ آدم خور آپ کے ذہن پر سوار ہو گیا ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ مدّک چلا جائے اور آدم خور کے بارے میں وہاں کے لوگوں سے تفصیلی معلومات حاصل کی جائیں۔ مگرمچھ کے بچے چند بعد پکڑ لیں گے۔’
لمبانی یہ سن کر خوف زدہ نظر آنے لگا اور اس نے ہمیں اس ادارے سے باز رکھنے کی کوشش کی، مگر ہمارا جواب یہی تھا کہ ہم اب مدک تک جائے بغیر نہ مانیں گے۔
"جناب، اگر راستے میں آدم خور مل گیا تو؟’
یہی تو ہم چاہتے ہیں۔’ ڈونلڈ نے رائفل ہلاتے ہوئے کہا۔ "چلو ہمیں شام سے پہلے پہلے وہاں پہنچ جانا چاہیے۔’
لمبانی نے آدم خور کی داستانیں جس انداز سے سنائی تھیں، ان سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ درندہ نہایت نڈر اور عیار ہے اور کچھ بعید نہیں کہ وہ موقع پا کر ہم میں سے کسی کو اٹھا کر لے جائے اس لیے ہم نہایت محتاط اور چوکنے ہو کر چل رہے تھے۔ ہمارے لمبانی رہبر کا دہشت سے برا حال تھا۔ اور ذرا سی آہٹ پر بدک کر درخت پر چڑہنے کے لیے لپکتا۔ اس کے چہرے پر خوف کے ساتھ ساتھ خشونت اور غصے کے آثار بھی پھیلے ہوئے تھے اور عجب نہیں کہ دل ہی دل میں ہمیں گالیاں بھی دے رہا ہو۔
مدّک پہنچے، تو جنگل میں مویشیوں کا ایک بہت بڑا باڑہ دکھائی دیا جس کے بیج میں لکڑی کی بنی ہوئی ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں کوئی آدمی سو رہا تھا اور باڑے میں گائے بھینسیں اِدھر اُدھر کھڑی جگالی کر رہی تھیں۔ ہم باڑے کی اونچی دیوار پھاند کر اندر داخل ہوئے، تو گایوں بھینسوں میں ہلچل ہُوئی جس نے سونے والوں کو جگا دیا اور یہ سمجھ کر آدم خور آ گیا ہے، بری طرح چیخنے لگا۔ ہم نے اسے آواز دے کر مطمئن کیا اور باہر آنے کا حکم دیا۔ اس نے تعمیل کی اور ہمارے ہاتھوں میں رائفلیں دیکھ کر سمجھ گیا کہ ہم شکاری ہیں۔ خوشی کی ایک ہلکی سی لہر اس کے چہرے پر نمودار ہوئی اور بھرائی آواز میں بولا:
"جلدی سے اندر آ جائیے جناب، میرے مویشی آپ کو دیکھ کر ڈر رہے ہیں۔’
"اور تم ہمیں دیکھ کر ڈر گئے۔’ ڈونلڈ نے ہنس کر کہا۔ "کیا تمہیں آدم خور کے آنے کا خوف نہیں۔’
"وہ کئی مرتبہ باڑے کے نزدیک آیا جناب، ایک مرتبہ تو اندر بھی آن کودا اور جب میرے جانوروں نے بھاگ دوڑ شروع کی، تو وہ انہیں زخمی کر کے بھاگ گیا۔’
"وہ اب تک کتنے آدمیوں کو کھا چکا ہے؟’ میں نے پوچھا۔
"صحیح تعداد تو کسی کو معلوم نہیں، یہی بیس پچیس آدمی ہوں گے۔ ان میں کئی عورتیں تھیں اور کئی بچّے۔’
"لوگوں نے آدم خور کو مارنے کا کوئی انتظام نہیں کیا؟’
"جناب ماریں تو اس وقت جب وہ دکھائی دے۔ وہ تو چھلاوا ہے چھلاوا۔ اسے آج تک کسی نے نہیں دیکھا۔’
چرواہے نے تین چار قصے سنائے اور بتایا کہ آدم خور کی وجہ سے لوگوں کی زندگی کس طرح اجیرن ہو رہی ہے اور اگر اسے ہلاک نہ کیا گیا، تو ایک روز یہ سارا علاقہ آدمیوں سے خالی ہو جائے گا۔
"اچھا، یہ بتاؤ مُدلی آج کل کہاں ہے؟’ میں نے پوچھا۔ وہ چونک کر میری طرف دیکھنے لگا۔
"آپ اُسے جانتے ہیں؟’
"ہاں، وہ میرا پرانا دوست ہے اور میں نے اُس سے ہوگرالی کے نزدیک ایک ایکڑ زمین بھی خریدی تھی۔’
مُدلی واقعی میرا پرانا دوست تھا اور کہی مہمّوں پر میرا ساتھ دے چکا تھا۔ وہ اپنے گاؤں کا "پٹیل’ ہونے کے علاوہ جتنا محتنی اور ایمان دار آدمی تھا، اُتنا ہی توہّم پرست اور ڈرپوک بھی تھا۔ گاؤں والے اس کی ہر بات مانتے تھے اور شادی غمی کے معاملات اس کی شرکت کے بغیر مکمل نہ ہوتے تھے۔
"میں بھی مُدلی کا ملازم ہوں جناب، یہ گائے بھینسیں اُسی کی ہیں۔ وہ اِس وقت ہوگرالی میں اپنے مکان پر ملے گا۔ اگر وہاں جانا چاہیں، تو صبح جائیے گا، مَیں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا۔’
رات ہم نے اسی جھونپڑی میں کاٹی۔ ڈونلڈ تو مزے سے سو گیا، لیکن اس باتونی چرواہے اور لمبانی شخص نے میری نیند حرام کر دی۔ چرواہے کا تعلّق بھی اسی قبیلے سے تھا اور وہ دونوں گاؤں کی جوان لڑکیوں کے بارے میں نہ جانے کب تک بحث مباحثہ کرتے رہے۔
جب ہم ہوگرالی میں مُدلی کے مکان پر پہچے، تو وہ باہر سائبان تلے کھاٹ پر پڑا بے خبر سو رہا تھا۔ مَیں نے اسے جھنجھوڑا، تو ہڑبڑا کر اٹھا اور مجھے دیکھ کر اس کا مُنہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ چند لمحے اس پر سکتے کی سی کیفیت طاری رہی، پھر چلّایا:
"آپ؟ کب آئے؟ سامان کہاں ہے؟ مَیں تو خود آپ کی طرف جانے والا تھا۔ یہاں ایک۔۔۔؟
"میں سب کچھ سُن چکا ہوں اور اسی لیے آیا ہوں۔’ مَیں نے اس کی بات کاٹنے ہوئے کہا۔ "اب تم ہمارے لیے دوپہر کا کھانا تیار کراؤ اور دو چارپائیاں باہر نکال دو۔ ہم باپ بیٹا ذرا آرام کریں گے۔’
اگرچہ مَیں ہوگرالی میں کئی بار آ چکا تھا اور گاؤں کے اکثر چھوٹے بڑے مجھے بخوبی پہچانتے تھے، لیکن اس بار انہوں نے جس انداز میں ہمارا خیر مقدم کیا اور جیسی خاطر تواضع کی، وہ حد سے زیادہ تھی۔ لوگ ہمیں دیوتا سمجھ رہے تھے اور جب مُدلی نے انہیں بتایا کہ ہم آدم خور کو مارنے آئے ہیں، تو لوگوں کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا اور گاؤں میں چہل پہل شروع ہو گئی، لیکن یہ چہل پہل سورج غروب ہوتے ہی ختم ہو گئی۔ لوگوں نے اپنی اپنی جھونپڑیوں اور کچے مکانوں کے دروازے بند کر لیے اور ہر طرف خاموشی اور تاریکی کا تسلط ہو گیا جسے کبھی کبھی کتوں کے بھونکنے کی آواز توڑ دیتی تھی۔
مُدلی ہماری مدارات کے لیے بچھا جاتا تھا۔ اُس نے دوپہر کا کھانا کھلایا، دو مرتبہ قہوہ پلایا اور پھر رات کے کھانے کی تیّاریاں کرنے لگا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ معذرت خواہ بھی تھا کہ ہمارے "شایانِ شان’ ٹھہرنے کا انتظام نہیں کر پایا۔ رات کو بھنے ہوئے مُرغ، اُبلے ہوئے آلو، گیہوں کی تازہ، مکھن چپڑی ہوئی روٹیاں پیٹ بھر کر کھانے کے بعد جب ہم اپنی اپنی جگہ آرام سے بیٹھے اور تمباکو پینے لگے، تو گفتگو کا رُخ خودبخود آدم خور کی طرف پھر گیا۔ مُدلی نے اس کے بارے میں جو کچھ بتایا وہ ابتداء میں لکھ چکا ہوں۔ مُدلی کا خیال تھا کہ آدم خور چونکہ پندرہ سو مربّع میل کے وسیع علاقے میں سرگرمِ عمل ہے اور اس کے کسی ٹھکانے کا اب تک پتہ نہیں مل سکا، اس لیے اسے ہلاک کرنا خاصا مشکل، بلکہ ناممکن کام ہے۔ کوئی شخص یقین سے دعویٰ نہیں کر سکتا کہ آدم خور کس جگہ اپنا شکار کرے گا اور پھر یہ کہ شکار کے بعد وہ خاصی دیر تک (کبھی دو ہفتے اور کبھی ایک ایک مہینہ) آرام کرتا یا رُوپوش ہو جاتا ہے۔ مقامی شکاریوں نے اسے پھانسنے کے لیے جنگل میں کئی بار ہانکا کیا اور چھوٹے موٹے جانور درختوں سے باندھے، لیکن آدم خور کسی دام میں نہ آیا۔ اس کے علاوہ جنگل میں اور بھی بہت سے شیر چیتے رہتے ہیں، فرض کیجیے اس دوران میں انتہائی جدوجہد کے بعد کوئی شیر مارا جاتا ہے۔ اب کیا ثبوت ہے کہ یہ آدم خور ہی ہوگا۔
مُدلی کی باتیں وزن دار تھیں۔ مَیں اور ڈونلڈ سوچ میں پڑے ہوئے تھے۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ مہم کی ابتداء کہاں اور کس طرح کی جائے۔ آخر مُدلی ہی نے راہنمائی کی:
"میری رائے میں آپ کو فی الحال ہوگرالی ہی میں قیام کرنا چاہیے۔۔۔ میں اپنے پڑوس میں ایک مکان خالی کرائے دیتا ہوں۔’
"مدلی اور گاؤں کے دوسرے لوگوں کے اصرار پر ہمیں وہاں قیام کرنا پڑا۔ جو "مکان’ ہمیں رہنے کے لیے دیا گیا، وہ ایک کچے کمرے اور برآمدے پر مشتمل تھا۔ گرمیوں کے موسم میں سورج آسمان سے آگ برساتا اور رات کو مچّھروں کا ٹڈی دَل ہم پر حملہ کرتا، لیکن بستی والوں کو آدم خور سے نجات دلانے کے لیے ہم نے یہ تمام مصائب برداشت کیے۔ ان "مصیبتوں’ کے ساتھ ساتھ اگر ان "راحتوں’ کا ذکر نہ کیا جائے جو بستی کے لوگوں اور خصوصاً مُدلی نے ہمیں بہم پہنچانے کی کوشش کی، تو صریحاً نا انصافی ہوگی۔ گھی مکھن، دودھ، پنیر، گوشت، انڈے اور قہوہ، صبح، دوپہر، شام کِھلا کِھلا کر ہمارا ناطقہ بند کر دیا گیا۔ مَیں نے کئی بار مُدلی سے کہا، ہمیں مہمان نہ سمجھو اور اپنے اخراجات خود اٹھانے دو، لیکن وہ نہ مانا اور کہنے لگا:
جب تک آپ ہوگرالی میں رہیں گے، میں آپ کو اپنا مہمان سمجھوں گا۔’
اس دوران میں آدم خور کے بارے میں ہمیں کوئی نئی خبر نہ مل سکی کہ وہ کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے۔ قہوے کے باغوں میں کام بند تھا۔ کوئی شخص اکیلا دُکیلا گاؤں سے باہر نہ جاتا اور شام ہوتے ہی گھروں اور جھونپڑیوں کے دروازے بند ہو جاتے۔ گرمیوں کا موسم تھا، اردگرد کے جنگل اور پہاڑوں کی وجہ سے رات کو اتنی گرمی تو نہ پڑتی، مگر گاؤں والے باہر سونے کے عادی تھے، انہیں شیر کے خوف گھروں میں سونا پڑ رہا تھا۔ صرف ہم دو آدمی باہر برآمدے میں سویا کرتے اور طریقہ یہ تھا کہ ایک رات ڈونلڈ سوتا اور مَیں پہرہ دیتا، دوسری رات مَیں سوتا اور ڈونلڈ رائفل لیے گاؤں کی گشت کرتا۔ ہمارا خیال تھا کہ جلد یا بدیر آدم خور ادھر آئے گا اور ہم اس سے نمٹ لیں گے، لیکن ایسا نہ ہوا۔ حتیٰ کہ گاؤں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ آدم خور کا رُعب ہم پر بھی غالب آ گیا ہے اور اسی لیے ہم گاؤں سے باہر نکل کر جنگل میں اُسے تلاش نہیں کرتے۔ لوگ چاہتے کہ آدم خور کا قصّہ پاک ہوتا کہ وہ اپنے کام کاج دوبارہ شروع کر سکیں اور گاؤں کی معطل شدہ زندگی بحال ہو جائے۔ ہمیں ان کی پریشانی اور مصیبت کا بخوبی احساس تھا، لیکن آدم خور جب تک کوئی واردات نہ کرتا، ہمیں بھلا اُس کے ٹھکانے یا کمین گاہ کا علم کیسے ہو سکتا تھا، پندرہ سو مربع میل کے وسیع و عریض گنجان جنگلی علاقے میں اسے ڈھونڈنا ناممکن نہیں، تو امر محال ضرور تھا۔
پانچویں روز ڈونلڈ نے نہایت اکتائے ہوئے لہجے میں مجھ سے کہا:
"ڈیڈی، گاؤں والوں کی چُبھتی ہوئی نظریں اب میرے لیے ناقابل برداشت ہیں۔ اگر ہم شیر کو تلاش نہیں کر سکتے تو یہاں بیٹھ کر روٹیاں توڑنے سے فائدہ؟ ان لوگوں سے صاف کہہ دیجیے کہ آپ کا پروگرام کیا ہے۔’
"تم اپنے اس باپ کا بُزدلی کا طعنہ دے رہے ہو جو اب تک ستّر شیر ہلاک کر چکا ہے۔ ان میں سے پچاس تو یقیناً آدم خور تھے۔" مَیں نے ہنس کر جواب دیا۔ "تم ابھی جوان ہو میرے بچے۔۔۔ تمہاری رگوں میں گرم خُون گردش کرتا ہے اور ابھی تک تمہیں آدم خور سے واسطہ نہیں پڑا، اس لیے یہ کام ذرا آسان سمجھے ہوئے ہو۔ میں جانتا ہوں کہ آدم خور کو تلاش کرنے اور مارنے میں شکاری کو کیسے کیسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور کن کن جان لیوا مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور سچ پوچھو، تو میں صرف تمہاری وجہ سے پریشان ہوں۔’
"میری وجہ سے۔۔۔ وہ کیوں ڈیڈی۔۔۔’ ڈونلڈ نے حیران ہو کر کہا۔
"اس لیے کہ تم نہایت جلد باز اور بے صبر ہو۔۔۔ شیر کے شکار اور خصوصاً آدم خور کے مقابلے میں جس سکون، صبر اور اعصاب شکن استقلال کی ضرورت ہے، وہ تمہارے پاس نہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ اگر تم اس مہم میں تم میرے ساتھ ہوئے، تو کوئی نہ کوئی حادثہ ضرور پیش آئے گا۔’
ڈونلڈ کا چہر سُرخ ہو گیا۔ غالباً یہ پہلا موقع تھا کہ میں ںے کُھل کر ان "خامیوں’ کی نشان دہی کی تھی۔ اس زمانے میں اس کی عمر کا سولہواں برس شروع ہوا تھا، قدوقامت، جسمانی قوت اور جرأت میں وہ کسی بھی تجربے کا پرانے شکاری سے کم نہ تھا۔ جنگلی جانوروں کی نفسیات اور عادات کو جاننے پہچاننے کا ملکہ بھی اس میں بخوبی تھا اور چونکہ اس نے شعور کی آنکھ ہندوستان کے گھنے جنگلوں ہی میں کھولی تھی، اس لیے جنگل سے اس کی دلچسپیاں فطری تھیں۔ وہ اب تک بارہ ریچھوں، بہت سے سانبھروں، ایک جنگلی بھینسے اور دو چھوٹے چیتوں کا مار چکا تھا۔ ایک آدھ مرتبہ میرے ساتھ مختلف مہمّوں پر جانے کا موقع ملا اور میں نے اُس سے شیر پر گولی چلوائی، لیکن اس کا ہاتھ بہک جاتا، شاید اس لیے اس پر شیر کی دہشت غالب آ جاتی تھی۔ اب غور کیجیے اس نا مکمل اور ادھورے تجربہ کے ساتھ ایک منجھے ہوئے آدم خور کے ساتھ مقابلہ حماقت ہی تو تھی اور اسی لیے اُسے ساتھ لے جاتے ہوئے ہچکچاتا تھا۔
"ڈیڈی، اگر آپ مجھے ایسا ہی بزدل اور بیوقوف سمجھتے ہیں، تو مَیں مزید کچھ نہیں کہوں گا۔’ اُس نے دل گرفتہ ہو کر کہا۔
"تم میری بات کا مطلب غلط سمجھے۔۔۔ میرا مقصد تمہارا حوصلہ پست کرنا نہیں، ابھارنا ہے۔ تم بے شک میرے ساتھ چلو، لیکن وعدہ کرو کہ مَیں جو کہوں گا اس پر پورا پورا عمل کرو گے۔’
"وعدہ رہا۔’ ڈونلڈ نے کہا اور مجھ سے لپٹ گیا۔
اس روز رات کا کھانا ہم نے جلدی کھا لیا۔ مُدلی کو اپنا پروگرام بتایا کہ ہم آدم خور کی تلاش میں جا رہے ہیں۔ رات بھر جنگل میں گھومیں پھریں گے۔ ممکن واپسی میں کئی دن لگ جائیں، اس لیے وہ ہمارے بارے میں تشویش نہ کرے اور گاؤں والوں کو بھی آگاہ کر دے کہ ہماری واپسی تک کوئی شخص جنگل میں یا ندی کے کنارے نہ جائے اور اگر آدم خور کوئی واردات کرے، تو لاش وہاں سے اٹھوائی نہ جائے۔
بَیل گاڑی پہلے سے تیّار تھی۔ ہم اس پر سوار ہوئے اور بیرُور کی طرف چلے۔ منصوبہ یہ تھا کہ نہر یا دُوری کے کنارے کنارے چلتے ہوئے جھیل مدّک تک جائیں گے۔ یہ فاصلہ زیادہ سے زیادہ دس میل کا تھا۔ اس کے بعد ایک آدھ گھنٹہ آرام کر کے بیرُور سٹیشن تک صبح کے وقت تک پہنچ جائیں گے۔ جنگل میں خلاف معمولِ ہیبت ناک سنّاٹا طاری تھا۔ جنگل کے جانور اور پرندے سب چپ تھے جیسے کسی اَن جانے حادثے پر سوگ منا رہے ہوں۔ ہماری بیل گاڑی ایک تنگ پگڈنڈی پر چل رہی تھی جس میں جابجا گڑھے اور کھڈ تھے۔ اگرچہ طاقت وَر ٹارچیں ہمارے پاس موجود تھیں، لیکن انہیں روشن کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ رات ٹھیک ساڑھے سات بجے ناریل کے درختوں کے وسیع و عریض جُھنڈ کے پیچھے سے چاند نے اپنا چمکتا ہوا چہرا دکھایا۔ اُس کی روشنی شاخوں اور ٹہنیوں میں سے چھن چھن کر آ رہی تھی۔ جنگل کی یہ رات اتنی حسین اور سحر انگیز تھی کہ ہم اس کے جلوے میں محو ہو گئے اور مجھے تو یوں محسوس ہونے لگا جیسے میں کسی پُراسرار طلسماتی سرزمین پر پہنچ گیا ہوں جہاں تاریکی اور روشنی اور سکون و اطمینان کا راج ہے۔ ایسی سرزمین جس میں کوئی ذی روح نہیں بستا۔ دفعتہً ہماری گاڑی ایک گہرے گڑھے کے اوپر سے گزری اور ایسا جھٹکا لگا کہ ڈونلڈ الٹ کر نیچے جا گرا۔ میں نے فوراً بیل روکے اور ڈونلڈ کو اٹھایا۔ کوئی خاص چوٹ نہ آئی تھی، شرمندہ ہو کر کہنے لگا:
"اس نظارے نے مجھے غافل کر دیا تھا ڈیڈی۔’
یہ کہہ کر وہ کپڑے جھاڑنے لگا اور جب اُس نے جھک کر رائفل اٹھائی، میں نے دیکھا کہ قریب ہی لمبی گھاس کے ساتھ ساتھ کسی جانور کے پنجوں کے نشانات خشک مٹّی پر اُبھرے ہُوتے ہیں مَیں نے ان نشانات پر ٹارچ کی مدد سے روشنی پھینکی، تو معلوم ہوا کہ کچھ دیر پہلے کوئی چیتا ادھر سے گزرا ہے۔ جنگل کا یہ حصّہ خاصا گھنا تھا اور اگر چاند کی روشنی ہماری راہنمائی نہ کرتی، تو چیتے کے پنجوں کے نشانات ہمیں ہرگز دکھائی نہ دیتے۔
"جلدی کرو گاڑی پر بیٹھ جاؤ۔’ مَیں نے کہا۔ "ابھی ابھی ایک قد آور چیتا اس راستے سے گیا ہے اور ممکن ہے وہ کسی قریبی جھاڑی میں دبکا ہوا ہمیں دیکھ رہا ہو۔’
گاڑی میں جتے ہوئے دونوں بَیل سر جھکائے کھڑے تھے جیسے اپنی غلطی پر نادم ہوں۔ ہمارے سوار ہوتے ہی وہ خودبخود چل پڑے۔ مَیں نے احتیاطاً ٹارچ روشن کیے رکھی تاکہ جھاڑیوں میں چھپا ہوا ہو، تو اس کی چمکتی ہوئی آنکھیں ہی اس کا راز اُگل دیں۔ ٹارچ کی روشنی میں چیتے یا شیر کی آنکھیں فوراً دکھائی دے جاتی ہیں جبکہ اندھیرے میں ایسا نہیں ہوتا۔ اور اس عجیب بات پر میں اکثر حیران ہوتا ہوں کہ اس کا کیا سبب ہے۔ چیتے سے ہمارا کوئی جھگڑا نہ تھا، اس لیے میرا ارادہ اسے ڈھونڈنے کا ہرگز نہ تھا، صرف احتیاطاً ٹارچ روشن کر دی تھی تاکہ وہ ہمارا تعاقب نہ کرے۔ چیتا ایسا عیار درندہ ہے کہ میلوں تک دبے پاؤں اپنے شکار کا پیچھا کرتا ہے اور جب اسے یقین ہو جاتا ہے کہ اس کا وار خالی نہ جائے گا تب حملہ کرتا ہے۔
اب ہم یاما دُودی نہر کے بالکل ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ یہاں جنگل بہت گھنا تھا، اس لیے مَیں نے دوسری ٹارچ بھی روشن کر دی، جھاڑیوں اور گھاس کے اوپر ہزار ہا پتنگے ناچ رہے تھے۔ کہیں کہیں جنگلی خرگوش، چوہوں اور گیدڑوں کی چمکتی ہوئی سُرخ سُرخ آنکھیں نظر آئیں جو روشنی پڑتے ہی غائب ہوگئیں۔ ایک مقام پر سانپ کی پھنکار اور گھاس میں سرسرانے کی آواز بھی سنائی دی جس نے بَیلوں کو خوف زدہ کر دیا اور وہ زیادہ تیزی سے دوڑنے لگے۔ اونچی نیچی پگڈنڈی پر گاڑی کے پہیئے بری طرح اچھلنے لگے۔ بَیلوں کی رفتار لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی جا رہی تھی اور خدشہ تھا کہ گاڑی الٹ نہ جائے اور اس سے پہلے کہ میں بیلوں کو روکنے کی کوشش کروں، گاڑی ایک پُرشور آواز کے ساتھ لڑھکتی ہوئی ایک کھڈ میں جا گری۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کسی طاقتور ہاتھ نے فضا میں اچھال دیا ہے۔ میں نے اپنے آپ کو نہر کے گھٹنے گھٹنے گہرے دلدلی پانی میں پڑا پایا۔ ڈونلڈ کا کچھ پتہ نہ تھا کہ اس پر کیا گزری۔ کھڈ زیادہ گہرا نہ تھا، اس لیے بیل تو کوشش کر کے باہر نکل آئے، مگر گاڑی اُس میں پھنس گئی تھی، میں نے ڈونلڈ کو آوازیں دیں، لیکن کوئی جواب نہ مِلا۔ میرے کپڑے پانی اور کیچڑ میں لت پت ہو چکے تھے۔ ٹارچ، تمباکو کی تھیلی اور پائپ نہر میں گر گیا تھا۔ مگر رائفل بدستور میرے ہاتھ میں تھی۔ چند لمحے بعد مَیں نے بائیں جانب سے ڈونلڈ کے کراہنے کی آواز سنی اور اُدھر لپکا۔ اُس کا سر زخمی تھا اور وہ کھڈ کے قریب پڑا اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بیل گاڑی کے ساتھ بندھا ہوا فرسٹ ایڈ کا تھیلا کھول کر مَیں نے اس کی مرہم پٹّی کی اور کپڑوں کے بنڈل سے کپڑے نکال کر اپنا لباس تبدیل کیا۔ میری بائیں کہنی اور گھٹنا بھی درد کر رہا تھا، لیکن میں تکلیف سے بے پروا ڈونلڈ کی دیکھ بھال میں لگا ہوا تھا۔
جب اچھی طرح ہوش آ گیا تو میں نے ڈونلڈ کو نہر سے کچھ فاصلے پر ایک درخت کے نیچے لٹایا۔ گاڑی سے بیل کھول کر الگ کیے اور رات اسی مقام پر بسر کرنے کا ارادہ کیا۔ کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی سلامت تھی اور رات کے ساڑھے دس بجا رہی تھی۔ گویا تین گھنٹوں میں یہ دوسرا حادثہ تھا اور ابھی ہم نے صرف چار میل کا فاصلہ طے کیا تھا۔ تھرماس سے قہوے کے گرم گرم گھونٹ پی کر اور ڈونلڈ کو پلا کر اَوسان بحال ہوئے، تو مَیں نے گردو پیش کا جائزہ لیا۔ اردگرد کے کئی درختوں پر بندر لٹکے ہوئے نظر آئے جو حیرت سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ لیکن سبھی چُپ تھے جیسے خوف زدہ ہوں۔ میری چھٹی حِس جاگ اٹھی۔ کوئی خونخوار درندہ یقیناً قریب تھا۔ شاید وہی چیتا ہوگا یا شیر۔۔۔ بہرحال میں نے رائفل سنبھال لی اور ڈونلڈ کو دلاسا دے کر اردگرد کی جھاڑیوں کا معائنہ کرنے لگا۔ دائیں ہاتھ پر نہر کے پرلے کنارے ایک چھوٹا سا ٹیلا تھا جو ہم سے بمشکل پچاس فٹ کے فاصلے پر ہوگا۔ اور وہ آوازیں اس ٹیلے کے عقب سے آئی تھی۔ پہلے مدھم، پھر تیز اور آخر میں کرب بھری گرج جیسے درندہ سخت تکلیف میں ہے۔
"ڈیڈی۔۔۔ شیر۔۔۔’ ڈونلڈ چِلّایا اور اپنی رائفل اٹھا کر میرے برابر آن کھڑا ہوا۔ مَیں نے اُسے درخت پر چڑھنے کا اشارہ کیا، تو وہ کہنے لگا:
"نہیں ڈیڈی، میں اتنا کمزور نہیں ہوں، شیر پر پہلا فائر مَیں کروں گا۔’
"تم اپنا وعدہ بُھول گئے۔۔۔؟’ میں نے دبی آواز میں اُسے ڈانٹا۔ "شور نہ مچاؤ، ورنہ شیر بھاگ جائے گا۔ میں کہتا ہوں درخت پر چڑھ جاؤ۔’ اس نے بادلِ نخواستہ تعمیل کی۔
اس دوران میں شیر پھر غرّایا اور اس مرتبہ آواز اور قریب سے آئی تھی۔ بیل خوف زدہ ہو کر ایک طرف بھاگ اٹھے اور میں ایک درخت کے تنے کے ساتھ چمٹ گیا اور دو مرتبہ شیرنی کی آواز اپنے حلق سے نکالی۔ میرا خیال تھا کہ شیر اس آواز پر میرے قریب آ جائے گا، لیکن ایسا نہ ہوا اور جنگل میں گہری خاموشی چھا گئی۔ وقت چیونٹی کی رفتار سے گزرنے لگا۔۔۔ مَیں سانس روکے شیر کی آواز سننے کا منتظر تھا۔ مگر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ مصنوعی شیرنی کی آواز سن کو چوکنّا ہو گیا ہے اور ویسے بھی یہ موسم تو شیر شیرنی کے راز و نیاز کا نہ تھا۔ اپنی اس حماقت پر مجھے افسوس ہونے لگا، لیکن کیا ہو سکتا تھا، چاند اس وقت آسمان کے عین وسط میں آ چکا تھا اور اس کی کرنیں ٹھیک میرے اوپر پڑ رہی تھیں۔ اردگرد کا منظر زیادہ صاف اور واضح نظر آنے گا۔
شیرنی کی بولی سُن کر شیر یقیناً چوکنا ہو گیا تھا۔ خشک پتّوں کے چرمُر ہونے اور گھاس کے سرسرانے کی ہلکی ہلکی آوازیں میرے کانوں میں پہنچیں، تو اس شبہے کی تصدیق ہو گئی کہ نر چُپکے چُپکے اپنی مادہ کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں نے اسے مزید پریشانی سے بچانے کے لیے تیسری بار شیرنی کی آواز نکالی اور ابھی بمشکل آدھا منٹ ہی گزرا تھا کہ درخت پر چڑھتے ہوئے ڈونلڈ نے آہستہ سے سیٹی بجائی۔ مَیں نے گھوم کر اس طرف دیکھا۔۔۔ اس درخت سے تقریباً پندرہ فٹ دور جھاڑیوں کے قریب ایک قوی ہیکل اور ہیبت ناک چہرے والا شیر شاہانہ وقار سے کھڑا تھا۔ یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ شیر پہاڑی ٹیلے کے عقب سے نکل کر ایک لمبا چکر کاٹے گا اور میرے پیچھے آ جائے گا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی مقام سے نہر بالکل خشک پڑی ہے اور شیر نے وہیں سے اسے عبور کیا ہے۔ اچھا ہی ہوا کہ ڈونلڈ نے شیر کی آمد کا فوراً نوٹس لے کر مجھے آگاہ کر دیا تھا، ورنہ شیر میری بے خبری سے فائدہ اٹھا کر اچانک حملہ کر دیتا تو میرے بچنے کی کوئی صورت نہ تھی۔
شیر اپنی جگہ سے اسی انداز سے کھڑا میری جانب گھور رہا تھا۔ مَیں بھی پتھر کا بُت بنا اپنی جگہ کھڑا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ شیر کو ہلاک کرنے کا یہ بے نظیر موقع تھا، میں جانتا تھا کہ یہ جنگل شیروں سے بھرا پڑا ہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ مَیں آدم خور کے بجائے کسی اور بے گناہ شیر کو اپنی رائفل کا نشانہ بنا دوں۔ فائر کرنے سے پہلے یہ معلوم کرنا ضروری تھا ہمارا مقابلہ کس سے ہے۔۔۔ عام شیر سے یا آدم خور شیر سے۔۔۔
شیر نے ایک ثانیے کے لیے چاند کی طرف دیکھا اور اور عَین اسی وقت مَیں تنے کی آڑ سے نکل کر شیر کے بالکل سامنے آن کھڑا ہوا۔ میرا خیال تھا اگر وہ آدم خور ہے، تو ضرور میری طرف لپکے گا۔ لیکن ایسا نہ ہُوا، وہ کوئی شریف شیر تھا۔ ایک نرم سی تنبیہہ آمیز غرّاہٹ کے بعد مڑا اور جھاڑیوں کے اندر غائب ہو گیا۔ مَیں نے اطمینان کا سانس لیا اور ڈونلڈ کو آواز دی کہ درخت سے نیچے اُتر آئے۔
"ڈیڈی، کیا آپ کو قطعاً احساس نہ ہوا کہ عقب میں شیر ہے؟ شکر کیجیے وہ آدم خور نہ تھا۔۔۔’
"بھئی، اس وقت تو تم نے کمال کیا۔ بخدا مَیں تصوّر بھی نہیں کر سکتا تھا کہ شیر اس طرح پیچھے سے آجائے گا، بہرحال وہ ناراض ہو رہا تھا کہ ہم نے شیرنی کی بولی بول کر اُسے دھوکا کیوں دیا۔’
"ڈیڈی، اب بَیلوں کو تو ڈھونڈیے۔۔۔ کہیں شیر اُن پر حملہ نہ کر دے۔’
"بَیل زیادہ دُور نہ جائیں گے، کیونکہ شیر آس پاس پھر رہا ہے اور انہوں نے اس کی بُو پالی ہوگی۔’
ابھی ہم باتیں کر ہی رہے تھے کہ ایک طرف سے کسی جانور کے دوڑنے کی آواز آئی۔ جانور وزنی تھا، کیونکہ اس کے قدموں کی دھمک سے زمین ہل رہی تھی۔ یہ یقیناً ہمارے بَیلوں میں سے ایک بَیل تھا۔ میرا خیال صحیح نِکلا۔ وہ زور زور سے ڈکراتا، چھلانگیں لگاتا اور وحشیانہ انداز میں بھاگتا ہوا نہر کے پرلے کنارے پر نمودار ہوا۔ چاند کی روشنی میں ہم نے دیکھا کہ اس کا جسم لہولہان ہے۔ شیر نے ہمیں چھوڑ کر اس پر حملہ کر دیا تھا، مگر فوراً ہی یہ خیال غلط ثابت ہو گیا، کیونکہ نہر کے پَرلی طرف جھاڑیاں چیرتا ہُوا ایک خونخوار اور لمبے قد کا چیتا برآمد ہوا اور بیل کی طرف لپکا۔ ڈونلڈ نے فائر کرنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
"کیا کرتے ہو؟ بیل اب ہمارے کام کا نہیں رہا، اس لیے چپ چاپ چیتے اور بَیل کی لڑائی دیکھو، وہ آسانی سے چیتے کا لقمہ بننے کو تیار نہ ہوگا۔’
چیتے کی پُھرتی اور برق رفتاری کا بیل کیا مقابلہ کرتا، آنِ واحد میں بپھرے ہوئے چیتے نے بیل کا ٹینٹوا جبڑے میں دبا کر نیچے گرا لیا اور اپنے پنجے اس کی پشت میں گاڑ دیے، مگر گاؤں کی فضا میں پَلا ہوا طاقتور بیل ہار ماننے کو تیار نہ تھا۔ اس نے گردن کو اس زور سے جھٹکا دیا کہ چیتا لُڑھکتا ہوا دُور جا گرا۔ اب تو چیتے کے غیظ و غضب اور طیش کی انتہا نہ رہی۔ اپنا بھیانک خون آلود مُنہ کھول کر گرجا اور بجلی کی مانند تڑپ کر دوبارہ بَیل پر جھپٹا۔ بَیل خون میں لت پت بُری طرح تڑپ رہا تھا۔ چیتے نے پنجے اس کے پیٹ پر مارے اور گردن مُنہ میں دبا کر جھاڑیوں کی طرف گھسیٹنے کی کوشش کرنے لگا۔ ڈونلڈ میں صبر کی تاب نہ رہی۔ میرے منع کرنے کے باوجود اس نے فائر کر دیا۔ فائر ہوتے ہی چیتا اُچھلا اور گرجتا ہوا جھاڑیوں میں جا چُھپا۔ اب وہ مسلسل چیخ رہا تھا، اس نے کئی بار جھاڑیوں سے نکل کر اَدھ موئے بَیل کو گھسیٹنا چاہا، مگر ہر بار ڈونلڈ کی رائفل شعلہ اگلتی اور چیتا جھاڑیوں میں روپوش ہو جاتا۔ غالباً وہ اپنے شکار کو چھوڑ کر جانا نہ چاہتا تھا۔ مجھے حیرت تھی کہ کوئی گولی اُسے نہیں لگی۔ ابھی یہ تماشا جاری تھا ک ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ وہی شیر جسے تھوڑی دیر پہلے ہم نے دیکھا تھا، ایک طرف سے نمودار ہوا اور چیتے کی پروا کیے بغیر بَیل کی طرف بڑھا اور اس کے چاروں طرف گھومنے لگا۔ بیل پر جان کنی کا عالم طاری تھا۔۔۔ درندے کو اپنے قریب پا کر اُس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر چیتے کے نوکیلے پنجوں نے اُس کی اوجھڑی باہر نکال دی تھی اور گردن تقریباً کٹ چکی تھی، اس لیے اُٹھ نہ سکا۔ شیر نے دو تین پنجے مارے اور بیل ٹھنڈا ہو گیا۔ اس کام سے فارغ ہو کر اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا جیسے چیتے سے کہہ رہا ہو کہ ہمّت ہے تو آؤ اور مجھ سے اپنا شکار چھین لو۔ لیکن چیتا جھاڑیوں میں چُھپا ہوا مسلسل غراتا رہا اور اسے شیر کا سامنا کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔
شیر اس مرتبہ بھی ہمارے نشانے کی زد میں تھا، مگر میں اُسے مارنا نہ چاہتا تھا، کیونکہ مَیں تو اُن شیروں کا دشمن ہوں جو انسانوں کے لیے مصیبت اور بربادی کا باعث بنتے ہیں اور انہیں سے دو دو ہاتھ کرنے میں لطف آتا ہے۔ ورنہ میں شیر کو جنگل کا بادشاہ سمجھ کر اس کا پورا احترام اور عزت کرتا ہوں اور شوقین مزاج شکاریوں کے برعکس خواہ مخواہ ان کے خُون سے ہاتھ رنگنا پسند نہیں کرتا۔ ہماری نظروں کے سامنے شیر نے بَیل کی لاش میں سے کچھ حصّے کھائے۔ دو تین انگڑائیاں لیں اور ایک طرف کو چلا گیا۔ ہمارا خیال تھا شیر کے جانے کے بعد چیتا لاش پر آئے گا، لیکن ایسا نہ ہوا۔ چونکہ وہ ہمیں دیکھ چکا تھا، اس لیے اپنی فطری احتیاط اور ہوشیاری کے باعث جھاڑیوں میں دبکا ناراضگی کا اظہار کرتا رہا۔
رات کا بقیہ حصّہ درختوں پر بسیرا کرتے ہوئے کاٹا۔ صبح صادقِ کے آثار نمودار ہوتے ہی ہم دوسرے بیل کی تلاش میں روانہ ہوئے۔ وہ ہمیں دو میل دُور خشک نہر کے وسط میں بیٹھا ہوا مل گیا۔ بیل کو ساتھ لے کر واپس آئے۔۔۔ بڑی جدوجہد کے بعد گاڑی کو گڑھے سے باہر نکالا۔ اس کے بعد ہم بیرُور سٹیشن کی طرف روانہ ہوئے۔ دوسرے بیل کی لاش وہیں پڑی رہی اور اسے ہم نے چیتے چرخ اور گیدڑوں کی ضیافتِ طبع کے لیے رہنے دیا۔
دو گھنٹے بعد ہم نارنگیوں کے اس وسیع باغ میں داخل ہوئے جو بیرُور اور جھیل مدّک کے بالکل درمیان نہر کے کنارے واقع تھا۔ یہ باغ بالکل اجاڑ اور سنسان پڑا تھا۔ اس کی دو وجوہ ہو سکتی تھیں۔ ایک تو یہ کہ نارنگیوں کا موسم نہ تھا اور دوسرے یہ کہ آدم خور کے ڈر سے باغ میں کام کرنے والے مالی، قلی اور دوسرے لوگ کام پر نہ آتے تھے۔ یہ باغ ایک انگریز ریٹائرڈ فوجی افسر کرنل جان سائمن کی ملکیت تھا اور وہ مجھے اچھی طرح جانتا تھا۔ باغ کے شمالی حصّے میں بنے ہوئے کچھ کچے اور کچھ پکّے چھوٹے سے بنگلے میں اس کی رہائش تھی۔ ان دنوں وہ عمر کی ستّر منزلیں طے کر چکا تھا۔ جب ہم بَیل گاڑی سے اتر کر بنگلے میں داخل ہوئے، وہ باہر آرام کرسی پر لیٹا کتاب پڑھ رہا تھا۔ ہم پر نظر پڑتے ہی خوشی سے اِس کا جُھرّیوں بھرا چہرہ تمتما اٹھا۔۔۔ ہمیں فوراً اپنے آرام دہ کمرے میں لے گیا۔ اور ایک بڈھے مقامی ملازم کو ناشتا تیار کرنے کا حکم دیا۔
"میں جانتا ہوں تم آدم خور کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہو۔’ وہ مُسکرا کر بولا۔ "بھئی میرے قویٰ مضمحل۔۔۔ نگاہ کمزور۔۔۔ اور نشانہ خطا ہونے لگا ہے، ورنہ مَیں اس کا قصّہ بہت پہلے پاک کر چکا ہوتا۔ اب دیکھ لو میرا باغ ویران پڑا ہے۔ کوئی شخص یہاں آنے کے لیے تیّار نہیں۔ وہ میرے دو آدمیوں کو پکڑ کر لے جا چکا ہے اور کل رات پھر اِدھر سے گزرا تھا۔’
کرنل سائمن آدم خور کے دورے کی تفصیلات سناتا رہا اور ہم ناشتا کرتے رہے۔ یہ پہلا شخص تھا جس نے آدم خور کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کی بعض نشانیاں ذہن نشین کی تھیں۔
"جیسا کہ مَیں نے آپ کو بتایا، وہ ایک رات میرے نیپالی ملازم کو اٹھا کر لے گیا تھا۔’ کرنل سائمن کہنے لگا۔ "یہ نیپالی چند روز قبل ہی ملازم ہوا تھا اور ہرچند کہ مجھے نوکر کی ضرورت نہ تھی، مگر اس کے پاس مزّل لُوڈنگ بندوق دیکھ کر مَیں نے اُسے رکھ لیا۔ یہ ڈیڑھ ماہ پہلے کا ذکر ہے۔ آدم خور کی ہلاکت خیز سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ میرے تمام ملازم اس کی ہیبت سے لرزاں و ترساں تھے، کیونکہ کئی مرتبہ وہ باغ کے نزدیک بھی گھومتا پھرتا دیکھا گیا اور راتوں کو تو اکثر ادھر سے گزرتا تھا۔ اس دوران میں وہ میرے ایک قلی کو موقع پا کر ہڑپ بھی کر گیا اور کئی دن بعد اس کی لاش کے ٹکڑے جھیل مدّک کے کنارے ایک نالے کے قریب پڑے ہوئے پائے۔ بہرحال نیپالی چوکیدار نڈر ہونے کے ساتھ ساتھ حد درجہ احمق بھی ثابت ہوا۔ ایک روز رات کو بندوق چلنے کے دھماکے اور شیر کی گرج سُن کی میری آنکھ کھل گئی۔ یہ چاندنی رات تھی، مَیں نے باہر جھانکا، کیا دیکھتا ہوں کہ نیپالی گورکھا بندوق ہاتھ میں لیے اندھا دُھند دوڑتا ہوا میرے مکان کی طرف آرہا ہے اور ایک قد آور اور انتہائی طاقتور شیر اُس کے تعاقب میں ہے۔ شیر کا جبڑا زخمی تھا اور چہرہ لہولہان۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ نیپالی نے اُسے دیکھ کر اپنی بندوق چلائی، گولی شیر کے جبڑے پر لگی، لیکن وہ گرنے یا بھاگنے کے بجائے نیپالی کو پکڑنے کے لیے دوڑا۔ ممکن ہے وہ بچ جاتا، لیکن ٹھوکر کھا کر ایسا گرا کہ اٹھ نہ سکا، چنانچہ آدم خور نے اُسے چُوہے کی طرح منہ میں دبایا اور چھلانگیں لگاتا ہوا آناً فاناً نظروں سے غائب ہو گیا۔ اس حادثنے کے بعد میرے تمام ملازم رفو چکّر ہو گئے اور انہوں نے ٹھہرنے سے انکار کر دیا۔ اب میں یہاں تنِ تنہا اپنی قسمت کو رو رہا ہوں۔’
"آپ آدم خور کی کوئی خاص نشانی بتا سکتے ہیں؟’ ڈونلڈ نے پُوچھا۔
"نشانی؟ سب سے بڑی نشانی تو یہی ہے کہ اس کا جبڑا ابھی تک زخمی ہے۔ اور غالباً بایاں بڑا دانت بھی ٹوٹا ہوا ہے۔ مَیں نے اسے ایک روز دوپہر کے وقت اسی باغ میں پھرتے دیکھا تھا۔ اُسے معلوم ہے کہ میں یہاں رہتا ہوں اور شاید وہ میری ہی تاک میں ہے۔ جونہی مَیں نے اپنی رائفل اُٹھا کر فائر کرنے کا قصد کیا، وہ غراتا ہوا بھاگ گیا۔’
ہم چونکہ بے حد تھکے ماندے تھے، اس لیے کرنل سے اجازت لے کر ذرا کمر سیدھی کرنے لیٹ گئے۔ میں نے اندازہ کیا ہمارا میزبان آدم خور سے خوف زدہ ہے اور اگر یہ شخص اکیلا یہاں پڑا رہا تو تمام احتیاطوں کے باوجود آدم خور کسی دن اُسے پکڑ کر لے جائے گا۔
اس نے بتایا کہ شیر اس کی تاک میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہُوا کہ بوڑھے کرنل کی زندگی خطرے میں تھی۔ اُس کا مکان بھی اتنا مضبوط نہ تھا کہ آدم خور کو داخل ہونے سے روک سکتا تھا۔ معمولی لکڑی کے بنے ہوئے کمزور دروازے شیر کے ایک ہی دھکّے سے یقیناً ٹوٹ جاتے اور کچی دیواریں ڈھانا بھی اس کے لیے کچھ مشکل نہ تھا۔ آدم خور کی فطرت ہے اگر وہ کسی شخص کو نگاہ میں رکھ لے تو اس وقت تک پیچھا نہیں چھوڑتا جب تک اس کو ہلاک نہ کر لے۔ اکیلے دُکیلے آدمی کی خاص طور پر "نگرانی’ کرتا ہے اور موقع پاتے ہی وار کرنے سے کبھی نہیں چُوکتا۔ کرنل نے ہمیں بتایا کہ آدم خور اکثر رات کے وقت اس باغ اور جھیل مدّک کے درمیانی علاقے میں پھرتا ہے، چنانچہ شام کی چائے پر جمع ہوئے، تو مَیں نے اُس سے کہا:
"آپ نے اپنی حفاظت کا کیا انتظام کیا ہے؟ یہ دیواریں اور یہ دروازے ظاہر ہے آدم خور کو روک نہیں سکتے۔ میں حیران ہوں اُس نے اب تک آپ کا صفایا کیوں نہیں کیا۔’
اِن الفاظ سے کرنل کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے زردی سی چھا گئی اور دم بخود ہو کر میری طر تکنے لگا، پھر بولا:
"پناہ بخدا، یہ بات تو میرے ذہن میں نہ آئی تھی۔ آپ سچ کہتے ہیں، میری خواب گاہ کا دروازہ یقیناً کمزور ہے اور شیر چاہے تو اُسے توڑ سکتا ہے۔ مَیں کل ہی بیرّور سے کسی بڑھئی کو بلوا کر ان دروازوں کے آگے لکڑی کی مضبوط بلّیاں لگواتا ہوں۔ ویسے مَیں نے اپنے بڑے لڑکے کو یہاں پہنچنے کا خط بھی لکھ دیا ہے۔ وہ آج کل بنگلور میں کام کر رہا ہے، بس پہنچنے ہی والا ہوگا۔ وہ خود بھی اچّھا شکاری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس سے خاصی مدد لے سکیں گے۔’
"یہ آپ نے اچھا کیا۔ تاہم آپ اپنی حفاظت کا انتظام ضرور کیجیے۔’
ہم جنگل میں جانے کی تیاری کرنے لگے۔ کرنل نے ہمیں نئی ٹارچیں دیں، ایک بڑے تھرماس میں چائے اور بسکٹوں کا ڈبّا ہمارے حوالے کیا اور باغ کے آخری کنارے تک رخصت کرنے آیا۔
"اچھا، دوستو شب بخیر۔ خدا کرے آپ اس مہم میں کامیاب ہوں تاکہ خلقِ خُدا چَین کی نیند سو سکے۔ میرا خیال ہے کہ آدم خور جھیل مدّک کے قریب واقع ایک گہری کھائی میں رہتا ہے۔ اُس کے مارے ہوئے اکثر آدمیوں کی لاشوں کے بچے کھچے حِصّے وہیں سے ملے ہیں۔ یہ راستہ زیادہ دشوار گزار اور خطرناک ہے اس لیے احتیاط لازمی ہے۔ مجھے اُمید آپ جب واپس آئیں گے، تو میں آپ کی زبان سے کوئی خوش خبری سُن سکوں گا۔ اچّھا، خدا حافظ۔’
کرنل سائمن کے باغ سے نکل کر ہم جھیل مدّک کی طرف چلے۔ جنگل میں تاریکی سُرعت سے پھیل رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا ڈونلڈ پر آدم خور کی خاصی ہیبت بیٹھ چکی ہے اور وہ بار بار چونک دائیں بائیں دیکھنے لگا تھا۔ خود میرے دل پر بھی خوف کا ہلکا سا اثر ہونے کے ساتھ ساتھ حسرت و الم کی نامعلوم کیفیت طاری ہوتی جا رہی تھی۔ برسوں جنگل کی فضا میں رہنے کے باوجود مجھ میں اتنا شعور تو یقیناً پیدا ہو چکا تھا کہ پیش آنے والے خطروں اور حادثوں کے بُو باس سُونگھ لوں، لیکن ڈونلڈ کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا۔
بُڈھے کرنل نے آدم خور کا جو حُلیہ بیان کیا تھا، اُس سے میرے ذہن میں ایک خاص نقشہ تیّار ہو گیا تھا۔ مجھے یقین تھا جونہی حریف سے آمنا سامنا ہوگا، فوراً اُسے پہچان لوں گا۔ ہم دونوں چپ چاپ، آہٹ پیدا کیے جھیل کی طرف بڑھ رہے تھے۔ تنگ راستے کے دونوں جانب جنگل گھنا اور گنجان تھا۔ درخت نہایت اونچے اور ان کی ٹہنیاں اور شاخیں ایک دوسرے سے گتھی ہوئی تھیں۔ بندروں کی اچھل پھاند یا چڑچڑانے کی آوازوں کے سوا جنگل پر ایک ہیبت ناک سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ہم آگے چل کر گُھپ اندھیرے کے بیکراں سمندر میں ڈوب گئے۔ درختوں کی جُھکی ہُوئی شاخیں ہمیں روکنے کی کوشش کر رہی تھیں، لیکن ہم انہیں ہٹانے اور گزرنے کی راہ بناتے ہوئے جھیل کے قریب پہنچ ہی گئے۔ تھوڑی دیر بعد پتہ چلا کہ اندھیرے میں ہم ایک نئے راستے پر نکل آئے ہیں اور اب بالکل نہر کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ یہ نہر کسی زمانے میں جھیل مدّک سے نکالی گئی تھی اور خاصی چوڑی اور گہری تھی۔ آگے چل کر نہر ایک ڈھلان کی طرف مُڑی، تو پانی گرنے کی مدھم سی آواز کانوں میں آنے لگی۔
ہم آدم خور کے علاقے میں داخل ہو چکے تھے، اس لیے مَیں نے ڈونلڈ کو ہوشیار رہنے کی تاکید کرتے ہوئے ٹارچ روشن کر دی۔ کچھ فاصلے پر جھیل مدّک کا بند نظر آیا جو تقریباً پچیس فٹ اُونچا تھا۔ بند تک پہنچنے کے لیے ہمیں انتہائی دشوار گزار اور گنجان ترین حصے سے گزرنا پڑا جہاں ہر لمحے کسی ناگہانی حادثے کا خطہر موجود تھا۔ ایک مقام پر جھاڑیوں سے گزرتے ہوئے کسی مہلک جانور کی موجودگی کا احساس ہوا۔ میں نے ڈونلڈ کو رکنے کی ہدایت کی اور دونوں ٹارچیں روشن کر دیں۔ کیا دیکھتا ہوں ایک سیاہ ناگ پانچ فٹ کے فاصلے پر کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ روشنی ہوتے ہی پھنکارا اور سر اٹھا کر ہماری طرف دیکھنے لگا۔ اس کی ننھی ننھی سرخ آنکھیں کوئلوں کی طرح دہک رہی تھیں۔ ناگ کو دیکھتے ہی ڈونلڈ کے حلق سے ہلکی سی چیخ نِکلی اور اس سے پہلے کہ میں اُسے روکوں، وہ ناگ پر فائر کر چکا تھا۔ ظاہر ہے اس نازک صورتِ حال میں صحیح نشانہ لینا محال تھا، سانپ آناً فاناً گھاس میں سرسراتا ہوا نظروں سے غائب ہو گیا۔ لیکن فائر کے دھماکے سے جنگل کی سوئی ہوئی زندگی بیدار ہو گئی۔ درختوں پر بسیرا کرنے والے کوّے، چیلیں اور ہزار ہا چمگادڑیں ہَوا میں چکّر کاٹنے لگیں اور ان کے پَروں کی ناگوار پھڑپھڑاہٹ سے دیر تک فضا گونجتی رہی۔
"تمہیں اتنی بدحواسی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔’ میں نے ڈونلڈ کو سمجھایا۔ اس کے چہرے پر اب بھی دہشت کے آثار ہویدا تھے۔ دراصل سانپ اُس کی نفسیاتی کمزوری تھی۔ وہ ریچھوں اور چیتوں کے سامنے بے خوفی سے کھڑا ہو جاتا، لیکن کسی معمولی اور بے ضرر سانپ کو دیکھتے ہی اس کی روح فنا ہونے لگتی تھی۔
"ڈیڈی، اگر مَیں گولی نہ چلاتا، تو وہ ہم میں سے ایک کو ضرور ڈس لیتا۔’ ڈونلڈ نے جواب دیا اور پیشانی سے پسینے کے قطرے پونچھنے لگا۔ اتنے میں مشرق کی جانب سے ابھرتے ہوئے چاند کی روشنی آہستہ آہستہ جنگل کو منوّر کرنے کی کوشش کرنے لگی، لیکن درخت اتنے گنجان اور ایک دوسرے سے یوں جڑے ہوئے تھے کہ چاند کی بڑی کرنیں بڑی مشکل سے گزر رہی تھیں۔ تاہم اب اِردگرد کا منظر ہمارے سامنے اتنا واضح ہو گیا تھا کہ ٹارچ روشن کرنے کی حاجت نہ رہی۔
پچّیس فٹ بلند بند پر چڑھنا جتنا آسان نظر آتا تھا، اُتنا ہی دشوار بن گیا، دراصل ہم دونون بُری طرح تھک گئے تھے اورچاہتے تھے کسی جگہ رک کر دم لے لیں اور سب سے زیادہ محفوظ مقام جھیل کا یہ بند تھا۔ بند پر پہچنچ کر کھلی اور روشن فضا نصیب ہوئی اور ہم نے اطمینان کا سانس لیا۔ ٹھنڈی خوشگوار ہَوا چل رہی تھی۔ جھیل مدک کا پانی چاندنی میں چمک رہا تھا۔ لیکن اس کی رفتار بہت سست تھی۔ پاٹ تقریباً سو گز چوڑا تھا اور جس جگہ ہم بیٹھے تھے، وہاں سے تقریباً ایک فرلانگ دور یہ جھیل اچانک دائیں ہاتھ مڑ کر نظروں سے اوجھل ہو جاتی تھی۔
کرنل سائمن نے بتایا تھا کہ آدم خور کا مَسکن جھیل کے نزدیک ایک تاریک کھائی ہے اور مَیں اسی کھائی کا ایک نظر معائنہ کرنا چاہتا تھا، لیکن اس کے لے ضروری تھا کہ ہم جھیل عبور کر کے دوسرے کنارے پر جائیں۔ چنانچہ آدھ گھنٹہ سستانے اور گرم گرم چائے حلق سے اتارنے کے بعد جھیل میں اتر گئے۔ ہم نے گھٹنوں تک اونچے شکاری فُل بوٹ پہن رکھے تھے۔ جھیل کے درمیان پہنچے، تو اندازہ ہوا کہ یہاں پانی گہرا ہے۔ آگے بڑھے، تو پانی کمر تک آگیا۔ غرض یہ کہ جب دوسرے کنارے پر آئے، تو ہمارے کپڑے اچھی طرح تر ہو چکے تھے۔ اب مسئلہ گیلے کپڑے اتار کر سُکھانے کا تھا۔ چنانچہ سوکھی شاخیں جمع کر کے آگ جلائی اور دیر تک کپڑے سکھاتے رہے، اس اثناء میں ڈونلڈ تو وہیں پڑ کر سو گیا اور مَیں بیٹھا پائپ پیتا رہا۔ نہ معلوم کس وقت مجھ پر غنودگی طاری ہوگئی اور آنکھ اس وقت کھلی جب آدم خور کے گرجنے اور کسی آدمی کے چلّانے کی ملی جلی آوازیں سنائی دیں۔ مجھے یوں احساس ہوا جیسے کسی نے آگ میں سُرخ کی ہوئی سُلاخ سینے میں جھونک دی ہے، کیونکہ آنکھ کھلتے ہی اِدھر اُدھر دیکھا، تو ڈونلڈ نظر نہ آیا۔ مَیں یہ سمجھا کہ آدم خور اُسے اٹھا کر لے گیا۔ چند ثانیوں کے اس بھیانک خیال کے زیرِ اثر میری جسمانی اور ذہنی قوت معطل ہو گئی۔ اس ناگہاں صدمے سے مَیں یقیناً بے ہوش ہو جاتا کہ قریب ہی ڈونلڈ کی آواز آئی۔ وہ ایک درخت کے تنے سے لگا کھڑا تھا۔
"ڈونلڈ۔۔۔ ڈونلڈ۔۔۔’ مَیں چِیخا اور اس کی طرف لپکا۔ "خُدا کا شکر ہے کہ تم زندہ ہو، میں تو سمجھا تھا کہ آدم خور تمہیں لے گیا۔ ابھی ابھی مَیں نے کسی آدمی کے چِیخنے اور شیر کے گرجنے کی آواز سُںی تھی۔’
"اسی آواز نے تو مجھے جگایا تھا۔’
یہ کہہ کر وہ میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔ چند منٹ بعد پھر کسی کے چِیخنے چلّانے کی آوازیں آئیں۔ یقیناً کوئی بدنصیب آدمی شیر کے خونیں جبڑوں کا شکار ہو گیا تھا، لیکن سوال یہ تھا کہ رات کے اس سنّاٹے میں کون بیوقوف ہے جو آدم خور کا لقمہ بننے کے لیے ادھر آ نکلا۔ بہرحال یہ وقت سوچنے اور غور کرنے کے بجائے عمل کرنے کا تھا۔ ہم دونوں اپنی اپنی رائفلیں سنبھال کر اُس کی طرف لپکے۔ آدم خور کی پُھرتی اور عیاری کے مقابلے میں ہماری یہ بھاگ دوڑ وقت ضائع کرنے کے مترادف تھی، کیونکہ وہ اتنی دیر میں اپنے شکار کو لے کر کہیں سے کہیں نکل جاتا ہے۔
جھیل کا یہ کنارہ بدبو دار دلدلی قطعوں اور جھاڑ جھنکاڑ سے پٹا پڑا تھا۔ جابجا گہرے گڑھے اور چھوٹی بڑی کھائیاں راہ روکے ہوئے تھیں، لیکن ہم نتائج سے بے پروا ٹارچوں کی روشنی میں اُس طرف بڑھتے گئے جدھر سے آواز آئی تھی۔ یہاں آم کے درختوں کا ایک گھنا جھنڈ تھا اور اسی کے قریب ہم نے شیر کے پنجوں کے نشان اور خون کے قطرے دیکھے۔ جھنڈ کے اندر اتنی تاریکی تھی کہ اس میں داخل ہونے کا حوصلہ نہ ہوا۔ شیر اپنے شکار کو لے کر اسی جھنڈ میں گیا تھا اور ممکن ہے اب بھی کسی جھاڑی یا گھاس کے اندر بیٹھا اپنا پیٹ بھر رہا ہو۔ ہم دیر تک بے حس و حرکت کھڑے کوئی اور آواز سننے کی کوشش کرتے رہے، لیکن بے سُود۔۔۔ ہر طرف ہُو کا عالم طاری تھا۔ جیسے جنگل کا یہ حصّہ برسوں سے ویران اور غیر آباد پڑا ہوا اور جنگلی جانور یہاں نکل کر کسی اور حصّے میں جا بسے ہوں۔
مَیں نے گھڑی پر نگاہ ڈالی، رات کے گیارہ بجے تھے۔ سمجھ میں نہ آیا یہ شخص کون تھا جسے شیر پکڑ کر لے گیا۔ شاید وہ ان آوارہ اور بدمعاش آدمیوں میں سے کوئی ہو جو پولیس کے خوف سے جنگلوں میں چوری چھپے شراب بنایا کرتے ہیں۔ اگر ایسی ہی بات ہے، تو اس شخص کے دوسرے ساتھی بھی یہیں ہونے چاہیئں۔ مَیں نے ڈونلڈ کو ساتھ رہنے کی ہدایت کی اور جھنڈ میں داخل ہو گیا۔ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد پتا چلا کہ جھنڈ کے عین وسط میں خاصی کشادہ جگہ ہے۔ غالباً گزشتہ دنوں یہاں درختوں کی کٹائی کا کام شروع کیا گیا تھا۔ کیونکہ تین چار درختوں کے کٹے ہوئے تنے ایک دوسرے کے اُوپر پڑے ہوئے تھے۔ مَیں نے ٹارچ کی مدد سے ان بدمعاشوں کو کمین گاہ کا سراغ لگانا چاہا، مگر ناکامی ہوئی۔ اس جگہ زمین پر لمبی گھاس کثرت سے اُگی ہوئی تھی، اس لیے شیر کے پنجوں کے نشان اور خون کے دھبّے نظر آنا مشکل تھا۔ لیکن مَیں نے ہمت نہ ہاری، اتنا تو یقین تھا کہ شیر اپنے شکار کو لے کر اسی جھنڈ میں داخل ہوا ہے مگر گیا کدھر، یہی سوال بار بار ذہن میں گردش کر رہا تھا۔
تھوڑی دیر کی جدوجہد اور تلاش کے بعد آخرکار ہم نے اس بدنصیب کو پا ہی لیا۔ اُس جُھنڈ سے کوئی دو فرلانگ دُور نکلنے کے بعد پھر خون کے دھبّے اور شیر کے پنجوں کے نشانات دیکھے گئے۔ ہم تیزی سے آگے بڑھے اور اپنے آپ کو اسی پگڈنڈی پر پایا جو بیرُور کی طرف جاتی تھی۔ لاش ایک دس فٹ اونچی خار دار جھاڑی کے قریب پڑی تھی۔ ایک نظر دیکھتے ہی پتہ چل گیا کہ وہ کوئی انگریز نوجوان ہے۔ اس کی خاکی وردی تار تار ہو چکی تھی اور برہنہ جسم پر جابجا شیر کے پنجوں اور دانتوں کے نشان نمایاں تھے۔ گردن اور سینے پر گہرے گہرے گھاؤ تھے جن پر تازہ خون کے لوتھڑے جمے ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آدم خور کسی وجہ سے پیٹ نہیں بھر سکا اور لاش یہیں چھوڑ گیا ہے۔ ممکن ہے وہ نزدیک ہی کہیں چُھپ گیا ہو۔ مَیں نے ڈونلڈ کو ایک درخت پر چڑھنے کا اشارہ کیا اور چند منٹ ادھر ادھر دیکھنے کے بعد خود بھی درخت پر چڑھ گیا۔ اب لاش عین ہمارے سامنے کوئی بیس تیس گز کے فاصلے پر پڑی تھی۔ اس وقت ایک ایک لمحہ عذاب کی مانند گزر رہا تھا اور میرے اعصاب میں وہی غیر معمولی چُستی عود کر آئی تھی جو اس قسم کے مقابلوں میں میری مدد کرتی تھی۔ لاش دیکھتے ہی میں سمجھ گیا کہ یہ بدنصیب انگریز نوجوان کون تھا۔ کرنل سائمن کا بیٹا جو بنگلور سے اپنے باپ کی حفاطت کے لیے یہاں آیا تھا۔ اور جب کرنل کو پتا چلے گا کہ ولیم سائمن آدم خور کے ہتھے چڑھ گیا، تو نہ معلوم اس کا کیا حال ہوگا۔ اب سوال یہ تھا کہ آدھی رات کو اس سنسان اور خطرناک جنگل میں وہ آدم خور کا شکار کیونکر بنا۔
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ولیم سائمن کسی حادثے کے باعث اپنے باپ کے باغ تک پہنچ نہیں سکا اور راستہ بھول کر اس طرف آ نکلا اور آدم خور کا شکار ہو گیا۔ اس کڑیل جوان کی حسرت ناک موت کا صدمہ میرے دماغ پر ایسا تھا کہ میں اپنے آنسو روک نہ سکا۔ ڈونلڈ کے چہرے پر بھی ایسے ہی تاثرات پھیلے ہوئے تھے۔ آدم خور پیٹ بھرے بغیر ہی لاش کو چھوڑ کر جا چکا تھا۔ اس لیے یقیناً جھلّایا ہوا اِدھر اُدھر پھر رہا ہوگا۔ شاید اس انتظار میں ہو کہ ہم اس مقام سے ٹلیں اور پھر وہ لاش پر آئے، لیکن ضرورت سے زیادہ ہوشیار ثابت ہوا اور اگرچہ میں نے کئی مرتبہ اس کے چلنے پھرنے کی آہٹ بھی سنی۔ تاہم وہ نظر نہ آیا۔ ایک دو بار وہ غصے سے غرّایا بھی تھا۔
صبح کے چار بجے جب کہ مشرق کی طرف سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہَوا کے جھونکے میں تھپکیاں دے دے کر سُلانے کی کوشش کر رہے تھے، آدم خور نے جھاڑیوں میں سے سر نکال کر جائزہ لیا۔ اَب میں نے دیکھا کہ اس کا چہرہ عام شیروں کی نسبت خاصا چوڑا ہے اور جبڑے کا ایک بڑا دانت ٹوٹا ہوا ہے۔ آدم خور نے گردن اٹھا کر اُس درخت کی طرف نگاہ کی جس پر ہم پناہ لیے ہوئے تھے۔ رات بھر کا جاگا ہوا ڈونلڈ بے خبر سو رہا تھا۔ مَیں نے اسے پیر کی حرکت سے جگایا اور آنکھ کے اشارے سے آدم خور کی طرف متوجہ کیا۔ آپ یقین کیجئے میری اس معمولی سی حرکت کا بھی آدم خور کو فوراً پتہ چل گیا اور دوسرے ہی لمحے وہ دوبارہ جھاڑیوں میں غائب ہو چکا تھا۔ اس کے بعد ہم نے اس کی شکل نہیں دیکھی۔
سورج کی چمکیلی دھوپ چاروں طرف پھیل چکی تو ہم دونوں درخت سے نیچے اترے۔ کسی اور کی لاش ہوتی، اسے یہیں پڑا رہنے دیتا، کیونکہ آدم خور کو گھیرنے کا یہی ایک ذریعہ تھا، لیکن ولیم سائمن کی لاش آدم خور کے حوالے کر دینا مجھے پسند نہ تھا۔ چنانچہ ہم نے اسے اپنے فالتو کپڑوں میں لپیٹا اور اٹھا کر لے چلے۔ اب ہم اس پگڈنڈی پر چل رہے تھے جو بیرُور کی طرف جاتی تھی۔ دن کی روشنی میں یہ سرسبز و شاداب علاقہ بے حد خوب صُورت نظر آ رہا تھا، لیکن افسوس یہاں کوئی آدمی نہ تھا۔ ہر طرف ویرانی اور سنّاٹا ہی سنّاٹا۔ راستے میں جنگلی خرگوش اور گیدڑوں کے سوا کوئی ذی رُوح نہ ملا اور ان چھوٹے جانوروں نے بھی ہمیں حیرت سے یوں دیکھا جیسے زبانِ حال سے کہہ رہے ہوں:
"تمہیں اس طرف آنے کی جرأت کیسے ہوئی؟ بے وقوفو، جانتے نہیں اِدھر آدم خور رہتا ہے۔’
ابھی ہم لاش اٹھا کر آدھ میل ہی گئے تھے کہ سامنے سے ایک گھوڑا گاڑی آتی دکھائی دی۔ ہم رُک گئے۔ گاڑی پر پانچ سات آدمی ہاتھوں میں کلہاڑیاں اور مزّل لوڈنگ بندوقیں لیے بیٹھے تھے۔ پھر انہی میں کرنل سائمن کا سکڑا ہوا سُرخ چہرہ نظر آیا جس کی آنکھیں سوجی تھیں۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ ہم نے جلدی سے ولیم سائمن کی لاش گھاس میں رکھ دی اور آنے والوں کا استقبال کرنے کے لیے آگے بڑھے۔
"میرا بیٹا۔۔۔ میرا بیٹا۔۔۔ کہاں ہے وہ؟’ بڈھا کرنل چلّایا۔ گاڑی سے اترنے والوں نے اسے سنبھالا۔ کرنل پر دیوانگی طاری تھی۔ چند لمحوں کے لیے اس نے ہمیں بھی نہ پہچانا۔ کوچبان الگ تھلگ کھڑا تھرتھر کانپ رہا تھا اور اس کی صورت دیکھتے ہی اس حادثے کی تمام تفصیلات خودبخود میرے ذہن میں ترتیب پانے لگیں۔ ولیم کی لاش دیکھ کر کرنل کو سکتہ سا ہو گیا اور اگر مَیں آگے بڑھ کر اسے سنبھال نہ لیتا، تو وہ غش کھا کر زمین پر گر چکا ہوتا۔
ولیم کی لاش گھوڑا گاڑی پر رکھ کر ہم باغ میں پہنچے۔ اس دوران میں کرنل ہوش میں آ چکا تھا۔ مَیں نے اسے بستر پر چپ چاپ لیٹے رہنے کی ہدایت کی اور ساتھ آنے والے آدمیوں سے کہا کہ کوئی شخص یہاں سے میری اجازت کے بغیر نہ جائے۔ نہا دھو کر اور ناشتے سے فارغ ہو کر مَیں نے کوچبان کو بُلوایا۔ یہ ایک ادھیڑ عُمر، دُبلا پتلا اور پوپلے منہ والا ہندو تھا۔ اُس نے اپنا نام لالی بتایا۔
"جناب، اس میں میر کوئی قصور نہیں، صاحب بہادر میرے منع کرنے کے باوجود جنگل کی طرف چلے گئے تھے۔ شام کو سات بجے کی گاڑی سے وہ بیرُور سٹیشن پر اُترے اور میری گاڑی پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے جب مجھے نارنگیوں کے باغ کی طرف چلنے کا حکم دیا، تو مَیں نے کہا: "سرکار، اس وقت جنگل میں نہ جاؤں گا۔ کیوں کہ وہاں آدم خور رہتا ہے اور اس نے بہت سے آدمیوں کو ہڑپ کر لیا ہے۔ لیکن انہوں نے میری ایک نہ سنی، وہ شراب کے نشے میں تھے جناب، میرے انکار پر مجھے بید سے پیٹنا شروع کر دیا۔ دوسرے کوچبانوں نے بھی صاحب کو سمجھانے کی کوشش کی، مگر انہوں نے ان کو بھی مارا۔ میں مجبور ہو گیا۔’ لالی کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں۔ وہ میرے پَیر چُھوتے ہوئے بولا:
"جناب، آپ پولیس کو خبر نہ دیجیے۔۔۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچّے ہیں۔ اگر مجھے جیل ہو گئی تو وہ بھوکوں مر جائیں گے۔’
لالی کے بیان سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ سچ کہہ رہا ہے۔ چنانچہ مَیں نے اُسے دلاسا دیتے ہوئے کہا:
"گھبراؤ نہیں، میں سمجھ گیا ہوں اور اس میں قصور مرنے والے کا ہے۔ شراب ہی نے اس کی جان لی۔ اچّھا، آگے بتاؤ کیا ہُوا؟’
"باغ تک پہنچنے کے لیے مجھے ایک لمبا چکّر کاٹ کر جانا پڑتا تھا۔ اور وہ راستہ محفوظ بھی تھا، لیکن ولیم صاحب نے مجھ سے کہا کہ وہ بند والے راستے سے جانا چاہتے ہیں، کیونکہ یہ راستہ نزدیک ہے۔ یہ سُن کر مَیں نے ایک بار پھر انہیں بتایا کہ آدم خور رہتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ حملہ کر دے۔ میری اس بات پر ولیم صاحب نے پستول نکال لیا اور غصے سے کہنے لگے: "ہم اُس شیر کو مار ڈالے گا اور اگر تم چلنے سے انکار کرتا ہے، تو ہم تمہیں بھی شُوٹ کرے گا۔’ گاڑی جب بند کے نزدیک پہنچی تو چاند نکل رہا تھا۔ آگے راستہ تنگ اور خطرناک تھا، اس لیے گھوڑے کی رفتار ہلکی کرنی پڑی۔ بند کے اوپر سے گزرتے ہوئے یکایک ولیم صاحب نے مجھے گاڑی روکنے کا حکم دیا اور کہنے لگے کہ وہ چاندنی رات میں جھیل کی سیر کرنا چاہتے ہیں۔ وہ گاڑی سے اُتر کر چند ہی قدم چلے تھے کہ جھاڑیوں میں سے ایک شیر نکلا اور اُس نے ولیم صاحب کو دبوچ لیا۔ مَیں نے ولیم صاحب کی چیخیں سنیں، لیکن انہیں کیسے بچاتا۔ شیر کی آواز سُن کر میرا گھوڑا بدک گیا اور سَرپٹ دوڑنے لگا۔ مَیں واپس بیرُور سٹیشن چلا گیا اور دوسرے کوچبانوں کو حادثے کی تفصیلات بتائیں۔ ہم نے طے کیا کہ صبح ہوتے ہی کرنل کو خبر کر دیں گے۔’
مَیں نے لالی کو رخصت کر کے دوسرے آدمیوں کو باری باری بلوایا اور سب کے بیان لیے۔ اس سے ثابت ہوا لالی واقعی بے گناہ ہے۔ نوجوان ولیم سائمن شراب کے نشے میں دُھت تھا اور اس نے کوچبانوں کو بید سے مارا تھا، کیوں ایک شخص کی پیٹھ اور گردن پر اس وقت بھی بید کی ضربوں کے نشانات ابھرے ہوئے تھے۔
بیٹے کی ناگہانی موت نے کرنل سائمن کا دل و دماغ ہلا ڈالا تھا۔ وہ الٹی سیدھی باتیں کرتا اور اپنی کرسی پر بیٹھا دیوار پر لٹکی ہوئی ولیم سائمن کی تصویر کو گھورتا رہتا۔ کئی مرتبہ میں نے اسے رائفل کا معائنہ کرتے اور اس میں کارتوس بھر کر ہوائی فائر کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ اس کے بوڑھے بازوؤں میں نہ جانے کہاں سے قوت آ جاتی کہ ہاتھ کانپے بغیر نشانہ نہ لیتا اور گولی چلا دیتا، لیکن کھانا کھاتے ہوئے بار بار چھری کانٹا ہاتھ سے گِر جاتا تھا۔
"بہتر یہ ہے کہ بڑے میاں کو کسی ہسپتال میں داخل کرا دیا جائے۔’ ڈونلڈ نے مجھ سے کہا۔ "ان کی حالت روز بروز خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ کل جب آپ باہر گئے ہوئے تھے، کرنل نے ایک عجیب حرکت کی۔’
"وہ کیا؟’ میں نے پُوچھا۔
"آپ کو شاید یاد ہو کہ کرنل کے بڑے کمرے میں مٹّی سے بنے ہوئے ایک شیر کا چھوٹا سا مجسّمہ رکھا تھا۔ کرنل پہلے اُسے غور سے دیکھتا رہا، پھر اُس کے لبوں پر پُراسرار مسکراہٹ کھلینے لگی۔ اس وقت مَیں کمرے کی شمالی کھڑکی کے قریب کھڑا یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد کے کرنل قہقہے لگانے لگا اور پِھر ایسے الفاظ میں گیت گانے لگا جو میری سمجھ سے بالاتر تھے۔۔۔ اس نے دیوار پر لٹکا ہوا بڑا سا خنجر اُتارا، اُس کی دھار پر ہاتھ پھیر کر اس کی تیزی کا اندازہ کرنے لگا۔
مَیں ڈرا کہ وہ کہیں اس پاگل پن میں اپنی ہی گردن پر نہ پھیر لے۔ چنانچہ اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے مَیں نے آواز دی۔ مگر اُس نے میری آواز نہ سُنی، بلکہ آگے بڑھ کر خنجر مٹی کے بنے ہوئے شیر کے سینے پر مارا۔ شیر مینٹل پیس سے گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا، لیکن کرنل اس وقت تک خنجر چلاتا رہا جب تک یہ ٹکڑے مٹی کے ننھے ننھے ریزوں میں تبدیل نہ ہو گئے۔ اس کے منہ سے کف جاری تھا اور جسم کا تمام خون چہرے پر سمٹ آیا تھا۔ پھر وہ تیورا کر صوفے پر گر گیا۔ خنجر اس وقت بھی اس کے ہاتھ میں تھا۔’
"یہ صورتِ حال واقعی نازک اور خطرناک ہے۔ بے چارے کا دماغ الٹ گیا ہے۔ صدمہ بھی تو ایسا ناگہانی ہے۔ میرا خیال ہے کرنل آسانی سے ہسپتال جانے کے لیے تیّار نہ ہوگا، وہ ہمیں بھی شبہے کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اسے وہم ہے کہ ولیم سائمن کی ہلاکت میں ہمارا ہاتھ ہے۔’
ابھی ہم یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ کرنل سائمن اندر سے نِکلا اور ہمیں وہاں پا کر چہرے پر خشونت کے آثار پیدا کرتے ہوئے بولا:
"اب کیا مجھے مارنے کی فکر میں ہو؟ تمہی نے میرے بچّے کو ہلاک کیا ہے۔۔۔ تمہی نے۔۔۔ تم قاتل ہو۔۔۔ خونی ہو۔۔۔’ پھر یک بہ یک دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ مَیں اُسے سہارا دے کر کمرے میں لے گیا۔ اور بستر پر لٹا دیا۔ اب وہ لرزتی ہوئی آواز میں بولا:
"مجھے معاف کر دینا مسٹر اینڈرسن، میرے حواس قابو میں نہیں۔ مَیں اب چند روز کا مہمان ہوں اپنے بیٹے سے ملنا چاہتا ہوں۔۔۔ وہ اب تک کیوں نہیں آیا۔۔۔ جاؤ ذرا دیکھو۔۔۔ کہیں وہ راستہ تو نہیں بُھول گیا۔۔۔’
وہ دیر تک ہذیانی کیفیت میں مبتلا رہا اور پھر آہستہ آہستہ اس کی طبیعت پُرسکون ہوئی۔ مجھے اپنے قریب پا کر حیرت سے کہنے گا:
"مسٹر اینڈرسن، کیا مَیں بے ہوش ہو گیا تھا؟’
"جی ہاں میرا خیال ہے آپ کو چند روز ہسپتال میں رہنا چاہیے۔ طبیعت بحال ہو جائے، تو واپس اپنے گھر آ جائیے گا۔’ مَیں نے جواب دیا۔ یہ سنتے ہی کرنل پر پھر پاگل پن کا دَورہ پڑا۔
"کبھی نہیں۔۔۔’ وہ چلاّیا۔ "تم۔۔۔ تم مجھ اب اِس گھر سے بھی نکال دینا چاہتے ہو۔’ وہ بُری طرح ہانپ رہا تھا۔ اُس نے اٹھنے کی کوشش کی، لیکن مَیں نے اسے بستر پر لٹایا اور ڈونلڈ کو اشارہ کیا کہ اُسے پانی پلائے۔ پانی پی کر اُس کے ہوش ٹھکانے آئے اور آنکھوں میں پھیلی ہوئی سُرخی آہستہ آہستہ غائب ہونے لگی۔ چند لمحے بعد وہ ایک معصوم بچّے کی طرح گہری نیند سو رہا تھا۔
اب سوال یہ تھا کرنل سائمن کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا تو اس کے مکان اور باغ کی رکھوالی کون کرے گا؟ لوگ تو بلاشبہہ یہی سمجھتے کہ ہم نے اس کی جائیداد پر قبضہ کرنے کے لیے یہ حرکت کی ہے۔ دوسری طرف یہ خدشہ بھی تھا کہ اگر کرنل کو تنہا چھوڑ دیا گیا، تو وہ آدم خور کے جبڑوں کا شکار نہ ہو جائے۔ آخر ایک تدبیر میرے ذہن میں آئی۔ مَیں نے ضلع کھادر کے ڈپٹی کمشنر کو خط لکھنے کا ارادہ کیا اور اس میں ولیم سائمن کی ہلاکت اور کرنل کی بیماری کے تمام واقعات تفصیلاً بیان کیے۔ مجھے یقین تھا کہ ڈپٹی کمشنر سرکاری طور پر اس مسئلے کو آسانی سے حل کر سکے گا۔ خط لکھ کر ڈونلڈ کے سپرد کیا کہ وہ ابھی جا کر بیرُور سٹیشن سے پوسٹ کر دے اور واپسی میں ایک بیل گاڑی والے کو ساتھ لیتا آئے۔
دن کا بقیہ حصّہ کرنل کی نگرانی اور اس کا دل بہلانے میں کٹا۔ اس کی حالت عجیب تھی۔ صحیح الدماغ آدمی کی طرح باتیں کرتے کرتے اچانک دورہ پڑ جاتا اور ہذیان بکنے لگتا۔ دَورے کی حالت میں ہمیشہ مجھے نظر انداز کر کے اپنے مرنے والے بیٹے کو آوازیں دیتا۔ کبھی اسے سو جانے کی تلقین کرتا، کبھی کھانا کھانے کی، پھر زار زار رونے لگتا، اس حالت کے دُور ہونے کی علامت تھی۔ رو دھو کر وہ اپنی اصلی کیفیت پر آ جاتا۔
سُورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے ڈونلڈ واپس آ گیا۔ وہ اپنے ساتھ بَیل گاڑی کے بجائے ایک لمبے تڑنگے ادھیڑ عمر آدمی کو پکڑ لایا تھا۔ جس کے بارے میں اس نے مجھے بتایا کہ وہ مسلمان ہے اور اس کا نام ہے ابراہیم۔۔۔ اس نے مجھے مسکرا کر سلام کیا اور ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ مَیں نے اس شخص کا اوپر سے نیچے جائزہ لیا۔ چال ڈھال سے وہ فوجی سپاہی نظر آتا تھا اور میرا یہ اندازہ درست ہی نکلا۔
"تم اس علاقے کے رہنے والے معلوم نہیں ہوتے۔’ میں نے کہا۔
"میں پنجاب کا رہنے والا ہوں جناب۔’ اس نے بتایا۔ "پہلی بڑی جنگ میں بھرتی ہوا تھا۔ جنگ ختم ہوئی تو مجھے فوج سے چُھٹی دے دی گئی۔ روزگار کی تلاش میں گھر سے نکلے ہوئے دس سال ہو گئے ہیں۔ بنگال، یو پی، دہلی، اور بمبئی میں گھومتا پھرتا رہا۔ میں نے مشہور شکاری جم کار بٹ کے بھی ساتھ کوماؤں کے جنگلوں میں سفر کیا ہے جناب، وہ مجھ پر بڑا اعتماد کرتے تھے۔ یہ دیکھیے ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا سرٹیفیکیٹ بھی میرے پاس موجود ہے۔ مَیں نے ایک بار اُن کی جان بچائی تھی۔’
اُس نے اپنے کُرتے کی جیب سے ایک پرانا بوسیدہ کاغذ نکالا اور مجھے تھما دیا۔ جم کاربٹ نے واقعی اس شخص کی تعریف کی تھی اور اس سے بڑا سرٹیفیکیٹ اور کیا ہو سکتا تھا۔
"تم بیرور کیسے اور کیونکر آئے؟’
"جناب، میرے یہاں آنے کی اصل وجہ تو آپ ہی ہیں، کیونکہ مدّت سے آپ کا نام سُں رہا ہوں۔ آپ کو دیکھنے کا بڑا اشتیاق تھا۔ گذشتہ چار ماہ سے بنگلور کے ایک تاجر کے ہاں چوکیدار کی حیثیت سے ملازم تھا۔ مسٹر ولیم سائمن اس تاجر کے ہاں آتے جاتے تھے۔ ایک روز مجھے معلوم ہوا کہ ان کے والد کا خط آیا ہے وہ اسے اپنے پاس بُلانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ایک آدم خور اس علاقے میں نمودار ہوا ہے جس نے بہت سے آدمیوں کو ہڑپ کر لیا ہے۔ مسٹر ولیم نے بتایا تھا کہ وہ اس آدم خور کو مارنے کے لیے ضرور جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں بھی ساتھ چلوں۔ میں نے ہامی بھر لی کہ آپ سے مُلاقات ہوجانے کا امکان تھا۔ میں جانتا تھا کہ آدم خور کے بارے میں خبریں آپ تک ضرور پہنچیں گی اور چونکہ اس کی سرگرمیاں بیرُور اور ہوگرالی کے علاقے میں پھیلی ہوئی ہیں، اس لیے آپ ضرور وہاں جائیں گے، چنانچہ میں نے مسٹر ولیم سے کہا کہ وہ بیرُور پہنچیں، مَیں ایک روز بعد آؤں گا۔ یہ اس لیے کہ جس شخص کے ہاں ملازم تھا، وہ مجھے مسٹر سائمن کے ساتھ جانے کی اجازت کبھی نہ دیتا۔ بہرحال آج دوپہر جب میں بیرُور سٹیشن پر اُترا، تو پتا چلا کہ ولیم صاحب آدم خور کھاجا بن چکے ہیں۔ یہ خبر سُن کر میں سخت پریشان ہوا۔ یہاں آنے کے لیے مختلف گاڑی بانوں کی منت سماجت کر ہی رہا تھا کہ مسٹر ڈونلڈ وہاں پہنچ گئے۔ یہ بھی کسی بیل گاڑی کی تلاش میں تھے، مگر ان میں سے کوئی بھی اِدھر آنے کے لیے تیار نہ تھا۔ مسٹر ڈونلڈ کی زبانی معلوم ہوا کہ وہ آپ کے صاحبزادے ہیں اور آپ کرنل سائمن کے باغ میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اسی وقت ان کے ساتھ چل پڑا۔ اب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ مَیں نے بھی یہ سنا ہے کہ کرنل سائمن صاحب کا دماغ الٹ گیا ہے۔’
"ہاں، اور یہی میری پریشانی کا اصل سبب ہے۔’ میں نے کہا۔ "بہرحال کچھ نہ کچھ انتظام ضرور ہو جائے گا۔ تمہارے آنے سے مجھے بے حد خوشی ہوئی ہے۔ تم کتنے دن کی رخصت لے کر آئے ہو؟’
"دس دن کی جناب۔’
"ٹھیک ہے، اب تم یہ کرنا کہ صبح اٹھتے ہی بیرور اور اس کی نواحی بستیوں کی طرف نکل جانا اور تین خچّر یا سستے گھوڑے خرید لانا۔ حالات ایسے ہی ہیں کہ کوئی گاڑی بان ہمارے ساتھ جنگل میں سفر کرنے کو تیار نہ ہوگا اور اس سے پیشتر کہ آدم خور اِن تمام بستیوں کو ویران کر دے، اس کا خاتمہ کر دینا ضروری ہے۔ میں نے کھادر کے ڈپٹی کمشنر کو خط لکھ دیا ہے۔ وہ کرنل سائمن کو ہسپتال پہنچانے کا انتظام کر دیں گے۔ اس اثنا میں تم ہماری غیر حاضری میں ان کی حفاظت کرنا۔ آدم خور کرنل صاحب کی تاک میں ہے۔’
"فکر نہ کیجیے صاحب، مَیں جی جان سے حاضر ہوں۔ ابھی اِن بازوؤں میں اتنی قوت ہے کہ شیر کا گلا چیر سکیں۔’ اُس نے ڈنٹر پُھلاتے ہوئے جواب دیا۔
"میں ہنس پڑا:’ شاباش، مجھے ایسے ہی آدمی کی ضرورت ہے۔ اگر میں نے محسوس کیا کہ تم میرے ساتھ ٹھیک ٹھاک رہے اور کام کے آدمی ثابت ہوئے، تو میں تمہیں اُس تاجر سے زیادہ تنخواہ پر اپنے پاس رکھ لوں گا۔ تمہارا نشانہ کیسا ہے؟’
ان الفاظ سے ابراہیم کے چہرے پر مسرّت کی لہر دوڑ گئی۔
"صاحب، مَیں اس سے زیادہ کچھ نہ کہوں گا کہ آپ ابراہیم کو کسی میدان میں پیچھے ہٹتا نہ پائیں گے۔ اب رہا نشانے کا امتحان۔۔۔ ذرا اپنی رائفل مجھے دیجیے۔’ یہ کہہ کر اس نے رائفل مجھ سے لی اور اِدھر اُدھر دیکھا۔ سامنے کوئی تیس چالیس گز کے فاصلے پر ایک ٹوٹی ہوئی میز پڑی تھی۔
"دیکھیے جناب، مَیں اُس میز کی دائیں ٹانگ کا نشانہ لیتا ہوں۔’ اس نے یہ کہتے ہی لبلبی دبا دی۔ دوسرے لمحے گولی میز کی دائیں ٹانگ پر لگی اور اس کے پرخچے اڑا دیے۔
"خوب، بہت خوب، تم واقعی بہترین نشانچی ہو۔’ ڈونلڈ نے داد دی۔ ابراہیم نے انکسارانہ انداز میں سر جھکایا۔ دفعتہً ہمارے سروں پر دو بڑی چمگادڑیں اُڑتی ہوئی دکھائی دیں۔ ابراہیم نے رائفل سے نشانہ لیا اور دوسرا فائر کیا۔ آناً فاناً ایک چمگادڑ قلابازیاں کھاتی ہوئی زمین پر آ رہی۔
"بس بھائی بس، مجھے معلوم ہو گیا کہ تم نشانے کے بڑے سچّے ہو۔’ مَیں نے اُسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔ "آؤ اب اندر چل کر بیٹھیں۔ معلوم ہوتا ہے تم نے صبح سے کچھ نہیں کھایا پیا۔’
ابراہیم نہایت دلچسپ آدمی ثابت ہوا۔ رات کو کھانے سے فارغ ہو کر جب ہم کافی پینے بیٹھے تو اُس نے پہلی جنگ عظیم کے چشم دید واقعات سنائے، پھر کرنل جم کار بٹ کا ذکر چھڑ گیا۔ ابراہیم کی آنکھوں میں ایک چمک نمودار ہوئی، وہ کہنے لگا:
"صاحب، آپ بھی مانے ہوئے شکاری ہیں اور مجھ سے زیادہ جم کاربٹ صاحب کو جانتے ہوں گے لیکن مَیں نے جو دو ماہ کا عرصہ ان کے ساتھ گزارا ہے، وہ زندگی بھر یاد رہے گا۔’
"اُن سے تمہاری ملاقات کہاں ہوئی تھی؟’ ڈونلڈ نے سوال کیا۔ "کرنل نے اس سرٹیفیکیٹ میں تمہاری بڑی تعریف لکّھی ہے۔ وہ کون سا واقعہ تھا جبکہ تم نے ان ک جان بچائی؟’
"صاحب، مَیں نے کیا، خُدا نے بچائی۔’ ابراہیم نے انگلی سے چھت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ "بس عجیب اتفاق تھا اگر ایک ثانیے کی تاخیر ہو جاتی، تو وہ موذی کاربٹ صاحب کو اٹھا کر لے جاتا، جاتے جاتے مجھے زخمی کر ہی گیا۔ یہ دیکھیے میرے بائیں ہاتھ کی دو انگلیاں غائب ہیں۔’
ابراہیم نے اپان بایاں ہاتھ ہمارے سامنے کر دیا۔ مَیں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ کی آخری دو چھوٹی انگلیاں اُدھڑی ہوئی ہیں۔ کلائی اور کہنی پر بھی گہرے زخموں کے نشان نظر آتے تھے۔
"ذرا تفصیل سے سناؤ یہ حادثہ کیسے ہوا۔’
"کاربٹ صاحب کو میری جو خوبی پسند آئی، وہ یہ تھی کہ مَیں بلند سے بلند اور مشکل سے مشکل درخت پر چڑھنے میں ماہر ہوں۔’ ابراہیم نے کہا۔ " 1928ء کا ذکر ہے۔ ان دنوں کماؤں کے ایک علاقے میں جہاں دریائے کوسی بہتا ہے، جنگل کی کٹائی کا کام زوروں پر تھا۔ مَیں بھی پھرتا پھراتا وہاں جا نِکلا۔ مزدوری خاصی معقول تھی۔ ایک وقت کا کھانا بھی ٹھیکیدار کی طرف سے مِلتا تھا۔ چنانچہ مَیں بھی مزدوروں میں شامل ہو گیا۔ دریائے کوسی کے دائیں کنارے پر ایک گاؤں آباد ہے۔ اس گاؤں کے مرد دن بھر جنگل میں درخت کاٹتے اور ان کی عورتیں پرلے کنارے پر اور جنگل میں اُگی ہوئی گھاس کاٹتی تھیں۔ اس گھاس سے نہایت عمدہ قِسم کا کاغذ اور گتّہ بنایا جاتا تھا۔ جنگل سے کچھ فاصلے پر ایک سرسبز پہاڑی تھی جس پر گاؤں کی عورتیں سیر کے لیے جایا کرتی تھیں۔ نومبر کا مہینہ تھا، ایک روز ایسا ہوا کہ اس پہاڑی پر شیر بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا کہ دو لڑکیاں ہنستی کھیلتی ادھر جا نکلیں اور بے خبری میں شیر کے نزدیک پہنچ گئیں۔ شیر اس مداخلت پر ناراض ہوا کر غرّایا ہی تھا کہ ان لڑکیوں میں سے ایک بدحواس ہو کر بھاگی۔ اس کا پَیر پھسلا اور وہ اُونچی پہاڑی سے لڑھکتی ہوئی کئی سَو فٹ نیچے ایک گہری کھائی میں جا گری، بھیجا پاش پاش ہو گیا اور وہ گرتے ہی مر گئی۔ دوسری لڑکی بھی بھاگی۔ شیر اس کے پیچھے لپکا اور اسے پنجہ مار کر گرا دیا۔ لڑکی زخمی ہو کر بے ہوش ہوگئی، لیکن شیر نے اس کھانے کی کوشش نہ کی۔ کیونکہ اس وقت تک وہ آدم خور نہ بنا تھا یا اُس کا پیٹ بھرا ہوا تھا۔ دونوں لاشیں رات بھر وہیں پڑی رہیں۔ ایک پہاڑی پر دوسری کھائی میں۔۔۔ اگلے روز گاؤں والے جب ان کی تلاش میں نکلے، تو معلوم ہوا کہ ایک لاش کو تو لگڑبگوں اور گیدڑوں نے نوچ نوچ کر کھا لیا ہے اور دوسری پر شیر نے پنجہ آزمائی کی ہے۔ اس حادثے کے تقریباً دو یا تین روز بعد ہی پھر ایک لڑکی غائب ہوگئی۔ اس کی لاش بھی اسی پہاڑی کے دامن میں ایک جگہ گھاس کے اندر پڑی پائی گئی۔ یہ کارستانی بھی شیر ہی کی تھی۔ آہستہ آہستہ ان وارداتوں میں اضافہ ہونے لگا۔ جنگل میں کام کرنے والے مزدوروں میں دہشت پھیلنے لگی اور وہ کام پر جاتے ہوئے ہچکچانے لگے۔ ایک ماہ کے اندر اندر اس آدم خور نے تقریباً 28 افراد کو ہڑپ کر لیا اور ہر طرف ہاہا کار مچ گئی۔ وہ اتنا نڈر اور عیّار تھا کہ دن دہاڑے بستی میں آ کر ایک نہ ایک عورت یا بچے کو اٹھا کر لے جاتا۔ جھونپڑیوں کی کچی دیواریں، گھاس پھونس کی چھتیں اور لکڑی کے بنے ہوئے باڑے اس کے سامنے کوئی حقیقت نہ رکھتے تھے۔
"اِس دوران میں مقامی شکاریوں اور دو بیرونی شکاریوں نے بھی آدم خور کو ہلاک کرنے کی کوشش کی، مگر یکے بعد دیگرے اس کے ہتھے چڑھ گئے۔ حتیٰ کہ ان وہمی دیہاتیوں میں مشہور ہو گیا کہ شیر کے روپ میں کوئی بلا یا بدرُوح ہے جو ان سے ناراض ہو کر انتقام لے رہی ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے اس بلا سے نجات پانے کے لیے پُوجا اور بھینٹ کا انتظام کیا۔ لیکن جس رات گاؤں کے چھوٹے سے مندر میں یہ رسم ادا کی جانے والی تھی، اُسی رات کو مندر کا پجاری غائب ہو گیا۔ بدنصیب شخص رفع حاجت کے لیے مندر سے کچھ فاصلے پر گیا تھا اور جب واپس آ رہا تھا، تو یکایک آدم خور نمودار ہوا اور چشم زدن میں پجاری کو اٹھا کر لے گیا۔ مندر میں جمع ہونے والوں ںے پجاری کی چیخیں بھی سنیں تھیں، لیکن وہ اسے بچانے کے لیے کچھ نہ کر سکے اور رات بھر دروازہ بند کیے بیٹھے رہے۔ صُبح اس مقام پر جہاں شیر نے پجاری پر حملہ کیا تھا، پیتل کی لُٹیا پڑی پائی گئی۔ کہیں کہیں خون کے دھبّے اور نچے ہُوئے کپڑے بھی دکھائی دیے۔
"اِس حادثے کے تین دن بعد کا ذکر ہے، مَیں چار آدمیوں کے ساتھ پانی کے لیے دریا پر جا رہا تھا۔ ہم سب کلہاڑیوں سے مسلح تھے اور بیل گاڑی پر سفر کر رہے تھے۔۔۔ اس پر ہم نے بڑے بڑے گھڑے اور دوسرے برتن بھی لاد رکّھے تھے۔ گاؤں سے دریا کا فاصلہ بمشکل ڈیڑھ پونے دو میل ہوگا۔ چُوں کہ گاؤں کا کوئی شخص تنِ تنہا دریا پر نہ جاتا تھا، اس لیے مویشیوں اور انسانوں کے لیے پانی دریا سے لایا جاتا تھا۔ اس مقصد کے لیے گاؤں کے آدمی باری باری دوپہر کے وقت دریا پر جاتے اور پانی بھر لاتے۔ ابھی ہم دریا تک پہنچے ہی تھے کہ ایک جانب سے شیر کے غرّانے کی آواز سنائی دی۔ مَیں نے فوراً بیلوں کو روکا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شیر کچھ فاصلے پر جھاڑیوں میں آرام کر رہا ہے۔
"بھیّا گاڑی دوڑا کر بھاگ۔’ ایک شخص نے گھبرا کر کہا۔ "اب ہم دریا پر نہ جائیں گے۔’
"اپنی کلہاڑیاں سنھبال لو، اگر شیر نے حملہ کیا تو ہم مل کر اسے ختم کر ڈالیں گے۔’ مَیں نے ساتھیوں کی ہمّت بندھائی اور گاڑی چلا دی، لیکن فوراً ہی شیر پھر غُرّایا اور اس مرتبہ چاروں آدمی گاڑی سے کودے اور لپک کر درختوں پر چڑھ گئے۔ اب تو میں بھی گھبرایا اور درخت پر چڑھنے کے لیے دوڑا، لیکن ایسا معلوم ہوا کہ شیر میرے تعاقب میں ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک لمبا تڑنگا انگریز ہاتھ میں رائفل لیے لمبی گھاس میں کھڑا تھا۔ مَیں حَیران تھا کہ شخص کہاں سے آ گیا اور کیا شیر کی آواز اس کے کانوں تک نہیں پہنچی، اتنا تو میں جان گیا تھا کہ وہ شکاری ہے۔
"صاحب، جلدی سے درخت پر چڑھ جائیے، شیر نزدیک ہی ہے۔’ میں نے پُکار کر کہا اور ہاتھ سے درخت پر چڑھنے کا اشارہ کیا، مگر وہ میری اس حرکت پر بے پروائی سے ہنسا اور قریب آ کر نہایت صاف اُردو لہجے میں بولا:
"ارے، تم اتنا ہٹّا کٹا جوان ہو کر شیر سے ڈرتا ہے؟’
"صاحب وہ آدم خور ہے اور اس نے بہت سے آدمیوں کو ہڑپ کر لیا ہے۔’ مَیں نے جواب دیا۔ اتنے میں انگریزی شکاری نے منہ پھیر کر حلق سے شیر کی آواز نکالی اور قہقہہ مار کر ہنسنے لگا۔ مَیں بہت شرمندہ ہوا اور درخت سے نیچے اُتر آیا۔
"تم لوگ درخت پر بہت تیزی سے چڑہتے ہو۔’ وہ کہنے لگا۔ "اپنے ساتھیوں کو نیچے اُتر آنے کے لیے کہو اور بتاؤ کے وہ آدمخور رہتا کدھر ہے۔ میں اسی کی تلاش میں ہوں۔’
"اور اس طرح جم کاربٹ صاحب سے میری ملاقات ہُوئی جناب، وہ عجیب و غریب آدمی تھے اور شیر کی بولی بولنے میں تو کمال رکھتے تھے۔ انہوں نے بعد میں بتایا کہ شیرنی کی بولی بول کر شیر کو بلانا چاہتے تھے۔ انہیں جنگل کے بہت سے جانوروں کی بولیوں پر عبور حاصل تھا۔’
"تم ٹھیک کہتے ہو، کاربٹ عظیم شکاری ہے اور ایسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے۔’ میں نے کہا۔
"ہاں صاحب، اُن کے دل میں انسانوں کی محبّت اور ہمدردی کا جذبہ قدرت نے کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا۔’ ابراہیم کہنے لگا۔ "کاربٹ صاحب نے بتایا کہ وہ ڈاک بنگلے میں ٹھہرے ہوئے ہیں اور اسی آدم خور سے لوگوں کو نجات دلانے کے لیے آئے ہیں۔ یہ سن کر ہم سب کو خوشی ہوئی۔ وہ ہمیں لے کر دریا پر پہنچے۔ پانی برتنوں میں بھرا اور گاؤں تک ہمارے ساتھ آئے۔ اُن کا نام بچّے بچّے کی زبان پر تھا اور بہت سے لوگ تو انہیں دیوتا سمجھتے تھے۔ کاربٹ صاحب کو دیکھ کر گاؤں والوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ ان کو اپنے درمیان پا کر آدم خور کا خوف اور دہشت دُور ہو چکی تھی۔ دوسروں کی دلی کیفیت کا صحیح اندازہ لگانا، تو میرے بس میں نہ تھا، لیکن خود میرا حال یہ تھا کہ دل ایک عجیب مسرّت انگیز اطمینان محسوس کر رہا تھا۔’
ابراہیم نے سگریٹ کا طویل کش لگایا اور چند لمحوں بعد کہنے لگا:
"آپ چونکہ خود بڑے شکاری ہیں، اس لیے تفصیلات میں جائے بغیر وہ واقعہ عرض کرتا ہوں جس نے مجھے اور جم کاربٹ صاحب کو یکجا کر دیا تھا۔ کاربٹ صاحب روزانہ اپنے بنگلے سے نکلتے اور گاؤں تک آتے۔ ڈاک بنگلے اور گاؤں کا درمیانی فاصلہ آٹھ نو میل سے کم نہ تھا اور راستہ نہایت دشوار گزار اور کٹھن۔ پھر آدم خور کے علاوہ جابجا ریچھوں، چیتوں سے مڈبھیڑ کا خدشہ، لیکن کاربٹ صاحب اس اطمینان اور بے پروائی سے ٹہلتے ہوئے آتے کہ ان کے بے پناہ استقلال اور جرأت پر دل عش عش کر اُٹھتا تھا۔ انہوں نے آدم خور کی تلاش میں علاقے کا چپّہ چپّہ چھان مارا، لیکن اس کا کہیں پتہ نہ تھا۔"
"ایک روز وہ شام کے وقت گاؤں میں نمودار ہوئے۔ ان کا کوٹ پشت پر سے ادھڑا ہوا تھا اور چہرے پر بھی کہیں کہیں خراشیں نظر آرہی تھیں۔ مَیں نے پوچھا تو ہنس کر کہنے لگے: "راستے میں ایک ریچھ مل گیا تھا۔ اس سے زور آزمائی ہوئی۔ مَیں نے کئی مرتبہ ریچھ کے کان میں کہا کہ بھائی میرا تم سے کوئی جھگڑا نہیں، جاؤ اپنی راہ پکڑو۔ مگر وہ کسی طرح ٹلتا ہی نہ تھا۔ مجبوراً مجھے اپنا شکاری چاقو کام میں لانا پڑا۔ اس کی لاش دریا کے پرلے کنارے چھوٹے ٹیلے کے پیچھے پڑی ہے، میرے ساتھ چلو اور اسے اٹھا لاؤ۔ کھال خاصی قیمتی ہے، وہ تم لے لینا۔’ یہ سن کر میرے ہوش اڑ گئے، مگر کاربٹ صاحب کے ساتھ جانے کا شوق کچھ ایسا ذہن پر سوار تھا کہ سوچنے سمجھنے کی مہلت نہ ملی اور مَیں تھوڑی دیر بعد اُن کی رہنمائی میں دریا کی طرف جا رہا تھا۔ وہ میری طرف دیکھ کر آہستہ سےکہنے لگے: "تم نہتے ہو، یہ لو میرا پستول اپنے پاس رکھو۔ اس میں چھ گولیاں ہیں۔۔۔ اب آواز نکالے بغیر میرے آگے آگے چل پڑو، مجھے خطرے کی بُو محسوس ہو رہی ہے۔’
"مغرب کی جانب شام کی سُرخی آہستہ آہستہ گہری ہو رہی تھی اور جنگلی پرندے قطار اندر قطار اپنے گھونسلوں کی طرف آ رہے تھے۔ فضا میں طوطوں کی ٹَیں ٹَیں سے ایک شور برپا تھا اور جنگل کے اندر درختوں پر بسیرا کرنے والی چڑیوں کی چُوں چوں سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ کاربٹ صاحب یک لخت مجھ سے کئی قدم آگے بڑھ کر زمین پر لیٹ گئے۔ میں نے ان کی تقلید کی، لیکن دِل کی دھڑکن میں اضافہ ہو گیا تھا اور جسم کے رونگٹے کھڑے ہونے لگے تھے۔ انہوں نے گردن موڑ کر میری طرف دیکھا، مَیں گھاس میں خرگوش کی مانند دبکا ہوا تھا۔
"خبردار اپنی جگہ سے جنبش نہ کرنا۔’ انہوں نے دھیمے دھیمے لہجے میں کہا۔ پھر رائفل سنبھال کر گھٹنوں کے بل آگے چلنے لگے۔’ ابراہیم نے ماتھے پر آیا ہوا پسینہ پونچھا اور اور نیا سگریٹ سلگایا۔ اگرچہ میں خود سینکڑوں مرتبہ ایسے ہی حادثات اور واقعات سے گزر چکا تھا، لیکن ابراہیم نے جس انداز میں یہ داستان سنائی وہ میرے لیے خاصی سنسنی خیز تھی۔
"صاحب، وہ نازک لمحہ مجھے مرتے دم تک یاد رہے گا۔’ اس نے نتھنوں سے دُھواں خارج کرتے ہوئے کہا۔ "کاربٹ صاحب کی پُشت میری طرف تھی۔ میرا اور ان کا درمیانی فاصلہ بمشکل دس بارہ فٹ ہوگا۔ وہ اوندھے منہ گھاس میں لیٹے تھے اور ان کی نگاہ دائیں جانب کچھ ترچھی ہو کر ان گھنی جھاڑیوں پر جمی ہوئی تھی جن کی اونچائی میرے اندازے کے مطابق 9 فٹ سے زائد تھی۔ میرا خیال تھا کہ کوئی درندہ یا وہی آدم خور ان جھاڑیوں میں چُھپا ہوا ہے۔ کاربٹ صاحب نے اسے دیکھ لیا ہے اور اب اس پر فائر کرنے والے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہوا، بلکہ بائیں ہاتھ پر اُگی ہوئی قدِ آدم گھاس میں سے ایک قوی ہیکل شیر بجلی کی مانند تڑپا اور کاربٹ صاحب کی طرف چھلانگ لگائی۔ میرے حلق سے غیر ارادی طور پر چیخ نِکل گئی اور آفرین کاربٹ صاحب پر کہ اس حقیر ترین وقفے سے انہوں نے پورا فائدہ اٹھایا۔ فوراً ہی قلابازی کھائی اور شیر کا وار خالی دیا۔ مگر اس حرکت سے رائفل ان کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ اب شیر کی توجہ دونوں طرف بٹ گئی تھی۔ اس کی دُؐم تیزی سے گردش کر رہی تھی اور جبڑا خوفناک انداز میں کُھلا ہوا تھا۔
"گولی چلاؤ۔’ کاربٹ صاحب نے چلّا کر مجھ سے کہا اور مَیں نے پستول اونچا ہی کیا تھا کہ شیر نے مجھ پر چھلانگ لگائی۔ اس کا دایاں پنجہ میری انگلیاں اڑاتا ہوا نِکل گیا، پھر مجھے کچھ یاد نہ رہا کہ کیا ہوا۔ ہوش آیا، تو مَیں نے اپنے آپ کو بستی کے اندر پایا۔ کاربٹ صاحب میرے سرہانے کھڑے تھے۔ "کیا شیر مر گیا؟’ مَیں نے اُن سے پوچھا۔
"شیر تو بچ کر نِکل گیا، لیکن تم نے میری جان بچا لی دوست۔ مجھے افسوس ہے کہ اس ظالم نے تمہارا ہاتھ زخمی کر دیا ہے۔’ اس دن کے بعد سے دو ماہ تک مَیں کاربٹ صاحب کے ساتھ اس آدم خور کا تعاقب کرتا رہا اور آخر ایک دن اُسے جہنم واصل کر ہی دیا۔ یہ ہے میری داستان۔’
ڈونلڈ نے گھڑی پر نظر ڈالی، رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ اُس نے کرنل سائمن کے کمرے میں جھانکا، تو بستر خالی پڑا تھا۔
"کرنل کہاں گیا؟’ ڈونلڈ چلّایا۔ "اس کی بندوق بھی غائب ہے۔ اُف خدایا، وہ جنگل میں تو نہیں چلا گیا۔’ ہم تینوں ایک دوسرے کا مُنہ تکنے لگے۔
کرنل سائمن کے یوں یک لخت غائب ہو جانے سے سچ پوچھیے تو میرے ہوش و حواس مختل ہوگئے۔ آدھی رات کے وقت جنگل میں اسے تلاش کرنا بے سود، بلکہ حماقت تھی۔ تاہم میں نے ڈونلڈ کو وہیں رہنے کی تاکید کی اور ابراہیم کو لے کر جھیل مدّک کی طرف روانہ ہوا۔ رات انتہائی تاریک اور بھیانک، ہوا بند اور فضا پر عجیب سی گھٹن طاری تھی۔ ہم ٹارچ کی تیز سفید روشنی میں اِدھر اُدھر دیکھتے بھالتے اور کرنل سائمن کو پکارتے چلے جا رہے تھے۔ جواب میں بندروں اور گیدڑوں کی چیخیں سنائی دیتیں یا جھینگروں اور مینڈکوں کے ٹرّانے کی آوازیں جو جنگل کی خاموش فضا میں ارتعاش پیدا کر رہی تھیں۔
کرنل کی زندگی سے تو میں مایوس ہو چکا تھا، لیکن محض اس خیال سے کہ ضمیر مجھے ہمیشہ ملامت کرے گا، اسے تلاش کرنے نکل کھڑا ہوا۔ یہ ضروری نہ تھا کہ وہ آدم خور کے ہتّھے چڑھا ہو، جنگل میں اور بھی درندے موجود تھے جو کرنل کو اپنا لقمہ بنا سکتے تھے۔ ڈیڑھ دو گھنٹے گھومنے کے بعد بھی سراغ نہ ملا تو مجھے یقین ہو گیا کہ اس کا تیاپانچا ہو چکا۔
"چلیے صاحب، صبح پھر کوشش کریں گے۔’ ابراہیم نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا۔
واپسی پر ہم نہر کے کنارے کنارے چل رہے تھے۔ دفعتہً لمبی گھاس سرسرائی اور چشم زدن میں ایک چیتا ہمارے سامنے یوں آیا جیسے بجلی کوند گئی۔ ابراہیم کے حلق سے بے اختیار چیخ نکل گئی اور میں بدحواس ہو کر پیچھے ہٹ گیا۔ ہم نے اس کی ہلکی سی جھلک ہی دیکھی، کیونکہ اگلے ہی لمحے وہ نظروں سے غائب ہو چکا تھا۔ اس میں شک نہیں قدرت نے ابراہیم کو بال بال بچایا، وہ بے خبری میں چیتے کے اس قدر قریب پہنچ گیا تھا کہ چیتا اگر چاہتا، تو آناً فاناً اس کی تِکّا بوٹی کر ڈالتا۔ اس کے بھاگ جانے کی یہی وجہ سمجھ میں آئی کہ اس میں بیک وقت دو آدمیوں کا سامنا کرنے کی جرأت نہ تھی۔ ممکن ہے ابراہیم یا مَیں اکیلا ہوتا، تو چیتے کو وار کرنے کا موقع مل جاتا۔ مَیں نے اس درندے کی فطرت اور عادتوں کا برسوں گہرا مطالعہ کیا ہے اور اپنے اکثر مضامین میں اس کا ذکر بھی کیا ہے۔ لیکن بار بار یہی الفاظ دہرانے پڑتے ہیں کہ جنگلی جانوروں اور درندوں میں چیتے جیسا مکّار، دغا باز، پھرتیلا اور موذی جانور اور کوئی نہیں۔ اس کی احتیاط اور ہوشیاری کا یہ عالم ہے کہ گویا پُھونک پُھونک کر قدم رکھتا ہے۔ جب تک اسے اپنے بھرپور حملے کا یقین نہ ہو، کبھی آگے نہیں بڑھتا۔ کئی کئی گھنٹے بُھوکا رہنا برداشت کر لیتا ہے، لیکن خطرے کی صُورت میں اپنی کمین گاہ سے باہر نکلنے کی جرأت نہ کرے گا۔
شیر کی طرح سامنے آ کر بے خوفی یا جی داری سے اپنے حریف کا مقابلہ کرنا چیتے کی فطرت کے منافی ہے۔ وہ ہمیشہ عقب سے حریف کی بے خبری سے فائدہ اٹھا کر اچانک آن پڑتا ہے۔ زخمی ہو جانے کے بعد اس کے غیظ و غضب اور فطری کمینہ پن کی انتہا ہو جاتی ہے اور یہی صُورت اس وقت پیش آتی ہے جب چیتا آدم خور ہو جائے۔ شکاری کے لیے اس کا مقابلہ کرنا خاصا مشکل مرحلہ ہے، کیونکہ یہ آسانی سے درختوں پر بھی چڑھ جاتا ہے۔ مچان باندھنے کے منصوبے اکثر اسی وجہ سے ناکام ہو جاتے ہیں۔ شیر کی نسبت اس میں اچھلنے اور دوڑنے کی قوت بھی بہت زیادہ ہے۔ بجلی کی طرح لپکتا ہے اور شکاری کی ذرا سی غفلت پر وار کر جاتا ہے۔
چیتے کا سرِراہ نہر کے کنارے گھاس میں چُھپ کر بیٹھنا خالی از علت نہ تھا۔ مَیں سمجھ گیا کہ وہ ضرور کسی داؤں پر ہے، لیکن وقت ایسا نازک تھا کہ اس طرف جانے کی ہمّت نہ پڑی، اگرچہ ابراہیم نے چیتے کا تعاقب کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا تھا۔ مگر میں نے اُسے روک دیا کہ فی الحال چیتے سے جنگ کرنا ہمارے پروگرام میں شامل نہیں۔ ہمیں تو کرنل سائمن کا سراغ لگانا ہے۔
جب ہم باغ میں واپس پہنچے تو صبح کے آثار نمودار ہو رہے تھے اور درختوں پر چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ ڈونلڈ اندرونی برآمدے میں کرسی پر بیٹھا بے خبر سو رہا تھا اور بندوق کے قدموں میں پڑی تھی۔ مَیں دن چڑھے بیدار ہوا، تو پتا چلا کہ ابراہیم اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر بیرُور سے تین خچّر خرید لایا ہے۔ اس کی مستعدی پر دل خوش ہوا اور ہم تینوں اچھی طرح تیار ہو کر کرنل کی تلاش میں نکلے۔ اس مرتبہ ہم نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ یہ راستہ چکّر کھاتا ہوا جھیل مدّک کی طرف جاتا تھا۔ ایک گھنٹے کے بعد ہم جنگل کے ایسے حصے میں پہنچ گئے جہاں درخت نہایت گنجان اور ایک دوسرے سے گتھے ہوئے تھے اور راستا اتنا تنگ کہ ایک خچر بمشکل چل سکتا تھا۔ مجبوراً ہم ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ ڈونلڈ سب سے آگے تھا اور اسی نے سب سے پہلے خون کے وہ دھبّے دیکھے جو پتّوں کے کئی انچ موٹے نرم فرش پر پھیلے ہوئے تھے۔ ہم نے چند منٹ تک ان دھبوں کا معائنہ کیا اور بہت جلد پتا چل گیا کہ شیر اپنے شکار کو لے کر ادھر سے گزرا ہے۔ خون اگرچہ جم کر سیاہ ہو گیا تھا، لیکن انگلی سے چُھو کر دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ یہ زیادہ پرانا نہیں، آگے چلے تو کرنل سائمن کی بندوق دکھائی دی۔ اس کے قریب ہی اس کا پرانا ہیٹ پڑا تھا۔
"کرنل کا قصّہ تو ختم ہوا ڈیڈی۔’ ڈونلڈ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا اور سسکیاں لینے لگا۔ "اُف خدایا، مجھے اس پر کتنا ترس آ رہا ہے، بے چارہ ہماری غفلت کے باعث مارا گیا۔’
ہر چند میری آنکھوں میں اس المناک حادثے پر آنسو اُمڈ آئے تھے اور کرنل سائمن کا چہرہ بار بار نظروں کے سامنے گھوم رہا تھا، مگر مَیں نے ڈونلڈ کو دلاسا دیا اور کہا کہ جنگل میں رہنے والوں کو اس قسم کے حادثوں سے بہرحال دوچار ہونا ہی پڑتا ہے۔ اَب ہمارا کام یہ ہے کہ اس آدم خور سے خلق خدا کو نجات دلانے کی کوشش کریں۔ کرنل سائمن کی روح کو اسی طرح تسکین پہنچ سکتی ہے۔
شیر کے نقشِ پا اور خون کے دھبّوں میں دیکھتے بھالتے آخرکار ہم اسی نہر کے کنارے جا نکلے جہاں گزشتہ رات گھوم رہے تھے۔ اب معلوم ہوا کہ شیر نے ایک مقام سے نہر کو عبور کیا ہے۔ نرم دلدلی زمین اور کیچڑ میں اس کے پنجوں کے نشان خاصے نمایاں اور صاف تھے۔ اس کے علاوہ نہر کے کنارے اگی ہوئی لمبی گھاس اور پودے بھی جابجا روندے اور کچلے ہُوئے نظر آئے۔ ہم نے اپنے خچروں کو ایک درخت سے باندھا اور پیل آگے بڑھے، کیونکر اس راستے پر خچّروں کا چلنا بھی محال تھا۔ قدم قدم پر خاردار جھاڑیاں راہ روکے کھڑی تھیں۔ نہر کے پرلے کنارے پر پہنچ کر آدم خور چند لمحوں کے لیے سستایا اور اس دوران میں اس نے لاش کو منہ سے نکال کر زمین پر بھی ڈالا تھا، کیونکہ جمے ہوئے خون کے چھوٹے بڑے دھبّے اور کپڑوں کی دھجّیاں خشک کیچڑ میں پھنسی ہوئی تھیں۔ کچھ ایسے نشانات ملے جن سے اندازہ ہوا کہ آدم خور نے لاش کو دوبارہ مُنہ میں داب کر لے جانے کے بجائے اسے زمین پر گھسیٹا اور بانسوں کے گھنے جنگل کی طرف لے گیا۔
"اب ہمیں پوری احتیاط سے کام لینا چاہیے۔’ میں نے ابراہیم اور ڈونلڈ کو ہدایت کی۔
بانس کا جنگل شیر اور خصوصاً آدم خور کی بہترین پناہ گاہ ہے اور میں اپنے تجربے کی بنا پر اچھی طرح جاتا ہوں کہ وہ دن کے وقت اس قسم کی فضا میں آرام کرنا پسند کرتا ہے۔ اگر ہم نے اپنی حماقت سے اسے خبردار کر دیا تو اس کا دوبارہ ہاتھ لگنا محال ہو جائے گا۔ چونکہ آدم خور میں سونگھنے اور سننے کی حِس عام شیروں کی نسبت زیادہ قوی ہوتی ہے اور ہوا کا رُخ بھی جنگل کی طرف ہے، اس لیے ہمیں ادھر سے داخل ہونے کی بجائے چکّر کاٹ کر مخالف سمت سے جانا چاہیے تاکہ وہ ہماری بُو نہ پا سکے۔
جن شکاریوں کو کبھی بانس کے گھنے جنگل میں شکار کھیلنے کا موقع مِلا ہے، وہ ہماری مشکلات کا صحیح اندازہ کر پائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ بانس کا جنگل شکاری کا جانی دشمن ہے، وہ شکاری کو چلنے پھرنے کے لیے زیادہ جگہ نہیں دیتا۔ درندوں کی کھال کا رنگ بانس کے پتّے اس قدر ملتا جلتا ہے کہ چند گز کے فاصلے پر بیٹھا ہوا شیر آسانی سے نظر نہیں آتا۔ ایک اور سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ جنگل میں قالین کی طرح نرم پتّوں کا کئی انچ موٹا فرش ہر وقت بچھا رہتا ہے جس پر شیر، چیتے اور دوسرے جانور تو کُجا، ہاتھی کے نقوشِ پا کا بھی سراغ نہیں لگایا جا سکتا۔ چھوٹے چھوٹے جانور یہاں کثرت سے ملتے ہیں جو اجنبی کی آمد پر فوراً غُل مچا کر شیر کو خبردار کر دیتے ہیں۔
ہم ایک مختصر سا چکّر کاٹ کر شمال کی جانب سے جنگل میں داخل ہوئے اور بہت جلد پتا چل گیا کہ باہر سے یہ جنگل جتنا گھنا اور وسیع نظر آتا ہے، حقیقت میں اس کے برعکس ہے۔ اگرچہ زمین پر پتّوں کا موٹا فرش بچھا ہوا تھا جس پر کسی قسم کے نشانات موجود نہ تھے۔ تاہم مجھے فوراً احساس ہو گیا کہ آدم خور اپنے شکار کو لے کر کس طرف گیا تھا۔ ایک ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر اس جنگل کے شمالاً جنوباً ایک کھائی سی پھیلی ہوئی تھی جس کے آگے گھنی خاردار جھاڑیوں کثرت سے تھیں اور ان جھاڑیوں کو عبور کرنا ہمارے بس کی بات نہ تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شیر بُھوک کے مارے بے تاب ہو چکا تھا اور اب مزید صبر نہ کر سکتا تھا۔ چنانچہ اس نے لاش کو اطمینان سے چیرا پھاڑا اور اپنا پیٹ بھر لیا۔
سب سے پہلے ہمیں کرنل سائمن کی کھوپڑی نظر آئی جو لاش کے بچے کھچے اجزاء، ہڈیوں اور انتڑیوں سے کچھ فاصلے پر پڑی تھی۔ شیر نے اسے نوچ کر جسم سے الگ کیا اور پرے پھنک دیا۔ بدنصیب بڈھے کے چہرے پر دہشت کے آثار اس وقت بھی نمایاں تھے۔ آنکھیں باہر نکلی ہوئی اور مُنہ بھیانک انداز میں کُھلا ہوا تھا جیسے مرنے سے پہلے وہ زور سے چیخا ہو۔ اس کی دونوں ٹانگیں اور ہاتھ بھی ایک طرف پڑے ہوئے تھے۔ آدم خور ان کو کبھی نہیں کھاتا اور ہمیشہ دوسرے جانوروں کی ضیافت کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔
ڈونلڈ اور ابراہیم پلک جھپکائے بغیر ان اجزاء کو دیکھ رہے تھے اور پھر اُن کی آنکھوں سے آنسووں کے قطرے ڈھلکنے لگے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آدم خور قریب ہی موجود ہے۔’ میں نے چُپکے سے کہا، کیونکہ جھاڑیاں بالکل ساکت تھیں اور کھائی کا یہ حصّہ بھی جنگلی جانوروں سے بالکل خالی نظر آتا تھا۔ اس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہ تھی کہ آدم خور کی ہیبت سے یہ جانور بھاگ کر جنگل کے کسی اور حصّے میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔
مَیں نے ابراہیم اور ڈونلڈ کو اشارہ کیا کہ آہٹ بالکل نہ ہونے پائے، چپ چاپ میرے پیچھے چلے آؤ۔ اب میں ذرا ایک نظر اُس کھائی کو دیکھنا چاہتا تھا۔ مجھے پورا یقین تھا کہ ہمارا حریف اسی کے اندر چھپا ہوا ہے، لیکن اس مقصد کے لیے خاردار جھاڑیوں میں سے گزرنا ضروری تھا۔ چنانچہ کپڑے پھٹنے اور زخمی ہونے کی پروا کیے بغیر جھاڑیوں میں سے راستہ بنایا اور آگے بڑھے۔ کھائی تقریباً پندرہ فٹ چوڑی اور دس بارہ فٹ گہری تھی اور اس کے اندر سے انسانی گوشت اور ہڈیوں کی سڑاند اٹھ رہی تھی۔ میں نے ناک پر رومال باندھا اور آہستہ آہستہ اس کے اندر اترنے لگا۔ جابجا جھاڑیوں کے اندر جنگلی جانوروں کے انڈے گھونسلے میں پڑے نظر آئے، مگر کوئی پرندہ ان انڈوں کے قریب دکھائی نہ دیا۔ تھوڑی دیر بعد کے مجھے احساس ہوا کہ کھائی کی گہرائی اور وسعت کے بارے میں میرا اندازہ غلط ثابت ہو رہا ہے۔ جُوں جُوں میں نیچے اُتر رہا تھا۔ ڈھلان عمودی ہوتی جاتی تھی۔ آخر ایک چٹان پر رُک کر مَیں نے دائیں بائیں دیکھا کوئی خاص بات نظر نہ آئی۔ پھر مَیں نے اپنے ساتھیوں کو بھی اترنے کا اشارہ کر کے آگے بڑھا۔ کھائی خشک پڑی تھی، لیکن زمین خاصی نرم اور پھسلوان تھی۔ برسات کے موسم میں یہ یقیناً پانی سے لبریز ہو جاتی ہوگی۔ اس کی دونوں جانب اٹھی ہوئی چٹانیں ہموار اور حد درجہ پھسلواں تھیں۔ چند لمحے بعد ابراہیم اور ڈونلڈ پھسل کر میرے پاس پہنچ گئے۔ یکایک ابراہیم نے چپکے سے کہا۔
"جناب، آپ نے شیر کے ہانپنے کی آواز سنی؟’
مَیں نے نفی میں گردن ہلائی، ابراہیم نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور کھائی کے دوران دائیں جانب ہاتھ اٹھایا: "آواز اس طرف سے آ رہی ہے۔ ذرا غور سے سنیے، آپ یقیناً سُن لیں گے۔’
مَیں نے سانس روک کر اس نامعلوم آواز پر کان لگا دیے۔ ابتدا میں کچھ سنائی نہ دیا، پھر ایسی مدھم آواز کانوں میں آئی جیسے درختوں کے درمیان سے گزرنے والی ہوا کی ہوتی ہے۔
"یہ شیر کی نہیں ہوا چلنے کی آواز ہے۔’
"نہیں جناب، یہ ضرور شیر ہے۔ آپ ایک بار پھر غور سنیے۔’ ابراہیم نے زور دے کر کہا اور اس مرتبہ ڈونلڈ نے بھی اس کی تائید کی۔
"ہاں ڈیڈی، یہ شیر ہی ہے۔ تعجب ہے آپ کی سماعت اَب اتنی کمزور ہو گئی ہے۔’
"تم ٹھیک کہتے ہو۔ مَیں یہ آواز نہیں سُن رہا ہُوں۔ بہرحال یہ عمر کا تقاضا ہے۔ اگر یہ شیر ہے تو اب مزید احتیاط سے کام کرنا ہوگا۔ کہیں وہ ہماری موجودگی سے باخبر تو نہیں ہو گیا۔ آواز برابر سنتے رہو۔’
ڈونلڈ اور ابراہیم کے بیان کے مطابق شیر دس منٹ تک ہانپتا رہا، پھر خاموش ہو گیا۔ کوشش کے باوجود صحیح صحیح اندازہ نہ کیا جا سکا کہ وہ کدھر ہے؟ اس نازک موقع پر سنبھل سنبھل کر اور بڑی ہوشیاری سے قدم اٹھانے کی ضرورت تھی۔ چنانچہ مَیں نے ابراہیم اور ڈونلڈ کو اپنے پچھلے رُخ الگ الگ اس انداز میں کھڑے ہونے کی ہدایت کی کہ شیر اگر عقب سے اچانک نمودار ہو جائے تو فوراً مجھے آگاہ کر سکیں۔ اس طرف وہی ڈھلان تھی جس پر پھسل کر ہم کھائی میں اترے تھے۔ دائیں طرف بیس پچیس فٹ بلند ایک چٹان اور بائیں طرف ساٹھ ستّر فٹ اونچا اور انتہائی دشوار گزار چٹانوں کا کنارہ تھا۔ اگر ہم فوری طور پر بھاگنا چاہتے، تو صرف سامنے کے رخ ہی بھاگ سکتے تھے۔ اسی جانب کچھ فاصلے پر ایک بڑا درخت گرا ہوا نطر آیا جس نے برسات کے موسم میں پانی کے ساتھ بہہ کر آنے والی ریت روک روک کر ایک قدرتی بند باندھ دیا تھا۔ ہماری دائیں جانب واقع چٹانی دیوار پر اس درخت کے قریب پہنچ کر ریت کے اونچے بند میں شامل ہو جاتی تھی اور اس سے پرے کیا ہے؟ یہ نظر نہ آتا تھا۔
معاً مَیں نے شیر کے غرّانے کی آواز سُنی اور یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے شیر کی جائے پناہ کا صحیح اندازہ ہوا۔ وہ موذی اس ریتلے بند کے پیچھے چھپا ہوا تھا اور اس کے غرانے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اس نے ہمیں دیکھ لیا ہے۔ مَیں نے اپنی رائفل چیک کی، ابراہیم اور ڈونلڈ کو چٹان کے ساتھ چپک جانے کی ہدایت کی اور دبے پاؤں درخت کی طرف بڑھنے لگا۔ نزدیک پہنچ کر میں نے غور سے دیکھا بھالا ایک جانب جنگلی جانوروں نے اپنے آنے جانے کے لیے چھوٹا سا راستہ بنا لیا تھا اور شیر بھی غالباً یہی راستہ استعمال کرتا تھا۔ مَیں نے وہاں خشک لید بھی بڑی مقدار میں پڑی دیکھی۔ ریت کے بند کا ایک نظر معائنہ کیا اور معلوم کرلیا کہ اس پر چڑھنا کچھ مشکل نہیں۔ درخت کا تِرچھا تنا اور اس پر لگی ہوئی موٹی موٹی شاخیں مجھے سہارا دینے کے لیے آمادہ تھیں۔ میں نے رائفل گلے میں لٹکائی اور خدا کا نام لے کر بند پر چڑھنے لگا۔ ایک نظر موڑ کر ڈونلڈ اور ابراہیم کی طرف بھی دیکھ لیا، وہ دونوں رائفلیں ہاتھوں میں تھامے پتّھر کے بتوں کی مانند بے حِس و حرکت اپنی اپنی جگہ کھڑے تھے۔
میرا مقابلہ جس آدم خور سے تھا، اس کی عیاری اور چالاکی کو کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی۔ ایک ایک لمحہ انتہائی جان لیوا اور خطرناک تھا۔ ممکن تھا کہ بند پر چڑھنے کے دوران میں آدم خور یک لخت نمودار ہو جاتا، تب میں بالکل بے بس تھا، پھر وہ کیا کرتا؟ یہ سوچتے ہی میرا چہرہ پسینے سے تر ہو گیا۔ یہ موقع ایسا نازک تھا کہ ذرا سی غفلت مجھے آدم خور کے پیٹ میں پہنچا دیتی۔ ایک لحظے کے لیے مجھے خیال آیا کہ ایسا خطرہ مول لینا دانش مندی سے بعید ہے۔ مجھے یہاں سے چلے جانا چاہئے۔ آدم خور کے ٹھکانے کا پتا لگ چکا ہے، کسی بھی روز مناسب موقع ملتے ہی اسے ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے۔ مَیں نے سوچ کر پیچھے ہٹنے کے لیے قدم اٹھایا ہی تھا کہ شیر پھر غرّایا اور اس مرتبہ مجھے اس کی آواز میں اپنے لیے ایک چیلنج سا محسوس ہوا۔
ہرچہ بادا باد کہہ کر مَیں ریت کے قدرتی بند پر چڑھا اور ایک ایک انچ اپنا سر اوپر اٹھاتے ہوئے گرد و پیش کا جائزہ لیا۔ شیر کو دیکھ کر طبیعت خوش ہو گئی۔ ایسا خُوب صورت، قوی ہیکل اور بارُعب دردندہ مَیں نے برسوں بعد دیکھا تھا، اگر یہ آدم خور نہ ہوتا، تو میں اسے ہر قیمت پر زندہ پکڑنے کی کوشش کرتا۔ مجھ سے اس کا فاصلہ بیس تیس فٹ سے زیادہ نہ تھا۔ اور وہ جھاڑیوں کے قریب نہایت اطمینان اور سکون سے آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا جیسے گہری سوچ میں ہے۔ شیر بائیں طرف کوئی دس گز دُور تین چار چرخ جھاڑیوں میں دُبکے نظر آئے۔ جب بھی وہ آگے بڑھتے شیر آنکھیں کھول کر غُراتا اور چرخ ڈر کے مارے دوبارہ جھاڑیوں میں جا چھپتے۔ میں یہ تماشا دیکھنے میں اتنا محو ہوا کہ شیر پر فائر کرنے کا خیال ہی دل سے نکل گیا۔ یکایک شیر نے اُٹھ کر شاہانہ انداز میں میں انگڑائی لی، پورا جبڑا کھول کر ایک زبردست ڈکار لی اِدھر اُدھر دیکھا۔ اِدھر مجھے محسوس ہوا کہ وہ ہاتھ سے نِکلا، فوراً ہی رائفل کی طرف ہاتھ بڑھا، لیکن رائفل میری دائیں جانب سینے کے ساتھ ترچھی لٹکی ہوئی تھی اور شیر کی کھوپڑی کا نشانہ لینے کے لیے مجھے رائفل کی نال کو ایک چکّر تقریباً تین چوتھائی حصّہ گھمانا چاہیے تھا جو موجودہ پوزیشن میں قطعاً ناممکن سی بات تھی۔ مَیں ایک ہاتھ سے ٹیلے کا سہارا لیے ہوئے تھا اور دوسرے ہاتھ سے درخت کی ایک شاخ تھام رکھی تھی۔ اس اثناء میں شیر کی چھٹی حِس نے اسے اپنے سر پر منڈلانے والے خطرے سے آگاہ کر دینا شروع کر دیا۔ مَیں نے دیکھا وہ بے چین اور مضطرب ہے۔ بار بار اٹھتا اور بیٹھتا ہے اور کبھی گردن گھما کر ادھر ادھر دیکھنے لگتا ہے۔ دراصل اُس نے کرنل سائمن کے بازوؤں، ٹخنوں اور کھوپڑی کے سوا سارا جسم ہڑپ کر لیا تھا اور کئی گھنٹے سو کر یہ کھانا ہضم کرنا چاہتا تھا، لیکن لگڑبگڑوں کی شرارت کے باعث اس کی نیند حرام ہو گئی اور پھر اس نے مجھے دیکھ لیا۔
اس کا اٹھا ہوا سر ساکت ہو گیا اور چہرے پر ایسی بھیانک مسکراہٹ نمودار ہوئی کہ میرا خون خشک ہو گیا۔ رونگٹے کھڑے ہو گئے اور مجھے یوں محسوس ہوا کہ کوشش کے باوجود مَیں اپنے ہاتھوں کو حرکت نہیں دے سکتا۔ شاید وہ مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا کہ آیا مَیں کوئی جانور ہوں یا انسان، اس لیے کہ میرا جسم بند کی وجہ سے اس نظروں سے غائب تھا اور وہ صرف میری کھوپڑی ہی دیکھ سکتا تھا۔ میں اپنے عقب میں ابراہیم اور ڈونلڈ کے چپکے چپکے آگے بڑھنے کی مدھم آوازیں بھی سن رہا تھا۔ لیکن گردن ترچھی کر کے انہیں دیکھنے یا کچھ اشارہ کرنے کی ہمّت نہ تھی، پلک جھپکائے بغیر شیر مجھے مسلسل دیکھ رہا تھا۔ پھر اُس کی دُم میں آہستہ آہستہ گردش کرنے لگی، وہ اُٹھ کر کھڑا ہو گیا اور اب زیادہ غور سے میری جانب دیکھنے لگا۔ غالباً ڈونلڈ اور ابراہیم کی جانب سے ہونے والی آہٹ اس کے حساس کانوں تک پہنچ گئی تھی۔ چند لمحے تک وہ اسی طرح ساکت کھڑا رہا۔ موقع ایسا تھا کہ اسے فرار ہو جانا چاہیے تھا۔ مگر پیٹ بھرا ہوا تھا، اس لیے چلنے پھرنے کی ہمّت باقی نہ رہی تھی۔ اس نے جھاڑیوں کا ایک چکّر کاٹا اور دوبارہ وہیں آن کر بیٹھ گیا جہاں پہلے بیٹھا تھا۔
میرا بایاں ہاتھ فوراً حرکت میں آ گیا اور مَیں نے اپنے بدن کا پورا بوجھ دوسرے بازو پر ڈال دیا۔ ایک ہاتھ سے رائفل گھما کر جنبش میں لانے کا تکلیف دہ کام چیونٹی کی رفتار سے شروع ہوا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اگر زور سے حرکت کرتا، تو توازن برقرار نہ رہتا اور عین دھڑام سے نیچے گر جاتا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اس آواز سے آدم خور چوکنا ہو کر اپنی جگہ سے ٹل جاتا اور ہماری سب کوششوں پر آنِ واحد میں پانی پھر جاتا، اس لیے میں اپنی پوری قوتِ ارادی کام میں لا کر رائفل کو چپکے سے اپنے دائیں ہاتھ پر لانا چاہتا تھا۔ ابراہیم اور ڈونلڈ کو آنکھوں کے اشارے سے سمجھایا کہ جہاں کھڑے ہو، وہیں جمے رہنا، ذرا حرکت کی اور کام بگڑا۔
دو منٹ بعد رائفل میرے دائیں ہاتھ میں تھی اور اَب میں نے دونوں پَیر چوڑے کر کے ریت میں اچھی طرح جما دیے اور تن کر کھڑا ہو گیا۔ آدم خور اب جھاڑیوں میں گُھسنے کا ارادہ کر رہا تھا، کیونکہ میں نے دیکھا کہ بے شمار سیاہ مکھیاں اس کے سر اور گردن پر منڈلا رہی ہیں اور وہ انہیں اڑانے کے لیے بار بار گردن کو جھٹکے دے رہا ہے۔ مَیں نے احتیاط سے اس کی کھوپڑی کا نشانہ لیا اور فائر کرنے ہی والا تھا کہ میرے پیروں تلے سے ریت کِھسک گئی، مَیں ڈگمگایا اور توازن برقرار نہ رکھ سکا۔ اسی لمحے لبلبی غیر ارادی طور پر دَب گئی۔ جنگل کی فضا اور گردونواح کی سنگلاخ چٹانیں فائر کے دھماکے اور شیر کی ہولناک گرج سے کانپ اُٹھیں۔۔۔ مَیں لُڑھکنیاں اور قلابازیاں کھاتا ہُوا ابراہیم اور ڈونلڈ کے قدموں میں جا گرا۔ اس کے بعد یوں محسوس ہوا جیسے نظروں کے آگے چمک دار سفید سفید پتنگے یا شرارے سے اڑ رہے ہیں۔ پسلیوں میں ایک ناقابل برداشت ٹیس اُٹھی اور پھر کچھ یاد نہ رہا کہ مجھ پر کیا بیتی۔
ہوش آیا، تو مَیں نے اپنے کو کرنل سائمن کے بنگلے کے ایک کمرے میں بستر پر پڑے پایا۔ ڈونلڈ میرے قریب ایک کرسی پر بیٹھا تھا۔ اس نے بتایا کہ میرے بائیں بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ ابراہیم بیرُور گیا ہے تاکہ وہاں سے کسی ڈاکٹر کو لے آئے۔ اَب میں نے دیکھا کہ میرے بازو پر پٹّی بندھی ہے، گردن، گھٹنے اور انگلیوں پر بھی گہری خراشیں آئی ہیں۔ آدم خور کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ بچ کر بھاگ نِکلا۔
ایک ہفتہ گزر گیا۔ اس دوران میں بیرُور سے دو مرتبہ ایک نوجوان ناتجربہ کار ڈاکٹر آیا اور میرے بازو اور زخموں کی دیکھ بھال کرتا رہا، مگر تکلیف روز بروز بڑھتی جاتی تھی۔ آخر اس نے مجھے بنگلور کے بڑے ہسپتال میں جانے کا مشورہ دیا۔
اتفاق دیکھیے کہ جس روز میں بنگلور جانے کی تیّاری کر رہا تھا، اُسی روز ضلع کھادر کے ڈپٹی کمشنر اپنے لاؤ لشکر لے کر مجھے دیکھنے آ گئے۔ ولیم سائمن اور اُس کے باپ کے مارے جانے کی خبریں ان تک پہنچ چکی تھیں اور یہ مجھے بعد میں پتا چلا کہ ڈپٹی کمشنر کی اِن مرنے والوں سے سے قرابت داری بھی تھی۔ ڈپٹی کمشنر مسٹر نکولس کے ساتھ ایک ہندو ریاست کے دو اعلیٰ عہدے بھی آئے تھے۔ ان کے بارے میں مجھے بتایا گیا کہ دونوں تجربے کار شکاری ہیں۔ اور بہت سے آدم خوروں کو کیفرِ کردار تک پہنچا چکے ہیں ایک کا نام درباری لال اور دوسرے کا سادھو سنگھ تھا۔۔۔۔ ان کے ساتھ چار پانچ پیشہ شکاری بھی تھے۔
میں چونکہ ہندوستان میں عرصے تک رہا ہوں اور کئی والیانِ ریاست اور امرا کے ساتھ شکار پر جانے کا اتفاق ہوا ہے، اس لیے ان لوگوں کی خوبیوں اور کمزوریوں سے بخوبی واقف ہوں۔ یہ لوگ شکار کی ابجد سے بھی واقف نہیں۔۔۔ مگر ڈینگیں اتنی مارتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔۔۔۔ معمولی گیڈر پر فائر کر کے خوش ہوتے ہیں کہ شیر پر گولی چلائی اور مصاحب اور درباری قسم کے لوگ انہیں باور کروا دیتے ہیں کہ سرکار کے نشانے کا جواب نہیں۔ شیر کی بھلا کیا مجال جو آپ کے ہاتھوں بچ کر نکل جائے۔ غرض اسی طرح کی باتیں کر کے اپنے آقاؤں کو اُلّو بناتے اور مال اینٹھتے ہیں۔ چنانچہ درباری لال اور سادھو سنگھ کی ایک جھلک دیکھنے کے بعد ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ حضرات کتنے پانی میں ہیں، بلکہ میرے ذہن میں یہ خدشہ سر اٹھانے لگا کہ آدم خور کہیں ان دونوں کو بھی ہڑپ نہ کر جائے۔
درباری لال کہنے لگا: "صاحب، آپ کو چوٹ لگ گئی ہے، ہسپتال چلے جائیے۔ آدم خور سے ہمارے مہاراجہ صاحب نِمٹ لیں گے۔’
"مہاراجہ صاحب بھی آ رہے ہیں؟’ میں نے حیرت سے پوچھا۔
"جی ہاں، وہ ہمارے ساتھ ہی چلے تھے، مگر راستے میں زکام ہو گیا، اس لیے واپس چلے گئے ایک دو روز بعد طبیعت ٹھیک ہو جائے گی، تب آئیں گے۔’ سادھو سنگھ نے تشریح کی۔
میں مُسکرا کر چُپ ہو رہا۔ ان مہاراجہ صاحب کا مَیں بعض مصلحتوں کی بنا پر نام نہ لوں گا۔ مَیں ان سے اچھی طرح واقف تھا اور ایک مرتبہ ان کی حماقت کے باعث موت کے منہ میں جاتے جاتے بچا بھی تھا۔ واقعہ اگرچہ بہت دلچسپ اور طویل ہے، اس لیے بیان کیے بغیر چارہ نہیں! تاہم مختصر الفاظ میں لکھوں گا۔ اس کی مدد سے آپ ان والیان ریاست کے شکار کھیلنے کے قاعدوں اور اُصولوں سے آگاہ ہو سکیں گے اور معلوم ہوگا کہ یہ لوگ کیسی کیسی مضحکہ خیز حرکتیں کرتے تھے۔
ان دنوں مَیں نے اس ریاست میں جنگل کٹوانے کا ٹھیکہ لے رکّھا تھا۔ نہ جانے مہاراجہ کو میرے شکاری ہونے کا پتا کیسے چلا۔ کاروبار وغیرہ کے سلسلے میں مَیں حتّی الامکان کوشش کرتا ہوں کہ رائفل کا استِعمال کم سے کم کروں اور شکار سے توجّہ ہٹا کر اپنے کام کی طرف دھیان دوں۔ ویسے بھی اس ریاست میں میرے جاننے والے اِکّا دُکّا آدمی تھے جنہیں مَیں نے سمجھا دیا تھا کہ وہ میرے شکاری ہونے کا انکشاف نہ کریں ورنہ مہاراجہ اور ان کے درباریوں سے پیچھا چھڑانا اور مشکل ہو جائے گا۔ ایک ہفتہ بخیر و عافیت گزر گیا۔۔۔۔ جس جنگل میں کٹائی کام ہو رہا تھا، وہاں شیر، تیندوے، چیتے، سانبھر، چیتل اور ریچھ سبھی جانور ملتے ہیں۔ لیکن انہوں نے مزدوروں کے کام میں کبھی مداخلت نہ کی، بلکہ انہیں دیکھ کر گزرگاہ بدل لیا کرتے تھے۔
ایک روز دوپہر کے وقت جب کہ میں گھوڑے پر سوار جنگل میں نگرانی کے لیے جا رہا تھا، ریاست کے دو سپاہی میرے پاس آئے اور انہوں نے بتایا کہ مہاراجہ نے یاد فرمایا ہے اسی وقت اور اسی وقت چلنا ہوگا۔ میں سمجھا کہ شاید ٹھیکے وغیرہ کے معاملے پر پوچھ گچھ کرنا چاہتے ہوں گے، اس لیے چلا گیا۔ مہاراجہ اپنے محل میں آرام فرما رہے تھے، وہیں طلب فرما لیا اور مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے: "مسٹر اینڈرسن، ہم نے سنا ہے آپ بہت اچھے شکاری ہیں۔’ یہ سُن کر میرے پَیروں تلے کی زمین نکل گئی۔ قضا سر پر کھیلنے لگی۔ میں نے دبی زبان سے شکاری ہونے کا اعتراف کیا، لیکن یہ بھی کہہ دیا کہ اب اس مشغلے سے طبیعت اُکتا چکی ہے، قویٰ مضمحل ہو گئے ہیں۔ نشانہ صحیح نہیں رہا۔ ہاتھ کانپ جاتا ہے۔ نگاہ کمزور ہو گئی ہے، اِس لیے میدان چھوڑ چکا ہوں اور صرف کاروبار کی طرف دھیان دیتا ہوں۔ مہاراجہ یہ باتیں سن کر ہنس پڑے اور بیٹھنے کے لیے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔
"مَیں آپ کو تکلیف نہ دیتا مسٹر اینڈرسن، مگر معاملہ نازک ہے، برطانوی افواج کے انگریز کمانڈر انچیف صاحب آ رہے ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ وہ میری ریاست سے شیر کا شکار کیے بغیر واپس جائیں۔ مَیں نے اسی لیے آپ کو بلایا ہے کہ ایک تو آپ اُن کے ہم قوم ہیں اور دوسرے یہ کہ شیر کے شکار کا نہایت وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ آپ کو ان کے ساتھ جانا ہوگا۔ مَیں آپ کو اس خدمت کے لیے معقول معاوضہ ادا کروں گا۔’
"مہاراج، آپ کی خدمت بجا لا کر مجھے خوشی ہو گی، لیکن مَیں پیشہ وَر شکاری نہیں ہوں۔ اس لیے معاوضے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ صرف اتنا کہوں گا کہ آپ کے ہاں شیر کا شکار جس انداز میں کیا جاتا ہے، اُسے میں شکار نہیں سمجھتا، بلکہ میرے نزدیک بے چارے جانور پر ظلم ہے۔’
"وہ کیسے؟’ مہاراجہ مسہری سے اُٹھ کر بیٹھ گئے اور حیرت سے میری طرف دیکھنے لگے۔
"وہ یُوں کہ شیر اکیلا ہوتا ہے اس کے مقابلے میں آپ پُورا لشکر لے جاتے ہیں، سینکڑوں لوگ ہانکا کرنے والے، بہت سے پیشہ ور شکاری اور مسلح فوجی سپاہی چاروں طرف سے ناکہ بندی کر کے اسے گھیر لیتے ہیں اور جب وہ بے بس ہو جاتا ہے، تو مچان پر بیٹھا ہوا کوئی ایک شخص فائر کر کے شیر کو ہلاک کر ڈالتا ہے اور شکاریوں میں اپنا نام لِکھا لیتا ہے۔ بھلا بتائیے، کیا یہی شکار ہے؟’
مہاراج نے قہقہہ لگایا:
"آپ بڑے دلچسپ آدمی ہیں۔۔۔۔ ہم اور ہمارے آباؤ اجداد ہمیشہ اسی طرح شکار کھلیتے ہیں اور مجھے تو اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی، بلکہ شکار کا لطف دوچند ہو جاتا ہے۔ بھلا آپ کس طرح شکار کھیلتے ہیں؟
"مَیں اپنے حریف کو پورا پُورا موقع دیتا ہوں کہ وہ بھی حملہ کرنے کا ارمان نکال لے۔ اُسے بے بس نہیں کرتا اور یہ مچان وغیرہ میرے نزدیک بزدلوں کی ایجاد ہے۔ سچ تو یہ ہے مہاراج کہ حریف کے سامنے ڈٹ کر دو دو ہاتھ کرنے میں مزہ آتا ہے۔’
"خوب، بہت خوب۔’ مہاراج نے میری جانب غور سے دیکھا۔ اُن کی آنکھوں میں اب حیرت کی جگہ تمسخر جھلک رہا تھا جیسے وہ میری باتوں کو مجذُوب کی بڑ سمجھ رہے ہوں۔ ’آپ نے اب تک کتنے شیر مارے ہیں مسٹر اینڈرسن؟’
"صحیح تعداد تو یاد نہیں۔’ مَیں نے بے پروائی سے کہا۔ "کوئی سَو سوا سَو مارے ہوں گے اور یہ سبھی آدم خور تھے۔ مَیں انہی شیروں کا دشمن ہوں جو آدمیوں کے دشمن ہیں۔ بے گناہ شیروں پر میرا ہاتھ دانستہ کبھی نہیں اٹھا۔’
"کمال ہے، کمال ہے۔’ مہاراجہ کے منہ سے دوبارہ یہ جملہ نِکلا۔ پھر چند لمحے سوچنے کے بعد وہ بولے:
"آپ کا کہنا ٹھیک ہے مسٹر اینڈرسن، ہم لوگ واقعی شکار نہیں کھیلتے، شکار کے فن کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ مجھے آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے آپ مستقل طور پر میری ریاست میں قیام کریں؟ بہرحال مَیں چاہتا ہوں کہ آپ اس مہم میں ہمارے ساتھ ضرور شریک ہوں، لیکن شیر پر گولی چلانا یا نہ چلانا آپ کی مرضی پر منحصر ہوگا۔ میں آپ کا اُصول توڑنا نہیں چاہتا۔’
"میں حاضر ہو جاؤں گا۔’ میں نے کہا اور مہاراجہ سے رخصت ہو کر اپنے کیمپ کو چلا آیا۔ ایک ہفتے بعد کمانڈر انچیف صاحب تشریف لائے۔ مہاراجہ نے میرا تعارف کرایا۔ موصوف میرے نام اور کام سے پہلے ہی آگاہ تھے، گرم جوشی سے ملے۔ مَیں نے اُن سے بھی وہی باتیں کیں جو مہاراجہ سے کر چکا تھا۔ کمانڈر انچیف نے بھی انہیں تسلیم کیا، لیکن اپنے اناڑی پن کا بہانہ کر کے بات ختم کر دی۔ پہلے روز خبر ملی کہ شیروں کا ایک جوڑا دریا کے پرلے کنارے پر واقع غاروں میں رہتا ہے اور جنگل میں گھومتا دکھائی دیکھا گیا ہے۔ مہاراجہ فوراً اپنے آدمیوں کے ہمراہ دریا پار جا اترے، خیمے وغیرہ لگ گئے اور خاصی چہل پہل ہونے لگی۔ مَیں یہ انتظام دیکھ کر ہنستا تھا اور لوگ میرے ہنسنے پر ہنستے تھے۔ مَیں ان کو پاگل سمجھتا تھا وہ مجھے دیوانہ کہتے تھے۔
ہانکا شروع ہوا۔ مزدور، سپاہی اور دیہاتی ڈھول بجانے اور گلا پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگانے لگے۔ دریا اُن دنوں تقریباً خشک پڑا تھا۔ اکثر لوگ دریا میں اتر کر کھڑے ہو گئے تاکہ شیر اُدھر سے نکل کر بھاگنے نہ پائے۔ اکثر منچلے سپاہی انعام پانے کے لالچ میں غاروں کے نزدیک چلے گئے اور ان کے اندر پتھر برسانے لگے۔ مہاراجہ اور کمانڈر انچیف صاحب علیحدہ علیحدہ درختوں پر بندھے ہوئے مچانوں پر بیٹھے تھے اور میں دریا کے کنارے ایک درخت کے تنے کے ساتھ لگا کھڑا تھا۔ دفعتہً ایک ہولناک گرج کے ساتھ شیر اور شیرنی غار سے برآمد ہوئے اور ہانکا کرنے والوں میں بھگدڑ مچ گئی میں نے دیکھا کہ ایک دیہاتی کو خون میں نہلا کر زمین پر لٹا دیا اور آدمیوں کا حلقہ چیر کر شیر اور شیرنی آناً فاناً نظروں سے غائب ہو گئے۔ البتہ ان کے دہاڑنے کی آوازیں دیر تک جنگل میں گونجتی رہیں۔
جس شخص کو شیر نے زخمی کیا تھا، چند منٹ بعد طبّی امداد بہم پہنچے بغیر اُس نے دم توڑ دیا۔ کمانڈر انچیف اس حادثے سے سخت بے مزہ ہوئے، لیکن مہاراجہ کی نظروں میں اُن کی رعایا کے ایک معمولی دیہاتی کی جان کوئی قیمت نہ رہی تھی۔ انہوں نے دوبارہ ہانکا کرنے کا حکم دیا۔ معلوم ہوا کہ شیر اور شیرنی کئی فرلانگ دور لمبی لمبی گھاس کے ایک قطے میں چُھپے ہوئے ہیں اور پتھروں کی بارش کے باوجود باہر نہیں نکلتے۔ مہاراجہ نے مجھے کمانڈر انچیف کے ساتھ جیپ میں روانہ کیا اور خود دُوسری جیپ میں بیٹھے۔
گھاس کے وسیع و عریض قطعے کی ایک جانب چند درخت تھے۔ جلدی سے ایک پر کمانڈر انچیف کو چڑھایا گیا اور دوسرے پر مہاراجہ کو، یہ دونوں درخت آمنے سامنے تھے۔ میں مہاراجہ کی ہدایت کے مطابق کمانڈر انچیف کی حفاظت کے لیے درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا۔ ہانکا شروع ہوا۔ شیرنی تو چھلانگ لگا کر ایک طرف گرجتی غرّاتی ہوئی نکل گئی، لیکن شیر بدحواس ہو چکا تھا، وہ سیدھا اس درخت کی طرف بڑھا جس پر کمانڈر انچیف صاحب بیٹھے ہوئے تھے اور تنے کے ساتھ میں لگا کھڑا تھا۔ اصولاً کمانڈر انچیف کو شیر پر گولی چلانی چاہیے تھی، لیکن مہاراجہ نے معزّز مہمان کو موقع دیے بغیر اندھا دُھند فائرنگ شروع کر دی۔ وہ شوق سے ایسا کرتے، لیکن انہیں یہ بھی یاد نہ رہا کہ میں اس درخت کے نیچے موجود ہوں۔ دو گولیاں سائیں سائیں کرتی میرے دائیں بائیں نکل گئیں، تب پتا چلا کہ مہاراجہ کا نشانہ شیر کے بجائے میں خود ہوں۔ موقع ایسا تھا کہ اگر شیر کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تو مہاراجہ کی گولیاں میرے جسم میں پیوست ہوتی ہیں اور اگر ان گولیوں سے بچنا چاہتا ہوں، تو شیر مجھے زخمی کر کے بھاگ جائے گا۔ خیر گزری کہ کمانڈر انچیف نے کوئی فائر نہیں کیا، ورنہ میرا قصّہ اس روز پاک ہو گیا تھا۔ مجبوراً مَیں تنے سے چمٹ گیا اور شیر پر گولی چلائی۔ گولی اس کی گردن میں لگی اور وہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد مہاراجہ صاحب اکڑتے ہوئے نمودار ہوئے اُن کے مصاحب مہاراجہ کے نشانے کی تعریف میں زمین آسمان کے قُلابے ملا رہے تھے۔ جب وہ چُپ ہوئے، تو مَیں نے کہا:
"ذرا شیر کو بھی دیکھ لیجیے کہ گولی کہاں لگی ہے۔’
فرمانے لگے: مَیں نے دو گولیاں اس کی کھوپڑی میں ماریں اور ایک دائیں شانے میں۔’
شیر کا معائنہ کیا گیا، تو اس کی گردن میں صرف ایک گولی پیوست تھی اور یہ وہی تھی جو میری رائفل سے نکلی تھی۔۔ مَیں نے کہا:
"جناب، آپ نے تو آج مجھے ختم ہی کر دیا تھا۔’
مہاراجہ کا چہرہ سُرخ ہو گیا۔ انہوں نے اپنے اے ڈی سی پر غصّہ اتارا اور خوب ڈانٹ ڈپٹ کی۔ اگلے روز میں بیماری کا بہانہ لے کر وہاں سے رفوچکّر ہو گیا اور جان بچ جانے پر خُدا کا شکر ادا کیا۔
بنگلور کے ہسپتال میں پڑے پڑے مجھے پُورا ایک مہینہ ہو گیا۔ اس دوران میں ابراہیم نے میری ایسی خدمت کی کہ بیان سے باہر۔ ڈونلڈ، ڈپٹی کمشنر اور اس کی پارٹی کے ساتھ آدم خور کے تعاقب میں لگا ہوا تھا۔ ہر ہفتے مجھے اُس کی سرگرمیوں کے بارے میں تفصیلی خبریں مل جاتی تھیں۔ معلوم ہوا کہ مہاراجہ صاحب آدم خور کی ہیبت سے اتنے لرزاں ہوئے کہ دو روز بعد ہی اپنی ریاست کو بھاگ لیے۔ البتّہ اُن کے دونوں مصاحب ڈٹے رہے۔ ان میں سے درباری لعل کو مہاراجہ کے رُخصت ہونے اگلے ہی روز آدم خور نے کئی لوگوں کے سامنے مُنہ میں دبایا اور لے گیا۔ سادھو سنگھ ایسے ڈرے کہ ان پر دل کا شدید دَورہ پڑا اور تین دن بیہوش رہنے کے بعد مُلکِ عدم کو سدھارے۔ ڈپٹی کمشنر عقلمند آدمی تھا، اس نے کہا لوگوں کو آدم خور کے رحم و کرم پر چھوڑا نہیں جا سکتا۔ شیر کی ہلاکت خیز سرگرمیوں سے نہ صرف اس علاقے کی زندگی معطل ہو چکی تھی، بلکہ گورنمنٹ کا سارا کاروبار بھی رکا پڑا تھا۔ کیونکہ کوئی شخص اِدھر آنے کی جُرأت نہ کرتا تھا۔
شیر اب اتنا نڈر ہو چکا تھا کہ لنگا دھالی، مدّک، سنتاویری، ہوگر خان، ہوگرالی اور بیرُور میں دن دہاڑے گھروں میں آن کودتا اور کسی نہ کسی عورت یا مرد کو پکڑ لے جاتا۔ ایک مرتبہ اُس نے بیرور کے سٹیشن پر نمودار ہو کر سنسنی پھیلا دی۔ اس وقت گاڑی سٹیشن پر کھڑی تھی۔ شیر کو دیکھ کر مسافروں نے جلدی جلدی دروازے بند کر لیے اور بعض لوگوں نے اسے ڈرانے کے لیے برتن بھانڈے کھڑکائے اور پتھر بھی مارے، مگر شیر نے پرواہ نہ کی۔ بھاگتے ہوئے قلیوں میں سے چند کو زخمی کیا اور پھر ایک کو چوہے کی طرح منہ میں دبا کر جنگل کی طرف نکل گیا۔ اس زمانے کے اخباروں میں اس کے بارے میں ایک آدھ خبر ضرور چھپی تھی۔ اخبار ہی کے ذریعے ایک روز پتہ چلا کہ انگریزی فوج کا ایک دستہ آدم خور کا صفایا کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔
اس کے بعد متضاد خبریں آنی شروع ہوئیں۔ کبھی معلوم ہوتا کہ آدم خور مارا گیا اور کبھی پتا چلتا نہیں مرا۔ میرا خیال تھا کہ اُسے مارنا فوجیوں کے بس کی بات نہیں، یہ لوگ تو میدانِ جنگ میں مورچوں کے اندر بیٹھ کر لڑ سکتے ہیں۔ ایک گھنے جنگل میں پچاس ساٹھ مربع میل کے اندر آدم خور کو تلاش کرکے ٹھکانے لگانا آسان نہیں۔ ابراہیم کے خیالات بھی اسی قسم کے تھے۔ وہ بار بار نہایت بے قراری سے میرے تندرست ہونے کی دُعائیں مانگتا تھا اور خود میری طبیعت بھی ہسپتال میں پڑے پڑے بیزار ہو چکی تھی۔ مَیں چاہتا تھا کہ جتنی جلد ہو سکے، اس قید خانے سے نکلوں اور آدم خور کو جہنّم رسید کروں، مگر ڈاکٹروں کے سامنے کوئی پیش نہ جاتی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہڈی ابھی نہیں جڑی ہے اور اگر احتیاط نہ کی گئی، تو یہ ساری عُمر تکلیف دے گی۔
ایک مہینہ سات دن بعد مجھے ہسپتال سے رخصت ہونے کی اجازت ملی۔ اب میرا بازو ٹھیک ٹھاک تھا اور اچھی طرح حرکت کر سکتا تھا۔ چنانچہ مَیں نے ہوگرالی جانے کی تیّاریاں شروع کر دیں، مگر اسی شام ڈونلڈ اپنی ماں کو لے کر ہسپتال میں آ گیا۔ میری بیوی اس زمانے میں بمبئی میں تھی اور اُسے اس حادثے کا علم نہیں ہوا تھا، میں سمجھ گیا کہ ڈونلڈ نے اسے خبر پہنچا دی ہے اور اب وہ مجھے ہوگرالی کبھی نہ جانے دے گی۔ مَیں نے ابراہیم کو اسی ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کے پاس عارضی طور پر ملازم رکھوا دیا اور بیوی اور ڈونلڈ کے ساتھ بمبئی روانہ ہو گیا۔ میرا خیال تھا کہ پانچ سات دن وہاں رہ کر کسی بہانے چلا آؤں گا۔ لیکن بمبئی جاتے ہی بعض نجی کاموں میں ایسا الجھا کہ تین مہینے گزر گئے۔ اس دوران میں آدم خور کے بارے میں خبر پڑھی کہ وہ مارا گیا ہے۔ یہ سن کر میں نے اطمینان کا سانس لیا اور ہوگرالی جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ انہی دنوں کے سلسلے میں پونا اور حیدرآباد جانا پڑا اور آہستہ آہستہ آدم خور میرے ذہن سے محو ہو گیا۔ دو ماہ بعد جب مَیں بمبئی واپس آیا، تو ایک روز اچانک شام کی ڈاک میں ابراہیم کا خط ملا، اسے دیکھتے ہی تمام پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ اس نے لکّھا تھا کہ آدم خور ابھی تک مارا نہیں گیا، وہ کوئی اور شیر تھا جو اس کے دھوکے میں مارا گیا ہے اس نے بڑی تباہی پھیلا رکھی ہے۔ بستیوں کی بستیاں اور گاؤں اُجاڑ دیے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا انتظام نہ کیا گیا تو ضلع کھادر میں ایک آدمی بھی زندہ نہ بچے گا۔
مَیں نے اس خط کا ذکر اپنی بیوی سے کیا نہ ڈونلڈ سے، چپکے سے اپنا ضروری سامان باندھا اور رات کی گاڑی سے بنگلور روانہ ہو گیا۔ وہاں ہسپتال میں ابراہیم سے ملاقات ہوئی اور اس نے آدم خور کے بارے میں تمام تفصیلات سے آگاہ کیا۔ ہوگرالی جانے سے پہلے میں ڈپٹی کمشنر سے مِلا، جنگل میں جانے اور آدم خور سے مقابلہ کرنے کا خصوصی اجازت نامہ حاصل کیا اور ابراہیم کو لے کر ہوگرالی پہنچا۔ وہاں آدمی نہ تھا نہ آدم زاد، کھیتیاں ویران، چائے کے باغ سوکھے اور اجڑے ہوئے، جھونپڑیاں خالی، ہر طرف ایک مہیب سناٹا اور دہشت کی فضا چھائی ہوئی محسوس ہوئی۔ بیرُور پہنچا۔ سٹیشن کے باہر سرکاری کارندوں نے اونچی اونچی بلّیاں باندھ کر لوہے کے خاردار تار لگا رکھے تھے تاکہ آدم خور اِدھر گھسنے نہ پائے۔ اردگرد کی آبادیوں اور بستیوں کے بے شمار افراد وہاں کیمپ لگائے پڑے تھے اور حکومت انہیں رسید مہیا کر رہی تھی۔
ان لوگوں کے ذہن میں یہ بات جم چکی تھی کہ آدم خور کے بھیس میں کوئی بلا ہے جسے ہلاک کرنا انسان کے بس میں نہیں۔ البتّہ اسے جادو ٹونے کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ یہ لوگ طرح طرح کی حرکتیں کرتے رہتے تھے۔ ایک شخص نے جو کسی زمانے میں ہوگرالی کے مندر کا پجاری تھا اور اپنے مذموم اور شرمناک افعال کی وجہ سے مندر سے نکالا جا چکا تھا، یہ موقع غنیمت جان کر اپنی پارسائی کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا اور کہا کہ وہ مندر میں جا کر کالی دیوی کی پُوجا کرے گا اور کالی کے ذریعے اس بلا کو مروا دے گا۔ بے چارے سادہ لوح دیہاتی اس کے جھانسے میں آ گئے اور اسے سونے اور چاندی کی مطلوبہ مقدار مہیا کر دی۔ یہ شخص چُپکے سے میرے پاس آیا اور کہا کہ اگر مَیں اس آدم خور کو ہلاک کر دوں تو نصف سونا وہ مجھے دے دے گا۔ لیکن لوگوں کو پتا نہیں چلنا چاہیے کہ آدم خور کو مَیں نے مارا ہے۔ اس قِسم کے بے ہُودہ باتیں اس نے کیں اور مَیں سُنتا رہا۔ آخر ضبط نہ ہو سکا۔ مَیں نے اُسے بُری طرح مارا، اس پر جُوتے برساتا ہوا لوگوں کے سامنے لے گیا اور سارا قِصّہ کہہ سنایا۔ پھر لوگوں نے اُس کی خوب مرمّت کی اور جوش انتقام میں بعض نوجوان تو اس قدر اندھے ہوئے کہ پجاری کو رسّیوں سے باندھ کر جنگل میں پھینک آئے اور اگلے روز میں نے اس کی ادھ کھائی لاش نہر کے کنارے کھلے عام پڑی ہوئی پائی۔
آدم خور کا تعاقب کرنے میں میرا دن کا چین اور راتوں کی نیند حرام ہو گئی۔ کھانے کا ہوش رہا نہ پینے کا۔ ہر وقت یہی دُھن تھی کہ کسی نہ کسی طرح اسے ختم کروں تاکہ لوگ سُکھ کا سانس لے سکیں، مگر وہ واقعی چَھلاوہ بن چکا تھا۔ بارہا میرا اس کا آمنا سامنا ہُوا، لیکن ہر بار وہ طرح دے کر نکل جاتا۔ اِتنا مَیں جانتا تھا کہ وہ میری تاک میں ہے اور جب بھی اس کا بس چلا وہ میری ہڈّیاں چبا جائے گا۔ مَیں نے اپنا تجربہ اور سارا فن اس کو جھانسا دینے اور پھانسنے میں صرف کر دیا، حتّیٰ کہ کئی مرتبہ اس کی گزرگاہ میں آنکھیں بند کرکے لیٹ بھی گیا جیسے سو گیا ہوں، مگر وہ سب کچھ سمجھتا تھا، دُور ہی سے دیکھ دیکھ کر غراتا، نزدیک نہ آتا اور جونہی مَیں رائفل سیدھی کرتا وہ جھاڑیوں میں غائب ہو جاتا۔ اگرچہ میں اس کے راستے کا پتھر بن چکا تھا۔ تاہم آدمیوں کو ہڑپ کرنے کا سَواد اس میں اس قدر سما چکا تھا کہ وہ روز حیلے فریب سے کسی نہ کسی آدمی کو ضرور پکڑ لیتا۔ ایک مرتبہ تو وہ بیرُور سٹیشن کے باہر لگے ہوئے تاروں میں سے گھس کر کیمپ میں بھی جا نکلا اور مسلح سپاہیوں کے سامنے فائرنگ کے باوجود ایک عورت کو اٹھا کر بھاگ گیا۔
مَیں کہہ نہیں سکتا کہ اس مُوذی کے انتظار میں کتنی راتیں درختوں پر جاگ کر کاٹیں، کتنے دن پہاڑی ٹیلوں، غاروں اور گھاٹیوں میں ٹھوکریں کھاتا پھرا۔ ابراہیم سائے کی طرح میرے ساتھ تھا، حالانکہ کئی مرتبہ وہ آدم خور کے ہتھے چڑھتے بچا۔ مَیں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی، مگر اس نے ایک نہ سنی۔ حقیقت میں وہ نہایت نڈر اور بہادر آدمی تھا، مجھے اس شخص کی دوستی پر ہمیشہ فخر رہے گا اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اگر وہ میرا ساتھ نہ دیتا، تو شاید مَیں اس آدم خور کو ہلاک کرنے میں کبھی کامیاب نہ ہوتا۔
بعض اوقات وہ کئی کئی ہفتے نظر نہ آتا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی سلطنت کے سرحدی علاقوں میں دورے پر نکل جاتا۔ مثلاً بھدرا ڈیم پر پہنچ گیا اور وہاں موقع پا کر چار پانچ آدمی ہڑپ کر لیے۔ بابا بَدان کے دشوار گذار پہاڑیوں میں نمودار ہوا اور جھونپڑیوں میں سوئے ہوئے مَردوں یا عورتوں کو زخمی کیا اور ایک آدھ کو اٹھا کے لے کر بھاگا۔ اسی طرح لکّھا والی، لال باغ، لنگا دھالی اور سنتاویری کے علاقوں میں گھومتا پھرتا، چونکہ ان علاقوں کے لوگ ابھی تک آزادانہ آمدورفت رکھتے تھے، اس لیے آدم خور کو اپنا شکار حاصل کرنے کا موقع آسانی سے مل جاتا تھا۔ میری جمع کردہ معلومات کے مطابق آدم خور سال کے دس مہینوں میں کم از کم ایک سو بانوے افراد کو ہڑپ کر چکا تھا اور اس کی ہلاکت خیز اور خون ریز سرگرمیوں کا دائرہ وسیع ہورہا تھا۔ وہ جس انداز سے لوگوں کو اپنے پیٹ کا ایندھن بنا رہا تھا، اس سے ظاہر ہوتا تھا، اگر یہی رفتار رہی، تو ایک دن ایسا آئے گا کہ ان تمام علاقوں اور بستیوں میں نسلِ انسانی کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے گا۔
ہمارا قیام کرنل سائمن کے بنگلے میں تھا۔ اگرچہ یہاں رہتے ہوئے دہشت ہوتی تھی، کیونکہ بار بار بُڈھے کی شکل نظروں سے سامنے گھومنے لگتی تھی، لیکن محض اس لیے نارنگیوں کا باغ آدم خور کی عارضی پناہ گاہ بن چکا تھا، میں وہاں ٹھہرا ہوا تھا، لیکن جب میں اس کی تلاش میں نکلتا، تو آوازیں تھم جاتیں۔ نہ معلوم موذی کو کیسے پتا چل جاتا تھا کہ مَیں اس کی تاک میں ہوں۔ کئی مرتبہ دن کی روشنی میں وہ بنگلے کے قریب سے بھی گزرا، لیکن اس سے پہلے کہ مَیں اس کا تعاقب کروں یا رائفل سنبھالوں، وہ رفو چکّر ہو جاتا تھا۔ بارہا اس نے جنگل میں میرا پیچھا کیا، مگر وَار کرنے میں کامیاب نہ ہوا۔
ایک روز مَیں کیمپ کا دَورہ کر کے شام کو واپس آیا، تو ابراہیم کے چہرے پر خوف کی ہلکی ہلکی پرچھائیاں ابھر آئیں۔ معلوم ہوا کہ آدم خور دن بھر بنگلے کے گرد چکر کاٹتا رہا اور ایک دو دفعہ اس نے دروازہ توڑ کر اندر گھسنے کی کوشش بھی کی ہے۔
"صاحب، مَیں نے اس پر دو تین فائر کیے، مگر کوئی گولی اسے نہیں لگی، پھر وہ گرجتا اور غراتا ہُوا بھاگ گیا۔ مَیں ڈر رہا تھا کہ کہیں وہ قریب ہی چُھپا نہ ہو اور آپ پر اچانک حملہ کر دے۔’
"وہ کیسے؟’ ابراہیم نے پوچھا۔
"ذرا ہمّت کرنی پڑے گی۔ اس میں خطرہ ہے، مگر تمہیں مجھ پر اعتماد کرنا چاہیے۔’
"میں ہَر خدمت کے لیے حاضر ہوں۔ آدم خور کو ہلاک کرنے کے لیے آپ کو اگر میری جان کی بھی ضرورت پڑے، تو انکار نہ کروں گا۔ میری جان مخلوقِ خدا کی بھلائی اور بہتری کے لیے کام آئے، تو اس سے بڑھ کر خوش نصیبی اور کیا ہوگی۔ آپ اپنا منصوبہ بتائیے۔’
"منصوبہ صرف اتنا تھا کہ تم آج رات بنگلے کے باغ میں چارپائی بچھا کر لیٹ جاؤ۔ اپنے پاس بھری ہوئی رائفل ضرور رکھ لینا۔ مَیں قریبی درخت پر بیٹھوں گا۔ مجھے یقین ہے وہ ضرور آئے گا اور مَیں اس پر گولی چلا کر مار ڈالوں گا۔ شکاری لوگ شیر کو پھانسنے کے لیے چارے کے طور پر بکری یا گائے بَیل وغیرہ باندھتے ہیں، لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے۔ کیا تم اس قربانی کے لیے تیّار ہو؟’
"مَیں تیار ہوں۔’ ابراہیم نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
سُورج غروب ہونے کے فوراً بعد ہی مَیں رائفل لے کر درخت پر چڑھ گیا۔ ابراہیم کو ہدایت کر دی تھی کہ وہ اُونچی آواز میں گانا گاتا رہے تاکہ آدم خور اس کی آواز پر آئے۔ درخت کے نیچے کچھ فاصلے پر اس نے چارپائی بچھا لی اور اُونچی آواز میں گانے کے بجائے اپنی مقدس کتاب قرآن کی تلاوت شروع کر دی۔
رات آہستہ آہستہ بھیگنے لگی۔ جنگل کے سنّاٹے میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ آدم خور کی ہیبت سے چرند پرند خاموش تھے، حتّیٰ کہ مینڈکوں کا ٹرّانا اور گیدڑوں کی چیخیں بھی تھم چکی تھی۔ ابراہیم دیر تک قرآن کی تلاوت کرتا رہا۔ اس کی آواز میں بے پناہ سوز اور درد تھا اور میرے دل و دماغ پر اس کی آواز اور ان کلمات سے جو میری سمجھ سے بالاتر تھے،ایک عجیب طرح کا لرزہ طاری ہو رہا تھا۔
درخت پر بیٹھے بیٹھے میرے اعصاب سُن ہو گئے، لیکن حرکت کرتے ہوئے ڈرتا تھا کہ آدم خور خبردار ہو جائے گا۔ ڈیڑھ بجا تھا کہ مشرقی افق پر روشنی پھوٹنے لگی، پھر چاند نے اپنا چمکتا ہوا سنہری چہرہ اوپر اٹھایا اور رفتہ رفتہ آسمان پر سفر کرنے لگا۔ چاندنی میں حدِّ نظر تک پھیلا ہوا جنگل دلفریب اور مدہوش کن منظر پیش کر رہا تھا۔ مجھ پر غنودگی سی طاری ہونے لگی جو پائپ پیے بغیر کسی طرح دُور نہ ہو سکتی تھی، لیکن مَیں اپنی جانب سے کوئی معمولی حرکت بھی کرنا چاہتا تھا جس سے آدم خور کو میری موجودگی کا شبہہ ہو جائے۔ ممکن ہے جب میں دیا سلائی جلاؤں، تو وہ اس کا شعلہ دیکھ لے، یک لخت ٹھنڈی ہوا چلنے لگی اور اس نے غنودگی میں اضافہ کر دیا۔ آنکھیں بار بار بند ہوئی جاتی تھیں، لیکن مَیں قوّتِ ارادی سے کام لے کر بیدار اور ہوشیار رہنا چاہتا تھا، کیونکہ میرے سامنے ایک شخص کی زندگی اور موت کا مسئلہ تھا اور ذرا سی غفلت پر اگر آدم خور ابراہیم کو اٹھا کر لے جاتا، تو مَیں اپنے آپ کو کبھی معاف نہ کر سکتا تھا۔
دفعتہً ابراہیم چپ ہو گیا۔ اس کے خاموش ہونے سے مجھے جھٹکا سا لگا اور میں، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس طرف دیکھنے لگا۔ وہ اپنی چارپائی پر سادھوؤں کی طرح آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا۔ غالباً اس پر بھی نیند سوار ہو گئی تھی، لیکن چند لمحے بعد مَیں نے دیکھا کہ اس کی دونوں آنکھیں کھلی ہوئی ہیں اور وہ عین سامنے ٹکٹکی باندھے کچھ دیکھ رہا ہے۔ میں نے گردن گھمائی اور اس طرف نظریں دوڑائیں۔ درختوں اور گھاس کے سوا وہاں کچھ نہ تھا۔ اب مَیں نے چاہا کہ ابراہیم کو آواز دے کر خبردار کروں اور پوچھو کہ کیا معاملہ ہے میں آواز دینے ہی والا تھا کہ اگلے درخت پر بیٹھا ہوا ایک الّو بھیانک آواز میں "ہُو ہُو ہو’ کرتا ہوا اڑا اور میری چھٹی حِس کام کرنے لگی۔ بجلی کی سی تیزی سے رائفل سنبھالی اور اس سے پیشتر کہ گھاس میں دبکا ہوا آدم خور ابراہیم پر حملہ کرے، میں نے یکے بعد دیگرے دو فائر کیے۔ اس کے منہ سے ایک دل ہلا دینے والی گرج بلند ہوئی۔ تھوڑی دیر تک وہ گھاس میں بیٹھا تھا۔ غالباً آدم خور کی دہشت سے اس کا جسم سُن ہو گیا تھا۔
مَیں نے گلا پھاڑ پھاڑ کر اُسے آوازیں دیں، ٹارچ کی روشنی اس کے چہرے پر پھینکی، تب اُسے ہوش آیا۔ مَیں نے کہا کہ بھاگ کر بنگلے کے اندر چلا جائے اور صبح تک باہر نہ آئے۔ اس نے حکم کی تعمیل کی۔ مَیں پو پھٹنے تک درخت پر بیٹھا رہا، کیونکہ اس وقت تک آدم خور کی ہلاکت میں شبہہ تھا۔ سورج کی روشنی جب اچھی طرح پھیل گئی، تو مَیں درخت سے اترا، آدم خور گھاس میں مرا پڑا تھا۔ قریب جا کر معائنہ کیا۔ دونوں گولیاں اس کا بھیجا پھاڑتی ہوئی نکل گئی تھیں۔
دوپہر تک پچاس پچاس میل کے علاقے میں چاروں طرف آدم خور کے مرنے کی خبر آگ کی مانند پھیل چکی تھی۔ لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ ہر شخص اس درندے کو دیکھنے کے لیے بے چین اور مضطرب تھا جس نے دو سو آدمیوں کو اپنے پیٹ کا ایندھن بنا لیا تھا۔ ہر طرف خوشی اور مسرّت کا دَور دورہ تھا اور لوگ اپنے بال بچوں سمیت بستیوں اور گاؤں میں واپس آ رہے تھے۔